2,366

مشاجرات صحابہ اور اہل حدیث، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


مشاجرات ِصحابہ،یعنی صحابہ کرام کے باہمی اختلافات،زبانی چپکلشوں،جھگڑوں اور لڑائیوں کے بارے میں موجودہ دور کے اصلی اہل سنت(اہل حدیث)کا وہی موقف ہے،جو خیرالقرون اور بعد کے اہل سنت کا تھا۔سلف صالحین کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ تھا کہ مشاجراتِ صحابہ میں زبان بند رکھی جائے اور سب کے حق میں دُعائے مغفرت کی جائے،جیسا کہ :
شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدیرحمہ اللہ (1206-1115ھ)فرماتے ہیں:
وَأَجْمَعَ أَھْلُ السُّنَّۃِ عَلَی السُّکُوتِ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَلَا یُقَالُ فِیہِمْ إِلَّا الْحُسْنٰی، فَمَنْ تَکَلَّمَ فِي مُعَاوِیَۃَ أَوْ غَیْرِہٖ مِنَ الصَّحَابَۃِ، فَقَدْ خَرَجَ عَنِ الْإِجْمَاعِ ۔
’’اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے گی۔ان کے بارے میں صرف اچھی بات کہی جائے گی۔لہٰذا جس شخص نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی کے بارے میں زبان کھولی، وہ اجماعِ اہل سنت کا مخالف ہے۔‘‘(مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ص : 317، طبعۃ وزارۃ الشئون الإسلامیۃ، السعودیّۃ)
اس سے پہلے شیخ الاسلام،تقی الدین،ابوالعباس،احمدبن عبد الحلیم،ابن تیمیہرحمہ اللہ (728-661ھ) فرما گئے ہیں:
کَانَ مِنْ مَّذَاہِبِ أَہْلِ السُّنَّۃِ الْإِمْسَاکُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ، فَإِنَّہٗ قَدْ ثَبَتَتْ فَضَائِلُہُمْ، وَوَجَبَتْ مُوَالَاتُہُمْ وَمَحَبَّتُہُمْ، وَمَا وَقَعَ مِنْہُ مَا یَکُونُ لَہُمْ فِیہِ عُذْرٌ یَخْفٰی عَلَی الْإِنْسَانِ، وَمِنْہُ مَا تَابَ صَاحِبُہٗ مِنْہُ، وَمِنْہُ مَا یَکُونُ مَغْفُورًا، فَالْخَوْضُ فِیمَا شَجَرَ یُوقِعُ فِي نُفُوسِ کَثِیرٍ مِّنَ النَّاسِ بُغْضًا وَذَمًّا، وَیَکُونُ ہُوَ فِي ذٰلِکَ مُخْطِئًا، بَلْ عَاصِیًا، فَیَضُرُّ نَفْسَہٗ، وَمَنْ خَاضَ مَعَہٗ فِي ذٰلِکَ، کَمَا جَرٰی لِأَکْثَرِ مَنْ تَکَلَّمَ فِي ذٰلِکَ، فَإِنَّہُمْ تَکَلَّمُوا بِکَلَامٍ لَّا یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَلَا رَسُولُہٗ، إِمَّا مِنْ ذَمِّ مَنْ لَّا یَسْتَحِقُّ الذَّمَّ، وَإِمَّا مِنْ مَدْحِ أُمُورٍ لَا تَسْتَحِقُّ الْمَدْحَ، وَلِہٰذَا کَانَ الْإِمْسَاکُ طَرِیقَۃُ أَفَاضِلِ السَّلَفِ ۔
’’اہل سنت کے عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ صحابہ کرام میں جو بھی اختلافات ہوئے،ان کے بارے میں اپنی زبان بند کی جائے،کیونکہ (قرآن و سنت میں)صحابہ کرام کے فضائل ثابت ہیں اور ان سے محبت و مودّت فرض ہے۔صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں سے بعض ایسے تھے کہ ان میں صحابہ کرام کا کوئی ایسا عذر تھا،جو عام انسان کو معلوم نہیں ہو سکا، بعض ایسے تھے جن سے انہوں نے توبہ کر لی تھی اور بعض ایسے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی معافی دے دی۔مشاجرات ِصحابہ میں غور کرنے سے اکثر لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام کے بارے میں بغض و عداوت پیدا ہو جاتی ہے،جس سے وہ خطاکار،بلکہ گنہ گار ہو جاتے ہیں۔یوں وہ اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جن لوگوں نے اس بارے میں اپنی زبان کھولی ہے،اکثر کا یہی حال ہوا ہے۔انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں تھیں۔انہوں نے ایسے لوگوں کی مذمت کی،جو مذمت کے مستحق نہیں تھے یا ایسے امور کی تعریف کی،جو قابل تعریف نہ تھے۔اسی لیے مشاجرات ِصحابہ میں زبان بند رکھنا ہی سلف صالحین کا طریقہ تھا۔‘‘
(منہاج السنّۃ النبویّۃ في نقض کلام الشیعۃ القدریّۃ : 448/1، 449، طبعۃ جامعۃ الإمام محمّد بن سعود الإسلامیّۃ)
یہ تھا مشاجرات ِصحابہ میں اہل سنت ،یعنی اہل حدیث کا عقیدہ۔اس عقیدے کے برعکس بعض لوگ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اور ان کی بنا پر بعض صحابہ کرام پر تنقید کرتے ہیں۔حالانکہ صحابہ کرام پر تنقید اور ان کی تنقیص بدعت و ضلالت ہے۔اس بارے میں سنی امام ،علامہ ،ابو المظفر،منصور بن محمد،سمعانیرحمہ اللہ (489-426ھ)فرماتے ہیں:
اَلتَّعَرُّضُ إِلٰی جَانِبِ الصَّحَابَۃِ عَلَامَۃٌ عَلٰی خِذْلَانِ فَاعِلِہٖ، بَلْ ہُوَ بِدْعَۃٌ وَّضَلَالَۃٌ ۔
’’صحابہ پر طعن کرنا کسی کے رسوا ہونے کی علامت ہے،بلکہ یہ بدعت اور گمراہی ہے۔‘‘
(فتح الباري لابن حجر : 365/4)
مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں زبان بند رکھنے کا عقیدہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔آئیے اس بارے میں دلائل ملاحظہ فرمائیں:
قرآنِ کریم اور مشاجرات ِصحابہ
اس بات میں کسی سنی مسلمان کو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ صحابہ کرام کے آپس کے اختلاف اجتہادی تھے،کسی بدنیتی پر مبنی ہر گز نہیں تھے۔اجتہاد میں اگر کوئی انسان غلطی بھی کر لے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اجر عنایت ہوتاہے۔جبکہ قرآنِ کریم کے مطابق صحابہ کرام سے جو غیر اجتہادی غلطیاں ہوئیں،ان کو بھی معاف فرما دیا گیا ہے۔غزوۂ احد میں جن صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی،ان کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:
{وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ} (آل عمران 3 : 155)
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے۔‘‘
نیز صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا : {وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ} (آل عمران 3 : 152)
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں معاف فرما دیا ہے۔‘‘
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی غیراجتہادی غلطیاں اور ان کے صریح گناہ بھی معاف فرما دئیے ہیں۔لہٰذا مشاجراتِ صحابہ جو یقینا ایک فریق کی اجتہادی غلطی پر مبنی تھے، وہ قرآن کی رُو سے بالاولیٰ معاف ہو گئے ہیں۔اب ان اختلافات کو بنیاد بنا کر کسی بھی صحابی کے بارے میں زبان کھولنا اپنی عاقبت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
کسی عام مسلمان سے کوئی کبیرہ گناہ ہو جائے اور وہ اس سے توبہ کر لے، تو اس کا ذکر کر کے اس کی تنقیص کرنا یا اس کو بنیاد بنا کر دل میں اس کے لیے تنگی رکھنا بھی گناہ ہے تو وہ اجتہادی غلطی جس پر اللہ تعالیٰ نے ایک اجر عطا فرمایا ہوا ہو،اس کی بنا پر کسی صحابی ٔ رسول کے خلاف زبان کھولنا کتنی بڑی بدبختی ہو گی!
