828

مسواک ایک پیاری سنت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کے منہ میں ایک خاص ضرورت اور مصلحت و حکمت کے تحت دانتوں کی فصل اگائی ہے۔جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کو ایسی غذا دی جاتی ہے جسے چبانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس وقت دانت بھی نہیں اگتے۔ جب ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو چبائی جاتی ہے تو دانت بھی اُگ آتے ہیں۔ اگر دانت پیدائشی طور پر اُگے ہوئے ہوتے تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ ہی نہ پلاتیں، کیونکہ وہ بے خبری میں ماؤں کی چھاتیوں کو کاٹ ڈالتے۔یہ ماں کے لیے باعث ِ مضرت بات تھی۔ اس لیے ایک خاص وقت کے بعد دانت اُگتے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی صنعت دیکھیں کہ کس طرح انسان کے منہ میں موتیوں کو لڑی میں پرو دیا جو انسانی حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ منہ میں دانتوں جیسی نعمت نہ ہو تو انسان کی کلام بھدی ہو جاتی ہے۔جب تک بچے کے دانت نہ اُگیں وہ صاف باتیں نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ کی اس انمول نعمت کی قدر وقیمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دانت خوراک کو نہ چبائیں تو معدہ اسے ہضم نہیں کر سکتا۔ اگر معدہ خوراک کو ہضم نہ کرے تو ایک وقت کے بعد وہ بگڑ جاتا ہے۔ جب معدہ بگڑ جائے تو صحت خراب ہو جاتی ہے۔ کتنی غذائیں ایسی بھی ہیں کہ جب تک انہیں اچھی طرح چبایا نہ جائے ، انسان ان کی لذت سے محروم رہتا ہے۔ داناؤں کا مقولہ ہے کہ ”آنکھ گئی تو جہان گیا اور دانت گئے تو سوادگیا۔”
ایک خاص وقت کے بعد ایک دفعہ بچے کے دانت گر جاتے ہیںاور ان کی جگہ نئے دانت لے لیتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی صنعت کی حکمت ہے۔ سامنے والے دو اوپر اور دو نیچے کے دانتوں کی ساخت دیکھیں۔ وہ تیز دھاری دار ہوتے ہیں جو کاٹنے کا کام دیتے ہیں، لیکن ڈاڑھیں چوڑی ہوتی ہیں۔ ان کی سطح رَف ہوتی ہے جو پیسنے کا کام دیتی ہیں۔ اوپر نیچے جبڑوں میں ڈاڑھیں گویا چکی کے دو پاٹ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ دانت ہتھیار، آرے ، چھری اور چکی کا کام دیتے ہیں اور باعث ِ زینت بھی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان میں بے شمار منافع اور مصالح موجود ہیں۔ دانت انسانی وجود میں وہ ہڈی ہے جس پر گوشت نہیں۔ اگر اس پر گوشت ہوتا تو مطلوبہ ضرورت پوری نہ ہو پاتی۔
شریعت ِ اسلامیہ نے ان کی صفائی ستھرائی اور نظافت کے لیے مسواک استعمال کرنے کی تلقین و تاکید کی ہے۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ دانت وہ واحد عضو ہے جس کی صفائی لکڑی سے کی جاتی ہے۔ دانتوں کی صفائی فطرتی تقاضا ہے۔ میلے کچیلے اور بدنما دانت انسان کو معیوب بنا دیتے ہیں۔ اگر ان کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو ان کو کیڑا لگ جاتا ہے۔ پھر داندان سازوں کے پاس جانا مجبوری بن جاتا ہے۔ دانتوں کی صفائی ایمان کا جزو ہے۔ اس میں ربّ تعالیٰ کی رضا ہے، سنت ِ رسول کا اتباع ہے ، اللہ تعالیٰ کی بے مثال نعمت کی شکرگزاری ہے۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے مسواک کیا کرتے تھے اور امت کو بھی تلقین کی ہے، لہٰذا جب مسواک کریں ، اس مقصد و ارادے سے کریں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے۔ یوںہم اپنے دامن میں دنیا و آخرت کی سعادتیں سمیٹ لیں گے اور دانتوں کی حفاظت اور خوشنمائی بھی حاصل ہو جائے گی۔ اب آپ بتائیں کہ مسواک والی سنت کو باقاعدگی سے کب اپنا رہے ہیں؟
