1,837

آثار نبوی کی حقیقت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار ِ مبارکہ سے تبرک صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب زمانے والے لوگوں، یعنی صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین کے حصے میں آیا۔چودہ سو سال گزر جانے کے بعد ان آثار سے تبرک کا حصول ممکن نہیں،کیونکہ یہ سارے آثار مفقود ہو چکے ہیں۔دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں۔بعض الناس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے من گھڑت آثار وضع کیے ہوئے ہیں۔ان کے پاس اس کی کوئی سند نہیں،بلکہ محض دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے۔
جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قول،فعل یا سکوت منسوب کرنا بہت احتیاط کا کام ہے کہ جھوٹ منسوب کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صادق آتی ہے:
’مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ؛ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘ ۔
’’جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 107، صحیح مسلم : 3)
اسی طرح کسی ایسے اثر،مثلاً نعلین،بال،جبہ یا پگڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا، جو درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ہو،تو ایسا شخص بھی بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ بالا وعید کا مصداق ہو گا۔لہٰذا ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے،جو خود ساختہ تبرکات ِنبویہ لوگوں میں متعارف کراتے ہیں یا ان کی تشہیر کا سبب بنتے ہیں۔
اگر کوئی شخص چودہ سوسال گزر جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات کا دعویٰ کرتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ پر صحیح سند پیش کرے،محض زبانی کلامی دعویٰ کا کوئی اعتبار نہیں ہو سکتا۔
اگر کوئی کہے کہ یہ نعلین شریفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یا یہ مبارک بال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں، تو کیا اتنی سی بات پر ان نعلین اور بالوں کی تعظیم و تکریم کرنا شروع کردیں گے؟ ان سے تبرک حاصل کرنے لگیں گے،یا اس انتساب پر صحیح سند کا بھی مطالبہ کریں گے؟اگر وہ صحیح ثبوت فراہم نہ کر سکے توان چیزوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر جھوٹ باندھنا ہے،لہٰذا اس معاملہ کی حساسیت کو سمجھنا ہو گا۔
یہ بات بجا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی چیز باوثوق ذرائع سے ثابت ہو جائے، تو اس سے تبرک کا انکار کرنا سر ا سر گمراہی اور انتہا درجہ کی بد بختی ہے،لیکن المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ کو انتہائی حقیر سمجھتے ہوئے سینہ زوری سے کام لیتے ہیں۔اگرکوئی ان سے دلیل و ثبوت کا طالب ہو تو اس پر گستاخ کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں۔
آثار نبویہ مفقود ہو چکے ہیں :
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آثار ِنبویہ مفقود ہو گئے ہیں،اب دُنیا میں ان کا وجود باقی نہیں رہا،جیسا کہ:
b منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم 654ہجری میں جل گیا تھا۔
b امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر اٹھایا گیا تھا۔
(تاریخ یحیی بن معین بروایۃ الدوري : 67/3)
بعد میں اس مبارک چارپائی کا کیا ہوا؟کوئی علم نہیں۔
b اسی طرح سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چھڑی مبارک تھی،جسے وہ ہر وقت اپنی تلوار کے ساتھ باندھ کر رکھا کرتے تھے،ان کی وصیت تھی کہ اس چھڑی کو ان کے کفن کے ساتھ رکھ دیا جائے،چنانچہ اسے ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا۔
(مسند الإمام أحمد : 486/3، وسندہٗ حسنٌ)
امام ابن خزیمہ(982)اور امام ابن حبانH(7160) نے اس حدیث کو ، جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری : 437/2)نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
b سیدنا سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی چادر مبارک مانگی اور وہ چادر ہی ان کا کفن بنی۔(صحیح البخاري : 1277)
b نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک جس پر ’’محمد رسول اللہ‘‘کندہ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی۔ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی انگلی کی زینت بنی۔بالآخر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ انگوٹھی کنویں میں گر گئی،بسیار کوشش کے باوجود نہ مل سکی۔(صحیح البخاري : 5866۔5879)
بیعت ِرضوان والے درخت کا معاملہ :
b سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
رَجَعْنَا مِنَ الْعَامِ المُقْبِلِ، فَمَا اجْتَمَعَ مِنَّا اثْنَانِ عَلَی الشَّجَرَۃِ الَّتِي بَایَعْنَا تَحْتَہَا، کَانَتْ رَحْمَۃً مِّنَ اللّٰہِ ۔
’’ہم(مقام حدیبیہ پر)صلح حدیبیہ کے دوسرے سال آئے،تو ہم میں سے دو آدمی بھی اس درخت کی نشاندہی پر متفق نہ ہو سکے، جس کے نیچے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔‘‘(صحیح البخاري : 2958)
b شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
أَنْ لَّا یَحْصُلَ بِہَا افْتِتَانٌ لِّمَا وَقَعَ تَحْتَہَا مِنَ الْخَیْرِ، فَلَوْ بَقِیَتْ لَمَا أُمِنَ تَعْظِیْمُ بَعْضِ الْجُہَّالِ لَہَا، حَتّٰی رُبَّمَا أَفْضٰی بِہِمْ إِلَی اعْتِقَادِ أَنَّ لَہَا قُوَّۃَ نَفْعٍ أَوْ ضَرٍّ، کَمَا نَرَاہُ الْآنَ مُشَاہَدًا فِیمَا ہُوَ دُونَہَا، وَإِلٰی ذٰلِکَ أَشَارَ ابْنُ عُمَرَ بِقَوْلِہٖ : کَانَتْ رَحْمَۃً مِّنَ اللّٰہِ، أَيْ کَانَ خَفَاؤُہَا عَلَیْہِمْ بَعْد ذٰلِکَ رَحْمَۃً مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی ۔
’’(اسے بیان کرنے کی حکمت یہ ہے کہ)خیر کا جو معاملہ اس درخت کے نیچے رونما ہوا تھا،اس کی وجہ سے لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔اگر وہ باقی رہتا،تو بعض جاہل لوگوں کی طرف سے اس کی تعظیم کرنے کا اندیشہ ردّ نہیں کیا جا سکتا تھا۔یہاں تک کہ لوگ یہ عقیدہ گھڑ لیتے کہ درخت نفع و نقصان کا مالک ہے، جیسا کہ ہم اپنے مشاہدہ میں دیکھ رہے ہیں کہ اس سے کم تر چیزوں سے یہ معاملہ کیا جا رہا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بات میں اسی کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس سال کے بعد اس درخت کا مخفی ہو جانا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 118/6)
b مشہور تابعی سعید بن مسیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیںـ :
کَانَ أَبِي مِمَّنْ بَایَعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الشَّجَرَۃِ، قَالَ : فَانْطَلَقْنَا فِي قَابِلٍ حَاجِّینَ، فَخَفِيَ عَلَیْنَا مَکَانُہَا، فَإِنْ کَانَتْ تَبَیَّنَتْ لَکُمْ؛ فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ ۔
’’میرے والد ِگرامی ان لوگوں میں شامل تھے،جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی تھی۔وہ فرماتے ہیں کہ دوسرے سال جب ہم حج کرنے کے لیے گئے،تو ہمیں درخت والی جگہ نہ ملی۔اگر وہ تمہارے سامنے ظاہر ہو جائے تو تم زیادہ سمجھ دار ہو۔‘‘(صحیح مسلم : 1859)
b شارحِ صحیح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَائُ : سَبَبُ خَفَائِہَا أَلَّا یُفْتَتَنَ النَّاسُ بِہَا لِمَا جَرٰی تَحْتہَا مِنَ الْخَیْرِ وَنُزُولِ الرِّضْوَانِ وَالسَّکِینَۃِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ، فَلَوْ بَقِیَتْ ظَاہِرَۃً مَّعْلُومَۃً لَّخِیفَ تَعْظِیمُ الْـأَعْرَابِ وَالْجُہَّالِ إِیَّاہَا وَعِبَادَتُہُمْ لَہَا، فَکَانَ خَفَاؤُہَا رَحْمَۃٌ مِّنَ اللّٰہ تَعَالٰی ۔
’’علماء ِکرام نے اس کے مفقود ہونے کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ اس درخت کے نیچے جو خیر، خوشنودی اور سکینت وغیرہ ملی تھی،اس کی وجہ سے لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔اگر وہ ظاہر اور معلوم رہتا تو دیہاتی اور جاہل لوگ اس کی تعظیم اور عبادت کرنے لگتے، لہٰذااس کا مخفی رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 5/13)
جب زمین کا ایک ظاہری ٹکڑا صحابہ کرام پر مخفی ہو گیا،توہمارے زمانہ میں قطعیت اور یقین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تبرکات کی نسبت کا دعویٰ ممکن نہیں۔یہ نسل در نسل ثقہ اور معتبر راویوں کے واسطے سے ہم تک نہیں پہنچے، نہ ان کے متعلق دعویٔ تواتر ثابت ہے۔ محض جھوٹے اور بد عقیدہ لوگوں کی باتوں کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ ایسے لوگوں کے بے بنیاد دعووں کا اللہ رب العزت نے ہمیں مکلف نہیں ٹھہرایا،جو دروغ گوئی میں بے باک ہیں۔
موجودہ آثار کے بارے معروف حنفی عالم کی رائے :
برصغیر پاک و ہند کے مشہور حنفی عالم علامہ عبدالحی لکھنوی کی آثارِ انبیا کے بارے میں نصیحت آموز تحریر ملاحظہ ہو:
’’پس ان تمام احادیث و روایات سے اہل ایمان کی نظر میں بہ خوبی ثابت ہے کہ جملہ آثار و مشاہد نبوی سے برکت حاصل کرنا اور ان کی عظمت کرنا اللہ کی نعمتوں میں سے عمدہ نعمت ہے اور اس قسم کی برکت اور تعظیم کا ثبوت خود حضور روحی فداہ اور حضرات صحابہ کرام علیہم السلام کے افعال سے پایا جاتا ہے، لیکن مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ جس طرح ان احادیث سے آثار نبوی کی برکت اور تعظیم کا ثبوت ہوتا ہے، اسی طرح تعظیم اور برکت حاصل کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے، پس جس طرح وہ شخص جو منکر برکت آثار نبویہ ہو، بددین اور گناہ گار ہے،اسی طرح وہ شخص بھی مبتدع اور مخالف سنت سمجھا جائے گا جو طریق مرویہ حدیث کے خلاف تعظیم کا کوئی خاص طریقہ اپنی طرف سے ایجاد کرے، کیونکہ مخالفت ِسنت میں دونوں برابر ہیں اور یہ اس صورت میں ہے کہ جبکہ اس طریقہ مخترعہ میں کوئی امر خاص صریح منہیات شرعیہ اور محرمات یقینیہ سے شامل نہ ہو اور اگر اس طریقہ مخترعہ میں کوئی امر محرمات شرعیہ سے بھی شامل کیا جائے تو ایسی حالت میں دو نقصان ہوں گے، ایک تو طریق خاص کا احداث اور دوسرے محرمات شرعیہ کا ارتکاب اور ان دونوں باتوں کا حکم یہ ہے کہ ان کا مرتکب غیر مستحل فاسق اور مستحل کافر ہے۔
