1,297

متنفل کی اقتدا میں مفترض کی نمازجائز ہے (قسط نمبر1) ——- حافظ ابو یحییٰ نورپوری

دلیل نمبر 1:
عن جابرقال:کان معاذ یصلّی مع النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ثمّ یأتی فیؤمّ قومہ ، فصلّی لیلۃ مع النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم العِشاء ، ثمّ أتٰی قومہ فامّھم ، فافتتح بسورۃ البقرۃ ، فانحرف رجل فسلّم ، ثمّ صلّی وحدہ وانصرف ، فقالوا لہ : أنافقت یا فلان ؟ قال: لا واللہ ! ولآ تینّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فلأخبرنہ ، فأتی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فقال : یا رسول اللّٰہ ! انا أصحاب نواضح ، نعمل بالنّھار ، وانّ معاذا صلّی معک العشاء ، ثمّ أتٰی فافتتح بسورۃ البقرۃ ، فأقبل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علٰی معاذ فقال: یا معاذ! أفتّانٌ أنت ؟ اقرأ بکذا ، واقرأ بکذا۔
”سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ، پھر آ کر اپنی قوم کی امامت فرماتے تھے ، ایک رات انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عشاء کی نماز ادا کی ، پھر اپنی قوم کو آکر یہی نماز پڑھائی اور سورۃ بقرہ کی قراء ت شروع کی دی ، ایک آدمی نے مڑ کر سلام پھیرا اور اکیلے اپنی نماز ادا کر کے لوٹ گیا ، دوسرے صحابہ نے اسے کہا : کیا تو منافق ہو گیا ہے ؟ اس نے جواباََ کہا : اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے ، میں ضرور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کرآپ کو یہ بات بتاؤں گا، چنانچہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کی: اے اللہ کے رسول !ہم سارا دن اونٹوں کے ذریعے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں ، معاذ نے آپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی ، پھر آ کر ہمارے پاس سورہ بقرہ شروع کر دی ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذرضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے معاذ !کیا تو دین سے متنفر کرتا ہے ؟ تو فلاں فلاں سورت پڑھا کر ۔”
(صحیح بخاری: ١/٩٧،ح: ٧٠٠ ،صحیح مسلم : ١/١٨٧،ح: ٤٦٥ ، واللفظ لہ)
امام ترمذی(م ٢٧٩ ھ ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
ھذا حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا عند أصحابنا الشافعی وأحمد واسحاق ، قالوا : اذا أم الرجل القوم فی المکتوبۃ وقد کان صلاھا قبل ذلک ، ان صلاۃ من ائتم بہ جائزۃ واحتجّوا بحدیث جابر فی قصۃ معاذ وھو حدیث صحیح ، وقدوری من غیر وجہ عن جابر ۔
”یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ہمارے ساتھیوں( محدثین) کا اسی پر عمل ہے ، ان میں امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ شامل ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ جب ایسا آدمی فرضوں میں لوگوں کی امامت کرے ، جو خود اس سے پہلے وہی نماز پڑھ چکا ہو ، تو اس کی اقتداکرنے والوں کی نماز جائز ہے ، انہوں نے سیدنامعاذ کے قصہ والی جابر کی حدیث سے دلیل لی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے ، جابرسے اور بھی کئی سندوں سے یہ حدیث مروی ہے ۔(جامع ترمذی تحت حدیث : ٥٨٣)
اب اس حدیث پر محدثین کی تبویب بھی ملاحظہ فرمائیں :
امام ترمذی فرماتے ہیں :باب ما جاء فی الذی یصلی الفریضۃ ثم یؤم الناس بعد ذلک ۔
”ان روایات کا بیان جو اس شخص کے بارے میں آئی ہیں کہ جو فرض پڑھ لیتا ہے ، پھر اس کے بعد لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ۔”
امام الائمہ ابن خزیمہ(م ٣١١ھ ) لکھتے ہیں :باب اباحۃ ائتمام المصلّی فریضۃ بالمصلّی نافلۃ ، ضدّ قول من زعم من العراقیین أنہ غیر جائزأن یأتم المصلّی فریضۃ بالمصلّی نافلۃ ۔
”اس بات کا بیان کہ نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پرھنے والے کی نماز جائز ہے ، بخلاف کوفیوں کے کہ ان کے خیال میں فرض پڑھنے والے کے لئے نفل پڑھنے والے کی اقتداء ناجائز ہے ۔”(صحیح ابن خزیمہ : ٣/٦٤ ، باب : ١٣٠)
امام ابن حبان فرماتے ہیں :
ذکرالاباحۃ لمن صلّٰی جماعۃ فرضہ أن یؤم قوما بتلک الصلوۃ ۔
”جو شخص با جماعت فرض پڑھ لے ، تو اس کا اپنی قوم کو وہی نماز پڑھانا جائز ہے ۔”(صحیح ابن حبان : ٦/١٦٣ ، ح : ٢٤٠٢)
امام ابو داؤد(م ٢٧٥ ھ ) لکھتے ہیں :
باب امامۃ من صلّٰی بقوم وقد صلّٰی تلک الصلوۃ ۔
”اس شخص کی لوگوں کو امامت کا بیان جو وہی نماز پہلے پڑھ چکا ہو ۔”(سنن أبی داود ،حدیث : ٥٩٩)
امام دارقطنی(م ٣٥٨ ھ ) کی تبویب یوں ہے :
باب ذکر صلاۃ المفترض خلف المتنفّل ۔ (سنن دار قطنی : ١/٢٨١)