مسواک کے متعلق ایمان افروز احادیث ملاحظہ ہوں :
1 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘أَکْثَرْتُ عَلَیْکُمْ فِي السِّوَاکِ’ ”میں نے آپ کو مسواک کے بارے میں بہت زیادہ تلقین کی ہے۔”(صحیح البخاري : 888)
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘لَولَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِي، أَوْ عَلَی النَّاسِ، لَـأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ صَلَاۃٍ’ ”اگر میں اپنی امت کے لوگوں پر مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔”(صحیح البخاري : 887، صحیح مسلم : 252)
3 سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ گرامی نقل کیا ہے:
‘السِّوَاکُ مَطْہَرَۃٌ لِّلْفَمِ، مَرْضَاۃٌ لِّلرِّبِّ’ ”مسواک منہ کے لیے صفائی کا موجب اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے۔”
(سنن النسائي : 5، صحیح ابن خزیمۃ : 135، وسندہ، صحیحٌ)
4 سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَۃِ : قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاء ُ اللِّحْیَۃِ، وَالسِّوَاکُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’
”دس باتیں فطرت سے ہیں۔ مونچھوں کو پست کرنا ، داڑھی کو بڑھانا اور مسواک کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”(صحیح مسلم : 261)
5 سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘اَلْغُسْلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی مُحْتَلِمٍ، وَأَنْ یَّسْتَنَّ، وَأَنْ یَمَسَّ طِیبًا إِنْ وَجَدَ’ ”جمعہ کے دن ہر بالغ کو غسل کرنا چاہیے، نیز اگر میسر ہو تو مسواک بھی کرنا چاہیے اور خوشبو بھی لگانا چاہیے۔”(صحیح البخاري : 880، صحیح مسلم : 836 مختصرا)
6 ابو عبد الرحمن سلمی تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أَمَرَ عَلِيٌّ بِالسِّوَاکِ، وَقَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا تَسَوَّکَ ثُمَّ قَامَ یُصَلِّي، قَامَ الْمَلَکُ خَلْفَہ، یَسْتَمِعُ الْقُرْآنَ، فَلَا یَزَالُ عَجَبُہُ بِالْقُرْآنِ یُدْنِیہِ مِنْہُ، حَتّٰی یَضَعَ فَاہُ عَلٰی فِیہِ، فَمَا یَخْرُجُ مِنْ فِیہِ شَيْء ٌ مِّنَ الْقُرْآنِ إِلَّا صَارَ فِي جَوْفِ الْمَلَکِ، فَطَہِّرُوا أَفْوَاہَکُمْ’
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مسواک کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ گرامی بیان کیاکہ جب کوئی بندہ مسواک کر کے نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو ایک فرشتہ اس کے پیچھے قرآن سننے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ قرآنِ پاک کی محبت اس فرشتے کو مسلسل نمازی کے قریب لاتی رہتی ہے، حتی کہ وہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے۔پھر نمازی کے منہ سے قرآنِ کریم کا جو بھی لفظ نکلتا ہے، وہ فرشتے کے پیٹ میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے منہ صاف رکھا کرو۔”(کتاب الزہد للإمام عبد اللّٰہ بن المبارک : 435/1، ح : 1225، وسندہ، حسنٌ)
اس کا راوی فضیل بن سلیمان نمیری جمہور محدثین کے نزدیک”حسن الحدیث” ہے۔ حافظ عراقی(طرح التثریب : 66/2)اور علامہ البانی(الضعیفۃ : 2544)Hکا اسے جمہور کے نزدیک ”ضعیف” قرار دینا مرجوح ہے۔
7 سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ یَتَہَجَّدُ، یَشُوصُ فَاہُ بِالسِّوَاکِ .
