1,815

پیارے رسول کی پیاری بیٹیاں، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

پیارے رسول کی پیاری بیٹیاں

پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

دنیا میں اس شخص سے بڑھ کر شقی اور بدبخت کون ہو سکتا ہے جو پیغمبر اسلام، محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹیوں کو کسی کالے کافر کی اولاد قرار دے،جو جہالت و ضلالت کا سوداگر بن کر یہ نعرہ بلند کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی بیٹی تھی،جو اپنے غلیظ دامن میں یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ اہل بیت کی تحقیر و تصغیر فرضِ عین ہے،جو بصیرت ِقلبی سے محروم ہو کر قرآنی و حدیثی اور اجماعی دلائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب،سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثومg کے بابا نہیں،محض مُرَبِّی تھے؟؟؟
روزِمحشر کا وہ منظر کتنا اندوہناک ہو گا جب ان ناانصافوں کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹیاں اللہ احکم الحاکمین کی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گی کہ انہوں نے ہماری نسبت ہمارے پاک باباسے توڑنے اور ایک ناپاک کافر سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور باغیوں کو گرفتار کر کے عبرت ناک عذاب سے دوچار کرے گا۔وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جس دن ان کے ناپاک ارادے خاک میں مل جائیں گے۔
بنات ِرسول کے بارے میں شیعہ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ر حمہ اللہ (728-661ھ)شیعہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
بَلْ مِنْہُمْ مَّنْ یُّنْکِرُ أَنْ تَکُونَ زَیْنَبُ، وَرُقَیَّۃُ، وَأُمُّ کُلْثُومٍ، مِنْ بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیَقُولُونَ : إِنَّہُنَّ لِخَدِیجَۃَ، مِنْ زَوْجِہَا الَّذِي کَانَ کَافِرًا، قَبْلَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’ان میں سے بعض تو ایسے بھی ہیں جو سیدہ زینب،سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثومgکے بنات ِرسول ہونے کے منکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تینوں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اس کافر خاوند سے پیدا ہونے والی بیٹیاں ہیں جس سے انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آنے سے پہلے نکاح کیا تھا۔‘‘(منہاج السنّۃ النبویّۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریّۃ : 493/4)
ایک مقام پر فرماتے ہیں : وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ : إِنَّ رُقَیَّۃَ، وَأُمَّ کُلْثُومٍ، زَوْجَتَيْ عُثْمَانَ، لَیْسَتَا بِنْتَيِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلٰکِنْ ہُمَا بِنْتَا خَدِیجَۃَ مِنْ غَیْرِہٖ، وَلَہُمْ فِي الْمُکَابَرَاتِ وَجَحْدِ الْمَعْلُومَاتِ بِالضَّرُورَۃِ أَعْظَمُ مِمَّا لِأُولَئِکَ النَّوَاصِبِ الَّذِینَ قَتَلُوا الْحُسَیْنَ، وَہٰذَا مِمَّا یُبَیِّنُ أَنَّہُمْ أَکْذَبُ وَأَظْلَمُ وَأَجْہَلُ مِنْ قَتَلَۃِ الْحُسَیْنِ ۔ ’’بعض شیعہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہکی دونوں بیویاں ،سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہما ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں،بلکہ وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی پہلے خاوند سے ہونے والی بیٹیاں ہیں۔سینہ زوری اور مسلمات کا انکار کرنے میں شیعہ لوگ ان ناصبیوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں جنہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ لوگ قاتلین حسین سے بڑھ کر جھوٹے، ظالم اور جاہل ہیں۔‘‘(منھاج السنّۃ النبویّۃ : 368/4)
آئیے اب اس بارے میں شیعہ کے اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
