733

کوئی حدیث قرآن کے خلاف نہیں، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اہل اسلام کے نزدیک حدیث بالاتفاق وحی ہے۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے معارض و مخالف نہیں بلکہ حدیث قرآنِ کریم کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔ اگر کسی کو کوئی صحیح حدیث قرآنِ کریم کے مخالف و معارض نظر آتی ہے تو اس کی اپنی سوچ سمجھ کا قصور ہوتا ہے جیسا کہ کئی قرآنی آیات بظاہر کسی کو ایک دوسرے کے معارض محسوس ہو جاتی ہیں۔لہٰذا حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
مشہور تابعی امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ (٦٦۔١٣١ھ) فرماتے ہیں :
إذا حدثت الرجل بسنّۃ ، فقال : دعنا من ہذا وأجبنا عن القرآن ، فاعلم أنّہ ضالّ ۔ ”جب آپ کسی شخص کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں اور وہ کہہ دے کہ اسے چھوڑو ، ہمیں قرآن سے جواب دو تو سمجھ لو کہ وہ شخص گمراہ ہے۔”
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ٦٥، وسندہ، حسنٌ)
عظیم تابعی سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ (م ٩٥ھ) کے بارے میں روایت ہے :
إنّہ حدّث یوما بحدیث عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال الرجل : فی کتاب ما یخالف ہذا ، قال : لا أرانی أحدّثک عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وتعرض فیہ بکتاب اللّٰہ ، کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أعلم بکتاب اللّٰہ تعالیٰ فیک ۔ ”انہوں نے ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کے خلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تُو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔”(مسند الدارمی : ١/١٤٥، وسندہ، صحیحٌ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث،کتاب اللہ کی مراد ، تشریح اور بیان ہے ، حدیث ِ رسول کے بغیر قرآنِ کریم کو سمجھنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ :
امام الشام مکحول تابعی رحمہ اللہ (م ١١٣ھ)فرماتے ہیں : القرآن أحوج إلی السنّۃ من السنّۃ إلی القرآن ۔ ”قرآنِ کریم (تشریح و توضیح کے حوالے سے)حدیث کا نسبتاً زیادہ محتاج ہے۔”(السنۃ لمحمد بن نصر المروزی : ص ٢٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ (م ١٢٩ھ) فرماتے ہیں : السنّۃ قاضیۃ علی القرآن ، ولیس القرآن بقاض علی السنّۃ ۔ ”حدیث ِ رسول، قرآنِ کریم کے لیے فیصل ہے ، قرآنِ کریم حدیث کے لیے فیصل نہیں۔”(مسند الدارمی : ١/١٤٥، وسندہ، حسنٌ، السنّۃ لمحمد بن نصر المروزی ، ص ٢٨، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر : ٢/١٩٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام دارمی رحمہ اللہ (١٨١۔٢٥٥ھ) نے اپنی کتاب میں اسی قول کے مطا بق تبویب کی ہے۔
امام اندلس ، علامہ ابنِ عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) اس قول کی تشریح میں فرماتے ہیں : یرید أنّہا تقضی علیہ وتبیّن المراد منہ ۔ ”اس سے مراد یہ ہے کہ حدیث و سنت قرآنِ کریم کا حتمی نتیجہ بیان کرتی ہے اور اس کی مراد واضح کرتی ہے۔”
(جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر : ٢/١٩١)
اس قول کی مزید تشریح امام اوزاعی رحمہ اللہ (م ١٥٧ھ) کے اس فرمان سے ہوتی ہے:
إنّ السنّۃ جاء ت قاضیۃ علی الکتاب ، ولم یجیء الکتاب قاضیا علی السنّۃ ۔ ”سنت قرآنِ کریم کے لیے فیصل بن کر آئی ہے ، قرآن اس کے لیے فیصل بن کر نہیں آیا۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ٦٥، وسندہ، حسنٌ)
ظاہر ہے کہ کسی کتاب کی شرح ہی اس میں موجود مندرجات کا کوئی حتمی نتیجہ نکال سکتی ہے۔ جو چیز خود وضاحت کی محتاج ہو ، وہ اپنی شرح کے لیے فیصل کیسے بن سکتی ہے؟
امام ابنِ عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں :
