2,199

قبروں پر چراغاں کرنا بدعت ہے، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

قبروں اور آستانوں پر چراغ جلانا اور قندیلیں روشن کرنا بدعت ِ سیئہ و قبیحہ ہے۔یہ لغو و عبث کام ہے جو دین میں اضافہ ، کفار سے مشابہت اور مال کا ضیاع ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ جو کام نصرانی اپنے گرجوں اور ہندو اپنے مندروں میں بھی نہیں کرتے ، وہ کام قبوری اپنے بزرگوں کی قبروں اور آستانوں پر کر گزرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعت کا اپنا مجرمانہ ذوق اور مزاج ہے۔ایک بدعت دوسری بدعت کے لیے راہ ہموار کرتی ہے کیونکہ بدعت میں علم صحیح اور عقل سلیم کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ) (الحج : ٣)
”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم کے بحث کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کا اتباع کرتے ہیں۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وہذا حال أھل الضلال والبدع ، المعرضین عن الحقّ ، المتّبعین للباطل ، یترکون ما أنزل اللّٰہ علی رسولہ من الحقّ المبین ، ویتّبعون أقوال رؤوس الضلالۃ ، الدعاۃ إلی البدع بالأہواء والآراء ، ولہذا قال في شأنہم وأشباہہم : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ) أي : علم صحیح ، (وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ) ۔ ”یہ ان گمراہ اور بدعتی لوگوں کا حال ہے جو باطل کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر جو واضح حق نازل کیا ہے ، اسے چھوڑ کر گمراہوں کے سرغنوں اور نفسانی خواہشات و انسانی آراء کے ذریعے بدعت کی دعوت دینے والوںکے پیچھے چلتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو علم صحیح کے بغیر اللہ تعالیٰ کے بارے میں بحث مباحثہ کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کا اتباع کرتے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٤/٤٠٨،٤٠٩)
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتَابٍ مُّنِیرٍ ٭ ثَانِيَ عِطْفِہٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللّٰہِ لَہ، فِي الدُّنْیَا خِزْيٌ وَّنُذِیقُہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَذَابَ الْحَرِیقِ) (الحج : ٨،٩)
”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو (حق سے)اعراض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم(صحیح)، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر بحث مباحثہ کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ کی راہ سے بھٹکائیں،ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور روز قیامت ہم ان کو جلانے کا عذاب چکھائیں گے۔”
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر و تشریح میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لمّا ذکر تعالی حال الضلّال الجہّال المقلّدین في قولہ : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ) ، ذکر في ہذہ حال الدعاۃ إلی الضلال من رؤوس الکفر والبدع ، فقال : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتَابٍ مُّنِیرٍ) أي : بلا عقل صحیح ، ولا نقل صحیح صریح ، بل بمجرّد الرأي والہوی ۔
”جب اللہ تعالیٰ نے گمراہ اور جاہل مقلدین کا حال اس طرح بیان کیا کہ : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ) (اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم کے بحث کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کا اتباع کرتے ہیں)توساتھ ہی گمراہی کی طرف دعوت دینے والے کفر اور بدعت کے سرغنوں کا حال بھی بیان کر دیا، چنانچہ فرمایا : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتَابٍ مُّنِیرٍ) (”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم(صحیح)، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر بحث مباحثہ کرتے ہیں) ، یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر عقل صحیح اور بغیر نقل صریح کے صرف خواہشات و آراء کی روشنی میں بحث کرتے ہیں۔ ”
(تفسیر ابن کثیر : ٤/٤١٣)
قبروں پر چراغ جلانا قرآن و سنت سے ثابت نہیں لہٰذا ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی ہے۔اس کا ارتکاب کرتے ہوئے امام بریلویت جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی گجراتی صاحب(١٣٢٤۔١٣٩١ھ) لکھتے ہیں :
”کسی کی قبر پر بے فائدہ چراغ جلانا منع ہے کہ یہ فضول خرچی ہے اور اگر فائدے سے ہو تو جائز ہے۔فوائد کل چار بیان ہوئے ہیں۔ تین عام مؤمنین کی قبروں کے لیے اور چوتھا یعنی تعظیم ، روح ولی ، مشائخ و علماء کی قبور کے لیے۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٣)
