765

نماز مغرب سے قبل دور کعت۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں
ایک سنت ِ مظلومہ     غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
نماز ِ مغرب سے پہلے دورکعت نفل ادا کرنا رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری سنت ہے ، اس کے ثبوت پر احادیث ِ صحیحہ ملاحظہ ہوں :
قولی احادیث
دلیل نمبر 1 :      سیدنا ابو سعید عبداللہ بن مغفل مزنی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      صلّوا قبل صلاۃ المغرب ، قال فی الثّالثۃ : لمن شاء ، کراھیۃ أن یتّخذھا النّاس سنّۃ ۔
”نماز ِ مغرب سے پہلے (دو رکعتیں)پڑھو ،(ایسادو بار فرمایا )، تیسری بار فرمایا ، جو چاہے (پڑھے)، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ کہیں لوگ اس (نماز ) کو (لازمی) سنت نہ بنا لیں۔”
(صحیح بخاری : ١/١٥٧، ح : ١١٨٣، سنن ابی داو،د : ١٢٨١)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) لکھتے ہیں :     لم یرد نفی استحبابھا لأن لا یمکن أن یأمر بما لا یستحبّ ، بل ھذا الحدیث من أقوی الأدلّۃ علی استحبابھا ۔
”(اس حدیث سے)آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب کی نفی نہیں ، اس لیے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ایک چیز کے بارے میں حکم فرمائیں اور وہ (کم از کم) مستحب (بھی)نہ ہو ، بلکہ یہ حدیث تو مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب پر قوی ترین دلیلوں میں سے ایک ہے ۔”
(فتح الباری فی شرح صحیح البخاری : ٣/٦٠)
دلیل نمبر 2 :      سیدنا عبداللہ بن مغفل  رضی اللہ عنہ سے ہی سنن ابی داؤد (١/١٨٢، ح : ١٢٨١، وسندہ، حسن) میں یہی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :     صلّوا قبل المغرب رکعتین ۔۔۔
”نماز ِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو۔”
دلیل نمبر 3 :      سیدنا عبداللہ بن مغفل  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      بین کلّ أذانین صلاۃ ، ثلاثاً ، لمن شاء ۔
”(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا ) ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ، تیسری بار فرمایا ، اس کے لیے جو پڑھنا چاہے ۔”(صحیح بخاری : ١/٨٧، ح : ٦٢٤، صحیح مسلم : ١/٢٨٧، ح : ٨٣٨، سنن ابی داو،د : ١/١٨٢، ح : ١٢٨٣، سنن ترمذی : ١/٤٥، ح : ١٨٥، سنن ابن ماجہ : ١/٨٢، ح : ١١٦٢، سنن نسائی : ٢/٢٨، ح : ٦٨٢، مسند الامام احمد : ٤/٨٦)
پہلی اذان سے مراد اذان اور دوسری اذان سے مراد اقامت ہے ۔
مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کے جواز پر یہ تیسری قولی حدیث ہے ، کیونکہ اس میں بلا استثنا پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے ، محدثین کرام  رحمہم اللہ نے اس حدیث سے یہی مسئلہ ثابت کیا ہے ۔
دلیل نمبر 4 :      سیدنا عبدا للہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :      ما من صلاۃ مفروضۃ الّا وبین یدیھا رکعتان ۔
”کوئی فرضی نماز ایسی نہیں ہے ، جس سے پہلے دو رکعتیں نہ ہوں۔”
(سنن الدارقطنی : ١/٢٦٧، ح : ١٠٣٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٢٤٥٥) نے ”صحیح” کہا ہے ۔
اس حدیث میں بھی بلا استثنا ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتوں کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
فعلی حدیث
دلیل نمبر 5 :      سیدنا عبداللہ مزنی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
انّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّٰی قبل المغرب رکعتین ۔
”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود) مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا فرمائیں ۔”