حدیث ِرسول اور مشاجرات ِصحابہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا، مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِہِمْ، وَلَا نَصِیفَہٗ‘
’’میرے صحابہ کی تنقیص نہ کرو،میرے صحابہ کو برا بھلانہ کہو۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو کسی صحابی کے ایک مُدّ(تقریباً دو سے اڑھائی پاؤ)یا اس کے نصف کے برابر نہیں ہو سکتا۔‘‘
(صحیح مسلم : 2540)
عظیم تابعی و جلیل القدر محدث،امام حسن بصریرحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلٰی عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ زِیَادٍ، فَقَالَ : أَيْ بُنَيَّ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’إِنَّ شَرَّ الرِّعَائِ الْحُطَمَۃُ‘، فَإِیَّاکَ أَنْ تَکُونَ مِنْہُمْ، فَقَالَ لَہُ : اجْلِسْ، فَإِنَّمَا أَنْتَ مِنْ نُّخَالَۃِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : وَہَلْ کَانَتْ لَہُمْ نُخَالَۃٌ؟ إِنَّمَا کَانَتِ النُّخَالَۃُ بَعْدَہُمْ، وَفِي غَیْرِہِمْ ۔
’’صحابی ٔرسول سیدنا عائذ بن عمرو،عبیداللہ بن زیاد کے پاس آئے اور فرمانے لگے : بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بدترین حکمران وہ ہوتے ہیں، جو اپنی رعایا پر ظلم کرتے ہیں۔لہٰذ(میری نصیحت ہے کہ)تیرا شمار ایسے لوگوں میں نہ ہو۔ عبیداللہ بن زیاد کہنے لگا : بیٹھ جا،تُو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاگھٹیا درجے کا صحابی ہے۔سیدنا عائذ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : کیا صحابہ کرام میں سے بھی کوئی گھٹیا تھا؟ گھٹیا لوگ تو وہ ہیں جو صحابی نہ بن سکے اور وہ جو صحا بہ کرام کے بعد میں آئے۔‘‘(صحیح مسلم : 1830)
ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ ارفع و اعلیٰ درجات پر فائز ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ بعض صحابہ کو بعض پر فضیلت حاصل ہے،لیکن اس کے باوجود تمام صحابہ کرام قابل عزت و احترام ہیں اور بعد میں آنے والا کوئی شخص نیکی و تقویٰ اور علم کا بڑے سے بڑا کارنامہ سر انجام دے کر بھی کسی صحابی کی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔لہٰذا کسی بعد والے کو یہ حق نہیں کہ وہ صحابہ کرام کی بشری لغزشوں،جن کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہے، یا ان کی اجتہادی غلطیوں،جن پر اللہ تعالیٰ نے بھی مؤاخذہ نہیں فرمایا، کو بنیاد بنا کر ان کے بارے میں بدظنی کا شکار ہو یا زبان درازی کرے۔
اجماعِ امت اور مشاجرات ِصحابہ
ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ محمد بن عبد الوہابHکی زبانی یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ مشاجرات ِصحابہ میں زبان بند رکھنے پر امت ِمسلمہ کا اجماع ہے۔ان صاحبان کا یہ دعویٰ بے دلیل نہیں، واقعی سلف صالحین کا عقیدہ یہی تھا کہ مشاجرات ِصحابہ میں خاموشی اختیار کی جائے اور اس بارے میں زبان کھولنا گمراہی ہے، جیسا کہ :
n امام ابوزرعہ،عبد اللہ بن عبد الکریم، رازی(264-200ھ)اور امام ابوحاتم،محمدبن ادریس، رازی(277-195ھ)H اہل سنت کا اجماعی عقیدہ بیان فرماتے ہیں:
أَدْرَکْنَا الْعُلَمَائَ فِي جَمِیعِ الْـأَمْصَارِ حِجَازًا، وَعِرَاقًا، وَمِصْرًا، وَشَامًّا، وَیَمَنًا، فَکَانَ مِنْ مَّذْہَبِہِمْ ۔۔۔ وَالتَّرَحُّمُ عَلٰی جَمِیعِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالْکَفُّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ۔
’’ہم نے حجاز و عراق ، مصر وشام اور یمن تمام علاقوں کے علمائے کرام کو دیکھا ہے،ان سب کا مذہب یہ تھا کہ ۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات سے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔‘‘
(کتاب أصل السنّۃ واعتقاد الدین لابن أبي حاتم)
n عباسی خلیفہ القائم بامرا للہ،ابوجعفر،ابن القادر،ہاشمی(467-391ھ)نے تقریباً 430ہجری میں ’’الاعتقاد القادری‘‘کے نام سے مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ شائع کیا، جسے اس دور کے تمام اہل علم کی تائید حاصل تھی اور اس کا مخالف باتفاقِ اہل علم فاسق و فاجر قرار پایا،اس میں یہ عقیدہ بھی درج ہے :
وَلَا یَقُولُ فِي مُعَاوِیَۃَ إِلَّا خَیْرًا، وَلَا یَدْخُلُ فِي شَیْئٍ شَجَرَ بَیْنَہُمْ، وَیَتَرَحَّمُ عَلٰی جَمَاعَتِہِمْ ۔
’’مسلمان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں صرف اچھی بات ہی کرتا ہے،وہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات میں دخل نہیں دیتا،بلکہ تمام صحابہ کرام کے لیے رحمت کی دُعا کرتا ہے۔‘‘
(الاعتقاد القادري، مندرج في المنتظم لابن الجوزي : 281/15، وسندہٗ صحیحٌ)
b ثقہ و صدوق تبع تابعی،امام عوام بن حوشب رحمہ اللہ (م : 148ھ)فرماتے ہیں:
اُذْکُرُوا مَحَاسِنَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، تَأْتَلِفُ عَلَیْہِ قُلُوبُکُمْ، وَلَا تَذْکُرُوا غَیْرَہٗ، فَتُحَرِّشُوا النَّاسَ عَلَیْہِمْ ۔
’’تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے محاسن ہی بیان کیا کرو۔اس سے تمہارے مابین اتحاد پیدا ہو گا۔صحابہ کرام کے بارے میں بدگمانی والی باتیں نہ کرو۔ اس سے تم لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے کا سبب بنو گے۔‘‘
(الشریعۃ للآجري : 1981، السنۃ لأبي بکر الخلّال : 828، 829، وسندہٗ حسنٌ)
b کٹّر سنی،عظیم تبع تابعی، امام شہاب بن خراشرحمہ اللہ (المتوفّٰی بعد : 174ھ) فرماتے ہیں: أَدْرَکْتُ مَنْ أَدْرَکْتُ مِنْ صَدْرِ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ، وَھُمْ یَقُولُونَ : اُذْکُرُوا أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تَأْتَلِفُ عَلَیْہِ الْقُلُوبُ، وَلَا تَذْکُرُوا الَّذِي شَجَرَ بَیْنَہُمْ، فَتُحَرِّشُوا النَّاسَ عَلَیْہِمْ ۔
’’میں نے اس امت کے اسلاف کو یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا صرف ایسا تذکرہ کیا کرو،جس سے ان کے بارے میں محبت پیدا ہو۔ان کے اختلافات کا تذکرہ نہ کرو کہ اس سے تم لوگوں کو ان سے متنفر کرنے کا سبب بنو گے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 53/5، تاریخ دمشق لابن عساکر : 215/23، میزان الاعتدال للذہبي : 282/2، وسندہٗ صحیحٌ)
b امام ابو الحسن،اشعریرحمہ اللہ (324-260ھ)فرماتے ہیں:
وَنَتَوَلّٰی سَائِرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَنَکُفُّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ۔ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔‘‘
(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ، ص : 29)
b حافظ ذہبیرحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں :
فَسَبِیلُنَا الْکَفُّ وَالِاسْتِغْفَارُ لِلصَّحَابَۃِ، وَلَا نُحِبُّ مَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، وَنَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْہُ ۔ ’’ہمارا منہج یہ ہے کہ صحابہ کرام کے (اختلافات کے) بارے میں زبان بند رکھی جائے اور ان کے لیے مغفرت کی دُعا کی جائے۔ ان کے مابین جو بھی اختلافات ہوئے،ہم ان کا تذکرہ پسند نہیں کرتے،بلکہ ایسے طرز عمل سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 39/3)
مزید فرماتے ہیں: وَکَانَ النَّاسُ فِي الصَّدْرِ الْـأَوَّلِ بَعْدَ وَقْعَۃِ صِفِّینَ عَلٰی أَقْسَامٍ ؛ أَہْلُ سُنَّۃٍ، وَہُمْ أُولُوا الْعِلْمِ، وَہُمْ مُّحِبُّونَ لِلصَّحَابَۃِ، کَافُّونَ عَنِ الْخَوْضِ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، کَسَعْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَۃَ، وَأُمَمٍ، ثُمَّ شِیعَۃٌ، یَتَوَالَوْنَ، وَیَنَالُوْنَ مِمَّنْ حَارَبُوا عَلِیًّا، وَیَقُولُونَ : إِنَّہُمْ مُّسْلِمُونَ، بُغَاۃٌ، ظَلَمَۃٌ، ثُمَّ نَوَاصِبُ، وَہُمُ الَّذِینَ حَارَبُوا عَلِیًّا یَّوْمَ صِفِّینَ، وَیُقِرُّونَ بِإِسْلَامٍ عَلٰی سَابِقَیْہِ، وَیَقُولُونَ : خَذَلَ الْخَلِیفَۃَ عُثْمَانَ، فَمَا عَلِمْتُ فِي ذٰلِکَ الزَّمَانِ شِیعِیًّا کَفَّرَ مُعَاوِیَۃَ وَحِزْبَہٗ، وَلَا نَاصِبِیًّا کَفَّرَ عَلِیًّا وَّحِزْبَہٗ، بَلْ دَخَلُوا فِي سَبٍّ وَّبُغْضٍ، ثُمَّ صَارَ الْیَوْمَ شِیعَۃُ زَمَانِنَا یُکَفِّرُونَ الصَّحَابَۃَ، وَیُبَرِّؤُونَ مِنْہُمْ جَہْلًا وَّعُدْوَانًا، وَیَتَعَدُّونَ إِلَی الصِّدِّیقِ، قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ، وَأَمَّا نَوَاصِبُ وَقْتِنَا فَقَلِیلٌ، وَمَا عَلِمْتُ فِیہِمْ مَّنْ یُّکَفِّرُ عَلِیًّا وَّلَا صَحَابِیًّا ۔ ’’واقعہ صفین کے بعد صدر اوّل کے لوگ تین اقسام میں بٹ گئے تھے؛ ایک اہل سنت جو تمام صحابہ کرام سے محبت رکھتے تھے اور ان کے باہمی اختلافات میں ٹانگ اڑانے سے باز رہتے تھے،جیسا کہ سیدنا سعد،سیدنا ابن عمر،محمد بن سلمہ اور دیگر بہت سے لوگ۔دوسرے شیعہ جو اہل بیت سے محبت کا دم بھرتے تھے اور جن لوگوں کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی ہوئی،ان کی گستاخی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ باغی اور ظالم مسلمان ہیں۔ تیسرے ناصبی لوگ جو صفین والے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑے تھے اور سیدنا ابوبکرو عمر کو مسلمان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا۔میرے علم میں اُس دور کا کوئی شیعہ ایسا نہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو کافر قرار دیتا ہو،نہ اس دور کا کوئی ناصبی ایسا تھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہو، بلکہ وہ صرف مخالفین پر سب و شتم کرتے تھے اور دل میں ان کے لیے بغض رکھتے تھے۔ پھر یہ دور آیا کہ ہمارے زمانے کے شیعہ اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی کی بنا پر صحابہ کرام کو کافر کہتے ہوئے ان سے براء ت کا اعلان کرنے لگے۔وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ظلم و زیادتی پر مبنی باتیں کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کو تباہ و برباد کرے۔ رہے ناصبی تو وہ ہمارے دور میں بہت کم رہ گئے ہیں۔میرے علم کے مطابق ان میں سے کوئی بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی کو کافر قرار نہیں دیتا۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء : 374/5)