1 مشہور شیعہ ابوالقاسم علی بن احمد بن موسیٰ کوفی(م : 352ھ)نے لکھا ہے :
وَصَحَّ لَنَا فِیھِمَا مَا رَوَاہُ مَشَایِخُنَا مِنْ أَھْلِ الْعِلْمِ عَنِ الْـأَئِمَّۃِ مِنْ أَھْلِ الْبَیْتِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ، وَذٰلِکَ أَنَّ الرِّوَایَۃَ صحَّتْ عِنْدَنَا عَنْھُمْ أَنَّہٗ کَانَتْ لِخَدِیجَۃَ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ مِّنْ أُمِّھَا أُخْتٌ، یُقَالُ لَھَا ھَالَۃُ، قَدْ تَزَوَّجَھَا رَجُلٌ مِّنْ بَنِي مَخْزُومٍ، فَوَلَدَتْ بِنْتًا اسْمُھَا ھَالَۃ، ثُمَّ خَلَفَ عَلَیْھَا بَعْدَ أَبِي ھَالَۃَ رَجُلٌ مِّن تَمِیمٍ، یُقَالُ لَہٗ أَبُو ھِنْدٍ، فَأَوْلَدَھَا ابْنًا، کَانَ یُسَمّٰی ھِنْدَ ابْنَ أَبِي ھِنْدٍ، وَابْنَتَیْنِ، فَکَانَتَا ھَاتَانِ الِابْنَتَانِ مَنْسُوبَتَیْنِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ (ص) ؛ زَیْنَبُ وَرُقَیَّۃُ ۔۔۔۔۔۔۔
’’ان دونوں(رقیہ اور زینب)کے بارے میں ہم اپنے اہل علم اور ائمہ اہل بیتکی اس روایت کو درست مانتے ہیں کہ ماں کی طرف سے ایک بہن تھی جس کا نام ہالہ تھا۔اس کی شادی بنومخزوم کے ایک شخص سے ہوئی۔اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی،اس کا نام بھی ہالہ ہی رکھا گیا۔ابوہالہ کی وفات کے بعد خدیجہ کی بہن سے بنوتمیم کے ایک شخص ابوہندنے شادی کر لی۔اس سے ایک لڑکا ہند بن ابوہند اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔یہی دو لڑکیاں زینب اور رقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوئیں۔۔۔‘‘(الاستغاثۃ في بدع الثلاثۃ : 68/1)
2 مشہور شیعہ ابن شہرآشوب(م : 588ھ)نے لکھا ہے :
یُؤَکِّدُ ذٰلِکَ مَا ذُکِرَ فِي کِتَابَيِ الْـأَنْوَارِ وَالْبِدَعِ أَنَّ رُقَیَّۃَ وَزَیْنَبَ کَانَتَا ابْنَتَيْ ھَالَۃَ أُخْتِ خَدِیجَۃَ ۔ ’’اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو الانوار اور البدع نامی کتابوں میں مذکورہے کہ رقیہ اور زینب ،خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں ہیں۔‘‘
(مناقب آل أبي طالب : 159/1)
3 مشہور شیعہ ملا احمد بن حمد المعروف بہ مقدس اردبیلی(م : 993ھ)نے لکھا ہے:
قِیلَ : ھُمَا رُقَیَّۃُ وَزَیْنَبُ کَانَتَا ابْنَتَيْ ھَالَۃَ أُخْتِ خَدِیجَۃَ، وَلَمَّا مَاتَ أَبُوھُمَا رُبِّیَتَا فِي حِجْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَمَا کَانَتْ عَادَۃُ الْعَرَبِ فِي نِسْبَۃِ الْمُرَبّٰی إِلَی الْمُرَبِّي، وَھُمَا اللَّتَانِ تَزَوَّجَھُمَا عُثْمَانُ بَعْدَ مَوْتِ زَوْجَیْھِمَا ۔
’’کہا جاتا ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں۔جب ان کا والد فوت ہو گیا تو ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پروش پائی۔یوں ان کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو گئی،جیسا کہ عربوں کی عادت تھی کہ پرورش کرنے والے کی طرف نسبت کر دیتے تھے۔ان دونوں کے خاوند فوت ہونے کے بعد ان سے عثمان نے شادی کر لی تھی۔‘‘(حاشیۃ زبدۃ البیان في أحکام القرآن، ص : 575)
4 مشہور شیعہ محمدمہدی بن صالح موسوی(م : 1348ھ)نے لکھا ہے :
مَا زَعَمَہٗ (أَيِ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ) مِنْ أَنَّ تَزْوِیجَ بِنْتَیْہِ لِعُثْمَانَ فَضِیلَۃٌ لَّہٗ، مِنْ عَجَائِبِہٖ، مِنْ حَیْثُ ثُبُوتِ الْمُنَازَعَۃِ أَنَّھُمَا بِنْتَاہُ ۔
’’ابن تیمیہ نے جو کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی،عثمان کے لیے فضیلت کا باعث ہے،عجیب بات ہے،کیونکہ ان دونوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہونے میں اختلاف ثابت ہے۔‘‘(منہاج الشریعۃ في الردّ علی ابن تیمیّۃ : 289/2)