قارئین کرام قرآن کریم کی مذکورہ آیات ِ بینات اور ان کی تفسیر پر غور فرمائیں ، پھر نعیمی صاحب کی ان باتوں کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ معاملہ بالکل صاف ہو جائے گا۔ شرعی دلائل سے تہی دست لوگ کس طرح بے باک ہوتے ہیں۔ یہ جعلی اور مصنوعی تعظیم کہاں سے آئی؟ کیا صحابہ کرام] رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم نہیں کرتے تھے؟ اگر کرتے تھے اور یقینا کرتے تھے تو بتائیں کس صحابی نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر چراغاں کیا؟ اور پھر کیا تابعین کرام ، صحابہ کرام کی تعظیم کرتے تھے یا نہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو بتائیں کس تابعی نے کس صحابی کی قبر پر چراغ جلائے؟ کیا یہ بناوٹی فوائد صحابہ و تابعین کو معلوم نہ تھے؟ اگر نہیں تھے اور یقینا نہیں تھے تو ان کا راستہ ہی حق ہے۔
اگر کوئی بھائی برا نہ منائے تو ہم کہہ دیں کہ دراصل ان لوگوں کی زندگی قبروں کے ساتھ معلق ہے۔یہ قبریں ان کے باطل عقائد کی بقا کا سامان اور ان کی شکم پروری کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ یہی قبریں ہی تو بت پرستی کا باعث ہیں۔ جو کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا اور نہ اسے کرنے کا حکم دیا ، نہ کسی صحابی نے کیا ، نہ کسی تابعی نے کیا ، نہ سلف صالحین اور ائمہ دین اس سے واقف ہوئے ، وہ دین کیسے بن گیا؟یہاں رک کر ایک اور سوال ہے کہ کیا نعیمی صاحب اور ان کے ہم نواؤں کے پیشوا امام ابوحنیفہ سے قبروں پر چراغ جلانا ثابت ہے؟ اگر نہیں تو کیا وہ بزرگوں اور صالحین و اولیاء کے گستاخ تھے ؟ کیا وہ مشائخ کی تعظیم نہیں کرتے تھے؟ اور کیا وہ ان چار فوائد سے محروم ہی رہے جن سے نعیمی صاحب اپنی عوام کو بہرہ ور کر رہے ہیں؟
اگر یہی دین ہے تو پھر اہل کتاب کا کیا جرم ہے؟ انہی قبروں کی وجہ سے تو ان پر لعنت کی گئی۔ وہ بھی تواپنے مشائخ و صالحین کی قبروں کی تعظیم میں یہی کچھ کرتے تھے۔ یہی ”فوائد”ان کے بھی پیش نظر تھے۔جبکہ صحابہ و تابعین اور سلف صالحین نے ایسا نہیں کیا۔ ان بدعتیوں کے علاوہ کسی ثقہ مسلمان سے قبروں پر چراغاں کرناثابت نہیں۔
خود ان کی اپنی فقہ بھی اس کی مخالف ہے اور اسے بدعت قرار دیتی ہے جیسا کہ فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے :
إخراج الشموع إلی المقابر بدعۃ ، لا أصل لہ ۔
”قبروں کی طرف شمعیں لے کر جانا بدعت ہے۔ اس کی(دین میں) کوئی دلیل نہیں۔”(فتاوی عالمگیری : ٥/٣٥١)
مزید لکھا ہے : وإیقاد النار علی القبور ، فمن رسوم الجاہلیّۃ ۔
”اور قبروں پر آگ جلانا جاہلیت کی ایک رسم ہے۔”(فتاوی عالمگیری : ١/١٦٧)
خود جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی صاحب بھی لکھتے ہیں :
”فتاویٰ بزازیہ میں بھی ہے ، یعنی قبرستان میں چراغ لے جانا بدعت ہے ، اس کی کوئی اصل نہیں۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٢)
جناب نعیمی صاحب نے فتاویئ شامی جلد دوم ، کتاب الصوم سے یہ بھی نقل کیا ہے :
أمّا لو نذر زیتا لإیقاد قندیل فوق ضریح الشیخ ، أو في المنارۃ ، کما تفعل النساء من نذر الزیت لسیّدي عبد القادر ، ویوقد في المنارۃ جہۃ المشرق ، فہو باطل ۔ ”لیکن اگر شیخ کی قبر پر یا مینارہ میں چراغ جلانے کے لیے تیل کی نذر مانی جیسے کہ عورتیں حضور غوث پاک کے لیے تیل کی نذر مانتی ہیں اور اس کو مشرقی مینارہ میں جلاتی ہیں، یہ سب باطل ہے۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٢،٣٠٣)
نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں : ”قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ارشاد الطالبین میں لکھا : چراغاں کرنا بدعت ہے۔حضور علیہ السلام نے قبر کے پاس چراغاں کرنے اور سجدے کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ شاہ عبد العزیز صاحب کے فتاویٰ میں صفحہ ١٤ پر ہے : لیکن عرسوں میں حرام کام کرنا جیسے چراغاں کرنا اور ان قبروں کو غلاف پہنانا ، یہ سب بدعت ِ سیّئہ ہیں۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٣)
قبروں پر چراغاں اور نعیمی بریلوی صاحب :
m جناب احمدیار خان نعیمی گجراتی صاحب اس بدعت کے ثبوت میں لکھتے ہیں :
”چنانچہ پہلے حکم تھا کہ مزارات پر روشنی نہ کرو، اب جائز قرارپایا۔تفسیر روح البیان میں زیر آیت (إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ) ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کے مینارہ پر ایسی روشنی کی تھی کہ بارہ میل مربع میں عورتیں اس کی روشنی میں چرخہ کاتتی تھیں اور بہت ہی سونے چاندی سے اس کو آراستہ کیا تھا۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٥)