نیز لکھتے ہیں: بَلْ سَبِیلُنَا أَنْ نَّسْتَغْفِرَ لِکُلٍّ وَّنُحِبُّھُمْ، وَنَکُفَّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ۔ ’’ہمارا منہج یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ کرام کے لیے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں،سب سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے مابین جو اختلافات ہوئے، ان سے زبان بند رکھتے ہیں۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 370/7)
b امام محمد بن حسین آجریرحمہ اللہ (م : 360ھ)فرماتے ہیں:
یَنْبَغِي لِمَنْ تَدَبَّرَ مَا رَسَمْنَاہُ مِنْ فَضَائِلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَضَائِلِ أَہْلِ بَیْتِہٖ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ أَنْ یُّحِبَّہُمْ، وَیَتَرَحَّمَ عَلَیْہِمْ، وَیَسْتَغْفِرَ لَہُمْ، وَیَتَوَسَّلَ إِلَی اللّٰہِ الْکَرِیمِ بِہِمْ، وَیَشْکُرَ اللّٰہَ الْعَظِیمَ إِذْ وَفَّقَہٗ لِہٰذَا، وَلَا یَذْکُرَ مَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، وَلَا یَنْقُرَ عَنْہُ، وَلَا یَبْحَثَ، فَإِنْ عَارَضَنَا جَاہِلٌ مَّفْتُونٌ قَدْ خُطِیَٔ بِہٖ عَنْ طَرِیقِ الرَّشَادِ، فَقَالَ : لِمَ قَاتَلَ فُلَانٌ لِّفُلَانٍ، وَلِمَ قَتَلَ فُلَانٌ لِّفُلَانٍ وَفُلَانٍ؟ قِیلَ لَہٗ : مَا بِنَا وَبِکَ إِلٰی ذِکْرِ ہٰذَا حَاجَۃٌ تَنْفَعُنَا، وَلَا اضْطُرِرْنَا إِلٰی عِلْمِہَا، فَإِنْ قَالَ : وَلِمَ ؟ قِیلَ لَہٗ : لِأَنَّہَا فِتَنٌ شَاہَدَہَا الصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَکَانُوا فِیہَا عَلٰی حَسَبِ مَا أَرَاہُمُ الْعِلْمُ بِہَا، وَکَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِیلِہَا مِنْ غَیْرِہِمْ، وَکَانُوا أَہْدٰی سَبِیلًا مِّمَّنْ جَائَ بَعْدَہُمْ، لِأَنَّہُمْ أَہْلُ الْجَنَّۃ، عَلَیْہِمْ نَزَلَ الْقُرْآنُ، وَشَاہَدُوا الرَّسُولَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَجَاہَدُوا مَعَہٗ، وَشَہِدَ لَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالرِّضْوَانِ وَالْمَغْفِرَۃِ وَالْـأَجْرِ الْعَظِیمِ، وَشَہِدَ لَہُمُ الرَّسُولُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ خَیْرُ قَرْنٍ، فَکَانُوا بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ أَعْرَفَ، وَبِرَسُولِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِالْقُرْآنِ وَبِالسُّنَّۃِ، وَمِنْہُمْ یُؤْخَذُ الْعِلْمُ، وَفِي قَوْلِہِمْ نَعِیشُ، وَبِأَحْکَامِہِمْ نَحْکُمُ، وَبِأَدَبِہِمْ نَتَأَدَّبُ، وَلَہُمْ نَتَّبِعُ، وَبِہٰذَا أُمِرْنَا، فَإِنْ قَالَ : وَإِیشِ الَّذِي یَضُرُّنَا مِنْ مَّعْرِفَتِنَا لِمَا جَرٰی بَیْنَہُمْ وَالْبَحْثِ عَنْہُ؟ قِیلَ لَہٗ : مَا لَا شَکَّ فِیہِ، وَذٰلِکَ أَنَّ عُقُولَ الْقَوْمِ کَانَتْ أَکْبَرَ مِنْ عُقُولِنَا، وَعُقُولُنَا أَنْقَصُ بِکَثِیرٍ، وَلَا نَأْمَنُ أَنْ نَّبْحَثَ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، فَنَزِلَّ عَنْ طَرِیقِ الْحَقِّ، وَنَتَخَلَّفَ عَمَّا أُمِرْنَا فِیہِمْ، فَإِنْ قَالَ : وَبِمَ أُمِرْنَا فِیہِمْ؟ قِیلَ : أُمِرْنَا بِالِاسْتِغْفَارِ لَہُمْ، وَالتَّرَحُّمِ عَلَیْہِمْ، وَالْمَحَبَّۃِ لَہُمْ، وَالِاتِّبَاعِ لَہُمْ، دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ وَقَوْلُ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَا بِنَا حَاجَۃٌ إِلٰی ذِکْرِ مَا جَرٰی بَیْنَہُمْ، قَدْ صَحِبُوا الرَّسُولَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَصَاہَرَہُمْ، وَصَاہَرُوہُ، فَبِالصُّحْبَۃِ یَغْفِرُ اللّٰہُ الْکَرِیمُ لَہُمْ، وَقَدْ ضَمِنَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِي کِتَابِہٖ أَنْ لَّا یُخْزِيَ مِنْہُمْ وَاحِدًا، وَقَدْ ذَکَرَ لَنَا اللّٰہُ تَعَالٰی فِي کِتَابِہٖ أَنَّ وَصْفَہُمُ فِي التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ، فَوَصَفَہُمْ بِأَجْمَلِ الْوَصْفِ، وَنَعَتَہُمْ بِأَحْسَنِ النَّعْتِ، وَأَخْبَرَنَا مَوْلَانَا الْکَرِیمُ أَنَّہٗ قَدْ تَابَ عَلَیْہِمْ، وَإِذَا تَابَ عَلَیْہِمْ لَمْ یُعَذِّبْ وَاحِدًا مِّنْہُمْ أَبَدًا، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ، أُولٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ، أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ، فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ : إِنَّمَا مُرَادِي مِنْ ذٰلِکَ لَـأَنْ أَکُونَ عَالِمًا بِمَا جَرٰی بَیْنَہُمْ، فَأَکُونَ لَمْ یَذْہَبْ عَلَيَّ مَا کَانُوا فِیہِ، لِأَنِّي أُحِبُّ ذٰلِکَ وَلَا أَجْہَلُہٗ، قِیلَ لَہٗ : أَنْتَ طَالِبُ فِتْنَۃٍ، لِأَنَّکَ تَبْحَثُ عَمَّا یَضُرُّکَ وَلَا یَنْفَعُکَ، وَلَوِ اشْتَغَلْتَ بِإِصْلَاحِ مَا لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکَ فِیمَا تَعَبَّدَکَ بِہٖ مِنْ أَدَائِ فَرَائِضِہٖ، وَاجْتِنَابِ مَحَارِمِہٖ، کَانَ أَوْلٰی بِکَ، وَقِیلَ : وَلَا سِیَّمَا فِي زَمَانِنَا ہٰذَا، مَعَ قُبْحِ مَا قَدْ ظَہْرَ فِیہِ مِنَ الْـأَہْوَائِ الضَّالَّۃِ، وَقِیلَ لَہٗ : اشْتِغَالُکَ بِمَطْعَمِکَ وَمَلْبَسِکَ مِنْ أَیْنَ ہُوَ؟ أَوْلٰی بِکَ، وَتَکَسُّبُکَ لِدِرْہَمِکَ مِنْ أَیْنَ ہُوَ؟ وَفِیمَا تُنْفِقُہُ؟ أَوْلٰی بِکَ، وَقِیلَ : لَا یَأْمَنُ أَنْ یَّکُونَ بِتَنْقِیرِکَ وَبَحْثِکَ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ الْقَوْمِ إِلٰی أَنْ یَّمِیلَ قَلْبُکَ، فَتَہْوٰی مَا لَا یَصْلُحُ لَکَ أَنْ تَہْوَاہُ، وَیَلْعَبَ بِکَ الشَّیْطَانُ، فَتَسُبَّ وَتُبْغِضَ مَنْ أَمَرَکَ اللّٰہُ بِمَحَبَّتِہِ، وَالِاسْتِغْفَارِ لَہٗ، وَبِاتِّبَاعِہٖ، فَتَزِلَّ عَنْ طَرِیقِ الْحَقِّ، وَتَسْلُکَ طَرِیقَ الْبَاطِلِ، فَإِنْ قَالَ : فَاذْکُرْ لَنَا مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، وَعَمَّنْ سَلَفَ مِنْ عُلَمَائِ الْمُسْلِمِینَ، مَا یَدُلُّ عَلٰی مَا قُلْتَ، لِتَرُدَّ نُفُوسَنَا عَمَّا تَہْوَاہُ مِنَ الْبَحْثِ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، قِیلَ لَہٗ : قَدْ تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لِمَا ذَکَرْتُہٗ مِمَّا فِیہِ بَلَاغٌ وَّحُجَّۃٌ لِّمَنْ عَقَلَ، وَنُعِیدُ بَعْضَ مَا ذَکَرْنَاہُ لِیَتَیَقَّظَ بِہِ الْمُؤْمِنُ الْمُسْتَرْشِدُ إِلٰی طَرِیقِ الْحَقِّ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : {مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِي الْـاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَآزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ} (الفتح 48 : 29)، ثُمَّ وَعَدَہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ الْمَغْفِرَۃَ وَالْـأَجْرَ الْعَظِیمَ، وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : {لَقَدْ تَابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُہَاجِرِیْنَ وَالْـاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ}(التوبۃ 9 : 117)، وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ : {وَالسَّابِقُوْنَ الْـاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْـاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ} (التوبۃ 9 : 100) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ : {یَوْمَ لَا یُخْزِي اللّٰہُ النَّبِيَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہٗ نُورُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ} (التحریم 66 : 8) الْآیَۃُ، وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ : {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ} (آل عمران 3 : 110) الْآیَۃُ، وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ : {لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ} (الفتح 48 : 18) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنٰی عَلٰی مَنْ جَائَ بَعْدَ الصَّحَابَۃِ، فَاسْتَغْفَرَ لِلصَّحَابَۃِ، وَسَأَلَ مَوْلَاہُ الْکَرِیمَ أَنْ لَّا یَجْعَلَ فِي قَلْبِہٖ غِلًّا لَّہُمْ، فَأَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ بِأَحْسَنِ مَا یَکُونُ مِنَ الثَّنَائِ، ۔۔۔۔۔، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ‘ (صحیح البخاري : 2652، صحیح مسلم : 2533)، ۔۔۔۔۔، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ : یُقَالُ لِمَنْ سَمِعَ ہٰذَا مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ کُنْتَ عَبْدًا مُّوَفَّقًا لِّلْخَیْرِ اتَّعْظَتْ بِمَا وَعَظَکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ، وَإِنْ کُنْتَ مُتَّبِعًا لِّہَوَاکَ خَشِیتُ عَلَیْکَ أَنْ تَکُونَ مِمَّنْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِنَ اللَّہِ)، وَکُنْتَ مِمَّنْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ (وَلَوْ عَلِمَ اللَّہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ)، وَیُقَالُ لَہٗ : مَنْ جَائَ إِلٰی أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی یَطْعَنَ فِي بَعْضِہِمْ وَیَہْوٰی بَعْضَہُمْ، وَیَذُمَّ بَعْضًا وَّیَمْدَحَ بَعْضًا، فَہٰذَا رَجُلٌ طَالِبُ فِتْنَۃٍ، وَفِي الْفِتْنَۃِ وَقَعَ، لِأَنَّہٗ وَاجِبٌ عَلَیْہِ مَحَبَّۃُ الْجَمِیعِ، وَالِاسْتِغْفَارِ لِلْجَمِیعِ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَنَفَعَنَا بِحُبِّہِمْ ۔