مزید کہتا ہے : قَدْ عَرَفْتَ عَدَمَ ثُبُوتِ أَنَّھُمَا بِنْتَا خَیْرِ الرُّسُلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، وَعَدَمَ وُجُودِ فَضْلٍ لَّھُمَا، تَسْتَحِقَّان بِہِ الشَّرَفَ وَالْقِدَمَ عَلٰی غَیْرِھِمَا ۔ ’’آپ یہ بات بخوبی جان چکے ہیں کہ ان دونوں کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہونا ثابت نہیں،نہ ان کے لیے کوئی فضیلت موجود ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں پر شرف و فضل کی مستحق ہوں۔‘‘(منہاج الشریعۃ : 291/2)
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹیوں کے بارے میں یہ تو تھا شیعہ کا موقف،اب ملاحظہ فرمائیں:
بنات ِرسول کے بارے میں اہل سنت کا موقف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے بارے میں اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ان کے نام بالترتیب سیدہ زینب،سیدہ رقیہ،سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہg ہیں۔
اہل حق کے دلائل
دلیل نمبر 1 : اجماع
اس بات میں اہل حق کے دو فرد بھی باہم اختلاف نہیں کرتے،جیسا کہ :
1 حافظ ابن عبد البر ر حمہ اللہ (463-368ھ)فرماتے ہیں :
وَوَلَدُہٗ ـــ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ـــ مِنْ خَدِیجَۃَ أَرْبَعُ بَنَاتٍ، لَا خِلَافَ فِي ذٰلِکَ ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چار بیٹیاں تھیں۔اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 50/1، وفي نسخۃ : 89/1بحاشیۃ الإصابۃ)
2 حافظ عبد الغنی مقدسی ر حمہ اللہ (600-541ھ)فرماتے ہیں :
فَالْبَنَاتُ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں ہیں۔اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔‘‘(الدرّۃ المضیّۃ علی السیرۃ النبویّۃ : 8/6 مع التعلیق)
3 حافظ صفدی ر حمہ اللہ (764-696ھ)فرماتے ہیں :
قَالَ الْحَافِظُ عَبْدُ الْغَنِيِّ : فَالْبَنَاتُ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔
’’حافظ عبد الغنی فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘(الوافي بالوفیّات : 79/1)
4 حافظ نووی ر حمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں :
فَالْبَنَاتُ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بالاتفاق چار بیٹیاں ہیں۔‘‘(تہذیب الأسماء : 26/1)
5 حافظ مزی ر حمہ اللہ (742-654ھ)فرماتے ہیں :
وَکَانَ لَہٗ مِنَ الْبَنَاتِ أَرْبَعٌ بِلَا خِلَافٍ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(تہذیب الکمال في أسماء الرجال : 57/1، وفي نسخۃ : 191/1)
جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا انکار کرتے ہیں اور انہیں کسی کافر کی طرف منسوب کرتے ہیں،وہ مسلمانوں کے اجماع کے منکر ہیں۔جو شخص اجماعِ مسلمین کی مخالفت کرے، اس کے گمراہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا،کیونکہ اجماعِ امت حق ہے۔
دلیل نمبر 2 : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ}(الأحزاب 33: 5)
’’تم لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔اللہ کے ہاں یہی بات انصاف والی ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ کسی انسان کو اس کے باپ کے علاوہ کسی غیر کی طرف منسوب کرنا ناانصافی ہے۔احادیث میں واضح طور پر سیدہ زینب،سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں کہا گیاہے۔سارے مسلمان بھی ہر دور میں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں قرار دیتے رہے ہیں۔اگر یہ آپ کی حقیقی بیٹیاں نہیں تھیں تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ناانصافی تھی اور یہ ناممکن ہے کہ احادیث اور اجماعِ امت ِمسلمہ ناانصافی پر مبنی ہو۔لہٰذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ سیدہ زینب،سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثومgکسی کافر کی بیٹیاں تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پرورش کی،اسی بنا پر ان کی نسبت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو گئی،اس آیت ِکریمہ کے صریحاًخلاف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں صاحبات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹیاں تھیں۔