653

کوئی صحیح حدیث قرآن کے مخالف نہیں (قسط نمبر 1)——- علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

منکرین حدیث در حقیقت منکرین قرآن ہیں ، ان کے عدم ِ فہم و علم کے بارے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
یقرؤون القرآن ، لا یجاوز حلوقہم و حناجرہم ، یمرقون من الدین مروق السہم من الرمیۃ۔
”وہ قرآن پڑھیں گے ، لیکن وہ ان کے حلقوں سے تجاوز نہیں کرے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔”(صحیح بخاری:٦٩٣١)
یہ حدیث خوارج (منکرین حدیث وغیرہ)کے عدم ِ فہم و علم پر بیّن ثبوت ہے ، کیونکہ وہ قرآن و حدیث کی توہین اور مسلمانوں کی تکفیر کے مرتکب ہیں ۔
حافظ ابنِ حجرلکھتے ہیں :
ورد الروایات الصحیحۃ والطعن فی أئمۃ الحدیث الضابطین مع امکان توجیہ ما رووا من الأمور التی أقدم علیہا کثیر من غیرأہل الحدیث ، وہو یقتضی قصورفہم من فعل ذلک منہم ، ومن ثم قال الکرمانی : لا حاجۃ لتخطئۃ الرواۃ الثقاۃ۔
”بہت سے غیر اہل حدیثوں نے احادیث ِ صحیحہ اور روایات ِ ثابتہ کا ردو انکار کیا ہے ، حفاظ ائمہ حدیث پرطعن زنی کی ہے، یہ اقدام ان کے ناقص العقل و قاصر الفہم ہونے پر دلیل ہے، اسی وجہ سے کرمانی (شارحِ بخاری )نے کہا ہے کہ ثقہ راویوں کی طرف خوامخواہ غلطی کی نسبت کرنے کی ضرورت نہیں (بلکہ ان کی روایتوں میں جمع و توفیق اور تطبیق دینا ضروری ہے)۔” (فتح الباری:١٣/٤٠١)
منکرین حدیث نے قرآن و حدیث کے اتباع کی بجائے عقل سوء اور نفسانی خواہشات کی پرستش شروع کر دی ہے ، ان کے زعم ِ باطل کے مطابق حدیث دلیل ِ شرعی نہیں ہے، وہ حدیث کو قرآن کی ضد خیال کرتے ہیں ، جبکہ جہاں قرآن وحی ہے ، وہاں حدیث بھی وحی ہے، وحی حق ہے، کیا حق حق کے ساتھ ٹکرا سکتا ہے؟ ایک حق کو دوسرے حق پر پیش کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ایک مسلمان کا تو یہ شیوہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ قرآن و حدیث کی صورت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اس کو دل و جان سے برحق تسلیم کرے اوراس پر ایمان لائے، جیسا کہ امامِ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
علی اللّٰہ البیان وعلی الرّسول البلاغ وعلینا التّسلیم ۔
”بیان کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ پہنچانا ہے اور سر تسلیم خم کرنا ہم پر لازم ہے۔”
(الزہد لابن أبی عاصم :٧١، حلیۃ الاولیاء لأبی نعیم :٣/٣٦٩، عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث لأبی اسماعیل الصابونی، واللفظ لہ ، تغلیق التعلیق لابن حجر:٥/٣٦٥، وسندہ صحیح)
یہ تو ہوا مومنوں کا وطیرہ ، جبکہ گمراہ اور ظالم قرآن و حدیث میں ٹکراؤ پیدا کر نے کی مذموم کوشش کرتا ہے، اس طرح وہ متاع ِ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ، قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں ، ہاں ! ظاہری طور پر تعارض موجود ہے، حقیقت میں کوئی تعارض نہیں ، اہل ِ ایمان نور ِ ایمان و علم سے تعارض کو رفع کر دیتے ہیں ، جبکہ معاندین قصورِ فہم کی بنیاد پر گمراہی اور ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں ۔
حافظ خطابی لکھتے ہیں :
فانہ یحذر بذلک مخالفۃ السنن التی سنہا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )مما لیس لہ فی القرآن ذکر علی ما ذہبت الیہ الخوارج والروافض ، فانہم تعلقوا بظاہر القرآن وترکوا السنن التی قد ضمنت بیان الکتاب فتحیروا وضلوا۔
”رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنتیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں ، ان کی مخالفت سے بچنا چاہیے، خارجیوں اور رافضیوں نے صرف قرآن کے ظاہر کو لیا ہے ، جبکہ ان احادیث کو چھوڑ دیا ہے جو قرآن کی توضیح و تشریح پر مشتمل ہیں ، اس لیے وہ گمراہ ہو گئے ہیں ۔” (معالم السنن: ٤/٢٩٨)