امام بیہقی (م ٤٥٨ھ ) ان احادیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں : باب الفریضۃ خلف من یصلّی النافلۃ ۔
”نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے کا بیان ۔”(السنن الکبری للبیہقی : ٣/٨٥)
حافظ نووی (م ٦٧٦ھ ) رقم طراز ہیں : باب صحّۃ صلاۃ المفترض خلف المتنفّل ۔
”اس بات کا بیان کہ متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز صحیح ہوتی ہے ۔” (خلاصۃ الاحکام از نوویؒ : ٢/٦٩٧)
امام نسائی کی تبویب یوں ہے : باب اختلاف نیۃ الامام والمأموم ۔
”امام اور مقتدی کی نیت مختلف ہونے کا بیان ۔”
علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں : یرید اقتداء المفترض بالمتنفّل ۔”امام نسائی کی مراد یہ ہے کہ متنفل( نفل پڑھنے والے )کے پیچھے مفترض( فرض پڑھنے والے )کی نماز ۔” (حاشیۃ السندی علی النسائی : ٢ /١٠٢)
محدثین اپنی روایات کو مقلدین سے بہتر جانتے ہیں ۔
قارئین کرام ! محدثین تو اس حدیث سے متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کا جواز ثابت کر رہے ہیں ، جیسا کہ ان کی تبویب سے عیاں ہے ، امام ترمذی کا تبصرہ آپ پڑھ چکے ہیں ، اب حافظ نووی کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں :
فی ھذا الحدیث جواز صلوۃ المفترض خلف المتنفّل لأن معاذا کان یصلّی الفریضۃ مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فیسقط فرضہ، ثمّ یصلّی مرّۃ ثانیۃ بقومہ، ھی لہ تطوّع ولھم فریضۃ، وقد جاء ھٰکذا مصرّحا بہ فی غیر مسلم ۔
”اس حدیث میں متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کا جواز موجود ہے ، کیونکہ سیدنا معاذرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض پڑھتے تو ان کا فریضہ ساقط ہو جاتا تھا ، پھر دوسری دفعہ اپنی قوم کو پڑھاتے ، یہ سیدنامعاذ کے لئے نفلی ہوتی اور قوم کے لئے فرضی ، یہ بات صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتب میں صراحت سے موجود ہے ۔”(شرح مسلم للنووی : ١/١٨٧)
حافظ بغوی لکھتے ہیں : وفیہ جواز صلاۃ المفترض خلف المتنفّل ، لأن معاذا کان یؤدّی فرضہ مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ثمّ یرجع الٰی قومہ فیؤمّھم ، ھی لہ نافلۃ ولھم فریضۃ ۔
”اس حدیث میں نفل پڑھنے والے کی اقتدامیں فرض پڑھنے والے کی نماز کا جواز ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ معاذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے فرض ادا کرتے، پھر اپنی قوم کے ہاں لوٹ کر ان کو نماز پڑھاتے ، یہ ان کے لیے نفل اور قوم کے لیے فرضی ہوتی تھی ۔” (شرح السنۃ للبغوی : ٣/٧٣)
حافظ ابن حزم (م ٤٥٦ ھ ) لکھتے ہیں : وجائزصلاۃ الفرض خلف المتنفّل، والمتنفّل خلف من یصلّی الفرض ، وصلاۃ فرض خلف من یصلّی صلاۃ فرض أخرٰی کل ذالک حسن وسنّۃ ۔
”فرضی نماز متنفل کے پیچھے ، متنفل کی فرض پڑھنے والے کے پیچھے اور فرضی نماز پڑھنے والے کے پیچھے کوئی دوسری فرضی نمازجائز ہے ، یہ تمام کام اچھے ہیں اور سنت ہیں ۔” (المحلی لابن حزم : ٤/٢٢٣ ، مسئلہ : ٤٩٤)
موصوف مزید لکھتے ہیں :
ما نعلم لمن ذکرنا من الصّحابۃ رضی اللّٰہ عنہم مخالفا أصلا ، وھم یعظّمون ھٰذا اذا وافق تقلید ھم ! و قولنا ھٰذا قول الأوزاعیّ والشّافعیّ و أحمد بن حنبل وأبی سلیمان وجمھورأصحاب الحدیث ۔
”ہم نے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ذکر کئے ہیں ، ان کا کوئی مخالف بالکل ہمارے علم میں نہیں ، جب یہ بات (صحابہ کا اختلاف نہ ہونا)مقلدین کی تقلید کے موافق ہو ، تو اسے بڑا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ،جبکہ یہاں نظر نہیںآتی۔ جو ہمارا مذہب ہے ، وہی امام اوازعی ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، ابو سلیمان اور جمہور اہل حدیث (محدثین) کا مذہب ہے ۔”(المحلی لابن حزم : ٤/٢٣٦)
حافظ ابن حجرلکھتے ہیں : واستدلال بھذا الحدیث علٰی صحّۃ اقتداء المفترض باالمتنفّل بناء علٰی أن معاذا کان ینوی بالأولی الفرض وبالثانی النّفل ۔
”اس حدیث سے متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز صحیح ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، کیونکہ معاذ پہلی نماز میں فرضوں اور دوسری میں نفلوں کی نیت کرتے تھے ۔ (فتح الباری : ٢ /١٩٥)
گھر کی گواہی:
علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
فدلالۃ ھذا الحدیث علٰی جواز اقتداء المفترض باالمتنفّل واضحۃ والجواب عنہ مشکل جدا وأجابوا بما لا یتمّ ۔
”یہ حدیث واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ متنفل کی اقتدا مفترض کے لئے جائز ہے ، اس کا جواب بہت ہی مشکل ہے ، احناف نے اس کے ناقص جوابات دیئے ہیں ۔(حاشیۃ السندی علی النسائی : ٢/١٠٣)