ان کے (معاذ اللہ) کسی کافر کی اولاد ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔پھر اصولِ فقہ کا یہ مسلمہ قاعدہ بھی اس بات کی تائید کرتاہے کہ جب تک حقیقت متعذر نہ ہو اور مجاز پر کوئی دلیل نہ ہو،مجازی معنیٰ کی طرف انتقال جائز نہیں ہوتا۔ان تینوں صاحبات کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اولاد ہونے میں کوئی مانع نہیں،نہ ان کے غیر کی اولاد ہونے پر کوئی دلیل ہے۔لہٰذا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹیاں تھیں۔
دلیل نمبر 3 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے :
{یٰٓا َیُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُورًا رَّحِیْمًا}(الأحزاب 33: 59)
’’اے نبی! اپنی بیویوں،بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکالیا کریں۔یہ بات اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔اورا للہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یہ آیت ِکریمہ واضح دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں،کیونکہ اس میں ’’بنات‘‘کا لفظ مستعمل ہے جو کہ ’’بنت‘‘کی جمع ہے۔جمع کے کم سے کم تین افراد ہوتے ہیں۔کسی خارجی دلیل کے ملنے پر جمع کے اقل افراد دو ہو سکتے ہیں۔ایک فرد کے جمع ہونے کا دنیا میں کوئی بھی قائل نہیں۔ایک تو مفرد حقیقی ہے۔اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹی صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں تو ’’بنات‘‘ کہنے کا کیا معنیٰ؟
حدیثی دلائل
آئیے اب پیارے رسول کی پیاری بیٹیوں کے بارے بالترتیب میں حدیثی دلائل ملاحظہ فرمائیں:
1 سیدہ زینب : آپ رضی اللہ عنہا ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔آپ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ان کی شادی ابوالعاص بن ربیع سے ہوئی تھی۔آپ کے بارے میں :
(ا) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ، خَرَجَتِ ابْنَتُہٗ مِنْ مَّکَّۃَ مَعَ بَنِي کِنَانَۃَ، فَخَرَجُوا فِي أَثَرِہَا، فَأَدْرَکَہَا ہَبَّارُ بْنُ الْـأَسْوَدِ، فَلَمْ یَزَلْ یَطْعَنُ بَعِیرَہَا حَتّٰی صَرَعَہَا، فَأَلْقَتْ مَا فِي بَطْنِہَا، وَأُھْرِیْقَتْ دَمًا، فَانْطُلِقَ بِھَا، وَاشْتَجَرَ فِیہَا بَنُو ہَاشِمٍ وَبَنُو أُمَیَّۃَ، فَقَالَتْ بَنُو أُمَیَّۃَ : نَحْنُ أَحَقُّ بِہَا، وَکَانَتْ تَحْتَ ابْنِ عَمِّہِمْ، أَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَکَانَتْ عِنْدَ ہِنْدٍ بِنْتِ رَبِیعَۃَ، وَکَانَتْ تَقُولُ لَہَا ہِنْدٌ : ہٰذَا فِي سَبَبِ أَبِیک، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ لِزَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ : ’أَلَا تَنْطَلِقُ، فَتَجِيئَ بِزَیْنَبَ؟‘، قَالَ : بَلٰی یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! قَالَ : ’فَخُذْ خَاتَمِي ہٰذَا، فَأَعْطِہَا إِیَّاہُ‘، قَالَ : فَانْطَلَقَ زَیْدٌ، فَلَمْ یَزَلْ یَلْطُفُ وَتَرکَ بَعِیرَہٗ حَتّٰی أَتٰی رَاعِیًا، فَقَالَ : لِمَنْ تَرْعٰی؟ فَقَالَ : لِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِیعَۃَ، قَالَ : فَلِمَنْ ہٰذِہِ الْغَنَمُ ؟ قَالَ : لِزَیْنَبَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ ـــ عَلَیْہِ السَّلَامُ ـــ، فَسَارَ مَعَہٗ شَیْئًا، ثُمَّ قَالَ لَہٗ : ہَلْ لَّکَ أَنْ أُعْطِیَکَ شَیْئًا تُعْطِیَہَا إِیَّاہُ، وَلَا تَذْکُرَہُ لِأَحَدٍ؟ قَالَ : نَعَم، فَأَعْطَاہُ الْخَاتَمَ، فَانْطَلَقَ الرَّاعِي، فَأَدْخَلَ غَنَمَہٗ، وَأَعْطَاہَا الْخَاتَمَ، فَعَرَفَتْہُ، فَقَالَتْ : مَنْ أَعْطَاکَ ہٰذَا؟ قَالَ : رَجُلٌ، قَالَتْ : وَأَیْنَ تَرَکْتَہُ؟ قَالَ : مَکَانَ کَذَا وَکَذَا، فَسَکَنَتْ حَتّٰی إِذَا کَانَ اللَّیْلُ خَرَجَتْ إِلَیْہِ، فَقَالَ لَہَا : ارْکَبِي بَیْنَ یَدَيَّ ! قَالَتْ : لَا، وَلٰکِنِ ارْکَبْ أَنْتَ، فَرَکِبَ وَرَکِبَتْ وَرَاء َہٗ، حَتّٰی أَتَتِ النَّبِيَّ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَقُولُ : ’ہِيَ أَفْضَلُ بَنَاتِي، أُصِیبَتْ فِيَّ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا )بھی مکہ سے بنوکنانہ کے ساتھ روانہ ہوئیں۔کفار مکہ ان کے پیچھے آئے اور ہبار بن اسود نے ان کو پالیا۔وہ ان کے اونٹ کو نیزے مارتا رہا حتی کہ ان کو زمین پر گرا دیا۔ان کے بطن میں بچہ تھا،وہ گر گیا۔بہت سارا خون بھی ضائع ہوا۔ان کو واپس لے جایا گیا۔بنوہاشم اور بنوامیہ ان کے سلسلے میں جھگڑنے لگے۔بنوامیہ نے کہا کہ ہم ان کے زیادہ حق دار ہیں۔ دراصل سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ان کے چچازاد ابوالعاص بن ربیعہ بن عبد شمس کے نکاح میں تھیں۔چنانچہ وہ ہند بنت ربیعہ کے پاس رہیں۔ہند انہیں کہا کرتی تھی کہ تیرے ساتھ یہ سب تیرے باپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنازید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم جا کر زینب کو نہیں لے آتے؟انہوں نے عرض کی : کیوں نہیں،اللہ کے رسول!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری یہ انگوٹھی لو اور انہیں پہنچاؤ۔سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہروانہ ہوئے۔وہ چلتے چلتے ایک چرواہے کے پاس پہنچے۔اس نے پوچھا : کس کی بکریاں چرواتے ہو؟ اس نے جواب دیا: زینب بنت محمد علیہ السلام کی۔زید رضی اللہ عنہان کے ساتھ کچھ دیر چلے،پھر فرمایا : کیا تمہیں ایک چیز دی جائے تو رازداری سے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تک پہنچا دو گے؟اس نے کہا : ہاں۔زید رضی اللہ عنہنے وہ انگوٹھی اسے دے دی۔چرواہے نے بکریاں گھر میں داخل کیں اور انگوٹھی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو دے دی۔جب سیدہ نے انگوٹھی دیکھی تو فوراً پہچان لی اور چرواہے سے کہا : یہ انگوٹھی تجھے کس نے دی ہے؟ چرواہے نے کہا : ایک انجان آدمی نے۔ سیدہ نے کہا: تُو اسے کہاں چھوڑ کر آیا ہے؟ اس نے وہ جگہ بتا دی۔سیدہ رات ہونے تک ٹھہری رہیں،پھر اس جگہ پہنچ گئیں۔سیدنا زید رضی اللہ عنہنے سیدہ سے کہا : آپ اونٹ پر آگے سوار ہو جائیے۔سیدہ نے فرمایا : نہیں،آگے آپ سوار ہوں۔سیدنا زید رضی اللہ عنہآگے سوار ہوئے اور سیدہ پیچھے۔یوں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئیں۔اس کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : یہ میری سب سے فضیلت والی بیٹی ہیں،کیونکہ انہوں نے میرے لیے مصائب اٹھائے ہیں۔‘‘(الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم : 2975، المعجم الکبیر للطبراني : 432-431/22، شرح مشکل الآثار للطحاوي : 142، والسیاق لہٗ، مسند البزّار[کشف الأستار] : 2666، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 201-200/2، 44-43/4، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 157-156/3، وسندہٗ حسنٌ)
امام حاکم ر حمہ اللہ نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : رِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ ۔
’’اس کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : 213/9)
حافظ ابن حجر ر حمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’جید‘‘قرار دیا ہے۔(فتح الباري : 109/7)
اس کا راوی یحییٰ بن ایوب غافقی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ ہے۔اس کے بارے میں حافظ نووی ر حمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں :
فِیہِ أَدْنٰی کَلَامٍ، وَقَدْ وَثَّقَہُ الْـأَکْثَرُونَ ۔
’’اس میں تھوڑا سا کلام ہے،البتہ اسے جمہور محدثین کرام نے ثقہ قرار دیا ہے۔‘‘
(المجموع شرح المھذّب : 447/3، خلاصۃ الأحکام : 352/1، ح : 1069)
حافظ ذہبی ر حمہ اللہ (748-673ھ)فرماتے ہیں : لَہٗ غَرَائِبُ وَمَنَاکِیْرُ، یَتَجَنَّبُہَا أَرْبَابُ الصِّحَاحِ، وَیُنَقُّوْنَ حَدِیْثَہٗ، وَہُوَ حَسَنُ الحَدِیْثِ ۔