دوسری اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جو برکت اور تعظیم حضور سرور انبیا علیہ التحیۃ والثنا کے آثار کے لیے ثابت ہے، وہ حضور ہی کے آثار کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرے کے آثار کے ساتھ وہ معاملہ کرنا جو آپ کے آثار کے ساتھ مخصوص ہے، حرام ہے۔ پس ضرور ہوا جس کسی خاص جبہ اور خاص لباس اور خاص بال کی نسبت یہ دعوی کیا جائے کہ حضور روحی فداہ کے آثار ہیں تو اول اس بات کا یقین حاصل کیا جائے کہ فی الواقع یہ آثار آپ کے ہیں یا دوسرے شخص کے ہیں، جن کو آپ کی جانب کسی طمع سے نسبت کر دی ہے تاکہ اس یقین سے غیر کے آثار کے ساتھ آنحضرت کے آثار کا ایسا برتائو لازم نہ آئے اور اس قسم کا یقین کا حصول ایسے امور کی نسبت بغیر طریقے کے متعذر ہے، جس کو محدثین رحمہم اللہ نے روایتِ حدیث میں اختیار کیا ہے، کیونکہ اثبات آثار نبوی بھی حدیث ہے،جو رسول سے مروی ہو اور جو حدیثِ رسول سے مروی ہو،اس میں یہی طریقہ مسلوک ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب اُن آثار کا ثبوت ایسے طریق روایت پر موقوف ہو تو اس کی صحت اور عدم صحت بھی صحت اسناد اور عدم صحت اسناد پر موقوف ہو گی اور جب اس کے لیے سند ضعیف بھی میسر نہ ہو تو صرف جاہلوں کے محضرنامے اس کو ثابت نہیں کر سکتے، پس خلاصہ کلام کا یہ ہو گاکہ بلاشبہ تعظیم آثار نبوی علامات ایمان میں سے ہے، جس کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ہوتا ہے،لیکن وہ تعظیم اور تبرک انہیں طرق میں منحصر ہے جو احادیث سے ثابت ہیں اور یہ تعظیم اس بات کی فرع ہے کہ ان آثار و تبرکات کا انتساب حضور سرورکائنات علیہ السلام والصلاۃ کی ذات اقدس کی طرف صحیح ہو اور صحت انتساب صحت روایت پر موقوف ہے، پس جو آثار بصحت روایت ثابت ہیں، بلاشبہ ان کی تعظیم حضرات صحابہyکے طریقہ کے موافق کرنا چاہئے اور ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی شبہ نہیں اور جو بصحت ِروایت ثابت نہ ہوں،اُن کے ساتھ بے تحقیق کیے ہوئے وہ معاملہ کرنا جو آپ کے آثارِ ثابتہ سے کرنا چاہئے، ایسا ہے جیسے بے سند کلام کو حدیث کہنا اور اُس پر عمل کرنا جن کی نسبت سخت وعید وارد ہے۔‘‘(مجموع الفتاوی : 175/3، 176)
ایک بریلوی ’’مفتی‘‘ کی رائے :
بریلوی ’’مفتی‘‘ محمد شریف الحق امجدی(مبارک پور، اعظم گڑھ، یو، پی) نے لکھا ہے:
’’محض شاہی مسجد میں رکھا ہونا کوئی ثبوت نہیں کہ فلاں چیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کی ہوئی ہے، اس کے لیے ثبوت کی حاجت ہے،اس لیے دلیل آپ کے ذمے ہے۔‘‘(فتاویٰ شارح بخاری : 479/1)
موجودہ آثار اور اہل علم :
b شیخ الاسلام،امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)فرماتے ہیں:
ہٰذَا إِذَا کَانَ النَّعْلُ صَحِیْحًا، فَکَیْفَ بِمَا لَا یُعْلَمُ صِحَّتُہٗ، أَوْ بِمَا یُعْلَمُ أَنَّہٗ مَکْذُوْبٌ، کَحِجَارَۃٍ کَثِیْرَۃٍ یَّأْخُذُہَا الْکَذَّابُوْنَ وَیَنْحِتُوْنَ فِیْہَا مَوْضِعَ قَدَمٍ، وَیَزْعَمُوْنَ عِنْدَ الْجُہَّالِ أَنَّ ہٰذَا الْمَوْضِعَِ قَدَمُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’یہ (تعظیم والا معاملہ)تو اس وقت (زیر بحث آ سکتا)ہے،جب ان جوتوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔لیکن اگر ان کی صحت کا علم ہی نہیںیا ان کا جھوٹا ہونا بالکل معلوم ہے،جس طرح بعض جھوٹے لوگ پتھر لے کر اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں کا نقش بناتے ہیں اور پھرجاہلوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس جگہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان ہیں،تو اس صورت ِحال میں ان کی تعظیم کیسے درست ہو سکتی ہے؟‘‘
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم : 337/2)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673۔748ھ)فرماتے ہیں:
وَمِثْلُ ہٰذَا یَقُوْلُہٗ ہٰذَا الْإِمَامُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِیْنَ سَنَۃً، فَمَا الَّذِي نَقُوْلُہٗ نَحْنُ فِي وَقْتِنَا لَوْ وَجَدْنَا بَعْضَ شَعْرِہٖ بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ، أَوْ شِسْعَ نَعْلٍ کَانَ لَہٗ، أَوْ قُلاَمَۃَ ظُفْرٍ، أَوْ شَقَفَۃً مِّنْ إِنَائٍ شَرِبَ فِیْہِ، فَلَوْ بَذَلَ الغَنِيُّ مُعْظَمَ أَمْوَالِہٖ فِي تَحْصِیْلِ شَيْئٍ مِّنْ ذٰلِکَ عِنْدَہٗ، أَکُنْتَ تَعُدُّہٗ مُبَذِّراً أَوْ سَفِیْہاً ؟ کَلاَّ ۔
’’اس طرح کی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پچاس سال بعد اس امام (محمدبن سیرین رحمہ اللہ )نے کہی ہے۔اب اگر ہمارے زمانے میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال،جوتے کے تسمے،ناخن اور برتن کا ٹکڑا،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرمایا کرتے تھے، کا ثبوت صحت ِسند کے ساتھ مل جائے تو ہم کیا کہیں گے؟اگر کوئی امیر آدمی اس کے حصول کی خاطر کثیر زَر خرچ کر دے تو کیا ہم اسے فضول خرچ اور بیوقوف کہیں گے؟نہیں!ہر گز نہیں۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 42/4)
ثابت ہوا کہ علماء ِ کرام تبرکات ِنبویہ میں سند کو صحت اور عدمِ صحت کے لیے بنیاد بناتے ہیں،جبکہ جاہل اور ظالم لوگوں کو سند سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
b محدث العصر ، ناصر السنہ، علامہ البانی رحمہ اللہ (1322۔1420ھ)لکھتے ہیں:
ہٰذَا وَلاَ بُدَّ مِنَ الْإِشَارَۃِ إِلٰی أَنَّنَا نُؤْمِنُ بِجَوَازِ التَّبَرُّکِ بِآثَارِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلاَ نُنْکِرُہٗ خِلَافاً لِّمَا یُوْہِمُہٗ صَنِیْعُ خُصُوْمِنَا، وَلٰکِنْ لِّہٰذَا التَّبَرُّکِ شُرُوْطاً؛ مِّنْہَا الْإِیْمَانُ الشَّرْعِيُّ الْمَقْبُوْلُ عِنَدَ اللّٰہِ، فَمْنَ لَّمْ یَکُنْ مُّسْلِماً صَادِقَ الْإِسْلَامِ؛ فَلَنْ یُّحَقِّقَ اللّٰہُ لَہٗ أَيَّ خَیْرٍ بِتَبَرُّکِہٖ ہٰذَا، کَمَا یُشْتَرَطُ لِلرَّاغِبِ فِي التَّبَرُّکِ أَنْ یَّکُوْنَِ حَاصِلاً عَلٰی أَثَرٍ مِّنْ آثَارِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَسْتَعْمِلُہٗ، وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ آثَارَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ثِیَابٍ أَوْ شَعْرٍ أَوْ فُضْلاَتٍ قَدْ فُقِدَتْ، وَلَیْسَ بِإِمْکَانِ أَحَدٍ إِثْبَاتُ وُجُوْدِ شَيْئٍ مِّنْہَا عََلٰی وَجْہِ الْقَطْعِ وَالْیَقِیْنِ، وَإِذَا کَانَ الْـأَمْرُ کَذٰلِکَ؛ فَإِنَّ التَّبَرُّکَ بِہٰذِہٖ الْآثَارِ یُصْبِحُ أَمْراً غَیْرَ ذِي مَوْضُوْعٍ فِي زَمَانِنَا ہٰذَا، وَیَکُوْنُ أَمْراً نَّظَرِیًّا مَّحْضًا، فَلاَ یَنْبَغِي إِطَالَۃُ الْقَوْلِ فِیْہٖ ۔
’’ہم ضرور آثارِ نبویہ سے تبرک کے جواز پر ایمان لاتے ہیں،اس کا انکار نہیں کرتے، لیکن مخالفین ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ہمارے نزدیک تبرک حاصل کرنے کی کچھ شروط ہیں،ان میں سے ایک شرط شریعت پر ایسا ایمان ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو۔جو شخص سچا مسلمان نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اسے آثارِ نبویہ سے تبرک میں کوئی خیر نہیں دیتا۔اسی طرح تبرک حاصل کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ آثار بھی ہوں،جن سے وہ تبرک لیتا ہو۔مگر ہمیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال،لباس اور دیگر آثار مفقود ہو چکے ہیں۔اب کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ انہیں یقینی اور قطعی طور پر ثابت کر سکے۔ جب معاملہ یہ ہے تو ہمارے زمانے میں آثار ِنبویہ سے تبرک لینا بے جا ہے۔یہ محض ایک خیالی معاملہ ہے،جس پر لمبی گفتگو کرنا نامناسب ہے۔‘‘
(التوسل وأنواعہ و أحکامہ، ص : 144، وفي نسخۃ : 162,161)
خودساختہ تبرکات کے بارے میں بریلوی موقف :
اہل علم کی رَوَش کے خلاف امامِ بریلویت،احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
’’ایسی جگہ ثبوت یقینی باسند محدثانہ کی اصلاً حاجت نہیں،اس کی تحقیق و تنقیح کے پیچھے پڑنا اور بغیر اس کے تعظیم و تبرک سے باز رہنا سخت محرومی کم نصیبی ہے۔ائمہ دین نے صرف حضور اقدس کے نام سے اُس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ : 412/21)
نہ معلوم وہ کون سے ائمہ دین ہیں،جوآثار ِنبویہ کے لیے سند کو بنیاد نہیں بناتے،بلکہ جھوٹی شہرت پر اکتفا کر لیتے ہیں،ان لوگوں کے اپنے مَن پسند اصول ہیں۔ہم ثبوتوں کے ساتھ بیان کر چکے ہیں علماء ِ کرام تو اس کے لیے سند کو ضروری سمجھتے ہیں۔
ہم توکہتے ہیں کہ تحقیق کے پیچھے نہ پڑنا اور بغیر تحقیق کے تعظیم وتبرک میں پڑنا کم نصیبی اور محرومی ہے۔
جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب لکھتے ہیں:
’’تبرکات کے ثبوت کے لیے مسلمانوں میں یہ مشہور ہونا کہ یہ حضور کے تبرکات ہیں، کافی ہے۔‘‘(جاء الحق: 376/1)
نکاح و ولدیت کا ثبوت اور تبرکات :
جناب احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
’’ہم کہتے ہیں کہ ہم فلاں کے بیٹے فلاں کے پوتے ہیں، اس کا ثبوت نہ قرآن میں ہے نہ حدیث سے،نہ ہماری والدہ کے نکاح کے گواہ موجود،مگر مسلمانوں میں اس کی شہرت ہے،اتنا ہی کافی ہے، اسی طرح یادگاروں کے ثبوت کے لیے صرف شہرت معتبر ہے۔‘‘(جاء الحق: 376/1)
بریلوی حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کا معاملہ عام دعووں سے مختلف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کو منسوب کرنا دلیل و ثبوت کا متقاضی اور احتیاط طلب معاملہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی اثر کو منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک فعل کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جا رہی ہے۔اس کی مثال یوں لیں کہ کسی جوتے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جوتا پہنا کرتے تھے۔یوں یہ ایک حدیث ہے اور کسی جھوٹی حدیث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کا انجام یہ ہے :
’مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا؛ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘ ۔
’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 1291، صحیح مسلم : 3)
رہی یادگاروں کی بات،تو جن یادگاروں کے متعلق واقعات قرآن و حدیث میں موجود ہیں یا وہ تواتر کے ساتھ ثابت ہیں،ان کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہو سکتا، لیکن جو یادگاریں بغیر ثبوت کے کسی کی طرف منسوب ہیں،وہ بھی مشکوک ہی ہوں گی۔
موجودہ دَور کے خود ساختہ اور جعلی تبرکات بھی تواتر سے ثابت نہیں،لہٰذا انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔
باقی جو نکاح کی بات کی گئی ہے،تو شریعت نے اس میں گواہوں کی موجودگی اسی لیے ضروری اور لازمی شرط کے طور پر رکھی ہے کہ اس کے ثبوت میں کوئی دقت نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ نکاح علی الاعلان کیا جاتا ہے اور دو خاص گواہوں کے علاوہ باقی سارے لوگ بھی اس نکاح کے گواہ ہی ہوتے ہیں۔دو لوگوں کو خاص طور پر گواہ اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اگر اس بارے میں کوئی قانونی پیچیدگی ہوتی ہے،تو یہ لوگ عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کر سکیں۔جب پورے علاقے والے لوگ نکاح کے گواہ ہوتے ہیں،تو موجودہ اور آنے والی تمام نسلوں کو بھی یہ گواہی پہنچتی جاتی ہے۔اگر کسی شخص کے نکاح کے دونوں گواہ فوت ہو چکے ہوں،تو کیا عدالت میں اس کے نکاح کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکے گا؟
اس کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب تبرکات کو ثابت کرنا ممکن ہی نہیں۔محدثین اور اہل علم نے اس کے لیے تواتر یا سند ِصحیح کی شرط لگائی ہے اور موجودہ تبرکات کو خود حنفی اہل علم نے بھی مسترد کر دیا ہے،جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔
نعیمی صاحب ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان سے پوچھا گیا کہ جناب کا اسم شریف کیا ہے؟فرمانے لگے: عبدالرحمن، والد مہربان کا اسم گرامی کیا ہے؟ فرمایا کہ عبد الرحیم، ہم نے پوچھا کہ اس کا ثبوت کیا ہے؟کہ آپ عبدالرحیم صاحب کے فرزند ہیں؟ اولاً تو اس نکاح کے گواہ نہیں، اگر کوئی ہو بھی تو وہ صرف عقد نکاح کی گواہی دے گا، یہ کیسے معلوم ہوا کہ جناب کی ولادت شریف ان کے ہی قطرے سے ہے،رُک کر بولے کہ جناب مسلمان کہتے ہیں کہ میں ان کا بیٹا ہوں اور مسلمانوں کی گواہی معتبر ہے، ہم نے کہا: جب مسلمان کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کا بال شریف ہے اور مسلمانوں کی گواہی معتبر ہے، شرمندہ ہو گئے۔‘‘(جاء الحق:378/1)
