1,226

قیام میلاد کی شرعی حیثیت، شیخ الحدیث غلام مصطفی ظہیر امن پوری

محفلِ میلاد وغیرہ میں نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ِ خیر پر کھڑے ہو جانا بے اصل اور بے ثبوت عمل ہے ، جس کی بنیاد محض نفسانی خواہشات اور غلو پر ہے ۔ شرعی احکام ،قرآن وحدیث اور اجماعِ امت سے فہمِ سلف کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں ۔ ان مصادر میں سے کسی میں بھی اس کا ثبوت نہیں ، لہٰذا یہ کام بدعت ہے ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم خود اس محفل میں تشریف فرما ہوتے ہیں ، بعض کہتے ہیں : ”تاہم یہ بات ممکنات میں سے ہے کہ حضور نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  روحانی طور پر محفلِ میلاد میں تشریف لائیں ۔ ” بعض نے کہا ہے : ”ایسا ہونا گو بصورت ِ معجزہ ممکن ہے ۔ ” وغیرہ
یہ سب ان لوگوں کے اپنے منہ کی باتیں ہیں ۔ قرآن وسنت میں اس کی کوئی اصل نہیں ۔
جاہل صوفیوں میں سے جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں یا نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم محفلِ میلاد میں حاضر ہوتے ہیں یا اس سے کوئی ملتی جلتی بات کرتے ہیں ، وہ قبیح ترین غلط بات کہتے ہیں ، بد ترین تلبیسی پردہ اس پر چڑھاتے ہیں ، بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں اور کتاب وسنت اور اہلِ علم کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں ، کیونکہ مُردے تو روز ِ قیامت ہی اپنی قبروں سے نکالے جائیں گے ، دنیا میں نہیں ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُونَ ٭ ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تُبْعَثُونَ ) (المومنون : ١٥۔١٦)(پھرتم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو ، پھر تم روز ِ قیامت زندہ کیے جاؤ گے ) ۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی ہے کہ مُردے روز ِ قیامت ہی زندہ ہوں گے ، دنیا میں نہیں ۔ جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ سفید جھوٹ بولتا ہے یا ملمع سازی سے غلط بات سناتا ہے ۔ وہ اس حق کو نہیں پہچان پایا جسے سلف صالحین نے پہچانا تھا اور جس پر رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام ] اور تابعینِ عظام  رحمہم اللہ  چلتے رہے ہیں۔
جہاں تک قیام کا تعلق ہے تو نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی ، کسی تابعی یا کسی ثقہ مسلمان سے ایسا کرنا باسند ِ صحیح مروی نہیں ، لہٰذا یہ قبیح بدعت ہے ۔
علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔ ١٣٠٤ھ ) لکھتے ہیں : ومنہا أی من القصص المختلقۃ الموضوعۃ ما یذکرونہ من أنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یحضر بنفسہ فی مجالس وعظ عند ذکر مولدہ ، بنو علیہ القیام عند ذکر المولد تعظیما وإکراما ، وہذا أیضا من الأباطیل لم یثبت ذلک بدلیل ومجرّد الاحتمال والإمکان خارج عن حدّ البیان ۔ ”انہی من گھڑت باتوں میں یہ بات بھی ہے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کی مجلسوں میں اس وقت خود حاضر ہوتے ہیں ، جب ان کے میلاد کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس کو بنیاد بنا کر انہوں نے آپ کی ولادت کے ذکر کے وقت قیام گھڑ لیا ہے ۔ یہ بھی ان جھوٹی باتوں میں سے ہیں جو کسی دلیل سے ثابت نہیں ۔ صرف احتمال اور امکان ہے ، وہ بھی دلیل سے عاری ہے۔”(الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لعبد الحی : ص ٤٦)
علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی  رحمہ اللہ (٩٤٢ھ) لکھتے ہیں :
جرت عـــادۃ کثیر من المحبّین إذا سمعوا بذکر وصفہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أن یقوموا تعظیما لہ صلی اللہ علیہ وسلم، وہذا القیام بدعۃ، لا أصل لہ۔
”بہت سے دعویدارانِ حب ّ ِ نبی میں یہ عادت رواج پا گئی ہے کہ وہ جب آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صفت کا ذکر سنتے ہیں تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ یہ قیام ایسی بدعت ہے ، جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ۔ ”(سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد : ١/٤١٥)
مبتدعین کے ممدوح ابنِ حجر ہیتمی (٩٠٩۔ ٩٧٤ھ) کہتے ہیں :
ونظیر ذلک فعل کثیر عند ذکر مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم، ووضع أمہ لہ من القیام، وہو أیضا بدعۃ، لم یرد فیہ شیء علی أنّ الناس إنّما یفعلون ذلک تعظیما لہ صلی اللہ علیہ وسلم، فالعوّام معذورون لذلک بخلاف الخواصّ ۔
”اسی طرح (بدعت )کا کام بہت سے لوگوں کا نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاداور آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے آپ کو جننے کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا ہے ۔ یہ بھی بدعت ہے ۔ اس کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ لوگ اسے آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی نیت سے کرتے ہیں ۔ عام لوگوں کا تو (لا علمی کی وجہ سے ) عذر قبول ہو جائے گا ، برعکس خاص(جاننے والے) لوگوں کے (کہ وہ بدعتی ہی شمار ہوں گے )۔”(الفتاوی الحدیثیۃ لابن حجر الہیتمی : ص ٥٨)
اس کے باوجود بعض دیوبندی اکابر بھی اس قیام کو جائز قرار دیتے ہیں ، جیسا کہ دیوبندیوں کے عقیدہئ وحدت الوجود کے پیشوا اور ”سید الطائفہ” حاجی امداد اللہ مکی صاحب (م ١٣١٧ھ) کہتے ہیں : ”البتہ وقت قیام کے اعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہیے ۔ اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ، کیونکہ عالمِ خلق مقید بزمان ومکان ہے ، لیکن عالمِ امر دونوں سے پاک ہے ۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذات ِ بابرکات کا بعید نہیں ۔ ”(امداد المشتاق از اشرف علی تھانوی : ٥٦)