بقیہ بن ولید (ثقہ عند الجمہور)کہتے ہیں کہ امام اوزاعی نے مجھے فرمایا، ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے نبی کی حدیث سے بغض رکھتے ہیں ؟ میں نے عرض کی ، وہ برے لوگ ہیں، آپ نے فرمایا:
لیس من صاحب بدعۃ تحدثہ عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بخلاف بدعتہ الّا أبغض الحدیث۔
”جس بدعتی کو بھی آپ اس کی بدعت کے خلاف حدیث سنائیں گے ، وہ اسے برا سمجھے گا ۔”
(شرف أصحاب الحدیث للخطیب: ١٥٠، الحجۃ لئابی القاسم الأصبہانی :١/٢٠٧، وسندہ صحیح)
امام ِآجری فرماتے ہیں :
ینبغی لأہل العلم والعقل اذا سمعوا قائلا یقول : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شیء قد ثبت عند العلماء ، فعارض انسان جاہل ، فقال : لا أقبل الا ما کان فی کتاب اللہ (عز وجل)قیل لہ : أنت رجل سوء وأنت ممن حذرناک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحذر منک العلمائ۔
”اہل علم و عقل کو چاہیے کہ جب وہ کسی کو صحیح ثابت فرمان رسول بیان کرتے ہوئے سنیں اور کوئی جاہل انسان اسے سن کر یہ کہے کہ میں صرف قرآن کو مانتا ہوں ، اسے کہا جائے کہ تو برا انسان ہے ، تجھ جیسے لوگوں سے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے کرام نے خبردار کیا تھا ۔”(الشریعۃ : ٤٩)
امام ِ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا تخالف سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ بحال۔
”کسی بھی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کریم کے مخالف نہیں ہو سکتی۔”
(الرّسالۃ للشافعی: ٥٤٦)
محقق شاطبی لکھتے ہیں :
التعارض اما ان یعتبر من جہۃ ما فی نفس الامر ، واما من جہۃ نظر المجتہد ، اما من جہۃ ما فی نفس الامر فیغیر ممکن بالاطلاق۔۔۔
”تعارض کی دو قسمیں ہیں ، یا تو حقیقی ہو گا یاصرف مجتہد کی نظر میں ہوگا ، (قرآن و حدیث میں )حقیقی تعارض بالکل ناممکن ہے ۔” (الموافقات: ٤/٢٩٤)
جو لوگ یہ کہتے ہیںکہ حدیث قرآن پر پیش کرو ، اگر قرآن کے موافق ہو تو لے لو ، اگر مخالف ہو تو چھوڑدو، ہمار ا ان سے سوال ہے کہ جب قرآن قرآن سے ٹکرائے ، اس صورت میں تم قرآن کی کس آیت کو لو گے اور کس کو چھوڑو گے ؟ جو ان کا جواب ہو گا ،وہی ہمارا قرآن و حدیث میں تعارض کے حوالے سے جوا ب ہو جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے :
لا ألفین أحدکم متکأا علی أریکتہ ، یاتیہ الأمر من أمری مما أمرت بہ أو نہیت عنہ ، فیقول : لا ندری ، ما وجدنا فی کتاب اللہ اتبعناہ ۔
”میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ اپنے صوفہ پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اس کو امر یا نہی کی صورت میں میرا فرمان پہنچے تو وہ کہے کہ ہم نہیں جانتے ، ہم تو صر ف قرآن کی اتباع کریں گے۔”
(أبوداؤد: ٤٦٠٥، ترمذی :٢٦٦٣، ابن ماجہ : ١٣، مسند الحمیدی:٥٥١، دلائل النبوۃ للبیہقی:٦/٥٤٩، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ِ ترمذی نے”حسن صحیح ”،نیز امام ابن حبان (١٣)اور امام ِ حاکم (١/١٠٨،١٠٩) نے ”صحیح ”کہا ہے۔حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، حافظ بغوی نے بھی اس کو” حسن”قرار دیاہے ۔(شرح السنۃ :١/٢٠١)
حافظ بغوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : وفی الحدیث دلیل علی أنہ لا حاجۃ بالحدیث الی أن یعرض علی الکتاب ، وأنہ مہما ثبت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان حجۃ بنفسہ ۔
”یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں ، بلکہ جب وہ حدیث صحیح ہو تو بذات ِ خود حجت شرعی ہو گی ۔”(شرح السنۃ : ١/٢٠١۔٢٠٢)
قرآن اور حدیث کے مابین تعارض کی مثال ملاحظہ فرمائیں :
متواتر حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انکم سترون ربکم کما ترون ہذا القمر ، لا تضامون فی رؤیتہ ۔۔۔۔
”یقینا عنقریب تم اپنے رب کو دیکھو گے ، جس طرح بھِیڑ کے بغیر چاند دیکھتے ہو ۔”