(صحیح ابن حبان : ١٥٨٨، قیام اللیل للمروزی : ٦٤، وسندہ، صحیحٌ)
اس روایت کے بارے میں علامہ مقریزی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :         ھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم ۔    ”یہ سند امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔”(اختصار قیام اللیل للمقریزی : ٦٤)
تقریری احادیث
دلیل نمبر 6 :      قال مرثد بن عبد اللّٰہ الیزنیّ : أتیت عقبۃ بن عامر الجھنیّ، فقلت : ألا أعجبک من أبی تمیم ؟ یرکع رکعتین قبل صلاۃ المغرب ، فقال عقبۃ : ان کنّا نفعلہ علی عھد النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقلت : فما یمنعک الآن ؟ قال : الشغل ۔
”مرثد بن عبداللہ یزنی  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں (صحابی ئ رسول)سیدنا عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ، کیا میں آپ کو ابو تمیم  رحمہ اللہ (تابعی) کی وجہ سے تعجب میں نہ ڈالوں ؟ وہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہیں ، اس پر سیدنا عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ہم نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں یہ (مغرب سے پہلے دو رکعتوں کا اہتمام) کرتے تھے ، میں نے عرض کی ، اب آپ کو کس چیز نے روک دیا ہے ؟ فرمایا ، مصروفیت نے ۔”(صحیح بخاری : ١/١٥٨، ح : ١١٨٤)
علامہ سندھی حنفی (م ١١٣٩ھ) لکھتے ہیں :      والظّاھر أنّ الرّکعتین قبل صلاۃ المغرب جائزتان ، بل مندوبتان ، ولم أر للمانعین جواباً شافیاً ۔
”ظاہر ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں جائز ، بلکہ مستحب ہیں ، میں منع کرنے والوں کے پاس کوئی شافی جواب نہیں پا سکا ۔”(حاشیۃ السندی علی النسائی : ١/٢٨٣، ٢/٢٨)
علامہ محمد طاہر پٹنی حنفی (م٩٨٦ھ) فرماتے ہیں :         الأصحّ أنّہ یستحبّ الرّکعتان قبلہ وعلیہ السّلف ۔      ”صحیح ترین بات یہ ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں مستحب ہیں اور ان پر سلف صالحین کا عمل رہا ہے ۔”(تکملۃ مجمع بحار الانوار : ٤/١٠٦)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      وفیہ ردّ علی قول القاضی أبی بکر بن العربیّ : لم یفعلھما أحد بعد الصّحابۃ ، لأنّ أبا تمیم تابعیّ ، وقد فعلھما ۔۔۔
”اس حدیث میں قاضی ابو بکر بن العربی کے اس قول کا رد ہوتا ہے کہ یہ دو رکعتیں صحابہ کرام ] کے بعد کسی نے نہیں پڑھیں ، کیونکہ ابو تمیم  رحمہ اللہ تابعی ہیں اور انہوں نے یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں ۔” (فتح الباری : ٢/٦٠)
دلیل نمبر 7 :      قال أنس بن مالک : کنّا نصلّی علی عھد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم رکعتین بعد غروب الشّمس قبل صلاۃ المغرب ، فقلت لہ : أکان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّاھما ؟ قال : کان یرانا نصلّیھما ، فلم یأمرنا ولم ینھنا ۔
”سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں غروب آفتاب کے بعد اور نماز ِ مغرب سے پہلے دورکعتیں پڑھتے تھے ، (راوی مختار بن فلفل تابعی  رحمہ اللہ کہتے ہیں ) میں نے سیدنا انس  رضی اللہ عنہ سے عرض کی ، کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم یہ دورکعتیں پڑھتے تھے ؟ تو آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں یہ دو رکعتیں پڑھتے دیکھتے تھے ، لیکن نہ ہمیں (واجبی) حکم دیتے تھے ، نہ ہی منع کرتے تھے ۔” (صحیح مسلم : ١/٢٧٨، ح : ٨٣٦)
دلیل نمبر 8 :      سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