n ہم کہتے ہیں کہ ”اب جائز قرار پایا” پر کیا دلیل ہے؟ اور یہ بات آپ کے فقہاء کو کیوں معلوم نہ ہوئی؟وہ قبروں پر چراغاں کرنے کو بے اصل اور جاہلیت کی رسم قرار دیتے ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ حنفی فقہاء تو نام نہاد فقہاء تھے ، اصل فقہ تو مفتی نعیمی صاحب کو حاصل ہوئی ہے! بدعات و خرافات اور منہیات کو دین ثابت کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔لگتا ہے کہ جناب نے اس میدان میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔
نعیمی صاحب نے مشہور گمراہ صوفی اسماعیل حقی بن مصطفٰی استنبولی حنفی (م : ١١٢٧ھ)کی تفسیر ”روح البیان”کے پیچھے چل کر سیدنا سلیمان علیہ السلام کی طرف جھوٹی اور مضحکہ خیز بات منسوب کر دی ہے۔اس کی سند کہاں ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ کہاں بیت المقدس کے مینارے پر روشنی کرنے کا عمل اور کہاں صالحین کی قبروں پر چراغاں کرنے کا اثبات ؟ بات قبروں کی ہو رہی ہے اور ”مفتی” صاحب نے دلائل سے عاری ہو کر مسجدوں کی طرف رخ کر لیا ہے۔انہیں چاہیے تھا کہ اپنے اکابر کے بدعت قرار دینے کا ردّ کرتے ہوئے قبروں پر چراغاں کو قرآن و سنت کے صحیح و صریح دلائل سے جائز قرار دیتے۔
m دلیل تو نعیمی صاحب کے پاس ہے نہیں ، ورنہ وہ ”روح البیان” کی ان بے سر وپا باتوں کی طرف التفات نہ کرتے جو موضوعِ بحث سے کوئی تعلق بھی نہیں رکھتیں۔اس بنا پر انہوں نے اپنے فقہاء کی صاف و صریح باتوں میں تاویلات شروع کر دیں۔چنانچہ ابن عابدین شامی حنفی(١٢٣٨۔١٣٠٧ھ) کی عبارت کے جواب میں لکھتے ہیں :
”شامی کی عبارت تو بالکل صاف ہے۔ وہ بھی عرس کے چراغاں کو منع نہیں کر رہے ، وہ فرما رہے ہیں کہ چراغ جلانے کی نذر ماننا جس میں اولیاء اللہ سے قرب حاصل کرنا منظور ہو، وہ حرام ہے کیونکہ شامی کی عبارت درمختار کی اس عبارت کے ماتحت ہے : واعلم أنّ النذر یقع للأموات من أکثر العوّام ، وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء تقرّبا إلیہم بالإجماع باطل ۔ (جاننا چاہیے کہ عوام جو مُردوں کی نذریں مانتے ہیں اور ان سے جو پیسہ یا موم یا تیل وغیرہ قبروں پر جلانے کے لیے لیا جاتا ہے اور اولیاء سے تقرب حاصل کرنے کے لیے ، وہ بالاجماع باطل ہے) اور خود شامی کی عبارت میں بھی ہے : فوق ضریح الشیخ (شیخ کی قبر کے اوپر چراغ جلانا) ضریح کہتے ہیں خالص تعویزقبر کو ۔ منتخب اللغات میں ہے : ضریح گوریا مغا کے کہ درمیان گورسازمذ۔ اور ہم بھی عرض کرچکے ہیں کہ خود قبر کے تعویز پر چراغ جلانا منع ہے۔ اسی طرح اگر قبر تو نہ ہو، یوں ہی کسی بزرگ کے نام چراغ کسی جگہ رکھ کر جلادے جیسے کہ بعض جہلاء بعض درختوں یا بعض طاق میں کسی کے نام کے چراغ جلاتے ہیں، یہ بھی حرام ہے۔اسی کو فرما رہے ہیں کہ حضور غوث پاک کے نام کے چراغ کسی مشرقی مینارہ میں جلانا باطل ہے۔غوث ِ پاک کی قبر شریف تو بغداد میں ہے اور ان کے چراغ جلے شام کے مینارہ میں ، یہ بھی منع ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ شامی نے تین چیزوں سے منع فرمایا : چراغ چلانے کی منت ماننا ، وہ بھی ولی اللہ کی قربت حاصل کرنے کی نیت سے، خاص قبر پر چراغ جلانا بغیر قبر کے کسی نام کے چراغ جلانا ، عرس کے چراغوں میں یہ تینوں باتیں نہیں۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٦)
n قارئین نے جناب نعیمی صاحب کی اول فول عبارت ملاحظہ فرمائی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر قبر ولی پر نذر و منت کے طور پر چراغ جلائے تو بالاجماع بدعت اور حرام ، اگر ولی اور شیخ کی روح کی تعظیم میں ایسا کرے تو غلو اور حرام ، اگر ویسے ہی جلائے تو بے فائدہ اور فضول کام اور بدعت ہے۔چونکہ شریعت نے کسی صورت بھی قبر پر چراغ جلانے کی اجازت نہیں دی، صحابہ و تابعین اور ائمہ دین نے اس کو بطور تعظیم اختیار نہیں کیا تو نعیمی صاحب کے پاس اجازت اور جواز کی کونسی اتھارٹی ہے؟
رہی بات ضریح کی تو ”مفتی” صاحب اس کا مطلب ہی نہیں سمجھے۔ ضریح قبر ہی کو کہتے ہیں یا قبر کے درمیان تنگ جگہ کو کہتے ہیں۔(القاموس الوحید : ٩٦٦) لہٰذا قبر کے اوپر چراغ جلائیں یا اس کے آس پاس جلائیں یا جس عمارت میں قبر ہو اس کے طاقچے میں یہ کام کریں تو وہ قبر پر ہی متصور ہو گا جو کہ ممنوع و حرام ہے۔جب ایک کام جائز ہے تو ”مفتی” صاحب بتائیں کہ اس جائز کام کی نذر ماننا حرام اور باطل اور بدعت کیسے ہو گیا؟یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی کے نام پر قبر سے دور چراغاں کرنا بھی بقولِ نعیمی صاحب بدعت ہے۔نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تو بالاتفاق مدینہ منورہ میں ہے۔ نہ جانے یہ لوگ اپنی ہی فقہ کی مخالفت میں میلاد کا چراغاں مدینہ منورہ سے دور پوری دنیا میں کیوں اور کس دلیل سے کرتے ہیں؟پھر باعتراف ِ نعیمی صاحب ان کے قبروں میں موجود بزرگ مُردے ہیں۔نیز قبروں پر چراغاں کے لیے عوام سے چندہ جمع کرنا بالاجماع باطل ، حرام اور بدعت ہے۔ بریلوی بھائیوں سے التماس ہے کہ وہ ان باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں، بہت فائدہ ہو گا۔ إن شاء اللّٰہ !
