4,383

اولیاء کے نام کی نذرو نیاز، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


اولیاء اللہ کے نام کی نذر و نیاز شرعی میزان میں
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نذر و نیاز عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی جائز ہے۔مخلوق کے نام پر نذر کرنا حرام اور شرک ہے۔اگر کوئی انسان کسی بزرگ یا ولی کے نام پر منت یا نذر کرتا ہے، صالحین اور اولیاء اللہ کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے صاحب ِقبر کا تقرب حاصل ہو جائے گا، وہ اس کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرے گا یا اس کی فریاد رسی یا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی سفارش کرے گا، یا وہ اس کی قبر سے فیض پائے گا۔بلاشک و شبہ یہ شرک فی العبادت ہے، جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے :
{وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْـاَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَائِہِمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ}
(الأنعام 6 : 136)
’’انہوں نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپائیوں میں سے اللہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا، پھر بزعمِ خویش کہنے لگے:یہ اللہ کے لیے ہے، اور یہ ہمارے دیوتائوں کے لیے ہے،پھر ان کے دیوتائوں کا حصہ تو اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، لیکن اللہ کا حصہ ان کے دیوتائوں کے پاس پہنچ جاتا ہے، یہ لوگ کس قدر برافیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (البقرۃ 2 : 173)
’’اوروہ چیز(بھی حرام ہے)جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔‘‘
مزاروں اور آستانوں پر نذر کے نام پر مشرکانہ و ہندوانہ رسومات اور نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل جس انداز میں ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔اس کے باوجود بعض لوگوں نے عوام کا قیمتی مال ہڑپ کرنے کے لیے قبروں پر نذر و نیاز کا جواز پیش کیا ہے۔ایسی ہی کوشش کرتے ہوئے امامِ بریلویت جناب احمد یار خان نعیمی(1391-1324ھ)لکھتے ہیں :
’’اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،یہ نذر شرعی نہیں،نذر لغوی ہے،جس کے معنیٰ ہیںنذرانہ،جیسے کہ میں اپنے استاذ سے کہوں کہ یہ آپ کی نذر ہے،یہ بالکل جائز ہے۔ اور فقہاء اس کو حرام کہتے ہیں،جو کہ اولیاء کے نام کی نذر شرعی مانی جائے۔اس لیے فرماتے ہیں تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ۔نذر شرعی عبادت ہے، وہ غیر اللہ کے لیے ماننا یقینا کفر ہے۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
حالانکہ یہ کہنا کہ’’ اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،وہ نذر شرعی نہیں،لغوی ہے‘‘، محض ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کر کے اسباب ِ شکم پروری کو دوام بخشنے کی نامراد کاوش ہے۔نذر کی لغوی اور اصطلاحی تقسیم ایسی قبیح بدعت ہے،جو اہل سنت والجماعت کی کتب میں کہیں مذکور نہیں۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی بزرگ ہستی مخلوق میں موجود ہے؟ اور کیا صحابہ کرام ] رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں رکھتے تھے،جتنی بعد کے لوگوں کو اپنے بعد والے بزرگوں سے ہے؟کیا کبھی کسی قبرپرست نے غور کیا کہ اگر غیر اللہ اور فوت شدگان کے نام پر نذر ونیاز جائز ہوتی،تو صحابہ کرام اس کار ِخیر سے کبھی محروم نہ رہتے۔کیا کوئی شخص صحابہ کرام] میں کسی سے بھی ایسا کوئی عمل پیش کر سکتا ہے؟
عام لوگوں کا تحفہ اور ہدیہ کے لیے نذرانے کا لفظ استعمال کرنا اس کی دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ قبروں اور مردوں کے پجاری ان کے لیے جو نذر پیش کرتے ہیں، وہ اس عقیدے سے پیش کرتے ہیں کہ وہ دافع البلاء ہیں۔ان کے پیش نظر لغوی نہیں، شرعی اور عرفی نذر ہوتی ہے۔تب ہی تو اس کے بارے میں ’’نذر اللہ اور نیاز حسین‘‘ کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ اگر مجھے مقدمہ میں فتح یابی ہوئی یا مرض سے شفا ہوئی یا دشمن زیر ہو گیا یا مجھے اولادِ نرینہ مل گئی یا میرا کاروبار چمک گیا،تو فلاں مزار پر جا کر نذر ونیاز کا لنگر چڑھاؤں گا،ننگے پاؤں جا کر سلام کروں گا،مزار پر ٹاکی باندھوں گا،وغیرہ۔
منصف مزاج لوگ بتائیں کہ کیا یہ سب کچھ لغوی نذر و نیاز کے لیے کیا جاتا ہے؟یہ سب امور تعظیم و تقرب کے نقطۂ نظر سے کیے جاتے ہیں،جس میں نذر ماننے والا اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔تحفہ و ہدیہ میں ایسی صورت موجود نہیں ہوتی۔
شیخ الاسلام ثانی،عالمِ ربانی،علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ)فرماتے ہیں :
فَمَا أَسْرَعَ أَہْلُ الشِّرْکِ إِلَی اتِّخَاذِ الأَْوْثَانِ مِنْ دُونِ اللّٰہِ، وَلَوْ کَانَتْ مَا کَانَتْ، وَیَقُولُونَ : إِنَّ ہٰذَا الْحَجَرَ، وَہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ، وَہٰذِہِ الْعَیْنَ، تَقْبَلُ النَّذَرَ، أَيْ تَقْبَلُ الْعِبَادَۃَ مِنْ دُونِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّ النَّذَرَ عِبَادَۃٌ وَّقُرْبَۃٌ، یَتَقَرَّبُ بِہَا النَّاذِرُ إِلَی الْمَنْذُورِ لَہٗ ۔
’’مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی چیز کو معبود ٹھہرانے میں کتنے جلد باز واقع ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں : یہ پتھر،یہ درخت اور یہ شخص نذر و نیاز کے لائق ہے۔دوسرے لفظوں میں ان مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ یہ شخص بھی عبادت کے لائق ہے،کیونکہ نذرونیاز عبادت وتقرب ہے،جس کے ذریعے نذر دینے والا کسی کا تقرب حاصل کرتا ہے۔‘‘
(إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان : 212/1)
علامہ،احمد بن عبد الرحیم،المعروف بہ شاہ ولی اللہ دہلوی(1176-1114ھ)لکھتے ہیں :
إِنَّہُمْ یَسْتَعِینُونَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فِي حَوَائِجِہِمْ مِنْ شِفَائِ الْمَرِیضِ وَغِنَائِ
الْفَقِیرِ، وَیَنْذُرُونَ لَہُمْ، یَتَوَقَّعُونَ إِنْجَاحَ مَقَاصِدِہِمْ بِتِلْکَ النُّذُورِ، وَیَتْلُونَ أَسْمَائَہُمْ رَجَائَ بَرَکَتِہَا، فَأَوْجَبَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِم أَنْ یَّقُولُوا فِي صَلَاتِہِمْ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}(الفاتحۃ 1 : 5)، وَقَالَ تَعَالٰی : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا}(الجنّ 72 : 18)، وَلَیْسَ الْمُرَادُ مِنَ الدُّعَائِ الْعِبَادَۃُ، کَمَا قَالَہُ الْمُفَسِّرُونَ، بَلْ ہُوَ الِاسْتِعَانَۃُ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) ۔
’’مشرکین اپنی حاجات،مثلاً مرض میں شفا اور فقیری میں خوشحالی کے لیے غیراللہ سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ اس نذرونیاز کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔وہ برکت کی امید پر غیراللہ کے ناموں کا ورد بھی کرتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہرنماز میں یہ کہنا فرض کیا ہے کہ : {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} (الفاتحۃ 1 : 5)(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں)۔نیز فرمایا : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا} (الجنّ 72 : 18) (تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو)۔اس آیت ِکریمہ میں دعا سے مراد عبادت نہیں،جیسا کہ (عام)مفسرین نے کہا ہے،بلکہ یہاں استعانت مراد ہے ،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) (بلکہ تم [سخت مصیبت کے وقت]اسی[اللہ] کو پکارتے ہو،چنانچہ وہ تمہاری مصیبتوں کو دُور فرماتا ہے)۔‘‘
(حجّۃ اللّٰہ البالغۃ : 185/1، طبعۃ السلفیّۃ)
علامہ،محمودبن عبد اللہ،آلوسی،حنفی(1270-1217ھ)فرماتے ہیں :
وَفِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)إلخ إِشَارَۃٌ إِلٰی ذَمِّ الْغَالِینَ فِي أَوْلِیَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَیْثُ یَسْتَغِیثُونَ بِہِمْ فِي الشِّدَّۃِ غَافِلِینَ عَنِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَیَنْذُرُونَ لَہُمُ النُّذُورَ، وَالْعُقَلَائُ مِنْہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّہُمْ وَسَائِلُنَا إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، وَإِنَّمَا نَنْذُرُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَنَجْعَلُ ثَوَابَہٗ لِلْوَلِيِّ، وَلَا یَخْفٰی أَنَّہُمْ فِي دَعْوَاہُمُ الْـأُولٰی أَشْبَہُ النَّاسِ بِعَبَدَۃِ الْـأَصْنَامِ، الْقَائِلِینَ : إِنَّمَا نَعْبُدُہُمْ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی، وَدَعْوَاہُمُ الثَّانِیَۃُ لَا بَأْسَ بِہَا لَوْ لَمْ یَطْلُبُوا مِنْہُمْ بِذٰلِکَ شِفَائَ مَرِیضِہِمْ أَوْ رَدَّ غَائِبِہِمْ أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ، وَالظَّاہِرُ مِنْ حَالِہِمُ الطَّلَبُ، وَیُرْشِدُ إِلٰی ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ قِیلَ : انْذُرُوا لِلّٰہِ تَعَالٰی وَاجْعَلُوا ثَوَابَہٗ لِوَالِدَیْکُمْ، فَإِنَّہُمْ أَحْوَجُ مِنْ أُولٰئِکَ الْـأَوْلِیَائِ لَمْ یَفْعَلُوا، وَرَأَیْتُ کَثِیرًا مِّنْہُمْ یَسْجُدُ عَلٰی أَعْتَابِ حَجَرِ قُبُورِ الْـأَوْلِیَائِ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّثْبُتُ التَّصَرُّفَ لَہُمْ جَمِیعًا فِي قُبُورِہِمْ، لٰکِنَّہُمْ مُّتَفَاوِتُونَ فِیہِ حَسَبَ تَفَاوُتِ مَرَاتِبِہِمْ، وَالْعُلَمَائُ مِنْہُمْ یَحْصُرُونَ التَّصَرُّفَ فِي الْقُبُورِ فِي أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ، وَإِذَا طُولِبُوا بِالدَّلِیلِ قَالُوا : ثَبَتَ ذٰلِکَ بِالْکَشْفِ، قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، مَا أَجْہَلَہُمْ وَأَکْثَرَ افْتَرَائَہُمْ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّزْعَمُ أَنَّہُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْقُبُورِ وَیَتَشَکَّلُونَ بِأَشْکَالَ مُخْتَلِفَۃٍ، وَعُلَمَاؤُہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّمَا تَظْہَرُ أَرْوَاحُہُمْ مُّتَشَکَّلَۃً وَّتَطُوفُ حَیْثُ شَائَ تْ، وَرُبَّمَا تَشَکَّلَتْ بِصُورَۃِ أَسَدٍ أَوْ غَزَالٍ أَوْ نَحْوَہٗ، وَکُلُّ ذٰلِکَ بَاطِلٌ لَّا أَصْلَ لَہٗ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَکَلَامِ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ، وَقَدْ أَفْسَدَ ہٰؤُلَائِ عَلَی النَّاسِ دِینَہُمْ، وَصَارُوا ضِحْکَۃً لِّأَہْلِ الْـأَدْیَانِ الْمَنْسُوخَۃِ فِي الْیَہُودِ وَالنَّصَارٰی، وَکَذَا لِأَہْلِ النِّحَلِ وَالدَّہْرِیَّۃِ، نَسْأَلُ اللّٰہُ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ ۔