صلّیت الرّکعتین قبل المغرب علی عھد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں ۔”
(سنن ابی داو،د : ١/١٨٩، ح : ١٢٨٢، وسندہ، صحیح)
دلیل نمبر 9 :      عن أنس بن مالک ، قال : کان المؤذّن اذا أذّن قام ناس من أصحاب النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یبتدرون السّواری حتّٰی یخرج النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وھم کذلک یصلّون رکعتین قبل المغرب ، ولم یکن بین الأذان والاقامۃ شیئ ۔
”سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مؤذن اذانِ (مغرب) کہتا تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے (کبار)صحابہ کرام ستونوں کی طرف ایک دوسرے سے سبقت کرتے ، یہاں تک کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ، وہ (صحابہ) اسی حالت میں مغرب سے پہلے دورکعتیں پڑھتے ، اذان اور اقامت کے درمیان کثیر وقت نہیں ہوتا تھا ۔”(صحیح بخاری : ١/٨٧، ح : ٦٢٥، صحیح مسلم : ١/٢٨٧، ح : ٨٣٧)
صحیح مسلم میں یہ الفاظ زائد بیان ہوئے ہیں :      حتّٰی انّ الرّجل الغریب لیدخل المسجد، فیحسب أنّ الصّلاۃ قد صلّیت ، من کثرۃ من یصلّیھا ۔
”یہاں تک کہ کوئی اجنبی (مسافر) مسجد میں داخل ہوتا تو وہ مغرب سے پہلے دو نفل پڑھتے والوں کی کثرت کو دیکھ کر یہ خیال کرتا کہ نماز ِ مغرب پڑھی جا چکی ہے ۔”
دلیل نمبر 0 :      زر بن حبیش کہتے ہیں :      انّ أبیّ بن کعب وعبد الرّحمٰن ابن عوف کانا یصلّیان قبل المغرب رکعتین رکعتین ۔
”سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہما  دونوں مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں ادا فرماتے تھے ۔”(شرح مشکل الآثار للطحاوی : ١٤/١٢١، وسندہ، حسنٌ)
دلیل نمبر ! :      عبداللہ بن ابی الہذیل کہتے ہیں :         دعوت رجلاً من أصحاب النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الی منزلی ، فلمّا أذّن المؤذّن المغرب ، فصلّٰی ، فسألت عن ذلک ، فقال : کان أبیّ بن کعب یصلّیھما ۔
”میں نے ایک صحابی ئ رسول  رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر میں دعوت دی ، جب مؤذن نے مغرب کی اذان کہی تو انہوں نے دورکعتیں پڑھیں ، میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ، سیدنا ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ۔”(مسند المسدد بحوالہ المطالب العالیۃ لابن حجر : ٦٢١، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر @ :      امام حسن بصری  رحمہ اللہ سے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :          حسنتان جمیلتان لمن أراد اللّٰہ بھما ۔
”جو آدمی ان دو رکعتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ادا کرے ، اس کے لیے بہت بہترین اور اچھی ہیں۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٣٥٦، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر # :      حکم بن عتیبہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں :
رأیت ابن أبی لیلٰی صلّٰی رکعتین قبل المغرب ۔    ”میں نے ا بن أبی لیلیٰ کو دیکھا کہ انہوں نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کیں ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٣٥٥، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر $ :      امام ترمذی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     وقال أحمد واسحاق: ان صلّاھما فحسن ، وھذا عندھما علی الاستحباب ۔
”امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ Hنے کہا ہے ،اگر آدمی یہ دو رکعتیں ادا کرلے تو اچھا ہے، یہ دو رکعتیں ان کے نزدیک مستحب ہیں ۔”(جامع ترمذی ، تحت حدیث : ١٨٥)