m جناب احمد یار خان نعیمی اوجھانوی بدایونی گجراتی صاحب ”فتاویئ عالمگیری”سے ایک عبارت نقل کر کے اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں :
”عالمگیری کی اصل عبارت یہ ہے : إخراج الشموع إلی رأس القبور في اللیالي الأول بدعۃ ۔ (شروع راتوں میں قبرستان میں چراغاں لے جانا بدعت ہے)۔ اس میں دو کلمے قابل غور ہیں۔ ایک تو إخراج اور دوسرے في اللیالي الأول ، ان سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں لوگ اپنے نئے مردوں کی قبروں پر چراغاں لے جا کر جلا آتے تھے۔ یہ سمجھ کر کہ اس سے مردہ قبرمیں نہ گھبرائے گا جیسا کہ آج کل بعض عورتیں چالیس روز تک لحد میں مردے کی جگہ چراغ جلاتی ہیں۔ یہ سمجھتی ہیں کہ روزانہ مردے کی روح آتی ہے اور اندھیرا پا کر لوٹ جاتی ہے ، لہٰذا روشنی کردو۔ یہ حرام ہے کیونکہ تیل کا بلا ضرورت خرچ ہے اور بدعقیدگی بھی ہے۔ اسی کو یہ منع فرما رہے ہیں۔ عرس کے چراغات نہ تو اس نیت سے ہوتے ہیں اور نہ شروع راتوں میں ۔ اگر یہ مطلب نہ ہو تو شروع راتوں کی قید کیوں ہے؟”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٥،٣٠٦)
n دراصل فتاویئ عالمگیری میں کسی خاص علاقے کی خاص بدعت کا ردّ ہو رہا ہے کہ وہاں کے لوگ مہینے کی پہلی تاریخوں کو قبروں پر چراغ جلاتے تھے۔ اس کو بدعت کہا جا رہا ہے ، اس سے عام دنوں میں چراغ جلانے کا جواز کیسے ثابت ہوا؟ عرسوں کے چراغ کسی بھی نیت سے ہوں ، وہ بدعت ہیں کیونکہ شریعت ِ محمدیہ میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔عرس بذات ِ خود بدعت ہے۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین نے انبیاء و صلحاء کی قبروں پر عرس کا اہتمام نہیں کیا۔جب عرس بدعت ہے تو اس پر ہونے والی کارروائیاں کیوں بدعت نہیں ہوں گی؟ فقہ حنفی میں کسی بھی صورت میں قبروں پر چراغ جلانے کا ثبوت موجود نہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی کارروائیاں کرنے والے لوگ محمدی تو تھے ہی نہیں،اب حنفی بھی نہیںرہے۔ انہوں نے محض حنفیت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ، ورنہ اپنے فقہاء کی عبارات کی اتنی دور ازکار تاویلات نہ کرتے۔
m جناب احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں :
”دوم یہ کہ حدیث میں ہے : والمتّخذین علیہا المساجد والسرج (حضور علیہ السلام نے ان پر لعنت فرمائی جو قبروں پر مسجدیں بنائیں اور چراغ جلائیں)۔ ملا علی قاری اور شیخ عبد الحق دہلوی ودیگر شارحین اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ خود قبر پر مسجد بنانا کہ قبر کی طرف سجدہ ہو یا قبر فرشِ مسجد میں آجائے،یہ منع ہے۔لیکن اگر قبر کے پاس مسجد ہو ، برکت کے لےے تو جائز ہے ، یعنی اس جگہ انہوں نے علٰی کو اپنے حقیقی معنیٰ پر رکھا جس سے لازم آیا کہ خود تعویذ قبر پر چراغ جلانا منع ہے۔لیکن اگر قبر کے اردگرد ہو تووہ قبر پر نہیں۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٤)
n جناب نعیمی صاحب نے دو بدعتیوں کی بات کا سہارا لے کر اجماعِ امت کی مخالفت مول لے لی ہے۔ قبر پر جس مسجد میں شریعت نے منع کیا ہے ، وہ قبر کے اوپر ہو یا قبر کے ارد گرد ہو ، بہر حال منع ہے۔یہی مسئلہ چراغ جلانے کا ہے۔ باقی یہ کہنا کہ علٰی اپنے حقیقی معنیٰ پر رکھا، نِری جہالت اور سلف صالحین کی مخالفت ہے۔ سلف میں سے کسی نے یہ نہیں سمجھا جو نعیمی صاحب کو سوجھا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے :
بنی السلطان علی مدینۃ کذا أو قریۃ کذا سورا ۔
”حاکم نے فلاں شہر یا فلاں بستی پر فصیل بنائی۔” حالانکہ یہ فصیل بستی کے اوپر نہیں بنائی جاتی بلکہ اس کے اردگرد بنی ہوتی ہے۔عربی زبان میں یہ چیز بہت زیادہ ہے۔
قبروں پر چراغ اور اہل علم کا موقف :
اب اس بدعت ِ سیّئہ کے بارے میں علمائے کرا م کی آراء بھی ملاحظہ فرمائیں :
1 علامہ ابو محمد عبد الغنی المقدسی(٥٤١۔٦٠٠ھ) فرماتے ہیں :
ولأنّ فیہ تضییعا للمال فی غیر فائدۃ ، وإفراطا في تعظیم القبور ، أشبہ تعظیم الأصنام ۔ ”اس میں بے فائدہ مال کا ضیاع ہے اوریہ قبروں کی تعظیم میں غلو کا باعث ہے جو کہ بتوں کی تعظیم سے مشابہت بھی رکھتا ہے۔”(إغاثۃ اللہفان لابن القیم : ١/١٩٧)
2 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وکذلک إیقاد المصابیح في ہذہ المشاہد مطلقا لا یجوز بلا خلاف ۔
”اسی طرح ان جگہوں میں چراغ جلانا بالاتفاق مطلقاً ناجائز ہے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ : ٢/٦٧٧)
شیخ الاسلام رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : وبناء المسجد وإسراج المصابیح علی القبور ممّا لم أعلم فیہ خلافا أنّہ معصیۃ للّٰہ ورسولہ ۔
”قبروں پر مسجد بنانا اور چراغ روشن کرنا ان کاموں میں سے ہیں جن کے اللہ اور رسول کی مخالفت ہونے میں مَیں کوئی اختلاف نہیں جانتا۔”(مجموع الفتاوی : ٢١/٤٥،٦٠)
