1,757

کسی صحابی سے نبی کریمﷺ کا خون پینا ثابت ہے؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

کسی صحابی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پینا باسند ِ صحیح ثابت نہیں ۔جو لوگ ایسا دعویٰ کرتے ہیں ، ان کے دلائل پر مختصر اور جامع تبصرہ پیشِ خدمت ہے :
دلیل نمبر 1 : سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ جنگ ِ احد کے دن نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر زخم آ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  کے والد مالک بن سنان  رضی اللہ عنہ  آئے ۔ انہوں نے نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرہئ مبارک سے خون صاف کیا اور پھر اس خون کو نگل لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من سرّہ أن ینظر إلی من خالط دمی دمہ فلینظر إلی مالک بن سنان ۔
” جو شخص پسند کرتا ہے کہ وہ اس شخص کو دیکھے جس کے خون کے ساتھ میرا خون مل چکا ہے تو وہ مالک بن سنان کو دیکھ لے ۔ ”(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٣/٥٦٣،٥٦٤، المعجم الکبیر للطبرانی : ٦/٣٤)
تبصرہ : یہ روایت ”ضعیف” ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إسنادہ مظلم ۔ ”اس کی سند سخت اندھیری ہے ۔ ”
(تلخیص المستدرک للذہبی : ٣/٥٦٤)
اس کی سند کا حال ملاحظہ فرمائیں :
1    اس کا راوی موسیٰ بن محمد بن علی الحجبی ”مجہول” ہے ۔
امام ابو حاتم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ شیخ مدینی ہے ، کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ۔
2    ام سعد بنت مسعود بن حمزہ بن ابی سعید کی توثیق مطلوب ہے ۔
3    ام عبد الرحمن بنت ابی سعید کی توثیق و حالات نہیں ملے ۔
دلیل نمبر 2 : سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ان کے والد مالک بن سنان  رضی اللہ عنہ  غزوہئ احد میں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زخم مبارک کو چاٹنے اور چوسنے لگے ، جس سے زخم کی جگہ چمکنے لگی ۔ ان سے کہا گیا کہ کیا تم خون پی رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا خون پی رہا ہوں ۔ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خالط دمی بدمہ ، لا تمسّہ النار ۔ ”اس کے خون کے ساتھ میرا خون مل گیا ہے ۔ اس کو آگ کبھی نہیں چھوئے گی ۔ ”
(المعجم الاوسط للطبرانی : ٩/٤٧، رقم الحدیث : ٩٠٩٨)
تبصرہ : اس روایت کی سند ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    امام طبرانی کے استاذ مسعدۃ بن سعد العطار ابو القاسم المکی کی کوئی توثیق نہیں مل سکی ۔
2    اس میں مصعب بن الاسقع راوی ”مجہول” ہے ۔
3    العباس بن ابی شملہ راوی کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ ، جو کہ متساہل ہیں ،نے اپنی کتاب ”الثقات” میں ذکر کیا ہے ۔ امام ابو حاتم الرازی  رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” کہا ہے ۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٧/٢٢٨)
لہٰذا یہ راوی ”ضعیف” ہے ۔
دلیل نمبر 3 : عامر بن عبد اللہ بن زبیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگی لگوائی ۔ مجھے حکم دیا کہ میں اس خون کو ایسی جگہ چھپا دوں جہاں سے درندے ، کتے (وغیرہ) یا کوئی انسان نہ پا سکے ۔ عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور چلا گیا اور دُور جا کر اس خون کو پی لیا ۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : آپ نے خون کا کیا کیا ؟ میں نے عرض کی : میں نے ویسے ہی کیا ہے جیسے آپ نے حکم دیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے خیال میں آپ نے اسے پی لیا ہے ۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب آپ سے میرا کوئی میرا امتی بغض و کینہ سے نہیں ملے گا ۔
(السنن الکبری للبیہقی : ٧/٦٧، وصححہ المقدسی : ٩/٣٠٨)
تبصرہ : اس روایت کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس کا راوی الھنید بن قاسم بن عبد الرحمن ”مجہول” ہے ۔ متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ۔ لہٰذا حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد : ٨/٧٢)کا اس کو ثقہ قرار دینا اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : ١/٣٠)کا ” ولا بأس بہ ” کہنا صحیح نہیں ۔