جناب نعیمی صاحب یہاں خلط ِمبحث سے کام لے رہے ہیں۔بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کی نسبت کی ہو رہی ہے،جس کے بارے میں بڑی وضاحت و صراحت سے یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت جہنم میں جانے کا باعث ہے۔اس کے برعکس شریعت ہی نے یہ بتایا ہے کہ اگر کسی کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے،تو وہ اسی کی طرف منسوب ہو گا۔اگر کوئی شخص یہ بھی دعویٰ کر دے کہ میں نے اس کی ماں کے ساتھ زنا کیا تھا اور یہ میرا بچہ ہے،تو بھی اس کا دعویٰ مسترد کر دیا جائے گا۔یہ بچہ تو اسی کا ہو گا،جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے،جبکہ زنا کا دعویٰ کرنے والے کو زنا کی سزا دی جائے گی، جیسا کہ :
n رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ‘ ۔
’’بچہ بستر(والے)کا ہی ہو گا،البتہ (شادی شدہ)زانی کے لیے(زنا کی سزا کے طور پر)پتھر ہیں۔‘‘(صحیح البخاري : 6749، صحیح مسلم : 1457)
اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا نہیں تو اس نے اس پر حرامی ہونے کا دعویٰ کیا ہے،اس دعویٰ پر اسے چار گواہ پیش کرنا ہوں گے،ورنہ اسے کوڑے لگائے جائیں گے،مگر تبرکات کے متعلق کوئی دعویٰ کر دے کہ یہ تبرکات اصلی نہیں تو اس کو گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں،البتہ تبرکات کے اصلی ہونے کے دعویدار پر ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا تبرکات کو نکاح یا کسی کے حلالی و حرامی ہونے کے دعوے پر قیاس کرنا باطل اور کم عقلی ہے۔
ایک جھوٹے نقشِ پا کا قصہ :
حالیہ واقعہ ہے، موضع ’’دھرابی‘‘ضلع چکوال میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم کا نشان باقی ہے۔ قبوری لوگ قافلوں کی صورت میں وہاں پہنچے،لیکن بہت جلد اس جھوٹے دعویٰ کی قلعی کھل گئی۔
ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تبرکات کا معاملہ دین اور عقیدہ کا مسئلہ ہے،اسے جھوٹے لوگوں کے رحم و کرم پر مت چھوڑا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آثارِ نبوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر مد نظر رکھنا چاہیے،احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے۔اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا مسئلہ بڑا سخت ہے،یہ جھوٹے دعوے روزِ قیامت وبالِ جان بن جائیں گے۔
تبرکات نبویہ کی تشبیہ :
آثارِ نبویہ سے تبرک حاصل کرنا حق ہے،مگر تبرک اس طریقہ سے حاصل کیا جائے،جیسے صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین حاصل کیا کرتے تھے۔آج کل بعض لوگوں نے دین میں غلو کرتے ہوئے تبرکات کی شبیہات بنا لی ہیں۔اسی طرح نعلین کریمین کی فرضی اور مصنوعی تصاویر جھنڈیوں کی زینت بنتی ہیں۔
اولاً تو جن نعلین کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے،وہ نسبت ثابت ہی نہیں۔ ثانیاًآثار ِنبویہ کی فرضی تصاویر اور تشبیہ سے تبرک حاصل کرنا بری بدعت ہے۔صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین اس سے ناواقف تھے۔خیرالقرون میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔یہ کام ایجادِ دین ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا ہر گز یہ تقاضا اور مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی شبیہ بنا لی جائے،اس فرضی تصویر اور شبیہ کی وہی تعظیم و تکریم بجا لائی جائے،جو اصلی تبرکات کی بھی جائز نہیں۔تبرکات کی تصویر بدعت اور منکر کام ہے۔یہ شرک تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔اگر کوئی ان غالیوں سے دلیل کا طلب گار ہو تو اسے گستاخ کہہ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ان تصاویر اور شبیہات کو مصنوعی اور فرضی کہہ دے تو اسے طرح طرح کے فتووں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر کوئی فرضی تصاویر کو ختم کردے تو اسے گستاخِ رسول قرار دیا جاتا ہے،بلکہ اس کے خلاف طوفانِ بد تمیزی برپا کر دیا جاتا ہے۔
ان لوگوں کی اول تا آخر یہی کوشش ہے کہ لوگ حقائق کو نظر انداز کر کے ان فرضی تصاویر کے پیچھے لگ جائیں۔
آثار نبویہ کی شبیہات اور اسلافِ امت :
امام بریلویت احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
’’بالجملہ مزار اقدس کا نقشہ تابعین کرام اور نعل مبارک کی تصویر تبع تابعین اعلام سے ثابت اور جب سے آج تک ہر قرن و طبقہ کے علماو صلحا میں معمول و رائج، ہمیشہ اکابر دین ان سے تبرک اور ان کی تکریم تعظیم رکھتے آئے ہیں۔‘‘
(شفاء الوالہ في صور الحبیب و مزارہ و نعالہ، مندرج في فتاویٰ رضویۃ : 456/2)
تابعین اور اکابرِ دین کی طرف اس بات کی نسبت کو اگر نرم سے نرم الفاظ میں بھی بیان کیا جائے،تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات کا سیاہ ترین جھوٹ ہے۔ اس کا ثبوت قیامت تک ممکن نہیں۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ لوگ سلف صالحین پر جھوٹ باندھنے سے ذرہ برابر بھی عار محسوس نہیں کرتے۔
نعلین کی شبیہ پر ایک دلیل کا جائزہ :
بعض لوگ نعلین کی شبیہ بنانے کے جواز پر ایک واقعہ پیش کرتے ہیں،جسے حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے۔آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :
قَالَ عَبْدُ الْعَزِیْزِ : وَأَخْرَجَ إِلَيَّ أَبُوْ طَالِبٍ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْحَسَنِ تِمْثَالاً، فَذَکَرَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ مُّحَمَّدَ بْنَ عَدِيِّ بْنِ عِلِيِّ بْنِ زَحْرَ الْمُنْقَرِيَّ أَخْرَجَ إِلَیْہِ تِمْثَالاً، فَذَکَرَ أَنَّ أَبَا عُثْمَانَ سَعِیْدَ بْنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ التُّسْتُرِيَّ أَخْرَجَ إِلَیْہِ تِمْثَالًا، فَذَکَرَ أَنَّہٗ تِمْثَالٌ لِّنَعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّ أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْفَزَارِيَّ أَخْرَجَ ذٰلِکَ إِلَیْہِ بِأَصْبَہَانَ وَحَدَّثَہٗ بِہٖ، قَالَ : وَنَا أَبُوْ طَالِبٍ، قَالَ : وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَدِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ زَحْرٍ الْمُنْقَرِيُّ : حَدَّثَنِي سَعِیْدُ بْنُ الْحَسَنِ التُّسْتُرِيُّ بِتُسْتُرَ : أَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَلْفَزَارِيُّ، قَالَ : قَالَ أَبُوْ اِسْحَاقَ إِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ : قَالَ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ إِسْمَاعِیْلُ ابْنُ أَبِي أُوَیْسٍ، وَاِسْمُ أَبِي أُوَیْسٍ؛ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُوَیْسِ ابْنِ مَالِکِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْـأَصْبَحِيُّ، قَالَ : کَانَتْ نَعْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِي حُذِیَتْ ہٰذِہِ النَّعْلُ عَلٰی مِثَالِہَا؛ عِنْدَ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُوَیْسٍ الْحَذَّائِ، فَحَذَا مِثَالَ ہٰذَا النَّعْلِ بِحَضْرَتِہٖ عَلٰی مِثَالِ نَعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَہَا سَوائً، وَلَہَا قِبَالاَنِ ۔
’’۔۔۔ابو عبداللہ اسماعیل اصبحی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک اسی طرح کے تھے،جس طرح اسماعیل بن عبداللہ بن اویس موچی کے پاس ان کی بنی ہوئی شبیہ تھی۔اس(اسماعیل موچی)نے ان کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں جیسے جوتے بنائے،جن کے دو تسمے تھے۔‘‘(تاریخ دمشق : 363,362/27)
لیکن یہ روایت ایک جھوٹا سلسلہ ہے،کیونکہ :
1 اس کے راوی ابو طالب عبداللہ بن حسن بن احمد بن حسن بن مثنی بصری کی توثیق نہیں مل سکی۔
2 ابو بکر محمد بن عدی بن علی بن عدی بن زحر منقری بصری کی توثیق درکار ہے۔
3 ابو عثمان سعید بن حسن بن علی تستری کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
4 احمد بن محمد فزاری کا تعین اور توثیق مطلوب ہے۔
اس سند پر نامعلوم اور مجہول راویوں کا قبضہ ہے اور یہ انہی میں سے کسی ایک کی کارستانی ہے،جو بعض غالیوں کے ہاتھ لگ گئی ہے، انہوں نے اسے اپنا دین بنا لیا ہے۔
یہ تھی آثار ِنبویہ کی شبیہات کے جواز پر بعض الناس کی کل کائنات،جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس کے علاوہ کچھ ہے تو پیش کرے، ورنہ مان لے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نعلین کی تصویر بنا کر اور اس کے جھوٹے فوائد بیان کرنا دین میں دخل اندازی ہے۔ جو لوگ دین میں دخل اندازی کرتے ہیں،ان کا حشر روزِ قیامت ان لوگوں کے ساتھ ہو گا، جنہیں اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں بندر اور خنزیر بنادیا تھا۔
قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یا حجرئہ عائشہ کی شبیہ بنا کر اس کی تکریم و تعظیم کرنا قبیح بدعت ہے، اس کا موجد کون تھا؟ کچھ معلوم نہیں، کسی ثقہ مسلمان سے ایسا کرنا قطعاً ثابت نہیں۔
اس کے باوجود امامِ بریلویت، احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
’’رہا نقشہ روضۂ مبارکہ، اس کے جواز میں اصلاً مجال سخن و جائے دم زدن نہیں، جس طرح ان تصویروں کی حرمت یقینی ہے،یوں ہی اس کا جواز اجماعی ہے۔‘‘
(فتاویٔ رضویہ : 439/21)
لیکن یہ دعویٔ اجماع سفید جھوٹ ہے۔یہ اجماع غالیوں کی کسی بند کوٹھڑی میں ہی ہوا ہوگا۔اجماع تو در کنار،۔کسی ایک صحیح العقیدہ سنی مسلمان سے اس کا جواز ثابت کرنا نا ممکن ہے۔
قبر نبوی سے تبرک اور سلف صالحین :
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تبرکات میں سے نہیں ہے، مبارک ضرور ہے، کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں، متبرک اس لیے نہیںکہ صحابہ کرام اور خیر القرون میں کوئی اس کا قائل نہیں۔
بعض لوگ بلا دلیل قبر مبارک سے تبرک کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جیسا کہ قاضی ابو الحسن علی بن عبد الکافی، سبکی(683۔756ھ) لکھتے ہیں:
وَأَنَّ مَعْلُوْمًا مِّنَ الدِّیْنِ وَسِیَرِ السَّلَفِ الصَّالِحِیْنَ التَّبَرُّکُ بِبَعْضِ الْمَوْتٰی مِنَ الصَّالِحِیْنَ، فَکَیْفَ بِالْـأَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ، وَمَنِ ادَّعٰی أَنَّ قُبُوْرَ الْـأَنْبِیَائِ وَغَیْرِھِمْ مِّنْ أَمْوَاتِ الْمُسْلِمِیْنَ سَوَائٌ؛ فَقَدْ أَتٰی أَمْرًا عَظِیْمًا نَّقْطَعُ بِبُطْلانِہٖ وخَطَئِہٖ فِیْہِ، وَفِیْہِ حَطٌّ لِّمَرْتَبَۃِ النبَِّيِّ إِلٰی دَرَجَۃِ مَنْ سِوَاہٗ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَذٰلِکَ کُفْرٌ بِیَقِیْنٍ، فَإِنَّ مَنْ حَطَّ رُتْبَۃَ النَّبِيِّ عَمَّا یَجِبُ لَہٗ؛ فَقَدْ کَفَرَ، فَإِنْ قَالَ : إِنَّ ھٰذَا لَیْسَ بِحَطٍّ، وَلٰکِنَّہٗ مَنْعٌ مِّنَ التَّعْظِیْمِ خَوْفاً کَمَا یَجِبُ لَہٗ، قُلْتُ : ہٰذَا جَہْلٌ وَّسُوْئُ أَدَبٍ ۔