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنا منہ مبارک صاف فرماتے۔” (صحیح البخاري : 245، صحیح مسلم : 255)
8 سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَطَرَفُ السِّوَاکِ عَلٰی لِسَانِہٖ . ”میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسواک کی نوک آپ کی زبان مبارک پر تھی۔”
(صحیح البخاري : 6923، صحیح مسلم : 254)
صحیح بخاری کی ایک روایت(244)میںہے : فَوَجَدْتُہ، یَسْتَنُّ بِسِوَاکٍ بِیَدِہٖ، یَقُولُ : أُعْ، أُعْ، وَالسِّوَاکُ فِي فِیہِ، کَأَنَّہ، یَتَہَوَّعُ .
”میں نے آپ کو دیکھا کہ مسواک آپ کے دست مبارک میں ہے اور منہ میں (اس طرح)مسواک فرما رہے ہیں کہ ‘اُع اُع’ کی آواز نکلتی ہے، جیسے (کوئی)قے کرتا ہے۔”
9 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں : [کُنَّا نُعِدُّ لَہ، سِوَاکَہُ وَطَہُورَہ،، فَیَبْعَثُہُ اللّٰہُ مَا شَاءَ أَنْ یَّبْعَثَہ، مِنَ اللَّیْلِ، فَیَتَسَوَّکُ، وَیَتَوَضَّأُ، وَیُصَلِّي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔] ”ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کاپانی اور مسواک تیار کر کے رکھتے، پھر رات کو جب اللہ تعالیٰ چاہتا آپ کو بیدار کرتا۔ آپ مسواک کرتے ، وضو کرتے اور نماز (تہجد) ادا فرماتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”(صحیح مسلم : 746)
0 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘أَرَانِي فِي الْمَنَامِ أَتَسَوَّکُ بِسِوَاکٍ، فَجَذَبَنِي رَجُلَانِ، أَحَدُہُمَا أَکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ، فَنَاوَلْتُ السِّوَاکَ الْـأَصْغَرَ مِنْہُمَا، فَقِیلَ لِي : کَبِّرْ، فَدَفَعْتُہ، إِلَی الْـأَکْبَرِ’ ”میں نے خواب میں دیکھا کہ مسواک کر رہا ہوں، پھر مجھے دو آدمیوں نے کھینچا، ان میں سے ایک بڑا تھا اور دوسرا چھوٹا۔ میں نے مسواک چھوٹے کو دی تو مجھے کہا گیا: بڑے کو مسواک دیجیے، میں نے بڑے کو دے دی۔”
(صحیح مسلم : 2271 مسندًا، صحیح البخاري : 246 معلّقًا)
! سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا حال بیان کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں : ‘إِنَّہ، بَاتَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَقَامَ نَبِيُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ، فَخَرَجَ فَنَظَرَ فِي السَّمَائِ، ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ فِي آلِ عِمْرَانَ : (إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ)(آل عمران : 190)، حَتّٰی بَلَغَ (فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(آل عمران : 191)، ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْبَیْتِ فَتَسَوَّکَ وَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی، ثُمَّ اضْطَجَعَ ثُمَّ قَامَ، فَخَرَجَ فَنَظَرَ إِلَی السَّمَائِ، فَتَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ، ثُمَّ رَجَعَ فَتَسَوَّکَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی’ ”انہوں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بسر کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں بیدار ہوئے، باہر نکلے ، آسمان کی طرف دیکھا اور سورہئ آل عمران کی دو آیات (191-190) تلاوت فرمائیں۔ پھر گھر کی طرف لوٹے ، مسواک کی اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ کر سو گئے، پھر بیدار ہوئے ، باہر نکلے ، آسمان کی طرف دیکھا، مذکورہ آیات کی تلاوت فرمائی، پھر لوٹ کر مسواک کی اور وضو کیا ، پھر کھڑے ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔”(صحیح مسلم : 256)
@ شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے کونسا کام کرتے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : مسواک۔(صحیح مسلم : 253)
# سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضِ وفات کا حال یوں بیان کرتی ہیں:
دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ، وَمَعَہ، سِوَاکٌ یَسْتَنُّ بِہٖ، فَنَظَرَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَہ، : أَعْطِنِي ہٰذَا السِّوَاکَ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ ! فَأَعْطَانِیہِ، فَقَصَمْتُہ،، ثُمَّ مَضَغْتُہ،، فَأَعْطَیْتُہ، رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَنَّ بِہٖ، وَہُوَ مُسْتَسْنِدٌ إِلٰی صَدْرِي .
”عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو مسواک کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا تو میں نے ان سے کہا : عبد الرحمن! یہ مسواک مجھے دو۔ انہوں نے مسواک مجھے دے دی، میں نے اسے توڑا ، پھر اسے چبایا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا۔ آپ نے میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے مسواک کی۔”(صحیح البخاري : 890)
فائدہ نمبر 1 : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ نَبِيُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَاکُ، فَیُعْطِینِي السِّوَاکَ لِأَغْسِلَہ،، فَأَبْدَأُ بِہٖ، فَأَسْتَاکُ، ثُمَّ أَغْسِلُہ،، وَأَدْفَعُہُ إِلَیْہِ .
”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے ، پھر اسے دھونے کے لیے مجھے دیتے، پھر میں مسواک کرنا شروع کرتی، پھر اس کو دھو دیتی اور آپ کو واپس کر دیتی۔”
(سنن أبي داو،د : 52، وسندہ، حسنٌ)
اس کا راوی کثیر بن عبید تیمی ”حسن الحدیث” ہے۔ اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یُعَدُّ فِي الْکُوفِیِّینَ . ”اس کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔”
(التاریخ الکبیر : 901)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الثقات” (330/5)میں ذکر کیا ہے۔امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث(2248)کو ”صحیح” قرار دیا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ (252/4)نے بھی اس کی ایک حدیث کی ”تصحیح”کی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : حَدِیثٌ حَسَنٌ، رَوَاہُ أَبُو دَاو،دَ بِإِسْنَادٍ جَیِّدٍ . ”یہ حدیث حسن ہے۔ اسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔”(المجموع : 283/1، خلاصۃ الأحکام : 87/1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت بھی مسواک کر سکتی ہے بلکہ مسواک کی فضیلت و تاکید میں مرد وزن برابر کے شریک ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت اپنے خاوند کی مسواک اس کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتی ہے۔
اسی سلسلے میں یزید بن اصم تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: کَانَ سِوَاکُ مَیْمُونَۃَ ابْنَۃِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُنْقَعًا فِي مَائٍ، فَإِنْ شَغَلَہَا عَنْہُ عَمَلٌ أَوْ صَلَاۃٌ، وَإِلَّا فَأَخَذَتْہُ وَاسْتَاکَتْ . ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی مسواک پانی میں ڈوبی رہتی تھی۔ جب آپ نماز یا کسی اور کام میں مشغول ہوتیں تو اسے چھوڑ دیتیں ، ورنہ مسواک کرتی رہتیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 170/1، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 2 : سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘تُجْزِیئُ مِنَ السِّوَاکِ الْـأَصَابِعُ’ ”انگلیاں بھی مسواک کا کام دے دیتی ہیں۔”(السنن الکبرٰی للبیہقي : 40/1، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ”ضعیف” کہا ہے، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ اصولِ محدثین کے مطابق اس کی سند”حسن” ہے۔ واللہ اعلم!