(صحیح بخاری :٧٤٣٤، صحیح مسلم : ٦٣٣)
قرآن مجید میں ہے کہ جب موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(لَنْ تَرَانِیْ)(الاعراف: ١٤٣) ”(اے موسی!)آپ مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔”
حدیث ِ پاک میں دیدارِ الٰہی کا ثبوت ہے اور قرآن پاک اس کی نفی کر رہا ہے ، منکرین حدیث اس تعارض کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث ”صحیح” نہیں ، بالفرض اس کو ”صحیح ” مان لیا جائے تو اس سے مراد ” علم ” ہے نہ کہ دیدارِ الٰہی ۔ بطورِ دلیل وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیش کرتے ہیں :
(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ)(النور:٤١)
”کیا آپ کو علم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اس کی تسبیح کرتی ہے؟”
تو اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے ، اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ، قرآن نے جس دیدارِ الٰہی کی نفی کی ہے ، اس کا تعلق دنیا سے ہے ، حدیث پاک نے جس کا اثبات کیا ہے ، اس کا تعلق آخرت سے ہے ، یعنی دنیا میں کوئی آنکھ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی ، البتہ آخرت میںوہ مومنوں کو اپنا دیدار دے گا، لہٰذا تعارض ختم ہوا ، یہاں رؤیت کی تعبیر علم سے کرنا قرآن وحدیث اور صحابہ کرام و سلف صالحین کے متفقہ فہم و تصریحات کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ٭ اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(القیامۃ :٢٢۔٢٣)
”اس دن (قیامت کومومنوں کے)چہرے شگفتہ اور بارونق ہوں گے ، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔”
نظر کی نسبت چہرے کی طرف کی گئی ہے، جو کہ آنکھوں کا محل ہے ، اس کو ”الیٰ ” کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے ، معلوم ہوا کہ یہ رؤیت بصری ہو گی نہ کہ قلبی ، یہ اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہو گااور جو منکر ہو گا ، وہ اس سے محروم رہے گا۔
ان کی اس باطل تاویل کا رد اسی حدیث میں موجود ہے، جب صحابہئ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزِ قیامت ہونے والے دیدارِ الٰہی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :
ہل تضارون فی رؤیۃ الشمس بالظہیرۃ صحوا، لیس معہا سحاب ؟ وہل تضارون فی رؤیۃ القمر لیلۃ البدر صحوا ، لیس فیہا سحاب؟ قالوا : لا ، یارسول اللہ ! قال : ما تضارون فی رؤیۃ اللہ تبارک وتعالیٰ یوم القیامۃ الا کما تضارون فی رؤیۃ أحدہما۔
”جب سورج نصف النہار پر ہو اور اس کے ساتھ کوئی بادل بھی نہ ہو تو کیا تمہیں سورج دیکھنے میں کوئی دقت یا دشواری ہوتی ہے؟ اور جب چودھویں رات کو آسمان پر چاند جلوہ آراہو اور اس پر بادل بھی نہ ہو تو کیا چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کی ، نہیں ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا ، جس طرح تم دنیا میں سورج یا چاند کو دیکھتے ہو ، اسی طرح روزِ قیامت اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار کرلو گے ۔”(صحیح مسلم: ١٨٣)
اس حدیث نے واضح کر دیا ہے کہ دیدار بصر ی ہو گا نہ کہ قلبی ۔
امام ابن قتیبہ لکھتے ہیں :
ولو کان اللّٰہ تعالیٰ لا یری فی حال من الأحوال ولا یجوز علیہ النظر ، لکان موسیٰ علیہ السلام قد خفی علیہ من وصف اللّٰہ ما علموہ۔
”اگر کسی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار نا ممکن ہوتو یہ لاز م آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے جس وصف کو موسیٰ علیہ السلام نہ جان سکے ، اسے منکرین حدیث جان گئے ۔”(تاویل مختلف الحدیث :٢٠٧)