’’اس نے کچھ منکر روایات بیان کی ہیں جس کی وجہ سے وہ محدثین اس کی ان روایات سے اجتناب کرتے تھے جنہوںنے صحت کا التزام کیا ہے۔ایسے محدثین اس کی صرف صحیح احادیث کا انتخاب کرتے تھے۔اس راوی کی حدیث حسن ہے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 6/8)
(ب) سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : لَمَّا مَاتَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’اغْسِلْنَھَا وِتْرًا، ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، وَاجْعَلْنَ فِي الْخَامِسَۃِ کَافُورًا‘ ۔
’’جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا : انہیں طاق تعداد میں یعنی تین یا پانچ دفعہ غسل دو۔اور پانچویں (یا تیسری)مرتبہ کافور ملاؤ۔ ‘‘(صحیح البخاري : 167/1، ح : 1253، صحیح مسلم : 304/1، ح : 939، واللفظ لہٗ)
(ج) سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّي، وَھُو حَامِلٌ أُمَامَۃَ بِنْتَ زَیْنَبَ، بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَھَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَھَا ۔ ’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ لیتے تھے جو کہ آپ کی بیٹی زینب اور ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی لخت ِجگر تھیں۔‘‘(صحیح البخاري : 74/1، ح : 516، صحیح مسلم : 205/1، ح : 543)
(د) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کے ذکر میں اپنے داماد ابوالعاص کی تعریف فرمائی۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہنے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَمَّا بَعْدُ ! أَنْکَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیعِ، فَحَدَّثَنِي وَصَدَقَنِي‘ ۔
’’حمد و ثنا کے بعد! میں نے ابوالعاص بن ربیع سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔انہوںنے مجھ سے جو بات بھی کی،اس میں سچے اُترے۔‘‘
(صحیح البخاري : 528/1، ح : 3729، صحیح مسلم : 290/2، ح : 2449)
2 سیدہ رقیّہ رضی اللہ عنہا : آپ رضی اللہ عنہا ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی تھیں۔آپ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہکی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔آپ بھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن پاک سے پیدا ہوئیں۔ان کے بارے میں :
(ا) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : إِنَّمَا تَغَیَّبَ عُثْمَانُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّہٗ کَانَتْ تَحْتَہٗ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَتْ مَرِیضَۃً، فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِّمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا، وَسَہْمَہٗ‘ ۔ ’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہغزوۂ بدر میں موجود نہ تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت ِجگر تھیںاور وہ بیمار تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ آپ کے لیے بدر میں حاضر ہونے والوں کی طرح اجر اور حصہ ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 442/1، ح : 3130)
(ب) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہنے فرمایا : إِنِّي تَخَلَّفْتُ یَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنِّي کُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَیَّۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِي، وَمَنْ ضَرَبَ لَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِہٖ، فَقَدْ شَہِدَ ۔