’’فرمانِ باری تعالیٰ ہے:{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)(بلاشبہ جن کو[اے مشرکو] تم اللہ کے سوا پکارتے ہو،وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے)۔اس آیت ِکریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے،جو اولیاء اللہ کے بارے میں غلوّ کا شکار ہو گئے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر مصیبت میں ان اولیاء سے مدد طلب کرتے ہیںاور ان کے نام پر نذرونیاز دیتے ہیں۔ان میں سے ’دانشور‘لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اولیاء تو ہمارے لیے اللہ کی طرف وسیلہ ہیں اوریہ نذرونیاز تو ہم اللہ کے لیے دیتے ہیں،البتہ اس کا ثواب اس ولی کو پہنچاتے ہیں۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے پہلے دعوے میں بالکل ان بت پرستوں جیسے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔رہا دوسرا دعویٰ تو اس میں کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ بزرگوں سے اپنے مریضوں کے لیے شفاء اور غائب ہونے والوں کی واپسی وغیرہ کا مطالبہ نہ کرتے[حالانکہ شرعاً یہ بھی ناجائز ہے۔ناقل]۔ان کی حالت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں سے مانگنے کے لیے ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی نذرونیاز دو اور اس کا ثواب (اولیائ)کی بجائے اپنے والدین کو پہنچاؤ،کیونکہ تمہارے والدین ان اولیاء سے بڑھ کر ثواب کے محتاج ہیں،تو یہ مشرکین ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے،[اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد بزرگوں سے مانگنا ہی ہوتا ہے]۔میں نے بہت سے مشرکین کو دیکھا
ہے کہ اولیاء کی قبروں کے پتھروں پر سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔بعض مشرکین تو سب اولیاء کے لیے ان کی قبروں میں تصرف (قدرت)بھی ثابت کرتے ہیں،البتہ مراتب کے اعتبار سے یہ تصرف مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ان مشرکین کے ’اہل علم‘قبروں میں اولیاء کے لیے چار یا پانچ قسم کا تصرف ثابت کرتے ہیں،لیکن جب ان سے دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ چیز کشف سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو تباہ وبرباد کرے،یہ کتنے جاہل اور جھوٹے لوگ ہیں!ان میں سے بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء اپنی قبروں سے نکلتے ہیں اور مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں،جبکہ ان کے ’اہل علم‘ کا کہنا ہے کہ اولیاء کی صرف روحیں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ان کے بقول بسااوقات اولیاء کی روحیں شیر، ہرن وغیرہ کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں،کتاب و سنت اور اسلاف ِامت کے کلام میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ان مشرکین نے (سادہ لوح)لوگوں کا دین بھی برباد کر دیا ہے۔ایسے لوگ یہود و نصاریٰ ،دیگر ادیانِ باطلہ کے پیروکاروں اور بے دین لوگوں کے سامنے مذاق بن گئے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے (دین و دنیا کی )عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔‘‘(روح المعاني : 213-212/2)
نیز فرماتے ہیں : وَمِنْ أُولٰئِکَ عَبَدَۃُ الْقُبُورِ، النَّاذِرُونَ لَہَا، الْمُعْتَقِدُونَ لِلنَّفْعِ وَالضَّرِّ، مِمَّنِ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ بِحَالِہٖ فِیہَا، وَہُمُ الْیَوْمَ أَکْثَرُ مِنَ الدُّودِ ۔
’’ان مشرکوں میں سے بعض وہ ہیں جو قبروں کے پجاری ہیں،ان پر نذرونیاز دیتے ہیں اور ان لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ قبر میں جن کی حالت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔موجودہ دور میں ایسے مشرکین کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘
(روح المعاني : 67/17)
علامہ،محمد بن علی،حصکفی،حنفی(1088-1021ھ)اپنے اکثر عوام کی اصلاح میں لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ النَّذَرَ الَّذِي یَقَعُ لِلْـأَمْوَاتِ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ، وَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَنَحْوِہَا إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ الْکِرَامِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، فَہُوَ بِالْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ ۔
’’ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر عوام جو مُردوں کے نام کی نذونیاز دیتے ہیں اور جو رقوم،چراغ اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر تقرب کی نیت سے لائے جاتے ہیں،وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔‘‘(الدرّ المختار، ص : 155، ردّ المحتار : 439/2)
مشہور حنفی امام،محمد امین بن عمر،ابن عابدین، شامی(1252-1198ھ)اس عبارت کی تشریح میں لکھتے ہیں : کَأَنْ یَّقُولَ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! إِنْ رُّدَّ غَائِبِي أَوْ عُوفِيَ مَرِیضِي أَوْ قُضِیَتْ حَاجَتِي، فَلَکَ مِنَ الذَّہَبِ أَوِ الْفِضَّۃِ أَوْ مِنَ الطَّعَامِ أَوِ الشَّمْعِ أَوِ الزَّیْتِ کَذَا، (قَوْلُہٗ : بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ) لِوُجُوہٍ : مِنْہَا أَنَّہٗ نَذَرَ لِمَخْلُوقٍ، وَالنَّذْرُ لِلْمَخْلُوقِ لاَ یَجُوزُ، لِأَنَّہٗ عِبَادَۃٌ، وَالْعِبَادَۃُ لَا تَکُونُ لِمَخْلُوقٍ، وَمِنْہَا أَنَّ الْمَنْذُورَ لَہٗ مَیِّتٌ، وَالْمَیِّتُ لَا یَمْلِکُ، وَمِنْہُ أَنَّہٗ ْ ظَنَّ أَنَّ الْمَیِّتَ یَتَصَرَّفُ فِي الْـأُمُورِ دُونَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَاعْتِقَادُہٗ ذٰلِکَ کُفْرٌ ۔
’’اولیاء کے لیے نذرونیاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی کہے : اے میرے فلاں پیر! اگر میرا غائب رشتہ دار واپس آ گیا یا میرا مریض شفایاب ہو گیا یا میرا کام ہو گیا تو اتنا سونا، اتنی چاندی ،اتنا کھانایا چراغ یا اتنا تیل آپ کی نذر کروں گا۔یہ نذرو نیاز کئی وجوہ سے باطل اور حرام ہے ؛ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مخلوق کے لیے نذرونیاز ہے،حالانکہ نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں۔دوسری وجہ یہ کہ جس کے نام کی نذر ونیاز دی جا رہی ہوتی ہے،وہ مُردہ ہوتا ہے اور مُردہ کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا۔تیسری وجہ یہ کہ نذرونیاز دینے والا اللہ کو چھوڑ کر اس ولی کے امور میں تصرف کرنے کا اعتقاد رکھتا ہے اور یہ اس کا اعتقاد کفر ہے۔‘‘(ردّ المحتار المعروف بہ الفتاوی الشامي : 439/2)
مشہور حنفی،قاسم بن قطلوبغا (879-802ھ)لکھتے ہیں :
فَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَغَیْرِہَا، وَیُنْتَقَلُ إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، مُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ ۔
’’جو رقوم،شمعیں اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر ان کے تقرب کے لیے لائی جاتی ہیں،ان کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘
(البحر الرائق لابن نجیم : 298/2، الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاوی عالمگیری : 216/1، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ص : 378)
حنفی مذہب کی معتبرو مستند کتاب میں لکھا ہے :
وَالنَّذْرُ الَّذِي یَقَعُ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ بِأَنْ یَّأْتِيَ إِلٰی قَبْرِ بَعْضِ الصُّلَحَائِ، وَیَرْفَعَ سِتْرَہٗ قَائِلًا : یَا سَیِّدِي فُلَانٌ ! إِنْ قَضَیْتَ حَاجَتِي فَلَکَ مِنِّي مِنَ الذَّہَبِ مَثَلًا کَذَا، بَاطِلٌ إجْمَاعًا ۔
’’اکثر عوام جو اس طرح نذر مانتے ہیں کہ کسی نیک شخص کی قبر پر آ کر یوں فریاد کرتے ہیں: اے میرے فلاں پیر! اگر تُومیری یہ ضرورت پوری کر دے تو میری طرف سے اتنا سونا تیری نذر۔یہ اجماعی طور پر حرام ہے۔‘‘(الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 216/1)
علامہ برکوی حنفی،علامہ ابوشامہ (م : 665ھ)سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ثُمَّ یَتَجَاوَزُونَ ہٰذَا إِلٰی أَنْ یُّعَظِّمَ وَقْعَ تِلْکَ الْـأَمَاکِنِ فِي قُلُوبِہِمْ، فَیُعَظِّمُونَہَا، وَیَرْجُونَ الشِّفَائَ لِمَرْضَاہُمْ وَقَضَائَ حَوَائِجِہِمْ، بِالنَّذْرِ لَہُمْ، وَہِيَ مِنْ بَیْنِ عُیُونٍ وَّشَجَرٍ وَّحَائِطٍ وَّحَجَرٍ ۔
’’پھر یہ مشرکین اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں اور اپنے دلوں میں ان مقامات کی تعظیم بٹھا لیتے ہیں۔وہ ان جگہوں کی تعظیم بھی کرتے ہیں اور ان پر نذرونیاز چڑھا کر اپنے بیماروں کی شفا اور اپنی حاجات کی برآری کی امید بھی کرتے ہیں۔ایسی جگہیں درختوں،پتھروں، باغات اور چشموں پر واقع ہوتی ہیں۔‘‘
(زیارۃ القبور، ص : 547-546، طبعۃ الکردیّۃ، وفي نسخۃ دار الإفتائ، ص : 52)
فقہ حنفی اور احمدیار خان نعیمی بریلوی:
قارئین کرام! اہل سنت کے علمائے کرام،کتب ِفقہ اور فقہائے احناف کے اقوال کی روشنی میں آپ نے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز کا حرام اور شرک ہونا ملاحظہ فرما لیا۔اتنی وضاحت و صراحت کے باوجود بعض ناعاقبت اندیش اس نذرونیاز کو جائز ثابت کرنے کے لیے سینہ زوری سے کام لیتے ہیں۔
اس کی ایک مثال جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کوئی کہتا ہے کہ یا حضور غوث پاک! آپ دُعا کریں،اگر میرا مریض اچھا ہو گیا،تو میں آپ کے نام کی دیگ پکاؤں گا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ میرے خدا ہیں،اس مریض کے اچھا ہونے پر میں آپ کی یہ عبادت کروں گا،بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں پلاؤ کا صدقہ کروں گا اللہ کے لیے۔اس پر جو ثواب ملے گا،آپ کو بخشوں گا، جیسے کوئی شخص کسی طبیب سے کہے کہ اگر بیمار اچھا ہو گیا تو پچاس روپیہ آپ کی نذرکروں گا۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
واہ کیا خوب فقاہت ہے،جو اپنی ہی فقہ حنفی کی دھجیاں اڑائے جا رہی ہے۔
اسی بارے میں جناب غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں :
’’آج کل جس طرح اَن پڑھ عوام اپنی حاجات میں اولیاء اللہ کی نذریں اور منتیں مانتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کے بعد مزارات پر نذریں پیش کرتے ہیں۔اور بعض لوگ اس کو لغوی نذر کہہ کر سند ِجواز پیش کرتے ہیں،اس کا قرآنِ مجید،احادیث ِصحیحہ اور آثارِ صحابہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔کتب ِ فتاویٰ میں اس نذر کو حرام کہا گیا ہے۔یہ ایک خالص فقہی مسئلہ ہے۔اس میں کتب فقہیہ کو چھوڑ کر بعض غیر معصوم اور غیر معروف صوفیوں کے اقوال اور احوال سے استدلال کرنا کوئی فقاہت نہیں ہے،بلکہ عدل و انصاف سے بعید ہے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 543/4)
ایک بریلوی عالم نے ہی نعیمی صاحب کو ناانصاف اور غیرفقیہ قرار دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ قرآن وسنت،افعالِ صحابہ کرام اور فقہ حنفی کے رُو سے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز حرام ہے۔
غوروفکر کا مقام ہے کہ جن افعال پر قرآن وحدیث نے کوئی نص قائم نہیں کی اور جن سے سلف صالحین،یعنی صحابہ وتابعین بے خبر تھے ،ان کو شرعی جواز فراہم کرنا کتنی زبردست بددیانتی ہے۔غیر اللہ کے نام کی نذرونیاز دینا اہل بدعت اور اہل شرک کا وطیرہ ہے،اہل سنت اور اہل حق نہ کبھی ایسا کرتے تھے،نہ کرتے ہیں،نہ کریں گے۔عام لوگ جب شیخ عبد القادر جیلانی کے نام کی گیارہویں دیتے ہیں،ان کے قصدونیت میں ان کی نیاز پیش کرنا ہی ہوتا ہے۔اگر کوئی کہتاہے کہ میں فلاں بزرگ کے نام کی دیگ پکاؤں گا تو اس کا واضح مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس کے نام کی نذرونیاز دے گا اور نذرونیاز عبادت ہے،جو غیر اللہ کے لیے قطعاً جائز نہیں ہے۔
نعیمی صاحب صرف ’’پلاؤ‘‘کے لیے غیر اللہ کی عبادت کو سند ِجواز دے رہے ہیں اور دین میں نئے کام داخل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ان کے نزدیک ایک طبیب کو علاج معالجہ پر اجرت دینے اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام کی نیاز دینے میں کوئی فرق نہیں۔کیا کبھی کسی نے طبیب کے نام پر دیگ پکائی اور ’’پلاؤ‘‘کا صدقہ کر کے اس کا ثواب طبیب کو پہنچایا؟
یہ لوگ مُردوں سے مانگنے اور ان کے متعلق مدد کرنے کا اعتقاد رکھتے ہیں،حالانکہ آج تک کسی صاحب ِقبر نے ان کو کچھ نہیں دیا،البتہ اس ڈھونگ سے انہوں نے اپنے جاہل عوام سے بہت کچھ لے لیا ہے۔
مُردوں کا تصرف !