’’دین اور سلف صالحین کی سیرت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بعض نیک فوت شدگان سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے تو انبیا اور رسولوں سے کیوں جائز نہیں؟جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انبیائِ کرام کی قبریں اور عام مسلمانوں کی قبریں برابر مقام رکھتی ہیں،اس نے اتنی بڑی بات کہی ہے کہ جس کے غلط اور باطل ہونے پر ہمیں یقین ہے۔جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو عام مسلمان کے برابر سمجھا، تو یقینا یہ کفر ہے اور جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ کم کیا،یقینااس نے بھی کفر کیا۔ اگر وہ کہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گھٹانا نہیں ہے،بلکہ تعظیم میں مبالغہ سے روکنے کے لیے ہے،تو میں کہتا ہوں کہ یہ جہالت اور بے ادبی ہے۔‘‘
(شفاء السقام في زیارۃ خیر الأنام، ص : 312)
دین اسلام یا خیر القرون کے سلف صالحین میں کسی سے قبروں سے تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں۔ہر بدعتی قبروں سے تبرک کا تو قائل ہے،مگر دلیل اور ثبوت فراہم کرنے سے عاجزو قاصر ہے۔رہا انبیا و مرسلین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا،۔تو یہ بھی دین میں نئی بات ہے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین اعلام سے ایسا کرنا ثابت نہیں۔وہ دین ہی کیا جو خیر القرون میں موجود نہیں تھا؟محض بے بنیاد دعووں کا کوئی فائدہ نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمان آدمی کی قبر کو کوئی مسلمان برابر نہیں سمجھتا۔یہ محض بد گمانی ہے۔بھلا کوئی سچا مسلمان کیسے سمجھ سکتا ہے کہ ایک قبر مبارک میں پیغمبر کا جسدِ اقدس ہو، دوسری میں عام اُمتی کا،تو دونوں قبریں برابر مقام رکھتی ہیں؟ہاں!عدمِ تبرک میں قبررسول اور قبر اُمتی کا مسئلہ ایک جیسا ہے،قبر رسول مبارک ہے، متبرک نہیں۔اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نقص کا کوئی پہلو نہیں،تعظیم وہی ہے، جسے قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہو اور خیر القرون میں جسے اپنایا گیا ہو، اس بات میں جہالت یا سوء ِ ادب کا شائبہ تک نہیں۔
قبر نبوی سے عدمِ تبرک کے قائلین کو جہالت یا سوئِ ادب کا طعنہ دینا،دراصل سلف صالحین کو مطعون کرنے کی کوشش ہے۔سلف صالحین میں سے کسی ایک ایسے شخص کا نام بتایا جائے،جو قبر نبوی سے تبرک کا قائل و فاعل ہو۔اگر ایسا ممکن نہیں،تو انصاف سے بتایا جائے کہ کیا قبروں سے تبرک کا نظریہ سلف صالحین کے اجماعی عقیدہ کی مخالفت نہیں؟
نقشِ نعلین سے تبرک :
نقش نعلین سے تبرک بھی بدعت ہے،کیونکہ نقش نعلین بذات خود منکر اور بدعت ہے،جیسا کہ آپ نے معلوم کر لیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کریمین سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے،جیسا کہ :
b عیسیٰ بن طہمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أَخْرَجَ إِلَیْنَا أَنَسٌ نَّعْلَیْنِ جَرْدَاوَیْنِ، لَہُمَا قِبَالاَنِ، فَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ البُنَانِيُّ بَعْدُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّہُمَا نَعْلاَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے والے دو جوتے لائے،جن کے دو تسمے تھے۔اس کے بعد مجھے ثابت بنانی رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ نعلین کریمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 438/1،ح : 3107)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بعد یہ مبارک جوتے کس کے پاس تھے،اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لہٰذا آج کل جو لوگ نعلین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں،یہ نسبت غلط ہے۔جب یہ نسبت ہی ثابت نہیں تو نقش نعلین بنا کر اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جوتوں کا نقش قرار دینا جرم عظیم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آثار نبویہ سے جیسے صحابہ کرام نے تبرک حاصل کیا،ویسے ہی تبرک حاصل کرنا جائز ہو گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نعلین کا نقشہ بنا رکھا ہے، جو کہ فرضی اور مصنوعی ہے، اس کے جھوٹے فوائد بتائے جاتے ہیں، جھوٹے تجربات بیان کیے جاتے ہیں،مثلاً: جس لشکر میں یہ نقشہ ہو گا؛وہ فتح یاب ہو گا، جس قافلے میں ہو گا؛بہ حفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا،جس کشتی میں ہو گا؛ وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی،جس گھر میں ہو گا؛ وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا؛ وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لیے صاحب ِنعلین سے توسل کیا جائے، تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے تنگی فراخی میں تبدیل ہو جائے گی۔
نقشِ نعلین کے فوائد و برکات میں یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ جو شخص اس کو حصول برکت کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھے گا تو اس کی برکت سے وہ شخص ظالم کے ظلم، دشمنوں کے غلبہ، شیاطین کے شر اور حاسدین کی نظر بد سے محفوظ رہے گا، اسی طرح اگر کوئی حاملہ عورت شدتِ دردِ زہ میں اس کو اپنے دائیں پہلو میں رکھ لے، تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیئت سے اس خاتون پر آسانی فرمائے گا۔ اس نقشِ نعلین کی برکتوں میں سے یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ نظر بد اور جادو ٹونے سے آدمی امان میں رہتا ہے، نیز حادثات سے بچائو کے لیے بھی اسے اکسیر بتایا جاتا ہے۔
یہ سب خودساختہ اور جھوٹی باتیں ہیں۔ نقش نعلین سے تبرک حاصل کرنے میں ان کا سلف کون ہے؟ ایک مصنوعی نقشہ کے متعلق یہ کہنا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک جوتیوں کا نقش ہے اور پھر اس کے فوائد و برکات بیان کرنا کون سا دین ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ ان منسوب نعلین کی تمہارے پاس آخر کیا دلیل ہے؟مگر وہ دلیل پیش کرنے کے بجائے ہمیں گمراہ، بے دین،بیمار دل اور ناپاک تک کہہ دیتے ہیں۔ہم اس اختلاف کا فیصلہ اللہ رب العالمین پر چھوڑتے ہیں،جو وہ روزِ قیامت فرمائیںگے، ان شاء اللہ!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آثار کی تعظیم وہی ہے،جو دین سے ثابت ہو اور جسے خیر القرون کے مسلمانوں نے اختیار کیا ہو۔
منسوب تبرکات کی زیارت :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹے تبرکات کی زیارت ہوتی ہے،باقاعدہ مخصوص مہینے، مخصوص تاریخ اور مخصوص موقع کے اعلانات ہوتے ہیں،اشتہار چھپتے ہیں۔ وہاں کیا کچھ ہوتا ہے،کسی پر مخفی نہیں۔ان تبرکات کو مس کیا جاتا ہے، انہیں بوسہ دیا جاتا ہے، جسموں پر ملا جاتا ہے، ان کی زیارت باعث خیر و برکت اور کارِ اجر و ثواب سمجھی جاتی ہے۔
اخلاقی حوالے سے بھی کئی قباحتیں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں، مرد و زن کا اختلاط ہوتا ہے، بے حیائی اور بے پردگی عروج پر ہوتی ہے،نوخیز لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے ہوتے ہیں،تصاویر اتاری جاتی ہیں، شرم و حیا کا جنازہ نکالا جاتاہے، دین کے نام پر بے غیرتی، عریانی اور فحاشی کو فروغ دیا جاتا ہے، عورتیں بن ٹھن کر نیم برہنہ ہو کر گھروں سے نکلتی ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے حنفی عالم عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں:
’’جب یہ تمام اور ظاہر ہو چکے تو مسائل کو سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ مذکورہ سوال کے موافق موئے مبارک کی زیارت کراتے ہیں، وہ بدعات و مخترعات کے پابند ہیں، روایت مذکورہ بالا کے موافق جب حضرت ام سلمہ سے موئے مبارک کا پانی مریض کے لیے مانگا گیا تو انہوں نے نہ ڈول تاشہ بجوایا،نہ قرآن خوانی کرائی، نہ مجلس مرتب کی، نہ وقت مقرر کیا، نہ تاریخ معین کی، غرض کسی قسم کے تعینات خاصہ سے اس کو مفید نہیں کیا، بلکہ اس کی برکت کو ہر وقت میں قابل استفادہ خیال کیا، بخلاف اس صورت کے جس کو سائل نے بیان کیا ہے، جس میں تعین ماہ و یوم و تاریخ کو امر ضروری اور ازدیاد ثواب میں مؤثر خیال کیا ہے، جس کی سنت نبویہ میں کوئی اصل نہیں ہے اور تداعی اور انعقاد محافل خاصہ کو ضروری خیال کیا ہے، اس میں نوبت و نکارہ اور جملہ مزامیر مہیا کیے جاتے ہیں، جو سراسر شیاطین کے افعال ہیں، مالیدہ موئے مبارک بھی بطور نذر لغیر اللہ کیا جاتا ہے اور تبرک کی طرح بانٹا جاتا ہے،حالانکہ اس سے انتفاع حرام قطعی ہے، غزلیں گاتے ہیں، حالانکہ ایسے راگ بالاتفاق حرام ہیں، پس برکت حاصل کرنا جو زائد سے زائد مستحب ثابت ہو گا، ایسے محرمات شرعیہ کے ارتکاب کا باعث ہوا جن سے اجتناب واجب ہے اور ظاہر ہے جس امر مستحب کے ارتکاب سے ترک واجب لازم آئے ،اس کا ترک کرنا واجب ہے،پس اس صورت میں ہر گز شریعت اس بات کی اجازت نہ دے گی کہ ایسی بدعات کے ساتھ اس امر مستحب کا ارتکاب صحیح ہو اور اس کا نفس استحباب بھی اس صورت میں مسلّم ہے، جب ثابت ہوجائے کہ واقعی یہ موئے مبارک حضور ہی کا ہے اور اگریہ امر پایہ ثبوت کو نہ پہنچے تو ایسے جلسے میں بقصد تبرک حاضر ہونا بھی جائز نہیں اور موئے مبارک پر نذر ماننا اور چڑھاوا چڑھانا حرام ہے، کیونکہ نذر عبادت ہے اور غیر خدا کی عبادت حرام ہے۔‘‘
(مجموع الفتاویٰ : 178,177/3)
منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک :
منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبارک تھا،کیونکہ اسے نبی کریم کے جسد ِاقدس کا لمس نصیب ہوا تھا۔ صحابہ کرام اس کو چھو کر دُعا کیا کرتے تھے،جیسا کہ :
b یزید بن عبد اللہ بن قسیط بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ نَفَرًا مِّنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذَا خَلَا لَہُمُ الْمَسْجِدُ؛ قَامُوا إِلٰی رُمَّانَۃِ الْمِنْبَرِ الْقَرْعَائَ، فَمَسَحُوہَا وَدَعَوْا، قَالَ : وَرَأَیْتُ یَزِیدَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ ۔
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو دیکھا،جب مسجد خالی ہو جاتی تو وہ بوسیدہ منبر کے پاس جا کر اسے ارد گرد سے مس کرتے اور دعا مانگتے،میں نے یزید کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘(مصنف ابن أبی شیبۃ : 120/4، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 196/1، وسندہٗ صحیحٌ)
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عام تبرکات کی طرح یہ معاملہ بھی صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر مبارک کے ساتھ خاص تھا۔کسی نیک بزرگ کے منبر یا بیٹھنے کی جگہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
اسی ضمن میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں:
إِنَّہٗ نَظَرَ إِلَی ابْنِ عُمَرَ وَضَعَ یَدَہٗ عَلَی مَقْعَدِ النَّبِیِّ صلّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ وَضَعَہَا عَلٰی وَجْہِہٖ ۔
’’میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر بیٹھنے والی جگہپر ہاتھ رکھا،پھر اسے اپنے چہرے پر پھیر لیا۔‘‘
(الطبقات لابن سعد : 196/1، وفي نسخۃ : 254/1)