3 شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) فرماتے ہیں :
وإیقاد السرج علیہا ، وہو من الکبائر ۔ ”اور قبروں پر چراغ جلانا، یہ کبیرہ گناہ ہے۔”(إغاثۃ اللہفان لابن القیم :١/١٩٧)
نیز فرماتے ہیں : وعادۃ النصاری في أمواتہم أنّہم یوقدون الشموع ، ویزفّون بہا المیّت ، ویرفعون أصواتہم بقراء ۃ کتبہم ، وقد منع جماعۃ من الصحابۃ أن لا تتّبع جنازتہم بنار خوفا من التشبّہ بہم ۔
”نصاریٰ کی اپنے مُردوں کے بارے میں عادت ہے کہ وہ شمعیں روشن کر کے مُردے کو قبر میں اتارتے ہیں اور اپنی کتابوں کی قراء ت بلند آواز سے کرتے ہیں۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے اپنے جنازوں کے ساتھ آگ لے جانے سے منع فرمایا ، انہیں ڈر تھا کہ کہیں نصاریٰ سے مشابہت نہ ہو جائے۔”(أحکام أہل الذمّۃ لابن القیم : ٢٣٠)
4 حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (٧٠٤۔٧٤٤ھ)فرماتے ہیں :
کلّ ہذا لئلّا یحصل الافتتان بہا ویتّخذ العکوف علیہا ، وإیقاد السرج ، والصلاۃ فیہا وإلیہا ، وجعلہا عیداً ذریعۃ إلی الشرک ، لا سیّما أصل الشرک وعبادۃ الأصنام في الأمم السابقۃ ، إنّما ہو من الافتتان بالقبور وتعظیمہا ۔ ”(قبروں کے حوالے سے اسلام کے)یہ سب اقدامات اس لیے ہیں کہ ان کے ذریعے فتنہ نہ پھیلے ، ان کو عبادت گاہ نہ بنایا جائے ، ان پر چراغ نہ جلائے جائیں ، ان میں یا ان کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھی جائے اور انہیں میلہ نہ بنایا جائے جو کہ شرک کا سبب ہے ، خصوصاً پہلی امتوں میں شرک اور بت پرستی کی ابتدا قبروں کے فتنے اور ان کی تعظیم سے ہی ہوئی تھی۔”(الصارم المنکي في الرد علی السبکي لابن عبد الہادي : ٣٠٩)
نیز قبروں کے حوالے سے بہت سی احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وہذہ الأحادیث تدلّ کلّہا علی تحریم تخصیص القبور بما یوجب انتیابہا ، وکثرۃ الاختلاف إلیہا من الصلاۃ عندہا واتّخاذہا مساجد ، واتّخاذہا عیداً ، وإیقاد السرج علیہ ، والصلاۃ إلیہا ، والذبح عندہا ، ولا یخفی مقاصد ہذہ الأحادیث ، وما اشترکت فیہ علی من شمّ رائحۃ التوحید المحض ۔
”یہ تمام احادیث بتاتی ہیں کہ قبروں پر ان چیزوں کا اہتمام کرنا حرام ہے جن سے ان کی طرف آنا جانا زیادہ ہو ، ان کے پاس نماز پڑھنے کے لیے زیادہ آنا جانا ہو، ان کو سجدہ گاہ بنایا جائے، ان کو میلہ گاہ بنایا جائے، ان پر چراغ جلائے جائیں، ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے اور ان کے پاس ذبح کیا جائے۔ان احادیث کے مطالب اور ان کا مشترکہ مقصد اس شخص سے مخفی نہیں جس نے خالص توحید کی خوشبو سونگھی ہے۔”
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي لابن عبد الہادي : ٣١٠)
بریلویوں کے ممدوح ابن حجر ہیتمی(٩٠٩۔٩٧٤ھ) لکھتے ہیں :
وتجب إزالۃ کلّ قندیل أو سراج علی قبر ، ولا یصحّ وقفہ ونذرہ ۔
”اسی طرح قبر پر موجود ہر قندیل اور ہر چراغ کو ہٹانا واجب ہے۔قبر پر وقف کرنا یا اس پر نذر ماننا بھی صحیح نہیں۔”(الزواجر عن اقتراف الکبائر لابن حجر الہیتمي : ١/١٢١)
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا :
مبتدعین کی انوکھی چال دیکھیں کہ جب ان کی بدعات تار تار ہو گئیں تو اپنے سادہ لوح عوام کو دھوکا یہ دیا کہ ہمارے جاری کردہ امور اگرچہ پہلے ممنوع تھے ، لیکن اب وہ مستحب اور جائز ہیں۔ جناب احمد یار خان نعیمی صاحب اسی سلسلے میں لکھتے ہیں :
”بہت سی باتیں زمانہئ صحابہ کرام میں منع تھیں ، مگر اب مستحب۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٤)
جناب نعیمی صاحب نے اس کی چار مثالیں بیان کی ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کی صحیح صورت ِ حال کیا ہے ؟
مثال نمبر1 : ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ کوئی مسلمان حاکم خچر پر سوا نہ ہو اور چپاتی روٹی نہ کھائے اور باریک کپڑا نہ پہنے اور اپنے دروازہ کو اہل حاجت کے لیے بند نہ کرے اور فرماتے تھے : فإن فعلتم شیأا من ذلک فقد حلّت بکم العقوبۃ ۔ ”اگر تم نے ان میں سے کچھ بھی کیا تو تم کو سزا دی جائے گی۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٤،٣٠٥)
تبصرہ : یہ روایت مصنف عبد الرزاق (١١/٣٢٤، ح : ٢٠٦٦٢)، شعب الایمان للبیہقی(٧٣٩٤)، مشکوٰۃ المصابیح (٣٧٣٠) اور کنز العمال(٥/٦٨٨) میں موجود ہے۔
لیکن اس کی سند”ضعیف”ہے ، کیونکہ :
1 اس میں امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی ”مدلس” ہیں(طبقات المدلّسین لابن حجر : ٣٤)جو کہ ”عن” کے لفظ سے بیان کرتے ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں ملی۔یہ مسلمہ اصول ہے کہ ثقہ مدلس جب بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن”کے لفظ سے حدیث بیان کرے تو روایت ”ضعیف” ہوتی ہے۔