دیکھیں کہ احناف کے ایک بزرگ علامہ سندھی حنفی کتنے واشگاف الفاظ میں بتا رہے ہیں کہ اس حدیث سے اہلحدیث کا مسلک صاف طور پر واضح ہو رہا ہے اور اس کا جواب دینا مشکل ہے، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے اپنے آپ کو اس مشکل میںڈال رکھا ہے اور طرح طرح کی تاویلات کا سہارا لیا ہے ۔
احناف کی تنگدستی :
اس مسئلہ میں ان کی تنگ دستی کا یہ عالم ہے کہ ان کے پاس کوئی صحیح ، صریح اور مرفوع روایت تو درکنار ، کوئی ضعیف و موضوع روایت بھی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جناب انوار خورشید صاحب نے اس مسئلہ کو ”حدیث اور اہلحدیث” میں پیش ہی نہیں کیا ، اگر کوئی ضعیف و موضوع روایت بھی ہوتی تو وہ ضرور عنوان قائم کر دیتے ، جیسا کہ ان کی ”روایت ”ہے ، اس لئے ”میں نہ مانوں ”کے مصداق احناف نے محض صحیح احادیث کو تاویلات کا نشانہ بنانے پر اکتفا کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ابن ترکمانی حنفی جو کہ ذرا ذرا سی بات پر امام بیہقی کی تردید اور حدیث میں تاویل کرتے ہیں ،حدیث معاذ پر وہ بھی چپ سادھ گئے ہیں ، کوئی تاویل نہیں کی۔ (دیکھیں الجوھر النقی : ٣/٥٨)
یہاںآلِ دیوبندکے” حکیم الامت ”جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی کی عبارت قابل ذکر ہے ، فرماتے ہیں : ”اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہو جاتے ہیں کہ اگر قولِ مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے ، ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا ، بلکہ اول استنکارقلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرتِ مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں ، دل یہ نہیں مانتا کہ قولِ مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح پر عمل کر لیں ۔” (تذکرۃ الرشید : ١٣١)
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
قارئین خود ہی غور فرما لیں کہ اس تھانوی فرمان کے بالکل مطابق جامد مقلدین محض ایک قیاس (کمزور پر قوی کی بنائ)کی وجہ سے صحیح و صریح حدیث میں کتنی تاویلات کر رہے ہیں ، لیکن ماننے کو تیار نہیں ۔
حدیثِ معاذ پر اعتراضات اور ان کے جوابات :
اس حدیث کے علاوہ بھی کئی احادیث جن کا ذکر آئندہ آئے گا ،اس مسئلہ پر صریح طور پر دلیل ہیں ، لیکن ہم پہلے اس حدیث نبوی پر کیے گئے بودے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں ، بقولِ حافظ ابن حزم :
واعترضوا فی حدیث معاذ بأشیاء نذکرھا ، وان کنا غانین عن ذالک بحدیث أبی بکرۃ و جابر، لکن نصرالحق فضیلۃ ، و قمع الباطل وسیلۃ الی اللّٰہ تعالٰی ۔
”احناف نے سیدنا معاذ کی حدیث پر بہت سے اعتراض وارد کئے ہیں ، جن کا ہم ذکر کرنے والے ہیں ، اگرچہ ابوبکرہ اور جابررضی اللہ عنہماکی حدیث کی بناپر ہم ان اعتراضات کے جوابات سے مستغنی ہیں ،لیکن (صرف اس وجہ سے ایک ایک کا جواب دیں گے) کہ حق کی نصرت نیکی ہے اور باطل کا قلع قمع اللہ تعالی کے تقرب کا ذریعہ ہے ۔”
(المحلی لابن حزم : ٤/٢٢٩)
اعتراض نمبر ١:
مشہور مقلد جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں :
”اس روایت کے کئی جواب ہیں تین امام طحاویؒ اور باقی دوسرے لوگوں نے دیے ہیں ،جواب نمبر ١:
امام طحاویؒ لکھتے ہیں :لو ثبت أن معاذا فعلہ فی عھد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لم یکن فی ذالک دلیل علٰی أنہ بأمررسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔۔۔۔ الخ
یعنی یہ کاروائی حضرت معاذ ؓکی اپنی رائے سے تھی ، نبی علیہ السلام کا حکم نہ تھا ۔” (خزائن السنن : ٢/٢٠٣)
تبصرہ :
امام طحاوی کا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میںکیا تھا ، تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہو گا کہ انہوں نے ایسا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کیا ، اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں :
١٭ یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر سیدنامعاذ نے ایسا کیا ، بلا ددلیل ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے ، کیونکہ یہ بھی تو ثابت نہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی مرضی سے ایسا کیا اور ان کے پاس کوئی دلیل نہ تھی ۔
٢٭ کسی کام کے جواز کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ضروری نہیں ، بلکہ آپ کو علم ہو جانے بعد اس پر سکوت اختیار کرنا بھی جواز کی دلیل ہے ، جسے اصطلاح میں تقریر کہا جاتا ہے ۔