نیزاشرف علی تھانوی صاحب خود لکھتے ہیں : ”جب مثنوی شریف ختم ہو گئی ۔ بعد ختم حکم شربت بنانے کا دیا اور ارشاد ہوا کہ اس پر مولانا (روم ) کی نیاز بھی کی جاوے گی ۔ گیارہ گیارہ بار سورہئ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا ۔ آپ نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنیٰ ہیں ۔ ایک عجز وبندگی اور وہ سوائے خدا کے دوسرے کے واسطے نہیں ہے ، بلکہ ناجائز شرک ہے ۔ اور دوسرے خدا کی نذر اور ثواب خد اکے بندوں کو پہنچانا ، یہ جائز ہے ۔ لوگ انکار کرتے ہیں ۔ اس میں کیا خرابی ہے ؟ اگر کسی عمل میں عوارض غیر مشروع لاحق ہوں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہیے ، نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے ۔ ایسے امورسے انکار کرنا خیر کثیر سے باز رکھنا ہے ، جیسے قیام مولد شریف اگر بوجہ آئے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے ؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اگر اس سردار ِ عالم وعالمیان (رو حی فداہ ) کے اسمِ گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا؟ ”
(امداد المشتاق از تھانوی : ص ٨٨)
لو جی ! یہ ہیں دیوبندیوںکے ”سید الطائفہ” صاحب اور یہ ہیں ان کی خرافات وبدعات ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ”سیدالطائفہ” کا شمار بھی ”بدعات پسند حضرات” میں ہوتا ہے ۔
کیا قیاس مع الفارق ہے کہ عالمِ ارواح کو عالمِ اجساد پر قیاس کیا ، جبکہ دونوں کے احکام جُداجُدا ہیں ۔ اس پر سہاگہ یہ کہ سلف صالحین میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ۔ قرآن وحدیث میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں ۔ اہلِ علم نے اسے بدعت بھی قرار دیا ہے ۔
بنیادی فرق :      خوب یادرہے کہ نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہر مؤمن کے ایمان کا جزو ِ لازم ہے ، لیکن اس تعظیم کی حدود کون متعین کرے گا ؟ یقینا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب   صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے ۔ امام اہلِ حدیث علامہ بشیر احمدسہسوانی  رحمہ اللہ (١٢٥٠۔١٣٢٦ھ) فرماتے ہیں : فنحن معاشر أہل الحدیث نعظّم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بکلّ تعظیم جاء فی الکتاب والسنّۃ الثابتۃ سواء کان ذلک التعظیم فعلیّا أو قولیّا أو اعتقادیّا، والوارد فی الکتاب العزیز والسنّۃ المطہّرۃ من ذلک الباب فی غایۃ الکثرۃ ۔۔۔۔۔ وأہل البدع فمعظم تعظیمہم تعظیم محدث کشدّ الرحال إلی قبر الرسول والفرح بلیلۃ ولادتہ، وقراء ۃ المولد والقیام عند ذکر ولادتہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وتقبیل الإبہام عند قول المؤذّن : أشہد أن محمّدا رسول اللّٰہ، والتمثّل بین یدیہ قیاما وطلب الحاجات منہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم والنذر لہ وما ضاہاہا، وأمّا التعظیمات الثابتۃ فہم عنہا بمراحل ۔ ”ہم تمام اہلِ حدیث رسولِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وہ تعظیم بجا لاتے ہیں جو قرآنِ کریم اور سنت ِ ثابتہ میں وارد ہے ، خواہ وہ تعظیم فعلی ہو ، قولی ہو یا اعتقادی ۔ قرآنِ عزیز اور سنت ِ مطہرہ میں اس طرح کی بہت زیادہ تعظیم موجود ہے ۔ ۔۔ لیکن بدعتوں کے خوگر لوگوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ تعظیم یہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی بدعت جاری کرلیتے ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف شدِّ رحال ، ولادت ِ رسول کی رات جشن ، مولد کی قرائت ، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت کے ذکر کے وقت قیام کرنا ، اذان میںمؤذّن کے أشہد أن محمّدا رسول اللّٰہ کہنے کے وقت انگوٹھے چومنا ، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کے سامنے بُت بن کر کھڑے ہونا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجات طلب کرنا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی نیاز دینا وغیرہ ۔ رہی قرآن وسنت میں ثابت شدہ تعظیمات تو وہ ان سے کوسوں دُور ہیں ۔ ”
(صیانۃ الانسان عن وسوسۃ دحلان از سہسوانی : ص ٢٤٤)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ (٦١١۔ ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں : وإنّما تعظیم الرسل بتصدیقہم فیما أخبروا بہ عن اللّٰہ وطاعتہم فیما أمروا بہ ومتابعتہم ومحبّتہم وموالاتہم ۔ ”رسولوں کی تعظیم تو بس ان کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے ، ان کے احکام میں ان کی اطاعت کرنے ، ان کی پیروی کرنے اور ان سے محبت ومودّت کرنے میں ہے ۔ ”(کتاب الرد علی الاخنائی لابن تیمیۃ : ص ٢٤۔٢٥)
اس کے برعکس بعض لوگوں کی آزادی بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی گجراتی صاحب (١٣٢٤۔ ١٣٩١ھ) لکھتے ہیں : ”تعظیم میں کوئی پابندی نہیں ، بلکہ جس زمانہ میں اورجس جگہ جو طریقہ بھی تعظیم کا ہو ، اس طرح کرو ، بشرطیکہ شریعت نے اس کو حرام نہ کیا ہو ، جیسے کہ تعظیمی سجدہ ورکوع ۔ اورہمارے زمانہ میں شاہی احکام کھڑے ہو کر بھی پڑھے جاتے تھے ۔ لہٰذا محبوب کا ذکر بھی کھڑے ہو کر ہونا چاہیے ۔ دیکھو کلوا واشربوا میں مطلقا کھانے پینے کی اجازت ہے کہ ہر حلال غذا کھاؤ پیو تو بریانی ، زردہ ، قورما سب ہی حلال ہوا خواہ خیر القرون میں ہویا نہ ہو۔ ”(‘جاء الحق’ از نعیمی : جلد ١ ص ٢٥٤)
اگر نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے تو صحابہ کرام ، تابعینِ عظام اور تبع تابعین ، ائمہ دین اورسلف صالحین اس سے محروم کیوں تھے ؟ کہاں ہمارے نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جو کہ دین وایمان ہے اور کھانے پینے کے دنیاوی مسائل ۔قرآن وسنت کی روشنی میں مسلّم اصول ہے کہ دینی معاملات میں کرنے کی دلیل ضروری ہے ، جبکہ دنیاوی معاملات میں منع کی دلیل ۔ لیکن ان لوگوں کے ہاں تو اصل مسئلہ شکم پروری کا ہے ، اس لیے ان کے ہر مسئلہ کی انتہا کھانے پینے پر ہوتی ہے ۔
ایک وضاحت : ابو مجلز لاحق بن حمید تابعی  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
خرج معاویۃ علی ابن الزبیر وابن عامر، فقام ابن عامر وجلس ابن الزبیر، فقال معاویۃ لابن عامر : اجلس، فإنّی سمعت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول : (( من أحبّ أن یتمثّل لہ الرجال قیاما فلیتبوّأ مقعدہ من النار ))