لیکن اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کے راوی ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبدالقاری کی امام ابن حبان(الثقات:9/4)کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی،لہٰذا یہ ’’مجہول الحال‘‘ ہے۔ مجہول راویوں کی روایات مقبول نہیں ہوتیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اب دنیا میں نہیں رہا،بلکہ وہ جل گیا تھا،جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، لہٰذا اب منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک لینا ممکن نہیں۔
حصول تبرک کے لیے قرب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن ہونے کی خواہش :
تبرک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں دفن ہونے کی خواہش کرنے کی کوئی اصل نہیں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خواہش تھی کہ وہ اپنے حجرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد ِگرامی،سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہوں۔دوسری طرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خواہش ظاہر کی کہ وہاں مجھے دفن ہونے کی اجازت دے دی جائے۔اس پر سیدہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف و ستائش کی اور بوقت ِوفات فرمایا کہ میری میت کو اٹھا کر لے جانا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوبارہ اجازت طلب کرنا،اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن کر دینا۔
جب اجازت مل گئی ،توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا،اس کے الفاظ یہ ہیں:
مَا کَانَ شَيْئٌ أَہَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذٰلِکَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ؛ فَاحْمِلُونِي، ثُمَّ سَلِّمُوا، ثُمَّ قُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِي، فَادْفِنُونِي، وَإِلَّا؛ فَرُدُّونِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِینَ ۔
’’مجھے اور کوئی چیز اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ محبوب نہیں۔جب میری روح قبض ہو جائے،تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور دوبارہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر گزارش کرنا:عمر( رضی اللہ عنہ )نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔اگر اس وقت مجھے اجازت دے دیں، تو مجھے وہاں دفن کر دینا،ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘(صحیح البخاري : 1392)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن ہونے کی خواہش کا اظہار حصولِ برکت کے لیے نہیں،بلکہ شرف و عزت کے لیے کیا تھاکہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دفن ہونے کا شرف حاصل ہو جائے۔یہ بڑی عزت کی بات ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی ارادہ تھا۔حدیث کے الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں :
فَأَذِنَتْ لَہٗ، حَیْثُ أَکْرَمَہُ اللّٰہُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَکْرٍ ۔
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حجرۂ نبوی میں دفن ہونے کی اجازت دے دی۔یوں اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (دفن ہونے کا)شرف نصیب فرمایا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 576/14، وسندہٗ صحیحٌ)
یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن تبرک کی غرض سے تھا،بے دلیل ہے،نیز یہ فہم سلف صالحین کے بھی خلاف ہے۔
تنبیہ 1 :
اس سلسلے میں بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں،اس کا علمی و تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے:
سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ اَلْوَفَاۃُ أَقْعَدَنِي عِنْدَ رَأْسِہٖ، وَقَالَ لِي : یَا عَلِيُّ، إِذَا أَنَا مِتُّ؛ فَغَسِّلْنِي بِالْکَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِہٖ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَحَنِّطُوْنِي، وَاذْہَبُوْا بِي إِلَی الْبَیْتِ الَّذِي فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذِنُوْا، فَإِنْ رَّأَیْتُمُ الْبَابَ قَدْ یُفْتَحُ؛ فَادْخُلُوْا بِي، وَإِلاَّ فَرُدُّوْنِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِیْنَ، حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَ عِبَادِہٖ، قَالَ : فَغُسِّلَ وَکُفِنَ، وَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ یَّأْذَنُ إِلَی الْبَابِ، فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ مُّسْتَأْذِنٌ، فَرَأَیْتُ الْبَابَ قَدْ تُفْتَحُ، وَسَمِعْتُ قَائِلاً یَّقُوْلُ : أَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ إِلٰی حَبِیْبِہٖ، فَإِنَّ الْحَبِیْبَ إِلَی الْحَبِیْبِ مُشْتَاقٌ ۔
’’جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا،توانہوں نے مجھے اپنے سر کی جانب بیٹھایا۔فرمایا: علی!جب میں فوت ہو جائوں، تو مجھے اس ہتھیلی سے غسل دینا،جس سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا تھا۔پھر مجھے خوشبو لگا کر اس گھر کی طرف لے جانا،جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں۔جاکر اجازت طلب کرنا۔اگر آپ دیکھیں کہ دروازہ کھل رہا ہے،تو مجھے اندر لے جانا،ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جانا،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:انہیں غسل و کفن دیا گیا،سب سے پہلے میں نے دروازے کے پاس جاکر اجازت طلب کرتے ہوئے عرض کیا:یارسول اللہ!یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں،جو آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلنا شروع ہو گیا۔میں نے سنا، کوئی کہہ رہا تھا: دوست کو دوست کے پاس لے چلو،کیونکہ محبوب اپنے حبیب کی چاہت رکھتا ہے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 436/30)
تبصرہ :
یہ روایت جھوٹی ہے،اسے ذکر کرنے کے بعد :
b حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
ہٰذَا مُنْکَرٌ، وَرَاوِیہِ أَبُو الطَّاہِرِ مُوْسَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَائٍ الْمَقْدِسِیُّ وَعَبْدُ الْجَلِیْلِ مَجْہُوْلٌ ۔
’’یہ جھوٹی روایت ہے،اس کے راوی ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی اور عبدالجلیل دونوں مجہول ہیں۔‘‘
b حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَفِي إِسْنَادِہٖ أَبُو الطَّاہِرِ مُوسَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطائٍ الْمَقْدِسِيُّ کَذَّابٌ، عَنْ عَبْدِ الْجَلِیْلِ الْمُرِّيِّ، وَہُوَ مَجْہُولٌ ۔
’’اس روایت کی سند میںابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی جھوٹا،عبدالجلیل مجہول سے بیان کرتا ہے۔‘‘(الخصائص الکبرٰی : 492/2)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَأَبُوْ طَاہِرٍ، ہُوَ مُوْسَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَائٍ، کَذَابٌ، وَعَبْدُ الْجَلِیْلِ مَجْہُوْلٌ ۔
’’ابو طاہر موسیٰ بن محمد بن عطا مقدسی جھوٹا اور عبدالجلیل مجہول ہے۔‘‘
(لسان المیزان : 391/3)
b نیز اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
خَبَرٌ بَاطِلٌ ۔
’’یہ روایت باطل ہے۔‘‘(لسان المیزان : 391/3)
b حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
غَرِیْبٌ جِدَّا ۔
’’یہ روایت انتہائی کمزور ہے۔‘‘(الخصائص الکبرٰی للسیوطي : 492/2)
تنبیہ 2 :
سیّدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا:
’إِنِّي أَبْرَأُ إِلَی اللّٰہِ أَنْ یَّکُونَ لِي مِنْکُمْ خَلِیلٌ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِیلًا، کَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلًا، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِّنْ أُمَّتِي خَلِیلًا؛ لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلًا، أَلَا، وَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ وَصَالِحِیہِمْ مَّسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْہَاکُمْ عَنْ ذٰلِکَ‘ ۔
’’میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس بات سے بری ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو۔ میرے ربّ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے،جس طرح اس نے ابراہیمuکو خلیل بنایا تھا۔اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا،تو ابوبکرصدیق کو خلیل بناتا۔ خبردار!بے شک تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیاء ِکرام اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا،میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘
(صحیح مسلم : 532)
b علامۃ الیمن، شوکانی رحمہ اللہ (1173۔1250ھ)لکھتے ہیں:
وَاسْتَنْبَطَ الْبَیْضَاوِيُّ مِنْ عِلَّۃِ التَّعْظِیمِ جَوَازَ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ فِي جِوَارِ الصُّلَحَائِ لِقَصْدِ التَّبَرُّکِ دُونَ التَّعْظِیمِ، وَرُدَّ بِأَنَّ قَصْدَ التَّبَرُّکِ تَعْظِیمٌ ۔
’’بیضاوی نے علت ِتعظیم سے یہ استنباط کیا ہے کہ صلحا کے قرب میں تعظیماً نہیں، تبرکاًقبر بنانا جائزہے،مگریہ کہہ کر ان(بیضاوی)کا ردّ کر دیا گیا ہے کہ تبرک،تعظیم ہی تو ہے۔‘‘(نیل الأوطار : 159/2)
ڈاکٹر طاہر القادری کا مبلغ علم :
ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا مبلغ علم ملاحظہ ہو،وہ اس عبارت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’امام بیضاوی نے علت ِتعظیم سے استنباط کرتے ہوئے صلحاء کے قرب میں تبرکاً قبر بنانا جائز قرار دیا ہے، نہ کہ تعظیماً اور انہوں نے اس بات کو ردّ کیا ہے کہ تبرک بھی تعظیم(عبادت)ہے۔‘‘(تبرک کی شرعی حیثیت،ص: 123)
جہالت اور تعصب کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب عبارت کا صحیح ترجمہ کرنے سے قاصر رہے، سادہ لوح عوام کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کی۔
رہا بیضاوی کا استنباط،تو اسلاف ِامت کے مقابلے میںان کی کیا حیثیت ہے؟
جگہوں اور مکانات و مقامات سے تبرک :
ایسی تمام جگہیں اور مقامات جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی،وہاں قیام فرمایا،پڑائو ڈالا، وہاں پر تشریف فرما ہوئے،ان سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں،بلکہ بدعت ہے۔
قرآن و حدیث اور آثارِ سلف میں سے اس پر کوئی استناد نہیں،البتہ جہاں آپ اکثر و بیشتر نماز ادا فرماتے رہے،سنت کے اتباع میں بعض صحابہ کرام بھی وہاں نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے،جیسا کہ :
n یزید بن ابی عبید تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
کُنْتُ آتِي مَعَ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ، فَیُصَلِّي عِنْدَ الْـأُسْطُوَانَۃِ الَّتِي عِنْدَ الْمُصْحَفِ، فَقُلْتُ : یَا أَبَا مُسْلِمٍ، أَرَاکَ تَتَحَرَّی الصَّلاَۃَ عِنْدَ ہٰذِہِ الْـأُسْطُوَانَۃِ، قَالَ : فَإِنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَحَرَّی الصَّلاَۃَ عِنْدَہَا ۔
’’میں سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد نبوی میں آیا کرتا تھا۔آپ ہمیشہ اس ستون کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے،جہاں قرآنِ مجید رکھا ہوتا تھا۔میں نے ان سے کہا:ابو مسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کے سامنے کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خاص طور پر اسی ستون کے سامنے کھڑے ہو کرنماز ادا فرمایا کرتے تھے۔‘‘(صحیح البخاري : 502، صحیح مسلم : 509)