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر مسواک نہ مل سکے تو انگلیوں سے دانت صاف کر لیے جائیں۔
فائدہ نمبر 3 : حالت ِ روزہ میں مسواک کرنا جائز ہے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘لَولَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِي، أَوْ عَلَی النَّاسِ، لَـأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ صَلَاۃٍ’ ”اگر میں اپنی امت کے لوگوں پر مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔”(صحیح البخاري : 887، صحیح مسلم : 252)
امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ سے باب قائم کیا ہے :
اَلرُّخْصَۃُ فِي السِّوَاکِ بِالْعَشِيِّ لِلصَّائِمِ .
”روزے دار کے لیے پچھلے پہر مسواک کرنے کی رخصت۔”
علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ اس پر یہ تبصرہ کرتے ہیں: وَمِنْہُ یُؤْخَذُ مَا ذَکَرَہُ الْمُصَنِّفُ مِنَ التَّرْجَمَۃِ، وَلَا یَخْفٰی أَنَّ ہٰذَا مِنَ الْمُصَنِّفِ اسْتِنْبَاطٌ دَقِیقٌ وَتَیَقُّظٌ عَجِیبٌ، فَلِلّٰہِ دَرُّہ،، مَا أَدَقَّ وَأَحَدَّ فَہْمُہ، . ”اس حدیث سے وہ مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے جو مصنف(امام نسائی رحمہ اللہ )نے تبویب میں ذکر کیا ہے۔بلاشبہ یہ امام صاحب کا بہت دقیق استنباط اور حیران کن بیدارمغزی کا ثبوت ہے۔اللہ کی شان! کیا تیز اور روشن فہم تھا آپ کا۔”(حاشیۃ السندي علی سنن النسائي : 13/1)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لَا بَأْسَ أَنْ یَّسْتَاکَ الصَّائِمُ السِّوَاکَ الرَّطْبَ وَالْیَابِسَ . ”روزہ دار کے تر یا خشک مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 37/3، وسندہ، حسنٌ)
بعض لوگ روزے داروں کو مسواک سے روکنے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ مسواک روزہ دار کے منہ کی بُو کو ختم کر دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری سے بھی بڑھ کر ہے۔ حالانکہ یہ محض ایک شبہ ہے۔ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس شبہے کے درج ذیل چھ جوابات دیے ہیں : (ا) إِنَّ الْمَضْمَضَۃَ أَبْلَغُ مِنَ السِّوَاکِ فِي قَطْعِ خُلُوفِ الْفَمِ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی مَشْرُوعِیَّتِہَا لِلصَّائِمِ .
( ب) إِنَّ رِضْوَانَ اللّٰہِ أَکْبَرُ مِنِ اسْتِطَابَتِہٖ لِخَلُوفِ فَمِ الصَّائِمِ .
(ج) إِنَّ مَحَبَّتَہ، لِلسِّوَاکِ أَعْظَمُ مِنْ مَّحَبَّتِہٖ لِبَقَاءِ خَلُوفِ فِمِ الصَّائِمِ .
(د) إِنَّ السِّوَاکَ لَا یَمْنَعُ طِیبَ الْخَلُوفِ الَّذِي یُزِیلُہ، السِّوَاکُ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ . (ھ) إِنَّ الْخَلُوفَ لَا یَزُولُ بِالسِّوَاکِ، لِأَنَّ سَبَبَہ، قَائِمٌ، وَہُوَ خُلُوُّ الْمِعْدَۃِ مِنَ الطَّعَامِ . (و) إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَّمَ أُمَّتَہ، مَا یُسْتَحَبُّ وَمَا یُکْرَہُ لَہُمْ فِي الصِّیَامِ، وَلَمْ یَجْعَلِ السِّوَاکَ مِنَ الْمَکْرُوہِ .
