1,762

قبر نبوی سے تبرک، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک ہے،کیونکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اطہر مدفون ہے،لیکن اسے متبرک قرار نہیں دیا جا سکتا،کیونکہ کسی صحابی رسول، کسی تابعی یا تبع تابعی سے با سند ِ صحیح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں۔یہ دین میں غلوّ ہے اور غلوّ اسلام میں ممنوع ہے۔ اسی طرح قبرِ نبی کو مَس کرنا اور بوسہ دینا بھی ثابت نہیں۔
حق دین صرف وہ ہے،جو سلف صالحین نے اپنایا۔ شریعت میں ایسی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں،جن سے سلف صالحین ناواقف تھے۔
1 سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّہُمْ لَمَّا فَتَحُوا تُسْتَرَ، قَالَ : فَوَجَدَ رَجُلًا أَنْفُہٗ ذِرَاعٌ فِي التَّابُوتِ، کَانُوا یَسْتَظْہِرُونَ وَیَسْتَمْطِرُونَ بِہٖ، فَکَتَبَ أَبُو مُوسٰی إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذٰلِکَ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ ہٰذَا نَبِيٌّ مِّنَ الْْأَنْبِیَائِ، وَالنَّارُ لَا تَأْکُلُ الْْأَنْبِیَائَ، وَالْـأَرْضُ لَا تَأْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، فَکَتَبَ أَنِ انْظُرْ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ، یَعْنِي أَصْحَابَ أَبِي مُوسٰی، فَادْفِنُوہُ فِي مَکَانٍ لَّا یَعْلَمُہٗ أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، قَالَ : فَذَہَبْتُ أَنَا وَأَبُو مُوسٰی، فَدَفَنَّاہُ ۔
’’جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا، ان کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں اور سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما گئے اور انہیں (ایک گم نام جگہ میں)دفن کر دیا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 27/13، وسندہٗ صحیحٌ)
اگر نبی کی قبر سے تبرک لینا جائز ہوتا، تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کبھی یہ نہ فرماتے:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو اور وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔صحابہ کرام کبھی ایسا نہ کرتے۔
حکمت کی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر کا علم ہمیں نہیں دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ہر قسم کے غلوّ سے بچا کر بھی رکھا گیا۔ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین اعلام کی قبروں کا ہمیں علم نہیں، کیونکہ قبروں سے تبرک اور وسیلہ جائز نہیں، ورنہ انبیائے کرام کی قبریں ہم پر ظاہر کر دی جاتیں۔
2 سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (سفر سے واپسی کے موقع پر)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کرتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لیے رحمت کی دُعا کرتے۔
(الموطأ للإمام مالک : 166/1، ح : 68، وسندہٗ صحیحٌ)
3 نافع تابعی رحمہ اللہ اپنے استاذ،صحابی جلیل کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَکْرَہُ مَسَّ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘
(جزء محمّد بن عاصم الثقفيّ، ص : 106، ح : 27، سیر أعلام النبلاء للذھبي : 378/12، وسندہٗ صحیحٌ)
4 مشہور تابعی،ابو العالیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ؛ وَجَدْنَا فِي بَیْتِ مَالِ الْہُرْمُزَانِ سَرِیرًا عَلَیْہِ رَجُلٌ مَیِّتٌ، عِنْدَ رَأْسِہٖ مُصْحَفٌ لَّہٗ، فَأَخَذْنَا الْمُصْحَفَ، فَحَمَلْنَاہُ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَدَعَا لَہٗ کَعْبًا، فَنَسَخَہٗ بِالْعَرَبِیَّۃِ، أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ مِّنَ الْعَرَبِ قَرَأَہٗ، قَرَأْتُہٗ مِثْلَ مَا أَقْرَأُ الْقُرْآنَ ہٰذَا، فَقُلْتُ لِأَبِي الْعَالِیَۃِ : مَا کَانَ فِیہِ؟ فَقَالَ : سِیرَتُکُمْ، وَأُمُورُکُمْ، وَدِینُکُمْ، وَلُحُونُ کَلَامِکُمْ، وَمَا ہُوَ کَائِنٌ بَعْدُ، قُلْتُ : فَمَا صَنَعْتُمْ بِالرَّجُلِ؟ قَالَ : حَفَرْنَا بِالنَّہَارِ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ قَبْرًا مُتَفَرِّقَۃً، فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّیْلِ دَفَنَّاہُ وَسَوَّیْنَا الْقُبُورَ کُلَّہَا، لِنُعَمِّیَہٗ عَلَی النَّاسِ لَا یَنْبُشُونَہٗ، فَقُلْتُ : وَمَا تَرْجُونَ مِنْہُ؟ قَالَ : کَانَتِ السَّمَائُ إِذَا حُبِسَتْ عَلَیْہِمْ بَرَزُوا بِسَرِیرِہٖ، فَیُمْطَرُونَ، قُلْتُ : مَنْ کُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ؟ قَالَ : رَجُلٌ یُّقَالُ لَہٗ : دَانْیَالُ، فَقُلْتُ : مُذْ کَمْ وَجَدْتُمُوہُ مَاتَ؟ قَالَ : مُذْ ثَلَاثِمِائَۃِ سَنَۃٍ، فَقُلْتُ : مَا کَانَ تَغَیَّرَ شَيْئٌ؟ قَالَ : لَا، إِلَّا شُعَیْرَاتٌ مِّنْ قَفَاہُ، إِنَّ لُحُومَ الْـأَنْبِیَائِ لَا تُبْلِیہَا الْـأَرْضُ، وَلَا تَأْکُلُہَا السِّبَاعُ ۔
’’ہم نے جب تستر شہر کو فتح کیا،تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی،جس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔اس کے سر کے پاس ایک کتاب پڑی تھی۔ہم نے وہ کتاب اٹھالی اور اسے سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا، جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔میں عربوں میں پہلا شخص تھا،جس نے اس کتاب کو پڑھا۔میں اس کتاب کو یوں پڑھ رہا تھا گویا کہ قرآن کو پڑھ رہا ہوں۔
ابو العالیہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں:میں نے ان سے پوچھا:اس کتاب میں کیا لکھاتھا؟انہوں نے فرمایا:اس میں امت ِمحمدیہ کی سیرت،معاملات،دین، تمہارے لہجے اور بعد کے حالات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
میں نے عرض کیا:آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا:ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ(13)قبریں کھودیں،پھر رات کے وقت ان میں سے ایک میں انہیں دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور قبر کشائی نہ کر سکیں۔میں نے عرض کیا:وہ لوگ اس فوت شدہ سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی چارپائی کو باہر نکالنے سے بارش برسائی جاتی ہے۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال میں وہ شخص کون ہو سکتا تھا؟انہوں نے کہا:ایک آدمی تھا،جسے دانیال کہا جاتا تھا۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکے تھے؟ انہوں نے فرمایا:تین سو(300)سال سے(لگتا ہے کہ تین ہزار سال کے الفاظ تین سو سال میں تبدیل ہو گئے ہیں)۔ میں نے کہا:کیا ان کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ انہوں نے فرمایا:بس گدی سے چند بال گرے تھے،کیونکہ انبیاء ِ کرام کے اجسام میں نہ زمین تصرف کرتی ہے، نہ درندے اسے کھاتے ہیں۔‘‘
(السیرۃ لابن إسحاق : 66، 67، طبع دار الفکر، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 382/1، وسندہٗ حسنٌ)
ان آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ،انبیاء ِ کرام کی قبروں سے تبرک اور توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔اسی لئے انہوں نے بڑے اہتمام سے ایک نبی کی قبر کو چھپا دیا تا کہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ اس سے تبرک اور توسل حاصل کر سکیں۔
b اسی بارے میںشیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)فرماتے ہیں :
فَفِي ہٰذِہِ الْقِصَّۃِ مَا فَعَلَہُ الْمُہَاجِرُونَ وَالْـاَنْصَارُ، مِنْ تَعْمِیَۃِ قَبْرِہٖ، لِئَلَّا یَفْتَتِنَ بِہِ النَّاسُ، وَہُوَ إِنْکَارٌ مِّنْہُمْ لِذٰلِکَ ۔
’’اس واقعے میںمہاجرین اور انصار صحابہ کرام yنے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا تاکہ لوگ اس کی وجہ سے شرک و بدعت میںمبتلا نہ ہوں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام انبیا و صلحا کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔‘‘
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم : 200/2)
b شیخ الاسلام ثانی،عالِمِ ربانی،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں:
فَفِي ہٰذِہِ الْقِصَّۃِ مَا فَعَلَہُ الْمُہَاجِرُوْنَ وَالْـأَنْصَارُ مِنْ تَعْمِیَۃِ قَبْرِہٖ، لِئَلَّا یَفْتَتِنَ بِہِ النَّاسُ، وَلَمْ یُبْرِزُوْہُ لِلدُّعَائِ عِنْدَہٗ وَالتَّبَرُّکِ بِہٖ، وَلَوْ ظَفِرَ بِہِ الْمُتَأَخِّرُوْنَ لَجَادَلُوْا عَلَیْہِ بِالسُّیُوْفِ، وَلَعَبَدُوْہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، فَہُمْ قَدِ اتَّخَذُوْا مِنَ الْقُبُوْرِ أَوْثَاناً مَّنْ لَّا یُدَانِي ہٰذَا وَلَا یُقَارِبُہٗ، وَأَقاَمُوْا لَہَا سَدَنَۃً، وَجَعَلُوْہَا مَعَابِدَ أَعْظَمَ مِنَ الْمَسَاجِدِ ۔
فَلَوْ کَانَ الدُّعَائُ عِنْدَ الْقُبُوْرِ وَالصَّلاَۃُ عِنْدَہَا وَالتَّبَرُّکُ بِہَا فَضِیْلَۃً أَوْ سُنَّۃً أَوْ مُبَاحاً؛ لَنَصَبَ الْمُہَاجِرُوْنَ وَالْـأَنْصَارُ ہٰذَا الْقَبْرَ عِلْمًا لِّذٰلِکَ، وَدَعَوْا عِنْدَہٗ، وَسَنُّوْا ذٰلِکَ لِمَنْ بَّعْدَہُمْ، وَلٰکِنْ کَانُوْا أَعْلَمَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَدِیْنِہٖ مِنَ الْخُلُوْفِ الَّتِي خَلَفَتْ بَعْدَہُمْ، وَکَذٰلِکَ التَّابِعُوْنَ لَہُمْ بِإِحْسَانِ رَّاحُوْا عَلٰی ہٰذَا السَّبِیْلِ، وَقَدْ کَانَ عِنْدَہُمْ مِّنْ قُبُوْرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْـأَمْصَارِ عَدَدٌ کَثِیْرٌ، وَہُمْ مُّتَوَافِرُوْنَ، فَمَا مِنْہُمْ مَنِ اسْتَغَاثَ عِنْدَ قَبْرِ صَاحِبٍ، وَلَا دَعَاہُ، وَلاَ دَعَا بِہٖ، وَلاَ دَعَا عِنْدَہٗ، وَلاَ اسْتَشْفٰی بِہٖ، وَلَا اسْتَسْقٰی بِہٖ، وَلَا اسْتَنْصَرَ بِہٖ، وَمِنَ الْمَعْلُوْمِ أَنَّ مِثْلَ ہٰذَا مِمَّا تَتَوَفَّرُ الْہِمَمُ وَالدَّوَاعِي عَلٰی نَقْلِہٖ، بَلْ عَلٰی نَقْلِ مَا ہُوْ دُوْنَہٗ ۔
