742

عورت کی امامت کا مسئلہ، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

عورت کی امامت کا مسئلہ
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

عورت عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے ، جیسا کہ ام ِ ورقہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے :
أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان یقول : انطلقوا بنا إلی الشھیدۃ ، فنزورھا ، وأمر أن یؤذّن لھا ، وتقام ، وتؤمّ أھل دارھا فی الفرائض ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ، تم ہمارے ساتھ شہیدہ کی طرف چلو ، ہم اس کی زیارت کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے لیے اذان کہی جائے ، اقامت کہی جائے اور وہ فرض نمازوں میں اپنے گھر والوں کی امامت کریں ۔”
(مسند الامام احمد : ٦/٤٠٥، سنن ابی داو،د : ١/٨٧، ح : ٥٩٢، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (١٦٧٦)اور امام ابن الجارود  رحمہ اللہ (٣٣٣)نے ”صحیح” کہا ہے ۔کسی امام کا کسی راوی کی منفرد روایت کی تصحیح کرنا ، اس کی توثیق ہوتی ہے ۔
اس کاراوی الولید بن عبداللہ جمیع الزہری جمہور محدثین کے نزدیک ”ثقہ” ہے ۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے ۔
حافظ ابن القطان  رحمہ اللہ کا اس کے متعلق لایعرف حالہ کہنا صحیح نہیں اور امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کا اسے المجروحین (٣/٧٨۔٧٩)میں ذکر کرنا ، پھر اسے الثقات (٥/٤٩٢)میں بھی ذکر کرنا تعجب خیز ہے !
گھروالوں سے مراد گھر کی عورتیں ہیں ، جیسا کہ امام الائمہ ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے : باب إمامۃ المرأۃ النساء فی الفریضۃ ۔ ”فرض نمازوں میں عورت کا عورتوں کی جماعت کرانے کا بیان ۔”
امام ابن المنذر  رحمہ اللہ نے بھی ایسے ہی باب قائم کیا ہے ۔(الاوسط لابن المنذر : )
دلیل نمبر 2 : حجیرہ بنت حصین بیان کرتی ہیں :
أمّتنا أمّ سلمۃ رضی اللّٰہ عنھا فی العصر ، فقامت بیننا ۔
”نماز ِ عصر میں سیدہ ام ِ سلمہ  رضی اللہ عنہا  نے ہماری امامت کی ، وہ ہمارے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔”(المطالب العالیۃ لابن حجر : ٤٢٧، وسندہ، صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل، امام شافعی ، امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابنِ حزم وغیرہم  رحمہم اللہ  عورت کی امامت کے جواز کے قائل ہیں ۔
جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)لکھتے ہیں :
ولا یخفی ضعفہ ، بل ضعف جمیع ما وجّھوا بہ الکراہیۃ ، کما حقّقناہ فی تحفۃ النبلاء ، ألّفناہا فی مسئلۃ جماعۃ النساء ، وذکرنا ہناک أنّ الحقّ عدم الکراہۃ ، کیف لا ؟ وقد أمّت بھنّ أمّ سلمۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ وجہ کہ عورت صف کے درمیان کھڑی ہوکر ممنوع کا ارتکاب کرے گی ، اس کا ضعف مخفی نہیں ، بلکہ ان تمام کی تمام وجوہ کا ضعیف ہونا مخفی نہیں ،جو عورت کی امامت کے مکروہ ہونے کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں ، جیسا کہ ہم نے تحفۃ النبلاء میں اس کی تحقیق بیان کردی ہے ۔ ہم نے یہ رسالہ عورتوں کی جماعت کے مسئلہ کے بارے میں لکھا ہے ۔ ہم نے اس میں ذکر کیاہے کہ حق یہ ہے کہ عورت کی امامت مکروہ نہیں ہے ۔ عورت کی امامت کیسے مکروہ ہوسکتی ہے ؟ جبکہ سیدہ ام ِ سلمہ  رضی اللہ عنہا  نے عورتوں کی امامت کی ہے ۔۔۔”
(عمدۃ الرعایۃ فی شرح الوقایۃ از لکھنوی : ١/١٥٢)
الحاصل : عورت ، عورتوں کی امام بن سکتی ہے ، یہی حق ہے ۔ کراہت کے قائلین کا قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.