’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور آپ کے اہل بیت کے جو فضائل بیان کیے ہیں،جو شخص ان کو غور سے ملاحظہ کر لے،اسے چاہیے کہ وہ تمام صحابہ کرام اور اہل بیت سے محبت رکھے ،سب کے لیے رحمت اور مغفرت کی دُعا کرے۔ان(کے بارے میں اس عقیدے)کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں وسیلہ بناتے ہوئے اس طرف توفیق دینے پر اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کریں،وہ صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات ہوئے،ان کانہ ذکر کرے،نہ ان کے بارے میں بحث و تفتیش میں پڑے۔اگرراہِ ہدایت سے بھٹکا ہوا کوئی جاہل اور پاگل شخص تکرار کرتے ہوئے ہمیں کہے کہ فلاں صحابی نے فلاں سے لڑائی کیوں کی اور فلاں نے فلاں کو قتل کیوں کیا؟ تو ہم اسے جواب میں یہ کہیں گے کہ ہمیں اس بات کا نہ توکوئی فائدہ ہے نہ ہم اسے معلوم کرنے پر مجبور ہیں۔اگر وہ کہے کہ کیوں؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ فتنے تھے جن سے صحابہ کرامy کا پالا پڑا اور انہوں نے ان فتنوں میں وہی طریقہ کار اپنایا جس کی طرف ان کے علمی اجتہاد نے ان کی رہنمائی کی۔وہ ان فتنوں کی حقیقت کو بعد والوں سے بڑھ کر جانتے تھے۔وہ بعد والوں سے زیادہ سیدھے راستے پر گامزن تھے،کیونکہ وہ اہل جنت تھے،ان کے سامنے قرآن نازل ہوا،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا اور آپ کی معیت میں جہاد بھی کیا،اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنی خوشنودی،مغفرت اور اجر عظیم کی ضمانت دی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خیرالقرون ہونے کی گواہی دی۔وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑھ کر معرفت رکھنے والے تھے ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جاننے والے اور قرآن و سنت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے،لہٰذا ہم علم انہی سے اخذ کرتے ہیں،ان کے اقوال سے تجاوز نہیں کرتے،انہی کے فیصلوں کو نافذکرتے ہیں،اپنے آپ کو انہی کے رنگ میں رنگتے ہیں،انہی کی پیروی کرتے ہیں اور ہمیں حکم بھی اسی بات کا دیا گیا ہے۔اگر وہ شخص یہ کہہ دے کہ ہمیں صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کی جانچ پڑتال میں پڑنے سے کون سا نقصان ہو جائے گا؟ تو ہم کہیں گے مشاجرات ِصحابہ میں دخل دینے سے نقصان میں مبتلا ہونا لازم ہے،کیونکہ صحابہ کرام عقلی اعتبار سے ہم سے بہت فائق تھے،جبکہ ہم ان کے مقابلے میں بہت زیادہ کم عقل ہیں،یوں اگر ہم ان کے مابین اختلافات میں غور وخوض کریں گے تو ضروری طور پر راہِ حق سے گمراہ ہو جائیں گے اور ان کے بارے میں جس سلوک کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، اس سے منحرف ہو جائیں گے۔اگر وہ سوال کرے کہ ہمیں صحابہ کرام کے بارے میں کیا حکم دیا گیا ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ ہمیں ان کے لیے استغفار اور رحمت کی دُعا کرنے،ان سے محبت رکھنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ اس پر کتاب و سنت اور ائمہ مسلمین کے اقوال دلیل ہیں۔ہمیں صحابہ کرام کے مابین اختلافات کو ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مشرف ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داری اختیار کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان سے رشتہ داری بنائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی بنا پر ہی اللہ کریم ان کو معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ ضمانت دی ہے کہ وہ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا اور قرآنِ کریم میں یہ بھی ذکر کیا کہ صحابہ کرام کی نشانیاں توراۃ و انجیل میں مذکور ہیں۔یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین محاسن و اوصاف سے متصف فرمایا اور ہمیں یہ بتا دیا کہ اس نے اُن کی توبہ قبول کر لی ہے۔جب ان کی توبہ قبول ہو گئی ہے تو ان میں سے کسی کو کبھی بھی عذاب نہیں ہو سکتا۔اللہ صحابہ کرام سے راضی ہو گیا اور صحابہ کرام اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے ہیں۔یہ لوگ اللہ کا گروہ تھے اور اللہ کا گروہ ہی کامیاب و کامران ہے۔اگر کوئی کہے کہ اس سے میری مراد یہ ہے کہ میں صحابہ کرام کے اختلافات سے باخبر ہو جاؤں اور وجۂ اختلاف جاننا مجھے اچھا لگتا ہے۔اسے کہا جائے کہ تُو فتنہ برپا کرنا چاہتاہے ،کیونکہ تو وہ چیز طلب کر رہا ہے جو تجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی،البتہ نقصان ضرور دے گی۔اگر اس کے بجائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کیے گئے فرائض وواجبات کی ادائیگی کر کے اور اس کے بیان کردہ محرمات سے بچ کر اپنی بندگی کی اصلاح کر لیتا تو یہ کام تیرے لیے بہتر ہوتا،خصوصاً ہمارے اس زمانے میں جب کہ بہت سی گمراہیاں بھی سر اٹھا چکی ہیں۔تیرے کھانے پینے،لباس اور معاش کا انتظام کہاں سے ہو گا اور مال کو خرچ کہاں کرنا ہے؟ اس بارے میں غورو فکر تیرے لیے زیادہ بہتر ہے۔صحابہ کرام کے مشاجرات کی بحث و تفتیش میں پڑنے کے بعد تیرا دل کج روی سے محفوظ نہیں رہ پائے گا اور تُو وہ سوچنے لگے گا،جو تیرے لیے جائز ہی نہیں،شیطان تجھے بہکائے گا اور تُو ان ہستیوں کو بُرا بھلا کہنے لگے گا اور ان سے بغض رکھنے لگے گا،جن سے محبت کرنے ، جن کے بارے میں استغفار کرنے اور جن کی پیروی کرنے کا تجھے اللہ کی طرف سے حکم ہے۔یوں تُو شاہراہِ حق سے بھٹک کر باطل کی پگڈنڈیوں کا راہی بن جائے گا۔ اگر وہ کہے کہ ہمیں قرآن و سنت کی نصوص اور علمائے مسلمین کے اقوال میں وہ بات دکھاؤ جس سے تمہارا مدعا ثابت ہوتا ہو تاکہ ہم صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں بحث و تفتیش کی خواہش سے باز آ جائیں، تو اس سے کہا جائے گا کہ اس سلسلے میں وہ تمام چیزیں ہم ذکر کر چکے ہیں جن سے ذی شعور شخص کو حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے،البتہ ان میں سے کچھ باتیں یہاں دوبارہ ذکر کی جائیں گی تاکہ حق کا متلاشی مؤمن کا ضمیر جاگ جائے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِي الْـاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَآزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ} (الفتح 48 : 29) (محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اورجو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کافروں پر بہت سخت اور آپس میں بہت مہربان ہیں،آپ انہیں رکوع و سجود کرتے دیکھیں گے،وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کے طلبگار رہتے ہیں، ان کی ایک خصوصی پہچان ان کے چہروں میں سجدوں کا نشان ہے، ان کی یہ صفت تورات میں ہے، اور انجیل میں ان کی صفت اس کھیتی کے مانند ہے جس نے اپنی کونپل نکالی،پھر اسے مضبوط کیا اوروہ[پودا]توانا ہوگیا، پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا،یہ صورت حال کسانوں کو خوش کرتی ہے،[اللہ کی طرف سے یہ اس لیے ہوا]تاکہ ان(صحابہ کرام)کی وجہ سے کفار کو غیض و غضب میں مبتلا کرے)۔پھر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ دیا۔ یہ بھی فرمایا کہ : {لَقَدْ تَابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُہَاجِرِیْنَ وَالْـاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ}(التوبۃ 9 : 117)(بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان مہاجرین و انصار پر شفقت فرمائی جنہوں نے تنگی کے عالم میں آپ کی پیروی کی)۔نیز فرمایا : {وَالسَّابِقُوْنَ الْـاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْـاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ} (التوبۃ 9 : 100) (مہاجرین اور انصار میں سے اسلام میں سبقت کرنے والے اورجن لوگوں نے اچھے طریقے سے ان کی پیروی کی،اللہ ان سے راضی ہو گیا)، {یَوْمَ لَا یُخْزِي اللّٰہُ النَّبِيَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہٗ نُورُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ} (التحریم 66 : 8) ([قیامت وہ دن ہے]جس دن اللہ اپنے نبی اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا،ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑتا ہوگا)،{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ} (آل عمران 3 : 110)(تم بہتر امت ہو)، {لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ} (الفتح 48 : 18) (یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے راضی ہو گیا)۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف بھی کی جو صحابہ کرام کے بعد آ کر ان کے لیے استغفار کریں گے اور دُعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں صحابہ کرام کے بارے میں کوئی خلش نہ ڈالے۔اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی بہت زیادہ ثناء کی ہے۔۔۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں،پھر وہ جو ان کے بعد آئے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئے(صحیح البخاري : 2652، صحیح مسلم : 2533)۔۔۔جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین سن لے ،اسے کہا جائے کہ اگر تُو ہدایت و بھلائی کا طالب ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصیحت پر عمل کر اور اگر اب بھی تُو اپنی من مرضی کرے گا تو ڈر ہے کہ تیرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جائے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : {وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ} (القصص 28 : 50)(اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے نفس کی پیروی کر لی؟)۔{وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَّـاَسْمَعَہُمْ وَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ}(الأنفال 8 : 23)(اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انہیں ضرور سنا [سمجھا]دیتا، اور اگر وہ انہیں سنا[سمجھا]دیتا تو بھی وہ ضرور پھر جاتے اور اعراض کرنے والے ہوتے) اور اسے یہ بھی کہا جائے کہ جو شخص رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام پر طعن کرے اور بعض کی تعریف کرے ،نیز بعض پر تنقید کرے اور بعض کی مدح کرے،وہ فتنہ پرور ہے اور فتنے میں مبتلا ہو چکا ہے،کیونکہ اس پر فرض تھا کہ سب صحابہ کرام سے محبت کرتا اورسب کے لیے استغفار کرتا۔اللہ تعالیٰ صحابہ کرام سے راضی ہو اور ہمیں ان کی محبت کے سبب نجات دے۔۔۔‘‘(الشریعۃ : 2485/5)