ایک باطل اعتقاد یہ بھی ہے کہ مُردے سنتے،دیکھتے،اُمور میں تصرف کرتے،غیب جانتے،دعائیں سنتے اور نوازتے ہیں۔
امامِ بریلویت’’اعلیٰ حضرت‘‘احمد رضا خان بریلوی(1340-1272ھ)کہتے ہیں :
’’سیدی عبد الوہاب اکابر اولیائے کرام میں سے ہیں۔حضرت سیدی احمد بدوی کبیر کے مزار پر ایک تاجر کی کنیز پر نگاہ پڑی۔وہ آپ کو پسند آئی۔جب مزار شریف میں حاضر ہوئے تو صاحب ِمزار نے ارشاد فرمایا: عبد الوہاب! وہ کنیز تمہیں پسند ہے؟ عرض کیا : ہاں! شیخ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہیے۔ارشاد فرمایا : اچھا ہم نے وہ کنیز تم کو ہبہ کی۔آپ سکوت میں ہیں کہ کنیز تو اس تاجر کی ہے اور حضور ہبہ فرماتے ہیں۔وہ تاجر حاضرہوا اور اس نے وہ کنیز مزارِ اقدس کی نذر کی،خادم کو ارشاد ہوا۔ انہوں نے آپ کی نذر کر دی۔(صاحب ِ مزار نے)ارشاد فرمایا : اب دیر کاہے کی ہے؟ فلاں حجرہ میں لے جاؤ اور اپنی حاجت پوری کرو۔‘‘
(ملفوظات احمد رضا، ص : 276-275)
مفتی نعیمی صاحب تو ’’پلاؤ‘‘پر رال ٹپکانے لگے ہیں،لیکن یہاں تو ماجرا ہی عجیب ہے کہ مزاروں پر جو کچھ ہوتا ہے،وہ بزرگوں کی ایما پر ہوتا ہے!مفتی صاحب اس نذر کو بھی ’’لغوی نذر‘‘قرار دے کر زنا اور بدکاری کو عام کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول اہل قبور سے ان کی گفتگو ہوتی ہے،وہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں، موج میلے میں اپنے مریدوں کو بھی شریک کرتے ہیں اور قبروں میں پڑے امور ِدنیا کی انجام دہی بھی کرتے ہیں۔اس سارے جھوٹ اور ساری بے حیائی کو یہ لوگ ’’خدائی عطا‘‘کا نام دیتے ہیں۔کیا اب بھی یہ لوگ دینِ محمدی سے منحرف نہیں اور شرک و کفر کی دلدل میں پھنسے اور دھنسے نہیں ہوئے؟کیا ایسے لوگ مشرکین مکہ سے بدتر عقیدہ نہیں رکھتے اور اہل سنت والجماعت کے سخت مخالف نہیں ہیں؟قرآن و سنت کی من پسند تاویلات میں انہوں نے اہل کتاب کو بھی مات کر دیا ہے۔
ایک بے تُکی تاویل !
مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ’’شامی(439/2)نے کتاب الصوم، بحث اموات میں اس طرح بیان فرمایا : بِأَنْ تَکُونَ صِیغَۃُ النَّذْرِ لِلّٰہِ تَعَالٰی لِلتَّقَرُّبِ إِلَیْہِ، وَیَکُونَ ذِکْرُ الشَّیْخِ مُرَادًا بِہٖ فُقَرَائُہٗ ۔ ’صیغہ نذر کا اللہ کی عبادت کے لیے ہو اور شیخ کی قبر پر رہنے والے فقراء اس کا مصرف ہوں۔‘ یہ محض جائز ہے تو یوں سمجھو کہ یہ صدقہ اللہ کے لیے، اس کے ثواب کا ہدیہ روحِ شیخ کے لیے،اس صدقہ کا مصرف مزارِ بزرگ کے خدام فقراء جیسے کہ حضرت مریم کی والدہ نے مانی تھی کہ اپنے پیٹ کا بچہ خدایا تیرے لیے نذر کرتی ہوں، جو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف ہو گا۔نذر اللہ کی اور مصرف بیت المقدس۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
کہاں وہ نذر جو سیدہ مریم[کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی اور قرآنِ کریم نے بطور مدح اس کا ذکر کیا اور کہاں مُردوں کے نام کی وہ نذرونیاز جو قرآن وسنت ،اجماعِ امت، فقہائے احناف اور سب مسلمانوں کے نزدیک باطل اور حرام ہے۔سیدہ مریم[ کی والدہ ماجدہ نے جو نذر مانی تھی کہ میرے بطن میں جو بچہ ہے،میں نے اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔انہوں نے یہ نذر پوری کی،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ} (آل عمران 3 : 37)
’’چنانچہ اس کے ربّ نے اسے بہت اچھی طرح قبول فرما لیا۔‘‘
قبروں پر نذرونیاز اور حدیث ِنبوی:
رہا اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مان کر اسے قبر وں کے پجاریوں پر خرچ کرنا،تو یہ شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے۔یہ صریحاً شریعت ِمطہرہ کی خلاف ورزی ہے،جیسا کہ :
صحابی ٔرسول،سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِّنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ ؟‘ قَالُوا : لَا، قَالَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِہِمْ ؟‘، قَالُوا : لَا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’أَوْفِ بِنَذْرِکَ، فَإِنَّہٗ لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ‘ ۔
’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں بُوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مان لی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس جگہ جاہلیت کے استہانوں میں سے کوئی استہان تھا،جس کی عبادت کی جاتی ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا : کیا اس جگہ اہل جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا : نہیں۔فرمایا : اپنی نذر کو پورا کر لو۔ بلاشبہ اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3313، المعجم الکبیر للطبراني : 75/2،76، ح : 340، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا کردم بن سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں نبوی الفاظ یہ ہیں :
’ہَلْ بِہَا وَثَنٌ أَوْ عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِ الْجَاہِلِیَّۃِ ؟‘ ۔
’’کیا اس جگہ کوئی بت یا جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ تھا؟‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3315، وسندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر ایک صحابیہ نے عرض کیا : إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا، مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیہِ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَ ’لِصَنَمٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ ’لِوَثَنٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ : ’أَوْفِي بِنَذْرِکِ‘ ۔
’’میں نے فلاں جگہ پر جانور ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔اس جگہ پر اہل جاہلیت جانور ذبح کیا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : وہ کسی بت کے لیے ذبح کرتے تھے؟ صحابیہ نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا : کسی مُورتی کے لیے ذبح کرتے تھے؟ عرض کیا : نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کر لو۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 3312، وسندہٗ حسنٌ)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جن جگہوں پر شرک اور کفر ہوتا ہو،وہاں جائز نذر پوری کرنا بھی ممنوع اور حرام ہو جاتا ہے،بلکہ شرک تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ان احادیث میں کسی جگہ نذر کو پورا کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سوال پوچھے؛
1 کیا وہاں غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے؟
2 کیا وہاں مشرکوں کا سالانہ اکٹھ یا میلہ ہوتا ہے؟
دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نذر پوری کرنے کی اجازت دی۔اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی اثبات میں مل جاتا تو اس صورت میں اجازت ممکن نہیں تھی،کیونکہ ایسا کرناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ کسی جگہ نذر پورا کرنے کے بارے میں یہی نبوی ضابطہ آج بھی برقرار ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قبرپرست بزرگوں کی قبروں پر جو نذرونیاز پیش کرتے ہیں، اسے وہ بزرگوں کی بجائے اللہ ہی کے نام کرتے ہیں،تو ایسا کرنا بھی شریعت ِاسلامیہ میں حرام اور ممنوع ہے،چہ جائیکہ ان کی نیت ہی غیراللہ کی نذرونیاز کی ہوتی ہے،جیسا کہ گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔
شیخ الاسلام،علامہ،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الذَّبْحَ بِمَکَانِ عِیدِہِمْ وَمَحَلِّ أَوْثَانِہِمْ مَعْصِیَۃُ اللّٰہِ ۔
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کی میلہ گاہوں اور ان کے استہانوں پر جانور ذبح کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔‘‘(اقتضاء الصراط المستقیم : 495/1)
نیز فرماتے ہیں : وَإِذَا کَانَ تَخْصِیْصُ بُقْعَۃِ عِیدِہِمْ مَحْذُورًا، فَکَیْفَ بِنَفْسِ عِیدِہِمْ ؟ ’’جب مشرکین کے میلے کی جگہ جانور ذبح کرنا ممنوع ہے، تو خاص ان کے میلے میں جانور ذبح کرنا کیسے جائز ہو گیا؟‘‘(أیضًا : 497/1)
تنبیہ 1 : جناب احمد یار خان نعیمی نے مذکورۃ الصدر حدیث یوں ذکر کی ہے :
’’مشکوٰۃ باب النذور میں ہے کہ کسی نے نذر مانی تھی کہ میں بوانہ مقام میں اونٹ ذبح کروں گا،تو فرمایا گیا کہ اگر کوئی وہاں بت وغیرہ نہ ہو،تو نذر پوری کرو۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 308/1)
یعنی اپنے مذہب کے خلاف پڑنے والے میلے کے الفاظ ’’مفتی‘‘ صاحب نے ڈکار لیے!
تنبیہ 2 : ’’مفتی‘‘ صاحب نے ایک حدیث یوں لکھی ہے :
’’ایک شخص نے نذر مانی تھی کہ میں بیت المقدس میں چراغ کے لیے تیل بھیجوں گا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نذر کو پورا کرو۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 308-307/1)
لیکن یہ روایت ذخیرۂ حدیث میں موجود نہیں۔’’مفتی‘‘صاحب تو فوت ہو گئے ہیں، اب بریلوی حضرات ہی اس کا کوئی ثبوت اور ماخذ فراہم کر دیں،ورنہ مان لیں کہ ۔۔۔
قبرپرستی کی بنیاد فقہ حنفی کا یہ گمراہ کن مسئلہ بنا ہے کہ تقرب الی اللہ کے لیے مزاروں اور قبروں پر نذر پوری کرنا جائز ہے۔اس حوالے سے ان کا دامن دلیل سے بالکل خالی ہے۔ اس سارے کاروبار کا اصل مقصود تو قبر اور صاحب ِقبر کی تعظیم ہوتا ہے۔باقی رہا مال تو اسے سجادہ نشین،مجاور اور ملنگ ڈکار جاتے ہیں۔مجاوری کون سا شرعی اقدام ہے؟ یہ بھی تو نِری کفار کی نقالی ہے۔
نذر کی لغوی،عُرفی اور شرعی تقسیم!
