عورت کی امامت کا مسئلہ
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
عورت عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے ، جیسا کہ ام ِ ورقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان یقول : انطلقوا بنا إلی الشھیدۃ ، فنزورھا ، وأمر أن یؤذّن لھا ، وتقام ، وتؤمّ أھل دارھا فی الفرائض ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ، تم ہمارے ساتھ شہیدہ کی طرف چلو ، ہم اس کی زیارت کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے لیے اذان کہی جائے ، اقامت کہی جائے اور وہ فرض نمازوں میں اپنے گھر والوں کی امامت کریں ۔”
(مسند الامام احمد : ٦/٤٠٥، سنن ابی داو،د : ١/٨٧، ح : ٥٩٢، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (١٦٧٦)اور امام ابن الجارود رحمہ اللہ (٣٣٣)نے ”صحیح” کہا ہے ۔کسی امام کا کسی راوی کی منفرد روایت کی تصحیح کرنا ، اس کی توثیق ہوتی ہے ۔
اس کاراوی الولید بن عبداللہ جمیع الزہری جمہور محدثین کے نزدیک ”ثقہ” ہے ۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے ۔
حافظ ابن القطان رحمہ اللہ کا اس کے متعلق لایعرف حالہ کہنا صحیح نہیں اور امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کا اسے المجروحین (٣/٧٨۔٧٩)میں ذکر کرنا ، پھر اسے الثقات (٥/٤٩٢)میں بھی ذکر کرنا تعجب خیز ہے !
گھروالوں سے مراد گھر کی عورتیں ہیں ، جیسا کہ امام الائمہ ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے : باب إمامۃ المرأۃ النساء فی الفریضۃ ۔ ”فرض نمازوں میں عورت کا عورتوں کی جماعت کرانے کا بیان ۔”
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے بھی ایسے ہی باب قائم کیا ہے ۔(الاوسط لابن المنذر : )
دلیل نمبر 2 : حجیرہ بنت حصین بیان کرتی ہیں :
أمّتنا أمّ سلمۃ رضی اللّٰہ عنھا فی العصر ، فقامت بیننا ۔
”نماز ِ عصر میں سیدہ ام ِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہماری امامت کی ، وہ ہمارے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔”(المطالب العالیۃ لابن حجر : ٤٢٧، وسندہ، صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل، امام شافعی ، امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابنِ حزم وغیرہم رحمہم اللہ عورت کی امامت کے جواز کے قائل ہیں ۔
جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)لکھتے ہیں :
ولا یخفی ضعفہ ، بل ضعف جمیع ما وجّھوا بہ الکراہیۃ ، کما حقّقناہ فی تحفۃ النبلاء ، ألّفناہا فی مسئلۃ جماعۃ النساء ، وذکرنا ہناک أنّ الحقّ عدم الکراہۃ ، کیف لا ؟ وقد أمّت بھنّ أمّ سلمۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ وجہ کہ عورت صف کے درمیان کھڑی ہوکر ممنوع کا ارتکاب کرے گی ، اس کا ضعف مخفی نہیں ، بلکہ ان تمام کی تمام وجوہ کا ضعیف ہونا مخفی نہیں ،جو عورت کی امامت کے مکروہ ہونے کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں ، جیسا کہ ہم نے تحفۃ النبلاء میں اس کی تحقیق بیان کردی ہے ۔ ہم نے یہ رسالہ عورتوں کی جماعت کے مسئلہ کے بارے میں لکھا ہے ۔ ہم نے اس میں ذکر کیاہے کہ حق یہ ہے کہ عورت کی امامت مکروہ نہیں ہے ۔ عورت کی امامت کیسے مکروہ ہوسکتی ہے ؟ جبکہ سیدہ ام ِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی امامت کی ہے ۔۔۔”
(عمدۃ الرعایۃ فی شرح الوقایۃ از لکھنوی : ١/١٥٢)
الحاصل : عورت ، عورتوں کی امام بن سکتی ہے ، یہی حق ہے ۔ کراہت کے قائلین کا قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے ۔