b شیخ الاسلام،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)اس حدیث کو دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں:
فَأَمَّا الْـأَمْکِنَۃُ الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْصِدُ الصَّلاَۃَ أَوِ الدُّعَائَ عِنْدَہَا؛ فَقَصْدُ الصَّلَاۃِ فِیْہَا أَوِ الدُّعَائِ سُنَّۃٌ، اِقْتِدَائً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاتِّبَاعًا لَّہٗ، کَمَا إِذَا تَحُرِّيَ الصَّلاَۃُ أَوِ الدُّعَائُ فِي وَقْتٍ مِّنَ الْـأَوْقَاتِ؛ فَإِنَّ قَصْدَ الصَّلاَۃِ أَوِ الدُّعَائِ فِي ذٰلِکَ الْوَقْتِ سُنَّۃٌ، کَسَائِرِ عِبَادَاتِہٖ، وَسَائِرِ الْـأَفْعَالِ الَّتِي فَعَلَہَا عَلٰی وَجْہِ التَّقَرُّبِ ۔
’’رہے وہ مقامات جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دُعا اورنمازکے لیے جایا کرتے تھے، وہاں جا کر دعا کرنا اور نماز پڑھنا مسنون ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع ہے، جس طرح کہ جن اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے، یا دعا کیا کرتے تھے، ان اوقات میں نماز پڑھنا یا دعا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی تمام عبادات اور ان افعال کی طرح مسنون ہے، جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرب ِالٰہی کے طور پر کیا کرتے تھے۔‘‘(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم : 276/2)
وہ جگہیں،جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً نماز ادا کی، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سنت کے اتباع میں وہاں بھی نماز ادا کر لیتے تھے،جیسا کہ :
n موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَتَحَرّٰی أَمَاکِنَ مِنَ الطَّرِیقِ، فَیُصَلِّي فِیہَا، وَیُحَدِّثُ أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یُصَلِّي فِیہَا، وَأَنَّہٗ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّي فِي تِلْکَ الْـأَمْکِنَۃِ ۔
’’میں نے سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کو دیکھا،وہ مدینہ سے مکہ کے راستے میں کئی جگہوں کو ڈھونڈ کر وہاں نماز پڑھتے اور کہتے کہ ان کے والد ِمحترم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے،کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔(صحیح البخاري : 483)
n نافع رحمہ اللہ ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَاخَ بِالْبَطْحَائِ بِذِي الْحُلَیْفَۃِ، فَصَلّٰی بِہَا، وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ ذوالحلیفہ کے پتھریلے میدان میں سواری روک کر نماز ادا کی۔راویٔ حدیث نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں:سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘(صحیح البخاري : 1532، صحیح مسلم : 1257)
n نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ إِذَا دَخَلَ الکَعْبَۃَ؛ مَشٰی قِبَلَ وَجْہِہٖ حِینَ یَدْخُلُ، وَجَعَلَ الْبَابَ قِبَلَ ظَہْرِہٖ، فَمَشٰی حَتّٰی یَکُونَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجِدَارِ الَّذِي قِبَلَ وَجْہِہٖ قَرِیبًا مِّنْ ثَلاَثَۃِ أَذْرُعٍ، صَلّٰی یَتَوَخَّی الْمَکَانَ الَّذِي أَخْبَرَہٗ بِہٖ بِلاَلٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی فِیہِ، قَالَ : وَلَیْسَ عَلٰی أَحَدِنَا بَأْسٌ إِنْ صَلّٰی فِي أَيِّ نَوَاحِي الْبَیْتِ شَائَ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبۃ اللہ میں داخل ہوتے، تو دروازے کی طرف پشت کر کے سیدھا منہ کی سمت چلے جاتے،یہاں تک کہ جب ان میں اور سامنے کی دیوارمیں تین ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا تو نماز پڑھتے،کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اس جگہ نماز پڑھنا چاہتے تھے،جس کے بارے میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نماز پڑھی تھی۔سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بھی فرمایا کہ ہم بیت اللہ میں جس جانب بھی نماز پڑھیں،اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
(صحیح البخاري : 506)
یعنی کعبۃ اللہ کے کسی بھی کونے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،البتہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اتباعِ سنت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس جگہ کی تلاش کی،جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اتباعِ سنت کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
n عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِي مَسْجِدَ قُبَائٍ کُلَّ سَبْتٍ، مَاشِیًا وَرَاکِبًا، وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَفْعَلُہٗ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے والے دن پیدل یا سوار ہو کر مسجد ِقبا تشریف لے جایا کرتے تھے،سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 1193)
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اتباعِ سنت کے جذبہ سے ایسا کرتے تھے،نہ کہ حصولِ تبرک کے لیے۔ان کا مقصود صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا تھا۔
b شیخ الاسلام،امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) لکھتے ہیں:
ہٰذَا مِنِ ابْنِ عُمَرَ تَحَرٍّ لِّمِثْلِ فِعْلِہٖ، فَإِنَّہٗ قَصَدَ أَنْ یَّفْعَلَ مِثْلَ فِعْلِہٖ، فِي نُزُوْلِہٖ وَصَلاَتِہٖ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس لیے ایسے کاموں کے متلاشی رہتے تھے کہ ان کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع تھا کہ کس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑائو ڈالا ہے اور کس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی۔‘‘
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم : 330/2)
n امیر المومنین،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سواری پر سوار ہوتے وقت ’’بسم اللہ‘‘پڑھ کر رکاب پر پائوں رکھا،سواری کی پیٹھ پر بیٹھ کر ’’الحمد للہ‘‘کہہ کر دُعا پڑھی،پھر ہنس دیے،پوچھا گیا:
مَا یُضْحِکُکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ؟
’’امیر المومنین! آپ مسکرائے کس لیے ہیں؟‘‘
جواباً فرمایا :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 252/5، وسندہٗ صحیحٌ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہنسنے کا باعث بنا اور کوئی وجہ نہیں تھی۔اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع میں وہاں وہاں نماز پڑھی اور پڑاؤ ڈالا،جہاںآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً نماز پڑھی اور پڑائو ڈالا تھا۔
اس حوالے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں:
n نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ، إِذَا ذَہَبَ إِلَی قُبُورِ الشُّہَدَائِ عَلٰی نَاقَتِہٖ؛ رَدَّہَا ہٰکَذَا وَہٰکَذَا، فَقِیلَ لَہٗ فِي ذٰلِکَ، فَقَالَ : إِنِّي رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي ہٰذَا الطَّرِیقِ عَلٰی نَاقَتِہٖ، فَقُلْتُ : لَعَلَّ خُفِّي یَقَعُ عَلٰی خُفِّہٖ ۔
’’میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ جب وہ شہدا کی قبروں کی طرف جاتے، تو اپنی اونٹنی کو موڑتے۔اس بارے میں ان سے پوچھا گیا،تو فرمایا : میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس راستے میں اپنی اونٹنی پر دیکھا تھا۔میں نے سوچاکہ شاید میری اونٹنی کا پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے پاؤں کے اوپر آجائے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 327/13، السنن الکبرٰی للبیہقي : 249/5، واللفظ لہٗ، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم : 310/1، وسندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر معاملہ میں اتباعِ سنت کے جذبہ سے سرشار تھے۔
ایک روایت پر تبصرہ :
n عمران القاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عَدَلَ إِلَيَّ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَۃٍ بِطَرِیقِ مَکَّۃَ، فَقَالَ : مَا أَنْزَلَکَ تَحْتَ ہٰذِہِ السَّرْحَۃِ؟ قَالَ : فَقُلْتُ : أَرَدْتُ ظِلَّہََا، فَقَالَ : ہَلْ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ فَقُلْتُ : أَرَدْتُّ ظِلَّہَا، فَقَالَ : ہَلْ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ فَقُلْتُ : لَا، مَا أَنْزَلَنِي غَیْرُ ذٰلِکَ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا کُنْتَ بَیْنَ الْـأَخْشَبَیْنِ مِنْ مِّنًی، وَنَفَحَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، فَإِِنَّ ہُنَالِکَ وَادِیًا یُّقَالُ لَہُ السُّرُرُ، بِہٖ سَرْحَۃٌ، سُرَّ تَحْتَہَا سَبْعُونَ نَبِیًّا ۔
’’میں مکہ کے راستے میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرا ہوا تھا۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے مخاطب ہو کر دریافت فرمایا :آپ اس درخت کے نیچے کیوں ٹھہرے ہیں؟میں نے عرض کیا :اس کے سائے کی وجہ سے۔فرمایا : کوئی اور وجہ؟ میں نے پھر عرض کیا: صرف اس کے سائے کی وجہ سے۔پھر فرمایا : کوئی اور وجہ؟ میں نے پھر عرض کیا : صرف اس کے سائے کہ وجہ سے۔اس پر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:جب آپ منیٰ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان ہوں،تو ان کے درمیان ایک وادی ہے،جسے سرر کہتے ہیں۔وہاں ایک درخت ہے جہاں ستر نبیوں کے ناف(نال)کاٹے گئے(یعنی ان کی وہاں ولادت ہوئی)۔‘‘
(الموطّأ للإمام مالک : 423/1، 424، مسند الإمام أحمد : 138/2، سنن النسائي : 2995، و صحّحہ ابن حبّان : 6244)
تبصرہ:
یہ روایت ’’ضعیف‘‘ اور ’’منکر‘‘ہے،کیونکہ :
1 اس کا راوی محمدبن عمران انصاری ’’مجہول‘‘ ہے۔امام ابن حبان(الثقات:411/7) کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
لاَ یُدْرٰی مَنْ ہُوَ، وَلاَ أَبُوْہُ ۔
’’اس کا اور اس کے باپ کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔‘‘
(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 672/3)
b حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے اسے ــ’’مجہول‘‘ قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب : 6198)
2 اس کا باپ عمران انصاری بھی ’’مجہول‘‘ہے۔
اس کے بارے میں :
b حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
فَلَا أَدْرِي مَنْ ہُوَ ۔
’’میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟‘‘
(التمھید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : 64/13)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لاَ یُدْرٰی مَنْ ہُوَ، تَفَرَّدَ عَنْہُ ابْنُہٗ مُحَمَّدٌ، وَحَدِیْثُہٗ فِي الْمُؤَطَّأِ، وَہُوَ مُنْکَرٌ ۔
’’کوئی پتہ نہیں کہ کون ہے؟اس سے صرف اس کا بیٹا محمد بیان کرتا ہے،اس کی روایت مؤطا میں ہے،جو کہ منکر ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 245/3، ت : 6325)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’مقبول‘‘(مجہول الحال)کا فیصلہ دیا ہے۔
