1,480

نماز میں بھول کر کلام، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


نماز میں بھول کر کلام کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اس پر دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں:
صلّی بنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إحدی صلاتی العشیّ ، قال ابن سیرین : قد سمّاھا أبوہریرۃ ولکن نسیت أنا ، قال : فصلّی بنا رکعتین ، ثمّ سلّم ، فقام إلی خشبۃ معروضۃ فی المسجد فاتّکأ علیہا ، کأنّہ غضبان ، ووضع یدہ الیمنی علی الیسری ، وشبک بین أصابعہ ، ووضع خدّہ الأیمن علی ظہر کفہ الیسری ، وخرجت السرعان من أبواب المسجد فقالوا قصرت الصلاۃ . وفی القوم أبو بکر وعمر ، فہابا أن یکلّماہ ، وفی القوم رجل فی یدیہ طول یقال لہ ذو الیدین قال یا رسول اللّٰہ ، أنسیت أم قصرت الصلاۃ قال لم أنس ، ولم تقصر. فقال : أکما یقول ذو الیدین ، فقالوا نعم ، فتقدّم فصلّی ما ترک، ثم سلم ، ثم کبر وسجد مثل سجودہ أو أطول ، ثم رفع رأسہ وکبّر ، ثم کبر وسجد مثل سجودہ أو أطول ، ثمّ رفع رأسہ وکبر ، فربّما سألوہ : ثمّ سلّم ؟ فیقول : نبّئت أنّ عمران بن حصین قال : ثمّ سلّم .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی ۔[ راوی ابن سیرین کا بیان ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس نماز کی تعیین کی تھی لیکن میں ہی بھول گیا ہوں]۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں ، پھرسلام پھیر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں ہیں۔ آپ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیںہاتھ پر رکھا ہوا تھااور انگلیاں ایک دوسری میں ڈالی ہوئی تھیں اور اپنے دائیںرخسار مبارک کو اپنی بائیں ہتھیلی کی باہر والی جانب پر رکھا ہوا تھا۔ جلدی والے لوگ یہ کہتے ہوئے مسجد سے نکل گئے کہ نماز کم ہو گئی ہے۔ مسجد میں موجود لوگوں میں سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے سے ڈر رہے تھے۔ لوگوں میں ایک ایسا آدمی موجود تھا جس کے ہاتھ لمبے لمبے تھے ، اسے ذوالیدین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم ہو گئی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہ میں بھولا ہوں نہ نماز کم ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے : کیا بات ایسے ہی ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہے ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جو نماز چھوڑی تھی پڑھا دی ، پھر سلام پھیرا ، پھر تکبیر کہہ کر اپنے عام سجدے کی طرح یا اس سے لمبا سجدہ کیا ، پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی ، پھر تکبیر کہہ کر اپنے عام سجدے کی طرح یا اس سے لمبا سجدہ کیا ، پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ [بسا اوقات شاگرد اپنے استاذ ابن سیرین سے سوال کرتے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سجدہئ سہو کے بعد) سلام پھیرا تھا؟ آپ فرماتے : مجھے یہ بات بتائی گئی ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا]۔”
(صحیح البخاری : ١/٦٩، ح : ٤٨٢، واللفظ لہ،، صحیح مسلم : ١/٢١٣، ح : ٥٧٣)
قارئین کرام ! یہ حدیث مبارکہ ”حدیث ِ ذوالیدین ” کے نام سے مشہور ہے،کیونکہ اس میں ذوالیدین نامی صحابی کا ذکر ہے۔ یہ متفق علیہ حدیث علم دین کا خزینہ اور گنجینہ ہے۔ دین کے بڑے بڑے مسائل و احکام اور اصول اس سے ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے یہ سمجھ کر سلام پھیر دیا کہ میں نے نماز مکمل کر لی ہے، جبکہ اس کی نماز ایک رکعت یا دو رکعتیں باقی تھی۔ سلام پھیرنے کے بعد اس نے گفتگو بھی کر لی تو یہ بھول کر کلام کرنے والا شخص یاد آنے پر اپنی پہلی پڑھی ہوئی نماز پر بنیاد ڈالتے ہوئے اپنی نماز پوری کر لے گا۔ اس کو دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
اس موقف کے بارے میں حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) فرماتے ہیں :
”یہ جمہور علمائے سلف و خلف ، نیز تمام کے تمام محدثین کا مسلک ہے۔”
(شرح صحیح مسلم للنووی : ١/٢١٤)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی نماز کے اندر بھول کر کلام کر لے یا لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کرے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔ اس کو نماز دوہرانے کی حاجت نہیں۔ اس متفق علیہ حدیث کے بارے میں احناف کا نظریہ یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور کلام کی حرمت سے پہلے کی ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ متاخرین احناف تو اسے ”مضطرب” بھی قرار دیتے ہیں۔
علامہ نیموی حنفی (م ١٣٢٢ھ) لکھتے ہیں : مضطربۃ بوجوہ ۔
”یہ کئی طرح سے مضطرب ہے۔”(التعلیق الحسن : ص ١٧٥)
جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب اس حدیث کے ”مضطرب ” ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں : ”یہ اضطرابات اتنے شدید ہیں کہ بعض محدثین نے اس واقعہ کو ان اضطرابات میں شمار کیا ہے جن کی تطبیق ممکن نہیں۔”(درس ترمذی : ٢/١٦١)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی تمام احادیث کے صحیح ہونے پر امت ِ مسلمہ کا اتفاق و اجماع ہے جو کہ احناف کے تمام علماء کو بھی مسلّم ہے۔ ”مضطرب” حدیث ”ضعیف ” حدیث کی ہی ایک قسم ہے۔ اجماع امت کے خلاف اس حدیث کو ”مضطرب” قرار دینا شاید سوائے نفس پرستی کے کسی اور نام سے موسوم نہ ہو سکے۔ مقلدین میں یہ رواج عام طور پر پایا جاتا ہے کہ جو حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہو ، وہ اسے ”مضطرب” اور منسوخ قرار دے دیتے ہیں۔حالانکہ کسی حدیث کو ”مضطرب” یا منسوخ قرار دینا مقلدین کا کام نہیں ، کیونکہ یہ ان کا فن ہی نہیں۔ مقلدین فن حدیث کی نعمت سے محروم ہےں۔ اس سلسلے میں جہابذہ علماء اور مجتہدین محدثین کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔حافظ علائی رحمہ اللہ (٦٩٤۔٧٦١ھ)نے کیا خوب فرمایا ہے کہ : وہذا الفنّ أغمض أنواع الحدیث وأدقّہا مسلکا ، ولا یقوم بہ إلّا من منحہ اللّٰہ تعالیٰ فہما غایصا واطّلاعا حاویا وإدراکا لمراتب الرواۃ ومعرفۃ ثاقبۃ ، ولہذا لم یتکلّم فیہ إلّا أفراد أئمّۃ ہذا الشأن وحذّاقہم ، وإلیہم المرجع فی ذلک لما جعل اللّٰہ فیہم من معرفۃ ذلک ، والاطّلاع علی غوامضہ دون غیرہم ممّن لم یمارس ذلک۔