وَحِیْنَئِذٍ، فَلَا یَخْلُوْ، إِمَّا أَنْ یَّکُوْنَ الدُّعَائُ عِنْدَہَا وَالدُّعَائُ بِأَرْبَابِہَا أَفْضَلَ مِنْہُ فِي غَیْرِ تِلْکَ الْبُقْعَۃِ، أَوْ لَا یَکُوْنَ، فَإِنْ کَانَ أَفْضَلَ، فَکَیْفَ خَفِيَ عِلْمًا وَّعَمَلاً عَلَی الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ وَتَابِعِیْہِمْ؟ فَتَکُوْنُ الْقُرُوْنُ الثَّلَاثَۃُ الْفَاضِلَۃُ جَاہِلَۃً بِہٰذَا الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ، وَتَظْفَرُ بِہِ الْخُلُوْفُ عِلْمًا وَّعَمَلاً؟ وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَّعْلَمُوْہُ وَیَزْہَدُوْا فِیْہِ، مَعَ حِرْصِہِمْ عَلٰی کُلِّ خَیْرٍ لَّا سِیَّمَا الدُّعَائُ، فَإِنَّ الْمُضْطَرَّ یَتَشَبَّثُ بِکُلِّ سَبَبٍ، وَإِنْ کَانَ فِیْہِ کَرَاہَۃٌ مَّا، فَکَیْفَ یَکُوْنُوْنَ مُضْطَرِّیْنَ فِي کَثِیْرٍ مِّنَ الدُّعَائِ، وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ فَضْلَ الدُّعَائِ عِنْدَ الْقُبُوْرِ، ثُمَّ لَا یَقْصُدُوْنَہٗ؟ ہٰذَا مَحَالٌ طَبَعاً وَّشَرْعاً ۔
فَتَعَیَّنَ الْقِسْمُ الآخَرُ، وَہُوَ أَنَّہٗ لاَ فَضْلَ لِلدُّعَائِ عِنْدَہَا، وَلَا ہُوَ مَشْرُوْعٌ، وَلَا مَأْذُوْنٌ فِیْہِ بِقَصْدِ الْخُصُوْصِ، بَلْ تَخْصِیْصُہَا بِالدُّعَائِ عِنْدَہَا ذَرِیْعَۃٌ إِلٰی مَا تَقَدَّمَ مِنَ الْمَفَاسِدِ، وَمِثْلُ ہٰذَا مِمَّا لَا یَشْرَعُہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ الْبَتَّۃَ، بَلِ اسْتِحْبَابُ الدُّعَائِ عِنْدَہَا شَرْعُ عِبَادَۃٍ لَّمْ یَشْرَعْہَا اللّٰہُ، وَلَمْ یُنَزِّلْ بِہَا سُلْطَاناً ۔
’’اس واقعہ میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام نے سیّدنا دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپا دیا تاکہ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔ انہوں نے دعا اور تبرک کی خاطر قبر کو ظاہر نہیں کیا۔اگر بعد والے مشرک وہاں ہوتے،تو تلواریں لے کر ٹوٹ پڑتے،اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے،ان کی قبروں کو بت خانہ بنا لیتے،وہاں ایک قبہ بنا دیتے،اس پر مجاور بن بیٹھتے،اسے مساجد سے بھی بڑی عبادت گاہ بنا ڈالتے،کیونکہ وہ ان لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا چکے ہیں، جو ان سے کم درجہ ہیں۔
اگر قبروں کے پاس دعا مانگنا اور وہاں نماز پڑھنا اور فیض روحانی حاصل کرنا فضیلت والا کام یا سنت،بلکہ مباح بھی ہوتا، تو مہاجرین وانصار اس قبرپر جھنڈا گاڑ دیتے،وہاں اپنے لیے دعا کرتے اور بعدوالوں کے لیے ایک طریقہ جاری کر دیتے،لیکن وہ بعد والوں کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زیادہ جاننے والے تھے۔یہی حال تابعین عظام کا تھا کہ وہ بھی انہی کے راستے پر چلتے رہے،حالانکہ ان کے پاس مختلف شہروں میں صحابہ کرام کی بے شما ر قبریں تھیں، لیکن انہوں نے کسی صحابی کی قبر سے فریاد نہیں کی،نہ اسے پکارا،نہ اس کے ذریعے دعا کی،نہ اس کے پاس جا کر دعاکی،نہ اس کے واسطے سے شفا طلب کی،نہ اس کے واسطے سے بارش طلب کی،نہ اس کے ذریعے سے مدد طلب کی اور یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ان کے پاس ایسی باتوں کو نقل کرنے کی استطاعت اور وافر اسباب موجود تھے،بلکہ انہوں نے اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نقل کی ہوئی ہیں۔
یوں یہ صورتِ حال دوباتوں سے خالی نہیں ہے ؛یا تو قبر کے پاس دعا کرنا اور اس کے وسیلے سے مانگنا دوسری جگہوں سے افضل ہے یا نہیں۔اگر افضل ہے، تو اس کا علم اور عمل صحابہ کرام ، تابعین اورتبع تابعین سے کیسے مخفی رہا؟ کیا پھر تین افضل ادوار اس فضل عظیم سے لا علم رہے اور برے جانشینوں نے اسے ڈھونڈ لیا؟
کیونکہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ انہیں پتہ بھی چل جائے، مگر وہ اس سے صرف ِنظر کر جائیں،حالانکہ وہ ہر نیکی بالخصوص دعا کے حریص تھے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مجبورآدمی تو ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے،اگرچہ اس میں کراہت ہی ہو؟ توکیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دعائوں کی قبولیت کے سلسلے میں مجبور بھی ہوں اور وہ قبروں کے پاس دعا کی فضیلت جانتے ہوئے بھی اس کا قصد نہ کرتے ہوں،یہ بات طبعاً اور شرعاً نا ممکن ہے؟
اب دوسری قسم کا تعین ہو گیاکہ ان قبروں کے پاس دعا کرنے میں فضیلت اور مشروعیت نہیں ہے،نہ خصوصی طور پر وہاں جانے کی اجازت ہے،بلکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ دعا کرنا ان خرابیوں کا سبب بنتا ہے،جو شروع کتاب میں بیان ہو چکی ہیں۔وہاں اپنے لیے دعا مانگنے کو جائز اور افضل جاننا ایسی عبادت ہے،جس کی شرع میں اجازت نہیں،نہ ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز رکھا اور نہ ہی اس کے حق میں کوئی دلیل نازل کی ہے۔ ‘‘
(إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 203/1۔204)
من و عن یہی عبارت علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ (981ھ)نے اپنی کتاب زیارۃ القبور (ص:39۔40)میں ذکر کی ہے۔
قبروں کو چھونا اور بوسہ دینا علمائِ اسلام کی نظر میں :
قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں علماء ِاسلام کی آرا ملاحظہ ہوں:
n ابو حامد محمد بن محمد طوسی، المعروف بہ علامہ غزالی(450۔505ھ)قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں :
إِنَّہٗ عَادَۃُ النَّصَارٰی وَالْیَھُودِ ۔
’’ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔‘‘(إحیاء علوم الدین : 244/1)
n حافظ نووی رحمہ اللہ (631۔676ھ)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کو چومنے اور اس پر ماتھا وغیرہ ٹیکنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
لاَ یَجُوزُ أَنْ یُّطَافَ بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیُکْرَہُ إِلْصَاقُ الْبَطْنِ وَالظَّہْرِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ، قَالَہُ الْحَلِیمیُّ وَغَیْرُہٗ، وَیُکْرَہُ مَسْحُہٗ بِالْیَدِ وَتَقْبِیلُہٗ، بَلِ الْـاَدَبُ أَنْ یَّبْعُدَ مِنْہُ کَمَا یَبْعُدُ مِنْہُ لَوْ حَضَرَ فِي حَیَاتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ہٰذَا ہُوَ الصَّوَابُ، وَہُوَ الَّذِي قَالَہُ الْعُلَمَائُ وَأَطْبَقُوا عَلَیْہِ، وَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یَغْتَرَّ بِکَثِیرٍ مِّنَ الْعَوَامِّ فِي مُخَالَفَتِہِمْ ذٰلِکَ، فَإِنَّ الِاقْتِدَائَ وَالْعَمَلَ؛ إِنَّمَا یَکُونُ بِأَقْوَالِ الْعُلمائِ، وَلاَ یُلْتَفَتُ إِلٰی مُحْدَثَاتِ الْعَوَّامِ وَجَہَالَاتِہِمْ، وَلَقَدْ أَحْسَنَ السَّیِّدُ الْجَلِیلُ أَبُو عَلِيٍّ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ رَّحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِي قَوْلہٖ مَا مَعْنَاہُ : اِتَّبِعْ طُرُقَ الْہُدٰی وَلاَ یَضُرُّکَ قِلَّۃُ السَّالِکِینَ، وَإِیَّاکَ وَطُرُقَ الضَّلاَلَۃِ، وَلاَ تَغْتَرَّ بِکَثْرَۃِ الْہَالِکِینَ، وَمَنْ خَطَرَ بِبَالِہٖ أَنَّ الْمَسْحَ بِالْیَدِ وَنَحْوِہٖ أَبْلَغُ فِي الْبَرَکَۃِ، فَہُوَ مِنْ جَہَالَتِہٖ وَغَفْلَتِہٖ، لِأَنَّ الْبَرَکَۃَ إِنَّمَا ہِيَ فِیمَا وَافَقَ الشَّرْعَ وَأَقْوَالَ الْعُلَمَائِ، وَکَیْفَ یُبْتَغَی الْفَضْلُ فِي مُخَالَفَۃِ الصَّوَابِ ؟
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا جائز نہیں۔اسی طرح قبر مبارک کی دیوار سے اپنا پیٹ اور اپنی پشت چمٹانا بھی مکروہ ہے،علامہ حلیمی وغیرہ نے یہ بات فرمائی ہے۔ قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانااور اسے بوسہ دینا بھی مکروہ عمل ہے۔قبر مبارک کا اصل ادب تو یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ کے پاس حاضر ہونے والے کے لیے ادب دور رہنا ہی تھا۔یہی بات درست ہے اور علماء ِ کرام نے اسی بات کی صراحت کی ہے اور اس پر اتفاق بھی کیا ہے۔کوئی مسلمان اس بات سے دھوکا نہ کھا جائے کہ عام لوگ ان ہدایات کے برعکس عمل کرتے ہیں،کیونکہ اقتدا تو علمائِ کرام کے (اتفاقی)اقوال کی ہوتی ہے ،نہ کہ عوام کی بدعات اور جہالتوں کی۔سید جلیل،ابوعلی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے:راہِ ہدایت کی پیروی کرو،اس راہ پر چلنے والوں کی قلت نقصان دہ نہیں۔گمراہیوں سے بچواور گمراہوں کی کثرت ِافراد سے دھوکا نہ کھاؤ(ہم اس قول کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے)۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قبرمبارک کو ہاتھ لگانے اور اس طرح کے دوسرے بدعی کاموں سے زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے، وہ اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر ایسا سوچتا ہے،کیونکہ برکت تو شریعت کی موافقت اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ملتی ہے۔خلاف ِشریعت کاموں میں برکت کا حصول کیسے ممکن ہے؟۔‘‘
(الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص : 456)
b شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)فرماتے ہیں :
وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ أَوِ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، أَوْ قَصْدُہٗ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہٗ، مُعْتَقِدًا أَنَّ الدُّعَائَ ہُنَاکَ أَفْضَلُ مِنَ الدُّعَائِ فِي غَیْرِہٖ، أَوِ النَّذْرُ لَہٗ وَنَحْوُ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ ہٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ ہُوَ مِمَّا اُحْدِثَ مِنَ الْبِدَعِ الْقَبِیحَۃِ الَّتِي ہِيَ مِنْ شُعَبِ الشِّرْکِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ ۔
