1,123

نکاح متعہ تاقیامت حرام ہے، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


نکاحِ متعہ تاقیامت حرام ہے
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

ہمارے پیارے رسول،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ایک مکمل اور کامل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں تاقیامت تبدیلی کی گنجائش نہیں،کیونکہ انسانیت کے مختلف ادوار اور مختلف حالات میں جو قوانین متغیر رہے تھے،اسلام نے ان کو مستقل کر دیا ہے۔نزولِ وحی کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے لیے ایک ٹھوس دستور ِزندگی عطا فرما دیا گیا۔یہ کمال ہی کا تقاضا تھا کہ صرف افراد کو نہیں،بلکہ معاشرے کو بھی مدنظر رکھ کر قوانین مرتب کر دیے گئے۔ جن کاموں سے معاشرے میں خرابی واقع ہوتی تھی،ان کو بتدریج حرام کر دیا گیا۔شراب کی مثال لے لیں کہ کس طرح غیرمحسوس انداز سے مسلمان معاشرے کو اس سے پاک کیا گیا۔ پہلے نمازوں کے اوقات میں نشہ نہ کرنے کا حکم فرما کر مسلمانوں سے اس کی لَت ختم کی،پھر اس کے فوائد کی نسبت اس کی خرابیوں کے زیادہ ہونے کا بتا کر اس سے عمومی نفرت کا رجحان پیدا کیا اور آخر میں اسے مستقل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔
نکاحِ متعہ بھی انہی چیزوں میں سے ہے،جنہیں اسلام نے اصلاحِ معاشرہ کی خاطر ابدی طور پر حرام قرار دے دیا ہے۔جیسے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عہد ِ رسالت میں شراب پی جاتی رہی، اسی طرح تدریجی حکمت ِعملی کے تحت عہد نبوی میں نکاحِ متعہ بھی ایک وقت تک جائز رہا،لیکن پھر اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا گیا اور اس کی جگہ شرعی نکاح ہی کو حتمی اور لازمی اصول بنا دیا گیا۔
اب جس طرح کسی مسلمان کا شراب کی حرمت سے پہلے تک کے عہد ِرسالت میں صحابہ کرام کے شراب پینے کے واقعات کو دلیل بنا کر شراب کو حلال قرار دینا جائز نہیں،اسی طرح کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ حرمت ِ متعہ سے پہلے پیش آنے والے عہد ِنبوی کے واقعات کو دلیل بناتے ہوئے اب بھی نکاحِ متعہ کے جواز پر اصرار کرے۔
نکاحِ متعہ کے فرد اور معاشرے پر نہایت مضر اثرات تھے،جن کی بنا پر اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔اس کے مقابلے میں شرعی نکاح کو رائج کیا گیا،جو مفاسد سے بالکل خالی اور فرد و معاشرے کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔
شرعی نکاح کا اہم مقصد عفت و عصمت کا تحفظ ہے،جو کہ نکاحِ متعہ سے حاصل نہیں ہوتا،نیز نکاحِ شرعی میں اہم جزو دوام و استمرار ہے،جو کہ متعہ میں نہیں پایا جاتا۔نکاحِ شرعی کا اہم فائدہ محبت و مودّت اور سکون ہے،جو کہ نکاحِ متعہ میں ناپید ہے۔نکاحِ شرعی میں بیک وقت ایک سے زائد بیویوں کا تصور تو ہے،لیکن ایک سے زائد خاوندوں کا تصور قطعاً نہیں، جبکہ نکاحِ متعہ میں ایک سے زائد خاوندوں کا تصور واضح طور پر پایا جاتا ہے۔ایک عورت کے لیے نکاحِ متعہ کے ذریعے ایک ہی دن میں بیسیوں افراد سے منہ کالا کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
نکاحِ متعہ کے ذریعے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور انسانوں میں بہیمانہ رویے پروان چڑھتے ہیں۔ایک عورت جب نکاحِ متعہ کے ذریعے کئی مردوں سے تعلق رکھتی ہے، تو کیا معلوم اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ کس کا ہے؟ایسے بچے عام طور پر خونخوار درندے ہی بنتے ہیں،پرامن شہری نہیں بن پاتے۔نکاحِ متعہ میں ولی(باپ ،بھائی) کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔عصمت جو انسانیت کا جوہر ہے،ختم ہو جاتی ہے اور ماحول میں آوارگی پھیلتی ہے۔