”1 کُلی کرنا مسواک کے مقابلے میں منہ کی بُو کو زیادہ ختم کرتا ہے لیکن روزہ دار کے لیے کُلی کے مشروع ہونے پر امت ِ مسلمہ کا اجماع ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ کی رضا مندی روزے دار کے منہ کی بُو کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقابلے میں بہت بڑی ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ کو مسواک سے جو محبت ہے ، وہ روزے دار کے منہ کی بُوسے بڑھ کرہے۔ 4 مسواک روزے دار کے منہ کی اس بُو کو ختم نہیں کر سکتی جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو گی۔ 5 یہ بُو مسواک سے ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس کا سبب قائم ہی رہتا ہے اور وہ ہے معدے کا خالی ہونا۔ 6 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو روزے کے تمام استحبابات اور مکروہات بتا دیے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کو روزے کے لیے مکروہ قرار نہیں دیا۔”
(دیکھیں زاد المعاد في ہدي خیر العباد : 324,323/4)
ایک روایت میں ہے سیدنا عمر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
[رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا لَا أُحْصِي یَتَسَوَّکُ، وَہُوَ صَائِمٌ]
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دفعہ روزے کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا۔”
(سنن أبي داو،د : 2364، سنن الترمذي : 721، وقال : حسنٌ)
اس کی سند اگرچہ ”ضعیف” ہے کیونکہ اس میں عاصم بن عبیداللہ نامی راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔حافظ نووی(خلاصۃ الأحکام : 87/1)، علامہ ہیثمی(مجمع الزوائد : 150/1) اور حافظ ابنِ حجر(النکت علی کتاب ابن الصلاح : 73/1) رحمہم اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔البتہ عمومی احادیث سے روزے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باربار مسواک کرنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم ذکر کر چکے ہیں۔
فائدہ نمبر 3 : ابوسلمہ تابعی بیان کرتے ہیں :
فَکَانَ زَیْدُ بْنُ خَالِدٍ یَّشْہَدُ الصَّلَوَاتِ فِي الْمَسْجِدِ، وَسِوَاکُہ، عَلٰی أُذُنِہٖ مَوْضِعَ الْقَلَمِ مِنْ أُذُنِ الْکَاتِبِ، لَا یَقُومُ إِلَی الصَّلَاۃِ إِلَّا اسْتَنَّ، ثُمَّ رَدَّہ، إِلٰی مَوْضِعِہٖ . ”سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ مسجد میں نمازوں کے لیے تشریف لاتے تو مسواک ان کے کان پر ایسے رکھی ہوتی تھی جیسے کاتب کے کان پر قلم۔ آپ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ، مسواک کرتے ، پھر اسے اس کی جگہ پر لوٹا دیتے۔”
(سنن أبي داو،د : 47، سنن الترمذي : 23، وقال : حسنٌ)
اس کی سند ”ضعیف” ہے کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق بن یسار راوی ”مدلس” ہیں جو کہ بصیغہئ عن روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
سنن کبریٰ بیہقی(61/1)میں ایک مرفوع روایت بھی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسواک کو کان کے پر رکھنے کا ذکر ہے، لیکن وہ بھی محمد بن اسحاق اور سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
فائدہ نمبر 4 : ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
‘صَلَاۃٌ بِسِوَاکٍ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِینَ صَلَاۃً بِغَیْرِ سِوَاکٍ’
”مسواک کے ساتھ پڑھی گئی ایک نماز بغیر مسواک کیے پڑھی گئی ستر نمازوں سے افضل ہوتی ہے۔”(مسند الإمام أحمد : 272/6، صحیح ابن خزیمۃ : 137، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 146/1)
اس کی سند ”ضعیف”ہے، کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق اور محمد بن شہاب دونوں ”مدلس” ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کر رہے۔اسی لیے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کی صحت میں شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