”سید نا معاویہ  رضی اللہ عنہ  ، سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عامر کے پاس آئے تو ابنِ عامر کھڑے ہوگئے ، جبکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ بیٹھے رہے ۔ سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر سے کہا : بیٹھ جاؤ ، کیونکہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی اس کے لیے بُت بن کر کھڑے ہوں ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے ۔ ”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٥٨٦، مسند الامام احمد : ٤/٩١،٩٣،١٠٠، مسند عبد بن حمید : ٤١٣، الادب المفرد للبخاری : ٩٧٧، سنن ابی داو،د : ٥٢٢٩، سنن الترمذی : ٢٧٥٥، وقال : حسن ، تھذیب الآثار للطبری : ٢/٥٦٨،٥٦٩، وسندہ، صحیحٌ)
تہذیب الآثار طبری (٢/٥٦٧،٥٦٨، وسندہ حسن)میں یہ الفاظ ہیں :
خرج معاویۃ ذات یوم، فوثبوا فی وجہہ قیاما، فقال : اجلسوا، اجلسوا، فإنّی سمعت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول : (( من سرّہ أن یستخم بنو آدم قیاما دخل النار )) ”سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ  ایک دن باہر تشریف لائے تو لوگ ان کے سامنے جلدی سے کھڑے ہوگئے ۔ انہوں نے فرمایا : بیٹھ جاؤ ، بیٹھ جاؤ ، کیونکہ میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، وہ آگ میں داخل ہوگا ۔ ”
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦١١۔ ٧٢٨ھ) ان الفاظ کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فإنّ ذلک أن یقوموا لہ وہو قاعد، لیس ہو أن یقوموا لمجیئہ إذا جائ، ولہذا فرّقوا بین أن یقال : قمت إلیہ، وقمت لہ، والقائم للقادم ساواہ فی القیام بخلاف القائم للقاعد ۔ ”اس وعید سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی بیٹھے ہوئے کے لیے کھڑے ہوں ۔ کسی آنے والے کے لیے کھڑے ہونا اس سے مراد نہیں۔ اسی لیے علمائے کرام نے کسی کی طرف کھڑے ہونے اور کسی کے لیے کھڑے ہونے میں فرق کیا ہے ۔ کسی باہر سے آنے والے کی طرف کھڑا ہونے والا کھڑے ہونے میں اس کے برابر ہوتا ہے ، برعکس اس شخص کے جو بیٹھنے والے کے کھڑا ہو۔ ”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١/٣٧٥)
محدث البانی  رحمہ اللہ (م ١٤٢٠ھ) اس کی تشریح میں لکھتے ہیں : دلّنا ہذا الحدیث علی أمرین، الاوّل : تحریم حبّ الداخل علی الناس القیام منہم لہ، وہو صریح الدلالۃ بحیث أنّہ لا یحتاج إلی بیان، والآخر کراہۃ القیام من الجالسین للداخل، و لو کان لا یحبّ القیام، وذلک من باب التعاون علی الخیر، و عدم فتح باب الشرّ، وہذا معنی دقیق دلّنا علیہ راوی الحدیث معاویۃ رضی اللّٰہ عنہ، و ذلک بإنکارہ علی عبد اللّٰہ بن عامر قیامہ لہ، و احتجّ علیہ بالحدیث، وذلک من فقہہ فی الدین، وعلمہ بقواعد الشریعۃ الّتی منہا سدّ الذرائع ۔ ”اس حدیث سے ہمیں دو باتوں کا علم ہوتا ہے : پہلی یہ کہ داخل ہونے والے کا اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے کو پسند کرنا حرام ہے ۔ یہ بات تو بالکل صریح ہے کہ اس کی شرح کی ضرورت ہی نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیٹھنے والوں کا باہر سے آنے والے کے لیے کھڑا ہونا ناپسندیدہ عمل ہے ، اگرچہ داخل ہونے والا بھی اس عمل کو پسند نہ کرتا ہو۔ اس پیچیدہ معنیٰ کی خبر ہمیں راویئ حدیث سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ نے دی ہے ، جیسا کہ انہوں نے عبداللہ بن عامر کو اپنے لیے کھڑے ہونے سے منع کیا اور انہیں حدیث سے دلیل دی ۔ یہ سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ کی دینی فقاہت ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قواعد ِ شریعت سے واقف تھے ۔ سدِّ ذرائع بھی انہی قواعد میں سے ایک ہے ۔ ”(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی : ١/٦٢٩)
سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما کان أحد من الناس أحبّ إلیہم شخصا من رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم، کانوا إذا رأوہ لا یقوم لہ أحد منہم، لما یعلمون من کراہیتہ لذلک ۔ ”صحابہ کرام کے ہاں کوئی بھی اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب نہ تھا ۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑا نہ ہوتا ، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں ۔ ”
(مسند الامام احمد : ٣/١٣٤، وسندہ، صحیحٌ ، سنن الترمذی : ٢٧٥٤، وقال : حسن صحیحٌ)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں : لم تکن عادۃ السلف علی عہد النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وخلفائہ الراشدین أن یعتادوا القیام کلّما یرونہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کما یفعلہ کثیر من الناس ۔
”نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کے عہد میں سلف صالحین کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم (یا کسی اور بزرگ شخصیت ) کو جب دیکھیں کھڑے ہو جائیں ، جیسا کہ بہت سے لوگ (اب )کرتے ہیں ۔”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١/٣٧٤)
کسی صحابی سے نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں یا آپ کے ذِ کر کی تعظیم میں کھڑے ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے ۔
فائدہ نمبر 1 : سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا کے متعلق سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
کانت إذا دخلت علیہ قام إلیہا، فأخذ بیدہا فقبّلہا وأجلسہا فی مجلسہ وکان إذا دخل علیہا قامت إلیہ فأخذت بیدہ فقبّلتہ وأجلستہ فی مجلسہا ۔
”وہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی طرف کھڑے ہوتے ، ان کے ہاتھ کو پکڑتے ، اسے بوسہ دیتے اوران کو اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔ اسی طرح جب نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو آپ رضی اللہ عنہا آپ کی طرف کھڑی ہوتیں ، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتیں ، آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ ”
(سنن ابی داو،د : ٥٢١٧، سنن الترمذی : ٣٨٧٢، وسندہ، صحیحٌ)
اس روایت کو امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٦٩٥٢)اور امام حاکم  رحمہ اللہ (٤/٢٦٤)نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