”یہ فن فنونِ حدیث میں سے سب سے پیچیدہ اور مشکل ہے۔ اس میں وہی لوگ کام کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے گہرا فہم ، وسیع اطلاع ، راویوں کے طبقات کے بارے میں اچھی خاصی سمجھ بوجھ اور روشن معرفت سے نوازا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں فن حدیث کے بڑے بڑے ائمہ اور ماہرین نے ہی کلام کی ہے۔ اضطراب کو جاننے کے لیے انہی ائمہ دین کی طرف ہی رجوع کیا جانا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی معرفت دی ہے اور انہیں اس فن کی پیچیدگیوں پر مطلع کیا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرے لوگوں کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے جنہیں اس فن میں مہارت نہیں ہے۔”
(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر : ٢/٧١٤)
نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
ومن تأمّل ألفاظ الصحابۃ وجمع الأحادیث بعضہا إلی بعض واعتبر بعضہا ببعض، وفہم لغۃ الصحابۃ أسفر لہ صبح الصواب وانقشعت عنہ ظلمۃ الاختلاف والاضطراب، واللّٰہ الہادی لسبیل الرشاد والموفّق لطریق السداد ۔
”جو شخص صحابہ کرام کے الفاظ پر غور کرے اور احادیث کو جمع کر کے ان کے سارے طرق اکٹھے کرے اور صحابہ کرام کی لغت کو سمجھے ، اس کے لیے درستی کی صبح روشن ہو جاتی ہے اور اس سے اختلاف و اضطراب کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا اور درست سمت چلنے کی توفیق عطا کرنے والا ہے۔”
(زاد المعاد لابن القیم : ٢/١٢١)
قارئین کرام ! آئیے اس تفصیل کے بعد حدیث ِ ذوا لیدین پر بعض الناس کے اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں :
اعتراض نمبر 1 : بعض روایات میں نماز ِ ظہر ، بعض میں عصر ، بعض میں ظہر یا عصر کا ذکر ہے۔ راویئ حدیث امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
أکثر ظنّی أنّہا العصر ۔ ”میرا غالب گمان ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی۔”
جواب : اس اختلاف سے کچھ فرق نہیں پڑتا، نیموی حنفی خود لکھتے ہیں :
لکنّہ لا شکّ أنّ روایۃ العصر أرجح لتوافق أکثر الروایات علیہا ۔
”لیکن بلاشبہ عصر والی روایت راجح ہے کیونکہ اکثر روایات اس کے موافق ہیں۔”
(التعلیق الحسن علی آثار السنن للنیموی : ١٧٦)
اصول حدیث کے مطابق اضطراب کے سلسلے میں یہ بات بنیادی ہے کہ جب کوئی ایک روایت کسی قرینے کی بنا پر راجح قرار پا جائے تو اضطراب ختم ہو جاتا ہے اور راجح روایت قابل عمل ہوتی ہے۔
حدیث ِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دو نمازوں ظہر اور عصر میں سے کوئی ایک نماز تھی۔ حافظ علائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الظاہر أنّ حدیث أبی ہریرۃ قضیّۃ واحدۃ ، ولکن اختلف رواتھا ، فمنھم من تردّد فی تعیین الصلاۃ ہل ہی الظہر أو العصر ، ومنہم من جزم بإحداہما ، والعلم عند اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ۔
”ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ایک ہی واقعے سے متعلق ہے۔ البتہ اس کے راویوں میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض نے نماز کی تعیین میں تردّد کا اظہار کیا ہے اور بعض نے کسی ایک کو بالجزم بیان کر دیا ہے۔ واللہ اعلم!”
(نظم الفرائد : ص ٩٦، بالاختصار)
علامہ عبد الرحمن بن یحییٰ معلمی یمانی (م ١٣٨٦ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں :
ذلک لا یوجب اختلافا فی المعنی المقصود ، فإنّ حکم الصلوات فی السہو واحد ۔ ”اس سے معنی مقصود میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا کیونکہ بھولنے کی صورت میں تمام نمازوں کا حکم تو ایک ہی ہے۔”(الانوار الکاشفۃ للعلمی : ص ٢٦٢)
اعتراض نمبر 2 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دو رکعتوں کے بعد سلام کا ذکر کرتے ہیں جبکہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی العصر ، فسلّم فی ثلاث رکعات ۔
”نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رکعات ادا کرنے کے بعد سلام پھیر دیا۔”
(صحیح مسلم : ١/٢١٤، ح : ٥٧٤)
جواب : امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (صحیح ابن خزیمہ : ٢/١٢٩) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (صحیح ابن حبان : ٦/٣٩٧) نے اس معاملے کو متعدد واقعات پر محمول کیا ہے، یعنی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان کردہ واقعہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ واقعے سے جدا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی تعارض نہیں۔
اعتراض نمبر 3 : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ثمّ سلّم ، فقام إلی خشبۃ معروضۃ فی المسجد فاتّکأ علیہا ۔
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور مسجد میں پڑی ہوئی ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہو کر اس پر ٹیک لگا لی۔”(صحیح البخاری : ١/٩٦، ح : ٤٨٢، صحیح مسلم : ١/١٢١، ح : ٥٧٣)
جبکہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ : إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی العصر ، فسلّم فی ثلاث رکعات ، ثمّ دخل منزلہ ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ادا کی اور تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔”(صحیح مسلم : ١/٢١٤، ح : ٥٧٤)
دونوں احادیث میں نماز سے سلام پھیرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے حوالے سے دو مختلف جگہوں کا ذکر ہے۔
جواب : گزشتہ سطور میں یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ بجائے تعارض کے ان احادیث میں دو الگ جگہوں کا ذکر ہونا تو اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ یہ دو جُدا جُدا واقعات ہیں، لہٰذا ان میں الفاظ کا اختلاف مُضر نہیں۔
اعتراض نمبر 4 : بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا ، پھر دو رکعتیں ادا کرنے کے بعد سجدہئ سہو کیا تھا۔ جبکہ سنن ابوداؤد (١٠١٥) میں ہے : فرکع رکعتین آخریین ، ثمّ انصرف ، ولم یسجد سجدتی السہو ۔ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری دو رکعتیں ادا کیں ، پھر آپ نے سلام پھیرا اس حال میں کہ سہو کے دو سجدے نہیں کیے تھے۔”
جواب : ان دونوں روایات میں بھی قطعاً کوئی تعارض اور منافات نہیں ہے کیونکہ سنن ابوداؤد والی روایت میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہئ سہو کی نفی ثابت ہوتی ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہئ سہو سلام پھیرنے سے پہلے نہیں کیے بلکہ بعد میں کیے ہیں جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد یہ دو سجدے کیے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ بھی یہی باور کرا رہے ہیں۔
سنن نسائی کی ایک روایت (١٢٣٣)میں یہ ذکر ہے کہ لم یسجد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یومئذ قبل السلام ولا بعدہ ۔ ”اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ سلام سے پہلے سجدہئ سہو کیا نہ بعد میں۔”