’’قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانا،اس کے پاس نماز پڑھنا،دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا،یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا کرنا عام جگہوں پر دُعا کرنے سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں،جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم واحکم۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 321/24)
b نیز فرماتے ہیں :
وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ، اَيَّ قَبْرٍ کَانَ، وَتَقْبِیلُہٗ وَتَمْرِیغُ الْخَدِّ عَلَیْہِ، فَمَنْہِيٌّ عَنْہُ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ، وَلَمْ یَفْعَلْ ہٰذَا أَحَدٌ مِّنْ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا، بَلْ ہٰذَا مِنَ الشِّرْکِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا}(نوح71:24-23)، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ ہٰؤُلَائِ أَسْمَائُ قَوْمٍ صَالِحِینَ، کَانُوا مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، وَأَنَّہُمْ عَکَفُوا عَلٰی قُبُورِہِمْ مُّدَّۃً، ثُمَّ طَالَ عَلَیْہِمُ الْـاَمَدُ، فَصَوَّرُوا تَمَاثِیلَہُمْ، لَاسِیَّمَا إِذَا اقْتَرَنَ بِذٰلِکَ دُعَائُ الْمَیِّتِ وَالِاسْتِغَاثَۃُ بِہٖ ۔
’’قبر کسی کی بھی ہو،اس کو(تبرک کی نیت سے)چھونا،بوسہ دینا اور اس پر اپنے رخسار ملنا منع ہے اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔یہ کام انبیاء ِ کرام کی قبور ِمبارکہ کے ساتھ بھی کیا جائے،تو اس کا یہی حکم ہے۔اسلافِ امت اور ائمہ دین میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا،بلکہ یہ کام شرک ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا}(نوح 71 : 24-23) (وہ [قوم نوح کے مشرکین]کہنے لگے:تم کسی بھی صورت وَد، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑو،[یوں]انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کر دیا)۔یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ یہ سب قومِ نوح کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ایک عرصہ تک یہ لوگ ان کی قبروں پر ماتھے ٹیکتے رہے،پھر جب لمبی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان نیک ہستیوں کی مورتیاں گھڑ لیں۔قبروں کی یہ تعظیم اس وقت خصوصاً شرک بن جاتی ہے جب اس کے ساتھ ساتھ میت کو پکارا جانے لگے اور اس سے مدد طلب کی جانے لگے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 91/27۔92)
b شیخ موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
اِتَّفَقَ السَّلَفُ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَسْتَلِمُ قَبْرًا مِّنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ وَغَیْرِہِمْ، وَلَا یَتَمَسَّحُ بِہٖ، وَلَا یُسْتَحَبُّ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، وَلَا قَصْدُہٗ لِلدُّعَائِ عِنْدَہٗ، أَوْ بِہٖ، لِأَنَّ ہٰذِہِ الْـاُمُورَ کَانَتْ مِنْ أَسْبَابِ الشِّرْکِ وَعِبَادَۃِ الْـأَوْثَانِ ۔
’’سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیاء ِ کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے ،نہ ان کو (تبرک کی نیت سے)چھونا۔قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دُعا کرنامستحسن نہیں۔یہ سارے کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 31/27)
b علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (م:737ھ)قبرنبوی کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَتَرٰی مَنْ لَّا عِلْمَ عِنْدَہٗ یَطُوفُ بِالْقَبْرِ الشَّرِیفِ، کَمَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ الْحَرَامِ، وَیَتَمَسَّحُ بِہٖ وَیُقَبِّلُہٗ، وَیُلْقُونَ عَلَیْہِ مَنَادِیلَہُمْ وَثِیَابَہُمْ، یَقْصِدُونَ بِہِ التَّبَرُّکَ، وَذٰلِکَ کُلُّہٗ مِنَ الْبِدَعِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ إِنَّمَا یَکُونُ بِالِاتِّبَاعِ لَہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَمَا کَانَ سَبَبُ عِبَادَۃِ الْجَاہِلِیَّۃِ لِلْـاَصْنَامِ؛ إِلَّا مِنْ ہٰذَا الْبَابِ ۔
’’آپ جاہلوں کو دیکھیں گے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا کعبہ کی طرح طواف کرتے ہیں، اور تبرک کی نیت سے اس کو چھوتے ہیں ،بوسہ دیتے ہیں، اس پر اپنے رومال اور کپڑے ڈالتے ہیں۔یہ سارے کام بدعت ہیں،کیونکہ برکت تو صرف اور صرف آپ علیہ السلام کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔دور ِجاہلیت میں بتوں کی عبادت کا سبب یہی چیزیں بنی تھیں۔ ‘‘(المدخل : 263/1)
b احمدونشریسی(م :914ھ)لکھتے ہیں:
وَمِنْھَا تَقْبِیلُ قَبْرِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ أَوِ الْعَالِمِ، فِإِنَّ ھٰذَا کُلَّہٗ بِدْعَۃٌ ۔
’’ان کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی نیک شخص یا عالم کی قبر کو چوما جائے، یہ سب کام بدعت ہیں۔‘‘(المعیار المعرب : 490/2)
b علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل، طحطاوی، حنفی(م:1231ھ) کہتے ہیں:
وَلَا یَمَسُّ الْقَبْرَ، وَلَا یُقَبِّلُہٗ، فَإِنَّہٗ مِنْ عَادَۃِ أَہْلِ الْکِتَابِ ۔
’’(قبروں کی زیارت کرنے والا)نہ قبر کو چھوئے اور نہ بوسہ دے،کیونکہ یہ یہود و نصاریٰ کا وطیرہ ہے۔‘‘
(حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح : 620)
b علامہ،عبد الرؤف،مناوی رحمہ اللہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’فَزُورُوا الْقُبُورَ‘، أَي بِشَرْطِ أَنْ لَّا یَقْتَرِنَ بِذٰلِکَ تَمَسُّحٌ بِالْقَبْرِ، أَوْ تَقْبِیلٌ، أَوْ سُجُودٌ عَلَیْہِ، أَوْ نَحْوُ ذٰلِکَ، فَإِنَّہٗ کَمَا قَالَ السُّبْکِيُّ : بِدْعَۃٌ مُّنْکَرَۃٌ، إِنَّمَا یَفْعَلُہَا الْجُہَّالُ ۔
’’تم قبروں کی زیارت کرو،یعنی اس شرط پر کہ زیارت کے ساتھ قبر کو چھونے یا چومنے یا اس پر سجدہ وغیرہ کرنے کا ارتکاب نہ کیا جائے۔کیونکہ یہ بقول علامہ سبکی منکر بدعت اور جاہلوں کا کام ہے۔‘‘
(فیض القدیر : 55/5، شفاء السقام للسبکي، ص : 313)
اس سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین انبیاء ِکرام کی قبروں سے تبرک حاصل نہیں کرتے تھے، لیکن جو لوگ سلف صالحین کی مخالفت اور بدعت کو بھی جائز سمجھتے ہوں،ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
علامہ ابن عابدین،شامی حنفی لکھتے ہیں :
وَضْعُ السُّتُورِ، وَالْعَمَائِمِ، وَالثِّیَابِ عَلٰی قُبُورِ الصَّالِحِینَ الْـأَوْلِیَائِ کَرِہَہُ الْفُقَہَائُ، حَتّٰی قَالَ فِي فَتَاوَی الْحُجَّۃِ : وَتُکْرَہُ السُّتُورُ عَلَی الْقُبُورِ، وَلٰکِنْ نَّحْنُ الْآنَ نَقُولُ : إِنْ کَانَ الْقَصْدُ بِذٰلِکَ التَّعْظِیمَ فِي أَعْیُنِ الْعَامَّۃِ، حَتّٰی لَا یَحْتَقِرُوا صَاحِبَ ہٰذَا الْقَبْرِ۔۔۔، فَہُوَ أَمْرٌ جَائِزٌ لَّا یَنْبَغِي النَّہْيُ عَنْہُ، لِأَنَّ الْـأَعْمَالَ بِالنِّیَّاتِ، وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّا نَوٰی، فَإِنَّہٗ وَإِنْ کَانَ بِدْعَۃً عَلٰی خِلَافِ مَا کَانَ عَلَیْہِ السَّلَفُ ۔۔۔ ۔
’’نیک اولیا کی قبروں پر چادریں،پگڑیاں اور کپڑے رکھنے کو ہمارے فقہا نے مکروہ قرار دیا ہے،حتی کہ فتاوی الحجہ میں لکھا ہے : قبروں پر چادریں ڈالنا مکروہ ہے۔ لیکن ہم اب کہتے ہیں کہ اگر اس سے عام لوگوں کی نظروں میں صاحب ِقبر کی تعظیم پیدا کرنا مقصود ہو تاکہ وہ صاحب ِقبر کو حقیر نہ سمجھیں۔۔۔،تو یہ جائز ہے، اس سے روکنا درست نہیں،کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی کچھ ملتا ہے،جس کی وہ نیت کرتا ہے۔یہ عمل اگرچہ بدعت ہے اور اس طریقے کے خلاف ہے،جس پر سلف صالحین کاربند تھے۔۔۔‘‘
(العقود الدریّۃ في تنقیح الفتاوی الحامدیّۃ : 325/2، فتاوی الشامي : 363/6)
ملاحظہ فرمائیں کہ اسے بدعت بھی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بھی اقرار کیا جا رہا ہے کہ سلف صالحین اس عمل پر کاربند نہیں تھے،لیکن پھر بھی اسے جائز کہا جا رہا ہے۔کیا اس سے یہ بات بخوبی معلوم نہیں ہو جاتی کہ بعض لوگ اپنا دین کتاب وسنت اور سلف صالحین سے نہیں،بلکہ اپنی آراو خواہشات سے اخذ کرتے ہیں۔قبروں کی جعلی اور خود ساختہ تعظیم سے شرک کی راہ ہموار کرنا مقصود ہے۔اگر شریعت میں اس کا کوئی تصور ہوتا،تو سلف صالحین اسے ضرور اپناتے۔ صحابہ کرام نے قبر نبی اور تابعین عظام نے قبور ِصحابہ کے ساتھ اور تبع تابعین اعلام نے قبور ِ تابعین کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں کیا۔
b فقہ حنفی کی مستند کتاب میں لکھا ہے :
وَلَا یَمْسَحُ الْقَبْرَ وَلَا یُقَبِّلُہٗ، فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَادَۃِ النَّصَارٰی، وَلَا بَأْسَ بِتَقْبِیلِ قَبْرِ وَالِدَیْہِ ۔
’’قبرستان جانے والا قبر کو نہ چھوئے،نہ بوسہ دے،کیونکہ یہ نصاریٰ کی عادت ہے، البتہ اپنے والدین کی قبر کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
(الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 351/5)
قبروں کو بوسہ دینا جب نصاریٰ کی عادت ہے تو یہ عادت والدین کی قبر پر کیسے سند ِجواز حاصل کر لے گی؟
صحابہ کرام اور قبر رسول سے تبرک :
بعض الناس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، ان کے مزعومہ دلائل کا انتہائی مختصر اور جامع تبصرہ پیش خدمت ہے:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور قبر نبوی سے تبرک :