b امام ابوبکر،احمد بن ابراہیم،اسماعیلیرحمہ اللہ (371-277ھ)محدثین کرام کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالْکَفُّ عَنِ الْوَقِیعَۃِ فِیہِمْ، وَتَأْوُّلِ الْقَبِیحِ عَلَیْہِمْ، وَیَکِلُونَہُمْ فِیمَا جَرٰی بَیْنَہُمْ عَلَی التَّأْوِیلِ إِلَی اللّٰہِ عزَّ وَجَلَّ ۔
’’ائمہ حدیث صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں اپنی زبان بند رکھتے ہیں،بُری باتیں ان پر نہیں تھوپتے اور اجتہادی طور پر ان کے مابین جو بھی ناخوشگوار واقعات ہوئے،ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتے ہیں۔‘‘(اعتقاد ائمّۃ الحدیث، ص : 79)
b امام،ابو الحسن،علی بن اسماعیل،اشعریرحمہ اللہ (324-260ھ)فرماتے ہیں:
فَأَمَّا مَا جَرٰی مِنْ عَلِيٍّ وَّالزُّبَیْرِ وَعَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ، فَإِنَّمَا کَانَ عَلٰی تَأْوِیلٍ وَّاجْتِہَادٍ، وَعَلِيٌّ الْإِمَامُ، وَکُلُّہُمْ مِّنْ أَہْلِ الِاجْتِہَادِ، وَقَدْ شَہِدَ لَہُمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّۃِ وَالشَّہَادَۃِ، فَدَلَّ عَلٰی أَنَّہُمْ کُلَّہُمْ کَانُوا عَلٰی حَقٍّ فِي اجْتِہَادِہِمْ، وَکَذٰلِکَ مَا جَرٰی بَیْنَ سَیِّدِنَا عَلِيٍّ وَّمُعَاوِیَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَدَلَّ عَلٰی تَأْوِیلٍ وَّاجْتِہَادٍ، وَکُلُّ الصَّحَابَۃِ أَئِمَّۃٌ مَّأْمُونُونَ غَیْرُ مُتَّہَمِینَ فِي الدِّینِ، وَقَدْ أَثْنَی اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ عَلٰی جَمِیعِہِمْ، وَتَعَبَّدَنَا بِتَوْقِیرِہِمْ وَتَعْظِیمِہِمْ وَمُوَالَاتِہِمْ، وَالتَّبَرِّي مِنْ کُلِّ مَنْ یَنْقُصُ أَحَدًا مِّنْہُمْ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ ۔
’’سیدنا علی،سیدنا زبیراور سیدہ عائشہ ] کے مابین جو اختلافات ہوئے ،وہ اجتہادی تھے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے اور سب صحابہ کرام مجتہد تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت اور شہادت کی خوشخبری سنائی ہے۔اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ سب اپنے اجتہاد میں حق پر تھے۔اسی طرح سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جو اختلافات ہوئے ،وہ بھی اجتہادی تھے۔تمام صحابہ کرام بااعتماد اور باکردار ائمہ تھے۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی تعریف کی ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کی عزت وتعظیم کریں،ان سے محبت رکھیں اور جو شخص ان کی تنقیص کرتا ہے،اس سے براء ت کا اعلان کریں۔اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہو چکا ہے۔‘‘(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ، ص : 78)
b امام ابومنصور معمر بن احمد اصبہانیرحمہ اللہ (م : 418ھ)مشاجرات ِصحابہ میں زبان بند رکھنے کو اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَمِنَ السُّنَّۃِ السُّکُوتُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَنَشْرُ فَضَائِلِہِمْ وَالِاقْتِدَائُ بِہِمْ، فَإِنَّہُمُ النُّجُومُ الزَّاہِرَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُم، ثُمَّ التَّرَحُّمُ عَلَی التَّابِعِینَ وَالْـأَئِمَّۃِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِینَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ ۔ ’’سنت(کا مقتضیٰ)یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات ہوئے،ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے،ان کے فضائل بیان کیے جائیں اور ان کی اقتداء کی جائے۔صحابہ کرام تو چمکدار ستارے تھے۔اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہو گیا۔اس کے ساتھ ساتھ تابعین،ائمہ دین اور سلف صالحینرحمہم اللہ کے لیے رحمت کی دُعا کی جائے۔‘‘(الحجّۃ في بیان المحجّۃ لأبي القاسم الأصبہاني : 252/1، وسندہٗ صحیحٌ)
b امام ابو نعیم اصبہانیرحمہ اللہ (430-336ھ)فرماتے ہیں :
فَالْوَاجِبُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِظْہَارُ مَا مَدَحَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہٖ وَشَکَرَہُمْ عَلَیْہِ مِنْ جَمِیلِ أَفْعَالِہِمْ وَجَمِیلِ سَوَابِقِہِمْ، وَأَن یَّغُضُّوا عَمَّا کَانَ مِنْہُمْ فِي حَالِ الْغَضَبِ وَالْإِغْفَالِ وَفَرَطٍ مِّنْہُمْ عِنْدَ اسْتِزْلَالِ الشَّیْطَانِ إِیَّاہُمْ، وَنَأْخُذُ فِي ذِکْرِہِمْ بِمَا أَخْبَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہٖ، فَقَالَ تَعَالٰی : {وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِـاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ}(الحشر 59 : 10) الْآیَۃَ، فَإِنَّ الْہَفْوَۃَ وَالزَّلَلَ وَالْغَضَبَ وَالْحِدَۃَ وَالْإِفْرَاطَ لَا یَخْلُو مِنْہُ أَحَدٌ، وَہُوَ لَہُم غَفُورٌ، وَلَا یُوجِبُ ذٰلِکَ الْبَرَائَ مِنْہُمْ، وَلَا الْعَدَاوَۃَ لَہُمْ، وَلٰکِنْ یُّحِبُّ عَلَی السَّابِقَۃِ الْحَمِیدَۃِ، وَیَتَوَلّٰی لِلْمَنْقَبَۃِ الشَّرِیفَۃِ ۔
’’اصحاب ِرسول کے بارے میں مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح میں جو کچھ فرمایا ہے اور ان کے اچھے افعال و کارناموں کی جو تعریفات کی ہیں،انہیں بیان کیا جائے اور شیطان کے بہکاوے میں آ کر ان سے غصے،غفلت اور شدت میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں،ان سے چشم پوشی کی جائے۔اس سلسلے میں ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو دلیل بناتے ہیں: {وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِـاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ}(الحشر 59 : 10) (جو لوگ ان کے بعد آئیں اور کہیں کہ اے ہمارے رب! تُو ہمیں بھی معاف فرما دے اور ہم سے پہلے ایمان والوں کو بھی)۔کیونکہ لغزش،غلطی،غصے،شدت اور کوتاہی سے کوئی بھی مبرا نہیں۔اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی ایسی لغزشوں کو معاف فرما دیا ہے۔صحابہ کرام کی ایسی بشری لغزشیں ان سے براء ت اور عداوت کا باعث نہیں بن سکتیں۔اللہ تعالیٰ ان کی قابل ستائش سبقت ِاسلام کی بنا پر ان سے محبت رکھتا ہے اور عزت والے مرتبے کی وجہ سے ان سے دوستی رکھتا ہے۔ ‘‘
(کتاب الإمامۃ والردّ علی الرافضۃ، ص : 341، 342)
b شیخ الاسلام،ابو عثمان،اسماعیل،صابونیرحمہ اللہ (م : 449ھ)فرماتے ہیں:
وَیَرَوْنَ الْکَفَّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَطْہِیرَ الْـأَلْسِنَۃِ عَنْ ذِکْرِ مَا یَتَضَمَّنُ عَیْبًا لَّھُمْ وَنَقْصًا فِیہِمْ، وَیَرَوْنَ التَّرَحُّمَ عَلٰی جَمِیعِہِمْ، وَالْمُوَالَاۃَ لِکَافَّتِہِمْ ۔
’’اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں خاموشی اختیار کی جائے اور زبان کو ایسی باتوں سے پاک رکھا جائے جن سے صحابہ کرام کا کوئی عیب و نقص ظاہر ہوتا ہو،بلکہ ان سب کے لیے رحمت کی دُعا کی جائے اور ان سب سے محبت رکھی جائے۔‘‘(عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث، ص : 93)
b حافظ عبیداللہ بن محمد،ابن بطہرحمہ اللہ (387-304ھ)فرماتے ہیں:
نَکُفُّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ شَہِدُوا الْمَشَاہِدَ مَعَہٗ، وَسَبَقُوا النَّاسَ بِالْفَضْلِ، فَقَدْ غَفَرَ اللّٰہُ لَہُمْ، وَأَمَرَکَ بِالِاسْتِغْفَارِ لَہُمْ، وَالتَّقَرُّبِ إِلَیْہِ بِمَحَبَّتِہِمْ، وَفَرَضَ ذٰلِکَ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ، وَہُوَ یَعْلَمُ مَا سَیَکُونُ مِنْہُمْ، وَأَنَّہُمْ سَیَقْتُلُونَ، وَإِنَّہُمْ فُضِّلُوا عَلٰی سَائِرِ الْخَلْقِ، لِأَنَّ الْخَطَأَ وَالْعَمَدَ قَدْ وُضِعَ عَنْہُمْ، وَکُلُّ مَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ مَغْفُورٌ لَّہُمْ ۔ ’’ہم اصحاب ِرسول کے باہمی اختلافات کے بارے میں اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا اور نیکی میں ان کو ساری امت سے سبقت حاصل ہے،اللہ نے ان کو معاف فرما دیا ہے اور مسلمانوں کو ان کے لیے دُعائے مغفرت کرنے اور ان سے محبت رکھ کر اپنا تقرب حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ احکام اس اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرض کیے ہیںجسے یہ بخوبی معلوم تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے،اسے معلوم تھا کہ صحابہ کرام آپس میں قتال تک کریں گے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے (انبیائے کرام کے بعد)ساری مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ خطاو عمد دونوں قسم کی لغزشیں ان سے دور کر دی گئی ہیں اور ان کے تمام باہمی اختلافات بھی انہیں معاف فرما دیے گئے ہیں۔‘‘(الإبانۃ في أصول السنّۃ، ص : 268)