جناب احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ’’مشکوٰۃ باب مناقب عمر میں ہے کہ بعض بیویوں نے نذر مانی تھی کہ اگر حضور علیہ السلام جنگ ِاُحد سے بخیریت واپس آئے تو میں آپ کے سامنے دَف بجاؤں گی۔یہ نذر بھی عُرفی تھی نہ کہ شرعی،یعنی حضورکی خدمت میں خوشی کا نذرانہ۔غرضیکہ لفظ ِنذر کے دو معنیٰ ہیں؛ لغوی اور شرعی۔لغوی معنیٰ سے نذر بزرگانِ دین کے لیے جائز ہے،بمعنیٰ نذرانہ۔جیسے طواف کے دو معنیٰ ہیں؛ لغوی معنیٰ اس کے پاس گھومنا اور شرعی رب تعالیٰ فرماتا ہے : {وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ} ’پرانے گھر کا طواف کریں‘۔یہاں طواف شرعی معنیٰ میں ہے اور فرماتا ہے : {یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ آنٍ} یہاں طواف بمعنیٰ لغوی ہے۔آنا،جانا،گھومنا۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 308/1)
اس حدیث میں کسی سیاہ رنگ کی لونڈی کی طرف سے یہ نذر ماننے کا ذکر ہے،لیکن ’’مفتی‘‘صاحب نے اس کا خود ساختہ ترجمہ ’’بعض بیویوں‘‘کر دیا ہے۔نیز اس حدیث کے الفاظ [بَعْض مَغَازِیہِ]کا ترجمہ ’’جنگ ِاُحد‘‘ کرنا بھی غلط ہے۔
یہ روایت سنن ترمذی،مسند احمد وغیرہ میں آتی ہے۔اس کو ذکر کر کے امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)فرماتے ہیں : وَہٰذَا لِأَنَّہٗ أَمْرٌ مُّبَاحٌ، وَفِیہِ إِظْہَارُ الْفَرَحِ بِظُہُورِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرُجُوعِہٖ سَالِمًا، فَأَذِنَ لَہَا فِي الْوَفَائِ بِنَذْرِہَا، وَإِنْ لَّمْ یَجِبْ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نذر کو پورا کرنے کی اجازت اس لیے دی کہ یہ ایک جائز کام تھا۔ اس سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جیت اور صحیح و سلامت واپسی پر خوشی کا اظہار تھا۔یہ نذر پوری کرنا اگرچہ ضروری نہیں تھا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پورا کرنے کی اجازت دے دی۔‘‘
(السنن الصغیر، تحت الحدیث : 3209، السنن الکبرٰی للبیہقي : 77/10)
شرعاً جائز نذر کو لغوی نذر قرار دے کر ناجائز اور حرام نذر کو جائز قرار دینا بہت بڑی بدبختی ہے۔حدیث کے بارے میں محدثین کرام کا فہم معتبر ہے۔صحابیہ کا مقصد یہ تھا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحیح و سلامت اور مظفر و منصور واپس لوٹیں گے تو میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت ِجلیلہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دَف بجا کر خوشی کا اظہار کروں گی۔اس کا اولیاء اللہ کے نام کی نذرونیاز اور منت منوتی سے کیا تعلق؟ ’’مفتی‘‘صاحب کا اس حدیث سے ’’حضور کی خدمت میں خوشی کا نذرانہ‘‘ ثابت کرنا ان کی کوتاہ فہمی کی واضح دلیل ہے۔
رہا ’’مفتی‘‘صاحب کا یہ کہنا کہ طواف کے دو معنیٰ ہیں؛ ایک لغوی و عرفی اور دوسرا شرعی،تو دور ِحاضر کے مشرکین قبروں کا بھی طواف کرتے ہیں،شاید وہ لغوی طواف ہی کرتے ہوں۔اس طرح کل کلاں لغوی رکوع،لغوی سجدہ،لغوی نماز اور لغوی حج بھی مخلوق کے لیے جائز ہو جائے گا؟ لغت کا سہارا لے کر مخلوق کے لیے عبادات کو جائز قرار دینا ظلم عظیم ہے۔
اہل حدیث کے ممتاز عالم،حافظ خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ (م : 1997ئ)فرماتے ہیں :
’’مفتی صاحب کا یہ استدلال تب درست ہو سکتا ہے، اگر اولاً وہ یہ ثابت کر دیں کہ زندہ یا مردہ اولیاء کرام کی قبروں کا طواف لغوی معنوں میں جائز ہے یا لغوی معنوں میں انہیں سجدہ جائز ہے۔مفتی صاحب نے لغوی لغوی کی رَٹ لگا رکھی ہے۔بریلویوں کو چاہیے کہ اپنے عوام کو بتلا دیں کہ ان کے مذہب کا سارا تانا بانا لغوی ہے،شرعی نہیں۔عبادات اور شرعی اصطلاحات کو لغوی معنیٰ پہنا کر غیر اللہ کے لیے جائز کر دینے کو مذہبی تخریب کاری کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟یہ دین کی خدمت نہیں،ہندوانہ سازش ہے۔‘‘(معرکہ حق و باطل، ص : 635)
اسی سلسلے میں جناب غلام رسول سعیدی،بریلوی لکھتے ہیں :
’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی حاجت کے وقت اولیاء اللہ کی نذر اس طرح مانے ؛ ’اے داتا! اگر تو نے میری یہ حاجت پوری کر دی تو میں تیرے لیے ایک بکرا پیش کروں گا۔‘ تو یہ نذر جائز ہے،کیونکہ یہ نذر لغوی ہے۔اور جو نذر غیراللہ کی حرام ہے،وہ نذرِ فقہی یا نذر ِشرعی ہے۔اور نذرِ لغوی اور نذر ِشرعی میں ان لوگوں کے نزدیک صرف یہ فرق ہے کہ نذر ِشرعی میں اللہ کی نذر مانی جاتی ہے اور نذرِ لغوی میں اولیاء اللہ کی نذر مانی جاتی ہے۔لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس طرح غیر اللہ کے لیے سجدہ،طواف،روزہ اور دیگر عبادات بھی جائز ہو جائیں گی،مثلاً کوئی شخص کسی ولی کو سجدہ کرے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی سجدہ ہے،کوئی شخص کسی ولی کی قبر کا طواف کرے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی طواف ہے اور کوئی شخص کسی ولی کے لیے روزے رکھے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی روزہ ہے اور اسی طرح لغت کے سہارے غیر اللہ کے لیے تمام عبادات کا دروازہ کھل جائے گا،کیونکہ جس طرح نذر بالاتفاق عبادت ہے،لیکن لغوی نذر غیراللہ کے لیے شرعاً مانی جا سکتی ہے،تو اسی طرح غیر اللہ کے لیے لغوی نماز پڑھی جا سکتی ہے،غیراللہ کے لیے لغوی روزے رکھے جا سکتے ہیں اور لغوی حج کیے جا سکتے ہیں۔علی ہذا القیاس!‘‘(شرح صحیح مسلم : 542-541/4)
ایک اور دھوکہ !
’’مفتی‘‘صاحب ایک اور طرح سے دھوکہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’دیکھو ! غیر اللہ کی قسم کھانا شرعاً منع ہے اور خود قرآنِ کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسمیں کھائیں؛ {وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ ٭ وَطُورِ سِیْنِیْنَ} وغیرہ اور حضور علیہ السلام نے فرمایا : أَفْلَحَ، وَأَبِیہِ (اس کے باپ کی قسم! وہ کامیاب ہو گیا)۔مطلب یہی ہے کہ شرعی قسم جس پر احکامِ قسم کفارہ وغیرہ جاری ہو،وہ خدا کے سوا کسی کی نہ کھائی جاوے،مگر لغوی قسم جو محض تاکید ِکلام کے لیے ہو،وہ جائز۔یہی نذر کا حال ہے۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
اس کے ردّ میں جناب غلام رسول سعیدی،بریلوی کا جواب پیش خدمت ہے :
’’یہ دلیل متعدد وجود سے صحیح نہیں ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ غیراللہ کے لیے قسم کا ذکر قرآن اور حدیث میں آ گیا،اس لیے اس میں تاویل کی ضرورت ہے اور غیر اللہ کے لیے نذر ماننے کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے،اس لیے اس کو تاویل سے غیراللہ کے لیے جائز کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘(شرح صحیح مسلم : 542/4)
nnnnnnn
صفات ِباری تعالیٰ کی معرفت
اور اس کے ثمرات
حافظ ابو یحییٰ نورپوری
صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں چند اہم قواعد
اسم اور صفت کا معنیٰ اور ان میں فرق :
اسم : وہ لفظ ہے جو اپنا معنیٰ از خود بتا سکے۔(التعریفات للجرجاني، ص : 24)
ان الفاظ کواسمائ( نام) کہا جاتا ہے،جو چیزوں پر دلالت کرتے ہیں۔
(مجموع الفتاوٰی : 195/6)
ایک قول یہ ہے کہ اسم وہ لفظ ہے جو اپنے مسمّٰی کے بارے میں خبر دے،فعل وہ لفظ ہے جو مسمّٰی کی حرکت کے بارے میں بتائے اور حرف وہ لفظ ہے جو ایسا معنیٰ بتائے جو اسم و فعل نہ ہو۔(الکلّیّات لأبي البقاء الکفوي، ص : 83)
صفت : وہ اسم ہے جو کسی ذات کے بعض حالات کے بارے میں بتائے۔ صفت اس موصوف کی لازمی علامت ہوتی ہے،جو اس کے ساتھ معروف ہوتا ہے۔
(التعریفات للجرجاني، ص : 133)
صفت وہ ہوتی ہے جس سے وصف (اسم صفت)مشتق ہوتا ہے اور اسم صفت، صفت پر دلالت کرتا ہے،جیسے علم و قدرت وغیرہ۔ (الکلّیّات، ص : 546)
ابن فارس کہتے ہیں : ’’کسی چیز کی لازمی علامت کو صفت کہتے ہیں۔‘‘
(معجم مقاییس اللغۃ : 448/5)
نیز کہتے ہیں : ’’کسی چیز میں موجود خوبی کا بیان صفت کہلاتا ہے۔‘‘
(أیضًا : 115/6)
اسم اور صفت میں فرق :
سعودیہ کی فتویٰ کمیٹی سے اسم اور صفت کا فرق پوچھا گیا تو یہ جواب دیا گیا :
’’اللہ تعالیٰ کے اسماء سے مراد وہ تمام الفاظ ہیں جو باری تعالیٰ کی ذات پر اس کی کمال والی صفات کے ساتھ دلالت کرتے ہیں،جیسا کہ قادر،علیم،حکیم،سمیع،بصیر۔
یہ نام اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بھی بتاتے ہیں اور اس قدرت، علم، حکمت اور سمع و بصر کے بارے میں بتاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔
جبکہ صفات وہ کمال والے اوصاف ہیں،جو ذات ِباری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں، جیسا کہ علم و حکمت اور سمع و بصر وغیرہ۔
یوں اسم دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے اور صفت ایک چیز پر۔اس بات کو یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اسم ،صفت کو متضمن ہوتا ہے اور صفت اسم کو مستلزم ہوتی ہے۔
(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ : 116/3، الرقم : 8942)
اسم سے صفت کے اور صفت سے اسم کے فرق کو کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے؛
1 اسماء سے صفات بنائی جاتی ہیں،جبکہ صفات سے اسماء نہیں بنائے جا سکتے۔مثلاً ہم اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی رحیم،قادر اور عظیم سے رحمت،قدرت اور عظمت والی صفات مشتق کر سکتے ہیں،لیکن ہم ارادہ، مجیئت اورمکر کی صفات سے اللہ تعالیٰ کے نام مرید،جائی اور ماکر نہیں بنا سکتے۔
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ صفات پر مشتمل ہیں،جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ قصیدۂ نونیہ میں فرماتے ہیں:
أَسْمَائُ ہٗ أَوْصَافُ مَدْحٍ کُلُّہَا مُشْتَقَّۃٌ قَدْ حُمِّلَتْ لِمَعَانٍ
’’اللہ تعالیٰ کے نام اوصافِ مدح ہیں اور سارے کے سارے مشتق ہیں،جو مختلف معانی پر محمول کیے جاتے ہیں۔‘‘
2 اللہ تعالیٰ کے افعال سے اس کا کوئی نام مشتق نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ ہم اللہ تعالیٰ کے محبت،کراہت اور غضب کرنے کے افعال سے محب،مکرہ اور مغضب کی صورت میں اسما نہیں بنا سکتے،البتہ افعال سے صفات ِباری تعالیٰ بنائی جا سکتی ہیں،لہٰذا ہم مذکورہ افعالِ باری تعالیٰ سے محبت، کراہت اور غضب کی صفات ثابت کریں گے۔ اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ صفات ِ باری تعالیٰ کا دائرہ اسماء ِ حسنیٰ کی نسبت وسیع ہے۔
(مدارج السالکین لابن القیّم : 415/3)