1 جب سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے خط پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لئے شہر سے باہر نکلے کو کہا، تو سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مسجد ِنبوی میں حاضر ہو کر چار رکعت نماز ادا کی،پھر قبر رسول کی زیارت کی اور سلام کیا۔
(فتوح الشام للواقدي : 306/1۔307)
تبصرہ :
یہ بے سند کہانی محمد بن عمرواقدی کی گھڑنتل ہے۔
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عِنْدِي مِمَّنْ یَّضَعُ الْحَدِیْثَ ۔
’’میرے نزدیک اس کا شمار حدیث گھڑنے والوں میں ہوتا ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 21/8، وسندہٗ صحیحٌ)
b اسے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل : 21/8)،امام بخاری رحمہ اللہ (الضعفاء الکبیر للعقیلي : 107/4، وسندہٗ صحیحٌ)، امام مسلم رحمہ اللہ (الکنٰی والأسماء : 1952)،امام نسائی رحمہ اللہ (الضعفاء : 557)اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقریب التہذیب : 6175) نے ’’متروک الحدیث‘‘کہا ہے۔
b امام بندار بن بشار رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَکْذَبَ شَفَتَیْنِ مِنَ الْوَاقِدِيِّ ۔
’’میں نے واقدی سے بڑھ کر جھوٹے ہونٹوں والا راوی نہیں دیکھا۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 14/3، وسندہٗ صحیحٌ)
اسے امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 21/8) اور امام دارقطنی رحمہ اللہ (سنن الدارقطني : 164/2)نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یَرْوِي أَحَادِیثَ غَیْرَ مَحْفُوظَۃٍ، وَّالْبَلَائُ مِنْہُ، وَمُتُونُ أَخْبَارِ الْوَاقِدِيِّ غَیْرُ مَحْفُوظَۃٍ، وَھُوَ بَیِّنُ الضَّعْفِ ۔
’’یہ شخص غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی اپنی طرف سے ہے۔نیزاس کی روایات کے متون غیر محفوظ ہیں اور وہ خود واضح ضعیف ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 243/6)
b امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَالْوَاقِدِيُّ عِنْدَ أَئِمَّۃِ أَھْلِ النَّقْلِ؛ ذَاھِبُ الْحَدِیْثِ ۔
’’واقدی ائمہ محدثین کرام کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔‘‘(تاریخ بغداد : 37/1)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْہُوْرُ ۔
’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف کہا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد : 255/3)
b حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُوْرُ ۔
’’یقینا اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔‘‘(البدر المنیر : 324/5)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ الْوَاقِدِيَّ ضَعِیْفٌ ۔
’’یہ بات مسلَّم ہے کہ واقدی ضعیف راوی ہے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 454/9)
2 کعب احبار رحمہ اللہ کے قبولِ اسلام کے بعد سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا: کیا آپ قبرِ رسول کی زیارت کے لئے میرے ساتھ چلو گے؟ انہوں نے کہا:امیر المومنین،جی ہاں!پھر جب کعب احبار رحمہ اللہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، تو سب سے پہلے قبر رسول کی زیارت کی اور سلام کہا، پھر سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر کھڑے ہو کر سلام کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔
(فتوح الشام للواقدي : 318/1)
تبصرہ :
یہ بے سند روایت بھی محمد بن عمر واقدی کی کارستانی ہے، ایسی بے سند باتوں کا کوئی اعتبار نہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور قبر نبی سے تبرک :
b ابو الجوزا،اوس بن عبداللہ تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے :
قُحِطَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ قَحْطًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلٰی عَائِشَۃَ، فَقَالَتْ : اُنْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاجْعَلُوا مِنْہُ کِوًی إِلَی السَّمَائِ، حَتّٰی لَا یَکُونَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ، حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ ۔
’’ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے۔انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اس کیفیت کے بارے میں )شکایت کی۔سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے اسی طرح کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی،یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ ایسے ہوگئے کہ(محسوس ہوتا تھا)جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اس سال کا نام عام الفتق(پیٹ پھٹنے والا سال)رکھ دیا گیا۔‘‘
(سنن الدارمي : 58/1،ح : 93، مشکاۃ المصابیح : 5950)
تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے ،کیونکہ اس کے راوی عمرو بن مالک نکری(ثقہ وحسن الحدیث)کی حدیث ابوالجوزا سے غیر محفوظ ہوتی ہے۔یہ روایت بھی ایسی ہی ہے ۔
b حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ : حَدَّثَ عَنْہُ عَمْرُو بْنُ مَالِکٍ قَدْرَ عَشْرَۃِ أَحَادِیثَ غَیْرِ مَحْفُوظَۃٍ ۔
’’امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابوالجوزا سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔‘‘ (تہذیب التھذیب : 336/1)
یہ جرح مفسر ہے۔
یہ اثر بھی عمرو بن مالک نکری نے اپنے استاذ ابو الجوزا سے روایت کیا ہے، لہٰذا یہ غیر محفوظ،یعنی ’’منکر‘‘ہے ۔
اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)فرماتے ہیں:
وَمَا رُوِيَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا مِنْ فَتْحِ الْکَوَّۃِ مِنْ قَبْرِہٖ إِلَی السَّمَائِ، لِیَنْزِلَ الْمَطَرُ، فَلَیْسَ بِصَحِیحٍ، وَلَا یَثْبُتُ إِسْنَادُہٗ، وَمِمَّا یُبَیِّنُ کِذْبَ ہٰذَا أَنَّہٗ فِي مُدَّۃِ حَیَاۃِ عَائِشَۃَ لَمْ یَکُنْ لِلْبَیْتِ کَوَّۃٌ، بَلْ کَانَ بَاقِیاً کَمَا کَانَ عَلٰی عَہْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ بَعْضُہٗ مَسْقُوفٌ وَّبَعْضُہٗ مَکْشُوفٌ، وَکَانَتِ الشَّمْسُ تَنْزِلُ فِیہِ، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحَیْنِ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِہَا، لَمْ یَظْہَرِ الْفَيْئُ بَعْدُ، وَلَمْ تَزَلِ الْحُجْرَۃُ النَّبَوِیَّۃُ کَذٰلِکَ فِي مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ، وَمِنْ حِینَئِذٍ دَخَلَتِ الْحُجْرَۃُ النَّبَوِیَّۃُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ إِنَّہٗ بُنِيَ حَوْلَ حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ الَّتِي فِیہَا الْقَبْرُ؛ جِدَارٌ عَالٍ، وَبَعْدَ ذٰلِکَ جُعِلَتِ الْکَوَّۃُ لِیَنْزِلَ مِنْہَا مَنْ یَّنْزِلُ إِذَا احْتِیجَ إِلٰی ذٰلِکَ لِاَجْلِ کَنْسٍ أَوْ تَنْظِیفٍ، وَأَمَّا وُجُودُ الْکَوَّۃِ فِي حَیَاۃِ عَائِشَۃَ؛ فَکَذِبٌ بَیِّنٌ ۔
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو بارش کے لیے قبرنبوی پر سے کھڑکی کھولنے کی روایت مروی ہے،وہ صحیح نہیں۔اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے۔ اس کے خلاف ِواقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات ِمبارکہ میںحجرہ مبارکہ میںکوئی کھڑکی نہیں تھی۔وہ حجرہ تو اسی طرح تھا،جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میںتھاکہ اس کا بعض حصہ چھت والا اور بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری(522) و مسلم(611) میںثابت ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز ادا فرماتے، تو ابھی حجرہ مبارکہ میںدھوپ ہوتی تھی اور ابھی تک سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد ِنبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔(پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی)تو اس وقت سے حجرہ مسجد میںداخل ہو گیا۔ پھر حجرہ عائشہ ،جس میںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میںداخل ہوا جا سکے۔جہاں تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات ِمبارکہ میںکسی کھڑکی کے ہونے کی بات ہے تو یہ واضح طور پر جھوٹ ہے۔‘‘(الردّ علی البکري، ص : 68-74)
اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے، تو اس سے توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔
b شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی فرماتے ہیں :
لَوْ صَحَّ ذٰلِکَ لَکَانَ حُجَّۃً وَّدَلِیلًا عَلٰی أَنَّ الْقَوْمَ لَمْ یَکُونُوا یُقْسِمُونَ عَلَی اللّٰہِ بِمَخْلُوقٍ، وَّلَا یَتَوَسَّلُونَ فِي دُعَائِہِمْ بِمَیِّتٍ، وَلَا یَسْاَلُونَ اللّٰہَ بِہٖ، وَإِنَّمَا فَتَحُوا عَلَی الْقَبْرِ لِتَنْزِلَ الرَّحْمَۃُ عَلَیْہِ، وَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ دُعَاء ٌ یُّقْسِمُونَ بِہٖ عَلَیْہِ، فَأَیْنَ ہٰذَا مِنْ ہٰذَا ۔
’’اگر یہ روایت صحیح ہو، توبھی اس بات پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرام نہ تو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دیتے تھے،نہ اپنی دعا میںفوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالیٰ سے اس کے وسیلے سے مانگتے تھے۔ انہوںنے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو۔انہوں نے وہاںکوئی دعا تو نہیں مانگی تھی،جس میں وہ کوئی وسیلہ پکڑتے۔لہٰذا اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟‘‘
(الردّ علی البکري، ص : 74)
