1,132

قبروں کی مجاوری شریعت کی نظر میں، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

قبروں کی تعظیم میں غلو نے بہت سے اعتقادی اور اخلاقی فتنوں کو جنم دیا ہے۔قبروں اور مزارات پر مشرکانہ عقائد و اعمال اور کافرانہ رسوم و رواج اس قدر رواج پا رہی ہیں کہ بعض لوگوں نے یہود و نصاریٰ کی پیروی میں اولیاء و صالحین کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔طلب ِ حاجات کے لیے ان پر مراقبہ اور مجاہدہ کرتے نظر آتے ہیں،ہر مشکل میں ان کی پکار کرتے ہیں اور ان سے فریادیں کرتے ہیں، ان سے ڈرتے ہیں اور انہی سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں ، منت منوتی اور نذرانے پیش کرتے ہیں۔ لوگوں کا قیمتی مال ہڑپ کرنے کے لیے وہاں ٹھگ بیٹھے ہوتے ہیں جنہیں مجاور کہتے ہیں۔وہ زائرین کو صاحب ِ قبر کے متعلق جھوٹی حکایات اور کرامات سناتے ہیں۔جہالت اور ضعف ِ اعتقادی کے باعث لوگ ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔اس طرح یہ جاہل لوگ عوام کا ایمان برباد کرتے ہیں۔ قبوریوں کی یہ انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس کو قبرپرستی اور اولیاء پرستی کے حوالے سے وہ سارے کے سارے وسائل و ذرائع مہیا کریں جن کی بنیاد پر وہ شرک و بدعت کی طرف چل دیں۔
انہی وسائل میں سے ایک قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے۔ قبروں پر مجاور اور خادم بن کر بیٹھنا منکر اور بدعت ہے۔ یہ بتوں کے پجاریوں کے ساتھ مشابہت اور یہودیانہ روش ہے۔ مشرکین اپنے بتوں کی دیکھ بھال اور نگرانی اسی طرح کرتے تھے، جیسا کہ :
n اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے : (إِذْ قَالَ لِأَبِیہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُونَ ٭ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عَاکِفِینَ) (الشعراء 26: 71-70)
”جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ وہ کہنے لگے : ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور انہیں کے مجاور بنے رہتے ہیں۔”
n نیز فرمایا: (إِذْ قَالَ لِأَبِیہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیلَ الَّتِي أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُونَ٭) (الأنبیاء 21 : 52 ) ”جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا : کیا ہیں یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو؟”
n ایک مقام پر یوں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلٰی أَصْنَامٍ لَّہُمْ قَالُوا یَا مُوسَی اجْعَلْ لَنَا إِلٰہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃٌ قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُونَ) (الأعراف 7 : 138)
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار اتارا تو وہ ایسے لوگوں پر آئے جو اپنے کچھ بتوں پر جمے بیٹھے تھے۔کہنے لگے : اے موسیٰ ! ہمارے لیے کوئی معبود بنا دیں جیسے ان کے کچھ معبود ہیں۔موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : یقینا تم بڑے جاہل لوگ ہو۔”
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں ایک حدیث بھی ملاحظہ فرما لیں:
n سنان بن ابی سنان دؤلی بیان کرتے ہیں : إِنَّہ، سَمِعَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّیْثِيَّ یَقُولُ ـــ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ـــ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللّٰہِ مَکَّۃَ، خَرَجَ بِنَا مَعَہ، قِبَلَ ہَوَازِنَ، حَتّٰی مَرَرْنَا عَلٰی سِدْرَۃِ الْکُفَّارِ، سِدْرَۃٌ یَّعْکُفُونَ حَوْلَہَا، وَیَدْعُونَہَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ، قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، اجْعَلْ لَّنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ کَمَا لَہُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘اَللّٰہُ أَکْبَرُ، إِنَّہَا السُّنَنُ، ہٰذَا کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسٰی : اجْعَلْ لَّنَا إِلٰہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃٌ، قَالَ : إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُونَ’، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘إِنَّکُمْ لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ’
”میں نے صحابی ئ رسول سیدنا ابوواقد رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ ہمیں اپنے ساتھ ہوازن قبیلے کی طرف لے گئے۔ہم کفار کی ایک بیری کے پاس سے گزرے جس کے پاس وہ مجاوری کرتے تھے اور اسے ذاتِ انواط کا نام دیتے تھے۔ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول! جس طرح کفار کی ذات ِ انواط ہے ، اسی طرح ہمارے لیے بھی ذاتِ انواط مقرر کر دیجیے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر! یہ گزشتہ امتوں کے طریقے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی کچھ معبود بنا دیں جیسے کفار کے معبود ہیں اور اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا : تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے پر چلو گے۔”
(صحیح ابن حبان : 6702، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م :790ھ) اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
وَصَارَ حَدِیثُ الْفِرَقِ بِہٰذَا التَّفْسِیرِ صَادِقًا عَلٰی أَمْثَالِ الْبِدَعِ الَّتِي تَقَدَّمَتْ لِلْیَہُودِ وَالنَّصَارٰی، وَأَنَّ ہٰذِہِ الـْأُمَّۃَ تَبْتَدِعُ فِي دِینِ اللّٰہِ مِثْلَ تِلْکَ الْبِدَعِ، وَتَزِیدُ عَلَیْہَا بِبِدْعَۃٍ لَّمْ تَتَقَدَّمْہَا وَاحِدَۃٌ مِّنَ الطَّائِفَتَیْنِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ .
”اس تفسیر کے ساتھ(تہتر) فرقوںوالی حدیث ان بدعتوں پر صادق آتی ہے جن کا ارتکاب یہود و نصاریٰ پہلے سے کرتے رہے ہیں، نیز معلوم ہوا کہ یہ امت بھی اللہ کے دین میں ایسی بدعتوں کا ارتکاب کرے گی بلکہ ایک زائدبدعت ایسی بھی کرے گی جس کا ارتکاب یہود و نصاریٰ نے نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(الاعتصام : 245/2)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ) فرماتے ہیں :
وَمِنَ الْمُحَرَّمَاتِ : الْعُکُوفُ عِنْدَ الْقَبْرِ، وَالْمُجَاوَرَۃُ عِنْدَہ،، وَسَدَانَتُہ،، وَتَعْلِیقُ السُّتُورِ عَلَیْہِ، کَأَنَّہ، بَیْتُ اللّٰہِ الْکَعْبَۃُ . ”قبر پر اعتکاف، اس کی مجاوری، اس کی خدمت ، اس پر خانہ کعبہ بیت اللہ کی طرح چادریں چڑھانا، سب حرام کام ہیں۔”(اقتضاء الصراط المستقیم، ص : 267)
نیز فرماتے ہیں : فَأَمَّا الْعُکُوفُ وَالْمُجَاوَرَۃُ عِنْدَ شَجَرَۃٍ أَوْ حَجَرٍ، تِمْثَالٍ أَوْ غَیْرِ تِمْثَالٍ، وَالْمُجَاوَرَۃُ عِنْدَ قَبْرِ نِبِيٍّ أَوْ غَیْرِ نَبِيٍّ، أَوْ مَقَامِ نَبِيٍّ أَوْ غَیْرِ نَبِيٍّ، فَلَیْسَ ہٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ ہُوَ مِنْ جِنْسِ دِینِ الْمُشْرِکِینَ .
”کسی شجر و حجر یا مورتی وغیرہ کے پاس اعتکاف کرنااور کسی نبی یا غیر نبی کی قبر یا نبی یا غیرنبی کے مقام پر مجاور بن کر بیٹھنا ، ان کاموں کا مسلمانوں کے دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مشرکین کے دین سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔”(اقتضاء الصراط المستقیم، ص : 365)
شیخ الاسلام ثانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (751-691ھ) فرماتے ہیں :
فَمِنْہَا تَعْظِیمُہَا الْمُوقِعُ فِي الِافْتِتَانِ بِہَا، وَمِنْہَا اتِّخَاذُہَا عِیدًا، وَمِنْہَا السَّفَرُ إِلَیْہَا، وَمِنْہَا مُشَابَہَۃُ عِبَادَۃِ الْـأَصْنَامِ بِمَا یُفْعَلُ عِنْدَہَا، مِنَ الْعُکُوفِ عَلَیْہَا، وَالْمُجَاوَرَۃِ عِنْدَہَا، وَتَعْلِیقِ السُّتُورِ عَلَیْہَا وَسَدَانَتِہَا، وَعُبَّادُہَا یُرَجِّحُونَ الْمُجَاوَرَۃَ عِنْدَہَا عَلَی الْمُجَاوَرَۃِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَیَرَوْنَ سَدَانَتَہَا أَفْضَلَ مِنْ خِدْمَۃِ الْمَسَاجِدِ . ”قبرپرستی کی خرابیوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی ایسی تعظیم کی جاتی ہے جو انسان کو شرک و بدعت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسے ہی ان کو میلہ گاہ بنانا، ان کی طرف سفر کرنا ،انہی میں سے یہ بھی ہے کہ قبروں کے پاس وہ کام کیے جاتے ہیں جو بت پرستی سے مشابہ ہیں ، مثلاً ان پر اعتکاف کرنا، ان کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا ، ان پر پردے لٹکانا ، ان کی خدمت کے لیے وقف ہونا وغیرہ۔ قبر پرست لوگ قبروں کی مجاوری کو بیت اللہ کی مجاوری پر بھی ترجیح دیتے ہیںاور ان کا یہ نظریہ ہے کہ قبروں کی خدمت بیت اللہ کی خدمت سے بھی افضل ہے۔”(إغاثۃ اللہفان : 1/197)
اس مجاوری والی بدعت کو ثابت کرنے کی کوشش میں جناب احمدیار خان نعیمی بریلوی (1391-1324ھ) لکھتے ہیں : ”مجاور بننا تو جائز ہے۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے، کھولنے بند کرنے کی چابی اپنے پاس رکھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ مسلمانوں کی والدہ حضور علیہ السلام کی قبر انور کی منتظمہ اور چابی والی تھیں۔ جب صحابہ کرام کو زیارت کرنی ہوتی توان سے کھلوا کر زیارت کرتے۔دیکھو مشکوٰۃ باب الدفن ، آج تک روضہئ مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام پر مجاور رہتے ہیں، کسی نے ان کو ناجائز نہ کہا۔”(‘جاء الحق’ : 293/1)