b امام،قوام السنۃ،ابوالقاسم،اسماعیل بن محمد،اصبہانیرحمہ اللہ (م : 535ھ)فرماتے ہیں:
وَمَا جَرٰی بَیْنَ عَلِيٍّ وَبَیْنَ مُعَاوِیَۃَ، فَقَالَ السَّلَفُ : مِنَ السُّنَّۃِ السُّکُوتُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جو اختلافات ہوئے،اس سلسلے میں سلف کا موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا سنت(کا مقتضٰی) ہے۔‘‘
(الحجّۃ في بیان المحجّۃ : 569/2)
b حافظ،ابوزکریا،یحییٰ بن شرف، نوویرحمہ اللہ (676-631ھ)قتل مسلم پر جہنم کی وعید والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ الدِّمَائَ الَّتِي جَرَتْ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، لَیْسَتْ بِدَاخِلَۃٍ فِي ہٰذَا الْوَعِیدِ، وَمَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَقِّ إِحْسَانُ الظَّنِّ بِہِمْ، وَالْإِمْسَاکُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، وَتَأْوِیلُ قِتَالِہِمْ، وَأَنَّہُمْ مُجْتَہِدُونَ مُتَأَوِّلُونَ، لَمْ یَقْصِدُوا مَعْصِیَۃً، وَلَا مَحْضَ الدُّنْیَا، بَلِ اعْتَقَدَ کُلُّ فَرِیقٍ أَنَّہُ الْمُحِقُّ، وَمُخَالِفُہٗ بَاغٍ، فَوَجَبَ عَلَیْہِ قِتَالُہٗ لِیَرْجِعَ إِلٰی أَمْرِ اللّٰہِ، وَکَانَ بَعْضُہُمْ مُصِیبًا، وَبَعْضُہُمْ مُخْطِئًا مَعْذُورًا فِي الْخَطَإِ، لِأَنَّہٗ لِاجْتِہَادٍ، وَالْمُجْتَہِدُ إِذَا أَخْطَأَ لَا إِثْمَ عَلَیْہِ، وَکَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ ہُوَ الْمُحِقُّ الْمُصِیبُ فِي تِلْکِ الْحُرُوبِ، ہٰذَا مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَکَانَتِ الْقَضَایَا مُشْتَبِہَۃٌ، حَتّٰی إِنَّ جَمَاعَۃً مِّنَ الصَّحَابَۃِ تَحَیَّرُوا فِیہَا، فَاعْتَزَلُوا الطَّائِفَتَیْنِ، وَلَمْ یُقَاتِلُوا، وَلَمْ یَتَیَقَّنُوا الصَّوَابَ، ثُمَّ تَأَخَّرُوا عَنْ مُّسَاعَدَتِہٖ ۔
’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام کے مابین اختلافات کے دوران جو خون بہے، وہ اس وعید میں داخل نہیں۔اہل سنت و اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کے بارے میں حسن ظن ہی رکھتے ہیں،ان کے مابین اختلافات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں،اہل سنت کے نزدیک صحابہ کرام کی باہمی لڑائیاں دلائل پر مبنی تھیں اور وہ اس سلسلے میں مجتہد تھے۔ ان کا ارادہ کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا نہیں تھا،بلکہ ہر فریق یہی سمجھتا تھا کہ وہ حق پر اور ان کا مخالف باغی ہے،جس کو اللہ کے حکم کی طرف لوٹانے کے لیے قتال ضروری ہے۔یوں بعض واقعی حق پر اور بعض خطا پر تھے،کیونکہ یہ اجتہادی معاملہ تھا اور مجتہد جب غلطی کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ان لڑائیوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے(لیکن خطا اجتہادی ہونے کی بنا پر دوسرے صحابہ پر بھی کوئی قدغن نہیں)۔اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے۔یہ معاملات اتنے پیچیدہ تھے کہ بہت سے صحابہ کرام بھی اس سلسلے میں پریشان رہے اور دونوں گروہوں سے علیحدگی اختیار کر لی۔انہیں بالیقین درست بات کا علم نہ ہو سکا اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت سے بھی دستبردار رہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم : 11/18)
نیز فرماتے ہیں: وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ، فَکَانَتْ لِکُلِّ طَائِفَۃٍ شُبْہَۃٌ، اعْتَقَدَتْ تَصْوِیبَ أَنْفُسِہَا بِسَبَبِہَا، وَکُلُّہُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِہِمْ وَغَیْرِہَا، وَلَمْ یُخْرِجْ شَيْئٌ مِّنْ ذٰلِکَ أَحَدًا مِّنْہُمْ عَنِ الْعَدَالَۃِ، لِأَنَّہُمْ مُّجْتَہِدُونَ، اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِہَادِ، کَمَا یَخْتَلِفُ الْمُجْتَہِدُونَ بَعْدَہُمْ، فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَائِ وَغَیْرِہَا، وَلَا یَلْزَمُ مِنْ ذٰلِکَ نَقْصُ أَحَدٍ مِّنْہُمْ، وَاعْلَمْ أَنَّ سَبَبَ تِلْکَ الْحُرُوبِ أَنَّ الْقَضَایَا کَانَتْ مُشْتَبِہَۃً، فَلِشِدَّۃِ اشْتِبَاہِہَا اخْتَلَفَ اجْتِہَادُہُمْ، وَصَارُوا ثَلَاثَۃَ أَقْسَامٍ؛ قِسْمٌ ظَہَرَ لَہُمْ بِالِاجْتِہَادِ أَنَّ الْحَقَّ فِي ہٰذَا الطَّرَفِ، وَأَنَّ مُخَالِفَہٗ بَاغٍ، فَوَجَبَ عَلَیْہِمْ نُصْرَتُہٗ وَقِتَالُ الْبَاغِي عَلَیْہِ، فِیمَا اعْتَقَدُوہُ، فَفَعَلُوا ذٰلِکَ، وَلَمْ یَکُنْ یَّحِلُّ لِمَنْ ہٰذِہِ صِفَتُہُ التَّأَخُّرُ عَنْ مُسَاعَدَۃِ إِمَامِ الْعَدْلِ، فِي قِتَالِ الْبُغَاۃِ فِي اعْتِقَادِہٖ، وَقِسْمٌ عَکْسُ ہٰؤُلَائِ، ظَہَرَ لَہُمْ بِالِاجْتِہَادِ أَنَّ الْحَقَّ فِي الطَّرَفِ الْآخَرِ، فَوَجَبَ عَلَیْہِمْ مُسَاعَدَتُہٗ وَقِتَالُ الْبَاغِي عَلَیْہِ، وَقِسْمٌ ثَالِثٌ اشْتَبَہَتْ عَلَیْہِمُ الْقَضِیَّۃُ، وَتَحَیَّرُوا فِیہَا، وَلَمْ یَظْہَرْ لَہُمْ تَرْجِیحُ أَحَدِ الطَّرَفَیْنِ، فَاعْتَزَلُوا الْفَرِیقَیْنِ، وَکَانَ ہٰذَا الِاعْتِزَالُ ہُوَ الْوَاجِبُ فِي حَقِّہِمْ، لِأَنَّہٗ لَا یَحِلُّ الْإِقْدَامُ عَلٰی قِتَالِ مُسْلِمٍ، حَتّٰی یَظْہَرَ أَنَّہٗ مُسْتَحِقٌّ لِّذٰلِکَ، وَلَوْ ظَہَرَ لِہَؤُلَائِ رُجْحَانُ أَحَدِ الطَّرَفَیْنِ، وَأَنَّ الْحَقَّ مَعَہٗ، لَمَا جَازَ لَہُمُ التَّأَخُّرُ عَنْ نُصْرَتِہٖ فِي قِتَالِ الْبُغَاۃِ عَلَیْہِ، فَکُلُّہُمْ مَعْذُورُونَ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَلِہٰذَا اتَّفَقَ أَہْلُ الْحَقِّ، وَمَنْ یُعْتَدُّ بِہٖ فِي الْإِجْمَاعِ، عَلٰی قَبُولِ شَہَادَاتِہِمْ وَرِوَایَاتِہِمْ، وَکَمَالِ عَدَالَتِہِمْ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ ۔
’’جو لڑائیاں صحابہ کرام کے مابین ہوئیں،ان میں ہر گروہ کو ایک شبہ تھا جس کے مطابق ہر ایک نے اپنے آپ کو حق پر سمجھ لیا اور صحابہ کرام سب کے سب عادل تھے اور اپنی لڑائیوں اور دیگر معاملات میں دلائل رکھتے تھے۔ان میں سے کسی بھی معاملے کی بنا پر کوئی بھی صحابی ثقاہت کے دائرہ کار سے خارج نہیں ہوا،کیونکہ سب صحابہ کرام مجتہد تھے،وہ کئی اجتہادی مسائل میں مختلف الخیال ہوئے،جیسا کہ بعد میں آنے والے فقہائے کرام بھی قتل و حرب سمیت بہت سے مسائل میں اختلافات کا شکار ہوئے۔ان اختلافات سے کسی میں کوئی نقص ثابت نہیں ہوتا۔یہاں آپ کو ان لڑائیوں کی وجہ بھی معلوم ہونی چاہیے۔ان کی وجہ یہ بنی کہ معاملات انتہائی پیچیدہ تھے اور اسی سخت پیچیدگی کے باعث صحابہ کرام کے اجتہادات مختلف ہو گئے اور وہ تین قسموں میں بٹ گئے۔ایک قسم وہ تھی جنہوں نے اپنے اجتہاد سے پہلے فریق کو حق پر سمجھا اور اس کے مخالف کو باغی خیال کیا،یوں ان پر پہلے فریق کی مدد کرنا اور اس کے مخالف سے لڑنا لازم ہو گیا اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔حق والوں کے لیے اپنے نزدیک اہل حق کی نصرت اور اہل بغاوت سے لڑائی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔دوسری قسم ان کے برعکس تھی، انہوں نے اپنے اجتہاد سے سمجھا کہ دوسرا فریق حق پر ہے،چنانچہ ان پر دوسرے فریق کی نصرت اور ان کے مخالفین کی سرکوبی ضروری ہو گئی۔تیسری قسم میں وہ صحابہ کرام تھے جن پر معاملہ واضح نہ سکا،وہ اس سلسلے میں کشمکش ہی کا شکار رہے اور کسی ایک فریق کی ترجیح ان پر ظاہر نہ ہو سکی۔ایسے لوگ دونوں فریقوں سے علیحدہ ہو گئے اور ان پر یہ علیحدگی ہی ضروری تھی،کیونکہ اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل کرنے کی کوشش جائز نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ وہ اس کا مستحق ہے۔اگر ان صحابہ کرام کے سامنے کسی ایک فریق کا اہل حق ہونا عیاں ہو جاتا تو ان کے لیے اس کی نصرت و حمایت اور باغیوں سے قتال فرض ہو جاتا۔یہی وجہ ہے کہ اہل حق اور اہل علم کا اجماع ہے کہ تمام صحابہ کرام کی گواہی اور ان کی روایات قبول کی جائیں گی اور ان کی ثقاہت میں کوئی نقص نہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہو چکا ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم : 149/15)
b علامہ،ابو حامد،محمد بن محمد،غزالی(505-450ھ)فرماتے ہیں:
وَمَا جَرٰی بَیْنَ مُعَاوِیَۃَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا کَانَ مَبْنِیًّا عَلَی الِاجْتِہَادِ، وَلَا مُنَازَعَۃَ مِنْ مُّعَاوِیَۃَ فِي الْإِمَامَۃِ ۔ ’’سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے باہمی اختلافات اجتہاد پر مبنی تھے۔سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے امامت و خلافت کا کوئی تنازع نہیں تھا۔‘‘(إحیاء علوم الدین : 115/1)
b علامہ،علی بن احمد،ابن حزمرحمہ اللہ (456-384ھ)فرماتے ہیں:
فَبِہٰذَا قَطَعْنَا عَلٰی صَوَابِ عَلِيٍّ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَصِحَّۃِ أَمَانَتَہٖ، وَأَنَّہٗ صَاحِبُ الْحَقِّ، وَأَنَّ لَہٗ أَجْرَیْنِ؛ أَجْرُ الِاجْتِہَادِ، وَأَجْرُ الْإِصَابَۃِ، وَقَطَعْنَا أَنَّ مُعَاوِیَۃ رَضِيَ اللّٰہُ عَنہُ وَمَنْ مَّعَہٗ مُخْطِئُونَ، مُجْتَہِدُونَ، مَأْجُورُونَ أَجْرًا وَّاحِدًا ۔