’’میں بدر والے دن پیچھے رہا تھا۔اس کا سبب یہ تھا کہ میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی رقیہ کی تیمارداری کر رہا تھا،حتی کہ وہ وفات پا گئیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے مالِ غنیمت میں حصہ بھی مقرر کیا تھا۔جس شخص کا حصہ اللہ کے رسول مقرر فرما دیں،وہ حاضر ہی شمار ہو گا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 68/1، ح : 490، وسندہٗ حسنٌ)
3 سیدہ أم کلثوم رضی اللہ عنہا : آپ رضی اللہ عنہا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے پیدا ہونے والی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری بیٹی تھیں۔ان کی شادی ان کی بہن سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہسے ہوئی۔یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں دیں۔اسی بنا پر آپ رضی اللہ عنہکو ذوالنورین کا لقب ملا۔سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے بارے میں :
(ا) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہبیان کرتے ہیں :
شَہِدْنَا بِنْتًا لِّرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ : وَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَی القَبْرِ، قَالَ : فَرَأَیْتُ عَیْنَیْہِ تَدْمَعَانِ، قَالَ : فَقَالَ : ’ہَلْ مِنْکُمْ رَجُلٌ لَّمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَۃَ؟‘، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ : أَنَا، قَالَ : ’فَانْزِلْ‘، قَالَ : فَنَزَلَ فِي قَبْرِہَا ۔ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی تدفین میں حاضر تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے آپ کی دونوں آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہتے دیکھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہے جس نے رات کو اپنی بیوی سے مباشرت نہ کی ہو؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہنے عرض کی : ہاں،میں ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قبر میں اترو ۔وہ قبر میں اترے۔‘‘(صحیح البخاري : 171/1، ح : 1285)
یہ روایت ان الفاظ سے بھی مروی ہے : لَمْ یُقَارِفْ أَھْلَہُ اللَّیْلَۃَ ۔(شرح مشکل الآثار للطحاوي : 2514، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 47/4، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ ام کلثوم ہی مراد ہیں،کیونکہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر میں تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرموجودگی میں ان کی تدفین ہو گئی تھی۔مسند احمد کی ایک روایت(229/3، ح : 13431، 270/3، ح : 13398) میں [إِنَّ رُقَیَّۃَ لَمَّا مَاتَتْ] کے الفاظ ہیں۔ان کے بارے میں حافظ ابن حجر ر حمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَھِمَ حَمَّادٌ فِي تَسْمِیَتِھَا فَقَطْ ۔ ’’حماد کو صرف نام میں وہم ہوا ہے۔‘‘
(فتح الباري في شرح صحیح البخاري : 158/3)
(ب) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : إِنَّہٗ رَاٰی عَلٰی أُمِّ کُلْثُومٍ، عََلَیْھَا السَّلَامُ، بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُرْدَ حَرِیرٍ سِیَرَائَ ۔
’’انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم [کے اوپر دھاری دار ریشم کی چادر دیکھی۔‘‘(صحیح البخاري : 5842، السنن الکبرٰی للنسائي : 9505)
سنن نسائی(5294)اور سنن ابن ماجہ(3588)میں سیدہ زینب کا نام بیان ہوا ہے، یہ روایت شاذ ہے۔یہ امام زہری ر حمہ اللہ کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔
ٖٓٗفائدہ : عبد اللہ بن عمربن محمد بن ابان جعفی بیان کرتے ہیں :
قَالَ لِي خَالِي حُسَیْنُ (بْنُ عَلِيٍّ) الْجُعْفِيُّ (م : 204ھـ) : یَا بُنَيَّ ! لِمَ یُسَمّٰی عُثْمَانُ ذُو النُّورَیْنِ؟ قُلْتُ : لَا أَدْرِي، قَالَ : لَمْ یَجْمَعْ بَیْنَ ابْنَتَيْ نَبِيٍّ مُنْذُ خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ إِلٰی أَنْ تَقُومَ السَّاعَۃُ غَیْرَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلِذٰلِکَ سُمِّيَ ذُو النُّورَیْنِ ۔