یعنی یہ روایت فوت شدگان سے توسل لینے والوںکو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
ایک الزامی جواب :
اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہٗ یَعْلَمُ الْغَیْبَ، فَقَدْ کَذَبَ، وَہُوَ یَقُولُ : لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُ ۔
’’جوکوئی تمہیں بتائے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں،وہ جھوٹا ہے، اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ غیب کی باتوں کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
(صحیح البخاري : 7380، صحیح مسلم : 177)
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے خلاف ہے،اس لیے اس کے جواب میں بعض الناس نے لکھا ہے:
’’آپ رضی اللہ عنہا کا یہ قول اپنی رائے سے ہے،اس پر کوئی حدیث ِمرفوع پیش نہیں فرماتیں،بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 124/1)
ہم پوچھتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں،تو ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے متعلق یہ قول کیوں قبول ہے؟جبکہ وہ اس پر بھی کوئی آیت و حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔اس پر یہ سہاگہ کہ یہ قول ثابت بھی نہیں ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللّٰہ رضی اللہ عنہما اور قبر نبی سے تبرک :
b محمد بن منکدر تابعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے :
رَأَیْتُ جَابِرًا رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَھُوَ یَبْکِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَھُوَ یَقُولُ : ھٰھُنَا تُسْکَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ‘ ۔
’’میں نے سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس روتے دیکھا۔ وہ فرما رہے تھے:آنسو بہانے کی جگہ یہی ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا :میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ ‘‘(شعب الإیمان للبیہقي : 3866)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 امام بیہقی رحمہ اللہ کا استاذ محمد بن حسین ابوعبد الرحمن سلمی ’’ضعیف‘‘ہے۔
b اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تَکَلَّمُوا فِیہِ، وَلَیْسَ بِعُمْدَۃٍ ۔
’’محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے، یہ قابل اعتماد شخص نہیں تھا۔‘‘
(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 523/3)
b انہوں نے اسے ’’ضعیف‘‘ بھی کہا ہے۔(تذکرۃ الحفّاظ : 166/3)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔
(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ : 252/2)
b محمد بن یوسف قطان، نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
غَیْرُ ثِقَۃٍ، وَکَانَ یَضَعُ لِلصُّوفِیَۃِ الْـأَحَادِیثَ ۔
’’یہ قابل اعتبار شخص نہیں تھا اوریہ صوفیوں کے لیے روایات گھڑتا تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 247/2، وسندہٗ صحیحٌ)
2 اس کے مرکزی راوی محمدبن یونس بن موسیٰ کُدَیمی کے بارے میں :
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اُتُّھِمَ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ وَبِسَرِقَتِہٖ ۔
’’محدثین کرام اس پر حدیث گھڑنے اور چوری کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 292/6)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَکَانَ یَضَعُ عَلَی الثِّقَاتِ الْحَدِیثَ وَضْعًا، وَلَعَلَّہٗ قَدْ وَضَعَ أَکْثَرَ مِنْ أَلْفِ حَدِیثٍ ۔
’’یہ شخص ثقہ راویوں سے منسوب کر کے خود حدیث گھڑ لیتا تھا۔شاید اس نے ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں۔‘‘(کتاب المجروحین : 313/2)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔
(سؤالات الحاکم : 173)
b ایک مقام پر فرماتے ہیں:
کَانَ الْکُدَیْمِيُّ یُتَّھَمُ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ ۔
’’کُدَیمی پر حدیث گھڑنے کا الزام تھا۔ ‘‘(سؤالات السھمي : 74)
b امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کے سامنے اس کی ایک روایت پیش کی گئی، تو انہوں نے فرمایا:
لَیْسَ ھٰذَا حَدِیثٌ مِّنْ أَھْلِ الصِّدْقِ ۔
’’یہ سچے شخص کی بیان کردہ حدیث نہیں۔ ‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 122/8)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أَحَدُ الْمَتْرُوکِینَ ۔ ’’یہ ایک متروک راوی ہے۔ ‘‘
(میزان الاعتدال فی نقد الرجال :74/4، ت :8353)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
(تقریب التھذیب : 6419)
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور قبر نبی سے تبرک :
قَالَ ابْنُ عَسَاکِرٍ : أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ الْـأَکْفَانِيِّ : نَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَحْمَدَ : أَنَا تَمَّامُ بْنُ مُحَمَّدٍ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَیْضِ : نَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالِ بْنِ أَبِي الدَّرْدَائِ : حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیہِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، قَالَ : إِنَّ بِلَالًا رَاٰی فِي مَنَامِہِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ یَقُولُ لَہٗ : مَا ہٰذِہِ الْجَفْوَۃُ یَا بِلَالُ، أَمَا اٰنَ لَکَ أَنْ تَزُورَنِي یَا بِلَالُ ؟ فَانْتَبَہَ حَزِینًا وَّجِلًا خَائِفًا، فَرَکِبَ رَاحِلَتَہٗ وَقَصَدَ الْمَدِینَۃَ، فَاَتٰی قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ یَبْکِي عِنْدَہٗ، وَیُمَرِّغُ وَجْہَہٗ عَلَیْہِ، وَأَقْبَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، فَجَعَلَ یَضُمُّہُمَا وَیُقَبِّلُہُمَا، فَقَالَا لَہٗ : یَا بِلَالُ، نَشْتَہِي نَسْمَعُ أَذَانَکَ الَّذِي کُنْتَ تُؤَذِّنُہٗ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي السَّحَرِ، فَفَعَلَ، فَعَلَا سَطْحَ الْمَسْجِدِ، فَوَقَفَ مَوْقِفَہُ الَّذِي کَانَ یَقِفُ فِیہِ، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : اللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، ارْتَجَّتِ الْمَدِینَۃُ، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، زَادَ تَعَاجِیجُہَا، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ، خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنْ خُدُورِہِنَّ، فَقَالُوا : أَبُعِثَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا رُئِيَ یَوْمٌ أَکْثَرَ بَاکِیًا وَّلَا بَاکِیَۃً بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔
’’سیّدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے خواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:اے بلال!یہ کیا بے رُخی ہے؟کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کرو؟اس پر سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے۔انہوں نے اپنی سواری کا رخ مدینہ منورہ کی طرف کرلیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر پہنچے اور اس کے پاس رونا شروع کر دیا۔ اپنا چہرہ اس پر ملنے لگے۔سیّدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ادھر آئے، تو سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے انہیں سینے سے لگایا اور ان کو بوسہ دیا۔ان دونوں نے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا:ہم آپ کی وہ اذان سننا چاہتے ہیں،جو آپ مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہا کرتے تھے۔ انہوںنے ہاںکر دی۔مسجد کی چھت پر چڑھے اور اپنی اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں دورِ نبوی میں کھڑے ہوتے تھے۔ جب انہوں نے اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُکہا،تو مدینہ(رونے کی آواز سے)گونج اٹھا۔پھر جب انہوں نے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہا، تو آوازیں اور زیادہ ہو گئیں۔جب وہ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ پر پہنچے، تودوشیزائیں اپنے پردوںسے نکل آئیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نے مدینہ میں مَردوں اور عورتوں کے رونے والا اس سے بڑا دن کوئی نہیں دیکھا۔‘‘(تاریخ دمشق لابن عساکر : 137/7)
تبصرہ :
یہ گھڑنتل ہے،جیسا کہ :
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَھِيَ قِصَّۃٌ بَیِّنَۃُ الْوَضْعِ ۔
’’یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنتل ہے۔‘‘(لسان المیزان : 108/1)
b علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھٰذَا الْـأَثَرُ الْمَذْکُورُ عَنْ بِلَالٍ؛ لَیْسَ بِصَحِیحٍ ۔
’’سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے منسوب مذکورہ روایت ثابت نہیں۔‘‘
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِسْنَادُہ لَیِّنٌ، وَھُوَ مُنْکَرٌ ۔
’’اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 358/1)
n ابن عراق کنانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وَھِيَ قِصَّۃٌ بَیِّنَۃُ الْوَضْعِ ۔
’’یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہواہے۔‘‘(تنزیہ الشریعۃ : 59)
اس روایت کی سند میںکئی خرابیاںہیں۔تفصیل یہ ہے :
1 ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ ’’مجہول‘‘ہے۔(تاریخ الإسلام : 67/17)
b نیز فرماتے ہیں :
فِیہِ جَھَالَۃٌ ۔
’’یہ نامعلوم راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 64/1، ت : 205)
b حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ھٰذَا شَیْخٌ لَّمْ یُعْرَفْ بِثِقَۃٍ وَّأَمَانَۃٍ، وَلَا ضَبْطٍ وَّعَدَالَۃٍ، بَلْ ھُوَ مَجْھُولٌ غَیْرُ مَعْرُوفٍ بِالنَّقْلِ، وَلَا مَشْھُورٍ بِالرِّوَایَۃِ، وَلَمْ یَرْوِ عَنْہُ غَیْرُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَیْضِ، رَوٰی عَنْہُ ھٰذَا الْـأَثَرَ الْمُنْکَرَ ۔
’’یہ ایسا راوی ہے، جس کی امانت و دیانت اور ضبط و عدالت معلوم نہیں۔یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیرمعروف ہے۔یہ روایت میں بھی مشہور نہیں۔اس سے محمدبن فیض کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اس سے روایت کیا ہے۔‘‘(الصارم المنکي، ص : 314)
2 اس روایت کے دوسرے راوی سلیمان بن بلال بن ابو دردا کے بارے میں حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بَلْ ھُوَ مَجْھُولُ الْحَالِ، وَلَمْ یُوَثِّقْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْعُلَمَائِ، فِیمَا عَلِمْنَاہُ ۔
’’یہ مجہول الحال شخص ہے۔ہمارے علم کے مطابق اسے کسی ایک بھی عالم نے معتبرقرار نہیں دیا۔‘‘(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314)
3 سلیمان بن بلال کا سیّدہ ام دردا رضی اللہ عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں، یوںیہ روایت ’’منقطع‘‘بھی ہے،جیسا کہ :
b حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلَا یُعْرَفُ لَہٗ سَمَاعٌ مِّنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ۔
’’اس کا سیّدہ ام دردا رضی اللہ عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314)
b حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَھُوَ أَثَرٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ، وَإِسْنَادُہٗ مَجْھُولٌ، وَفِیہِ انْقِطَاعٌ ۔
’’یہ روایت غریب اور منکر ہے۔اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع بھی ہے۔‘‘(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314)
تنبیہ :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إِسْنَادُہٗ جَیِّدٌ، مَا فِیہِ ضَعِیفٌ، لٰکِنْ إِبْرَاھِیمُ ھٰذَا مَجْھُولٌ ۔
’’اس کی سند جید ہے۔اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں، البتہ یہ ابراہیم نامی راوی مجہول ہے۔‘‘(تاریخ الإسلام : 373/5، بتحقیق بشّار، وفي نسخۃ : 67/17)
یہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا علمی تسامح ہے۔جس روایت کی سند میں دو راوی ’’مجہول‘‘ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ’’انقطاع‘‘بھی ہو، وہ جید کیسے ہو سکتی ہے؟پھر خود انہوں نے اپنی دوسری کتاب (سیر أعلام النبلاء : 358/1)میں اس کی سند کو کمزور اور اس روایت کو ’’منکر‘‘بھی قرار دے رکھا ہے، جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کی بات درست ہے کہ یہ قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ یہ ان ’’مجہول‘‘ راویوں میں سے کسی کی کارروائی ہے۔ واللہ اعلم!
سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور قبر نبی سے تبرک :
b دائود بن ابو صالح حجازی کا بیان ہے :
أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا، فَوَجَدَ رَجُلًا وَّاضِعًا وَجْہَہٗ عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ، فَإِذَا ہُوَ أَبُو اَیُّوبَ، فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَا تَبْکُوا عَلَی الدِّینِ إِذَا وَلِیَہٗ أَہْلُہٗ، وَلٰکِنِ ابْکُوا عَلَیْہِ إِذَا وَلِیَہٗ غَیْرُ أَہْلِہٖ ۔
’’ایک دن مروان آیا، تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے تھا۔ مروان نے کہا:تمہیں معلوم ہے کہ کیا کر رہے ہو؟ اس شخص نے مروان کی طرف اپنا چہرہ موڑا،تو وہ سیّدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ تھے۔انہوں نے فرمایا:ہاں!مجھے خوب معلوم ہے۔میںرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں،پتھر پر نہیں۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جب دین کا والی کوئی دین دار شخص بن جائے، تو اس پر نہ رونا۔ اس پر اس وقت روناجب اس کے والی نااہل لوگ بن جائیں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 422/5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 515/4)
تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کے راوی داؤد بن ابی صالح حجازی کے بارے میں:
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لَا یُعْرَفُ ۔
’’یہ مجہول راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 9/2)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میںفرماتے ہیں :
مَقْبُولٌ ۔
’’یہ مجہول الحال شخص ہے۔‘‘(تقریب التہذیب : 1792)
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اس کی بیان کردہ اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہنا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا ان کی موافقت کرنا ’’صحیح‘‘ نہیں۔
دین کی باتیں ثقہ لوگوں سے قبول کی جائیں گی، نہ کہ ’’مجہول‘‘اور لاپتہ افراد سے۔
فائدہ :
یہ روایت قبر کے ذکر کے بغیر معجم کبیر طبرانی(189/4، ح :3999)اور معجم اوسط طبرانی (94/1، ح :284)میں بھی موجود ہے،لیکن اس کی سند درج ذیل وجوہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے :
1 سفیان بن بشر کوفی راوی نامعلوم اور غیرمعروف ہے۔
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کے بارے میںفرماتے ہیں :
وَلَمْ أَعْرِفْہُ ۔
’’میںاسے نہیں پہچانتا۔‘‘(مجمع الزوائد : 130/9)
2 مطلب بن عبد اللہ بن حنطب راوی ’’مدلس‘‘ ہے اور وہ بصیغہ ’’عن‘‘ روایت کر رہا ہے۔اس کے سماع کی تصریح نہیںملی۔
3 مطلب بن عبد اللہ کا سیّدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے سماع بھی ثابت نہیں۔
4 اس روایت میںامام طبرانی رحمہ اللہ کے دو استاذ ہیں،ایک ہارون بن سلیمان ابوذر ہے اور وہ ’’مجہول‘‘ ہے،جبکہ دوسرا احمدبن محمدبن حجاج بن رشدین ہے اور وہ ’’ضعیف‘‘ ہے۔
b اس کے بارے میںامام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سَمِعْتُ مِنْہُ بِمِصْرَ، وَلَمْ أُحَدِّثْ عَنْہُ، لِمَا تَکَلَّمُوا فِیہِ ۔
’’میںنے اس سے مصر میںاحادیث سنی تھیں،لیکن میں وہ احادیث بیان نہیںکرتا، کیونکہ محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے۔‘‘(الجرح والتعدیل : 75/2)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صَاحِبُ حَدِیثٍ کَثِیرٍ، أُنْکِرَتْ عَلَیْہِ أَشْیَائُ، وَھُوَ مِمَّنْ یُّکْتَبُ حَدِیثُہٗ مَعَ ضُعْفِہٖ ۔
’’اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں،ان میںسے کئی ایک روایات کو محدثین کرام نے منکر قرار دیا ہے،اس کے ضعیف ہونے کے باوجود اس کی حدیث (متابعات و شواہد میں)لکھی جائے گی۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 198/1)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد : 25/2، 694/6)
فائدہ :
اس کی تیسری سند ابو الحسین یحییٰ بن حسن بن جعفر بن عبیداللہ حسینی کی کتاب أخبار المدینۃ میں آتی ہے۔(شفاء السقام للسبکي، ص : 343)
اس میں عمر بن خالد راوی نامعلوم ہے،باقی مطلب بن عبداللہ کی ’’تدلیس‘‘اور ان کا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے عدم سماع کا مسئلہ بھی ہے۔
دورِ فاروقی میں ایک شخص کا قبر نبی سے تبرک :
عَنْ مَّالِکِ نِ الدَّارِ، قَالَ : وَکَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَی الطَّعَامِ، قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ، فَإِنَّہُمْ قَدْ ہَلَکُوا، فَاُتِيَ الرَّجُلُ فِي الْمَنَامِ، فَقِیلَ لَہٗ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْہُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُ أَنَّکُمْ مُّسْتَقِیمُونَ، وَقُلْ لَّہٗ : عَلَیْکَ الْکَیْسُ، عَلَیْکَ الْکَیْسُ، فَاَتٰی عُمَرَ، فَأَخْبَرَہٗ، فَبَکٰی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ، لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْہُ ۔
’’مالک دار،جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خزانچی مقررتھے،ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی:اللہ کے رسول!آپ (اللہ تعالیٰ سے)اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث)تباہ ہو گئی ہے۔ پھر خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:عمر کے پاس جاکر میرا سلام کہیں اور انہیں بتائیں کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی)کہہ دو کہ عقلمندی سے کام لیں۔وہ صحابی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا:اے اللہ!میں کوتاہی نہیں کرتا ، مگر یہ کہ عاجز آجاؤں ۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 356/6، تاریخ ابن أبي خیثمۃ : 70/2، الرقم : 1818، دلائل النبوّۃ للبیہقي :47/7، الاستیعاب لابن عبد البرّ : 1149/11، تاریخ دمشق لابن عساکر: 345/44، 489/56)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے ،کیونکہ :
1 اس میں (سلیمان بن مہران )اعمش ’’مدلّس‘‘ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں ، ان کے سماع کی تصریح نہیںمل سکی ۔
b امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا نَقْبَلُ مِنْ مُّدَلِّسٍ حَدِیثًا، حَتّٰی یَقُولَ فِیہِ : حَدَّثَنِي أَوْ سَمِعْتُ ۔
’’ہم کسی مدلس سے کوئی بھی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ اس میں سماع کی تصریح نہ کردے۔‘‘(الرسالۃ ، ص : 380)
b امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا یَکُونُ حُجَّۃً فِیمَا دَلَّسَ ۔
’’مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابلِ حجت نہیں ہوتی۔‘‘