منکرین حدیث کا خود ساختہ اصول باطل ہو ا کہ حدیث کو قرآ ن پر پیش کیا جائے ، اگر قرآن کے موافق ہو تو لے لی جائے اور اگر قرآن کے مخالف ہو تو چھوڑ دی جائے ۔ خوب یاد رہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآ ن کے مخالف نہیںہوتی ، ظاہری مخالفت ہو سکتی ہے ، حقیقت میں کوئی مخالفت نہیںہو سکتی ، لہٰذا ایک صحیح ، مرفوع اور متصل حدیث پیش کی جائے جو قرآ ن کے خلاف ہو ،اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم اس تعارض کو رفع کر دیں گے ، اگر قرآن کا ظاہری تعارض رفع ہو سکتا ہے تو قرآن و حدیث کا ظاہری تعارض دور کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر دور نہ ہوتو یہ سمجھ کا قصور ہو گا ۔
منکرین حدیث اس مرض میں مبتلا ہیں، شیطان ان کی طرف باطل القاء کرتا ہے ، ان کی عقلیں سقیم اور فاسد ہو چکی ہیں ، شبہات و وساوس کے اندھیروں سے ان کے سینے لبریز ہو چکے ہیں ، ان کی دلیلیں جو در حقیقت شبہات ہیں ، باطل ثابت ہو چکی ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ہیں :
(وَمَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہ’ مِنْ مُّکْرِمٍ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ)(الحج:١٨)
”اور جسے اللہ ذلیل کرے ، اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ، یقینا اللہ جو چاہتا ہے ،سو کرتا ہے ۔”
نیز فرمایا:
(اُوْلٰۤئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمَی اَبْصَارَہُمْ )(محمد: ٢٣)
”یہ (منکرین حدیث جو در حقیقت منکرین قرآن ہیں )وہ لوگ ہیں ، جن پر اللہ نے لعنت کی ہے ، پھر ان کو بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ۔”
حدیث جو حق ہے ، اس کو نہ سن سکتے ہیں ، نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ سمجھ سکتے ہیں ۔
قوام السنۃ امام ابو القاسم اسماعیل بن محمد الاصبہانی نے کیا خوب لکھا ہے :
وقول من قال : تعرض السنۃ علی القرآن ، فان وافقت ظاہرہ ، والا استسلمنا ظاہر القرآن وترکنا الحدیث ، فہذا جہل ، لأن سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع کتاب اللہ عز وجل تقام مقام البیان عن اللہ عزوجل ، ولیس شیء من سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخالف کتاب اللہ لأن اللہ عزوجل أعلم خلقہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یھدی الی صراط مستقیم فقال: (وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ)(الشورٰی: ٥٢)ولیس لنا مع سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الأمر شیء الا اتباع والتسلیم ولا یعرض علی القیاس ولا غیرہ ، وکل ما سواھا من قول الآدمیین تبع لھا ولا عذر لاحد یتعمد ترک السنۃ ، ویذھب الی غیرھا ، لأنہ لا حجۃ لقول أحد مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صحّ ۔
”منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ سنت کو قرآن پر پیش کیا جائے گا ، اگر وہ قرآن کے موافق ہوئی تو ٹھیک ورنہ ہم قرآن کے ظاہر کو لے لیں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں گے ، نری جہالت ہے ، کیونکہ سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے موافق ہے ، بلکہ اللہ کی طرف سے قرآن کی تفسیر و بیا ن اور تشریح ہے ، کوئی سنت قرآن کے مخالف و معارض نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اس بات سے باخبر کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی راہ کی راہنمائی فرماتے ہیں ، فرمایا :(وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ)(الشورٰی: ٥٢)(آپ ضرور ضرور صراطِ مستقیم کی ارشاد و راہنمائی فرماتے ہیں )۔ ہمارے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع و تسلیم کے بغیر کوئی چا رہ نہیں ، نیز حدیث کو قیاس وغیرہ پر بھی پیش نہیں کیا جائے گا، امتیوں کے اقوال و افعال تو حدیث کے تابع ہیں (اگر حدیث کے موافق ہوں تو لے لیں گے ، ورنہ ترک کر دیں گے )کسی کے لیے جان بوجھ کر سنت کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف جانے کی گنجائش نہیں ہے ، جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول صحیح ثابت ہو جائے تو اس کے خلاف کسی کا قول حجت نہیںہے ۔”(الحجۃ فی بیان المحجۃ : ٢/٤٢٥۔٤٢٦)