’’میرے ماموں حسین بن علی جعفی(م : 204ھ) نے مجھ سے فرمایا : بیٹے! کیا تمہیں معلوم ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہکو ذوالنورین کیوں کہا جاتا ہے؟ میں نے عرض کی : میں نہیں جانتا۔فرمایا :سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کسی بھی نبی کی دو بیٹیاں سوائے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہکے کسی شخص کے نکاح میں نہیں آئیں۔اسی لیے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔‘‘(الشریعۃ للآجرّي : 1405، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبہاني : 239، السنن الکبرٰی للبیہقي : 73/7، واللفظ لہٗ، وسندہٗ حسنٌ)
4 سیدہ فاطمۃ الزھراء : آپ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کے بطن پاک سے ہیں۔آپ مولاعلی رضی اللہ عنہکی زوجہ محترمہ اور حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ ہیں۔آپ رضی اللہ عنہا کے بے شمار فضائل و مناقب کتب ِاحادیث میں بیان ہوئے ہیں۔چونکہ باقی بنات ِرسول کا انکار کرنے والے سیدہ فاطمہ کے بنت ِرسول ہونے کے اقراری ہیں،لہٰذا تفصیل کی ضرورت نہیں۔
بعض شیعہ اہل علم کا اقرار
بعض شیعہ علماء بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار حقیقی بیٹیوں کو تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ :
1 بعض شیعہ نے امام جعفرباقر ر حمہ اللہ سے نقل کیاہے :
وُلِدَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ خَدِیجَۃَ : الْقَاسِمُ، وَالطَّاھِرُ، وَأُمُّ کُلْثُومٍ، وَرُقَیَّۃُ، وَفَاطِمَۃُ، وَزَیْنَبُ ۔
’’سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یہ تھی: قاسم،طاہر،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینبy ۔‘‘(قرب الإسناد للحمیري : 9/3، بحار الأنوار للمجلسي : 151/22)
اگرچہ اصولِ محدثین کے مطابق اس قول کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے،لیکن اسے نقل کرنے والے شیعہ کے اصولوںکے مطابق یہ قول بالکل صحیح اور ثابت ہے۔
2 ایک شیعہ امام جعفر صادق ر حمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :
وُلِدَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ خَدِیجَۃَ : الْقَاسِمُ، وَالطَّاھِرُ، وَھُوَ عَبْدُ اللّٰہِ، وَأُمُّ کُلْثُومٍ، وَرُقَیَّۃُ، وَزَیْنَبُ، وَفَاطِمَۃُ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اولاد یہ تھی:قاسم ، عبد اللہ طاہر، ام کلثوم،رقیہ،زینب اور فاطمہy ۔‘‘(الخصال لابن بابویہ القمّي، ص : 404)
3 شیخ الشیعہ،محمد باقر مجلسی رافضی(م : 1111ھ)نے رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی تسبیح یوں ذکر کی ہے : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی أُمِّ کُلْثُومٍ ابْنَۃِ نَبِیِّکَ، وَالْعَنْ مَنْ اٰذٰی نَبِیَّکَ فِیہَا، اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی رُقَیَّۃَ ابْنَۃِ نَبِیِّکَ، وَالْعَنْ مَنْ اٰذٰی نَبِیَّکَ فِیھَا ۔ ’’اے اللہ! تو اپنے نبی کی بیٹی ام کلثوم پر رحمتیں نازل فرما اور اس شخص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے حوالے سے تکلیف دی۔اے اللہ! تُو اپنے نبی کی بیٹی رقیہ پر رحمتیں نازل فرما اور اس شخص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو رقیہ کے حوالے سے تکلیف پہنچائی۔‘‘(بحار الأنوار : 110/95)
4 ابن ابی الحدید رافضی شیعہ(م : 656ھ)نے لکھا ہے :
ثُمَّ وَلَدَتْ خَدِیجَۃُ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْقَاسِمَ، وَالطَّاھِرَ، وَزَیْنَبَ، وَرُقَیَّۃَ، وَأُمَّ کُلْثُومٍ، وَفَاطِمَۃَ ۔
’’سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹے، قاسم وطاہر رضی اللہ عنہما اور چار بیٹیاں، زینب،رقیہ،ام کلثوم اورفاطمہ gتھیں۔‘‘(شرح نہج البلاغۃ : 132/5)
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.