یہ روایت امام زہری رحمہ اللہ کی ”تدلیس” کی بنا پر ”ضعیف” ہے ، سماع کی تصریح ثابت نہیں ہو سکی ، لہٰذا اس روایت کو بخاری و مسلم کی روایات کے تعارض میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
فائدہ : نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھولنے کے حوالے سے روایات کو متعدد واقعات پر محمول کیے جانے کے بارے میں علامہ نیموی حنفی لکھتے ہیں :
ہذا قول لا یرتضیہ الناظر ولا یطمئنّ بہ الخاطر ، لأنّ السائل وسیاق سوالہ وسیاق ما أجاب بہ النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وما استفہم بہ الصحابۃ، کلّ ذلک متّحد فی ہذہ الروایات ، وقد کان ابن سیرین یری التوحید بین حدیث أبی ہریرۃ وعمران لأنّہ قال فی آخر حدیث أبی ہریرۃ : نبّئت أنّ عمران بن حصین رضی اللّٰہ عنہ قال : ثمّ سلّم ۔ ”اس بات کو دیکھنے والا پسند نہیں کرتا نہ اس سے دل مطمئن ہوتا ہے کیونکہ سوال کرنے والے کے سوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا سیاق اور صحابہ کرام کا فہم تمام روایات میں ایک جیسا ہے۔ امام ابن سیرین بھی ان روایات کو ایک ہی واقعہ سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں فرمایا : مجھے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا۔”(التعلیق الحسن للنیموی : ١٧٥۔١٧٦)
جواب : قارئین کرام اس بات کو پسند کرتے ہیں یا نہیں ، یہ معاملہ ہم انہی پر چھوڑتے ہیں۔ رہا نیموی صاحب کا یہ کہنا کہ ان روایات کو متعدد واقعات پر محمول کرنے سے دل مطمئن نہیں ہوتا، کچھ مُضر نہیں کیونکہ اس بات پرمحدثین کرام مثلاً امام ابنِ خزیمہ اور امام ابنِ حبان;کا دل مطمئن ہو گیا ہے، اب نیموی صاحب کا دل مطمئن ہونا ضروری نہیں۔
رہی یہ بات کہ امام ابن سیرین رحمہ اللہ ان سب روایات کو ایک ہی واقعہ سمجھتے تو یہ بات درُست نہیں کیونکہ اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ انہوںنے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ، پھر سجدہئ سہو کے بعد سلام پھیرنے کے سوال پر انہوں نے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث کا حوالہ دیا۔ اس سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امام محمدبن سیرین ان روایات کو ایک ہی واقعہ سمجھتے تھے ، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ چونکہ ان تمام روایات میں سجدہئ سہو کا معاملہ بیان ہوا ہے ،اس لیے امام محمد بن سیرین نے سوال کا جواب دینے کے لیے سب واقعات سے برابر استدلال کیا۔ واقعات دو ہوں یا زیادہ ، جب مسئلہ ایک ہو تو سب روایات سے یکساں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ کا خیال یہ ہو گا کہ اگرچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں سجدہئ سہو کے بعد سلام کا ذکر نہیں ہوا لیکن سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت بھی تو سجدہئ سہو کے بارے میں ہی ہے ، اس میں تو ذکر موجود ہے ، لہٰذا سجدہئ سہو کے بعد سلام پھیرنا چاہیے۔
اعتراض نمبر 5 : ذو الیدین اور ذو الشمالین ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ یہ دونوں نام سنن نسائی (١٢٢٩، وسندہ صحیح)میں ثابت ہیں۔ امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ذوالشمالین صحابی بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ معرکہ بدر دو ہجری میں ہوا تھا ، لہٰذا واقعہ ذو الیدین بہت پہلے کا ہے (صحیح ابن حبان : ٢٦٨٨)جب نماز میں گفتگو کرنا منسوخ نہیں ہوا تھا۔
جواب : اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ذو الیدین کو ذو الشمالین بھی کہتے ہیں لیکن یہ وہ نہیں ہیں جو بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ امام زہری رحمہ اللہ کا سجدہئ سہو والی حدیث میں مذکور ذوالشمالین کو وہی شخصیت قرار دینا جو بدر میں شہید ہو گئے تھے ، ان کا وہم ہے، جیسا کہ اتفاقی طور پر تمام محدثین نے صراحت کی ہے:
1 حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : المقتول ببدر ذو الشمالین ، وہو غیر المتکلّم حدیث السہو ، ہذا قول الحفّاظ کلّہم وسائر العلماء إلّا الزہریّ فقال : ہو ہو ، واتّفقوا علی تغلیط الزہریّ فی ہذا ۔ ”ذو الشمالین جو بدر کے معرکہ میں شہید ہوئے تھے ، وہ وہی شخصیت نہیں ہیں جنہوں نے سجدہئ سہو والی حدیث میں بات کی ہے۔ امام زہری کے علاوہ تمام حفاظ ِ حدیث اور علمائے کرام کا یہی کہنا ہے۔امام زہری کے بقول یہ وہی شخصیت ہیں۔ تمام حفاظ اور علمائے کرام نے اس بارے میں امام زہری کی بات کوبالاتفاق غلط قرار دیا ہے۔ ”
(خلاصۃ الاحکام فی مہمات السنن وقواعد الاسلام للنووی : ٢/٦٣٥)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں : فلیس قول ابن شہاب أنّہ المقتول ببدر حجّۃ لأنّہ قد تبیّن غلطہ فی ذلک ۔
”امام ابن شہاب زہری کا اسے بدر کا شہید کہنا قابل حجت نہیں کیونکہ اس بارے میں ان کی غلطی واضح ہو چکی ہے۔”(التمہید لابن عبد البر : ١/٣٦٤)
امام مسلم بن حجاج نیسابوری رحمہ اللہ (٢٠٤۔٢٦١ھ)اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
وخبر ابن شہاب ہذا فی قصّۃ ذی الیدین وہم غیر محفوظ لتظاہر الأخبار الصحاح عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”ابن شہاب زہری کا ذو الیدین کے قصے کے بارے میں بیان وہم اور غیر محفوظ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث اس بارے میں واضح ہیں۔”(التمییز للامام مسلم : ٤٥)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں : فذو الیدین غیر ذی الشمالین المقتول ببدر بدلیل ما فی حدیث أبی ہریرۃ ومن ذکرنا معہ من حضورہم تلک الصلاۃ ۔ ”ذو الیدین صحابی وہ ذوالشمالین نہیں ہیں جو بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ان کا تذکرہ موجود ہے، نیز ہم نے ذکر کیا ہے کہ وہ صحابہ کرام کے ساتھ اس نماز میں حاضر تھے۔”
(التمہید لابن عبد البر : ١/٣٦٣)
اعتراض 6 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے کہ :
انّہ ذکر لہ حدیث ذی الیدین ، فقال : کان إسلام أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ بعد ما قتل ذو الیدین ۔ ”ان کے سامنے ذو الیدین والی حدیث ذکر کی گئی تو انہوں نے فرمایا : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو مسلمان ہی ذو الیدین کے شہید ہونے کے بعد ہوئے تھے۔”(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٥٠)
جواب : اس اثر کی سند عبد اللہ بن وہب مصری کی ”تدلیس” کی بنا پر ”ضعیف” ہے۔ وہ بصیغہئ عن اسے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔ مسلّم اصول ہے کہ مدلس راوی جب بخاری و مسلم کے علاوہ بصیغہئ عن ، قال ، روی یا ذکر روایت کرے تو اس کی روایت ”ضعیف” ہوتی ہے تاوقتیکہ وہ کسی سند میں سماع کی تصریح نہ کردے۔