شیخ الاسلام، ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَالنِّکَاحُ الْمَبِیْحُ ہُوَ النِّکَاحُ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ الْمُسْلِمِینَ، وَہُوَ النِّکَاحُ الَّذِي جَعَلَ اللّٰہُ فِیہِ بَیْنَ الزَّوْجَیْنِ مَوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً ۔
’’جائز نکاح وہی ہے،جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہے۔یہی وہ نکاح ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے زوجین میں مودّت و رحمت کا باعث بنایا ہے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 92/32، 93)
نکاحِ متعہ کی بے شمار قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے شادی شدہ خواتین بھی بدکاری کی راہ اختیار کر لیتی ہیں،جیسا کہ :
n شیعہ کے شیخ الطائفہ،ابو جعفر،محمد بن حسن،طوسی(م : 460ھ)نے لکھا ہے :
وَلَیْسَ عَلَی الرَّجُلِ أَنْ یَّسْأَلَہَا ؛ ہَلْ لَّہَا زَوْجٌ أَمْ لَا ۔
’’نکاحِ متعہ کرنے والے مرد کے لیے عورت سے یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ اس کا کوئی خاوند ہے یا نہیں۔‘‘(النہایۃ، ص : 490)
ان قباحتوں کے باوجود نکاحِ متعہ شیعہ مذہب کا بنیادی جزو ہے،جیسا کہ :
n شیعہ فقیہ،محمد بن حسن،الحر العاملی(م : 1104ھ)نے لکھا ہے :
إِنَّ إِبَاحَۃَ الْمُتْعَۃِ مِنْ ضَرُورِیَّاتِ مَذْہَبِ الْإِمَامِیَّۃِ ۔
’’نکاحِ متعہ کا جائز قرار دینا امامی شیعوں کی مذہبی ضرورت ہے۔‘‘
(وسائل الشیعۃ : 245/7)
نکاحِ متعہ اور اجماعِ امت
امت ِمسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں نکاحِ متعہ تاقیامت حرام ہو چکا ہے، جیسا کہ :
n امام ابو عُبَیْد،قاسم بن سلام رحمہ اللہ (224-150ھ)فرماتے ہیں :
فَالْمُسْلِمُونَ الْیَوْمَ مُجْمِعُونَ عَلٰی ہٰذَا الْقَوْلِ : إِنَّ مُتْعَۃَ النِّسَائِ قَدْ نُسِخَتْ بِالتَّحْرِیمِ، ثُمَّ نَسَخَہَا الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ ۔۔۔، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یَتَرَخَّصُ فِیہَا، إِلَّا مَا کَانَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَإِنَّہٗ کَانَ ذٰلِکَ مَعْرُوفًا مِّنْ رَّأْیِہٖ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّہٗ رَجَعَ عَنْہُ ۔
’’آج مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں سے نکاحِ متعہ کو منسوخ کر کے حرام کر دیا گیا ہے۔کتاب و سنت نے اسے منسوخ کیا ہے۔کوئی ایک بھی ایسے صحابی معلوم نہیں ہوئے، جو نکاحِ متعہ کی رخصت دیتے ہوں،سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کہ اس کے جواز پر ان کا مشہور فتویٰ تھا۔پھر ہم تک یہ بات بھی پہنچ گئی کہ (حق معلوم ہونے پر)انہوں نے اپنے اس فتوے سے رجوع فرما لیا تھا۔‘‘(الناسخ والمنسوخ، ص : 80)
امام ابو عبید رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْیَوْمَ جَمِیعًا، مِّنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ، وَأَہْلِ الْحِجَازِ، وَأَہْلِ الشَّامِ، وَأَصْحَابِ الْـأَثَرِ، وَأَصْحَابِ الرَّأْيِ، وَغَیْرِہِمْ، أَنَّہٗ لَا رُخْصَۃَ فِیہَا لِمُضْطَرٍّ وَّلَا لِغَیْرِہٖ، وَأَنَّہَا مَنْسُوخَۃٌ حَرَامٌ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ ۔
’’اس دور میں اہل عراق،اہل حجاز اور اہل شام،نیز اصحاب الحدیث واصحاب الرائے وغیرہ سب اہل علم کا اتفاقی فتویٰ یہی ہے کہ کسی کو کوئی مجبوری ہو یانہ ہو،نکاحِ متعہ کی اجازت نہیں،نیز یہ منسوخ اور حرام ہے،جیسا کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام] سے ثابت کر دیا ہے۔‘‘(الناسخ والمنسوخ، ص : 82)
n حافظ،ابو محمد،حسین بن مسعود،بغوی رحمہ اللہ (م : 516ھ)فرماتے ہیں :
اِتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلٰی تَحْرِیمِ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ، وَہُوَ کَالْإِجْمَاعِ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ ۔
’’علماء کرام کا نکاحِ متعہ کو حرام قرار دینے پر اتفاق ہے۔یہ مسلمانوں کا ایک اجماع ہی ہے۔‘‘
(شرح السنّۃ : 100/9)
n حافظ،عبد الرحمن بن علی،ابن الجوزی رحمہ اللہ (579-508ھ)فرماتے ہیں :
فَقَدْ وَقَعَ الْإِتِّفَاقُ عَلَی النَّسْخِ ۔ ’’نکاحِ متعہ کے منسوخ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : 146/1)
n مشہور مفسر،ابو عبد اللہ،محمد بن احمد،قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ)فرماتے ہیں :
فَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلٰی تَحْرِیمِہَا ۔ ’’نکاحِ متعہ کو حرام قرار دینے پر مسلمانوں کا اجماع ہو گیا ہے۔‘‘(تفسیر القرطبي : 133/5)
n امام،ابو جعفر،احمد بن محمد بن سلامہ،طحاوی رحمہ اللہ (321-238ھ)فرماتے ہیں:
فَہٰذَا عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ نَہٰی عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ، بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُّنْکِرٌ، وَفِي ہٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی مُتَابَعَتِہِمْ لَہٗ عَلٰی مَا نَہٰی عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ، وَفِي إِجْمَاعِہِمْ عَلَی النَّہْيِ فِي ذٰلِکَ عَنْہَا دَلِیلٌ عَلٰی نَسْخِہَا، وَحُجَّۃٌ ۔
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی موجودگی میں عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا۔ان میں سے کسی ایک نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سب صحابہ کرام متعہ سے منع کرنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمنوا تھے۔ صحابہ کرام] کا یہ اجماع متعہ کے منسوخ ہونے کی دلیل و برہان ہے۔‘‘
(شرح معاني الآثار : 26/3)
نکاحِ متعہ اور قرآنِ کریم
n فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ٭ اِلَّا عَلٰٓی أَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ٭ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ٭} (المؤمنون 23 : 7-5، المعارج 70 : 31-29)
’’اور وہ لوگ (مؤمن ہیں)،جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور اپنی لونڈیوں کے۔ایسے لوگ ملامت نہیں کیے جائیں گے۔لیکن جو لوگ اس کے علاوہ کچھ تلاش کریں،وہ زیادتی کے مرتکب ہیں۔‘‘
معلوم ہوا کہ بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی سے جنسی تعلق رکھنا جائز نہیں۔جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے، وہ مرد کی نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی،لہٰذا متعہ حرام ہے۔
ام المومنین،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابن ابو ملیکہ رحمہ اللہ نے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے ارشاد فرمایا : بَیْنِي وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ : وَقَرَأَتْ ہٰذِہِ الْـآیَۃَ : {وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ٭} ۔۔۔۔
’’میرے اور تمہارے مابین اللہ کی کتاب سے فیصلہ ہو گا۔انہوں نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت فرمائی : {وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ٭} ([مؤمن وہ ہیں،]جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں)۔‘‘(الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلّام : 131، مسند الحارث [بغیۃ الباحث] : 479، السنن الکبرٰی للبیہقي : 206/7، 207، وسندہٗ صحیحٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ ۔