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں :
وعلی المستدلّ باثبات علم النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بفعل معاذ ۔
”اس حدیث سے استدلال کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاذکے اس کام کو جانتے تھے ۔”(اعلاء السنن : ٣/١٣٥٩)
جناب ! یہ لیں ، صحیح مسلم کی روایت میں واضح الفاظ ہیں:
وان معاذا صلّٰی معک العشاء ، ثمّ أتی فافتتح بسورۃ البقرۃ ۔
”(شکایت کرنے والے نے کہا اے اللہ کے نبی!) معاذ نے آپ کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی ، پھر ہمارے ہاں آ کر سورۃ بقرہ شروع کر دی ۔”(صحیح مسلم : ٤٦٥)
یہ نص صریح ہے کہ نبی کو اس بات کا پتا چل گیا تھا کہ معاذرضی اللہ عنہ نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے ، اس کے باوجود آپ نے ان کو قراء ت میں تخفیف کا حکم تو دیا ، لیکن اس کام سے منع نہیں فرمایا ۔
3٭ قبیلہ بنو سلمہ ، جس کی مسجد میں معاذ رضی اللہ عنہ جا کر نماز پڑھاتے تھے ، اس میں تیس بیعت عقبہ میں شامل ہونے والے صحابہ اور تینتالیس بدری صحابی موجود تھے ، جیسا کہ حافظ ابن حزم نے ذکر کیا ہے ، ان میں جابر بن عبداللہ، ان کے والد عبداللہ، کعب بن مالک، حباب بن منذر، عقبہ بن عامراور معاذ و معوذ رضی اللہ عنہم موجود تھے ، کیا ان سب کی موجودگی میں یہ کام ہو اور خلافِ سنت ہونے کے باوجود وہ اس پر اعتراض نہ کریں ، بھلایہ ممکن ہے ؟ کبھی نہیں ، بلکہ یہ تو صحابہ کا اجماع ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ کایہ کام درست تھا ، کسی دوسرے صحابی کا اس پر انکار یا اس کا خلاف منقول نہیں ۔
حافظ ابن حجر، حافظ ابن حزم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ولا یحفظ عن غیرھم من الصّحابۃ امتناع ذلک ، بل قال معھم الجواز عمر وابن عمر و ابو الدرداء وأنس وغیرھم ۔
”ان صحابہ کے خلاف دوسرے کسی صحابی سے اس کا منع ثابت نہیں ، بلکہ ان کی موافقت میں عمر، ابن عمر ، ابو درداء اور انس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے اس کا جواز ثابت ہے ۔”(فتح الباری : ٢/١٩٦)
حافظ ابن حجرمزید لکھتے ہیں : انھم لا یختلفون فی أن رأی الصّحابی اذا لم یخالفہ غیرہ حجۃ ۔
”مقلدین اس بات میں ہم سے متفق ہیں کہ کسی صحابی کی رائے اس وقت حجت ہوتی ہے ، جب دوسرا کوئی صحابی اس کی مخالفت نہ کرے اور یہاں بھی ایسا ہی ہے ۔”(فتح الباری : ٢/١٩٦)
اعتراض نمبر ٢:
رہا ”بذل الجمہود شرح أبی داؤد” میں جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی کا اس جواب پر یہ اعتراض کہ صحابہ کرام کا سکوت معتبر نہیں ، کیونکہ نبی نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا اور فرمایا :
لا تکن فتّانا ، اما أن تصلّی معی ، وامّا أن تخفف علٰی قومک ۔(مسندالامام احمد٥/٧٤)
”اے معاذ! لوگوں کو متنفر نہ کر ، یا تو میرے ساتھ نماز پڑھ یا قوم کو ہلکی نماز پڑھا ۔”(بحوالہ اعلاء السنن : ٣/١٣٦٠ ۔ ١٣٦١)
تبصرہ:
١٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ باسندِ صحیح ثابت نہیں ، کیونکہ معاذ بن رفاعہ کی لقائ” رجل من بنی سلمۃ” سے ثابت نہیں ، نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ملاقات ہے ۔
حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :
ان ھذا خبرلایصحّ ، لأنّہ منقطع ، لأن معاذ بن رفاعۃ لم یدرک النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ولا أدرک ھذا الذی شکا الٰی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بمعاذ ۔
”یہ حدیث صحیح نہیں ،کیونکہ اس میں انقطاع ہے ، معاذ بن رفاعہ نے نہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ کو پایا ہے ،اور نہ ہی اس شخص کو جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تھی۔”(المحلی لابن حزم : ٤/٢٣٠)
حافظ مزی لکھتے ہیں : عن رجل من بنی سلمۃ یقال لہ سلیم قصۃ معاذ بن جبل فی الصلوۃ مرسل۔
(تہذیب الکمال: ١٨/١٧١)
حافظ ہیثمی بھی یہی کہتے ہیں ۔(مجمع الزوائد:٢/٧٣)،نیز حافظ ابن حجربھی رقم طراز ہیں :
و ھذا مرسل لأن معاذ بن رفاعۃ لم یدرکہ ۔
”یہ روایت مرسل ہے، کیونکہ معاذ بن رفاعہ نے اس (رجل من بنی سلمہ) کو نہیں پایا ۔”(فتح الباری : ٢/١٩٤)
لہٰذا اس سے استدلال باطل ہوا ۔
٢٭ ان الفاظ کے معانی میں احتمال آ گیا ہے ، اگرچہ ان الفاظ سے احناف کا مدّعا بہرصورت ثابت نہیں ہوتا ، امام طحاوی نے اس سے دونوں میں سے ایک کام کی ممانعت مراد لی ہے ، جبکہ حافظ ابن حزم اور حافظ ابن حجروغیرہ نے اس سے صرف” تخفیف فی القراء ۃ” مراد لی ہے ، لہٰذا ان محتمل اور غیر ثابت شدہ الفاظ کی وجہ سے محدثین اور ائمہ دین کی تصریح شدہ صریح و صحیح روایات کیسے چھوڑی جا سکتی ہیں ؟