خود واقعہ ذوالیدین میں بھی بعض ایسے دلائل موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مذکور ذوالشمالین وہ نہیں ہیں جو بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ بدر میں شہید ہونے والے ذوالشمالین نامی صحابی کے بارے میں سوائے علم مغازی رکھنے والے علماء کی تصریحات کے کچھ ثابت نہیں۔باسند صحیح اس بارے میں کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔
اعتراض 7 : امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
صلّی عمر رضی اللّٰہ عنہ بأصحابہ فسلّم فی الرکعتین ، ثمّ انصرف ، فقیل لہ ذلک ، فقال : إنّی جہّزت عیرا من العراق بأحمالہا وأحقابہا حتّی وردت المدینۃ ، فصلّی بھم أربع رکعات ۔ ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی اور دو رکعتوں بعد سلام پھیر دیا۔ پھر واپس پلٹنے لگے تو ان سے اس بارے میں بات کی گئی۔ آپ نے فرمایا : میں نے (نماز کے اندر خیالات میں)عراق سے سامان سے لداپھندا ایک قافلہ تیار کیا حتی کہ وہ مدینہ میں آ گیا(اسی وجہ سے نماز میں بھول گیا)۔پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چار رکعتیں پڑھائیں۔”(شرح معانی الآثار : ١/٤٤٨)
واقعہ ذوالیدین میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ موجود تھے اور وہ خود از سر نو چاروں رکعتیں پڑھا رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالیدین والا واقعہ نماز میں کلام کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے ، ورنہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ باقی دو رکعتیں ہی پڑھانے پر اکتفا کرتے۔
جواب : یہ اثر بلحاظ ِ سند ”ضعیف” ہے، کیونکہ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی روایت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ”منقطع”ہوتی ہے۔ انہوں نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ تو درکنار سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی نہیں پایا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ ف(٣٨٤۔٤٥٨ھ)رماتے ہیں : عطاء عن عمر بن الخطّاب منقطع ۔ ”عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی روایت سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے منقطع ہے۔”(السنن الکبری للبیہقی : ١٠/١٩٨، نصب الرایۃ للزیلعی : ٣/١٢٦)
رہا مسئلہ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی مراسیل کا تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (١٦٤۔٢٤١ھ)فرماتے ہیں : أمّا الحسن وعطاء فلیس ہی بذلک ، ہی أضعف المرسلات ، لأنّہما کانا یأخذان عن کلّ أحد ۔ ”رہی حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح;کی مرسل روایات تو وہ بے فائدہ ہیں اور وہ سب مرسلات سے بڑھ کر ضعیف ہیں کیونکہ یہ دونوں ہر (ثقہ و ضعیف)سے روایت لیتے تھے۔”
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی : ٣/٢٣٩، السنن الکبری للبیہقی : ٦/٤٢، الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب : ٣٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
ثابت ہوا کہ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی مرسل روایات امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک ”ضعیف” ترین ہیں۔ خود امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (٢٣٨۔٣٢١ھ) ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : حدیثا منقطعا لا یثبتہ أھل الخبر لأنّہم لا یحتجّون بالمنقطع ۔ ”یہ حدیث منقطع ہے ، اسے محدثین کرام ثابت نہیں سمجھتے کیونکہ وہ منقطع روایت سے حجت لینے کے قائل نہیں۔”(شرح معانی الآثار : ١/١٠٣)
لہٰذا اس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ ذو الشمالین نامی صحابی وہی ہیں جو بدر کے شہداء میں سے تھے۔ حدیث ذوالیدین کے ”مضطرب” اور منسوخ ہونے کے حوالے سے سارے کے سارے شبہات کافور ہو گئے ہیں۔ وللہ الحمد والمنۃ
دور از کار تاویلات اور ان کا تجزیہ
اتنی صراحت کے بعد بھی اس واقعے کو نماز میں کلام کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ثابت کرنے کے لیے مقلدین نے بہت سی دُور از کار تاویلات بھی کی ہیں۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں :
تاویل 1 : یہ اتفاقی بات ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ٧ ہجری میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، لہٰذا یہ واقعہ ٧ ہجری یا اس کے بعد کا ہے جس میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود موجود تھے ، کیونکہ اس حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
صلّی بنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔”(صحیح البخاری : ١/٩٦، ح : ١٢٢٧، صحیح مسلم : ١/٢١٣، ح : ٥٧٣)
ان الفاظ کی تاویل کرتے ہوئے امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں کہ صلّٰی بنا سے مراد صلّٰی بالمسلمین ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو نماز پڑھائی۔
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٥٠)
جواب : یہ تاویل بالکل باطل ہے۔ حدیث کے واضح الفاظ کو بغیر کسی دلیل اور قرینے کے حقیقی معنیٰ سے پھیرکر مجازی معنیٰ کی طرف لے جانا عام حالات میں بھی کسی طور درست نہیں، چہ جائیکہ اس کے حقیقی معنیٰ کے دلائل بھی موجود ہوں۔
اس حنفی تاویل کا ردّ خود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کے الفاظ سے ہو جاتا ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم (١/٢١٤) میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
بینما أنا أصلّی مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ ”اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کر رہا تھا۔”
یہ نص قطعی ہے اس بات پر کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ واقعہ ذوالیدین میں خود موجود تھے اور یہ مسلّم امر ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نماز میں کلام کے منسوخ ہونے کے بہت بعد ٧ ہجری میں مسلمان ہوئے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ ، امام طحاوی حنفی کی تاویل کے جواب میں لکھتے ہیں :
إن جاز لک فیہ مع ترک الظاہر لم یجز فی قولہ : بینما أنا أصلّی مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ ”ظاہری و حقیقی معنیٰ کو چھوڑنے کے باوجود آپ کے لیے یہ تاویل اگرچہ ممکن ہو گئی تھی لیکن سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ میں کوئی تاویل ممکن نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کر رہا تھا۔”
(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی : ٣/٤٧٦)