قارئین کرام ! ان صحیح احادیث اور آثار ِ صحیحہ سے نما ز ِ مغرب سے پہلے دو رکعتوں کا استحباب ثابت ہوتا ہے ، رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ان پر عمل ہونا چاہیے ، ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
( وما آتاکم الرّسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا ) (الحشر : ٧)
” جو تمہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں ، اسے پکڑ لو ، اور جس سے وہ منع فرما دیں ، اس سے رک جاؤ۔”
جولوگ محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیاری سنت سے منع کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور آج سے ہی اس سنت پر عمل کرنا چاہیے ، سنت کی پیروی ہی محبت ِ رسول کی حقیقی علامت ہے ۔
اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان لوگوں کے دلائل کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں ، جو ان دو رکعتوں کے استحباب کے قائل نہیں ہیں اور محض اپنے امام کے بے سند اور ”ضعیف” قول کے مقابلہ میں ان احادیث ِ صحیحہ وآثار کی تاویل یا رد کرتے ہیں ۔
مانعین کے دلائل اور ان کا جائزہ
دلیل نمبر 1 :      عن طاو،س قال : سئل ابن عمر عن الرّکعتین قبل المغرب ، فقال : ما رأیت أحداً علی عھد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یصلّیھما ، ورخّص فی الرّکعتین بعد العصر ۔
”طاؤس کہتے ہیں کہ سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما سے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا ، میں نے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا ، سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  نے عصر کے بعد دو رکعتوں پڑھنے کی اجازت دی ۔”(سنن ابی داو،د : ١/١٨٢، ح : ١٢٨٤، مسند عبد بن حمید : ق ١٠٥، ح : ٨٠٤ مختصرا ، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٤٧٦، وسندہ، حسنٌ)
تبصرہ :      یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما نے مغرب سے پہلے کسی کو نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا ، جبکہ سیدنا انس  رضی اللہ عنہ  وغیرہ نے دیکھا ہے ، حجت اس کی بات ہوگی ، جس نے دیکھا ہے نہ کہ اس کی بات جس نے نہیں دیکھا ، یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ مثبت اور منفی میں تعارض ہو تو مثبت کو ترجیح ہوتی ہے ۔
امام ِ بیہقی  رحمہ اللہ ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  کے اس قول کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ـ:
القول فی مثل ھذا قول من شاھد دون من لم یشاھد ۔۔۔
”اس طرح کے( تعارض )میں اس شخص کی بات حجت ہو گی ، جس نے مشاہدہ کیا ہے ، نہ کہ اس کی جس نے مشاہدہ نہیں کیا ۔”
تنبیہ :     یہاں پر بطور ِ فائدہ عرض ہے کہ بعض الناس اس روایت کو پیش کرتے وقت اس کا آخری حصہ ترک کر دیتے ہیں کہ :     ”سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما نے عصر کے بعد دور کعتیں پڑھنے کی اجازت دی ”
کیونکہ یہ ان کے خلاف ہے ، یہ بدترین خیانت اور دین میں تحریف ہے ۔
فائدہ :     قتادہ  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ، میں نے امام سعید بن مسیب  رحمہ اللہ سے کہا کہ سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ مغرب سے پہلے دورکعتیں پڑھتے تھے ، انہوں نے کہا ، وہ تو ان دو رکعتوں سے منع کرتے تھے ، میں نے سعد بن مالک  رضی اللہ عنہ کے سوا کسی صحابی کو یہ دو رکعتیں پڑھتے نہیں دیکھا ۔”(مشکل الآثار للطحاوی : ١٤/١٢٢)
اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس کے راوی ہارون بن کامل کی توثیق نہیں مل سکی ، ابنِ یونس مصری نے اسے اپنی تاریخ میں بغیر توثیق کے ذکر کیا ہے ۔
دلیل نمبر 2 :      قال عبدالرّزّاق عن الثّوری عن منصور عن ابراھیم ، قال : لم یصلّ أبوبکر ولا عمر ولا عثمان الرّکعتین قبل المغرب ۔
”ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر ، عمر اور عثمان ] نے مغرب سے پہلے دورکعتیں نہیں پڑھیں ۔”
(مصنف عبدالرزاق : ٢/٤٣٥، ٣٩٨٥)
تبصرۃ :     یہ روایت کئی وجوہ سے ”ضعیف” ہے :
(ا)     امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی ”مدلس”ہیں اور سماع کی تصریح ثابت نہیں ہے ۔
(ب)    امام ابراہیم نخعی سیدنا ابو بکر  رضی اللہ عنہ کی وفات اور سیدنا عمر وعثمان  رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد پیدا ہوئے ہیں ، لہٰذا یہ روایت سخت ”منقطع” ہے ، ”منقطع” سے حجت لینا صحیح ہیں ۔
فائدہ :     المطالب العالیہ لابن حجر (٦٢٣) میں ہے :
قال مسدّد : حدّثنا یحیٰی عن سفیان ، حدّثنی منصور عن أبیہ ، قال ۔۔۔۔۔۔۔
منصور کے باپ کے حالات نہیں مل سکے ، لہٰذا سند مردود ہے ۔
دلیل نمبر 3 :      عن حمّاد قال : سألت ابراہیم عن الصّلاۃ قبل المغرب ، فنھانی عنھا وقال : انّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وأبابکر وعمر لم یصلّوھا ۔
”حما د بن ابی سلیمان سے روایت ہے ، کہتے ہیں ، میں نے امام ابراہیم نخعی سے مغرب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے مجھے اس سے منع فرما دیا اور کہا ، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر وعمر  رضی اللہ عنہما  نے یہ نماز نہیں پڑھی ۔”(کتاب الآثار للامام ابی حنیفۃ بروایۃ محمد : ٣٢)
تبصرہ :      یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے ، اس کا راوی محمد بن حسن شیبانی بالاتفاق ”ضعیف” اور ”کذاب” ہے ، اسے امام ابوزرعہ  رحمہ اللہ وغیرہ نے مجروح قرار دیا ہے ۔
امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں :      محمّد جہمیّ کذّاب ۔ ”محمد (بن حسن شیبانی) جہمی (گمراہ فرقے کا ) اور کذاب (پرلے درجے کا جھوٹا) ہے ۔”(الضعفاء للعقیلی : ٤/٥٢، وسندہ، صحیح)
نیز فرماتے ہیں :     لیس بشیء ۔    ”یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔” (تاریخ ابن معین : ١٧٧)
انہوں نے محمد بن حسن کو ”ضعیف ” بھی قرار دیا ہے ۔(الکامل لابن عدی : ٦/١٧٤، وسندہ، صحیح)
مزید فرماتے ہیں :      اجتمع النّاس علی طرح ھؤلاء النفر ، لیس یذاکر بحدیثھم ، ولا یعتمد بھم ، منھم محمّد بن الحسن ۔۔۔        ”لوگوں (محدثین ) کا ان راویوں کو ترک کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے ، ان کی احادیث کا مذاکرہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان پر اعتماد کیا جاتا ہے ، ان (متروک) راویوں میں سے ایک محمد بن حسن ہے ۔” (الکامل لابن عدی : ٦/١٧٥، وسندہئ صحیح)
امام اہل سنت امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     لا أروی عنہ شیأا ۔     ”میں اس سے کوئی روایت نہیں لیتا ۔” (الجرح والتعدیل : ٧/٢٧، وسندہ، صحیح)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت کے خلاف ایسے جھوٹے راوی کی روایت پیش کرنا دینِ اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے ۔
(ب)    حما د بن ابی سلیمان آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ، امام ابنِ سعد لکھتے ہیں :
اختلط فی آخر أمرہٖ ۔ ”یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ۔”(تہذیب التھذیب : ٣/١٥)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ (م ٨٠٧ھ ) لکھتے ہیں :     ولا یقبل من حدیث حمّاد الّا ما رواہ عنہ القدماء : شعبۃ ، وسفیان الثّوریّ ، والدّستوائیّ ، ومن عدا ھؤلاء رووا عنہ بعد الاختلاط ۔