’’یہ حدیث امام بخاری و مسلمHکی شرط پر صحیح ہے۔‘‘المستدرک : 305/2، 393)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ان کی موافقت کی ہے۔
n فرمانِ الٰہی ہے :
{وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ} (النور 24 : 33)
’’اور جو لوگ نکاح (کے لیے مالی استطاعت)نہیں پاتے، وہ اپنی عزت کی حفاظت کریں، حتی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘
اس آیت ِکریمہ کی تفسیر میں الکیاالہراسی کے نام سے معروف،مفسر وفقیہ ،علامہ، ابوالحسن، علی بن محمد، طبری رحمہ اللہ (504-450ھ)فرماتے ہیں :
أَمَرَہُمْ بِالتَّعَفُّفِ عِنْدَ تَعَذُّرِ النِّکَاحِ عَمَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَذٰلِکَ عَلَی الْوُجُوبِ، وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ إِبَاحَۃَ الِاسْتِمْتَاعِ مَوْقُوفَۃٌ عَلَی النِّکَاحِ، وَلِذٰلِکَ یُحَرِّمُ مَا عَدَاہُ، وَلَا یُفْہَمُ مِنْہُ التَّحْرِیمُ بِمِلْکِ الْیَمِینِ، لِأَنَّ مَنْ لَّا یَقْدِرُ عَلَی النِّکَاحِ لِعَدَمِ الْمَالِ لاَ یَقْدِرُ عَلٰی شِرَائِ الْجَارِیَۃِ غَالِبًا، وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی بُطْلَانِ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ، وَدَلِیلٌ عَلٰی تَحْرِیمِ الاِسْتِمْنَائِ ۔
’’ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نکاح نہ ہو سکنے کی صورت میں جنسی تسکین کے حرام ذرائع سے منع فرمایا۔یہ ممانعت وجوبی ہے۔یہ آیت ِکریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ جنسی تسکین کا جواز نکاح پر موقوف ہے،اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے باقی سارے ذرائع کو حرام قرار دے دیا ہے۔یاد رہے کہ اس آیت سے لونڈیوں کی حرمت ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ (ان کا ذکر تو اس لیے نہیں کیا گیا کہ)جو شخص مال نہ ہونے کی وجہ سے نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا،وہ عموماً لونڈی خریدنے پر بھی قادر نہیں ہوتا۔یہ آیت نکاحِ متعہ کی حرمت پر بھی دلیل ہے اور اس سے مشت زنی کا حرام ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔‘‘(أحکام القرآن : 313/4، 314)
تنبیہ : بعض لوگ قرآنِ کریم سے متعہ کے جواز کا استدلال کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔اس حوالے سے وہ سورۂ نساء کی آیت نمبر_ پیش کرتے ہیں۔
فرمانِ الٰہی ہے :
{فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ اُجُورَہُنَّ فَرِیضَۃً}
’’جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ، ان کو ان کے حق مہر ضروری طور پر ادا کرو۔‘‘
مشہور مفسر،علامہ قرطبی رحمہ اللہ ،ابن خُوَیْز منداد بصری(م : 390ھ) سے نقل کرتے ہیں :
وَلَا یَجُوزُ أَنْ تُحْمَلَ الْآیَۃُ عَلٰی جَوَازِ الْمُتْعَۃِ، لِأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ نِّکَاحِ الْمُتْعَۃِ وَحَرَّمَہٗ، وَلِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ : {فَانْکِحُوہُنَّ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ}، وَمَعْلُومٌ أَنَّ النِّکَاحَ بِإِذْنِ الْـأَہْلِینَ ہُوَ النِّکَاحُ الشَّرْعِیُّ، بِوَلِيٍّ وَّشَاہِدَیْنِ، وَنِکَاحُ الْمُتْعَۃِ لَیْسَ کَذٰلِکَ ۔