2 عاصم بن ابی النجود کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع و لقاء ممکن نہیں۔
لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ قول ”مدلَّس” اور ”منقطع” ہونے کی وجہ سے ”ضعیف” اور ناقابل حجت ہے۔
جس روایت پر اصول کی بنیاد رکھی گئی تھی ، وہی ”ضعیف” ہو گئی تو اصول بھی ”ضعیف” ہوا۔
مثال نمبر2 : ”مشکوٰۃ ، باب المساجد میں ہے : ما أمرت بتشیید المساجد ”مجھ کو مسجدیں اونچی بنانے کا حکم نہ دیا گیا۔”(‘جاء الحق’ : ١/٣٠٥)
تبصرہ : یہ روایت سنن ابی داؤد(٤٤٨)اور صحیح ابن حبان(١٦١٥) میں موجود ہے لیکن اس کی سند”ضعیف” ہے ، کیونکہ اس میں امام سفیان ثوری موجود ہیں جو بالاجماع ”مدلس” ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
المعجم الکبیر للطبرانی(١٢/١٨٨، ح : ١٣٠٠) میں صباح بن یحییٰ مزنی راوی نے امام سفیان ثوری کی متابعت کی ہے ، لیکن خود یہ صباح بن یحییٰ مزنی سخت ضعیف راوی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں ”فیہ نظر”کہا ہے(التاریخ الکبیر للبخاري : ٤/٣١٥) جبکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”متروک، بل متہم” قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال للذہبي : ٢/٣٠٦)
نیز اس سند میں عبید بن محمد محاربی راوی بھی ”ضعیف” ہے۔(تقریب التہذیب : ٤٣٩٠)
اسی طرح مسند ابی یعلیٰ (٢٤٥٤، ٢٦٨٨، ٢٦٨٩) اور المعجم الکبیر للطبرانی (١٢/١٨٨، ح : ١٣٠٠) میں لیث بن ابی سلیم نے بھی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی متابعت کی ہے لیکن لیث بن ابی سلیم خود جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” اور ”مختلط” ہے۔
الحاصل یہ روایت امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔ کسی بھی قوی سند سے ان کی متابعت ثابت نہیں ہو سکی۔
جناب نعیمی صاحب اس ”ضعیف” روایت کو دلیل بنا کر لکھتے ہیں :
”اگر کفار کے مکانات اور ان کے مندر تو اونچے ہوں مگر اللہ کا گھر مسجد نیچی اور کچی اور معمولی ہو تو اس میں اسلام کی توہین ہے۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٥)
”مفتی” صاحب نے جہالت کا لک توڑ دیا ہے۔ اس میں اسلام کی توہین کی کون سی بات ہے؟ اسلام کے اپنے احکام اور اپنے اصول ہیں جبکہ کفار کے اپنے طور طریقے ہیں۔ اگر نعیمی صاحب کے نزدیک یہ حدیث ثابت ہے تو (نعوذ باللہ!)کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی توہین کرتے رہے؟صحابہ کرام کا دور بھی ایسے ہی گزرا کیونکہ خود بقول نعیمی صاحب کے یہ کام صحابہ کرام کے دور میں ممنوع تھا، اسلام کی تعظیم کیا نعیمی صاحب نے کی ؟
دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَتَبَاہَی النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ’
”اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک لوگ مسجدوں میں فخر نہ کرنے لگیں۔”(مسند الإمام أحمد : ٣/١٤٥، ٤/١٣٤، سنن النسائي : ٦٩٠، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (١٣٢٢)اور امام ابن حبان(١٦١٤) Hنے ”صحیح” قرار دیا ہے۔
ثابت ہوا کہ مساجد کی بلند و بالا عمارتوں اور ان کی زیبائش و آرائش پر فخر کرنا ممنوع ہے۔باقی مساجد کی عمارت کو بلند بنانا اور ان کی زیب و زینت تو وہ ہر دور میں جائز رہی ہے۔
قبوری لوگ بدعات و خرافات اور منہیات کو دین قرار دینے کے لیے ہمہ وقت سرگرم نظر آتے ہیں۔ان کی ایک ہی کوشش ہے کہ قبروں پر روشنی ہونی چاہیے۔ جبکہ حنفی فقہاء کہتے ہیں کہ یہ کام بے اصل اور بے فائدہ ہے ، نیز مال کا ضیاع ہے۔ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اولیاء اللہ کی قبروں کے متعلق غلو ہے اور غلو ہی نے پہلی امتوں کو ہلاک کر دیا تھا۔یہ امت اگر اس غلو میں مبتلا ہو گی تو گمراہی سے کیسے بچے گی؟
شیخ الاسلام ثانی ،عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ)مشہور فلسفی ابو الوفاء ابن عقیل(٤٣١۔٥١٣) سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لمّا صعبت التکالیف علی الجہّال والطغام عدلوا عن أوضاع الشرع إلی تعظیم أوضاع وضعوہا لأنفسہم ، فسہلت علیہم ، إذ لم یدخلوا بہا تحت أمر غیرہم ، قال : وہم عندی کفّار بہذہ الأوضاع ، مثل تعظیم القبور وإکرامہا ، بما نہی عنہ الشرع ، من إیقاد النیران وتقبیلہا وتخلیقہا ، وخطاب الموتی بالحوائج ، وکتب الرقاع فیہا : یا مولاي! افعل بی کذا وکذا ، وأخذ تربتہا تبرّکا ، وإفاضۃ الطیب علی القبور ، وشدّ الرحال إلیہا ، وإلقاء الخرق علی الشجر اقتداء بمن عبد اللات والعزی ، والویل عندہم لمن لم یقبل مشہد الکفّ ، ولم یتمسح بآجرۃ مسجد الملموسۃ یوم الأربعاء ، ولم یقلّ الحمّالون علی جنازتہ الصدیق أبو بکر ، أو محمد وعليّ ، أو لم یعقد علی قبر أبیہ أزجا بالجصّ والآجرّ ، ولم یخرق ثیابہ إلی الذیل ، ولم یرق ماء الورد علی القبر ۔