اہل سنت کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من رد حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فہو علی شفا ہلکۃ ۔
”جس نے حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کر دیا ، وہ تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑ ا ہے ۔”
(الحجۃ فی بیان المحجۃ : ١/٢٠٧، منا قب الامام احمدلابن الجوزی : ١٨٢، وسندہ حسن)
قوام السنۃ ابو اسماعیل الاصبہانی لکھتے ہیں :
”آدمی پر اہل بدعت سے بغض لازم ہے ، وہ جہاں بھی ہوں ، تاکہ وہ اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر بغض و نفرت کرنے والوں میں سے ہو جائے ، اہل سنت سے محبت اور اہل بدعت سے بغض و نفرت کی کچھ علامات ہیں ، جب کسی شخص کو آپ امام ِ مالک بن انس ، امام ِ سفیان بن سعید الثوری ، امام عبدالرحمن بن مہدی ، امام عبداللہ بن مبارک ، امام محمد بن ادریس الشافعی اور دیگر صحیح العقیدہ ائمہ کرام رحمہم اللہ کا ذکر ِ خیر کرتے دیکھیں ، تو جا ن لیں کہ وہ اہل سنت میں سے ہے اور جب کسی کو دیکھیں کہ وہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب میں جھگڑا کر رہا ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یو ں فرمایا ہے ، تو وہ کہتا ہے کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے، جان لیں کہ وہ بدعتی ہے ، جب کسی آدمی کو کہا جائے کہ تو حدیث کیوں نہیں لکھتا ؟ وہ کہتا ہے کہ عقل بہتر ہے ، جان لیں کہ وہ بھی بدعتی ہے، جب آپ دیکھیں کہ کوئی اہل فلسفہ و ہندسہ کی مدح سرائی کر رہا ہے ، تو جان لیں کہ وہ گمراہ ہے ، جب کسی کو دیکھیں کہ وہ اہل حدیث کو ”حشویہ ، مشبہہ اور ناصبہ ” کہہ رہا ہو ، تو جان لیں کہ وہ بدعتی ہے ، جب کوئی صفاتِ الٰہی کی نفی یا ان کو مخلوق سے تشبیہ دے رہا ہو ، تو جان لیںکہ وہ گمراہ ہے۔”
(الحجۃ فی بیان المحجۃ : ٢/٥٣٩۔٥٤٠)
اللہ رب العزت کا ارشادِ گرامی ہے: (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ) (النسائ: ٨٠)
”جس نے رسول کی اطاعت کی ،درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔”
یہ آیت ِ کریمہ نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال اللہ کی وحی ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اللہ کی وحی کے تابع ہیں ، تو ان کو قرآ ن کریم پر پیش کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
حافظ ابن ِ حزم فرماتے ہیں :
۔۔۔۔فصح ان کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلہ فی الدین وحی من عند اللہ عز وجل ، لا شک فی ذلک ولا خلاف بین أحد من أہل اللغۃ والشریعۃ فی أن کل وحی نزل من عند اللہ فہو ذکر منزل ۔
”یہ لا ریب حقیقت ہے کہ دین کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری کی ساری باتیں وحی ِ الٰہی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے منزل من اللہ ذکر ہونے میں لغت وشرع میں کوئی اختلاف نہیں۔”
(الاحکام لابن حزم: ١/١٣٥)
حسان بن عطیہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کان جبریل ینزل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالسنۃ کما ینزل علیہ القرآن ویعلمہ ایاہا کما یعلمہ القرآن ۔
”جبریل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنت کے لیے بھی نازل ہوتے تھے ، جس طرح کہ قرآن کے لیے نازل ہوتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنت کی ویسے ہی تعلیم دیتے تھے ، جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے ۔”
(السنۃ لمحمد بن نصر المروزی : ٢٨،١١٦، وسندہ صحیح)
ابو البقاء الحسینی الحنفی کہتے ہیں :
والحاصل أن القرآن والحدیث یتحدان فی کونہما وحیا من عند اللہ بدلیل :(اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی)(النجم:٥)