’’ان دلائل کی رُو سے ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ درستی پر تھے، صاحب حق و امانت تھے اور ان کے لیے دو اجر ہیں،ایک اجتہاد کا اوردوسرا درستی کا۔ہم یہ بھی یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی غلطی پر تھے،لیکن مجتہد تھے اور ان کو اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔‘‘(الفصل في الملل والأہواء والنحل : 161/4)
b شیخ الاسلام،ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہرحمہ اللہ (728-661ھ) فرماتے ہیں: وَلِہٰذَا یُنْہٰی عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ ہٰؤُلَائِ، سَوَائً کَانُوا مِنَ الصَّحَابَۃِ أَوْ مِمَّنْ بَعْدَہُمْ، فَإِذَا تَشَاجَرَ مُسْلِمَانِ فِي قَضِیَّۃٍ، وَمَضَتْ، وَلَا تَعَلُّقٌ لِّلنَّاسِ بِہَا، وَلَا یَعْرِفُونَ حَقِیقَتَہَا، کَانَ کَلَامُہُمْ فِیہَا کَلَامًا بِلَا عِلْمٍ وَّلَا عَدْلٍ، یَتَضَمَّنُ أَذَاہُمَا بِغَیْرِ حَقٍّ، وَلَوْ عَرَفُوا أَنَّہُمَا مُذْنِبَانِ أَوْ مُخْطِئَانِ، لَکَانَ ذِکْرُ ذٰلِکَ مِنْ غَیْرِ مَصْلَحَۃٍ رَاجِحَۃٍ مِنْ بَابِ الْغَیْبَۃِ الْمَذْمُومَۃِ، لٰکِنَّ الصَّحَابَۃَ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِینَ أَعْظَمُ حُرْمَۃً، وَأَجَلُّ قَدَرًا، وَأَنْزَہُ أَعْرَاضًا، وَقَدْ ثَبَتَ مِنْ فَضَائِلِہِمْ خُصُوصًا وَّعُمُومًا مَّا لَمْ یَثْبُتْ لِغَیْرِہِمْ، فَلِہٰذَا کَانَ الْکَلَامُ الَّذِي فِیہِ ذَمُّہُمْ عَلٰی مَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ أَعْظَمَ إِثْمًا مِّنَ الْکَلَامِ فِي غَیْرِہِمْ ۔ ’’صحابہ کرام ہوں یا بعد والے مسلمان،ان کے باہمی اختلافات میں دخل دینے سے منع کیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دو مسلمان کسی معاملے میں جھگڑ پڑیں ،پھر وہ معاملہ قصۂ پارینہ بن جائے،بعد میں آنے والے لوگوں کا اس سے کوئی تعلق بھی نہ ہو اور وہ اس کی حقیقت سے واقف بھی نہ ہوں تو ان کا اس بارے میں باتیں کرنا جہالت و ناانصافی کا باعث ہو گا اور یہ عمل ان دونوں مسلمانوں کو ناحق اذیت دینے کی کوشش ہو گی۔اگر بعد والوں کو یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ غلطی پر تھے تو بھی اس معاملے کا ذکر کرنا مذموم غیبت شمار ہو گا جس میں کوئی مصلحت نہیں۔صحابہ کرام] تو عام لوگوں سے بہت بڑھ کر حرمت ،مقام و مرتبے اور عزت و تکریم کے حامل تھے۔ان کے اس قدر عمومی و خصوصی فضائل و محاسن ثابت ہیں جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہو سکے۔چنانچہ ان کے باہمی اختلافات کی مذمت میں کوئی بات کرنا دیگر گزرے ہوئے مسلمانوں کے اختلافات کے بارے میں بات کرنے سے بڑا جرم ہے۔‘‘
(منہاج السنۃ النبویّۃ في نقض کلام الشیعۃ القدریّۃ : 147,146/5)
نیز فرماتے ہیں: اَلْإِمْسَاکُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ مُطْلَقًا، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ ۔ ’’صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا ہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔‘‘(مجموع الفتاوی : 51/35)
b حافظ،ابوعبد اللہ،محمدبن احمد بن عثمان،ذہبیرحمہ اللہ (م : 748ھ)فرماتے ہیں:
وَخَلَفَ مُعَاوِیَۃَ خَلْقٌ کَثِیْرٌ یُحِبُّوْنَہٗ وَیَتَغَالُوْنَ فِیْہِ، وَیُفَضِّلُوْنَہٗ، إِمَّا قَدْ مَلَکَہُم بِالکَرَمِ وَالحِلْمِ وَالعَطَائِ، وَإِمَّا قَدْ وُلِدُوا فِي الشَّامِ عَلٰی حُبِّہٖ، وَتَرَبّٰی أَوْلاَدُہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، وَفِیْہِمْ جَمَاعَۃٌ یَّسِیْرَۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ، وَعَدَدٌ کَثِیْرٌ مِّنَ التَّابِعِیْنَ وَالفُضَلاَئِ، وَحَارَبُوا مَعَہٗ أَہْلَ العِرَاقِ، وَنَشَؤُوا عَلَی النَّصْبِ، نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الہَوٰی، کمَا قَدْ نَشَأَ جَیْشُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ وَرَعِیَّتُہٗ إِلاَّ الخَوَارِجَ مِنْہُم عَلٰی حُبِّہٖ، وَالقِیَامِ مَعَہٗ، وَبُغْضِ مَنْ بَغٰی عَلَیْہِ، وَالتَّبَرِّي مِنْہُم، وَغَلاَ خَلْقٌ مِّنْہُم فِي التَّشَیُّعِ، فَبِاللّٰہِ کَیْفَ یَکُوْنُ حَالُ مَنْ نَشَأَ فِي إِقْلِیْمٍ، لاَ یَکَادُ یُشَاہِدُ فِیْہِ إِلاَّ غَالِیاً فِي الحُبِّ، مُفْرِطاً فِي البُغْضِ، وَمِنْ أَیْنَ یَقَعُ لَہُ الإِنْصَافُ وَالاعْتِدَالُ ؟ فَنَحْمَدُ اللّٰہَ عَلَی الْعَافِیَۃِ الَّذِي أَوْجَدَنَا فِي زَمَانٍ قَدِ انْمَحَصَ فِیْہِ الْحَقُّ، وَاتَّضَحَ مِنَ الطَّرَفَیْنِ، وَعَرَفْنَا مَآخِذَ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنَ الطَّائِفَتَیْنِ، وَتَبَصَّرْنَا، فَعَذَرْنَا، وَاسْتَغْفَرْنَا، وَأَحْبَبْنَا بِاقْتِصَادٍ، وَتَرَحَّمْنَا عَلَی البُغَاۃِ بِتَأْوِیْلٍ سَائِغٍ فِي الجُمْلَۃِ، أَوْ بِخَطَإٍ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مَغْفُوْرٍ، وَقُلْنَا کَمَا عَلَّمَنَا اللّٰہُ : {رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِـاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْـاِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا}(الحشر 59 : 10) وَتَرَضَّیْنَا أَیْضاً عَمَّنِ اعْتَزَلَ الْفَرِیْقَیْنِ، کَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ، وَسَعِیْدِ بْنِ زَیْدٍ، وَخَلْقٍ، وَتَبَرَّأْنَا مِنَ الخَوَارِجِ الْمَارِقِیْنَ الَّذِیْنَ حَارَبُوا عَلِیًّا، وَکَفَّرُوا الفَرِیْقَیْنِ، فَالْخَوَارِجُ کِلاَبُ النَّارِ، قَدْ مَرَقُوا مِنَ الدِّیْنِ، وَمَعَ ہٰذَا فَلاَ نَقْطَعُ لَہُم بِخُلُوْدِ النَّارِ، کَمَا نَقْطَعُ بِہٖ لِعَبَدَۃِ الأَصْنَامِ وَالصُّلْبَانِ ۔ ’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد بہت سے لوگ ایسے تھے جو ان سے محبت رکھتے تھے،ان کے بارے میں غلو سے کام لیتے تھے اور ان کے فضائل بیان کرتے تھے۔اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی حکمرانی کے دوران ان سے حلم و کرم اور بخشش کا سلوک فرمایاتھا یا پھر یہ لوگ شام میں پیدا ہوئے تو علاقائی طور پر ان کی محبت میں پرورش پائی اور ان کی اولادیں اسی ماحول میں پروان چڑھیں۔سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والوں میں کچھ صحابہ کرام اور تابعین کرام کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔اہل شام نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر اہل عراق کے خلاف لڑائی کی اور ان میں (نعوذ باللہ)بغض اہل بیت پیدا ہوا۔اسی طرح خوارج کے علاوہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رعایا اور ان کا گروہ ان کی محبت و عقیدت میں اور ان کے مخالفین کے بغض و عناد میں پروان چڑھا۔ان میں سے ایک گروہ تو تشیع میں غلو اختیار کر گیا۔ایسے علاقے میں پرورش پانے والے لوگوں کا کیا حال ہوتا ہو گا کہ جو اپنے اردگرد کے لوگوں کو کسی خاص شخص کی محبت میں غلو کرتے اور کسی خاص شخص کے بغض میں حد سے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ایسے لوگوں سے انصاف اور اعتدال کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایسے پرعافیت زمانے میں پیدا کیا جس میں حق نتھر کر سامنے آ گیااور طرفین کے دلائل واضح ہو گئے۔ہم نے دونوں گروہوں کے مآخذ تک رسائی حاصل کی،غور و فکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب لوگ قابل قبول عذر رکھتے تھے۔چنانچہ ہم نے ان سب کے لیے دُعائے مغفرت کی اور اعتدال پسندی کو اختیار کرتے ہوئے جائز تاویل یا معاف شدہ غلطی کی بنیاد پر باغیوں کے لیے بھی رحمت کی دُعا کی اور وہی کہا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا تھا کہ : {رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِـاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْـاِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا}(الحشر 59 : 10) (اے ہمارے رب! ہمیں بھی معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان کی حالت میں ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے بارے میں کوئی خلش نہ ڈالنا)۔ہم نے ان صحابہ کرام کے بارے میں رضائے الٰہی طلب کی جنہوں نے دونوں فریقوں سے علیحدگی اختیار کی تھی، ان میں سیدنا سعد بن ابو وقاص،سیدنا ابن عمر،سیدنا محمد بن مسلمہ،سیدنا سعید بن زید وغیرہ شامل تھے۔البتہ ہم مسلمانوں کی جماعت سے نکل جانے والے ان خارجیوں سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑائی کی اور سب صحابہ کرام کو کافر قرار دیا۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں،وہ اسلام سے نکل چکے تھے۔اس کے باوجود ہم ان کو اس طرح ہمیشہ کے جہنمی نہیں سمجھتے جس طرح بتوں کے پجاریوں اور صلیبیوں کو سمجھتے ہیں۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء : 128/3)
b حافظ،ابو فدائ،اسماعیل بن عمر،ابن کثیررحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں:
وَأَمَّا مَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ بَعْدَہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، فَمِنْہُ مَا وَقَعَ عَنْ غَیْرِ قَصْدٍ، کَیَوْمِ الْجَمَلِ، وَمِنْہُ مَا کَانَ عَنِ اجْتِہَادٍ، کَیَوْمِ صِفِّینَ، وَالِاجْتِہَادُ یُخْطِیُٔ وَیُصِیبُ، وَلٰکِنْ صَاحِبُہٗ مَعْذُورٌ وَّإِنْ أَخْطَأَ، وَمَأْجُورٌ أَیْضًا، وَأَمَّا الْمُصِیبُ فَلَہٗ أَجْرَانِ اثْنَانِ ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات ہوئے،ان میں سے بعض ایسے تھے جو بلاقصد و ارادہ واقع ہو گئے،جیسا کہ جنگ ِجمل والے دن ہوا اور بعض ایسے ہیں جو اجتہادی طور پر سرزد ہوئے،جیسا کہ جنگ ِصفین والے دن ہوا۔اجتہاد کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی درست،لیکن اجتہاد کرنے والا غلطی بھی کرے تو اسے ایک اجر ملتا ہے اور اس کا عذر قبول کیا جاتا ہے اور اگر وہ درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں۔‘‘(الباعث الحثیث إلی اختصار علوم الحدیث، ص : 182)