یہ قیام جائز ہے ۔ اگرچہ یہ روایت پہلی روایات کے بظاہر مخالف ومعارض ہے ، لیکن ان کے درمیان جمع وتطبیق ہوسکتی ہے ، جیسا کہ شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علا مہ ابنِ قیم  رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں : فالمذموم : القیام للرجل، وأمّا القیام إلیہ، للتلقّی إذا قدم، فلا بأس بہ، وبہذا تجتمع الأحادیث ۔
”کسی آدمی کے لیے (تعظیماً)کھڑا ہونا مذموم عمل ہے ، البتہ جب کوئی آئے تو اس کی طرف اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے ۔”(شرح ابن القیم لسنن ابی داو،د مع عون المعبود : ١٤/١٢٧)
فائدہ نمبر 2 :     عمرو بن السائب بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ آگئے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر کا بعض حصہ بچھا دیا ۔ وہ اس پر بیٹھ گئے ۔ پھر آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ آئیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کی دوسری جانب ان کے لیے بچھا دی ۔ وہ اس پربیٹھ گئیں ۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی آگئے ۔ نبیِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔”(سنن ابی داو،د : ٥١٤٥)
تبصرہ : اس کی سند ”مرسل ” ہونے کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
فائدہ نمبر 3 : سیدہ ام فضل  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
أتی النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، فلمّا رآہ (أی العبّاس) قام إلیہ وقبّل ما بین عینیہ ثم أقعدہ عن یمینہ ۔ ”نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم آئے ۔ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہما  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کی طرف کھڑے ہوئے اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا ،پھر آپ کو اپنی دائیں جانب بٹھالیا۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی : ١/٢٣٥، المعجم الاوسط للطبرانی : ٩٢٤٦، تاریخ بغداد : ١/٦٣)
تبصرہ : یہ جھوٹی روایت ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل قرار دیاہے۔ (میزان الاعتدال : ١/٩٧)
اس کے راوی احمد بن رشدین الہلالی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فہو الذی اختلقہ بجھل ۔ ”اسی نے اپنی جہالت کی بنا پر اس روایت کو گھڑا ہے۔”(میزان الاعتدل : ١/٩٧)
صرف اور صرف امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات(٨/٤٠) میں ذکر کیا ہے ۔ یہ ان کا تساہل ہے ۔
شبہ ضعیفہ اور اس کا ازالہ :
اہل بدعت کہتے ہیں کہ صحابہ کرام ، نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے تھے ۔ اس پر وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یجلس معنا فی مسجد یحدثنا ، فإذا قام قمنا قیاما حتی نراہ قد دخل بعض بیوت أزواجہ ۔ ”رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھے باتیں کرتے تھے ۔ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے گھر میں داخل ہوتا نہ دیکھ لیتے ۔ ”(سنن ابی داو،د : ٤٧٧٥، السنن الکبرٰی للنسائی : ٤٧٨٠، سنن ابن ماجہ مختصرا : ٢٠٩٣، شعب الایمان للبیہقی : ٨٩٣٠)
تبصرہ : 1    اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس کے راوی ہلال بن ابی ہلال المدنی کے بارے میں امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفہ ۔
”میں اس کو نہیں پہچانتا۔”(العلل : ١٤٧٦)
امام ابنِ شاہین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفہ ۔ ”میں اس کو نہیںجانتا۔”(الثقات لابن شاہین : ١٢٤٥)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : لا یعرف ۔ ”یہ غیرمعروف ہے۔”
(میزان الاعتدال : ٤/٣١٧)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے ”مقبول”(مستور الحال) کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب : ٧٣٥١)
صرف امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے اسے ”الثقات”(٥/٥٠٣)میں ذکر کیا ہے ، لہٰذا یہ ”مجہول الحال” راوی ہے ۔
2    حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
والّذی یظہر لی فی الجواب أن یقال : لعلّ سبب تأخیرہم حتّی یدخل لما یحتمل عندہم من أمر یحدث لہ حتّی لا یحتاج إذا تفرّقوا أن یتکلّف استدعائہم، ثمّ راجعت سنن أبی داود فوجدت فی آخر الحدیث ما یؤید ما قلتہ، وہو قصّۃ الأعرابی الّذی جبذ رداء ہ صلی اللہ علیہ وسلم، فدعا رجلا فأمرہ أن یحمل لہ علی بعیرہ تمرا وشعیرا، وفی آخرہ : ثمّ التفت إلینا، فقال : انصرفوا رحمکم اللّٰہ تعالی ۔
”جو بات میرے ذہن میں آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے تک صحابہ کرام کے کھڑے رہنے کا سبب شاید یہ ہو کہ ان کے ذہن میں یہ احتمال ہوتا تھا کہ ان کے چلے جانے کے بعد کسی ضرورت کے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں بلانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔پھر میں نے سنن ابوداؤد کی طرف رجوع کیا تو اس حدیث کے آخر میں مجھے وہ الفاظ مل گئے جو میری اس بات کی تائید کرتے ہیں ۔وہ اعرابی کا واقعہ ہے جس نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کو کھینچا ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بلایا اور حکم فرمایا کہ وہ اس اعرابی کے اونٹ پر کھجور اورجَو لاد دے اور اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے ، اب تم جاسکتے ہو۔” (فتح الباری : ١١/٥٢۔٥٣)
3    ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م١٠١٤ھ) فرماتے ہیں : ولعلّہم کانوا ینتظرون رجاء أن یظہر لہ حاجۃ إلی أحد منہم أو یعرض لہ رجوع إلی الجلوس معہم ، فإذا أیسوا تفرّقوا ولم یقعدوا لعدم حلاوۃ الجلوس بعدہ علیہ السلام ۔ ”شاید کہ وہ اس امید سے انتظار کرتے تھے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی سے کوئی کام پڑجائے یا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی طرف دوبارہ آنے کا ارادہ بن جائے ۔ جب وہ اس بات سے ناامید ہوجاتے تو چلے جاتے ۔ دوبارہ نہ بیٹھتے تھے ، کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں بیٹھنے کا مزہ نہیں آتا تھا۔”(مرقاۃ المفاتیح للقاری : ١٣/٤٨٨)
لہٰذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ صحابہ کرام ] ، نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے تھے، صحیح نہ ہوا ۔ نیز اس کو دلیل بنا کر ان کا ذکر ولادت کی تعظیم میں کھڑا ہونا غلط دَر غلط ہے ۔
سیدنا ابوجحیفہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : لمّا قدم جعفر من ہجرۃ الحبشۃ تلقّاہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فعانقہ ، وقبّل ما بین عینیہ ، وقال : ما أدری أیّہما أنا أسرّ ؟ بفتح خیبر أو بقدوم جعفر ؟
”جب سیدنا جعفر  رضی اللہ عنہ ہجرت ِ حبشہ سے واپس آئے تو نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا ، ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا : مجھے معلوم نہیں کہ دو چیزوں میں زیادہ خوشی مجھے کس بات کی ہے ، فتحِ خیبر کی یا جعفر کی آمد کی ؟”(المعجم الکبیر للطبرانی : ٢/١٠٨، المعجم الاوسط للطبرانی : ٢٠٠٣، المعجم الصغیر للطبرانی : ٣٠)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس میں احمد بن خالد الحرانی راوی ہے ، جس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف ، لیس بشیء ، ما رأیت أحدا أثنی علیہ ۔ ”یہ ضعیف راوی ہے ۔ کچھ نہیں ۔ میں نے کسی کو اس کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔”(سوالات حمزہ السہمی للدارقطنی : ص ١٤٨)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واہ ۔ ”یہ کمزور راوی ہے ۔”
(المغنی للذہبی : ١/٦٥)
اس کے متابع راوی انس بن سلم کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ولم أعرفہ ۔ ”میں اسے پہچان نہیں سکا۔ ”(مجمع الزوائد : ٩/٢٧١)
اس کی متابعت ایک اور راوی عثمان بن محمد بن عثمان نے بھی کی ہے ۔
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی : ١١/٢٩٢)
اس کے بارے میں بھی تعدیل وتوثیق کا کوئی قول ثابت نہیں ۔ لہٰذا یہ روایت ”ضعیف”ہے۔
عکرمہ بن ابی جہل  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں روایت ہے : فلمّا بلغ باب رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم استبشر ووثب لہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قائما علی رجلیہ فرحا بقدومہ ۔ ”جب وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کے آنے کی خوشی میںان کے لیے جلدی سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے ۔ ”(المغازی للواقدی : ٢/٨٥٠۔٨٥٣، المستدرک للبیہقی : ٣/٢٦٩، المدخل الی السنن الکبرٰی للبیہقی : ٧١٠)
تبصرہ : یہ جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ اس کاراوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” اور ”متروک” راوی ہے ۔ اور اس کا استاذ ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرہ ”وضّاع”(جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا)اور کذاب(جھوٹا) راوی ہے۔
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یضع الحدیث ۔ ”یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٧/٣٠٦)
سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدنا زید بن حارثہ  رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  میری قیام گاہ میں تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے دروازہ کھٹکٹایا : فقام إلیہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عریانا یجرّ ثوبہ ، واللّٰہ ! ما رأیتہ عریانا قبلہ ولا بعدہ ، فأعتنقہ وقبّلہ ۔ ”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف مکمل لباس کے بغیر اپنے کپڑے کو سنبھالتے ہوئے کھڑے ہوئے ۔ اللہ کی قسم ! میں نے اس سے پہلے اور بعد کبھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل لباس کے بغیر کسی سے ملتے نہیں دیکھا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ کیااور ان کو بوسہ دیا۔”
(سنن الترمذی : ٢٧٣٢، وقال : حسن ، شرح معانی الآثار للطحاوی : ٤/٩٢)
تبصرہ : یہ روایت سخت ترین ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    اس کا راوی ابراہیم بن یحییٰ بن محمد الشجری ”لین الحدیث” ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : ٢٦٨)
2    یحییٰ بن محمد بن عباد المدنی الشجری راوی بھی ”ضعیف” ہے ۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وکان ضریرا یتلقّن ۔ ”یہ نابینا تھا اور لوگوں کی باتوں میں آجاتا تھا۔”(تقریب التہذیب : ٧٦٣٧)    3    محمد بن اسحاق المدنی ”مدلس” ہیں ۔
4    امام زہری رحمہ اللہ بھی مدلس ہیں ۔     دونوں نے سماع کی تصریح نہیں کی ، لہٰذا روایت ”ضعیف” ہے ۔
تاریخ ابنِ عساکر(١٩/٣٦٠) کی سند میں محمد بن عمر الواقدی راوی ”متروک” ہے۔
سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  نے ایک مسئلہ بتایا : فقمت إلیہ ، فقلت لہ : بأبی أنت وأمّی ! أنت أحقّ بہا ۔
”میں آپ رضی اللہ عنہ کی طرف کھڑا ہوا اور ان سے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔”
(مسند الامام احمد : ١/٦، مسند البزار : ٤، مسند ابی یعلی : ٢٤)
تبصرہ : اس کی سند ”رجل مبہم” کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ۔
قارئین کرام ! سیدنا سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ کوجب نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا بھیجا تو وہ دراز گوش پر سوار ہوکر آئے ۔ جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا :
قوموا إلی سیّدکم ۔ ”اپنے سردار کی طرف اُٹھو۔”
(صحیح البخاری : ٢/٩٢٦، ح : ٦٢٦٢، صحیح مسلم : ٢/٩٥، ح : ١٧٦٨)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سعد جو اپنے قبیلے کے سردار ہیں ، ان کے اکرام اور تعظیم میں کھڑے ہوجاؤ ، بلکہ کھڑے ہو کر ان کوسواری سے اتارو،کیونکہ اس وقت وہ زخمی تھے ۔ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : قوموا إلی سیّدکم فأنزلوہ ، فقال عمر : سیّدنا اللّٰہ عزّ وجلّ ، قال : أنزلوہ ، فأنزلوہ ۔