اعتراض نمبر ٣:
جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حدیث معاذ کے جواب نمبر ٢ کے تحت لکھتے ہیں :
”امام طحاویؒ ہی ١٩٩ ج ١ میں لکھتے ہیں : فقد یجوزأن یکون یصلّی مع النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نافلۃ ثم یأتی قومہ فیصلّی بھم الفریضۃ ۔
ہو سکتاہے کہ معاذ ؓ نبی کے ساتھ نفل پڑھتے ہوں پھر اپنی قوم کے پاس آ کر انہیں فرض پڑھاتے ہوں ۔”
(خزائن السنن : ٢/٢٠٤)
تبصرہ:
١٭ احتمالی الفاظ سے استدلال جائز نہیں ، کیونکہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں کہ شکایت کرنے والے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر یوں شکایت کی تھی :
ان معاذا صلی معک العشاء ، ثم أتی فافتتح بسورۃ البقرۃ ۔۔۔۔۔
”بے شک معاذ نے آپ کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی ، پھر آ کر سورۃ بقرہ کی قراء ت شروع کر دی ۔”
(صحیح مسلم : ٤٢٥)
لہٰذا مسلم کے صریح الفاظ سے ثابت ہو رہا ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرض نبی کے اقتداء میں ادا کرتے تھے اور اپنی قوم کے ساتھ نفل ادا کرتے تھے ۔
٢٭ امام ابن خزیمہ حدیث ِمعاذ پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب ذکر البیان أن معاذا کان یصلّی مع النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فریضۃ لا تطوعا کما ادّعی بعض العراقین ۔
”اس بات کا بیان کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض پڑھتے تھے ، نہ کہ نفل ،جیسا کہ بعض عراقیوں (کوفیوں) نے دعوی کیا ہے ۔”(صحیح ابن خزیمہ : ٣/٦٥ ، باب : ١٣١)
٣٭ امام ابن حبان اسی حدیث پر یوں باب قائم فرماتے ہیں :
ذکر الخبر المدحض قول من زعم أن معاذا کان یصلی بالقوم فرضہ لا نفلہ ۔
”اس شخص کے قول کا رد کرنے والی روایت جو دعوی کرتا ہے کہ معاذ اپنی قوم کے ساتھ نفل نہیں ، فرض پڑھتے تھے ۔” (صحیح ابن حبان : ٦/١٦٣)
٤٭ حافظ بغوی لکھتے ہیں : لأن معاذا کان یؤدّی فرضہ مع رسول اللّٰہ ۔
”کیونکہ سیدنا معاذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے فرض ادا فرماتے تھے ۔” (شرح السنہ : ٣/٧٣)
محدثین اپنی روایات کو مقلدین سے تو بہتر جانتے ہیں ۔
٥٭ سنن کبرٰی بیہقی وغیرہ میںسیدنا معاذ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں :
فیصلّی بھم تلک الصّلاۃ ، ھی لہ نافلۃ ولھم فریضۃ۔
”معاذ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کو وہی نماز پڑھاتے ، ان کے لئے یہ نفل ہوتی اور قوم کے لئے فرض ۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٣/٨٦ ، الئام للشافعی : ١/١٧٣ ، دار قطنی : ١/٣٧٤ ، شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٠٩، وسندہ صحیح)
ابن جریج جو بالاتفاق ثقہ امام ہیں ، انہوں نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے ۔دوسرے راویوں کی طرف سے ان الفاظ کا عدم ِ ذکر عدم ِوجود پر دلالت نہیں کرتا ، ثقہ کی” زیادت” بالاتفاق مقبول ہے ، کیونکہ یہ ثقات کی مخالفت نہیں ہے ۔
جناب نیموی حنفی نے آثار السنن میں ان الفاظ کو شاذ قرار دینے کی بڑی سعی کی ہے ، حالانکہ وہ خود اسی کتاب میں کئی مقامات پر ثقہ کی” زیادت” کو قبول کر چکے ہیں ، ایک مقام ملاحظہ ہو :
عبداللّٰہ بن الزبیرالحمیدی ثقۃ ، حافظ ، امام ، وھوأحد شیوخ البخاری ، فزیادتہ ھذہ تقبل جدّا ، لأنھا لیست منافیۃ لروایۃ من ھو أوثق منہ ۔
”عبداللہ بن زبیر حمیدی ثقہ ، حافظ اور امام ہیں ،نیز امام بخاری کے استاذ ہیں ، لہٰذا ان کی زیادت ضرور قبول کی جائے گی ، کیونکہ وہ ان سے اوثق کی روایت کے مخالف نہیں ہے ۔”(دیکھیں آثار السنن : ص ١٧ حاشیہ:٢٧)
جہاں اپنے مطلب کی بات تھی ،وہاں نیموی صاحب نے یہ زیادت فورا” تقبل جدّا” کہہ کر قبول کر لی ، لیکن یہاں چونکہ ان کے خلاف تھی ، لہذا ٹال مٹول سے کام لیا ہے ۔
٦٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
صلاۃ فی مسجدی ھذا خیر من ألف صلاۃ فیما سواہ الا المسجد الحرام ۔
”میری اس مسجد میں ایک نماز ، بیت اللہ کے علاوہ ، ہر مسجد میں نماز سے ہزار گنا بہتر ہے ۔”
(بخاری : ١١٩٠ ، مسلم : ١٣٩٤)
اتفاقی طور پر اس نماز سے مراد فرضی نماز ہے ،کیونکہ نفلی نماز تو بہرحال گھر میں افضل ہوتی ہے۔
کیا صحابیئ رسول مسجد نبوی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ہزار نماز کے ثواب کو ترک کر کے اپنی مسجد میں جا کر صرف ایک نماز کا ثواب حاصل کر تے تھے ؟ یقینا نہیں ۔
حافظ ابن حزم مزید لکھتے ہیں :
