981

مسئلہ حاضر وناضر، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اہل سنت والجماعت کے قرآن و سنت کے موافق اتفاقی عقیدے کو ترک کرتے ہوئے بعض لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ ہم اختصار کے ساتھ اس باطل اور مبالغہ آمیز عقیدے کے خلاف قرآنی و حدیثی دلائل ذکر کر رہے ہیں۔ قارئین کرام تعصب سے دور رہ کر مطالعہ فرمائیں :
قرآنی دلائل
دلیل نمبر 1 : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَہُمْ أَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یَخْتَصِمُونَ)(آل عمران 3 : 44)
”اور(اے نبی!)آپ اس وقت ان کے پاس نہیں تھے جب وہ (یہ جاننے کے لیے بطور قرعہ اندازی)قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا؟ نہ ہی آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔”
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں مشہور سنّی مفسر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ) فرماتے ہیں: أَيْ : مَا کُنْتَ عِنْدَہُمْ یَا مُحَمَّدُ فَتُخْبِرَہُمْ عَنْہُمْ مُعَایِنَۃً عَمَّا جَرٰی، بَلْ أَطْلَعَکَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ کَأَنَّکَ کُنْتَ حَاضِرًا وَّشَاہِدًا لِّمَا کَانَ مِنْ أَمْرِہِمْ، حِینَ اقْتَرَعُوا فِي شَأْنِ مَرْیَمَ أَیُّہُمْ یَکْفُلُہَا .
”یعنی اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ ان کے پاس نہیں تھے کہ ان کے بارے میں اس واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بارے میں یوں اطلاع دی کہ گویا آپ مریم([)کے معاملے میں ان کی قرعہ اندازی میں حاضر اور چشم دید گواہ تھے۔”(تفسیر ابن کثیر : 2/42)
دلیل نمبر 2 : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَیْنَا إِلٰی مُوسَی الْـأَمْرَ وَمَا کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ)(القصص28 : 44)
”اور(اے نبی!)طور کے مغرب کی جانب جب کہ ہم نے موسیٰ(u)کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی، نہ توآپموجود تھے اور نہ آپ دیکھ رہے تھے۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : أَيْ : مَا کُنْتَ حَاضِرًا لِّذٰلِکَ، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ أَوْحَاہُ إِلَیْکَ . ”یعنی(اے نبی!) آپ اس واقعے کے پاس حاضر نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو اس کی اطلاع دی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : 6/240)
دلیل نمبر 3 : اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے :
(وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَیْنَا وَلٰکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاہُمْ مِّنْ نَّذِیرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ) (القصص28 : 46)
”اور نہ آپ طور کی طرف تھےجب کہ ہم نے آواز دی ،بلکہ (یہ خبر)آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک رحمت ہے ،اس لئے کہ آپ ان لوگوں کو ہوشیار کر دےں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا ، تا کہ وہ نصیحت حاصل کرلیں۔”
دلیل نمبر 4 : فرمانِ الٰہی ہے :
(وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِي أَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِنَا وَلٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِینَ) (القصص28 : 45)
”اور(اے نبی!)نہ آپ مدین کے رہنے والوں میں سے تھے کہ ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتے بلکہ ہم ہی رسولوں کے بھیجنے والے ہیں۔”
دلیل نمبر 5 : ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(مَا کَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْـأَعْلٰی إِذْ یَخْتَصِمُونَ) (صۤ38 : 70,69)
”(اے نبی! کہہ دیجیے کہ)مجھے ان بلند قدر فرشتوں(کی بات چیت کا)کوئی علم ہی نہیں جبکہ وہ تکرار کر رہے تھے۔”
دلیل نمبر 6 : فرمانِ ربّ العالمین ہے :
(ذٰلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُونَ) (یوسف12 : 102)
”یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیںجس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے۔”
سنّی امام و مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یَقُولُ : وَمَا کُنْتَ حَاضِرًا عِنْدَ إِخْوَۃِ یُوسُفَ، إِذْ أَجْمَعُوا، وَاتَّفَقَتْ آرَاؤُہُمْ، وَصَحَّتْ عَزَائِمُہُمْ عَلٰی أَنْ یُلْقُوا یُوسُفَ فِی غَیَابَۃِ الْجُبِّ .
”اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ (اے نبی!)آپ اس وقت یوسف(u) کے بھائیوں کے پاس حاضر نہیں تھے جب انہوں نے یوسف (u)کو گہرے کنویں میں پھینکنے کا پورا ارادہ کر لیا تھا اور اس بارے میں ان کی آراء متفق ہو گئی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہو گئے تھے۔”
(تفسیر الطبري : 13/98)
حدیثی دلائل
دلیل نمبر 1 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّہُ لَقِیَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي طَرِیقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ، وَہُوَ جُنُبٌ، فَانْسَلَّ، فَذَہَبَ، فَاغْتَسَلَ، فَتَفَقَّدَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاء َہ، قَالَ : ‘أَیْنَ کُنْتَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ ؟’
”وہ مدینہ منورہ کے ایک راستے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اس وقت وہ جنابت کی حالت میں تھے ، لہٰذا چپکے سے کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کیا۔ جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوہریرہ! آپ کہاں تھے ؟ ”
(صحیح مسلم : 1/162، ح : 371)
دلیل نمبر 2 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں : أَبْطَأْتُ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃً بَعْدَ الْعِشَائِ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَالَ : ‘أَیْنَ کُنْتِ ؟’، قُلْتُ : کُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَاء َۃَ رَجُلٍ مِّنْ أَصْحَابِکَ، لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَاء َتِہٖ وَصَوْتِہٖ مِنْ أَحَدٍ، قَالَتْ : فَقَامَ وَقُمْتُ مَعَہ، حَتّٰی اسْتَمَعَ لَہ،، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ : ‘ہٰذَا سَالِمٌ مَوْلٰی أَبِي حُذَیْفَۃَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ ہٰذَا .
”میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہئ مبارک میں ایک رات عشاء کے بعد دیر کر دی ، پھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کہاں تھی؟ میں نے عرض کیا : میں آپ کے ایک صحابی کی قراء ت سن رہی تھی، میں نے نہ اس کی قراء ت کی طرح کوئی قراء ت سنی ہے نہ اس کی آواز کی مانند کوئی آواز۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کی قراء ت سنی ، پھر میری طرف توجہ کی اور فرمایا : یہ ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں۔”
(سنن ابن ماجہ : 1338، مسند الإمام أحمد : 6/165، مسند البزّار : 2694، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 3/226,225، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح” قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : وَرِجَالُہ، رِجَالُ الصَّحِیحِ .
”اس کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔” (مجمع الزوائد للہیثمي : 9/300)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”جید” کہا ہے۔
(مقدمۃ تفسیر ابن کثیر : 1/63، بتحقیق عبد الرزّاق المہدي)
بوصیری کہتے ہیں : ہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ، رِجَالُہ، ثِقَاتٌ .
”یہ سند صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔”(مصباح الزجاجۃ : 1/534)
دلیل نمبر 3 : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘فَأَتَانِيْ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! أَیْنَ کُنْتَ اللَّیْلَۃَ، فَقَدِ الْتَمَسْتُکَ فِي مَکَانِکَ؟، فَقَالَ : أَعَلِمْتَ أَنِّي أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ اللَّیْلَۃَ ؟’ ”ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! آپ کہاں تھے؟ میں نے آپ کو آپ کے گھر میں تلاش کیا تھا۔ میں نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں آج رات بیت المقدس گیا تھا؟”
(المعجم الکبیر للطبراني : 7/283، ح : 7142، تہذیب الآثار للطبري : 2775، مسند البزّار : 3484، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 2/109-107، وسندہ، حسنٌ)
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔
دلیل نمبر 4 : غزوہئ احد کے موقع پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا : أَیْنَ کُنْتَ الْیَوْمَ یَا سَعْدُ !
”سعد! آج آپ کہاں تھے؟”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 3/26، ح : 4314، وسندہ، حسنٌ)
قارئین کرام !آپ ان قرآنی آیاتِ مبارکہ اور صحیح احادیث ِ نبویہ پر غور کریں اور خود فیصلہ کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ قرآن و سنت کے موافق ہے یا مخالف؟اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف مقامات پر ہونے کی نفی کی ہے، اسی طرح خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے استفسار فرماتے تھے کہ ‘أَیْنَ کُنْتَ؟’ (آپ کہاں تھے؟)، نیز صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے تھے کہ أَیْنَ کُنْتَ؟ ( آپ کہاں تھے؟)۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہوتے تو آپ کو اور صحابہ کرام کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟
پھر حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنے والے یہی حضرات علم غیب کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔ بھلا جو کسی جگہ موجود ہو ، وہاں کی بات اس کے لیے غیب کیسے ہوئی؟
علم و عقل کا کیا تقاضا ہے ؟ قرآن و حدیث کس طرف رہنمائی کرتے ہیں؟ اور حق و انصاف کی پکار کیا ہے؟ فیصلہ آپ پر ہے!!!ہماری اپیل ہے کہ آپ قرآن و سنت کے خلاف اور انسانی عقل سے ماوراء عقیدہئ حاضر و ناظر کو ترک کر کے صحیح اسلامی اور سلفی عقیدے کو اختیار کر لیں تاکہ ائمہ اہل سنت کی مخالفت لازم نہ آئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور اسی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.