” اپنے سردار کی طرف اُٹھو اور ان کو سواری سے نیچے اُتارو۔ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کہنے لگے : ہمارا سردار اللہ تعالیٰ ہے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سیدنا سعد کو نیچے اُتارو تو صحابہ کرام نے ان کو نیچے اُتار دیا ۔”(مسند الامام احمد : ٦/١٤١۔١٤٢، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (٧٠٢٨) نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن” قرار دیتے ہوئے لکھا ہے : وہذہ الزیادۃ تخدش فی الاستدلال بقصّۃ سعد علی مشروعیّۃ القیام المتنازع فیہ ۔
”یہ زائد الفاظ سیدناسعد  رضی اللہ عنہ کے واقعے سے متنازع فیہ (تعظیمی)قیام پر استدلال کو باطل قرار دیتے ہیں ۔” (فتح الباری : ١١/٥١)
ابن الحاجّ  رحمہ اللہ (م ٧٣٧ھ) اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : لو کان القیام المأمور بہ لسعد ہو المتنازع فیہ لما خصّ بہ الأنصار فإن الأصل فی أفعال القرب التعمیم ، ولو کان القیام لسعد علی سبیل البرّ والإکرام لکان ہو صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أوّل من فعلہ وأمر بہ من حضر من أکابر الصحابۃ ، فلمّا لم یأمر بہ ولا فعلہ ولا فعلوہ دلّ ذلک علی أنّ الأمر بالقیام لغیر ما وقع فیہ النزاع ، وإنّما ہو لینزلوہ عن دابّتہ لما کان فیہ من المرض ، کما جاء فی بعض الروایات ، ولأنّ عادۃ العرب أنّ القبیلۃ تخدم کبیرہا ، فلذلک خصّ الأنصار بذلک دون المہاجرین ، مع أنّ المراد بعض الأنصار لا کلّہم وہم الأوس منہم ، لأنّ سعد بن معاذ کان سیّدہم دون الخزرج ، وعلی تقدیر تسلیم أنّ القیام المأمور بہ حینئذ لم یکن للإعانۃ ، فلیس ہو المتنازع فیہ ، بل لأنّہ غائب قدم ، والقیام للغائب إذا قدم مشروع ۔ ”اگر سعد  رضی اللہ عنہ کے لیے قیام کے حکم سے مراد قیام متنازع فیہ (تعظیمی) ہوتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم میں انصار کو خاص نہ کرتے ، کیونکہ نیکی کے کاموں میں اصل عموم ہوتا ہے (یعنی وہ سب کے لیے مشترک ہوتے ہیں)۔ اگر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑا ہونا عزت کے لیے اور نیکی کے لیے ہوتا تو نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم خود ایسا کرتے اوروہاں موجود اکابر صحابہ کو اس کا حکم دیتے ۔ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اکابر صحابہ کو حکم نہیں دیا ، نہ ہی خود ایسا کیا ہے ، نہ ہی صحابہ کرام نے قیام کیا تو معلوم ہوا کہ قیام کا یہ حکم اس مقصد کے لیے نہیں تھا جس میں نزاع ہے (تعظمی نہیں تھا)۔ یہ حکم تو صرف سیدنا سعد  رضی اللہ عنہ کو سواری سے اُتارنے کے لیے تھا، کیونکہ وہ اس وقت بیمار تھے ، جیسا کہ بعض روایات میں یہ بات مذکور ہے ۔ نیز عربوں کی یہ عادت بھی تھی کہ پورا قبیلہ اپنے بڑے کی خدمت کرتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صرف انصار کو دیاتھا، مہاجرین کو نہیں ۔ پھر اس سے مراد سارے انصار بھی نہیں ،بلکہ بعض انصار ، یعنی قبیلہ اوس کے لوگ تھے ، کیونکہ سیدنا سعد  رضی اللہ عنہ اوس کے ہی سردار تھے ، خزرج کے نہیں ۔ اگریہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ اس وقت قیا م کا حکم سیدناسعد  رضی اللہ عنہ کو سواری سے اُتارنے میں مدد کرنے کے لیے نہیں تھا تو بھی یہ قیام متنازع فیہ (تعظیمی) نہیں ہوسکتا ،کیونکہ یہ قیام ایک غائب کے آنے کی وجہ سے تھا اور کسی آنے والے کے کھڑا ہونا جائز ہے ۔ ”(فتح الباری : ١١/٥١)
اگر کوئی اس قیام کو اکرام پر محمول کرے تو یہ قیام بھی ہمارے نزدیک مشروع ہے ۔
امام حماد بن زید  رحمہ اللہ کہتے ہیں : کنّا عند أیّوب ، فجاء یونس ، فقال حمّاد : قوموا لسیّدکم ، أو قال : لسیّدنا ۔ ”ہم امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کے پاس تھے ۔ امام یونس  رحمہ اللہ آئے تو امام حماد رحمہ اللہ نے فرمایا : اپنے سردار یا ہمارے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔”(الجامع لاخلاق الراوی للخطیب : ٣٠٢، وسندہ، حسنٌ)
سیدنا کعب  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : فقام إلیّ طلۃ بن عبید اللّٰہ یہرول حتّی صافحنی وہنّأنی ، واللّٰہ ! ما قام إلیّ رجل من المہاجرین غیرہ ۔
”میری طرف طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیااور مجھے خوشخبری دی ۔ اللہ کی قسم ! میری طرف ان کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی آدمی کھڑا نہیں ہوا ۔ ”
(صحیح البخاری : ٢/٦٣٦، ح : ٤٤١٨، صحیح مسلم : ٢/٣٦٢، ح : ٢٧٦٩)
یہ استقبال کی غرض سے قیام تھا جو کہ جائز ومباح ہے ۔
فائدہ : سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہمارے پاس سے کافر کا جنازہ گزرے تو کیا ہم اس کے لیے قیام کریں؟ اس پر نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نعم ، قوموا لہا ، فإنّکم لستم تقومون لہا ، إنّما تقومون إعظاما للذی یقبض النفوس ۔
”ہاں ! تم اس کو دیکھ کر کھڑے ہوا کرو ، کیونکہ تم اس کے لیے کھڑے نہیں ہوتے ، بلکہ اس ذات کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہو جو روحوں کو قبض کرتی ہے ۔ ”
(مسند الامام احمد : ٢/١٦٨، مسند عبد بن حمید : ١٣٤٠، المعجم الکبیر للطبرانی : ١٣/١٧، ح : ٤٧، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کوامام ابنِ حبان رحمہ اللہ (٣٠٣٥)، امام حاکم  رحمہ اللہ (١/٣٥٧) نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رجال أحمد ثقات ۔ ”(اس روایت میں)مسند احمد کے راوی ثقہ ہیں۔”
(مجمع الزوائد : ٣/٢٧)
اس کا راوی ربیعہ بن سیف المعافری جمہور کے نزدیک ”موثق ، حسن الحدیث” ہے۔
طبرانی کے الفاظ یہ ہیں : إنّما تقومون لمن معہا من الملائکۃ ۔
” تم تو ان فرشتوں کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہو جو اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔”
یادر ہے کہ جنازہ کو دیکھ کر کھڑا ہونا جائز اور مستحب ہے ۔ اس کا وجوب منسوخ ہوچکا ہے ، جبکہ استحباب باقی ہے۔
قارئین کرام ! اب ہم اس مسئلہ کی طرف آتے ہیں ۔ یہ توآپ نے جان لیا ہے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذکر ِ ولادت پر کھڑا ہونا کسی وضعی اور من گھڑت روایت سے بھی ثابت نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ قرآن وحدیث میں اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ، لہٰذا یہ بدعت ہے ۔
مفتی احمدیار خان نعیمی بریلوی صاحب (١٣٢٤۔١٣٩١ھ) لکھتے ہیں :