”جب جاہلوں اور بے وقوفوں پر شرعی احکام پر عمل کرنا مشکل ہوا تو انہوں نے شریعت کے مقرر کردہ شعائر چھوڑ کر خود ساختہ امور کی تعظیم شروع کر دی۔ان کے لیے ان میں سہولت میسر ہوئی۔ان کی وجہ سے وہ شرعی احکام کی پابندی سے بھی نکل گئے۔ان وضعی اور ان خود ساختہ امور کی وجہ سے وہ کافر ٹھہرے،مثلاً قبروں کی ممنوع تعظیم وتکریم کرنا(ان کو سجدہ روا سمجھنا،ان پر نذرو نیاز دینا وغیرہ) ، ان پر چراغ جلانا، ان کو بوسہ دینا، ان پر پھول نچھاور کرنا ، مردوں سے حاجات طلب کرنا ، قبروں پر چارٹ آویزاں کرنا کہ اے میرے مولا! میرا فلاں کام کردے، برائے تبرک قبروں کی مٹی حاصل کرنا، قبروں پر خوشبو چھڑکنا، ان کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کا اہتمام کرنا،لات و عزّٰی کے پجاریوں کی تقلید میں قبر کے درختوں کے ساتھ کپڑے باندھنا(وغیرہ)۔قبوری لوگ اس شخص کے لیے ہلاکت وبربادی کا یقین کر لیتے ہیں جو ‘مشہد الکف’ پر حاضری نہیں دیتا،جو بروز بدھ مسجد ملموسہ کی اینٹوں کو نہیں چھوتا، جو جنازہ اٹھانے والے ،ابوبکر صدیق، محمد اور علی کانعرہ نہ لگائیں۔ان کے لیے بھی بربادی خیال کرتے ہیں جو اپنے باپ کی قبر پر چوناگچ عمارت کھڑی نہ کرے، جو اپنے کپڑے کو دامن تک نہ پھاڑے ، جو قبر پر عرقِ گلاب نہ چھڑکے، اس کے لیے بھی قبوری لوگ ہلاکت کاعقیدہ رکھتے ہیں۔(إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان لابن القیم : ١/١٩٥)
مثال نمبر3 : ”اسی مشکوٰۃ میں ہے : ‘لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ’ (عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو)۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٥)
تبصرہ : یہ روایت صحیح البخاری (٨٥٨) اور صحیح مسلم(٤٤٢) میں موجود ہے۔ اس حدیث ِ نبوی کے خلاف ”مفتی” احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب اپنی بدباطنی یوں ظاہر کرتے ہیں : ”اگر عورتیں مسجد میں جاویں تو صدہا خطرات ہیں۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٢٠٥)
قارئین کرام ! اسی کو کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، دکھانے کے اور۔ یہ نام نہاد سنی حدیث کے خلاف کس طرح زہر اگل رہے ہیں۔ جس کام کی اجازت نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی ہو اور صحابہ کرام جس کے عامل رہے ہوں ، اس میں ان کو ”صدہاخطرات” نظر آتے ہیں۔نعیمی صاحب کی اس بات کا جواب ہم اپنی طرف سے نہیں دیتے بلکہ اس بارے میں صحابی ئ رسول سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل پیش کرتے ہیں اور بریلوی بھائیوں کو دعوت ِ فکر بھی دیتے ہیں کہ وہ اپنے ان ”علمائ” کی کارروائیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور غور فرمائیں کہ کیا وہ دین کی خدمت کر رہے ہیں یا ۔۔۔۔
جب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہی حدیث سنائی تو ان کے ایک بیٹے نے کہا : ہم عورتوں کو روکیں گے توآپ نے اس کے سینے میں (زور دار تھپیڑا )مارا اور فرمایا : میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ (میں ان کو اجازت ) نہیں (دوں گا )۔”
(صحیح مسلم : ٤٤٢)
اس حدیث سے جہاں عورتوں کے مسجد میں جانے کا جواز ثابت ہوتا ہے،وہاں عورتوں کو مسجدوں سے منع کرنے والوں کے لیے صحابہ کرام ] کا اتباعِ سنت، عبرت بھی ہے ۔
صحیح مسلم کی ایک روایت(١٣٥/٤٤٣) میں تو ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے دوسرے بیٹے سالم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کے بیٹے نے حدیث سن کر بھی عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیااور کہا کہ ہم ان کو ضرور روکیں گے تو سیدناابن عمر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنا سخت برا بھلا کہا کہ میںنے اس جیسی سختی آپ میں کبھی نہ سنی تھی ۔
یہ تھا صحابہ کرام کا جذبہئ اتباع ، اب بھی اگر کوئی یہی بہانہ بنا کر عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکے تو خود ہی سوچے کہ اس سنت کی مخالفت کرکے وہ روز ِ محشر نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کو کیا منہ دکھائے گا ؟
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا عورتوں کو بازاروں ، سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہوئے ”ہزارہا خطرات” بریلوی بھائیوں کو نظر نہیں آتے؟ کیا وہ ان خطرات کی بنا پر اپنی عورتوں کو ان سب جگہوں سے روکتے ہیں؟ صرف حدیث کی مخالفت کے لیے اتنے حیلے اور بہانے کیوں ہیں؟کاش کہ نعیمی صاحب اس حدیث کے بارے میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما والی روش اختیار کرتے!