”حماد بن ابی سلیمان کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی ، سوائے اس حدیث کے جو ان سے قدیم شاگرد، شعبہ ، سفیان ثوری ، دستوائی  رحمہم اللہ  بیان کریں ، ان کے علاوہ سارے لوگوںنے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے ۔” (مجمع الزوائد : ١/١١٩۔١٢٠)
امام ابو حنیفہ بھی حماد کے ان شاگردوں میں سے ہیں ، جنہوں نے ان سے اختلاط کے بعد سماع کیا ہے ، لہٰذا یہ روایت ”ضعیف” و مردود ہے ، اس میں نعمان بن ثابت راوی بھی بالاتفاق ”ضعیف ومتروک” ہے ۔
امام زیلعی حنفی (م ٧٦٢ھ) نے بھی اس روایت کو ”معضل”(سخت منقطع) قرار دیا ہے ۔
(نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ : ٢/١٤١)
دلیل نمبر 4 :      قال الطّبرانیّ : حدّثنا یحیی بن صاعد ، ثنا محمّد بن منصور المکّیّ ، ثنا یحیی بن أبی الحجّاج ، ثنا عیسی بن سنان عن رجاء بن حیوۃ عن جابر ، قال : سألنا نساء رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : ھل رأیتنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یصلّی الرّکعتین قبل المغرب ؟ فقلن : لا ، غیر أنّ أمّ سلمۃ قالت : صلّاھما عندی مرّۃ ، فسألتہ : ما ھذہ الصّلاۃ ؟ فقال : نسیت الرّکعتین قبل العصر ، فصلّیتھما الآن ۔
”سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں ، ہم نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے سوال کیا ،کیا آپ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ؟ انہوں نے کہا ، نہیں ، سوائے اس کے کہ سیدہ ام سلمہ  رضی اللہ عنہا نے کہا ، آپ نے ایک دفعہ یہ دورکعتیں میرے ہاں پڑھی تھیں ، میں نے پوچھا ، یہ کیسی نماز ہے ؟ اس پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں عصر سے پہلے دو رکعتیں ادا کرنا بھول گیا تھا تو اب ان کو ادا کیا ہے ۔”(مسند الشامیین للطبرانی : ٢/٢١٢، ح : ٢١١٠)
تبصرہ :      یہ روایت ”ضعیف” ہے ، کیونکہ اس کی سند میں عیسیٰ بن سنان الحنفی راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، حافظ عراقی  رحمہ اللہ (٧٢٥۔٨٠٦ھ) فرماتے ہیں :     ضعّفہ الجمہور ۔
”اس کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(المغنی عن حمل الاسفار فی الاسفار : ٢/٢٠٨)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وضعّفہ الجمہور ۔     ”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔”(مجمع الزوائد : ١/٣٦)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ اسے ” لیّن الحدیث” قرار دیتے ہیں ۔(تقریب التھذیب : ٥٢٩٥)اس روایت کے دوسرے راوی یحییٰ بن ابی الحجاج کو بھی حافظ ابنِ حجر نے ”لیّن الحدیث” لکھاہے ۔(التقریب : ٧٥٢٧)
دلیل نمبر 5 :      عن ابن المسیّب ، قال : کان المھاجرون لا یرکعون قبل المغرب وکانت الأنصار ترکع بھما ۔        ”سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مہاجرین صحابہ کرام مغرب سے پہلے دو رکعتیں نہیں پڑھتے تھے ، جبکہ انصار پڑھتے تھے ۔”
تبصرہ :      (ا)    یہ روایت امام زہری  رحمہ اللہ کی ”تدلیس” کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، اس کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے ۔
(ب)    انصار صحابہ کا ان دورکعتوں کو ادا کرنا تو ان کے مستحب ہونے کی واضح دلیل ہے ، مہاجرین کے نہ پڑھنے سے وجوب کی نفی ہوتی ہے ، جس کے ہم بھی قائل نہیں ۔
دلیل نمبر 6 :      عن عبداللّٰہ بن بریدۃ عن أبیہ ، قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : انّ عند کلّ أذانین رکعتین ماخلا صلاۃ المغرب ۔
”عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ(بریدہ  رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بے شک ہر دو اذانوں (اذان اور تکبیر) کے درمیان دو رکعتیں (مستحب) ہیں ، سوائے مغرب کی نماز کے ۔”
(سنن الدارقطنی : ١/٢٦٥، ح : ١٠٢٨، مسند البزار : ١/٣٣٤)
تبصرہ :      (ا)     یہ روایت حیان بن عبیداللہ (حسن الحدیث عند الجمہور) کے اختلاط کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، امام بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ذکر الصّلت منہ الاختلاط ۔
”صلت نے اس سے اختلاط کو ذکر کیا ہے ۔”(لسان المیزان : ٢/٣٧٠، التاریخ الکبیر : ٣/٥٨)
یہ حدیث بھی اس کا اختلاط ہے ، امام بیہقی  رحمہ اللہ نے اس کی سند و متن کو خطا پر مبنی قرار دیا ہے ۔
(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی : ٤/٩)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ کہتے ہیں :     ذکرہ ابن عدیّ ، وقیل : انّہ اختلط ۔
”اس (حیان بن عبیداللہ) کو امام ابن عدی  رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ، کہا گیا ہے کہ یہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔”(مجمع الزوائد : ٢/٢٣١)
حافظ ابنِ ملقن  رحمہ اللہ نے ” ماخلا صلاۃ المغرب ” کی زیادت کو ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔
(البدر المنیر لابن الملقن : ٤/٢٩٤)
(ب)     عبداللہ بن بریدہ  رحمہ اللہ خود مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بیان کرتے ہیں ۔(صحیح بخاری : ١/١٥٧، ح : ١١٨٣)
نیز وہ خود یہ نماز پڑھتے بھی تھے ۔(صحیح ابن خزیمۃ : ١٢٨٧، صحیح ابن حبان : ١٥٥٩، وسندہ، صحیح)
دلیل نمبر 7 :      سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :      صلّوا المغرب لفطر الصّائم وبادروا طلوع النّجوم ۔
”مغرب (کی نماز ) روزہ دار کے افطار کے وقت پڑھو اور ستاروں کے طلوع ہونے سے سبقت لے جاؤ (یعنی پہلے ہی نماز پڑھ لو)۔”(مسند الامام احمد : ٤/٤٢١)
تبصرہ :      یہ روایت ”رجل” مبہم کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ۔
دلیل نمبر 8 :      سیدنا ابو ایوب  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں ، میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :      صلّوا صلاۃ المغرب مع سقوط الشّمس ، بادروا بھا طلوع النّجوم ۔
”مغرب سورج کے غروب ہوتے ہی پڑھ لو ، اس کے پڑھنے میں ستاروں کے طلوع ہونے سے سبقت لے جاؤ ۔”(المعجم الکبیر للطبرانی : ٤/١٧٦)
تبصرہ :      ان دونوں روایتوں میں نماز ِ مغرب جلدی پڑھنے کا حکم ہے ، اس نے نماز ِ مغرب سے پہلے دو رکعتوں کی نفی یا عدم ِ جواز ثابت نہیں ہوتا ۔
مغرب کی اذان بھی تو سورج کے غروب ہونے کے بعد ہی کہی جاتی ہے ، اگر اچھے طریقے سے کہی جائے توچار پانچ منٹ اذان پر صرف ہو جاتے ہیں ، اب اگر کوئی اس روایت کو لے کر مغرب کی اذان نہ کہنے کا شوشہ کھڑا کر دے تو کیا وہ حق بجانب ہو گا ؟
سیدھی سی بات ہے کہ جس ہستی نے مغرب کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم دیا ہے ، اسی نے مغرب سے پہلے دورکعتوں کا حکم دیا ہے ، خود بھی پڑھ کردکھائی ہیں ، نیز اپنے صحابہ کرام ] کو پڑھتے ہوئے دیکھا تو اظہار ِ رضامندی فرمایا ہے ۔
پھر دو رکعتوں کے پڑھنے میں بھلا کتنا وقت صرف ہوتا ہے ؟ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کی نماز شروع پڑھنے میں اتنی تاخیر نہ کرو کہ ستارے ظاہر ہو جائیں ، اگر جلدی میں دورکعتیں پڑھ لی جائیں تو ستارے کہاں ظاہر ہوتے ہیں ؟