فلیت شعری ، الی من کان یؤخّرمعاذ صلاۃ فرضہ حتّی یصلّیھا معہ راغبا أن یصلّیھا مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ؟ ألا ان ھذا ھو الضّلال المبین ، قد نزّہ اللّٰہ تعالٰی معاذا عنہ عند کل ذی مسکۃ عقل ۔
”افسوس ہے ! معاذ رضی اللہ عنہ کس کے ساتھ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہو، فرضی نماز پڑھنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسے ادا نہ فرماتے تھے ؟ یہ واضح گمراہی ہے ، ہر ذی عقل کے نزدیک اللہ تعالی نے سیدنامعاذ کو اس سے بچایا ہوا تھا ۔”(المحلی : ٤/٢٣١)
٧٭ کیا احناف کے نزدیک یہ جائز ہے کہ ایک آدمی جس نے عشاء کی نماز ابھی ادا نہ کی ہو ، وہ امام کی فرضی نمازِ عشا کے پیچھے نفل کی نیت کر لے ؟ جواب ہاں میںہو ہی نہیں سکتا ، بلا شبہ یہ درست نہیں ، تو معاذرضی اللہ عنہ کے ذمے ایسی غلط بات کیوں تھوپتے ہیں ؟ فافھم و تدبر ۔
اعتراض نمبر ٤:
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں :
ولوسلّم أنھا زیادۃ ثقۃ فلا شک أنھا لیست من کلام رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ولا من کلام معاذ ، وھذا ظاھر جدّا ، فیحتمل أن تکون من کلام ابن جریج أو من قول ابن دینار أو من قول جابر ، فمن أیّ ھؤلاء الثلاثۃ کان فلیس فیہ دلیل علی حقیقۃ فعل معاذ ، لأنھم لم یحکوا ذلک عنہ، انما قالوا قولا علٰی عندھم کذلک ، وقد یجوز أن یکون فی الحقیقۃ بخلافہ ، کذا قالہ العینی نقلا عن الطّحاوی ۔
”اگر اسے ثقہ کی زیادت تسلیم کر لیا جائے تو بلا شبہ یہ الفاظ نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور نہ ہی معاذ کے ، یہ بات بالکل عیاں ہے ، لہٰذا احتمال ہے کہ یہ ابن جریج کی کلام ہو یا ابن دیناریا جابر کا قول ہو ، ان تینوں میں سے جس کے بھی یہ الفاظ ہوں ، اس میں یہ دلیل نہیں کہ واقعۃََ معاذ کا یہی فعل تھا ، کیونکہ نہ الفاظ انہوں نے معاذ سے نقل نہیں کئے، بلکہ اپنے خیال میں جو بات تھی وہ کہہ دی کہ معاذ ایسا کرتے تھے، ہو سکتا ہے کہ حقیقت اس کے الٹ ہو ، عینی نے امام طحاوی سے یہی بات نقل کی ہے ۔”(اعلاء السنن : ٣/١٣٥٩ ۔ ١٣٦٠)
تبصرہ :
١٭ احناف نے یہاں تک تو کہہ دیا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ الفاظ جابرکے ہوں ،لیکن ہم کہتے ہیں کہ احتمال نہیں بلکہ یقینا یہ الفاظ صحابی ئرسول سیدناجابرکے ہی ہیں ، ان کو احتمال کی وجہ سے مدرج قرار دینا اور ابن جریج یا ابن دینارکی طرف منسوب کرنا درست نہیں ، کیونکہ ادراج کے لئے ٹھوس دلیل ہونا ضروری ہے ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : الادرج لا یثبت بمجرد الدّعوی والاحتمال ۔
”ادراج محض دعوی یا احتمال سے ثابت نہیں ہو سکتا ۔” (فتح الباری : ٢/٩١ ، ٣/٩٦)
٢٭ راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے ۔
جناب محمد سرفراز خاں صفدر حیاتی دیوبندی لکھتے ہیں :
”راویئ حدیث خصوصا جبکہ صحابی ہو ، اپنی مروی حدیث کی مراد کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے ۔”
(أحسن الکلام از صفدر : ١/٢٦٨)
اسی طرح جناب عینی حنفی نے بھی یہی بات لکھی ہے (عمدۃ القاری:٤/١٦)
چنانچہ اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ یہ الفاظ جابرنے محض اپنے فہم سے کہے ،(حالانکہ ایسا نہیں ہے ، کیونکہ جابر خود معاذکے پیچھے نماز پڑھتے تھے ) تو کیا ہوا؟ اسی اصول کے تحت مقلدین کے احتمال پر صحابی ئرسول کی رائے اور فہم کو ترجیح حاصل ہو گی ۔ والحمد للّٰہ
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : فالموقوف عندنا حجۃ ۔
”موقوف روایت( قو لِ صحابی) ہمارے نزدیک حجت ہے ۔”(اعلاء السنن : ٣/١١٠١)
جب قولِ صحابی حجت ہے ، تو یہاں کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ کسی صریح روایت یا دوسرے صحابی سے متعارض بھی نہیں ۔
لطیفہ : جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں : والوجدان یحکم بأنہ مدرج ، لأن فی اسنادہ ابن جریج ومذھبہ جواز اقتداء المفترض خلف المتنفل ۔
”میراوجدان ان الفاظ کے مدرج ہونے کا فیصلہ دیتا ہے ، کیونکہ اس روایت کی سند میں ابن جریج ہے اور اس کا مذہب متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کے جواز کا ہے (لہٰذا اس نے اپنے مذہب کی تائید کے لئے الفاظ بڑھا دیے ہیں) ۔” (فیض الباری : ٢/٢٢٦ ۔ ٢٢٧)
دیکھیں کہ دیوبندی صاحب کی کتنی جرأت ہے ، انہوں نے حدیث میں اپنی تقلید کے خلاف آنے الفاظ کی تاویل کی خاطر بالاتفاق ثقہ راویوں پر بھی جرحی نشتر چلا دئیے کہ انہوں نے حدیث کو اپنے مذہب کے موافق بنانے کی کوشش کی ہے ، حالانکہ ذرا سا غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ حدیث کو بدلنے کی کوشش امام ابن جریج نے نہیں کی، بلکہ یہ مقلدین کا ہی حصہ ہے کہ صحیح احادیث کو بھی اپنی عقل اور وجدان کی کسوٹی پر پر کھنا شروع کر دیتے ہیں ، بقول اشرف علی تھانوی صاحب جب کوئی آیت یا حدیث ان کے قول مجتہد کے خلاف آئے تو ۔۔۔