’’اس آیت ِکریمہ سے متعہ کا جواز کشید کرنا جائز نہیں،کیونکہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ سے منع فرما دیا ہے اور اسے حرام قرار دے دیا ہے،دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے (اس سے اگلی آیت میں)ارشاد فرمایا :{فَانْکِحُوہُنَّ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ}(تم ان عورتوں سے ان کے گھروالوں کی اجازت سے نکاح کرو) اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ عورت کے گھروالوں کی اجازت،یعنی ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں جو نکاح ہوتا ہے، وہ نکاحِ شرعی ہی ہوتا ہے،نکاحِ متعہ کی صورت یہ نہیں ہوتی۔‘‘
(تفسیر القرطبي : 129/5، 130)
معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم سے نکاحِ متعہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا،بلکہ صرف نکاحِ شرعی کا اثبات ہوتا ہے۔
نکاحِ متعہ اور احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم
نکاحِ متعہ پہلی دفعہ غزوۂ خیبر میں منع ہوا تھا، پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن تک اس کی اجازت دی گئی،پھر قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔
غزوۂ خیبر کے موقع پر ممانعت کی حدیث ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر 1 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُتْعَۃِ، وَعَنْ لُّحُومِ الْحُمُرِ الْـأَہْلِیَّۃِ زَمَنَ خَیْبَرَ ۔ ’’غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا تھا۔‘‘
(صحیح البخاري : 5115، صحیح مسلم : 30/1407)
ایک روایت کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں :
نَہٰی عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ أَکْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْـإِنْسِیَّۃِ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن عورتوں سے نکاحِ متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔‘‘
(صحیح البخاري : 606/2، ح : 4216، صحیح مسلم : 452/1، ح : 1407)
صحیح مسلم کی ایک روایت (1407/31) یوں ہے :
إِنَّہٗ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یُلَیِّنُ فِي مُتْعَۃِ النِّسَائِ، فَقَالَ : مَہْلًا یَا ابْنَ عَبَّاسٍ ! فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْہَا یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ لُّحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّۃِ ۔ ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو عورتوں سے متعہ کرنے کے بارے میں نرم بات کرتے سنا ، تو فرمایا : ابن عباس! اس فتوے سے رُک جاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔‘‘
صحیح مسلم کی دوسری روایت (1407/32) میں یہ الفاظ ہیں :
نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ أَکْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّۃِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن عورتوں سے نکاحِ متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔‘‘
حدیث ِعلی رضی اللہ عنہ اور علماء ِ حدیث :
اس حدیث کی صحت کے بارے میں اہل علم کی آراء ملاحظہ فرمائیں :
1 امام،ابو جعفر،احمد بن محمد،نحاس(م : 338ھ)فرماتے ہیں :
وَلَا اخْتِلَافَ بَیْنَ الْعُلَمَائِ فِي صِحَّۃِ الْإِسْنَادِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَاسْتِقَامَۃِ طَرِیقِہٖ بِرِوَایَتِہٖ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحْرِیمَ الْمُتْعَۃِ ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک بیان کی گئی سند اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعہ کی تحریم نقل کرنے کی صحت میں علمائِ کرام کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔‘‘(الناسخ والمنسوخ، ص : 322)