(الکامل لابن عديّ : 34/1، وسندہٗ حسنٌ)
b حافظ سخاوی رحمہ اللہ (831۔902ھ)کہتے ہیں :
وَمِمَّنْ ذَھَبَ إِلٰی ھٰذَا التَّفْصِیلِ الشَّافِعِيُّ وَابْنُ مَعِینٍ وَابْنُ الْمَدِینِيِّ ۔
’’جو ائمہ کرام اس مؤقف کے حامل ہیں، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام ابن مدینی رحمہم اللہ کے نام شامل ہیں۔‘‘(فتح المغیث : 182/1)
b حافظ علائی رحمہ اللہ (694۔761ھ)اسی کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اَلصَّحِیحُ الَّذِي عَلَیْہِ جُمْھُورُ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ وَالْفِقْہِ وَالْـاُصُولِ ۔
’’یہی وہ صحیح مذہب ہے، جس پر جمہور ائمہ حدیث وفقہ و اصول قائم ہیں۔‘‘
(جامع التحصیل، ص : 111)
b حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (368۔463ھ)فرماتے ہیں :
وَقَالُوا : لَا یُقْبَلُ تَدْلِیسُ الْـاَعْمَشِ ۔
’’اہل علم کہتے ہیںکہ اعمش کی تدلیس قبول نہیںہوتی۔‘‘(التمھید : 30/1)
b علامہ عینی حنفی (762۔855ھ)لکھتے ہیں:
إِنَّ الْـاَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، وَعَنْعَنَۃُ الْمُدَلِّسِ لَا تُعْتَبَرُ إِلَّا إِذَا عُلِمَ سَمَاعُہٗ ۔
’’بلاشبہ (سلیمان بن مہران)اعمش’’مدلس‘‘ ہیں اور ’’مدلس‘‘ راوی کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے،جب اس کے سماع کی تصریح مل جائے۔‘‘
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، تحت الحدیث : 219)
اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے ۔
2 مالک دار ’’مجہول الحال‘‘ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (384/5)کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ اس کے بارے میں:
b حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا أَعْرِفُہٗ ۔
’’میں اسے نہیںجانتا۔‘‘(الترغیب والترھیب : 2/29)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَمْ أَعْرِفْہُ ۔
’’میںاسے نہیںپہچان سکا۔‘‘(مجمع الزوائد : 3/123)
اس کے صحابی ہونے پر کوئی دلیل نہیں،لہٰذا بعض بعد والوں کا اسے صحابہ کرام میںذکر کرنا صحیح نہیں۔
نیز حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (البدایۃ والنھایۃ : 167/5)اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (فتح الباري شرح صحیح البخاري : 495/2)کا اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینا ان کا علمی تسامح ہے۔ ان کی یہ بات اصولِ حدیث کے مطابق درست نہیں،صرف حافظ ابن کثیراور حافظ ابن حجرHکا اسے ’’صحیح‘‘ کہنابعض لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی صحیح تسلیم نہیں کرتے جنہیںان دونوں حفاظ نے ’’صحیح‘‘کہا ہوا ہے اور بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی ’’ضعیف‘‘تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہوا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود سلیمان بن مہران اعمش کی ’’تدلیس‘‘ کے روایت ِحدیث میں مضر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَعِنْدِي أَنَّ إِسْنَادَ الْحَدِیثِ الَّذِي صَحَّحَہُ ابْنُ الْقَطَّانِ مَعْلُولٌ، لِأَنَّہٗ لَا یَلْزَمُ مِنْ کَوْنِ رِجَالِہٖ ثِقَاتٍ اَنْ یَّکُونَ صَحِیحًا، لِأَنَّ الْـأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، وَلَمْ یَذْکُرْ سَمَاعَہٗ مِنْ عَطَائٍ، وَعَطَائٌ یَّحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ ہُوَ عَطَائً الْخُرَاسَانِيَّ، فَیَکُونُ فِیہِ تَدْلِیسُ التَّسْوِیَۃِ بِإِسْقَاطِ نَافِعٍ بَیْنَ عَطَائٍ وَّابْنِ عُمَرَ ۔
’’میرے خیال کے مطابق جس حدیث کو ابن قطان نے صحیح کہا ہے،وہ معلول (ضعیف)ہے،کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ اس میں اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطا سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سند میںمذکور عطا،خراسانی ہوں،یوںاعمش کی تدلیس تسویہ بن جائے گی،کیونکہ اس صورت میںانہوں نے عطا اور سیدناابن عمرکے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے۔‘‘(التلخیص الحبیر : 19/3)
b حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (368۔463ھ)فرماتے ہیں:
قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِینِيِّ : قَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ : قَالَ سُفْیَانُ وَشُعْبَۃُ : لَمْ یَسْمَعِ الْـأَعْمَشُ ہٰذَا الْحَدِیثَ مِنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِيِّ، قَالَ أَبُو عُمَرَ : ہٰذِہٖ شَہَادَۃُ عَدْلَیْنِ إِمَامَیْنِ عَلَی الْـأَعْمَشِ بِالتَّدْلِیسِ، وَأَنَّہٗ کَانَ یُحَدِّثُ عَنْ مَّنْ لَّقِیَہٗ بِمَا لَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ، وَرُبَّمَا کَانَ بَیْنَہُمَا رَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ، فَلِمِثْلِ ہٰذَا وَشِبْہِہٖ قَالَ ابْنُ مَعِینٍ وَّغَیْرُہٗ فِي الْـأَعْمَشِ : إِنَّہٗ مُدَلِّسٌ ۔
’’امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ امام سفیان اورامام شعبہHنے فرمایا کہ اعمش نے یہ حدیث ابراہیم تیمی سے نہیں سنی۔میں(ابن عبد البر)کہتا ہوںکہ اعمش کے مدلس ہونے پر یہ دو عادل اماموں کی گواہی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمش ان لوگوں سے اَن سنی روایات بیان کرتے تھے،جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہوتی تھی۔بسااوقات ایسے لوگوں سے اعمش ایک یا دو واسطے گرا کر بھی روایت کر لیتے تھے۔اسی طرح کے حقائق کی بنا پر امام ابن معین رحمہ اللہ وغیرہ نے اعمش کو مدلس قرار دیا ہے۔‘‘
(التمھید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : 32/1)
تنبیہ :
امام طبری رحمہ اللہ کی تاریخ(98/4)اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی البدایۃ والنہایۃ (71/1)میںہے :
حَتّٰی أَقْبَلَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَیْہِ، فَقَالَ : أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ إِلَیْکَ، یَقُولُ لَکَ رَسُولُ اللّٰہِ ۔۔۔ ۔
’’بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ آئے،تو انہوں نے اجازت طلب کی اور کہا:میں آپ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی ہوں،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے فرماتے ہیں۔‘‘
یہ روایت بھی جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ :
1 شعیب بن ابراہیم رفاعی کوفی ’’مجہول‘‘ راوی ہے،اس کے بارے میں :
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَشُعَیْبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ہٰذَا، لَہٗ أَحَادِیثُ وَأَخْبَارٌ، وَہُوَ لَیْسَ بِذٰلِکَ الْمَعْرُوفِ، وَمِقْدَارُ مَا یَرْوِي مِنَ الْحَدِیثِ وَالْـأَخْبَارِ لَیْسَتْ بِالْکَثِیرَۃِ، وَفِیہِ بَعْضُ النُّکْرَۃِ، لِأَنَّ فِي أَخْبَارِہٖ وَأَحَادِیثِہٖ مَا فِیہِ تَحَامُلٌ عَلَی السَّلَفِ ۔
’’اس شعیب بن ابراہیم نے کئی احادیث اور روایات بیان کی ہیں۔ یہ فن حدیث میں معروف نہیں۔اس کی بیان کردہ احادیث و روایات زیادہ نہیں،پھر بھی ان میںکچھ نکارت موجود ہے،کیونکہ ان میںسلف صالحین کی اہانت ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 5/7)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فِیہِ جَھَالَۃٌ ۔
’’اس میںجہالت ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال : 2/275)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَفِي ثِقَاتِ ابْنِ حِبَّانَ : شُعَیْبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ، یَرْوِي عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْبَلْخِيِّ (الْجُعْفِيِّ)، رَوٰی عَنْہُ یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ، (قُلْتُ 🙂 فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ ہُوَ، وَالظَّاہِرُ أَنَّہٗ غَیْرُہٗ ۔
’’ثقات ابن حبان میں ہے کہ شعیب بن ابراہیم کوفی ،محمدبن ابان بلخی جعفی سے روایت کرتا ہے اور اس سے یعقوب بن سفیان نے روایت کیا ہے۔(میںکہتا ہوں)ممکن ہے کہ یہ راوی وہی ہو، لیکن ظاہراً یہ کوئی اور راوی لگتا ہے۔ ‘‘
(لسان المیزان : 3/145)
2 سیف بن عمر راوی باتفاقِ محدثین ’’ضعیف،متروک،وضاع‘‘ہے۔اس کی روایت کا قطعاً کوئی اعتبار نہیں۔
3 اس کا استاذ سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری بھی ’’مجہول‘‘ ہے۔ اس کے بارے میںحافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مَجْھُولُ الْحَالِ ۔
’’یہ مجہول الحال راوی ہے۔‘‘(لسان المیزان : 122/3)
b حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ اس کی ایک روایت کو ’’موضوع و منکر‘‘قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
لَا یُعْرَفُ ۔
’’یہ مجہول الحال راوی ہے۔‘‘(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 667/2)
ثابت ہوا کہ بعض الناس کا یہ کہنا کہ مذکورہ روایت میں خواب دیکھنے والا شخص،صحابی رسول، سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ ہیں، بالکل بے بنیاد ہے۔
محمد بن منکدر کی طرف منسوب واقعہ :
b اسماعیل بن یعقوب تیمی کہتے ہیں:
کَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ یَجْلِسُ مَعَ أَصْحَابِہٖ، فَکَانَ یُصِیْبُہٗ الصَّمَاتُ، فَکَانَ یَقُوْمُ کَمَا ہُوَ یَضَعُ خَدَّہٗ عَلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یَرْجِعُ، فَعُوْتِبَ فِي ذٰلِکَ، فَقَالَ : إِنَّہٗ تُصِیْبُنِي خَطَرٌ، فَإِذَا وَجَدْتُّ ذٰلِکَ؛ اِسْتَغَثْتُ بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکاَنَ یَأْتِي مَوْضِعًا فِي الْمَسْجِدِ فِي الصِّحْنِ، فَیَتَمَرَّغُ وَیَضْطَجِعُ، فَقِیْلَ لَہٗ فِي ذٰلِکَ، فَقَالَ : إِنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي ہٰذَا الْمَوْضِعِ، قَالَ : أَرَاہُ فِي النَّوْمِ ۔