نیز باقرار کشمیری صاحب ابن جریج کا یہی مذہب ہے ، تو ہماری بات کو مزید تقویت مل گئی ، کیونکہ مقلدین بھی مانتے ہیں کہ راویئ حدیث اپنی حدیث کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے ۔
اعتراض نمبر ٥:
جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی جواب نمبر ٣ کے تحت لکھتے ہیں :
”امام طحاوی ص ١٩٩ ج ١ میں لکھتے ہیں :لاحتمل أن یکون ذلک من رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی وقت مّاکانت الفریضۃ تصلّٰی مرّتین، فذلک قد کان یفعل فی أول الاسلام حتّٰی نھی عنہ النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”احتمال ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے یہ اجازت اس وقت ہو ، جب فرض دو مرتبہ پڑھائے جاتے تھے ، کیونکہ شروع اسلام میںایسا کیا جاتا تھا ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔”(خزائن السنن : ٢/٢٠٤)
تبصرہ :
١۔۔۔۔۔۔احناف مجبور ہو کر مان گئے ہیں کہ سیدنا معاذ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے فرض پڑھے تھے ، لیکن اب ایک اور بلا دلیل دعوی کر دیا ہے ۔
٢۔۔۔۔۔۔صحابہ کرام ایک نماز کو فرض سمجھ کر دو مرتبہ ادا کرتے تھے ، جھوٹا دعوی اور بہتا ن ہے ، کیونکہ جو روایت طحاوی (١/٢٢١) کے حوالہ سے پیش کی جاتی ہے ، وہ سخت ضعیف ہے ۔اس لیے کہ :
١۔۔۔۔۔۔ قتادہ کی تدلیس موجود ہے ،جناب عینی حنفی لکھتے ہیں :انّ قتادۃ مدلّس لایحتجّ بعنعنتہ الّا اذا ثبت سماعہ ۔
”قتادۃ مدّلس ہیں ، ان کے عنعنہ سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی ،جب تک سماع کا ثبوت نہ ملے ۔”
(عمدۃ القاری : ١/٢٦١)
٢۔۔۔۔۔۔ خالد بن أیمن کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع و لقاء ثابت نہیں ، مدعیئ صحت پر دلیل لازم ہے ، لہٰذا اس سے استدلال مردود ہے ۔
رہا امام طحاوی کا ابن عمرکی مرفوع روایت :ان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نھٰی أن تصلّٰی فریضۃ فی یوم مرتین ( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فرض کو ایک ہی دن میں دو دفعہ ادا کرنے سے منع فرمایا ۔)(ابو داؤد :٥٧٩، نسائی :٨٦١، طحاوی : ٢٢٠ وغیرہ ، وسندہ حسن) سے یہ استدلال کرنا کہ صحابہ کرام پہلے ایسا کرتے تھے ، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ، کیونکہ فالنھی لا تکون الا بعد الاباحۃ ۔( نہی ہمیشہ جواز و اباحت کے بعد ہی ہوتی ہے) ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ضروری تو نہیں کہ جس کام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں ، وہ پہلے جائز ہو اور صحابہ اسے کرتے ہوں ، مثال کے طور پر: عبداللہ بن یزید الانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
نھی النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن النّھبٰی والمثلۃ ۔
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاکہ ڈالنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ۔” (بخاری : ٥٥١٦)
تو کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی سے پہلے اسلام میں ڈاکہ ڈالنا اور مثلہ کرنا جائز تھا اور صحابہ کرام ایسا کیا کرتے تھے ؟ نعوذ باللہ ! ڈاکہ اور مثلہ تو کسی دور میں بھی جائز نہیں رہا ۔
لہٰذا جوشخص یہ دعوی کرتا ہے کہ شروع اسلام میںصحابہ کرام فرض دو مرتبہ پڑھتے تھے ، اس پرصحیح و صریح دلیل پیش کرنا لازم ہے
اعتراض نمبر ٦:
جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی جواب نمبر ٤ کے تحت لکھتے ہیں :
”قاضی ابو بکر ابن العربی ؒعارضۃ الاحوذی ص ٦٦ ج ٢ میں فرماتے ہیں کہ حضرت معاذؓ دن کی نماز آپ کے ساتھ پڑھتے ،پھر رات کی نماز قوم کو پڑھاتے ، یعنی جو نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے وہ اور ہوتی اور جو قوم کو پڑھاتے وہ اور ہوتی ۔”(خزائن السنن : ٢/٢٠٤)
تبصرہ :
صفدر صاحب کی جانب سے یہ انتہائی فضول اعتراض ہے ، کیونکہ صحیح مسلم میں صریح الفاظ ہیں :
کان یصلّی مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم العشاء ، ثمّ ینصرف ، فیأتی قومہ فیصلّی بھم تلک الصّلوۃ ۔
”سیدنامعاذر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتے ، پھر لوٹ کر اپنی قوم کو وہی نماز پڑھاتے ۔ (صحیح مسلم : ٤٦٥)