إِنْ صَحَّ الْخَبَرُ، لِأَنِّي خَائِفٌ أَنْ یَّکُونَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ مُّحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، وَإِنَّمَا دَلَّسَہ، عَنْہُ . ”اگر یہ حدیث صحیح ہوئی۔۔۔۔۔۔! کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے محمد بن مسلم(بن شہاب زہری) سے یہ حدیث نہیں سنی بلکہ ان سے تدلیس کی ہے۔”
بالکل یہی بات امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔(السنن الکبرٰی : 38/1)
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اسے مسلم کی شرط پر ”صحیح” کہنا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا ان کی موافقت کرنا صحیح نہیں۔
اسی روایت کی ایک دوسری سند سنن کبریٰ بیہقی(38/1)میں موجود ہے لیکن وہ بھی ”ضعیف” ہے کیونکہ اس میں محمد بن عمر واقدی راوی موجود ہے جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے۔
اس کی ایک تیسری سند سنن کبریٰ بیہقی(38/1)میں مذکور ہے لیکن وہ بھی ”ضعیف” ہے۔ اس میں فرج بن فضالہ راوی ”ضعیف” ہے۔(تقریب التہذیب لابن حجر : 5383)
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَہٰذَا إِسْنَادٌ غَیْرُ قَوِيٍّ . ”یہ سند قوی نہیں۔”
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یَصِحُّ حَدِیثُ الصَّلَاۃُ بِأَثَرِ السِّوَاکِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّلَاۃِ بِغَیْرِ سِوَاکٍ، وَہُوَ بَاطِلٌ .
”یہ حدیث صحیح نہیں کہ مسواک کے ساتھ پڑھی گئی نماز بغیر مسواک کے پڑھی گئی نماز سے افضل ہے۔ یہ روایت باطل ہے۔”(التمہید لابن عبد البر : 200/7)
الغرض یہ روایت تمام سندوں کے ساتھ ”ضعیف”ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَأَسَانِیدُہ، مَعْلُولَۃٌ . ”اس کی سندیں علت والی ہیں۔”
(التلخیص الحبیر : 68/1، ح : 69)
البتہ حسان بن عطیہ تابعی کا اس طرح کا ایک قول ملتا ہے، ان کا کہنا ہے :
یُقَالُ : رَکْعَتَانِ یَسْتَاکُ فِیہِمَا الْعَبْدُ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِینَ رَکْعَۃً لَّا یَسْتَاکُ فِیہَا . ”ایسی دو رکعتیں جن سے پہلے بندہ مسواک کر لے ، ان ستر رکعتوں سے بہتر ہیں جن میں مسواک نہ کی ہو۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 169/1، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 5 : سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : ‘نِعْمَ السِّوَاکُ الزَّیْتُونُ، مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ، یُطِیبُ الْفَمَ، وَیَذْہَبُ بِالْحَفَرِ، ہُوَ سِوَاکِي وَسِوَاکُ الْـأَنْبِیَاءِ قَبْلِي’
”سب سے عمدہ مسواک مبارک درخت زیتون کی ہے۔ یہ منہ کو خوشبودار کرتی ہے اور دانتوں کی کھوڑ کو ختم کرتی ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام کی مسواک یہی تھی۔”
(المعجم الأوسط للطبراني : 210/1، ح : 678)
لیکن یہ روایت موضوع(من گھڑت)ہے، کیونکہ :
1 اس کا راوی محمد بن محصن عکاشی ”کذاب” ہے۔ اس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَتْرُوکٌ، یَضَعُ . ”متروک راوی تھا، حدیثیں خود گھڑ لیتا تھا۔”(سوالات البرقاني للدارقطني : 459)
2 معلل بن نفیل حرانی کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَلَمْ أَجِدْ مَنْ ذَکَرَہ، . ”مجھے کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں ملا۔”
(مجمع الزوائد : 100/2)
معلوم ہوا کہ زیتون کی مسواک کی فضیلت بالکل ثابت نہیں۔اس جھوٹی روایت سے دوکاندار خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے لکھ کر لٹکاتے ہیں، حالانکہ ایسا کچھ ثابت نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.