یعنی کوئی صحابی کسی واقعے میں شریک نہ ہو لیکن وہ جمع متکلم کا صیغہ استعمال کر کے مسلمانوں کو مراد لے ، اس کو تسلیم کر بھی لیں تو یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صریح الفاظ کے ساتھ اس واقعے میں اپنی موجودگی کی اطلاع دے رہے ہیں۔ اس ٹھوس دلیل کا کوئی جواب نہیں ۔
جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں : ”یہود مدینہ کے اخراج کے بارے میں خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : بینما نحن فی المسجد إذ خرج إلینا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : (( انطلقوا إلی یہود )) (ہم مسجد میں تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : یہودیوں کی طرف پیش قدمی کرو۔) حالانکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کے بہت بعد اسلام لائے۔”
(درس ترمذی از تقی : ٢/١٥٧)
جواب : یہ بات جناب تقی عثمانی صاحب کی جہالت پر مہر ثبت ہے۔ اپنی فقہ کی حمایت اور حدیث کی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ بتانا یہ چاہتے ہیں کہ ادھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بینا نحن فی المسجد کہہ رہے ہیں جب کہ وہ اس وقت مسجد میں موجود نہ تھے، کیونکہ بنو قریظہ ان کے اسلام لانے سے بہت دیر پہلے ہی جلا وطن ہو چکے تھے ، لہٰذا وہ واقعہ ذوالیدین میں موجود نہ تھے۔ انہوں نے صلّٰی لنا کہہ کر مسلمین کی جماعت مراد لی ہے۔ ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ ذرا ہوش میں آئیں اور اپنے ملا علی قاری حنفی (م ١٠١٤ھ)کی بات بھی سنیں۔ وہ کہتے ہیں : والخطاب لمن بقی فی المدینۃ ومن حولہا من الیہود بعد إخراج بنی النضیر و قتل بنی قریظۃ ۔ ”یہ خطاب ان لوگوں کے متعلق ہے جو مدینہ اور اس کے گرد ونواح میں بنونضیر کی جلاوطنی اور بنوقریظہ کے قتل کے بعد باقی رہ گئے تھے۔”(المرقاۃ : ١٢/٢٩٤)
بنوقریظہ وغیرہ کا اخراج سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے ہو چکا تھا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ وہ مدینہ کے باقی ماندہ یہودیوں کے بارے میں تھا۔ اور اس واقعہ کے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عینی شاہد ہیں۔ لہٰذا صلّٰی لنا کے بارے میں بعض الناس کی یہ تاویل باطل ٹھہری ۔
تاویل 2: جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے بینا أنا أصلّی مع البنی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تاویل میں دو باتیں ذکر کی ہیں ۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ یہ راوی کا تصرف ہے۔ اصل میں صلّٰی لنا تھا ، اس نے مذکورہ الفاط میں بدل دیا۔اس پر انہوںنے دلیل یہ دی ہے کہ: ” مستدرک حاکم میں سند ”صحیح” کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت موجود ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : دخلت علی رقیّۃ بنت النبی صلّٰ اللّٰہ علیہ وسلّم (میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا۔)حالانکہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پانچ سال پہلے وفات پا چکی تھیں۔ لہٰذا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ان کے پاس جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں اس کے سوا کوئی توجیہ ممکن نہیں کہ اصل لفظ دخلنا تھا اور اس کے معنیٰ دخل المسلمون تھے۔ راوی نے اس میں تصرف کر کے اس کو دخلت بنا دیا۔”(درس ترمذی از تقی عثمانی : ٢/١٥٨)
جواب : جس روایت کی طرف تقی عثمانی صاحب نے اشارہ کیا ہے ، وہ مستدرک حاکم (٤/٤٨)، المعجم الکبیر للطبرانی (١/٨٦)اور تاریخ ابن عساکر (٣٩/٩٧) میں موجود ہے۔ تقی عثمانی صاحب کے ”صحیح” کہنے کے برعکس اس کی سند ”ضعیف” ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولا یعرف للمطّلب سماع من أبی ہریرۃ ولا لمحمّد عن المطّلب ، ولا تقوم بہ الحجّۃ ۔ ”نہ مطلب کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے نہ محمد کا مطلب سے۔ اس روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔”(التاریخ الصغیر للبخاری : ٤٨)
امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مطلب بن عبداللہ کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ”مرسل” ہوتی ہے۔(المراسیل لابن ابی حاتم : ٢٠٩)
نیز مطلب بن عبداللہ ”مدلس” بھی ہیں (طبقات المدلسین لابن حجر : ٦٧١)اور یہ روایت بصیغہئ عن بیان کر رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ روایت ”ضعیف” اور ناقابل حجت ہے، لہٰذا جس تاویل کے لیے اسے حجت بنایا جائے گا ، وہ تاویل بھی یقینا ضعیف ہوگی۔
تاویل 3 : نیموی حنفی وغیرہ کہتے ہیں کہ بینما اصلّی مع رسول اللّٰۃ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں، کیونکہ ان کو بیان کرنے میں یحییٰ بن ابی کثیر راوی منفرد ہے ۔
جواب : قارئین کرام ! یہ بات حدیث اور راویانِ حدیث کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر ثقہ ، ثبت راوی ہیں۔ اگر ایسے راوی پر بھی اعتبار نہیں جو محدثین کرام کے ہاں بلند درجے کا قابل اعتبار ہے تو پھر بھلا کس پر اعتماد کیا جائے گا اور کون سی حدیث صحیح رہ جائے گی؟ یحییٰ بن ابی کثیر کے بیان کردہ الفاظ واضح طور پر پتا دیتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس واقعے کے عینی شاہد تھے۔ امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے : ذکر الأخبار المصرّحۃ بأنّ أبا ہریرۃ شہد ہذہ الصلاۃ مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، لا أنّہ حکاہا کما توہّم من جھل صناعۃ الحدیث حیث لم ینعم النظر فی متون الأخبار ولا تفقّہ فی صحیح الآثار ۔ ”ان احادیث کا بیان جو اس بات میں صریح ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے۔ فن حدیث سے جاہل لوگوں نے گمان کیا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو کسی سے سن کر آگے بیان کیا ہے۔ ان لوگوں نے احادیث کے متون میں غور وفکر نہیں کیا نہ ان کو صحیح احادیث کی فقہ حاصل ہوئی ہے۔”(صحیح ابن حبان : ٦/٢٨)
دلیل نمبر 2 : سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی العصر ، فسلّم فی ثلاث رکعات، ثمّ دخل منزلہ ، فقام إلیہ رجل یقال لہ : خرباق ، وکان فی یدیہ طول ، فقال : یا رسول اللّٰہ ! فذکر لہ صنیعہ ، وخرج غضبان یجرّ رداء ہ حتّی انتہی إلی الناس ، فقال : أصدق ہذا ؟ قالوا : نعم ، فصلّی رکعۃ ، ثمّ سلم ، ثمّ سجد سجدتین ، ثمّ سلم ۔ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی تو تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، پھر اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ ایک آدمی نے جس کانام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ لمبے لمبے تھے، کہا: اے اللہ کے رسول ! پھر اس نے وہ بات بتائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگوں کے پاس آ گئے اور فرمایا : کیا اس نے سچ بولا ہے؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت ادا کی ، پھر سلام پھیرا ، پھر دو سجدے کیے ،پھر سلام پھیرا۔”