3 اسمائے حسنیٰ اور صفات ِ باری تعالیٰ سے پناہ بھی پکڑی جا سکتی ہے اور ان کی قسم بھی اٹھائی جا سکتی ہے، اس معاملے میں اسماء و صفات ِ باری تعالیٰ مشترک ہیں۔البتہ بندگی و دعا میں یہ مختلف ہیں کہ اسمائے حسنیٰ سے بندگی کا اظہار کیا جاتا ہے، چنانچہ ہم اپنا نام عبد الکریم،عبد الرحمن اور عبد العزیز رکھ سکتے ہیں،لیکن عبد الکرم، عبد الرحمت، عبد العزت نام رکھنا جائز نہیں۔اسی طرح اسمائے حسنیٰ کے ذریعے دُعا کی جا سکتی ہے،جیسا کہ اے رحیم ! ہم پر رحم فرما،اے کریم! ہم پر کرم فرما، اے لطیف! ہم پر لطف فرما،لیکن ہم صفات ِ باری تعالیٰ کو پکار نہیں سکتے،چنانچہ اے اللہ کے کرم! اور اے اللہ کے لطف ! نہیں کہا جا سکتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صفت کبھی موصوف نہیں ہوتی۔اللہ کی رحمت اللہ نہیں ہے، بلکہ اللہ کی صفت ہے،اسی طرح عزت اور دیگر صفات کا معاملہ ہے کہ یہ صفات ہیں، عین اللہ نہیں۔عبادت صرف اللہ کی جائز ہے اور دُعا بھی صرف اللہ سے کی جا سکتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{یَعْبُدُوْنَنِيْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِيْ شَیْئًا} (النور 24 : 55)
’’وہ میری عبادت کریں گے،میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کریں گے۔‘‘
نیز فرمایا : {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ} (غافر 40 : 60)
’’تمہارے ربّ نے فرمایا کہ مجھے پکارو،میں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔‘‘
دیگر کئی آیات ِمبارکہ میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے۔
(فتاوی الشیخ ابن عثیمین : 26/1، بترتیب أشرف عبد المقصود)
صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں عمومی قواعد
1 إِثْبَاتُ مَا أَثْبَتَہُ اللّٰہُ لِنَفْسِہٖ فِي کِتَابِہٖ، أَوْ أَثْبَتَہٗ لَہٗ رَسُولُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ مِنْ غَیْرِ تَحْرِیفٍ وَّلاَ تَعْطِیلٍ، وَمِنْ غَیْرِ تَکْیِیفٍ وَّلَا تَمْثِیلٍ ۔
’’جو صفات ِ باری تعالیٰ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں ثابت کی ہیں،بغیر تحریف و تعطیل اور تکییف و تمثیل ان سب کا اثبات کرنا ضروری ہے۔‘‘(عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابوني، ص : 4، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 3/3، 182/4، 26/5، 38/6، 515/6)
کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں دوسروں سے بہتر جانتا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری مخلوق سے بڑھ کر اپنے ربّ کی معرفت رکھتے تھے۔
2 نَفْيُ مَا نَفَاہُ اللّٰہُ عَنْ نَّفْسِہٖ فِي کِتَابِہٖ، أَوْ نَفَاہُ عَنْہُ رَسُولُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَعَ اعْتِقَادِ ثُبُوتِ کَمَالِ ضِدِّہٖ لِلّٰہِ تَعَالٰی ۔
’’اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جن چیزوں سے اپنی ذات کو منزہ و مبرا قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جن چیزوں کی ذات ِباری تعالیٰ سے نفی کر دی ہے،ان کی نفی کرنا اور ان کی کمال ضد کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ضروری ہے۔ ‘‘
(العقیدۃ التدمیریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 58، الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح لابن تیمیّۃ : 139/3)
اللہ تعالیٰ سے موت کی نفی کرنے میں اس کی کمال حیات کا اثبات شامل ہے، اس سے ظلم کی نفی کرنے میں اس کے کمال عدل کا اثبات ہے اور اس سے نیند کی نفی کرنے میں اس کی کمال قیومیت کا اثبات ہے۔
3 صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تَوْقِیفِیَّۃٌ، فَلَا یُثْبَتُ مِنْہَا إِلَّا مَا أَثْبَتَہُ اللّٰہُ لِنَفْسِہٖ، أَوْ أَثْبَتَہٗ لَہٗ رَسُولُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا یُنْفٰی عَنْ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا مَا نَفَاہُ عَنْ نَّفْسِہٖ، أَوْ نَفَاہُ عَنْہُ رَسُولُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’صفات ِباری تعالیٰ کا اثبات وحی ٔ الٰہی پر موقوف ہے،یعنی صرف وہی صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کی جائیں گی،جو خود اللہ نے اپنے لیے ثابت کی ہیں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ثابت کی ہیں۔اسی طرح صرف انہی چیزوں کی اللہ تعالیٰ سے نفی کی جائے گی،جن چیزوں کی خود اللہ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات ِالٰہی سے نفی کی ہے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 26/5)
4 اَلتَّوَقُّفُ فِي الْـأَلْفَاظِ الْمُجْمَلَۃِ الَّتِي لَمْ یَرِدْ إِثْبَاتُہَا وَلَا نَفْیُہَا، أَمَّا مَعْنَاہَا؛ فَیُسْتَفْصَلُ عَنْہُ، فَإِنْ أُرِیدَ بِہٖ بَاطِلٌ یُّنَزَّہُ اللّٰہُ عَنْہُ، رُدَّ، وَإِنْ أُرِیدَ بِہٖ حَقٌّ لَّا یَمْتَنِعُ عَلَی اللّٰہِ، قُبِلَ، مَعَ بَیَانِ مَا یَدُلُّ عَلَی الْمَعْنَی الصَّوَابِ مِنَ الْـأَلْفَاظِ الشَّرْعِیَّۃِ، وَالدَّعْوَۃِ إِلَی اسْتِعْمَالِہٖ مَکَانَ ہٰذَا اللَّفْظِ الْمُجْمَلِ الْحَادِثِ ۔
’’ایسے مجمل الفاظ جن کا اثبات یا نفی ثابت نہیں،ان کے استعمال میں توقف کیا جائے۔رہا ان الفاظ کے معانی کا معاملہ،تو ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں سے تفصیل طلب کی جائے۔اگر ان کی مراد ایسی باطل ہو جس سے اللہ تعالیٰ منزہ و مبرا ہے،تو انہیں ردّ کر دیا جائے اور اگر ان کی مراد ایسی ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں اطلاق ممتنع نہیں،تو انہیں قبول کر لیا جائے،البتہ ساتھ ہی وہ شرعی الفاظ بھی بیان کر دئیے جائیں جو درست معنیٰ پر دلالت کرتے ہوں،نیز ان نئے مجمل الفاظ کی بجائے شرعی الفاظ کے استعمال کی ترغیب بھی دی جائے۔‘‘
(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 65، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 299/5، 36/6)
اس کی مثال لفظ ِ جہت ہے۔ہم اس کے اثبات یا نفی میں توقف کریں گے اور اس کا اطلاق کرنے والے سے یہ سوال کریں گے : آپ کی اس لفظ سے کیا مراد ہے؟ اگر وہ کہے کہ میری مراد ایسی جگہ ہے،جو ذات ِباری تعالیٰ کو محیط ہے،تو ہم کہیں گے : یہ معنیٰ باطل ہے،اس سے اللہ تعالیٰ منزہ ومبرا ہے۔ہم اس معنیٰ کو ردّ کر دیں گے۔ البتہ اگر وہ کہے کہ میری مراد مطلق بلندی ہے، تو ہم کہیں گے : یہ معنٰی حق ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ممتنع نہیں۔ہم اس معنیٰ کو قبول کر لیں گے ،لیکن ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ اس طرح کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے : اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر یا بلندی میں ہے۔صحیح دلائل انہی الفاظ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔لفظ ِجہت تو مجمل اور نیا لفظ ہے، جس کا ذات ِباری تعالیٰ کے بارے میں استعمال ترک کر دینا ہی بہتر ہے۔
5 کُلُّ صِفَۃٍ ثَبَتَتْ بِالنَّقْلِ الصَّحِیحِ، وَافَقَتِ الْعَقْلَ الصَّرِیحَ، وَلَا بُدَّ ۔
’’ہر وہ صفت جو نقل صحیح سے ثابت ہو، ضروری طور پر عقل صریح کے بھی موافق ہوتی ہے۔‘‘(مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 141/1، 253)
6 قَطْعُ الطَّمْعِ عَنْ إِدْرَاکِ حَقِیقَۃِ الْکَیْفِیَّۃِ ۔
’’ضروری ہے کہ صفات ِباری تعالیٰ کی کیفیت کے ادراک کی خواہش نہ کی جائے۔‘‘
(منہج ودراسات لآیات الأسماء والصفات للشنقیطي، ص : 26)
کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا} (طٰہٰ 20 : 110)
’’وہ اللہ کا علم کے ذریعے احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘
7 صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تُثْبَتُ عَلٰی وَجْہِ التَّفْصِیلِ، وَتُنْفٰی عَلٰی وَجْہِ الْإِجْمَالِ ۔
’’جب کسی صفت کو باری تعالیٰ کے لیے ثابت کیا جائے،تو تفصیل کی جائے ، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی ذات سے کسی چیز کی نفی کی جائے، تو اجمال سے کام لیا جائے۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 37/6، 515)
صفات کے اثبات میں تفصیل یوں ہو گی کہ سمع و بصر اور دیگر صفات کو الگ الگ ثابت کیا جائے، جبکہ نفی میں اجمال یوں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کی نفی کرتے ہوئے صرف یہ کہا جائے کہ :
{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ} (الشورٰی 42 : 11)
’’اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘
8 کُلُّ اسْمٍ ثَبَتَ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ؛ فَہُوَ مُتَضَمِّنٌ لِّصِفَۃٍ، وَّلَا عَکْسَ ۔
’’ہر وہ اسم جو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے،اس میں کوئی نہ کوئی صفت ضرور موجود ہے،لیکن ہر صفت سے کوئی نام ثابت نہیں ہوتا۔‘‘(بدائع الفوائد لابن القیّم : 162/1، القواعد المثلٰی في صفات اللّٰہ وأسمائہ الحسنٰی لابن عثیمین، ص : 30)
اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام ’’رحمن‘‘میں صفت ِرحمت موجود ہے، اسی طرح ’’کریم‘‘ میں صفت ِکرم اور ’’لطیف‘‘میں صفت ِلطف موجود ہے،لیکن صفات ِباری تعالیٰ ’’ارادہ،اتیان،استوائ‘‘وغیرہ سے نام بنا کر ہم اللہ تعالیٰ کو ’’مرید،آتی،مستوی‘‘ نہیں کہہ سکتے۔
9 صِفَاتُ اللّٰہِ تَعَالٰی کُلُّہَا صِفَاتُ کَمَالٍ، لَا نَقْصَ فِیہَا بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوہِ ۔
’’اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال والی ہیں،ان میں کسی قسم کا کوئی نقص موجود نہیں۔‘‘(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 206/5، مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 232/1، بدائع الفوائد لابن القیّم : 168/1)
0 صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتِیَّۃٌ وَّفِعْلِیَّۃٌ، وَالصِّفَاتُ الْفِعْلِیَّۃُ مُتَعَلِّقَۃٌ بِأَفْعَالِہٖ، وَأَفْعَالُہٗ لَا مُنْتَہٰی لَہَا ۔
’’اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی بھی ہیں اور فعلی بھی۔جو صفات فعلی ہیں،وہ اللہ تعالیٰ کے افعال سے تعلق رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے افعال کی کوئی انتہا (شمار)نہیں،(لہٰذا فعلی صفات بھی بے شمار ہیں)۔‘‘
(القواعد المثلٰی في صفات اللّٰہ وأسمائہ الحسنٰی لابن عثیمین، ص : 30)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَائُ} (إبراہیم 14 : 27)
’’اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے،کرتا ہے۔‘‘
! دَلَالَۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِ الصِّفَۃِ؛ إِمَّا التَّصْرِیحُ بِہَا، أَوْ تَضَمُّنُ الِاسْمِ لَہَا، أَوِ التَّصْرِیحُ بِفِعْلٍ أَوْ وَصْفٍ دَالٍّ عَلَیْہَا ۔