”ان (نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم )کے ذکر پر کھڑا ہونا سنت ِ سلف صالحین ہے۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : جلد ١ ص ٢٥٢)
یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ کسی صحابی ، تابعی یا کسی تبع تابعی ، حتی کہ امام ابوحنیفہ اور شیخ عبدالقاد رجیلانی رحمہ اللہ سے بھی قطعاً اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
”مفتی”صاحب مزید لکھتے ہیں : ”ولادت ِ پاک کے وقت ملائکہ در ِ دولت پر کھڑے ہوئے تھے ۔ اس لیے ولادت کے ذکر پر کھڑا ہونا فعلِ ملائکہ سے مشابہ ہے۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی : جلد ١ ص ٢٥٣)
یہ بے اصل اور بے ثبوت بات ہے ۔ نہ جانے ”مفتی ” صاحب پر یہ وحی کس نے کی ؟ درحقیقت یہ اللہ کے فرشتوں پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔ ان لوگوں کی بے باکی اور بے بسی پر حیرانی ہوتی ہے ۔
مزید لکھتے ہیں: ”حضور  علیہ السلام  نے اپنے اوصاف اور اپنا نسب شریف منبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا تو اس قیام کی اصل مل گئی ۔ ”(‘جاء الحق’ از نعیمی : جلد ١ ص ٢٥٣)
یہ روایت مسند الامام احمد (١/٢١٠) اور سنن الترمذی (٣٦٠٨، وقال : حسن صحیح) میں موجود ہے ۔ اس کی سند ”ضعیف”ہے ۔ اس میں یزید بن ابی زیاد راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعیف ، کبر ، فتغیّر ، صار یتلقّن ، وکان شیعیّا ۔ ”یہ ضعیف راوی تھا۔ بوڑھا ہوکر اس کا حافظہ خراب ہوگیاتھا اور یہ لوگوں کی باتوں میں آنے لگاتھا۔ یہ شیعہ تھا۔”
(تقریب التہذیب : ٧٧١٧)
اس کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقد ضعّفہ جمہور الأئمّۃ ۔
”اسے جمہور ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ ”(مجمع الزوائد : ٥/٥٦۔٥٧)
حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : والجمہور علی تضعیف حدیثہ ۔
”جمہور اس کی حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔”(ہدی الساری لابن حجر : ص ٤٥٩)
بوصیری کہتے ہیں : أخرجہ مسلم فی المتابعات ، ضعّفہ الجمہور ۔
”امام مسلم  رحمہ اللہ نے اس کی حدیث متابعات میں بیان کی ہے ۔ جمہور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ ”(زوائد ابن ماجہ : ٧٠٥)
اس میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ”تدلیس” بھی ہے ۔ جب یہ روایت ”ضعیف” ہے تو ”مفتی” صاحب کا اس پر بنایا ہوا مذہب بھی ”ضعیف” اوراس سے کیا ہوا استدلال بھی باطل ہوا۔
”مفتی” صاحب لکھتے ہیں : ”شریعت نے اس کو منع نہ کیا اورہر ملک کے عام مسلمان اس کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اورجس کا م کو مسلمان اچھا جانیں ، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : جلد ١ ص ٢٥٣)
دلائل نہ ہوں تو آخری سہارا یہی ہے کہ منع نہیں، حالانکہ شرعی احکام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا اذن اور ان کی اجازت ضروری ہوتی ہے ۔
ہرملک کے بدعتی لوگ اسے ثواب سمجھ کر کرتے ہیں ، لیکن کیا صحابہ کرام ، تابعین اورائمہ عظام کا عمل اس پر موجود ہے ؟ کیا وہ بھی اسے اچھا سمجھتے تھے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ عمل اللہ کے ہاں بھی اچھا ہوگا ، لیکن اگر جواب نفی میں ہے تو اس کے بدعت ِ سیئہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔
اللہ ربّ العزت اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں : ( أَفَمَنْ زُیِّنَ لَہ، سُوْْْْءُ عَمَلِہٖ فَرَآہُ حَسَنًا ) (فاطر : ٨) (کیا جس شخص کے لیے اس کا بُرا عمل مزین کردیا جاتا ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے)
ضلّال وجہّال کی یہ عادت بھی ہوتی ہے کہ وہ عمومی دلائل سے اپنی بدعات کوسہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں اورعام مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ حالانکہ اولاً تو بدعات عمومی دلائل کے تحت آتی ہی نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس طریقہ سے سلف صالحین کے بارے میں یہ بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ وہ تو ان دلائل سے وہ کچھ نہ سمجھ پائے جو مبتدعین نے سمجھ لیا ہے !
نئی دریافت : ایک بدعتی صاحب کہتے ہیں کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کھڑے ہوکر پڑھنا انبیائے کرام کی سنت ہے ، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا :
مررت علی موسیٰ ، وہو یصلّی فی قبرہ ۔ ”میں موسیٰ  علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔”(صحیح مسلم : ٢/٢٦٨، ح : ٢٣٧٥)
اسی طرح نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ابراہیم  علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمایا :
وإذا إبراہیم قائم یصلّی ۔ ”ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔”(صحیح مسلم : ١/٩٦، ح : ١٧٢)
سیدنا عیسیٰ  علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : وإذا عیسیٰ ابن مریم قائم یصلّی ۔
”عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام  کھڑے نما زپڑھ رہے تھے ۔ ”(صحیح مسلم : ١/٩٦، ١٧٢)
ان بدعتی صاحب کا کہنا ہے کہ لفظ ِ صلوٰۃ کا معنیٰ یہاں نماز نہیں ، بلکہ درود وسلام پڑھنا ہے ، کیونکہ صلوٰۃ کا لفظ صرف نماز کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتا ، بلکہ رحمت بھیجنا ، تعریف کرنا اور درودوسلام پڑھنے جیسے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
تبصرہ : بے شک لفظ ِ صلوٰۃ کے کئی معانی ہیں ، لیکن مذکورہ بالا احادیث میں درود وسلام کا معنیٰ کرنا نِری جہالت ، عربیت سے عدم ِ واقفیت کا ثبوت ، حدیث کی معنوی تحریف اورسلف صالحین کی مخالفت ہے ۔
یہاں صلوٰۃ کا لفظ درودوسلام کے معنیٰ میں ہو ہی نہیں سکتا ، کیونکہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ معنیٰ ومفہوم بیان نہیں کیا۔ وہ بھلا کیسے بیان کرتے ۔ وہ تو اہلِ علم وتقویٰ تھے ۔ صلوٰۃ کا لفظ اسی وقت درودوسلام کے معنیٰ میں ہوگا جب اس کے بعد ”علیٰ” صلہ آئے ۔ احادیث میں انبیائے کرام کے بارے میں قائم یصلّی فی قبرہٖ کے لفظ ہیں قائم یصلّی علیہ فی قبرہ کے الفاظ نہیں ہیں ۔
لہٰذا مبتدعین کی جہالت اوردھوکہ دہی پر مہر ثبت ہوگئی ہے ۔