قاضی ابن العربی المالکی نے اگر تسامحاََ یہ بات کہہ بھی دی ہے ، تو صفدر صاحب خود اسے خطا سمجھنے کے باوجود کیوں نقل کرتے ہیں ؟ کیا صفدر صاحب ”ایمان” سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ توجیہہ معتبر ہے ؟ اگر جواب نفی میں ہے ، تو صاف ظاہر ہے کہ تقلید ِناسدید اور احادیث نبوی کے انکار نے ان کو ایسے کام پر اکسایا ہے ۔
اعتراض نمبر ٧:
جناب صفدر مزید لکھتے ہیں :
”بعض فقہاء احنافؒ نے یہ جواب دیا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ عبارت یوں ہے :فصلی لیلۃ مع النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم العشاء ۔(مسلم : ١/١٨٧)اس میں عشاء سے عشا ء أولی یعنی مغرب مراد ہے ، جیسا کہ روایت ترمذی میں مغرب کی تصریح ہے اور ان معاذ بن جبل کان یصلّی مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عشاء الآخرۃ ثمّ یرجع الٰی قومہ فیصلّی بھم تلک الصّلوۃ۔(مسلم : ١/١٨٧) اس میں عشاء سے عشاء مراد ہے ، والمراد بتلک الصلوۃ مثلھا فی طول القراء ۃ وغیرھا ۔۔۔۔ الخ (معارف : ٥/١٠٤)نہ یہ کہ بعینہا وہی نماز ہے ۔”
(خزائن السنن : ٢/٢٠٤ ۔ ٢٠٥ ، مزید دیکھیں حاشیہ فیض الباری : ٢/٢٢٩)
تبصرہ :
قارئین! ذرا غور فرمائیں کہ تقلید نے مقلدین کو حدیث کے خلاف ایسے ایسے اعتراضات نقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے ، جو خود ان کے ہاں بھی مقبول نہیں ، خودجناب صفدر صاحب پچھلے صفحہ پر با دلائل یہ ثابت کر آئے ہیں کہ حدیث ِمعاذ میں لفظِ مغرب صحیح نہیں ، معلول ہے ، ذرا ان ہی کی زبانی یہ اعتراف ملاحظہ فرمائیں :
”فائدہ : لفظ مغرب معلول ہے ، العرف الشذی : ٢٥٥ میں ہے : قال البیہقی فی معرفۃ السّنن والآثار:أنّ لفظ المغرب معلولۃ بتصریح العشاء فی سائرالروایات ۔(باقی روایات میں عشاء کی تصریح آ جانے کی وجہ سے لفظ مغرب معلول ہے ) اور مبارکپوریؒ تحفۃ الاحوذی : ١/٤٠٤ میں لکھتے ہیں : وفی روایۃ مسلم (١/١٨٧) عشاء الآخرۃ (صحیح مسلم کی روایت میں عشاء الآخرۃ کے الفاظ ہیں ) (خزائن السنن : ٢/٢٠٢)
لو آپ اپنے دام میںصیاد آ گیا!
صفدر صاحب سے سوال ہے کہ یہ” فائدہ” آخر ہے کس کیلئے ہے؟ اور صفدر صاحب کو اس” فائدے” نے ”فائدہ” کیوں نہیں دیا ؟ اس کو محض تعصب اور اندھی تقلید کا نام نہ دیا جائے ، تو اور کیا کہا جائے ؟
جب لفظ ِمغرب ہی معلول ہو گیا تو مذکورہ بالا دعوی خود ہی مردود ہو گیا ، رہی یہ بات کہ تلک الصلوۃ سے مراد وہی عشاء کی نماز نہیں ،بلکہ مقدار قراء ت وغیرہ میں اس کی مثل ہوتی تھی ، تو یہ بے تکی کی انتہا ہے اور کج فہمی کی معراج ہے ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ سیدنا معاذ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے عین مطابق نماز پڑھائیں ، جتنی مقدار میں قراء ت آپ کرتے تھے ، اتنی ہی مقدار آپ قراء ت کریں ، پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ڈانٹیں کہ :
أترید أن تکون فتّانا یا معاذ ؟ اذا أمّمت النّاس فاقرأ (والشّمس وضحاھا) و (سبّح اسم ربّک الأعلٰی) و (اقرأ باسم ربّک) (واللّیل اذا یغشٰی) ۔
”اے معاذ ! کیا تو دین سے متنفر کرنے والا بننا پسند کرتا ہے ؟ جب تو لوگوں کی امامت کرے ، تو (سورۃ بقرہ نہیں بلکہ) سورۃ الشمس ، سورۃ الاعلی ، سورۃ القلم اور سورۃ اللیل پڑھا کر ۔” (صحیح مسلم : ٤٦٥ )
کیا خود آپ قراء ت لمبی کر کے نماز پڑھاتے تھے اور معاذ کے اسی فعل کو فتنہ قرا دیتے تھے ؟ یا للعجیب ولضیعۃ الحدیث ۔
ویسے بھی صحیح مسلم میںسیدنامعاذ کا عشاء الآخرۃ پڑھ کر اپنی قوم کو یہی نماز پڑھانا مذکور ہے ، لہٰذا یہ تاویل باطل ہوئی۔
حافظ نووی حدیث معاذ رضی اللہ عنہ میں احناف کی تاویلات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وکل ھٰذہ التّأویلات دعاوی لاأصل لھا فلا یترک ظاھرالحدیث بھا ۔
”یہ تمام تاویلات بے دلیل دعوے ہیں ، ان کی بنا پر حدیث کے ظاہری مفہوم کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔”
(شرح مسلم از نووی : ١/١٨٧)
بفضل اللہ ہم نے حدیث ِ معاذ پر آج تک وارد ہونے والے تمام اعتراضات و تاویلات کے جوابات دے دیے ہیں ، اگر اب بھی کسی شخص کے ذہن میں کوئی اشکال یا تاویل ہو تو وہ اسے اپنے تئیں محدود نہ رکھے ، بلکہ ہمیں ضرور مطلع کرے تاکہ اس کا بھی منصفانہ تجزیہ کیا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں احادیث ِ صحیحہ کے بے تکے جوابات دینے اور فضول تاویلات سوچتے رہنے کی بجائے ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری زندگی دفاعِ حدیث کے لیے خاص کر دے اور اس عمل کو ہماری نجات کا ذریعہ بنا دے ۔
آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.