’’کتاب و سنت سے کسی صفت ِباری تعالیٰ کا ثبوت تین طرح سے ہو سکتا ہے ؛ایک اس کا واضح بیان آ جائے ،دوسرے کسی نام سے ثابت ہو جائے ،تیسرے کسی فعل و وصف ِ باری تعالیٰ سے اس کا اثبات ہو جائے۔‘‘
(القواعد المثلٰی في صفات اللّٰہ وأسمائہ الحسنٰی لابن عثیمین، ص : 38)
۱۔ تصریح کی مثال،جیسے رحمت،عزت،قوت،چہرہ،دوہاتھ اور انگلیوں کی صفات ِ باری تعالیٰ صریح طور پر قرآن وسنت میں مذکور ہیں۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کے کسی نام سے صفت کا ثبوت،جیسے اللہ تعالیٰ کے نام ’’بصیر‘‘ میں صفت ِبصر اور ’’سمیع‘‘میں صفت ِسمع موجود ہے۔
۳۔ کسی فعل ووصف ِ باری تعالیٰ سے صفت کا اثبات،جیسے صفت ِ استوا اس فرمانِ باری تعالیٰ سے ثابت ہو رہی ہے :
{اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی} (طٰہٰ 20 ـ 5)
’’رحمن عرش پر مستوی ہوا۔‘‘
نیز اس فرمانِ باری تعالیٰ سے صفت ِ انتقام ثابت ہو رہی ہے :
{اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ} (السجدۃ 32 : 22)
’’یقینا ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔‘‘
@ صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یُسْتَعَاذُ بِہَا وَیُحْلَفُ بِہَا ۔
’’صفات ِباری تعالیٰ کی پناہ پکڑی جا سکتی ہے اور ان کی قسم بھی اٹھائی جا سکتی ہے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 143/6، 229، 273/35)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ‘ ۔
’’(اے اللہ!)میں تیرے غصے سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘(صحیح مسلم : 486)
اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’کتاب الایمان والنذور‘‘ میں یہ باب قائم فرمایا ہے :
بَابُ الْحَلِفِ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَصِفَاتِہٖ وَکَلِمَاتِہٖ ۔
’’اللہ تعالیٰ کی عزت،اس کی دیگر صفات اور اس کے کلمات کی قسم اٹھانے کا بیان۔‘‘
# اَلْکَلَامُ فِي الصِّفَاتِ کَالْکَلَامِ فِي الذَّاتِ ۔
’’صفات ِباری تعالیٰ کا معاملہ بالکل ذات ِباری تعالیٰ کی طرح ہے۔‘‘
(الکلام علی الصفات للخطیب البغدادي، ص : 20، الحجّۃ في بیان المحجّۃ لقوّام السنّۃ الأصبہاني : 174/1، التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 43، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 330/5، 355/6)
یعنی جس طرح اس کی ذات حقیقی ہے،لیکن مخلوق کی ذاتوں سے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات بھی حقیقی ہیں،لیکن مخلوق کی صفات سے مشابہ نہیں۔نیز جس طرح ذات ِ باری تعالیٰ کے اثبات میں وجود کا اثبات کیا جاتا ہے،کیفیت کا نہیں،اسی طرح صفات ِباری تعالیٰ کے اثبات میں بھی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔
$ اَلْقَوْلُ فِي بَعْضِ الصِّفَاتِ کَالْقَوْلِ فِي الْبَعْضِ الْآخَرِ ۔
’’کچھ صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں جو (اقراری)رویہ اختیار کیا جاتا ہے،وہ باقی تمام صفات کے بارے میں بھی اختیار کرنا ضروری ہے۔‘‘
(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 31، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 212/5)
یعنی جو شخص سمع و بصر اور ارادہ کی صفات ِباری تعالیٰ کا اقرار کرتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت،رضا،غضب اور کراہیت والی صفات کو بھی تسلیم کرے۔کچھ صفات کا اقرار اور کچھ کا انکار عقلی طور پر بھی درست نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جو شخص صفات ِ باری تعالیٰ کے بارے میں فرق والی روش اختیار کرتا ہے، حالانکہ ساری صفات اسباب ِحقیقت و مجاز میں برابر ہیں،ایسے شخص کا قول متناقض ہے، اس کا مذہب بے تُکا ہے اور وہ ان لوگوں کی روش اختیار کیے ہوئے ہے،جو کتاب کی بعض آیات پر ایمان لاتے اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 212/5)
% مَا أُضِیفَ إِلَی اللّٰہِ مِمَّا ہُوَ غَیْرُ بَائنٍ عَنْہُ؛ فَہُوَ صِفَۃٌ لَّہٗ غَیْرُ مَخْلُوقَۃٍ، وَکُلُّ شَيْئٍ أُضِیفَ إِلَی اللّٰہِ بَائِنٌ عَنْہُ؛ فَہُوَ مَخْلُوقٌ، فَلَیْسَ کُلُّ مَا أُضِیفَ إِلَی اللّٰہِ یَسْتَلْزِمُ أَنْ یَّکُونَ صِفَۃً لَّہٗ ۔
’’جس چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اور وہ چیز اللہ سے جدا نہیں ہے،وہ اللہ کی صفت ہے،مخلوق نہیں۔اس کے برعکس جس چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے،لیکن وہ اس سے جدا ہے ،وہ مخلوق ہے۔ہر وہ چیز جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے،ضروری نہیں کہ وہ اللہ کی صفت ہی ہو۔‘‘
(الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح لابن تیمیّۃ : 145/3، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 290/9، مجموع فتاوٰی ورسائل ابن عثیمین : 166/1)
جو چیز اللہ کی طرف منسوب ہے اور اس سے جدا نہیں،اس کی مثال اللہ تعالیٰ کی سمع و بصر اور رضا و سخط (ناراضی)ہے۔یہ اللہ کی صفات ہیں۔
اور جو چیز اللہ کی طرف منسوب ہے،لیکن اس سے جدا ہے،اس کی مثال بیت اللہ(اللہ کا گھر) اور ناقۃ اللہ(اللہ کی اونٹنی)۔بیت یا ناقہ کو اللہ کی صفت نہیں کہا جا سکتا۔
^ صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَسَائِرُ مَسَائِلِ الِاعْتِقَادِ تَثْبُتُ بِمَا ثَبَتَ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ کَانَ حَدِیثًا وَّاحِدًا، وَإِنْ کَانَ آحَادًا ۔
’’صفات ِباری تعالیٰ اور تمام اعتقادی مسائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث، چاہے وہ آحاد ہی ہو،سے ثابت ہو جاتے ہیں۔‘‘
(مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 332/2، 412، 433)
& مَعَانِي صِفَاتِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ الثَّابِتَۃُ بِالْکِتَابِ أَوِ السُّنَّۃِ مَعْلُومَۃٌ، وَتُفَسَّرُ عَلَی الْحَقِیقَۃِ، لاَ مَجَازَ وَلَا اسْتِعَارَۃَ فِیہَا أَلْبَتَۃَ، أَمَّا الْکَیْفِیَّۃُ؛ فَمَجْہُولَۃٌ ۔
’’جو صفات ِباری تعالیٰ کتاب وسنت سے ثابت ہیں،ان کے معانی معلوم ہیں، ان کا حقیقی معنٰی ہی لیا جائے،ان کے معانی میں مجاز و استعارہ کو قطعاً کوئی دخل نہیں۔ رہی ان کی کیفیت تو وہ معلوم نہیں۔‘‘(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 44-43، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 42-36/5، مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیّم : 2/1)
* مَا جَائَ فِي الْکِتَابِ أَوِ السُّنَّۃِ، وَجَبَ عَلٰی کُلِّ مُؤْمِنٍ الْقَوْلُ بِمُوجَبِہٖ وَالْإِیمَانُ بِہٖ، وَإِنْ لَّمْ یَفْہَمْ مَعْنَاہُ ۔
’’کتاب و سنت میں جو بات ذکر ہو جائے،اس کا معنٰی سمجھ نہ بھی سکے، تو ہر مؤمن کے لیے اس پر ایمان لانا اور اسی کے مطابق اپنا مذہب بنانا فرض ہو جاتا ہے۔‘‘
(التدمریّۃ لابن تیمیّۃ، ص : 65، مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 298/5، دقائق التفسیر لابن تیمیّۃ : 245/5)
( بَابُ الْإِخْبَارِ أَوْسَعُ مِنْ بَابِ الصِّفَاتِ، وَمَا یُطْلَقُ عَلَیْہِ مِنَ الْإِخْبَارِ؛ لَا یَجِبُ أَنْ یَّکُونَ تَوْقِیفِیًّا، کَالْقَدِیمِ، وَالشَّيْئِ ، وَالْمَوْجُودِ ۔۔۔ ۔
’’اللہ تعالیٰ کی معرفت کے سلسلے میں بیان، صفات کے دائرے سے بہت وسیع ہے۔ یہ بیان توقیفی ہونا ضروری نہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں خبر دینے کے لیے قدیم،شَے اور موجود کے الفاظ استعمال کرنا۔‘‘(بدائع الفوائد لابن القیّم : 162/1)
) صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ یُقَاسُ عَلَیْہَا ۔
’’صفات ِباری تعالیٰ میں (ایک کو دوسری پر) قیاس کرنا جائز نہیں۔‘‘
(شأن الدعاء للخطابي، ص : 111)
مثلاً صفت ِ’’سخائ‘‘کو ’’جُود‘‘ پر،’’ہمت‘‘کو ’’قوت‘‘پر،’’استطاعت‘کو ’’قدرت‘‘ پر، ’’رقت‘‘کو ’’رحمت و رافت‘‘پراور ’’معرفت‘‘کو ’’علم‘‘پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات ِباری تعالیٰ کے سلسلے میں نصوصِ شرعیہ سے تجاوز کرنا جائز نہیں۔
` صِفَاتُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ حَصْرَ لَہَا، لِأَنَّ کُلَّ اسْمٍ یَّتَضَمَّنُ صِفَۃً،۔۔۔۔۔، وَأَسْمَائُ اللّٰہِ لاَ حَصْرَ لَہَا، فَمِنْہَا مَا اسْتَأْثَرَ اللّٰہُ بِہٖ فِي عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَہٗ ۔
’’اللہ تعالیٰ کی صفات بے شمار ہیں،کیونکہ ہر اسم میں کوئی نہ کوئی صفت موجود ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا شمار نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے کچھ نام تو ایسے ہیں،جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس علم غیب میں چھپائے ہوئے ہیں۔‘‘
صفات ِباری تعالیٰ کی اقسام
اللہ تعالیٰ کی صفات کو تین طرح سے تقسیم کیا جا سکتا ہے ؛
1 اثبات و نفی کے اعتبار سے۔
2 ذاتِ الٰہی اور افعالِ باری تعالیٰ سے تعلق رکھنے کے اعتبار سے۔
3 ثبوت و دلائل کے اعتبار سے۔
ان تینوں قسموں میں سے ہر قسم کی پھر دو قسمیں ہیں؛
آئیے تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں :
1 اثبات و نفی کے اعتبار سے :
(ا) صفات ِ ثبوتیہ :
یہ وہ صفات ہیں،جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے لیے ثابت کیا ہے،مثلاً صفت ِ استوا،نزول،وجہ(چہرہ)،ید(ہاتھ) وغیرہ۔یہ ساری مدح و کمال پرمشتمل صفات ہیں۔کتاب و سنت میں منقول اکثر صفات ِباری تعالیٰ اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کا اثبات ضروری ہے۔
(ب) صفات ِ سلبیہ :
یہ وہ صفات ہیں،جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ سے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات ِباری تعالیٰ سے نفی کیا ہے۔یہ ساری نقص والی صفات ہیں،مثلاً موت،اونگھ، نیند،ظلم وغیرہ۔عموماً کتاب و سنت میں ان صفات سے پہلے حرف ِنفی ،جیسے لا،ما، لیس وغیرہ آتا ہے۔ان صفات کی ذات ِباری تعالیٰ سے نفی کرنا اور ان کی کمال والی ضد [جیسے موت کی ضد کمال حیات ہے]کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ضروری ہے۔
2 ذاتِ الٰہی اور افعالِ باری تعالیٰ سے تعلق رکھنے کے اعتبار سے :
(ا) صفات ِذاتیہ :
یہ وہ صفات ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متصف ہے اور ہمیشہ متصف رہے گا،مثلاً علم،قدرت،حیات،سمع ،بصر،چہرہ،ہاتھ،وغیرہ۔
(ب) صفات ِ فعلیہ :
یہ وہ صفات ہیں، جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیئت و قدرت سے ہوتا ہے، اللہ چاہے تو کرے،نہ چاہے تو نہ کرے،مثلاً مجیئت(آنا)،نزول،غضب،فرح(خوش ہونا)، ضحک(ہنسنا) وغیرہ۔ انہیں صفات ِاختیاریہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے افعال بھی دو طرح کے ہوتے ہیں :