(صحیح مسلم : ١/٢١٤، ح : ٥٧٤)
یہ ایک دوسرا واقعہ ہے جس میں نماز کے بعد گھر میں داخل ہونے کا ذکر ہے۔اس حدیث میں خرباق نامی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تھی۔اس کے ہاتھ بھی لمبے لمبے تھے۔ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقال عمران بن حصین : رجل طویل الیدین یقال لہ : الخرباق ، وممکن أن یکون رجلان أو ثلاثۃ یقال لکلّ واحد منہم : ذوالیدین وذو الشمالین ، ولکنّ المقتول یوم بدر غیر الذی تکلّم فی حدیث أبی ہریرۃ إلی النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حین سہا ، فسلّم من اثنتین ، وہذا قول أہل الحذق والفہم من أہل الحدیث والفقہ ۔
”سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ایک لمبے ہاتھوں والا شخص تھا جسے خرباق کہا جاتا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ (لمبے ہاتھوں والے) دو یا تین آدمی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کو ذو الیدین اور ذو الشمالین کہا جاتا ہو، لیکن جو ذوالیدین صحابی بدر میں شہید ہو گئے تھے وہ اس صحابی سے علیحدہ شخصیت تھے جنہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت بات کی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے تھے اور آپ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا تھا۔ محدثین کرام اور فقہاء میں سے اہل مہارت اور اہل دانش کا یہی قول ہے۔”(التمہید لابن عبد البر : ١/٣٦٣)
یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ نماز میں بھول کر یا لاعلمی کی حالت میں کلام کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اگر بھول کر سلام پھیر دیا گیا اور درمیان میں گفتگو بھی کر لی گئی تب بھی پہلے پڑھی ہوئی نماز پر بنیاد ڈالتے ہوئے باقی نماز ادا کر لی جائے گی اوردو سجدہئ سہو کر لیے جائیں گے۔ از سر نو نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
دلیل نمبر 3 : سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
صلّیت مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم المغرب فسہا ، فسلّم فی الرکعتین ، ثمّ انصرف ، فقال لہ رجل : یا رسول اللّٰہ ! إنّک سہوت ، فسلّمت فی الرکعتین ، فأمر بلالا ، فأقامم الصلاۃ ، ثمّ أتمّ تلک الرکعۃ ، وسألت الناس عن الرجل الذی قال : یا رسول اللّٰہ إنّک سہوت ، فقیل لی : تعرفہ ؟ فقلت : لا إلا أن أراہ ، ومرّ بی رجل ، فقلت : ہو ہذا ، فقالوا : ہذا طلحۃ بن عبید اللّٰہ ۔
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے اور دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ بھول گئے ہیں اور آپ نے دو رکعتوں کے بعد ہی سلام پھیر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، انہوں نے اقامت کہی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ رکعت کو مکمل کیا۔ میں نے لوگوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے کہا تھا : اے اللہ کے رسول ! آپ بھول گئے ہیں۔ لوگوں نے مجھ سے کہا : کیا آپ انہیں پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا : نہیں ، ہاں اگر دیکھ لوں تو پہچان جاؤں گا۔ وہ آدمی میرے پاس سے گزرا تو میں نے کہا: یہ وہی ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ہیں۔”
(مسند الامام احمد : ٦/٤٠١، سنن ابی داو،د : ١٠٢٣، سنن النسائی : ٦٦٥، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان (٢٦٧٤) نے ”صحیح” کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدیث صحیح الإسناد علی شرط الشیخین ۔ ”اس حدیث کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔”(المستدرک علی الصحیحین : ١/٢٦١)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے اور ابوسعید بن یونس کہتے ہیں :
ہذا أصحّ حدیث ۔ ”یہ صحیح ترین حدیث ہے۔”
(تاریخ ابن عساکر : ٥٩:١٥، وسندہ، صحیحٌ)
جناب نیموی حنفی (م ١٣٢٢ھ) اس حدیث پر یوں اعتراض کرتے ہیں :
تفرّد بہ سوید بن قیس ، ولا یثبت سماعہ من معاویۃ بن حدیج ، وأمّا ما قالوا فی کتب أسماء الرجال : یروی عن معاویۃ بن حدیج ، فہذا لیس فی السماع لأنّہم کثیرا ما یقولون مثل ہذا وإنّما یریدون بالروایۃ أعمّ من أن تکون موصولۃ أو مرسلۃ ۔۔۔ ”اس حدیث کو بیان کرنے میں سوید بن قیس منفرد ہیں اور ان کا سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ کتب ِ اسماء الرجال میں محدثین کرام کا یہ کہنا کہ یہ معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، سماع کے بارے میں نہیں ، کیونکہ محدثین کرام بہت زیادہ ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں لیکن ان کی مراد روایت کرنے سے عام ہوتی ہے خواہ وہ موصول ہو یا مرسل ۔”(التعلیق الحسن : ص ١٨٥)
تبصرہ : جناب نیموی حنفی صاحب تعصب میں حد سے گزر گئے ہیں۔ یقینا حدیث سے ان لوگوں کو کوئی علاقہ نہیں۔ محدثین کرام کے اصولوں اور قوانین کا جو حشر یہ کرتے ہیں ، وہ آپ کے سامنے ہے۔ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب(م ١٣٥٢ھ) نے کیا خوب کہا ہے : وإنّما الضوابط عصا الأعمی ۔ ”یقینا قوانین وہ کام دیتے ہیں جو اندھے کے لیے لاٹھی دیتی ہے۔”(فیض الباری : ٤/٤١٥)
جب محدثین کرام سوید بن قیس کو سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں ذکر کرتے ہیں اور سماع کا امکان موجود ہے اور کسی ثقہ امام نے سماع کی نفی نہیں کی تو روایت متصل ہو گی۔ اس پر سہاگہ یہ کہ محدثین کرام کی ایک جماعت نے سوید بن قیس کی معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کو ”صحیح” قرار دیا ہے۔ کسی ایک محدث نے بھی سوید بن قیس کے سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے سماع پر تنقید و جرح نہیں کی۔ یہ ان کے سماع کی ایک زبردست دلیل ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ (٢٦٧٤)، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٧٧٦)، امام ابن جارود (٣٢٠)، حافظ ابوالقاسم الکتانی(جزء البطاقہ : ١٧، مکتبہ شاملہ) نے سوید بن قیس کی سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کو ”صحیح” کہا ہے۔
خود نیموی حنفی صاحب نے اپنی اسی کتاب آثارالسنن(ح : ٢٦)میں سوید بن قیس کی سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ سے بیان کی روایت کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔ یہ حدیث کے خلاف مقلدین کی نفس پرستی کی واضح دلیل ہے۔ وہ اپنے من پسند اصول چاہتے ہیںکہ جب چاہیں انہیں سینے سے لگا لیں اور جس وقت چاہیں ان کا خون کر دیں!!!