جہاں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز ِ مغرب میں قصارِ مفصّل (چھوٹی چھوٹی آخری سورتوں) کی قراء ت ثابت ہے(سنن النسائی : ٢/١٧٦، ح : ٩٨٣۔٩٨٤، وسندہ حسن) ، وہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سورہئ طور کی قراء ت بھی ثابت ہے۔(صحیح بخاری : ١/١٠٥، ح : ٧٦٥، صحیح مسلم : ١/١٨٧، ح : ٤٦٣)
اسی طرح سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے :      انّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قرأ فی صلاۃ المغرب بسورۃ الأعراف ، فرّقھا فی رکعتین ۔    ”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ِ مغرب میں سورہ ئ اعراف پڑھی ، اس کو دورکعتوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔”(سنن النسائی : ١/١٥٤، ح : ٩٩١، وسندہ، صحیحٌ)
سورہئ طور اور سورہئ اعراف کی تلاوت کرنے کے باوجود بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِ مغرب یقینا تاخیر سے ادا نہیں ہوئی تھی ، کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز عین وقت پر پڑھتے تھے ، کیا دو رکعتیں اس سے بھی زیادہ وقت لیتی ہیں؟
حافظ نووی  رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ)لکھتے ہیں :          والمختار استحبابھا لھذہ الأحادیث الصّحیحۃ الصّریحۃ ۔    ”ان صحیح و صریح احادیث کی روشنی میں مختار بات یہ ہے کہ مغرب سے پہلے (دو رکعت)نماز مستحب ہے ۔”(شرح صحیح مسلم للنووی : ١/٢٧٨)
نیز لکھتے ہیں :     وأمّا قولھم : یؤدّی الٰی تأخیر المغرب ، فھذا خیال منابذ للسّنّۃ ، فلا یلتفت الیہ ، ومع ھذا فھو زمن یسیر ، لا تتأخّر بہ الصّلاۃ عن أوّل وقتھا ، وأمّا من زعم النّسخ ، فھو مجازف ، لأنّ النّسخ لا یصار الیہ الّا اذا عجزنا عن التّأویل والجمع بین الأحادیث وعلمنا التّاریخ ، ولیس ھنا شیئ من ذلک ۔
”رہاان(منکرینِ سنت )کا یہ کہنا کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مغرب کو لیٹ کر دیتا ہے ، تو یہ سنت دشمنی پر مبنی خیال ہے ، اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا ، نیز ان دو رکعتوں کی ادائیگی میں تھوڑا سا وقت لگتا ہے ، جس سے نماز اول وقت سے لیٹ نہیں ہوتی ، جس نے یہ دعوی کیا کہ یہ نماز منسوخ ہے ، وہ بے تکی اور بے اصولی باتیں کرنے والا ہے ، کیونکہ منسوخیت کا دعوی تو تب ہو گا ، جب ہم حدیثوں کی تاویل اور ان کے درمیان جمع و تطبیق سے عاجز آجائیں اور ہمیں تاریخ کا علم ہو جائے ، جبکہ یہاں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔”
(شرح مسلم للنووی : ١/٢٧٨)نیز دیکھیں ( السعایۃ از عبدالحی اللکنوی الحنفی : ٢/٣١)
برصغیر کے مشہور حنفی عالم جناب عبدالحیئ لکھنوی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ) حافظ قسطلانی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :         مجموع الأحادیث تدل علی استحباب تخفیفھا کرکعتی الفجر ۔
”احادیث کا مجموعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتوں کو فجر کی نماز سے پہلے والی دو رکعتوں کی طرح تخفیف سے پڑھا جائے ۔”(السعایۃ : ٢/٢٩)
علامہ کرمانی حنفی بھی اس نماز کے استحباب کے قائل ہیں ۔(شرح الکرمانی : ٥/٢٣)
جناب محمود الحسن دیوبندی اسیر مالٹا (م١٣٣٩ھ)کہتے ہیں :         ”ہاں ! اگر بلا تاخیر مغرب نوافل پڑھ سکے یا کسی وجہ سے جماعت میں دیر ہو تو جائز ہے ۔”(تقاریر ”شیخ الھند” : ٥٢،٢٤٤)
الحاصل :      مغرب سے پہلے دو نفل مستحب ہیں، کراہت پر کوئی دلیل نہیں ہے ، دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے محبت کرنے والا بنائے ۔        آمین !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.