البیان عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علی ضربین : الأوّل بیان المجمل فی الکتاب العزیز کالصلوات الخمس فی مواقیتہا وسجودہا ورکوعہا وسائر أحکامہا ، وکبیانہ للزکاۃ وحدہا ووقتہا وما الذی تؤخذ من الأموال ، وبیان الحجّ ۔۔۔۔۔ الثانی : الزیادۃ علی حکم الکتاب کتحریم نکاح المرأۃ علی عمّتہا وخالتہا وکتحریم الحمر الأہلیّۃ وکلّ ذی ناب من السباع إلی أشیاء یطول ذکرہا ۔۔۔۔۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کتاب اللہ کی وضاحت و تشریح دو طرح کی ہے : ایک وہ جو کتاب عزیز میں موجود مجمل بیانات کی توضیح ہے جیسا کہ پانچ نمازوں کے اوقات ، ان کے رکوع و سجود اور دیگر تمام احکام ہیں، نیز زکوٰۃ ، اس کی مقدار ، اس کا وقت اور ان اموال کا بیان جن میں زکوٰۃ فرض ہے ، اسی طرح حج کا بیان ہے۔۔۔۔۔ دوسری قسم کا بیان وہ ہے جو کتاب اللہ سے زائد ہے ، جیسے کسی عورت کی پھوپھی یاخالہ سے نکاح کے ہوتے ہوئے اس سے بھی نکاح کرنے کی ممانعت اور جیسے گھریلو گدھوں اور ہر ذی ناب درندے کی حرمت کا بیان ہے۔ اسی طرح بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن کا ذکر طوالت کا باعث ہو گا۔”(جامع بیان العلم وفضلہ : ٢/١٩٠)
فضل بن زیاد کا بیان ہے : سمعت أبا عبد اللّٰہ ، یعنی أحمد بن حنبل ، وسئل عن الحدیث الذی روی أنّ السنّۃ قاضیۃ علی الکتاب ، فقال : ما أجسر علی ہذا أن أقولہ ، ولکن السنّۃ تفسیر الکتاب وتعرّف الکتاب وتبیّنہ ۔
”میں نے امام ابوعبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو سنا، ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا کہ سنت کتاب اللہ کے لیے فیصل ہے۔ انہوں نے فرمایا : میں ایسا کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا(کیونکہ یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں)، البتہ سنت کتاب اللہ کی تفسیر ہے جو قرآن کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔”
(الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب : ص ٤٧، وسندہ، حسنٌ)
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م ٧٩٠ھ) اس قول کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
إنّ قضاء السنّۃ علی الکتاب لیس بمعنی تقدیمہا علیہ وإطراح الکتاب ، بل إنّ ذلک المعبّر فی السنّۃ ہو المراد فی الکتاب ، فکان السنّۃ بمنزلۃ التفسیر والشرح لمعانی أحکام الکتاب ، دلّ علی ذلک قول اللّٰہ تعالی : (لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ) (النحل : ٤٤) ۔ ”حدیث کے کتاب اللہ کے لیے فیصل ہونے سے مراد اس کو مقدم کر کے قرآنِ کریم کو پسِ پشت ڈالنا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا جو معنیٰ سنت و حدیث میں بیان کیا گیا ہے ، وہی کتاب اللہ کا حقیقی معنیٰ ہے۔ اس طرح حدیث قرآنِ کریم کی تفسیر اور اس کی شرح ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ) (النحل : ٤٤)
(تاکہ آپ لوگوں کے لیے ان کی طرف نازل شدہ وحی کی وضاحت فرما دیں)۔”(الموافقات للشاطبی : ٤/٧،٨)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں : والحاصل أنّ معنی احتیاج القرآن إلی السنّۃ أنّہا مبیّنۃ لہ ومفصّلۃ لمجملاتہ ، لأنّ فیہ لو جازتہ کنوزا تحتاج إلی من یعرف خفایا خبایاہا فیبرّرہا ، وذلک ہو المنزّل علیہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو معنی کون السنّۃ قاضیۃ علیہ ، ولیس القرآن مبیّنا للسنّۃ ولا قاضیا علیہا ، لأنّہا مبیّنۃ بنفسہا ، إذا لم تصل إلی حدّ القرآن فی الإعجاز والإیجاز ، لأنّہا شرح لہ ، وشأن الشرح أن یکون أوضح وأبین وأبسط من المشروح ۔
”الحاصل قرآنِ کریم کے محتاجِ حدیث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث ، قرآنِ مجید کی وضاحت اور اس کے مجملات کی توضیح ہے کیونکہ کلامِ الٰہی میں ایسے خزانے ہیں جن کے مخفی رازوں کی معرفت کے لیے آپ ضرور کسی راہنما کے محتاج ہوں گے اور یہی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت میں نازل کی گئی ہے۔ حدیث کے قرآنِ کریم کے لیے فیصل ہونے کا یہی معنیٰ ہے۔ قرآنِ کریم ، حدیث کے لیے فیصل و قاضی نہیں کیونکہ حدیث خود واضح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث فصاحت و بلاغت میں قرآنِ کریم کی ہم پلہ نہیں کیونکہ یہ اس کی شرح ہے اور شرح ہمیشہ اصل سے زیادہ واضح اور مبسوط ہوتی ہے۔”
(مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ للسیوطی : ص ٤٤)
اتنی سی وضاحت کے بعد ایک فرمانِ رسول ملاحظہ ہو :
سیدنا مقدام بن معدیکرب الکندی رضی اللہ عنہ (م ٨٧ھ) بیان کرتے ہیں :
إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حرّم أشیاء یوم خیبر ، الحمار وغیرہ ، ثمّ قال : (( لیوشک الرجل متّکأا علی أریکتہ ، یحدّث بحدیثی ، فیقول : بینا وبینکم کتاب ، ألا وإنّ ما حرّم رسول اللّٰہ ، فہو مثل ما حرّم اللّٰہ تعالی ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہئ خیبر کے دن گھریلو گدھے وغیرہ کو حرام قرار دیا ، پھر فرمایا : عنقریب ایک آدمی اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو گا، اس کو میری حدیث سنائی جائے گی اور وہ کہے گا : ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی فیصل ہے۔(لیکن) خبردار ! جو چیز اللہ کے رسول نے حرام کی ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کی طرح ہی حرام ہے۔”
(مسند الامام احمد : ٤/١٣٢، سنن الترمذی : ٢٦٦٤، سنن ابن ماجہ : ١٢، ٣١٩٣، مسند الدارمی : ٦٠٦، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/١٠٩، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن غریب” اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے۔
اس حدیث سے حدیث ِ رسول کی تشریعی حیثیت واضح ہوتی ہے جیسا کہ امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ (م ٢٩٤ھ) لکھتے ہیں :
إنّ التحلیل والتحریم من اللّٰہ یکون علی وجہین : أحدہا أن ینزّل اللّٰہ تحریم شیء فی کتابہ فیسمّیہ قرآنا کقولہ : (حُرَّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ) (المائدۃ : ٣) ، وما أشبہ ذلک ممّا قد حرّمہ فی کتابہ ، والوجہ الآخر أن ینزل علیہ وحیا علی لسان جبریل بتحریم شیء أو تحلیلہ أو افتراضہ ، فیسمّیہ حکمۃ ولا یسمّیہ قرآنا ، وکلاہما من عند اللّٰہ کما قال اللّٰہ : (وَأَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ)(النساء : ١١٣)۔
”اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلت و حرمت کے احکامات دو طریقوں سے آتے ہیں: ایک تو اس طرح کہ کتاب اللہ میں کسی چیز کی حرمت بیان ہو اور اس کا نام قرآن رکھا جائے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(حُرَّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ) (المائدۃ : ٣)
(تم پر مردار ، خون اور خنزیر کا گوشت حرام کر دیا گیا)۔ اسی طرح وہ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جبریل کی زبانی کسی چیز کی حرمت یا حلت یا فرضیت نازل ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ قرآن نہیں بلکہ حکمت کا نام دیتا ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ)(النساء : ١١٣)
(اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے)۔”
(السنۃ لمحمد بن نصر المروزی : ص ١١٥)
اس حدیث پر امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے یوں تبویب کی ہے :
باب ما جاء فی التسویۃ بین حکم کتاب اللّٰہ تعالیٰ وحکم سنّۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی وجوب العمل ولزوم التکلیف ۔
”ان دلائل کا بیان جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واجب العمل ہونے میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسول دونوں کا حکم برابر اہمیت و حیثیت کا حامل ہے۔”(الکفایۃ للخطیب : ٢٣)
امام طبری رحمہ اللہ (م ٣١٠ھ) قرآنِ کریم میںمذکور ”حکمت”کے بارے میں فرماتے ہیں :
الصواب من القول عندنا فی الحکمۃ أنّہا العلم بأحکام اللّٰہ التی لا یدرک علمہا إلّا ببیان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم والمعرفۃ بہا ۔۔۔ وہو عندی مأخوذ من الحُکم الذی بمعنی الفصل بین الحقّ والباطل بمنزلۃ الجلسۃ والقعدۃ من الجلوس والقعود ، یقال : إنّ فلانا لحکیم بیّن الحکمۃ ، یُعنٰی بہ : إنّہ لبیّن الإصابۃ فی القول والفعل ۔
”ہمارے خیال میں حکمت سے مراد اللہ تعالیٰ کے احکام کی وہ علم و معرفت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔۔۔ میرے خیال میں یہ ‘حکمت’ ، حُکم بمعنیٰ ‘حق و باطل میں فرق ‘ سے ماخوذ ہے جیسا کہ جلسہ اور قعدہ ، جلوس اور قعود سے ماخوذ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص واضح حکمت والا حکیم ہے ، اس قول سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ قول و فعل میں واضح طور پر درست رہتا ہے۔”(تفسیر الطبری : ١/٦٠٨، تحت البقرۃ : ١٢٩)
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.