ایک روایت میں ہے : لعلک شربتہ ؟ قال : نعم ، قال : ولم شربت الدم ؟ ویل للناس منک ، وویل لک من الناس ۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید آپ نے پی لیا ہے ۔ صحابی نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ نے خون کیوں پیا ؟ نیز فرمایا : لوگ آپ سے محفوظ ہو گئے اور آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے ۔ ”
اس کی سند میں وہی الھنید بن قاسم راوی ”مجہول” ہے ۔
ایک روایت میں ہے :      لا تمسّک النار إلا قسم الیمین ۔
” آپ کو آگ صرف قسم پوری کرنے کے لیے چھوئے گی ۔ ”
(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ١/٣٣٠، جزء الغطریف : ٦٥، تاریخ دمشق لابن عساکر : ٢٠/٢٣٣، ٢٨/١٦٢، ١٦٣، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر : ٤/٩٣)
تبصرہ : اس کی سند سخت ترین ” ضعیف” ہے ۔ اس کے راوی سعد ابو عاصم مولیٰ سلیمان بن علی اور کیسان مولیٰ عبداللہ بن الزبیر کی توثیق نہیں مل سکی ، لہٰذا یہ سند مردود و باطل ہے ۔
اسماء بنت ابی بکر کی روایت میں ہے : لا تمسّک النار ، ومسح علی رأسہ ۔ ” نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ آپ کو آگ ہرگز نہ چھوئے گی ۔ (سنن الدارقطنی : ١/٢٢٨)
تبصرہ : اس کی سند سخت ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    اس کا راوی محمد بن حمید الرازی ”ضعیف” ہے ۔ (تقریب التہذیب : ٥٨٣٤)
2    اس کا راوی علی بن مجاہد بھی ”ضعیف” ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے ۔ (المغنی فی الضعفاء : ٢/٩٠٥)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : متروک ، ولیس فی شیوخ أحمد أضعف منہ ۔ ”یہ متروک راوی ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اساتذہ میں اس سے بڑھ کر ضعیف کوئی نہ تھا ۔ ” (تقریب التہذیب : ٤٧٩٠)
نیز حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” بھی کہا ہے ۔ (التلخیص الحبیر : ١/٣١)
علی بن مجاہد کے بارے میں امام یحییٰ بن ضُریس کہتے ہیں کہ یہ پرلے درجے کا جھوٹا راوی ہے ۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٢٠٥، وسندہ، حسنٌ)
ابو غسان محمد بن عمرو کہتے ہیں : ترکتہ ، ولم یرضہ ۔ ”میں نے اسے چھوڑ دیا ۔ وہ اس سے راضی نہیں تھے ۔ ”(الضعفاء للعقیلی : ٣/٢٥٢، وسندہ، صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
کتبنا عنہ ، ما أری بہ بأسا ۔ ” ہم نے اس سے لکھا ہے ، میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا ۔ ” (سوالات ابی داو،د لاحمد : ٥٦٣)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے اسے ”الثقات” میں ذکر کیا ہے ۔
یہ دونوں قول مرجوح ہیں ۔ امام ابنِ حبان ویسے ہی متساہل ہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول جمہور کے مقابلے میں مرجوح ہے ، جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کی جرح سے معلوم ہوا ہے ۔
جریر بن عبد الحمید کہتے ہیں کہ وہ میرے نزدیک ثقہ ہے ۔ (سنن الترمذی : ٥٩)
لیکن اس قول کی سند میں محمد بن حمید الرازی ”ضعیف” ہے ، لہٰذا یہ قول ثابت نہیں ۔
3    اس کے تیسرے راوی رباح النوبی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لیّنہ بعضہم ، ولا یُدری من ہو ۔ ” اسے بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ، نہ معلوم یہ کون ہے ؟ ”(میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٣٨)
دلیل نمبر 4 : سیدنا سفینہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سنگی لگوائی اور مجھے حکم دیا کہ یہ خون لے جاؤ اور اسے ایسی جگہ دفن کر دو جہاں پرندے ، چوپائے اور انسان نہ پہنچ سکیں ۔ کہتے ہیں کہ میں ایک جگہ چھپ گیا اور اسے پی لیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پوچھا یا آپ کو بتایا گیا کہ میں نے اسے پی لیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے ۔ (التاریخ الکبیر للبخاری : ٤/٢٠٩، ترجمۃ : ٢٥٢٤، السنن الکبری للبیہقی : ٧/٦٧، شعب الایمان للبیہقی : ٥/٢٣٣، ح : ٦٤٨٩، المعجم الکبیر للطبرانی : ٧/٨١، ح : ٦٤٣٤، التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمۃ : ٣٠٨٨)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فی إسنادہ نظر ۔ ”اس کی سند محل نظر ہے ۔ ”