اس حدیث کے راوی سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ کے بارے میں نیموی حنفی لکھتے ہیں:
وإن سلّمنا أن یصحّ الإسناد کما زعمہ الحاکم فلا نسلم أنّ معاویۃ بن حدیج أسلم قبل وفات النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بشہرین کما زعم البیہقی وتبعہ النووی فی الخلاصۃ والحافظ ابن حجر فی الفتح ، بل نقول : إنّ ہذہ الواقعۃ کانت قبل نسخ الکلام ، وإلیہ ذہب الطحاوی فی معانی الآثار (١/٤٤٨) ، ألا تری أنّہ أخبر أنّ النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم رجع فدخل المسجد وأمر بلالا فأقام الصلاۃ ، فصلّی للناس رکعۃ ، ولا یجوز لأحد الیوم مثل ذلک لأن فعل ونحوہا قاطع للصلاۃ بالإجماع علی ما حکاہ الطحاوی فی معانی الآثار ۔ ”اگر ہم اس کی سند کو صحیح تسلیم کر بھی لیں جیسا کہ امام حاکم نے کہا ہے تو ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو ماہ پیشتر اسلام لائے ہوں جیسا کہ امام بیہقی نے دعویٰ کیا ہے اور خلاصۃ الاحکام میں علامہ نووی اور فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے ان کی موافقت کی ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ واقعہ نماز میں کلام کے منسوخ ہونے سے پہلے کا ہے ۔ امام طحاوی شرح معانی الآثار(١/٤٤٨) میں اسی طرف گئے ہیں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے، مسجد میں داخل ہوئے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے اقامت کہی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی۔ آج کسی کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اقامت وغیرہ نماز کو توڑ دیتے ہیں جیسا کہ شرح معانی الآثار میں امام طحاوی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔”(التعلیق الحسن : ص ١٨٥)
تبصرہ : آخر حدیث کے خلاف یہ سینہ زوری کیوں؟ محدثین کرام کا فیصلہ نامقبول کیوں ؟ سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو ماہ پہلے مسلمان نہ بھی ہوئے ہوں تو صحابی صغیر ضرور ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو ”صحابی صغیر” قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب لابن حجر : ٦٧٥٠)
نماز میں کلام کی منسوخیت بہت پہلے کی ہے۔ سیدنا معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ صحابی صغیر ہیں اور بیان کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بھول کر سلام پھیر دیا تھا ، یاد آنے پر سابقہ نماز پر بناء کرتے ہوئے نماز مکمل کر لی۔ رہا امام طحاوی حنفی کا یہ اعتراض کہ اس روایت میں باقی نماز کے لیے اقامت کا بھی ذکر ہے تو جی ہاں ! آج بھی کوئی بھول کر سلام پھیر دے تو باقی نماز کو ادا کرنے سے قبل اقامت کہہ دے تو کوئی حرج نہیں۔ سنت سے ثابت شدہ مسئلہ ہے ، اسی لیے تو امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
الإقامۃ لمن نسی رکعۃ من صلاۃ ۔ ”جو شخص کسی نماز سے ایک رکعت بھول جائے ، اس کے لیے اقامت کا بیان۔”
حافظ ابن رجب حنبلی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
ہذا یدلّ علی أنّ إقامۃ الصلاۃ والأمر بہا لا یبطل البناء علی ما مضی من الصلاۃ ۔ ” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت اور اس کا حکم دینا سابقہ نماز پر بناء کرنے کو باطل نہیں کرتا۔”(فتح الباری لابن رجب : ٦/٤٧١)
ہاں نماز کے اندر بغیر بھولے جان بوجھ کر اذان واقامت کہنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔
دلیل نمبر 4 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی بالناس رکعتین ، فسہا فسلّم ، فقال لہ رجل یقال لہ : ذو الیدین ، فذکر مثل حدیث ابن عون وہشام ، وحدیثہما : أنّہ قال : نقصت الصلاۃ ؟ فقال : لا ، فصلّی رکعتین أخراوین ، ثمّ سلّم ، ثمّ سجد سجدتین ، ثمّ سلّم ۔ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں تو بھول کرسلام پھیر دیا۔ ایک آدمی نے جس کو ذوالیدین کہا جاتا تھا ، کہا : ۔۔۔ کیا نماز کم ہو گئی ہے؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیرا ، پھر دو سجدے کیے ، پھر سلام پھیرا۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٣٧، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر 5 : واقعہ ذوالیدین کے راوی سعد بن ابراہیم رحمہ اللہ ، عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں : إنّہ صلّی مرّۃ المغرب رکعتین ، ثمّ سلّم ، فکلّم قائدہ ، فقال لہ قائدہ : إنّما صلّیت رکعتین ، فصلّی رکعۃ ، ثمّ سلّم وسجد سجدتین ۔ ”انہوں نے ایک دفعہ مغرب کی نماز دو رکعتیں ادا کر کے سلام پھیر دیا، پھر اپنے رہنما سے باتیں کرنے لگے ۔ ان سے ان کے رہنما نے کہا : آپ نے تو دو رکعتیں ادا کی ہیں۔ انہوں نے فورا ایک رکعت ادا کی ، پھر سلام پھیرا اور دو سجدے کیے۔”
(صحیح البخاری : ١/١٦٣، ح : ١٢٢٧، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٣٧، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں : وقد روی قصّۃ ذی الیدین عبد اللّٰہ بن عمر ومعاویۃ بن حدیج وعمران بن حصین وابن مسعدۃ رجل من الصحابۃ ، وکلّہم لم یحفظ عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ولا صحبہ إلّا بالمدینۃ متأخّرا ۔ ”ذو الیدین کے قصے کو سیدنا عبد اللہ بن عمر، سیدنا معاویہ بن حدیج ، سیدنا عمران بن حصین اور ایک صحابی ابن مسعدہ نے بیان کیا ہے۔ ان سب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف مدینے کے آخری دور میں ہی احادیث یاد کی تھیں اور اسی دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی تھی۔”(التمہید لابن عبد البر : ١/٣٦٢)