(تقریب التہذیب : 5176)
اسے صرف سلمہ بن قاسم نامی ایک ’’ضعیف‘‘شخص نے ’’لا باس‘‘ کہا ہے۔
دوسری سند :
مسند ابی یعلیٰ(5723)کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
لَقَدْ سُرَّ فِي ظِلِّ سَرْحَۃٍ سَبْعُونَ نَبِیًّا، لَا تُسْرَفُ وَلَا تُجَرَّدُ وَلَا تُعْبَلُ ۔
’’اس درخت کے سائے میں ستر انبیاء ِکرام کی ناف کاٹی گئی۔اسے کیڑا نہیں لگتا، نہ اس کے پتے خشک ہوتے ہیں نہ گرتے ہیں۔‘‘
یہ سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 ابو معاویہ ضریر ’’مدلس‘‘ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
2 سلیمان بن مہران اعمش بھی ’’مدلس‘‘ہیں۔
3 عبداللہ بن ذکوان نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا زمانہ نہیں پایا۔
(المراسیل لابن أبي حاتم، ص : 111)
لہٰذا یہ سند ’’مدَلَّس‘‘ اور ’’منقطع‘‘ ہے۔
تیسری سند :
اس کی ایک تیسری سند أخبار مکہ للفاکہي(2333)میں آتی ہے،لیکن اس میں :
1 سفیان بن عیینہ ’’مدلس‘‘ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
2 محمد بن عجلان بھی ’’مدلس‘‘ہیں،انہوں نے بھی سماع کی تصریح نہیں کی۔
محمد بن عجلان کی متابعت معمر بن راشد نے مصنف عبدالرزاق(20975)میں کر رکھی ہے،لیکن اس میں امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی کی ’’تدلیس‘‘ہے،لہٰذا یہ متابعت چنداں مفید نہیں۔
3 ’’رجل مبہم‘‘ بھی موجود ہے۔
فائدہ:
اس ’’ضعیف و منکر‘‘روایت میں تبرک کے حوالے سے کچھ بھی نہیں،لیکن حیرانی کی بات ہے کہ پھر بھی بعض لوگ اپنے مزعومہ تبرکات کے ثبوت پر پیش کرتے ہیں۔
تنبیہ 1 :
سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ، وَکَانَ یَحُولُ بَیْنِي وَبَیْنَہُمْ وَادٍ، إِذَا جَائَتِ الْـأَمْطَارُ؛ فَیَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِیَازُہٗ قِبَلَ مَسْجِدِہِمْ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَہٗ : إِنِّي أَنْکَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَیْنِي وَبَیْنَ قَوْمِي یَسِیلُ إِذَا جَائَتِ الْـأَمْطَارُ، فَیَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِیَازُہٗ، فَوَدِدْتُّ أَنَّکَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَیْتِي مَکَانًا، أَتَّخِذُہٗ مُصَلًّی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’سَأَفْعَلُ‘، فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَکْرٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّہَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَہٗ، فَلَمْ یَجْلِسْ حَتّٰی قَالَ : ’أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَیْتِکَ؟‘ فَأَشَرْتُ لَہٗ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِیہِ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَکَبَّرَ، وَصَفَفْنَا وَرَائَہٗ، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، وَسَلَّمْنَا حِینَ سَلَّمَ ۔
’’میں بنوسالم قبیلہ میں اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتا تھا۔میرے گھر اور قوم والوں کے درمیان ایک نالہ حائل تھا۔جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا:میری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں،جبکہ میرے اور میری قوم کے درمیان ایک برساتی نالہ حائل ہے،جو بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لاکر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تا کہ میں اسے جائے نماز بنا لوں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کردوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ دوسرے ہی دن ظہر کے قریب تشریف لے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تومیں نے اجازت دے دی۔بیٹھنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم اپنے گھر میں کس جگہ میرا نماز پڑھنا پسند کرو گے؟میں نے اُس جگہ کی طرف اشارہ کیا جس کے بارے میں میری خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز پڑھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیرا۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سلام پھیر دیا۔‘‘
(صحیح البخاري : 1186)
اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابی ٔ رسول یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں نماز کے لیے ایک جگہ متعین فرما دیں تاکہ وہ آئندہ اسی جگہ میں نماز پڑھیں۔
اس سے تبرک کا مسئلہ نکالنا فہم سلف کے خلاف ہے۔
تنبیہ 2 :
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، کَیْفَ أُسْرِيَ بِکَ لَیْلَۃَ أُسْرِيَ بِکَ؟ قَالَ : ’صَلَّیْتُ لِأَصْحَابِي صَلَاۃَ الْعَتَمَۃِ بِمَکَّۃَ مُعْتِمًا، فَأَتَانِي جِبْرِیلُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، بِدَابَّۃٍ بَیْضَائَ فَوْقَ الْحِمَارِ، وَدُونَ الْبَغْلِ، فَقَالَ : ارْکَبْ، فَاسْتَصْعَبَ عَلَیَّ، فَدَارَہَا بِأُذُنِہَا، ثُمَّ حَمَلَنِي عَلَیْہَا، فَانْطَلَقَتْ تَّہْوِی بِنَا، یَقَعُ حَافِرُہَا حَیْثُ أَدْرَکَ طَرْفُہَا، حَتّٰی بَلَغْنَا أَرْضًا ذَاتَ نَخْلٍ، فَقَالَ : انْزِلْ، فَنَزَلْتُ، ثُمَّ قَالَ : صَلِّ، فَصَلَّیْتُ، ثُمَّ رَکِبْنَا، فَقَالَ : أَتَدْرِي أَیْنَ صَلَّیْتَ؟ قُلْتُ : اللّٰہُ أَعْلَمُ، قَالَ : صَلَّیْتَ بِیَثْرِبَ، صَلَّیْتَ بِطِیْبَۃَ، ثُمَّ انْطَلَقَتْ تَہْوِي بِنَا، یَقَعُ حَافِرُہَا حَیْثُ أَدْرَکَ طَرْفُہَا، حَتّٰی بَلَغْنَا أَرْضًا بَیْضَائَ، فَقَالَ : انْزِلْ، فَنَزَلْتُ، ثُمَّ قَالَ : صَلِّ، فَصَلَّیْتُ، ثُمَّ رَکِبْنَا، فَقَالَ : تَدْرِي أَیْنَ صَلَّیْتَ؟ قُلْتُ : اللّٰہُ أَعْلَمُ، قَالَ : صَلَّیْتَ بِمَدْیَنَ، صَلَّیْتَ عِنْدَ شَجَرَۃِ مُوسٰی، ثُمَّ انْطَلَقَتْ تَہْوِي بِنَا، یَقَعُ حَافِرُہَا حَیْثُ أَدْرَکَ طَرْفُہَا، ثُمَّ بَلَغْنَا أَرْضًا بَدَتْ لَنَا قُصُورُہَا، فَقَالَ : انْزِلْ، فَنَزَلْتُ، ثُمَّ قَالَ : صَلِّ، فَصَلَّیْتُ، فَقَالَ : أَتَدْرِي أَیْنَ صَلَّیْتَ؟ قُلْتُ : اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ أَعْلَمُ، قَالَ : صَلَّیْتَ بِبَیْتِ لَحْمٍ حَیْثُ وُلِدَ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ‘ ۔
’’میں نے اپنے صحابہ کرام کو عشا کی نماز آدھی رات کے وقت پڑھائی۔میرے پاس جبریل صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید جانور کے ہمراہ تشریف لائے،جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا،اور عرض کیا : سوار ہو جائیے۔مجھے چڑھنے میں دشواری ہوئی،تو جبریلuنے اسے کان سے پکڑ کر گھمایا،پھر مجھے اس پر سوار کیا۔وہ جانور ہمیں لے کر روانہ ہوا۔اس کے پاؤں وہاں پڑتے تھے،جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی۔ ہم چلتے چلتے کھجوروں والی سرزمین میں پہنچے،تو جبریلu نے کہا : نیچے تشریف لائیے۔میں اتر گیا تو کہا : نماز ادا فرمائیے۔میں نے نماز ادا کی،تو ہم پھر سے سوار ہو گئے۔جبریلuنے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟میں نے کہا : اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ آپ نے یثرب،طیبہ میں نماز پڑھی ہے۔پھر وہ سواری ہمیں لے کر روانہ ہوئی۔اس کے پاؤں وہاں پڑتے تھے جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی۔یہاں تک کہ ہم ایک سفید زمین پر پہنچ گئے۔جبریلuنے کہا : نیچے تشریف لائیے۔میں اتر گیا۔پھر انہوں نے کہا : نماز ادا فرمائیے۔ میں نے نماز ادا کی،تو ہم پھر سے سوار ہو گئے۔جبریلu نے مجھے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟میں نے کہا : اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔جبریلuنے بتایا کہ آپ نے مدین میں شجرۂ موسیٰ کے پاس نماز ادا کی ہے۔پھر وہ جانور ہمیں لیے روانہ ہو گیا۔اس کے پاؤں وہاں پڑتے تھے، جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔یہاں تک کہ ہم ایسی جگہ پر پہنچے جس کے محلات ہمیں نظر آ رہے تھے۔جبریلuنے کہا : آپ نیچے تشریف لائیے۔میں اتر گیا، تو انہوں نے کہا : نماز ادا فرمائیے۔میں نے نماز ادا کی۔انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز ادا کی ہے؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول (پیغام رساں)ہی بہتر جانتا ہے۔اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ نے بیت ِلحم میں نماز ادا کی ہے،جہاں عیسیٰ،مسیح ابن مریمi پیدا ہوئے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 282/7، ح : 7142، مسند البزّار : 3484، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 355/2، وسندہٗ صحیحٌ)
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
اسی طرح سنن نسائی(450)میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث بھی موجود ہے۔
اس روایت سے بعض لوگوں نے صالحین کی قیام گاہوں،عبادت گاہوں،ان کی جائے ولادت اور ان کی قبور سے تبرک لینے اور وہاں نماز کا اہتمام کرنے کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں کا استدلال کئی طرح سے مردود و باطل ہے؛
1 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز ادا فرمائی،تو آپ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ کس جگہ نماز ادا کر رہے ہیں۔یہ کیسا تبرک ہوا؟ تبرک تو تب ثابت ہوتا ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوتا کہ یہ فلاں متبرک مقام ہے اور آپ وہاں تبرک کی نیت سے نماز ادا کرتے۔اس روایت میں ایسا کچھ بھی نہیں،بلکہ اس میں تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں جبریلuنے پوچھا کہ آپ نے کون سی جگہ پر نماز پڑھی ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاعلمی کا اظہار فرمایا۔بعد میں جبریل کے بتانے پر معلوم ہوا کہ فلاں جگہ ہے۔پھر زندگی میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جگہوں پر نماز ادا کرنے کی خواہش یا اہتمام نہیں فرمایا۔
2 سب سے پہلی جگہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرمائی،وہ یثرب تھی۔معراج کا واقعہ مکی زندگی میں پیش آیا اور اس وقت یثرب بیماریوں کی آماجگاہ تھی۔وہ تو ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے بابرکت بنایا۔لہٰذا ہجرت سے پہلے وہ جگہ متبرک تو کیا بابرکت بھی نہیں تھی۔اس وقت وہاں نماز پڑھنے میں کیسا تبرک تھا؟
3 اس حدیث سے یہ استدلال کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے،کیونکہبیماریوں کی آماجگاہ ،جسے ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے برکت ملی،اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے برکت حاصل کرتے تھے،کیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے؟
4 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کائنات کی سب سے بابرکت اور متبرک شخصیت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ ان مقامات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت حاصل کرنے کی کوشش کی،نہایت نامعقول بات ہے۔
تنبیہ 3 :