اس کی سند میں بریہ بن عمر بن سفینہ راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ۔ امام عقیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لا یتابع علی حدیثہ ۔ ” اس کی حدیث پر متابعت نہیں کی گئی ۔ ” (الضعفاء للعقیلی : ١/١٦٧)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو ”لیّن” کہا ہے ۔ (الکاشف للذہبی : ١/٩٩)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یخالف الثقات فی الروایات ، فلا یحلّ الاحتجاج بخبرہ بحال ۔ ” یہ روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے ۔ کسی حال میں بھی اس کی روایت سے حجت لینا حلال نہیں ۔ ”
(المجروحین لابن حبان : ١/١١١)
نیز ”الثقات” میں لکھتے ہیں : کان ممّن یخطیئ ویخالف ۔
” یہ ان رایوں میں سے ہے جو خطا کھاتے اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ”
امام ابنِ عدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لا یتابعہ علیہا الثقات ، وأرجو أنّہ لا بأس بہ ۔ ” اس کی روایات پر ثقہ راوی متابعت نہیں کرتے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ” (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٢/٦٤)
یہ قول جمہور کے مخالف ہے ، نیز یہ واضح توثیق بھی نہیں ۔ اس راوی کی دوسری روایات پر بھی محدثین کرام نے جرح کر رکھی ہے ، لہٰذا یہ ”ضعیف” راوی ہے ۔
دلیل نمبر 5 : سیدنا عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ ایک قریشی لڑکے نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنگی لگائی ۔ جب وہ اس سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا خون لے کر دیوار کے پیچھے چلا گیا ۔ پھر اس نے اپنے دائیں بائیں دیکھا ۔ جب اسے کوئی نظر نہ آیا تو اس نے وہ خون پی لیا ۔ جب واپس لوٹا تو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا : اللہ کے بندے ! آپ نے اس خون کا کیا کیا ؟ اس نے عرض کیا : میں نے دیوار کے پیچھے اسے چھپا دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : کہاں چھپایا ہے ؟ اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میں نے زمین پر آپ کا خون گرانا مناسب نہیں سمجھا تو وہ میرے پیٹ میں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ تم نے خود کو جہنم سے بچا لیا ۔
(المجروحین من المحدثین لابن حبان : ٣/٥٩، التلخیص الحبیر لابن حجر : ١/١١١)
تبصرہ : یہ جھوٹ کا پلندا ہے ۔ امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” اس کے راوی نافع السلمی ابو ہرمز بصری نے امام عطاء بن ابی رباح  رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک جھوٹا نسخہ روایت کیا تھا ۔ ”پھر انہوں نے اس سے یہ حدیث ذکر کی ۔
اس راوی کے متعلق امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بثقۃ ، کذّاب ۔ ”یہ ثقہ نہیں ۔ پرلے درجے کا جھوٹا ہے ۔ ”
(الکامل لابن عدی : ٧/٤٩، وسندہ، حسنٌ)
یہ بالاتفاق ضعیف اور متروک راوی ہے ۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ہے ۔
دلیل نمبر 6 : سالم ابو ہند الحجام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنگی لگائی اور سنگی سے بہنے والا کون پی لیا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول! میں نے یہ خون پی لیاہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ویحک یا سالم ! أما علمت أنّ الدم حرام ، لا تعد ۔ ” اے سالم ! آپ ہلاک ہو جائیں ۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ خون حرام ہے ؟ آئندہ ایسا مت کیجئے گا ۔ ”(معرفۃ الصحابۃ للاصبہانی : ٣٠٤٤)
تبصرہ : اس روایت کی سند ”ضعیف” ہے ۔ ابو الحجاف داؤد بن ابی عوف راوی کا سالم  رضی اللہ عنہ  سے سماع و لقاء ثابت نہیں ۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کو طبقہ سادسہ(چھٹے طبقہ)میں ذکر کیا ہے ۔ اس طبقہ کے راوی کا کسی صحابی سے ملنا ممکن نہیں ۔ اس میں ایک اور علت بھی ہے ، لہٰذا یہ روایت اصولِ محدثین کے مطابق سخت ”منقطع” اور ”ضعیف” ہے ۔
الحاصل : کسی صحابی سے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پینا ثابت نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.