1 افعالِ لازمہ ،جیسے استوائ، نزول، اتیان وغیرہ۔
2 افعالِ متعدیہ، جیسے خلق،عطاء وغیرہ۔
افعالِ باری تعالیٰ کا کوئی شمار نہیں۔فرمانِ الٰہی ہے :
{وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَائُ} (إبراہیم 14 : 27)
’’اور اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے۔‘‘
اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کی صفات ِفعلیہ کا بھی کوئی شمار نہیں۔
ذات ِباری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہونے کی بنا پر صفات ِفعلیہ کو صفات ِ ذات بھی کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے صادر ہونے والے اقوال و افعال سے تعلق کی بنا پر انہیں صفاتِ افعال کا نام بھی دیا جاتا ہے۔اس کی مثال صفت ِکلام ہے کہ یہ صفت اپنی اصل اور نوع کے اعتبار سے صفت ِذات ہے اور کلام کی اکائی اور فرد ہونے کے اعتبار سے صفت ِفعل ہے۔
3 ثبوت و دلائل کے اعتبار سے :
(ا) صفات ِخبریہ :
یہ وہ صفات ہیں، جن کے اثبات کا انحصار صرف اللہ اور اس کے رسول سے منقول خبر پر ہے۔انہیں صفات ِسمعیہ یا نقلیہ بھی کہا جاتا ہے۔ان میں صفات ذاتیہ بھی ہو سکتی ہیں،جیسے چہرہ اور دوہاتھ ہیں اور فعلیہ بھی ہو سکتی ہیں،جیسے فرح و ضحک وغیرہ۔
(ب) صفات ِسمعیہ و عقلیہ :
یہ ایسی صفات ہیں،جن کا اثبات نقلی دلائل سے بھی ہوتا ہے اور عقلی دلائل سے بھی۔یہ کبھی صفات ِذاتیہ ہوتی ہیں،جیسے حیات،علم، قدرت وغیرہ اور کبھی صفات ِفعلیہ ہوتی ہیں،جیسے خلق اور عطا وغیرہ۔
صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کے ثمرات
صفات ِباری تعالیٰ کے علم،ان پر ایمان اور تدبر کے بڑے ثمرات اور گراں قدر فوائد ہیں۔ان فوائد و ثمرات کو حاصل کرنے والے ایمان کی حلاوت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد،جو تعطیل و تاویل اور تشبیہ کی مرتکب ہے،ان فوائد سے محروم ہو گئی ہے۔ صفات ِ باری تعالیٰ پر ایمان کے کچھ فوائد و ثمرات درجِ ذیل ہیں:
1 صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بندہ اپنی اوقات کے مطابق ان صفات سے متصف ہونے کی کوشش کرتا ہے،کیونکہ اہل دانش کو معلوم ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی صفات اپنانا پسند کرتا ہے،اسی طرح محبوب بھی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا محب اس کی صفات کو اپنائے۔یہ بات اپنے ربّ سے محبت کرنے والے بندے کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی اوقات کے مطابق صفات ِباری تعالیٰ سے متصف ہو۔اللہ تعالیٰ کریم ہے،کرم کو پسند کرتا ہے،رحیم ہے،رحم کو پسند کرتا ہے، نرم ہے،نرمی کو پسند کرتا ہے۔جب بندے کو یہ صفات معلوم ہوں گی تو وہ کرم،رحم اور نرمی کی صفات سے متصف ہونے کی کوشش کرے گا۔یہی معاملہ ان باقی صفات کا ہے، جن سے بندوں کا متصف ہونا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
2 بندہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت ِمحبت پر ایمان لاتا ہے اور اسے علم ہوتا ہے کہ اللہ رحیم اور ودود(محبت کرنے والا)ہے تو وہ اپنے ربّ سے مانوس ہو جاتا ہے اور ان کاموں سے اس کا تقرب حاصل کرتا ہے ،جن سے اللہ کی محبت و مودّت زیادہ ہوتی ہے،جیسا کہ حدیث ِقدسی ہے :
’وَمَا یَزَالُ عَبْدِي یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ، حَتّٰی أُحِبَّہٗ‘ ۔
’’بندہ نفلی کاموں کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے،حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘(صحیح البخاري : 6502)
اسی طرح بندہ ان لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے،جن کے بارے میں حدیث میں آتا ہے :
’إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ، فَقَالَ : إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّہٗ، قَالَ : فَیُحِبُّہٗ جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِي فِي السَّمَائِ، فَیَقُولُ : إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوہُ، فَیُحِبُّہٗ أَہْلُ السَّمَائِ، قَالَ : ثُمَّ یُوضَعُ لَہُ الْقَبُولُ فِي الْـأَرْضِ‘ ۔
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے : میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں،تم بھی اس سے محبت کرو۔جبریل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر جبریل علیہ السلام آسمانوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے،تم سب بھی اس سے محبت کرو۔آسمان کی تمام مخلوق اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔پھر زمین والوں کے دلوں میں بھی اس بندے کے بارے میں نیک نامی ڈال دی جاتی ہے۔‘‘(صحیح البخاري : 3209، صحیح مسلم : 2637، واللفظ لہٗ)
اس عظیم صفت پر ایمان کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو بندہ اللہ کا محبوب بننا چاہتا ہے، وہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی شروع کر دیتا ہے ،جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (آل عمران 3 : 31)
’’(اے نبی!)کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘
اللہ کی بندے سے محبت کا دارومدار بندے کی اللہ سے محبت پر ہے۔جب بندے کے دل میں محبت کا درخت لگ جائے اور اسے اخلاص اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا پانی ملنا شروع ہو جائے،تو وہ اللہ کی توفیق سے ہر وقت طرح طرح کے ثمرات دیتا رہتا ہے۔
3 جب بندہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ علم،احاطہ اور معیت پر ایمان لے آتا ہے، تو اس پر ذات ِباری تعالیٰ کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔جب وہ صفت ِسمع پر ایمان لاتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ساری باتیں سنتا ہے،چنانچہ وہ صرف اچھی بات اپنی زبان سے ادا کرتا ہے۔جب وہ صفت ِ بصر،رؤیت،نظر اور عین پر ایمان لاتا ہے تو جان لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے،چنانچہ وہ صرف اچھے کام ہی کرتا ہے۔
جس بندے کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی باتیں سن رہا ہے اور اس کے کاموں کو دیکھ رہا ہے،جو کچھ وہ کہتا ہے یا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، آپ کے خیال میں کیا ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو وہاں نہ پائے،جہاں سے اس نے اسے منع کیا ہے اور وہاں سے وہ بندہ غائب نہ ہو،جہاں جانے کا اس نے اسے حکم دیا ہے؟
جب اس بندے کو یہ معلوم ہو جاتا ہے اور وہ اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبت بھی کرتا ہے اور راضی بھی ہوتا ہے،تو وہ ایسے اعمال سرانجام دیتا ہے، جن کو اس کا معبود و محبوب پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔جب یہی بندہ اللہ تعالیٰ کی صفات ِغضب ،کراہیت،ناراضی،لعنت پر ایمان لاتا ہے ،تو وہ ایسے اعمال کرتا ہے،جو اس کے ربّ کو غصہ نہیں دلاتے اور جن کو وہ ناپسند نہیں کرتا،تاکہ اس کا ربّ ناراض ہو کر اس پر لعنت کر کے اسے اپنی رحمت سے دُور نہ کر دے۔
جب بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشی، بشاشت اور ہنسنے (جیسا اس کی شان کو لائق ہے) کی صفت پر ایمان لاتا ہے ،تو وہ اس ربّ سے مانوس ہو جاتا ہے،جو بندوں سے خوش بھی ہوتا ہے اور ان پر ہنستا بھی ہے۔
4 جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی صفت ِرحمت،رافت،رجوع،لطف،معافی، مغفرت، پردہ پوشی اور قبولیت ِدعا کا علم ہوتا ہے اور وہ ان صفات پر ایمان لاتا ہے، تو جب بھی وہ کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے،اپنے لیے اللہ سے رحمت،مغفرت اور قبولیت ِتوبہ کی دُعا کرتا ہے،نیز اللہ کے ہاں اپنے مؤمن بندوں کے لیے پردہ پوشی اور لطف و کرم کی جو عنایت ہے،بندہ اس کا طمع کرتا ہے۔جب بھی اس سے کوئی گناہ ہوتا ہے،یہ چیزیں اسے اللہ کی طرف رجوع اور توبہ پر آمادہ کرتی ہیں اور یوں کبھی ناامیدی اس کے دل تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفت ِصبر و حلم پر ایمان رکھتا ہے،وہ کیسے مایوس ہو سکتا ہے؟ وہ شخص اللہ کی رحمت سے ناامید کیسے ہو گا،جو جانتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کرم،جود اور عطاء کی صفات سے متصف ہے؟
5 جو شخص یہ جانتا ہو کہ اللہ تعالیٰ قہر،غلبے،بادشاہت اور نگرانی کی صفات سے متصف ہے،اسے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی،وہ زمین میں دھنسانے اور آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دینے پر قادر ہے،وہ اپنے بندوں پر مکمل غلبہ اور کنٹرول رکھتا ہے اور وہ قدیم بادشاہت اور سلطنت والا ہے۔
6 صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ہمہ وقت اپنے ربّ سے مانگنے میں مشغول رہتا ہے۔جب گناہ کر بیٹھے ،تو اس کی صفت ِ رحمت، رجوع، معافی اور مغفرت کے وسیلے سے رحمت،معافی اور مغفرت کی دُعا کرتا ہے۔اگر اسے کسی ظالم و جابر دشمن سے ڈر محسوس ہو،تواپنے ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے قوت، غلبے، سلطان، قہر اور جبروت کی صفاتِ باری تعالیٰ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ اے قوت و سلطنت اور قہر و غلبے والی ذات! مجھے اس دشمن کے مقابلے میں کافی ہو جا۔
اگر وہ ایمان رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کفالت کرنے والا،حفاظت کرنے والا، کافی ہونے والا اور کارساز ہے،تو وہ کہتا ہے : ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔وہ واحد،احد اور بے نیاز پر توکل کرتا ہے۔اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ عزت، شدت، انتقام، قوت اور طاقت والی ذات اسے دشمنوں سے بچا لے گی۔
جب اس پر تنگدستی آ جائے،تو وہ غنائ،کرم،جود اور عطاء والی صفات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے۔جب اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے ،تو وہ اللہ کو پکارتا ہے، کیونکہ اللہ طبیب،شفا دینے والا اور کافی ہو جانے والا ہے۔اگر وہ اولاد سے محروم ہو،تو وہ اللہ سے نیک اولاد کی دُعا کرتا ہے،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی عطا فرمانے والا ہے۔یوں صفات ِباری تعالیٰ کا علم رکھنے اور ان پر ایمان لانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا رہتا ہے۔