”الحاصل ،فرمان الٰہی :(اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی)(النجم:٥) کے مطابق قرآن و حدیث دونوں وحی ہونے میں متحدو متفق ہیں ۔”(کلیات ابی البقائ: ٢٨٨)
علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
وقد اتفق من یعتد بہ من أہل العلم علی أن السنۃ المطہرۃ بتشریع الأحکام ، وأنہا کالقرآن فی تحلیل الحلال وتحریم الحرام ۔
”معتبر علمائے اسلام سنت ِمطہرہ کی مستقل تشریعی حیثیت پر متفق ہیں ، یقینا یہ حلال و حرام میں قرآن کی طرح ہے ۔”
(ارشاد الفحول للشوکانی : ٣٣)
نیز فرماتے ہیں : ان ثبوت حجیۃ السنۃ المطہرۃ واستقلالہا بتشریع الأحکام ، ضرورۃ دینیۃ ، ولا یخالف فی ذلک الا من لا حظ لہ فی دین الاسلام ۔
”سنت ِ مطہرہ کی حجیت اور اس کا احکام شرعیہ کا مستقل مصدر ہونے کا ثبوت ضرورت ِ دینی ہے، اس میں اختلاف وہی کرتاہے، جس کا دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔”(ارشاد الفحول : ٣٣)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰۤأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْر ِمِنْکُمْ)(النسائ:٥٩)
”اے اہل ایمان ! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرواور اولی الامر کی اطاعت کرو۔”
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا تو ”اطیعوا”کا صیغہ امر الگ الگ ذکر فرمایا ، جب اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ، تو صیغہ امر نہیں دہرایا ، بلکہ عطف پر اکتفاکیا ، اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مستقل بالذات دلیل ہیں ، لہٰذا آپ کی احادیث ِ مبارکہ کو کتاب اللہ پر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
علامہ ابن القیم فرماتے ہیں :
فأمر تعالی بطاعتہ وطاعۃ رسولہ ، وأما الفعل اعلاما بأن طاعۃ الرسول تجب استقلالا من غیر عرض ما أمر بہ علی الکتاب ، بل اذا أمر وجبت طاعتہ مطلقا ، سواء کان ما أمر بہ فی الکتاب أو لم یکن فیہ ، فانہ أوتی الکتاب ومثلہ معہ ۔
”اللہ تعالی نے اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم فرمایا، ”اطیعوا”کو دو بار ذکر کر کے یہ باور کروایا کہ حدیث کو قرآن پرپیش کیے بغیر اطاعت ِ رسول مستقل شرعی مصدرو ماخذ ہونے کی حیثیت سے واجب ہے ، بلکہ جب حکم دیا تو مطلق طور پر اطاعتِ رسول واجب ہو گئی ، خوا ہ اس بات کا حکم کتاب اللہ میں ہو یا نہ ہو ، یقینا آپ کو قرآن عطا کیا گیا ہے اور قرآن کے ساتھ اس کی مثل ایک اورچیز(حدیث )بھی دی گئی ہے۔”(اعلام الموقعین : ١/٤٨)
مذکورہ آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام عطاء بن ابی رباح تابعی فرماتے ہیں :
أولو العلم والفقہ ، وطاعۃ الرسول : اتباع الکتاب والسنۃ
”اولی الامر سے مراد علماء و فقہاء ہیں اور اطاعت ِ رسول کتاب و سنت کی پیروی کا نام ہے۔”
(سنن الدارمی: ٢٢٥، تفسیر ابن جریر: ٥/١٤٧، وسندہ صحیح)
قرآن و حدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہو چکا ہے کہ حدیث وحی ہے ، اس کو قرآن پر پیش کرنا گمراہی اور ضلالت ہے، نیز اس کا انکار کفر ہے۔
حافظ سیوطی فرماتے ہیں : ان من أنکرکون حدیث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم قولا کان أو فعلا ، بشرطہ المعروف فی الأصول حجۃ ، کفر وخرج عن دائرۃ الاسلام ، وحشر مع الیہود والنصاری أو مع من شاء اللہ من فرق الکفرۃ ۔
”حدیث قولی ہو یا فعلی ، اسے شرعی دلیل سمجھتے ہوئے، جس نے بھی انکار کیا ، وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس کا حشر یہودو نصاری کے ساتھ ہو گا یا ان کافر فرقو ں کے ساتھ جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ چاہے گا۔”
(مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ : ٣)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.