’’محمد بن منکدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھتے،تو ان کو بہرے پن کا مرض لاحق ہو جاتا۔وہ وہاں سے اُٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنے رخسار رکھتے،پھر واپس پلٹ آتے۔اس فعل پر انہیں ملامت کیا گیا،تو انہوں نے کہا:جب مجھے اس مرض کا خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر فریاد کرتا ہوں۔ اسی طرح وہ مسجد کے صحن میں مٹی میں پلٹیاں مارتے اور وہاں لیٹ جاتے۔ان سے اس بارے میں پوچھا گیا،تو انہوں نے کہا:اس جگہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تھا ۔ ‘‘
(التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ : 259-258/2، ت : 2778، تاریخ دمشق لابن عساکر : 50/56، سیر أعلام النبلاء للذہبي : 359-358/5)
تبصرہ :
یہ اثر سخت ’’ضعیف‘‘ اور’’منکر‘‘ ہے،کیونکہ اس کا راوی اسماعیل بن یعقوب تیمی مجروح راوی ہے:
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہُوَ ضَعِیْفُ الْحَدِیْثِ ۔ ’’یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 204/2)
b حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے الضعفاء والمتروکون (123/1،ت:429) میں ذکر کیا ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فِیْہٖ لِیْنٌ ۔ ’’اس میں کمزوری ہے۔‘‘(تاریخ الإسلام : 521/3، ت : بشار)
b نیز فرماتے ہیں:
ضَعَّفَہٗ أَبُوْ حَاتِمٍ، وَلَہٗ حِکَایَۃٌ مُّنْکَرَۃٌ عَنْ مَّالِکٍ، سَاقَہَا الْخَطِیْبُ ۔
’’اسے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔اس نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایک منکر حکایت بیان کی ہے،جسے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال : 254/1)
لہٰذا امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اسے الثقات (93/8) میں ذکر کرنا ناقابلِ التفات ہے۔
تنبیہ :
b امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سَأَلْتُہٗ عَنِ الرَّجُلِ یَمَسُّ مِنْبَرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَتَبَرَّکُ بِمَسِّہٖ وَیُقَبِّلُہٗ وَیفْعَلُ بِالْقَبْرِ مِثْلَ ذٰلِک أَوْ نَحْوَ ہٰذَا یُرِیْدُ بِذٰلِکَ التَّقَرُّبَ إِلَی اللّٰہِ جَلَّ وَعَزَّ، فَقَالَ لَا بَأْسَ بذٰلِکَ ۔
’’میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کو چھونے سے تبرک حاصل کرتا ہے،اسے بوسہ دیتا اور قبرِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ایسے کام سر انجام دیتا ہے،اگر وہ اس سے تقرب الی اللہ کا ارادہ رکھتا ہے توکیا یہ جائز ہے؟اس پر انہوں نے کہا : ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
(العلل ومعرفۃ الرجال : 294/2، ت : 3243)
یہ امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی علمی اور اجتہادی خطا ہے، اس مسئلہ میں سلف صالحین میںسے کوئی ان کا ہم خیال نہیں۔خوب یاد رہے کہ ہر ایک کی بات کو قرآن و حدیث اور خیر القرون کے اسلاف پر پیش کیا جائے گا، اگر موافق ہو تو قبول، ورنہ رد کر دی جائے گی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے اگر ائمہ اہل سنت میں سے کسی کی بات قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے مخالف ہو،تو وہ اس کی اجتہادی خطا ہے،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا حق گو عالم ہے،لیکن اگر وہی بات کوئی غالی،بدعتی،معاند اور متعصب کہے، تو وہ بدعت ہو گی، کیونکہ وہ حق سے چشم پوشی کرتا ہے،قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے عقیدہ کو ردّ کرتا ہے۔ایک کی بنیاد تقویٰ اور علم پر ہے، جبکہ دوسرے کی بنیاد جہالت اور تعصب پرہے۔
اس ضمن میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673۔748ھ)کی بات پیش خدمت ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ مَسَّ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ : کَرِہَ ذٰلِکَ لِأَنَّہٗ رَآہُ إِسَائَۃَ أَدَبٍ، وَقَدْ سُئِلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ مَسِّ الْقَبْرِ النَّبَوِيِّ وَتَقْبِیلِہٖ، فَلَمْ یَرَ بِذٰلِکَ بَأْسًا، رَوَاہُ عَنْہُ وَلَدُہٗ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَدَ، فَإِنْ قِیْلَ : فَہَلَّا فَعَلَ ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ؟ قِیلَ : لِأَنَّہُمْ عَایَنُوہُ حَیًّا، وَتَمَلَّوْا بِہٖ، وَقَبَّلُوا یَدَہٗ، وَکَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلٰی وَضُوئِہٖ، وَاقْتَسَمُوا شَعْرَہُ الْمُطَہَّرَ یَوْمَ الْحَجِّ الْـأَکْبَرِ، وَکَانَ إِذَا تَنَخَّمَ لَا تَکَادُ نُخَامَتُہٗ تَقَعُ إِلاَّ فِي یَدِ رَجُلٍ، فَیُدَلِّکُ بِہَا وَجْہَہٗ، وَنَحْنُ، فَلَمَّا لَمْ یَصِحْ لَنَا مِثْلُ ہٰذَا النَّصِیبِ الْـأَوْفَرِ، تَرَامَیْنَا عَلٰی قَبْرِہٖ بِالِالْتِزَامِ وَالتَّبْجِیلِ وَالِاسْتِلامِ وَالتَّقْبِیلِ، أَلا تَرٰی کَیْفَ فَعَلَ ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ؟ کَانَ یُقَبِّلُ یَدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَیَضَعُہَا عَلٰی وَجْہِہٖ، وَیَقُولُ : یَدٌ مَّسَّتْ یَدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہٰذِہِ الْـأُمُورُ لاَ یُحَرِّکُہَا مِنَ الْمُسْلِمِ؛ إِلاَّ فَرْطُ حُبِّہٖ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذْ ہُوَ مَأْمُورٌ بِأَنْ یُّحِبَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ أَشَدَّ مِنْ حُبِّہٖ لِنَفْسِہٖ، وَوَلَدِہٖ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ۔
’’سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو مَس کرنا ناپسند کرتے تھے۔میں(حافظ ذہبی رحمہ اللہ ) یہ کہتا ہوں کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نا پسند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے بے ادبی خیال کرتے تھے،لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے قبرِ نبی کو مَس کرنے اور بوسہ دینے کے متعلق دریافت کیا گیا، تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔اس روایت کو ان سے ان کے بیٹے عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
اگر کوئی کہے:کیا صحابہ کرام نے کیوں ایسا نہیں کیا؟ تو اسے کہا جائے گا:وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے رہے۔انہوں نے آپ کے مبارک ہاتھوں کو بوسے دئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بچے پانی پر جھگڑے کے قریب جا پہنچتے۔انہوں نے حجِ اکبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت بالوں کو تقسیم کیا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلغم پھینکتے، توصحابہ کرام اسے اپنے ہاتھوں پر مَل کر اپنے چہروں کے اوپر مَل لیتے،لیکن ہمارا اتنا نصیب کہاں؟اب ہمارے مقدر میں آئی،تو صرف قبر کی مٹی کہ اس سے جسم کو چمٹا لیں، اس کی تکریم کریں، اُسے چھوئیں اور بوسہ دیں۔
کیا آپ ثابت بنانی رحمہ اللہ کے عمل کو نہیں دیکھتے کہ وہ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے،پھر انہیں اپنے چہرے پر پھیر لیتے اور ساتھ کہتے:یہ وہ ہاتھ ہیں، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کو چھوا ہے۔
یہ سارے کام ایک مسلمان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت میں افراط کی وجہ سے صادر ہو جاتے ہیں،کیونکہ اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے اپنی جان،اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبت کرے۔‘‘(معجم الشیوخ الکبیر : 73/1)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے عیاں ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اور خیر القرون میں کوئی فرد وبشر ایسا نہیں گزرا،جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مس کرنے، بوسہ دینے اور تبرک حاصل کرنے کو جائز سمجھتا ہو۔ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام چونکہ تبرکات سے مستفید ہوتے رہے،اب ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے ایسا ایسا کرلیں۔
جس دلیل کی بنیاد پر انہوں نے یہ کہا ،وہ ثابت نہیں،جیسا کہ ہم ابھی ذکر کرنے والے ہیں۔جب وہ دلیل ثابت نہیں تو مؤقف بے دلیل ہوا،بے دلیل مؤقف کا کیا اعتبار؟
دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ اس میں اصل تبرک محبت ِرسول ہے، اس ضمن میں ہم کہتے ہیں کہ محبت رسول کا طریقہ کون متعین کرے گا؟ کیا ہر ایک محبت رسول کے دعویٰ میں جو اس کے دل میں آئے گا، کرے گا، یااس کا کوئی سلف ہو گایا پھر کوئی دلیل راہنما ہو گی؟محبت ِرسول کا ہر گز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو بوسہ دینا شروع کر دیں،اس کے ساتھ جسم مَلتے رہیں۔ محبت ِرسول کے اظہار کے لئے معیار صحابہ کرام ہیں، وہ ایسا نہیں کرتے تھے، لہٰذا ہم بھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہ دین نہیں ہے۔نہ ہی محبت رسول کا تقاضا ہے۔
رہا حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے جو ثابت بنانی والی روایت ذکر کی ہے۔ وہ حدیث محمّد بن عبد اللّٰہ الأنصاري (63)،شعب الإیمان للبیہقي (1492)،حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني (327/2)اور تاریخ دمشق لابن عساکر (359/9)میں موجود ہے۔
اس میں جمیلہ مولاۃ انس رضی اللہ عنہ ’’مجہولہ‘‘ہے۔لہٰذا یہ روایت بھی ثابت نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.