اس مسئلہ میں ہمارے تلمیذ ارشد ، محترم و مکرم ، حافظ ابویحییٰ نورپوریdنے ماہنامہ اَلسُّنَّۃ ، شمارہ نمبر8میں ایک تفصیلی اور تحقیقی مضمون لکھا ہے جس میں انہوںنے بعض الناس کے تمام شبہات کا مسکت جواب دیا ہے۔ شائقین حضرات وہاں رجوع فرمائیں۔
مثال نمبر4 : ”قرآن میں زکوٰۃ کے مصرف آٹھ ہیں، یعنی مؤلفۃ القلوب بھی زکوٰۃ کا مصرف ہے لیکن عہد فاروقی میں صرف سات مصرف رہ گئے۔ مؤلفۃ القلوب کو علیحدہ کر دیا گیا۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٣٠٥)
تبصرہ : یہ روایت تفسیر طبری میں یوں بیان ہوئی ہے :
قال عمر بن الخطّاب رضي اللّٰہ عنہ وأتاہ عیینۃ بن حصن :(اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ) (الکہف : ٢٩) أي : لیس الیوم مؤلّفۃ ۔
”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس عیینہ بن حصن آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت ِ کریمہ تلاوت فرمائی : (اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ) (الکہف : ٢٩)(حق تمہارے رب کی طرف سے ہے ، لہٰذا جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے)، یعنی آج کے دن کوئی مؤلفۃ القلوب نہیں۔”(تفسیر الطبري : ١٠/٢٠٩)
لیکن اس کی سند ”ضعیف”ہے۔ اس کو بیان کرنے والے راوی حیان بن ابی جبلہ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع و لقاء ثابت نہیں۔یہ سند ”منقطع” ہوئی۔ محدثین کرام کے نزدیک صحیح حدیث کے لیے متصل السند ہونا شرط ہے۔
اس مضمون کی ایک اور روایت بھی ہے۔(المعرفۃ والتاریخ للفسوي : ٣/٣٠٩، التاریخ الصغیر للبخاري : ١/٥٦، وفي نسخۃ : ١/٨١، السنن الکبرٰی للبیہقي : ٧/٢٠، تاریخ ابن عساکر : ١٩/١٥٩)
لیکن اس روایت کی سند بھی”ضعیف”ہے ، کیونکہ :
1 اس میں محمد بن عبد الرحمن المحاربی راوی ”مدلس” ہے اور وہ ”عن” کے لفظ سے بیان کر رہا ہے۔ سماع کی تصریح نہیں ملی۔
2 عبیدہ بن عمرو راوی نے اس واقعہ کا زمانہ ہی نہیں پایا، لہٰذا یہ سند منقطع ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قال عليّ بن المدینيّ : ہذا منقطع ، لأنّ عبیدۃ لم یدرک القصّۃ ، ولا روي عن عمر أنّہ سمعہ منہ ۔
”امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ عبیدہ نے اس قصہ کا زمانہ نہیں پایا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ مروی ہے کہ عبیدہ نے یہ واقعہ آپ سے سن لیا ہو۔”(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ لابن حجر : ١/٢٥٤)
چنانچہ اس ”مدلَّس” اور ”منقطع” سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ”صحیح” کہنا(الإصابۃ : ١/٢٤٥) صحیح نہ ہوا۔
لہٰذا ”مفتی” صاحب کا یہ کہنا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مؤلفۃ القلوب کو مصارف ِ زکوٰۃ سے خارج کر دیا تھا، ثابت نہیں ہو سکا۔ وللّٰہ الحمد !
یہ تھی ”مفتی”صاحب کی ذکر کردہ چار مثالیں جن سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کچھ دینی امور ایسے بھی ہیں جو صحابہ کرام کے دور میں ممنوع تھے لیکن بعد میں جائز قرار پائے اور اسی اصول سے وہ قبروں پر چراغاں کرنے کی بدعت کو خلعت ِ جواز پہنانا چاہتے تھے لیکن قارئین کرام نے دیکھ لیا ہے کہ وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو بدعات کی آمیزش سے بچاتے ہوئے محض اپنی رضا کے لیے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.