اگر احباب بُرا نہ مانیں تو ہم کہہ دیں کہ جناب نعیمی صاحب نے ایک سانس میں کئی جھوٹ بول دیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجاور بننا تو صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ صحابہ کرام کو مجاور کہنا ان کی توہین اور گستاخی ہے۔ ان کے متعلق بدعقیدگی کا اظہار اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے؟ رہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا صحابہ کرام کے لیے حجرہ کھول دینا تو اس کا مجاوری سے کیا تعلق ہے؟ آخر وہ ان کا اپنا حجرہ تھا، اسی میں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے بھی رہائش پذیر تھیں۔ اپنے حجرے کو وہی کھول سکتی تھیں۔ بمطابقِ وحی ئ الٰہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک اسی جگہ بنائی گئی۔ اس سے مجاوری کا اثبات کیسے ہوا؟
باقی نعیمی صاحب کا یہ کہنا کہ روضہئ مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام پر مجاور رہتے ہیں تو یہ صریح دروغ گوئی ہے۔ ہر صاحب ِ عقل اس بات کوبے حقیقت خیال کرتا ہے۔جس طرح آج مزاروں اور آستانوں پر ملنگ بیٹھے ہوتے ہیں، یہ کفار کی عادت ہے۔دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی تعلق و ناطہ نہیں۔مشکوٰۃ کی جس روایت کی طرف نعیمی صاحب نے اشارہ کیا ہے، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ ان کی جہالت اور بددیانتی پر مہر ثبت ہو جائے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے قاسم بن محمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَقُلْتُ : یَا أُمَّہْ ! اِکْشِفِي لِي عَنْ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَیْہِ، فَکَشَفَتْ عَنْ ثَلَاثَۃِ قُبُورٍ، لَا مُشَرَّفَۃٍ وَّلَا طِئَۃٍ، مَبْطُوحَۃٍ بِبَطْحَاءِ الْعَرْصَۃِ الْحَمْرَاءِ .
”میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور عرض کیا : امی جان! میرے لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں(سیدنا ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما )کی قبریں کھولیں(یعنی اپنا حجرہ کھولیں) توانہوں نے میرے لیے تینوں قبریں کھولیں۔ نہ وہ اونچی تھیں اورنہ بالکل زمین کے ساتھ برابر بچھی ہوئی تھیں۔ میدان کی سرخ کنکریاں ان پر بچھی ہوئی تھیں۔”
(سنن أبي داو،د : 3220، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ (١/٣٦٩)نے اس اثر کو ”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔اس کے راوی عمرو بن عثمان بن ہانی کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے ”الثقات” (٨/٤٧٨)میں ذکر کیا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی روایت کی تصحیح کرکے اس کی توثیق کردی ہے، لہٰذا یہ ”حسن الحدیث” ہے۔
قارئین اس حدیث کو بار بار پڑھیں اور سوچیں کہ کیا اس سے وہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے جو جناب نعیمی صاحب نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کی قبورِ مبارکہ تھیں ، اس لیے ان کی اجازت سے ہی ان کی زیارت کی جا سکتی تھی۔
احباب اس بات کی طرف بھی غور فرمائیں کہ جناب نعیمی صاحب نے اس حدیث کی طرف اشارہ کرنے میں ہی اپنی عافیت کیوں جانی؟ انہوں نے اسے ذکر کیوں نہ کر دیا؟ اس لیے کہ یہ حدیث تو ان کے قبوری سسٹم کے لیے بہت نقصان دہ تھی۔ اس میں صاف مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کی قبریں نہ بلند تھیں اور نہ پکی تھیں، بلکہ زمین سے تھوڑی سی اونچی اور کچی تھیں۔ان پر کوئی چادر وغیرہ نہیں ڈالی گئی تھی۔ اگر نعیمی صاحب اس حدیث کو ذکر کر کے اس کا ترجمہ کر دیتے تو ان کے قبوری مذہب کی بنیادیں ہل جاتیں اور لوگ ان سے پوچھتے کہ حضرت اگر صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کو نہ اونچا کیا ، نہ پختہ کیا اور نہ ان پر چادریں چڑھائیں تو آپ اس بدعت کو جائز کیسے قرار دیتے ہیں؟ یہ ہے دیانت داری اور علمیت جناب نعیمی صاحب کی!!!