نیز فرماتے ہیں: إِنَّ أَصْحَابَ عَلِيٍّ أَدْنَی الطَّائِفَتَیْنِ إِلَی الْحَقِّ، وَہٰذَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ أَنَّ عَلِیًّا ہُوَ الْمُصِیبُ، وَإِنْ کَانَ مُعَاوِیَۃُ مُجْتَہِدًا، وَہُوَ مَأْجُورٌ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ ۔
’’بلاشبہ دونوں گروہوں میں سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی حق کے زیادہ قریب تھے۔ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے،لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی مجتہد تھے اور ان کو بھی ان شاء اللہ ایک اجر ملے گا۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 279/2)
b حافظ،ابوالفصل،احمد بن علی بن محمد،ابن حجر،عسقلانیرحمہ اللہ (852-773ھ) فرماتے ہیں: وَاتَّفَقَ أَہْلُ السُّنَّۃِ عَلٰی وُجُوبِ مَنْعِ الطَّعْنِ عَلٰی أَحَدٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ، بِسَبَبِ مَا وَقَعَ لَہُمْ مِنْ ذٰلِکَ، وَلَوْ عَرَفَ الْمُحِقَّ مِنْہُمْ، لِأَنَّہُمْ لَمْ یُقَاتِلُوا فِي تِلْکَ الْحُرُوبِ إِلَّا عَنِ اجْتِہَادٍ، وَقَدْ عَفَا اللّٰہُ تَعَالٰی عَنِ الْمُخْطِیِٔ فِي الِاجْتِہَادِ، بَلْ ثَبَتَ أَنَّہٗ یُؤْجَرُ أَجْرًا وَّاحِدًا، وَأَنَّ الْمُصِیبَ یُؤْجَرُ أَجْرَیْنِ ۔
’’اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کی بنا پر کسی بھی صحابی پر طعن کرنا حرام ہے،اگرچہ کسی کو ان میں سے اہل حق کی پہچان ہو بھی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اجتہادی طور پر یہ لڑائیاں کی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اجتہاد میں غلطی کرنے والے سے درگزر فرمایا ہے،بلکہ اسے ایک اجر ملنا بھی ثابت ہے اور جو شخص حق پر ہو گا،اسے دو اجر ملیں گے۔‘‘(فتح الباري : 34/13)
b علامہ،ابومحمد،محمود بن احمد،عینی،حنفی(855-762ھ) فرماتے ہیں:
وَالْحَقُّ الَّذِي عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ الْإِمْسَاکُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ، وَحُسْنُ الظَّنِّ بِہِمْ، وَالتَّأْوِیلُ لَہُمْ، وَأَنَّہُمْ مُّجْتَہِدُونَ مُتَأَوِّلُونَ، لَمْ یَقْصُدُوا مَعْصِیَۃً وَّلَا مَحْضَ الدُّنْیَا، فَمِنْہُمُ الْمُخْطِیُٔ فِي اجْتِہَادِہٖ وَالْمُصِیبُ، وَقَدْ رَفَعَ اللّٰہُ الْحَرَجَ عَنِ الْمُجْتَہِدِ الْمُخْطِیِٔ فِي الْفُرُوعِ، وَضَعْفِ أَجْرِ الْمُصِیبِ ۔
’’برحق نظریہ جس پر اہل سنت والجماعت قائم ہیں،وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے،ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے،ان کے لیے تاویل کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ مجتہد تھے اور ان سب کے پیش نظر دلائل تھے،ان اختلافات میں سے کسی صحابی نے بھی کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا ارادہ نہیں کیا تھا۔اجتہاد میں بعض کو غلطی لگی اور بعض درستی کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے فروعی معاملات میں اجتہادی غلطی کرنے والے کو گناہ گار قرار نہیں دیا(بلکہ ایک اجر کا حق دار ٹھہرا یا ہے)،جبکہ درستی کو پہنچنے والے کا اجر دوگنا کر دیا گیا ہے۔‘‘
(عمدۃ القاري : 212/1)
b قاضی،ابو الفضل،عیاض بن موسیٰ،یحصبی(544-476ھ)فرماتے ہیں:
وَمِنْ تَوْقِیرِہٖ وَبِرِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوْقِیرُ أَصْحَابِہٖ وَبِرُّہُمْ، وَمَعْرِفَۃُ حَقِّہِمْ، وَالِاقْتِدَائُ بِہِمْ، وَحُسْنُ الثَّنَائِ عَلَیْہِمْ، وَالِاسْتِغْفَارُ لَہُمْ، وَالْإِمْسَاکُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، وَمُعَادَاۃُ مَنْ عَادَاہُمْ، وَالْإِضْرَابُ عَنْ أَخْبَارِ الْمُؤَرِّخِینَ، وَجَہَلَۃِ الرُّوَاۃِ، وَضُلَّالِ الشِّیعَۃِ وَالْمُبْتَدِعِینَ الْقَادِحَۃِ فِي أَحَدٍ مِّنْہُمْ، وَأَنْ یُّلْتَمَسَ لَہُمْ فِیمَا نُقِلَ عَنْہُمْ مِّنْ مِثْلِ ذٰلِکَ فِیمَا کَانَ بَیْنَہُمْ مِنَ الْفِتَنِ أَحْسَنُ التَّأْوِیلَاتِ، وَیُخَرَّجُ لَہُمْ أَصْوَبُ الْمَخَارِجِ، إِذْ ہُمْ أَہْلُ ذٰلِکَ، وَلَا یُذْکَرَ أَحَدٌ مِّنْہُمْ بِسُوئٍ، وَلاَ یُغْمَصَ عَلَیْہِ أَمْرٌ، بَلْ تُذْکَرَ حَسَنَاتُہُمْ وَفَضَائِلُہُمْ وَحَمِیدُ سِیَرِہِمْ، وَیُسْکَتُ عَمَّا وَرَائَ ذٰلِکَ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی عزت و تکریم کی جائے، ان کا حق پہچانا جائے،ان کی اقتدا کی جائے،ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے،ان کے لیے استغفار کیا جائے،ان کے مابین ہونے والے اختلافات میں اپنی زبان بند رکھی جائے،ان کے دشمنوں سے عداوت رکھی جائے،ان کے خلاف مؤرّخین کی (بے سند)خبروں ،مجہول راویوں کی بیان کردہ روایات،گمراہ شیعوں اور بدعتی لوگوں کی پھیلائی ہوئی من گھڑت کہانیوں کو نظر انداز کیا جائے،جن سے ان کی شان میں کمی ہوتی ہو۔ان کے مابین فتنوں پر مبنی جو اختلافات ہوئے ہیں،ان کو اچھے معنوں پر محمول کیا جائے اور ان کے لیے بہتر عذر تلاش کیے جائیں،کیونکہ وہ لوگ اسی کے اہل ہیں۔ان میں سے کسی کا بھی بُرا تذکرہ نہ کیا جائے،نہ ان پر کوئی الزام دھرا جائے،بلکہ صرف ان کی نیکیاں،فضائل اور ان کی سیرت کے محاسن بیان کیے جائیں۔اس سے ہٹ کر جو باتیں ہوں،ان سے اپنی زبان کو بند رکھا جائے۔‘‘(الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی : 612,611/2)
ہم نے علمائے سلف کی نصائح پر مبنی یہ چند صفحات عام مسلمانوں کی خیرخواہی کے نظریے سے تحریر کیے ہیں،کیونکہ بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام کو انہی مشاجرات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو بھی ان سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثلاً وہ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہا،وغیرہ۔ حالانکہ یہ صحابہ کرام کا باہمی معاملہ تھا،جس کو اللہ رب العالمین نے معاف فرما دیا ہے اور ان سے راضی ہو گیا ہے۔ائمہ اہل سنت نے مشاجرات ِصحابہ کے حوالے سے روایات تو اپنی کتابوں میں درج کی ہیں،لیکن ان کی بنا پر کسی بھی صحابی پر طعن و تنقید نہیں کی۔سلف صالحین ہی قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہ کرام کے معاملے کو بہتر طور پر سمجھتے تھے۔
بتقاضائے بشریت صحابہ کرام سے ایسی باتوں کا صدور باعث ِملامت نہیں،جیسا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا :
یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، اقْضِ بَیْنِي وَبَیْنَ ہٰذَا الْکَاذِبِ، الْآثِمِ، الْغَادِرِ، الْخَائِنِ ۔
’’اے امیر المؤمنین! میرے اور اس جھوٹے،سیاہ کار،دھوکہ باز اور خائن کے مابین فیصلہ صادر فرما دیں۔‘‘(صحیح مسلم : 1757، صحیح البخاري : 3094، مختصرًا)
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان الفاظ کی بنا پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرنا جائز ہے جو معاملہ بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرتے ہیں؟حق یہ ہے کہ صحابہ کرام معصوم عن الخطا نہیں تھے ،لیکن ہم مشاجرات ِصحابہ میں سلف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام اصحاب ِرسول کی محبت پر زندہ رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے۔

اور سوئی مل گئی!(ایک جھوٹی روایت)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منسوب ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ :
اِسْتَعَرَتُ مِنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ رَوَاحَۃَ إِبْرَہٗ، کُنْتُ أَخِیطُ بِہَا ثَوْبَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَسَقَطَتْ مِنِّي الْإِبْرَۃُ، فَطَلَبْتُہَا، فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَیْہَا، فَدَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَتَبَیَّنَتِ الْإِبْرَۃُ مِنْ شُعَاعِ نُورِ وَجْہِہٖ، فَضَحِکْتُ، فَقَالَ : یَا حُمَیْرَائُ ! لِمَ ضَحِکْتِ؟ قُلْتُ : کَانَ کَیْتَ وَکَیْتَ، فَنَادٰی بِأَعْلٰی صَوْتِہٖ : یَا عَائِشَۃُ ! الْوَیْلُ ثُمَّ الْوَیْلُ، ثَلَاثًا، لِمَنْ حُرِمَ النَّظْرَ إِلٰی ہٰذَا الْوَجْہِ، مَا مِنْ مُّؤْمِنٍ وَّلاَ کَافِرٍ، إِلاَّ وَیَشْتَہِي أَنْ یَّنْظُرَ إِلٰی وَجْہِي ۔
’’میں نے حفصہ بنت ِرواحہ سے ایک سوئی ادھار لی،جس کے ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سی رہی تھی۔وہ سوئی گرگئی،میں نے تلاش کیا،لیکن نہ مل سکی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرے کے نور سے وہ سوئی چمک اٹھی۔میں ہنس دی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حمیرا!آپ کیوں ہنسی ہیں؟میں نے واقعہ کہہ سنایا۔آپ نے بلند آواز سے پکار کر تین مرتبہ فرمایا : عائشہ! اس شخص کے لیے ویل ہے ،جو اس چہرے کو دیکھنے سے محروم رہا۔ہر مؤمن اور ہر کافر میرے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘(تاریخ دمشق لابن عساکر : 310/3)
لیکن یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
1 مسعدہ بن بکر فرغانی کی اس روایت کو حافظ ذہبیرحمہ اللہ (میزان الاعتدال : 98/4، ت : 8464)اور ابن عراق کنانی(تنزیہ الشریعہ : 117/1، الرقم : 327)نے جھوٹ کہا ہے۔
اس کی ایک اور روایت کو امام دارقطنیرحمہ اللہ نے باطل(جھوٹی)قرار دیا ہے۔(لسان المیزان : 22/6)
2 اس میں محمد بن اسحاق کی ’’تدلیس‘‘بھی ہے،سماع کی تصریح نہیں ملی۔
لہٰذا یہ جھوٹی روایت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.