7 جب بندہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِعظمت،جلال،قوت اور غلبے پر غور و فکر کرتا ہے،تو اپنے آپ کو حقیر سمجھنے اور جاننے لگتا ہے۔جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر کی صفت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ،تو وہ کبھی کسی پر تکبر نہیں کرتا،نہ ہی اللہ تعالیٰ کے لیے خاص صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب اسے علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غنائ،بادشاہت اور عطاء کی صفات سے متصف ہے،تو سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنے اس غنی آقا اور مالک الملک کا محتاج ہے جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم کر دیتاہے۔
8 جب بندے کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قوت،عزت اور غلبے کی صفات سے متصف ہے اور ان پر ایمان بھی لے آتا ہے،تو یہ بات بھی بخوبی جان لیتاہے کہ اس کی قوت و عزت اللہ کی دی ہوئی ہے،چنانچہ وہ کسی کافر کے سامنے ذلیل و خوار نہیں ہوتا۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ اللہ کا فرمانبردار رہے گا،تو اللہ تعالیٰ بھی اس کا حامی و مددگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے امر پر کسی کو غلبہ نہیں۔
9 اللہ کی صفات پر ایمان لانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ حاکمیت،الوہیت،شریعت سازی اور تحلیل و تحریم میں دخل دینے کی کوشش نہیں کرتا۔وہ اللہ کی وحی کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور اپنے فیصلے وحی کی طرف ہی لے کر جاتا ہے،وہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام نہیں کہتا،نہ اللہ کی حرام کردہ کو حلال کہتا ہے۔
0 جب کوئی بندہ یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کو لائق ہے،وہ صفت ِکید،مکر،استہزاء اور خداع سے متصف ہے،تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے خلاف مکروتدبیر نہیں کر سکتا۔اللہ ہی بہترین مکرو تدبیر کرنے والا ہے۔کوئی اللہ تعالیٰ سے استہزاء نہیں کر سکتا،نہ اسے دھوکا دے سکتا ہے،کیونکہ جیسے اللہ کی شان کو لائق ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔اللہ تعالیٰ کے استہزاء کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بندے سے ناراض ہو جاتا ہے اور اسے سزا دیتا ہے۔گویا ان صفات پر ایمان بندے کو اللہ کے غصے اور ناراضی والے کاموں میں ملوث ہونے سے بچاتا ہے۔
! بندہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہ بھولے اور اس کے ذکر کو ترک نہ کرے،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صفت ِنسیان(فراموشی)اور ترک(بے یار و مددگار چھوڑنے)سے متصف ہے۔اللہ تعالیٰ بندے کو فراموش کرنے،یعنی بے یارو مددگار چھوڑنے پر قادر ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ} (التوبۃ 9 : 67)
’’انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر(بے یارو مددگارچھوڑ) دیا۔‘‘
اس طرح بندہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کو یاد رکھتا ہے۔
@ جو بندہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی،امن اور صدق کی صفت سے متصف ہے،وہ اپنے اندر اطمینان اور امن پسندی محسوس کرتا ہے۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلامتی والا ہے اور سلامتی کو پسند کرتا ہے ،تو وہ مؤمنوں کے درمیان سلامتی پھیلاتا ہے اور یہی وہ مؤمن ہوتا ہے جس کے ظلم سے مخلوق محفوظ و مامون رہتی ہے۔جب بندے کا اعتقاد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ صدق کی صفت سے متصف ہے اور اس نے نیک اعمال کرنے کی صورت میں ایسے باغات کا وعدہ دیا ہے،جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں،تو اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا سچا ہے،وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔
یہ عقیدہ بندے کو اللہ تعالیٰ کا اور زیادہ مطیع و فرمانبردار بنا دیتا ہے، اس مزدور اور محنت کش کی طرح جو اپنے آقا اور کام لینے والے پر مکمل بھروسا رکھتا ہوکہ وہ اسے اس کا پورا حق بھی دے گا اور زائد انعام بھی دے گا۔
# اللہ تعالیٰ کی صفات ِخبریہ،جیسے چہرہ،دو ہاتھ،انگلیاں،پورے،دو قدم، پنڈلی وغیرہ،بندوں کے لیے سخت امتحان سے کم نہیں۔جو شخص ان صفات کو اس طرح تسلیم کر لیتا ہے ،جس طرح یہ اللہ کو لائق ہیں اور اس سلسلے میں کسی تمثیل ،تحریف اور تکییف سے کام نہیں لیتا ، صفت ِعلم،حیات،قدرت اور ان صفات میں(تسلیم کرنے کے حوالے سے)کوئی فرق نہیں کرتا،وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو گیا۔اس کے برعکس جس شخص نے اپنی عقلِ سقیم کو نقلِ صحیح پر مقدم کر لیا، ان صفات کی تاویل کرنے لگا،ان کو مجاز قرار دیا اور ان (کو تسلیم کرنے)میں تحریف وتعطیل سے کام لیا،وہ واضح خسارے میں مبتلا ہو گیا۔اس نے ایک صفت کے ساتھ اور معاملہ کیا،جبکہ دوسری کے ساتھ اور۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے،اس شخص نے اس میں اللہ کی تکذیب کر دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جھٹلا دیا۔
اگر ان صفات ِخبریہ پر ایمان لانے کا صرف یہ فائدہ ہو تا کہ بندہ ان کو تسلیم کر کے موحّدین میں شمار ہو جاتا ،تو یہ بھی کافی تھا اور اگر ان صفات پر ایمان کا فائدہ صرف یہی ہوتا کہ ان کے ذریعے اللہ ورسول کی تصدیق کرنے والے مؤمن اور اللہ ورسول کے خلاف جسارت کرنے والے اور ان کے فرامین کی تحریف کرنے والے گستاخ کے درمیان فرق ہو جاتا،تو یہ ثمرہ بھی کافی تھا۔چہ جائیکہ آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ ان صفات ِخبریہ پر ایمان کے اور بھی بہت سے عظیم فوائد ہیں۔
ایک تو یہ کہ جب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا اس کی شان کے لائق چہرہ ہے اور قیامت کے دن اس پر نظر ڈالنا اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہو گی،جس کا وعدہ اللہ نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے،توآپ اللہ تعالیٰ سے اس کے معزز چہرے کی طرف دیکھنے کا سوال کریں گے اور اللہ یہ نعمت آپ کو دے دیں گے۔
جب آپ کا یہ ایمان ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا ایسا بھرا ہوا ہاتھ ہے،جس کی عطا میں کبھی کمی نہیں آتی اور ساری بھلائی اس کے ہاتھوں میں ہے ،تو آپ اللہ سے اس کے ہاتھوں کی عطا کا سوال کریں گے۔جب آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ آپ کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے ، تو آپ اس سے اپنے دل کی دین پر استقامت کی دُعا کریں گے۔
$ صفات ِباری تعالیٰ پر ایمان کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو نقائص سے منزہ و مبرا قرار دیتا ہے اور کمال والی صفات کے ساتھ اسے متصف کرتا ہے۔جس کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ قدوس اور سبوح اللہ کی صفات ہیں،وہ اللہ کو ہر عیب و نقص سے پاک قرار دے گا اور وہ یقین کر لے گا کہ :
{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْئٌ} (الشورٰی 42 : 11)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘
% جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفت ِ حیات و بقاء کے بارے میں جان لے گا، اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایسے معبود کی عبادت کرتا ہے،جو کبھی نہیں مرے گا اور اسے نہ نیند آتی ہے،نہ اونگھ۔یہ عقیدہ اس کے دل میں اپنے ربّ کے لیے محبت و تعظیم اور تکریم پیدا کر دے گا۔
^ اللہ تعالیٰ کی صفت ِعُلُوّ،فوقیت،استواء علی العرش،نزول،قرب اور دُنُوّپر ایمان لانے کی وجہ سے بندے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات میں حلول کرنے سے پاک ہے،وہ ہر چیز سے بلند ہے،ہر چیز پر مطلع ہے،اپنی مخلوق سے جدا ہے،اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم کے اعتبار سے اپنے بندے کے قریب ہے،جب بندے کو اپنے رب سے کوئی حاجت ہوتی ہے تو وہ اس کو اپنے قریب پاتا ہے،اس سے دُعا و التجا کرتا ہے،اللہ اس کی دُعا قبول فرماتا ہے،رات کے آخری تہائی حصے میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف ،جیسے اس کی شان کو لائق ہے،نزول کرتا ہے اور فرماتا ہے : کون ہے جو مجھے پکارے،تو میں اس کی پکار کو قبول کروں۔
یہ اعتقاد بندے میں ان اوقات کی تلاش کا طمع پیدا کر دیتا ہے،جن میں بندہ اپنے ربّ سے خلوت میں ملاقات کر سکے۔اللہ سبحانہ اپنی بلندی کے باوجود (علم کے لحاظ سے)قریب ہے اور اپنے قرب کے باوجود(ذات کے اعتبار سے)دُور ہے۔
& اللہ تعالیٰ کی صفت ِکلام پر ایمان اور قرآنِ کریم کو کلام اللہ تسلیم کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ جب قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے،تو محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام پڑھ رہا ہے۔جب وہ یہ آیت پڑھتا ہے کہ :
{یَا اَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ} (الانفطار 82 : 6)
’’اے انسان!تجھے تیرے کریم رب کے متعلق کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے؟‘‘
تو وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے آپ سے ہم کلام محسوس کرتا ہے،اس کا دل خوف سے ہوا ہونے لگتا ہے۔اسی طرح جب بندہ صفت ِکلام پر ایمان لانے کے بعد یہ صحیح حدیث پڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اس طرح کلام فرمائے گاکہ درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہو گا،تو وہ دنیا میں اللہ کی نافرمانی سے گریز کرتا ہے اور اس سوال و جواب اور حساب و کتاب کی تیاری کرنے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ہر صفت پر ایمان لانے کے ایسے ہی عظیم فوائد وثمرات ہیں۔اہل سنت پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اس کی ہر صفت پر اسی طرح ایمان لے آئے،جس طرح وہ اس کی شان کے لائق ہے!
نوٹ : یہ مضمون علامہ علوی بن عبد القادر سقّاف کی کتاب صفات اللّٰہ عز ّوجلّ الواردۃ في الکتاب والسنّۃ سے ماخوذ ہے۔
ہر منصف مزاج شخص اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں اہل حدیث ہی کا وہ موقف ہے،جو سلف صالحین سے منقول ہے۔اسلاف قرآن و حدیث میں وارد ہونے والی ہر صفت ِباری تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے،کسی صفت میں تاویل و تحریف یا تمثیل و تکییف اور تعطیل سے کام نہیں لیتے تھے، اسی طرح اہل حدیث بھی تمام صفات ِباری تعالیٰ کو بغیر تاویل و تحریف، تمثیل و تکییف اور تعطیل کے تسلیم کرتے ہیں۔
اس کے برعکس دنیا میں اہل حدیث کے علاوہ کوئی بھی اسلامی مکتب ِفکر ایسا نہیں،جو تمام صفات ِالٰہیہ پر من وعن ایمان لاتا ہو۔اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے،تو دلیل پیش کرے۔
کیا اہل حدیث کے اہل حق ہونے کے لیے یہی دلیل کافی نہیں؟
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.