جناب احمدیارخان نعیمی مزید لکھتے ہیں : ”حضرت حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ ضَرَبَتْ إِمْرَأَتُہُ الْقُبَّۃَ عَلٰی قَبْرِہٖ سَنَۃً . تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پرایک سال تک قبہ ڈالے رکھا۔”(‘جاء الحق’ : 285/1)
جناب نعیمی صاحب دھوکہ دہی میں بڑے ماہر ہیں، اسی لیے بدعتی ان کے شیدائی ہیں۔ جب قبروں پر مجاور بننے کے ثبوت پر کوئی وضعی ومن گھڑت روایت بھی پیش نہ کرسکے تو ایک چال چل دی۔ چونکہ اس روایت میں ”القبہ” کا لفظ آیاتھا، ترجمہ میں بھی” قبہ” لکھ دیاکہ جاہل عوام کویہ باور کرایا جاسکے کہ حسن ابن حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان کی قبر پر ”قبہ” بنایا تھا ، لہٰذا بزرگوں کی قبروں پر گنبد وقبہ بنانااور ان میں مجاور بن کر بیٹھناجائز ہوا ، حالانکہ یہاں قبہ سے خیمہ مراد ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کے ماخذوثبوت کولیجیے تویہ روایت صحیح البخاری میں تعلیقاً موجود ہے۔(صحیح البخاری : 1330)
اس کی سند میں محمد بن حمید الرازی راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ)لکھتے ہیں کہ یہ ”ضعیف” راوی ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 5834)
مفتی صاحب نے اپنی روایتی ”دیانتداری” سے کام لیتے ہوئے اس روایت کے اگلے الفاظ ذکر نہیں کیے ، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
ثُمَّ رَفَعَتْ، فَسَمِعُوا صَائِحًا یَّقُولُ : أَلاَ ہَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا ؟ فَأَجَابَہ، آخَرُ : بَلْ یَئِسُوا، فَانْقَلَبُوا . ”پھر اس خیمے کواٹھا لیاگیا۔ انہوں نے ایک چیخنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا: کیا انہوں نے جوگم پایا تھا ، اسے حاصل کرلیا؟ دوسرے نے جواب دیا : بلکہ وہ مایوس ہوکر واپس چلے گئے ہیں۔”
اس روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ قبر پرخیمہ ان پررونے کے لیے لگایا گیاتھا،نیز قبروں پرقبے بنانے والے ناکام ومایوس ہی ہوتے ہیں۔ ان کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔لہٰذا یہ بے فائدہ اور فضول کام ہے۔ اسی لیے یہ الفاظ جناب نعیمی صاحب نے ڈکار لیے تھے۔
تنبیہ : یہی روایت کتاب الہواتف لابن ابی الدنیا (131)میں اس سند کے ساتھ مذکور ہے : حَدَّثَنِي یُوسُفُ بْنُ مُوسٰی : ثَنَا جَرِیرٌ عَنِ ابْنِ خَالِدِ ابْنِ مَسْلَمَۃَ الْقُرَشِيِّ، قَالَ ……. اس سند میں ابنِ خالد بن مسلمہ القرشی کا تعارف اورتوثیق مطلوب ہے۔ نیز سند کا اتصال بھی ثابت کیا جائے۔
قارئین کرام نے قرآن و سنت کے دلائل اور ائمہ دین کی تصریحات سے قبروں کی مجاوری کا بدعت اور یہود ونصاریٰ کی روش ہونا ملاحظہ فرمایا۔ ساتھ ہی اس ضمن میں جناب نعیمی صاحب کے دلائل بھی دیکھے۔ان سے اپیل ہے کہ خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہ لوگ دین کے لیے مخلص ہیں؟ قرآن و سنت کو تروڑ مروڑ کر اپنے شرکی و بدعتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جن لوگوں کا وطیرہ ہو ، وہ اسلام اور مسلمانوں کے خیرخواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ حق پر گامزن فرمائے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.