2 معروف محدث ومفسر،حافظ،ابو محمد،حسین بن مسعود،بغوی رحمہ اللہ (م : 516ھ) فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّتَّفَقٌ عَلٰی صِحَّتِہٖ ۔ ’’اس حدیث کی صحت پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔‘‘(شرح السنّۃ : 99/9، ح : 2292)
3 حافظ، ابو الفرج،عبد الرحمن بن علی،ابن الجوزی(597-508ھ)فرماتے ہیں :
إِنَّہٗ مُتَّفَقٌ عَلٰی صِحَّتِہٖ ۔ ’’بلاشبہ اس کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہے۔‘‘
(إعلام العالم بعد رسوخہ بناسخ الحدیث ومنسوخہ، ص : 343)
4 حافظ، ابو الفضل،عبد الرحیم بن حسین،عراقی رحمہ اللہ (806-725ھ)فرماتے ہیں :
وَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ ۔ ’’اس کی صحت پر اتفاق ہے۔‘‘(شرح البقرۃ والتذکرۃ : 66/2)
5 حافظ، ابو الحسن،علی بن محمد بن عبد الصمد، سخاوی رحمہ اللہ (643-558ھ)بھی فرماتے ہیں :
وَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ ۔ ’’یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘(فتح المغیث : 350/3)
6 امیرالمومنین فی الحدیث،امام،ابو عبد اللہ، محمد بن اسماعیل،بخاری رحمہ اللہ (256-194ھ)فرماتے ہیں :
وَبَیَّنَہٗ عَلِيٌّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ مَنْسُوخٌ ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ متعہ منسوخ ہو گیا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري، تحت الحدیث : 5119)
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
اس حدیث میں یومِ خیبر کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ متعہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام ہوا۔یہ کہنا درست نہیں کہ اس حدیث میں یومِ خیبر کے الفاظ راوی کا وہم ہیں، کیونکہ امام زہری رحمہ اللہ کے تمام شاگرد یومِ خیبر کے الفاظ بیان کرنے میں متفق ہیں۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے سالم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ عَنِ الْمُتْعَۃِ، فَقَالَ : حَرَامٌ، قَالَ : فَإِنَّ فُلَانًا یَّقُولُ فِیہَا، فَقَالَ : وَاللّٰہِ ! لَقَدْ عُلِمَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّمَہَا یَوْمَ خَیْبَرَ، وَمَا کُنَّا مُسَافِحِینَ ۔
’’ایک آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا : یہ حرام ہے۔اس نے کہا : فلاں شخص اس کے جواز کا قائل ہے، تو فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ غزوۂ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دے دیا تھا۔ ہم زناکار نہیں۔‘‘(المؤطّأ لابن وہب : 249، صحیح أبي عوانۃ : 29/3، شرح معاني الآثار للطحاوي : 25/3، السنن الکبرٰی للبیہقي : 207/7، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’قوی‘‘قرار دیا ہے۔(التلخیص الحبیر : 155/3)
تنبیہ 1 : علامہ ،ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں :
’’خیبر کے زمانہ میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس زمانہ میں متعہ حرام ہو، کیونکہ خیبر میں ساری کی ساری عورتیں یہودی تھیں،ان سے متعہ ممکن نہیں تھا، اس لیے کہ اس وقت اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہی نہیں تھا، تو ان سے متعہ کیسے صحیح تھا؟ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح سورۃ المائدہ کی آیت {اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ}کے نزول کے بعد جائز ہوا۔یہ سورت بالکل آخری سورتوں میں سے ہے۔‘‘(دیکھیں زاد المعاد : 460/3)
اس کے جواب میں شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَمْ یَقَعْ فِي الْحَدِیثِ التَّصْرِیحُ بِأَنَّہُمُ اسْتَمْتَعُوا فِي خَیْبَرَ، وَإِنَّمَا فِیہِ

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.