ثابت ہوا کہ یہ سارے کے سارے واقعات نماز میں کلام کے منسوخ ہونے سے بہت بعد کے ہیں۔ اگر بالفرض ان واقعات کو جواز کلام کی منسوخیت سے پہلے کا بھی تسلیم کر لیا جائے تو ان کا تعلق اس انسان سے ہے جو نماز میں بھول جائے ، جبکہ نماز میں کلام کی وجہ سے فساد تب آتا ہے جب وہ جان بوجھ کر کی جائے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حدیث ذوالیدین وغیرہ کا تعلق نماز میں کلام کی منسوخیت سے پہلے کے زمانے سے ہے، امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ نے ان کا بھرپور ردّ کیا ہے اور ایسے لوگوں کو جاہل اور معاند قرار دیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمۃ : ٢/١١٨۔١٢٤)
نیز امام ابن منذر رحمہ اللہ نے بھی ان لوگوںکی خوب خبر لی ہے۔(الاوسط : ٣/٢٩٢،٢٩٣)
بعض الناس کے دلائل
بعض لوگ واقعہ ذو الیدین وغیرہ کے خلاف یہ دلائل پیش کرتے ہیں:
1 سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إن کنّا لنتکلّم فی الصلاۃ علی عہد النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، یکلّم أحدنا صاحبہ بحاجتہ حتّی نزلت : (حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ ) (البقرۃ : ٢٣٨) ، فأمرنا بالسکوت ونہینا عن الکلام ۔ ”ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نماز کے اندر کلام کر لیا کرتے تھے۔ ہم میں سے ایک اپنے ساتھی سے اپنی ضرورت کی بات کر لیتا تھا حتی کہ سورۃ البقرۃ کی آیت(٢٣٨)نازل ہو گئی ، پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور ہمیں کلام سے منع کر دیا گیا۔”(صحیح البخاری : ١/١٦٠، ح : ١٢٠٠، صحیح مسلم : ١/٢٠٣، ح : ٥٣٩)
تبصرہ : اس حدیث کا تعلق اس انسان سے ہے جو نماز میں جان بوجھ کر کلام کرتا ہے۔ عام محدثین کرام نے اس حدیث کا یہی معنیٰ لیا ہے۔ واقعہ ذو الیدین ایک خاص معاملے کے بارے میں ہے کہ جب انسان بھول کر نماز میں کلام کر لے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ عموم و خصوص میں تعارض ہو تو اصول کے مطابق خاص دلیل کو ترجیح دے کر اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔
2 سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نماز میں سلام کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
کنّا نسلّم علی النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو فی الصلاۃ ، فیردّ علینا ، فلمّا رجعنا من عند النجاشی سلّمنا علیہ فلم یردّ علینا ۔۔۔
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حالت میں ہوتے تو ہم آپ کو سلام کہہ دیتے تھے اور آپ ہمیں جواب بھی دے دیتے تھے۔ جب ہم نجاشی کے پاس سے واپس لوٹے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا ۔ آپ نے ہمیں جواب نہیں دیا۔”
(صحیح البخاری : ١/١٦٠، ح : ١١٩٩، صحیح مسلم : ١/٢٠٣، ح : ٥٣٨)
تبصرہ : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حبشہ سے واپسی پر صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے ، آپ نے زبان سے جواب نہیں دیا۔ ورنہ اشارے کے ساتھ نماز میں سلام کا جواب دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس حدیث کا تعلق اس آدمی سے ہے جو جان بوجھ کر نماز میں کلام کرے۔ اگر جان بوجھ کر سلام کا جواب زبان سے دے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر لاعلمی یا نسیان کی وجہ سے ایسا کرے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔
3 سیدنا معاویہ بن حکم اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إنّ ہذہ الصلاۃ لا یصلح فیہا شیء من کلام الناس ۔۔۔))
”نماز میں لوگوں کی کچھ کلام بھی درست نہیں۔”(صحیح مسلم : ١/٢٠٣، ح : ٥٣٧)
تبصرہ : واضح رہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام کا مخاطب وہ صحابی تھے جنہوں نے جان بوجھ کر نماز میں کلام کی تھی لیکن انہیں علم نہ تھا کہ نماز میں کلام کرنا منع ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھا دیاکہ نماز میں کلام کرنا درست نہیں۔ چونکہ اس صحابی نے لاعلمی کی بنا پر یہ کام کیا تھا ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوہرانے کا حکم نہیں دیا۔ یہ تو ہماری دلیل ہوئی نہ کہ بعض الناس کی!
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ)فرماتے ہیں : ولو صحّ للمخالفین ما ادّعوہ من نسخ حدیث أبی ہریرۃ بتحریم الکلام فی الصلاۃ لم یکن لہم فی ذلک حجّۃ ، لأنّ النہی عن الکلام فی الصلاۃ إنّما توجّہ إلی العامد القاصد لا إلی الناسی ، لأنّ النسیان متجاوز عنہ ، والناسی والساہی لیس ممّن دخل تحت النہی ۔ ”اگر مخالفین کا یہ دعویٰ درست ثابت ہو بھی جائے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نماز میں کلام کی حرمت سے پہلے کی ہے تو بھی ان کے لیے اس میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ نماز میں کلام سے ممانعت اس شخص کے لیے ہے جو جان بوجھ کر قصدا ایسا کرے۔ جو بھول کر ایسا کرتا ہے اس سے تو درگزر کیا جاتا ہے۔ بھولنے والا ان لوگوںمیں سے نہیں جو اس نہی کے تحت داخل ہیں۔”(التمہید : ١/٣٦٨)
الحاصل : نماز میں لاعلمی یا بھول کر کلام کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ، ہاں ! اگر جان بوجھ کر کلام کر لی جائے تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بھول کر سلام پھیر دیا جائے اور بعد میں یاد آئے کہ ابھی نماز باقی ہے تو بے شک کلام کر لی جائے تو بھی سابقہ نماز پر بناء کرتے ہوئے باقی نماز مکمل کر لی جائے گی۔ نماز دوہرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
nnnnnnn
سبیل الحق
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (١٠٧۔١٩٧ھ)فرماتے ہیں : اسلکوا سبیل الحق ، ولا تستوحشوا من قلّۃ أہلہ ۔ ”تم حق کے راستے پر ہی چلتے رہو، حق کے پیروکاروں کی قلت تمہیں پریشان نہ کرے۔”(التمہید : ١٧/٤٢٩، وسندہ، صحیحٌ)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.