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ؛ مَرَّ بِي جِبْرِیلُ بِقَبْرِ أَبِي إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلامُ، فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ، انْزِلْ، فَصَلِّ ہُنَا رَکْعَتَیْنِ، ہٰذَا قَبْرُ أَبِیکَ إِبْرَاہِیمَ، ثُمَّ مَرَّ بِي بِبَیْتِ لَحْمٍ، فَقَالَ : انْزِلْ، فَصَلِّ ہَا ہُنَا رَکْعَتَیْنِ، فَإِنَّہٗ ہُنَا وُلِدَ أَخُوکَ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلامُ، ثُمَّ أَتٰی بِي إِلَی الصَّخْرَۃِ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، مِنْ ہُنَا عَرَجَ رَبُّکَ إِلَی السَّمَائِ‘ ۔
’’جب مجھے بیت المقدس کی طرف معراج کرائی گئی،تو جبریل میرے ہمراہ میرے دادا ابراہیمu کی قبر کے پاس سے گزرے۔کہنے لگے : محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!یہاں دو رکعتیں ادا فرمائیے،یہ آپ کے دادا ابراہیمu کی قبر ہے۔پھر وہ میرے ہمراہ بیت ِلحم سے گزرے،تو کہا : یہاں اتر کر دو رکعتیں ادا کیجیے،کیونکہ یہاں آپ کے بھائی عیسیٰu کی ولادت ہوئی تھی۔پھر وہ مجھے لے کر بیت المقدس پہنچے ،تو کہا : اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہاں سے آپ کا ربّ آسمانوں کی طرف چڑھا تھا۔‘‘
(المجروحین لابن حبّان : 197/1، فضائل بیت المقدس لضیاء المقدسي : 30)
اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد خود امام حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَہٰذَا شَيْئٌ لَّا یَشُکُّ عَوَامُّ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ أَنَّہٗ مَوْضُوعٌ، فَکَیْفَ الْبَزْلُ فِي ہٰذَا الشَّأْنِ ۔
’’اس روایت کے من گھڑت ہونے میں طلبہ حدیث کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں، چہ جائیکہ فن حدیث کے ماہرین اس میں کوئی شک کریں۔‘‘
اس حدیث کو حافظ ابن الجوزی(الموضوعات : 113/1)،حافظ ابن تیمیہ(اقتضاء الصراط المستقیم : 352/2) اور حافظ ابن حجر(لسان المیزان : 51/2)وغیرہ نے موضوع(من گھڑت) قرار دیا ہے۔
اس کے راوی بکر بن زیاد باہلی کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شَیْخٌ دَجَّالٌ، یَضَعُ الْحَدِیثَ عَلَی الثِّقَاتِ، لَا یحِلُّ ذِکْرُہٗ فِي الْکُتُبِ إِلَّا علٰی سَبِیلِ الْقَدْحِ فِیہِ ۔
’’یہ دجال شیخ تھا،ثقہ راویوں سے منسوب کر کے جھوٹی حدیثیں گھڑتا تھا۔کتابوں میں اس کا تذکرہ صرف اس صورت میں جائز ہے کہ اس پر جرح ذکر کی جائے۔‘‘
(المجروحین : 196/1، 197)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صَدَقَ ابْنُ حِبَّانَ ۔
’’ابن حبان رحمہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 345/1)
مقاماتِ صالحین اور حدیث ِنبوی :
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
فَلَقِیتُ بَصْرَۃَ بْنَ أَبِي بَصْرَۃَ الْغِفَارِيَّ، فَقَالَ : مِنْ أَیْنَ أَقْبَلْتَ؟ فَقُلْتُ : مِنَ الطُّورِ، فَقَالَ : لَوْ أَدْرَکْتُکَ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ إِلَیْہِ؛ مَا خَرَجْتَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’لَا تُعْمَلُ الْمَطِيُّ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ؛ إِلَی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَإِلٰی مَسْجِدِي ہٰذَا، وَإِلٰی مَسْجِدِ إِیلِیَائَ، أَوْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ‘ ۔
’’میں بصرہ بن ابو بصرہ رضی اللہ عنہ سے ملا،تو انہوں نے مجھے پوچھا : آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟میں نے بتایا کہ طور سے۔اس پر انہوں نے فرمایا : اگر آپ کے جانے سے پہلے ہماری ملاقات ہو جاتی،تو آپ نہ جاتے۔میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف (تبرک کی نیت سے)رخت ِسفر نہ باندھا جائے؛ مسجد ِحرام،میری یہ مسجد(مسجد ِنبوی) اور بیت المقدس۔‘‘(المؤطّأ للإمام مالک : 108/1، 109، سنن النسائي : 1430، مسند الإمام أحمد : 248/2، 7/6، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (2772)نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
n سیدنا بصرہ بن ابو بصرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لَقِیتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، وَہُوَ یَسِیرُ إِلٰی مَسْجِدِ الطُّورِ لِیُصَلِّيَ فِیہِ، قَالَ : فَقُلْتُ لَہٗ : لَوْ أَدْرَکْتُکَ قَبْلَ أَنْ تَرْتَحِلَ؛ مَا ارْتَحَلْتَ، قَالَ : فَقَالَ : وَلِمَ؟ قَالَ : قَالَ : فَقُلْتُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ؛ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْـأَقْصٰی، وَمَسْجِدِي‘ ۔
’’میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس وقت ملا،جب وہ مسجد ِطور میں نماز پڑھنے کی غرض سے جا رہے تھے۔میں نے ان سے کہا : اگر آپ کے نکلنے سے پہلے ہماری ملاقات ہو جاتی،تو آپ مسجد ِطور کی طرف نہ جاتے۔انہوں نے پوچھا : کیوں؟ میں نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تین مسجدوں کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف (تبرک کی نیت سے)رخت ِسفر نہیں باندھا جا سکتا؛ مسجد ِحرام،مسجد ِ اقصیٰ اور میری مسجد۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 397/6، وسندہٗ حسنٌ)
n شہر بن حوشب تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِيِّ، وَذُکِرَتْ عِنْدَہٗ صَلَاۃٌ فِي الطُّورِ، فَقَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَا یَنْبَغِي لِلْمَطِيِّ أَنْ تُشَدَّ رِحَالُہٗ إِلٰی مَسْجِدٍ تُبْتَغٰی فِیہِ الصَّلَاۃُ؛ غَیْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْـأَقْصٰی، وَمَسْجِدِي ہٰذَا‘
’’میں نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ان کے پاس کوہِ طور پر نماز کے بارے میں ذکر کیا گیا،تو انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی بھی مسجد کی طرف رخت ِسفر باندھنا جائز نہیں،سوائے تین مساجد کے ؛ مسجد ِ حرام، مسجد ِاقصیٰ اور میری یہ مسجد۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 64/3، وسندہٗ حسنٌ)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے تین مساجد کے کسی بھی مسجد میں خاص ثواب کی نیت سے نماز پڑھنے کے لیے یا کسی بھی جگہ سے تبرک حاصل کرنے کے لیے سفر کرنا جائز نہیں۔سیدنا بصرہ بن ابو بصرہ،سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ہریرہy شد ِرحال والی حدیث کو عموم پر محمول کرتے تھے،جیسا کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کوہِ طور پر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا،تو انہوں نے یہی حدیث پیش کر کے اس سے ممانعت کا فتویٰ دیا۔
شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں :
وَالْمُرَادُ النَّہْيُ عَنِ السَّفَرِ إِلٰی غَیْرِہَا، قَالَ الطِّیبِیُّ : ہُوَ أَبْلَغُ مِنْ صَرِیحِ النَّہْيِ، کَأَنَّہٗ قَالَ : لَا یَسْتَقِیمُ أَنْ یُّقْصَدَ بِالزِّیَارَۃِ إِلَّا ہٰذِہِ الْبِقَاعُ، لِاخْتِصَاصِہَا بِمَا اخْتَصَّتْ بِہٖ ۔
’’اس سے مراد یہ ہے کہ ان مسجدوں کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف (بطورِ تبرک) سفر کرنا منع ہے۔علامہ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس حدیث کے الفاظ صریح ممانعت سے بھی زیادہ سخت ہیں،گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ ان تین جگہوں کے علاوہ کسی بھی جگہ کی زیارت کا قصد کرنا جائز نہیں،کیونکہ یہ خصوصیت انہی جگہوں کو حاصل ہے۔‘‘(فتح الباري : 64/3، شرح الطیبي : 929/3)
b علامہ یمن،امیر صنعانی رحمہ اللہ (م : 1182ھ)لکھتے ہیں :
وَقَدْ خَالَفَ النَّاسُ ہٰذَا النَّہْيَ، فَمَا یَزَالُونَ فِي شَدٍّ لِّلرِّحَال إِلَی الْقُبُورِ، وَالْمَشَاہِدِ، وَاجْتِمَاعٍ لِّذٰلِکَ عَلٰی مُحَرَّمَاتٍ لَّا تَحِلُّ، فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔
’’یقینا لوگوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ مسلسل قبروں،مزاروں کی طرف رخت ِ سفر باندھتے ہیں اور وہاں محرمات پر مبنی عرس میلوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘
(التنویر شرح الجامع الصغیر : 112/11)
تنبیہ 4 :
n سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
دَعَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ الْـأَحْزَابِ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الثُّلَاثَائِ وَیَوْمَ الْـأَرْبِعَائِ، فَاسْتُجِیبَ لَہٗ یَوْمَ الْـأَرْبِعَائِ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ؛ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ، فَعَرَفْنَا الْبِشْرَ فِي وَجْہِہٖ، قَالَ جَابِرٌ : فَلَمْ یَنْزِلْ بِي أَمْرٌ مُّہِمٌّ غَائِظٌ؛ إِلَّا تَوَخَّیْتُ تِلْکَ السَّاعَۃَ مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ، فَدَعَوْتُ اللّٰہَ، فَأَعْرِفُ الْإِجَابَۃَ ۔
’’ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد احزاب میں تین روز سوموار،منگل اور بدھ کو مسلسل دعا مانگی۔بدھ کے دن ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیان دُعا قبول ہو گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخِ انور پر بشاشت جھلک رہی تھی۔اس کے بعد جب مجھے کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوا،میں نے اس گھڑی کا انتخاب کرکے دُعا مانگی تو مجھے اس میں قبولیت کے آثار نظر آئے۔‘‘
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 56/2، وفي نسخۃ : 73/2، الأدب المفرد للبخاري : 704، مسند الإمام أحمد : 332/3، شعب الإیمان للبیہقي : 3874، وسندہٗ حسنٌ)
اس سے بھی بعض لوگوں نے صالحین کے اختیار کردہ اوقات کے متبرک ہونے کا مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے،لیکن اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے پیش نظر یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دن دُعا کرنے کے بعد اس گھڑی کو پا لیا تھا، جس میں اللہ تعالیٰ دُعا قبول فرماتا ہے۔لہٰذا انہوں نے اس گھڑی کو یاد رکھا اور اسی میں دُعا کرنے کا اہتمام کیا۔اگر تبرک والی کوئی بات سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کے ذہن میں ہوتی، تو وہ دُعا کے لیے اس وقت کے ساتھ ساتھ مسجد ِاحزاب کی اس جگہ کا بھی اہتمام فرماتے،جہاں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دُعا کرتے دیکھا تھا۔
تنبیہ : مشہور تابعی،ثابت بنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أَنَسًا دَفَعَ إِلٰی أَبِي الْعَالِیَۃِ تُفَّاحَۃً؛ فَجَعَلَہَا فِي کَفِّہٖ، وَجَعَلَ یَمْسَحُہَا، وَیُقَبِّلُہَا، وَیَمْسَحُہَا بِوَجْہِہٖ، وَقَالَ : تُفَّاحَۃٌ مَسَّتْ کَفًّا مَسَّ کَفَّ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ابو العالیہ رحمہ اللہ تابعی کو سیب دیا،انہوں نے ہاتھ میں لے کر اُسے چھوا،بوسہ دیا،اپنے چہرے پر مَلااور کہا:اس سیب کو ایسی ہتھیلی نے چھوا ہے،جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہتھیلی کو چھونے کا شرف حاصل ہے۔‘‘
(القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الأعرابي : 35، وسندہٗ صحیحٌ)
ابو العالیہ رحمہ اللہ کا یہ فعل بطور ِ تکریم تھا،نہ کہ بطور ِتبرک۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.