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أی یدعو ویثنی علیہ ویذکرہ ، فالمراد الصلاۃ اللغویّۃ ، وہی الدعاء والثناء ، وقیل : المراد الشرعیّۃ ، وعلیہ القرطبیّ ۔
”یعنی وہ دعا کررہے تھے ، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کا ذکر کر رہے تھے ۔لہٰذا یہاں مراد لغوی صلاۃ ہے ، جو دعا اورحمدوثنا کے معنیٰ میں ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں شرعی نماز مراد ہے۔ علامہ قرطبی  رحمہ اللہ اسی موقف کے حامل ہیں۔”(فیض القدیر للمناوی : ٥/٥١٩۔٥٢٠)
قبر میں دعا اورنماز انبیائے کرام کے علاوہ لوگوں سے بھی ثابت ہے ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أمر بعبد من عباد اللّٰہ أن یضرب فی قبرہ مائۃ جلدۃ ، فلم یزل یسأل ویدعو حتّی صارت جلدۃ واحدۃ ، فجلد جلدۃ واحدۃ ، فامتلأ قبرہ علیہ نارا ، فلمّا ارتفع عنہ قال علام جلدتمونی ؟ قالوا : إنّک صلّیت صلاۃ بغیر طہور ، ومررت علی مظلوم فلم تنصرہ ۔ ”اللہ کے ایک بندے کو قبر میں سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا ۔ وہ مسلسل اللہ سے دعا کرتا رہا اور معافی مانگتا رہا حتی کہ سزا میں ایک کوڑا باقی رہ گیا ۔ اسے ایک ہی کوڑا مارا گیا تو اس کی قبر آگ سے بھر گئی ۔ جب اس سے عذاب دُور ہوا تو اس نے فرشتوں سے پوچھا : تم نے مجھے کس جرم پر کوڑا مارا ہے ؟ فرشتوں نے کہا : تم نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی تھی اور تم ایک مظلوم کے پاس سے گزرے تھے اور اس کی مدد نہیں کی تھی ۔ ”
(مشکل الآثار للطحاوی : ٤/٢٣١، وسندہ، حسنٌ)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن کو قبر میں کہا جائے گا: بیٹھ جا ، وہ بیٹھ جائے گا ۔ اسے سورج غروب ہوتا دکھایا جائے گا ۔ اسے کہا جائے گا : تم اس آدمی کے بارے میں خبر دو جو تم میں (مبعوث ہوئے)تھے ۔ اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ تم اس کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہو؟ وہ کہے گا : دعونی حتّی أصلّی ، فیقولــون : إنّک ستفعل ، فأخبرنی عمّا نسألک عنہ ۔
”مجھے چھوڑو کہ میں (عصر کی) نماز پڑھ لوں ۔ فرشتے کہیں گے : تم پہلے ہمیں سوال کا جواب دے دو ، پھر عنقریب ایسا کر لوگے ۔”
(صحیح ابن حبان : ٣١١٣، المستدرک للحاکم : ١/٣٧٩۔٣٨٠، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے امام مسلم  رحمہ اللہ کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے ۔
(مجمع الزوائد للہیثمی : ٣/٥١۔٥٢)
ثابت البنانی  رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے : اللّٰہمّ ! إن کنت أعطیت أحدا أن یصلّی لک فی قبرہ ، فأعطنی ذلک ۔ ”اے اللہ ! اگرتُو کسی کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنی قبر میں تیرے لیے نماز پڑھے تو مجھے یہ توفیق دینا۔”(مسند علی بن الجعد : ١٣٧٩، المعرفۃ والتاریخ للفسوی : ٢/٥٩، شعب الایمان للبیہقی : ٣/١٥٥، ح : ١٣٩١، وسندہ، صحیحٌ)
قارئین کرام ! اب مسئلہ واضح ہوگیا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس دلائل نہیں ۔ اسی لیے وہ اِدھر اُدھر ہاتھ مار رہے ہیں ۔ جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ، وہ خواہ قرآنی ہوں یا حدیثی ، اگر ان سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا تو سلف صالحین ضرور ایسا سمجھتے اور کرتے یا کم از کم اس کے جواز ومشروعیت کے قائل ہوتے ۔
علامہ ابن الحاجّ (م ٧٣٧ھ) صلاۃ الرغائب کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ما حدث بعد السلف رضی اللّٰہ عنہم لا یخلو إمّا أن یکونوا علموہ وعلموا أنّہ موافق للشریعۃ ولم یعملوا بہ ، ومعاذ اللّٰہ أن یکون ذلک ، إذ أنّہ یلزم منہ تنقیصہم وتفضیل من بعدہم علیہم ، ومعلوم أنّہم أکمل الناس فی کلّ شیء ، وأشدّہم اتّباعا ، وإمّا أن یکونوا علموہ وترکوا العمل بہ ، ولم یترکوہ إلا لموجب أوجب ترکہ ، فکیف یمکن فعلہ ؟ ہذا ممّا لا یتحلّل ، وإمّا أن یکونوا لم یعلموہ ، فیکون من ادّعی علمہ بعدہم أعلم منہم ، وأعرف بوجوہ البرّ وأحرص علیہا ، ولو کان ذلک خیرا لعلموہ ، ولظہر لہم ، ومعلوم أنّہم أعقل الناس وأعلمہم ۔۔۔ ”جو چیزیں سلف صالحین yکے بعد ظہور میں آئی ہیں ۔ وہ تین حال سے خالی نہیں : یاتو سلف کو ان کا علم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ چیزیں شریعت کے موافق ہیں ، پھر انہوں نے ان پر عمل نہیں کیا ۔ معاذ اللہ ! ایسا تو ممکن نہیں ، کیونکہ اس سے سلف صالحین کی تنقیص ہوتی ہے اور بعد والوںکی ان پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اوریہ بات معلوم ہے کہ وہ سب لوگوں سے ہرچیز میں کامل تھے اور سب سے بڑھ کرشریعت کا اتباع کرنے والے تھے ۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سلف صالحین کو ان چیزوں کا علم تو تھا ، لیکن انہوں نے ان پر عمل چھوڑدیاتھا ۔ انہوں نے کسی ایسی دلیل کی وجہ سے یہ عمل چھوڑا تھا جو اس کے چھوڑنے کو واجب کرتی تھی ۔ جب ایسا تھا تو ان کا کرنا اب جائز کیسے ہوا ؟ پھر تو یہ ایسے کاموں میں سے ہیں جو حلال نہیں ۔ تیسری صورت یہ فرض کی جاسکتی ہے کہ پھر سلف صالحین کو ان چیزوں کا علم ہی نہیں تھا ۔ اس طرح تو جو شخص ان کے بعد ان چیزوں کے علم کا دعویٰ کرے گا ،و ہ سلف سے زیادہ علم والا ہوگا اور نیکی کے کاموں کو زیادہ جاننے والا ہوگا اور نیکی پر زیادہ حریص ہوگا ۔ حالانکہ اگر یہ نیکی کے کام ہوتے تو سلف صالحین ان کو جانتے ہوتے ۔ یہ بات معلوم ہے کہ وہ سب لوگوں سے بڑھ کر عقل مند اور عالم تھے۔۔۔۔۔۔”(المدخل لابن الحاج : ٤/٢٧٨)
مروّجہ عید میلاد النبی بدعت ہے :
یہی حال ہے مروّجہ عید میلاد النبی کا ۔ اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ قرآن وحدیث میں اگر اس کی کوئی دلیل ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین کو اس کا علم ہوتا اور وہ ضرور اس پر عمل کرتے ۔ معلوم ہوا کہ یہ بلاشک وشبہ بدعت ہے ، جیسا کہ :
1    تاج الدین عمر بن علی فاکہانی  رحمہ اللہ (م ٧٣٤ھ) فرماتے ہیں :
إن عمل المولد بدعۃ مذمومۃ ۔ ”مولد کا عمل مذموم بدعت ہے ۔”
(الحاوی للفتاوی للسیوطی : ١/١٩٠ [٢٤] )
نیز فرماتے ہیں : لا أعلم لہذا المولد أصلا فی کتاب ولا سنّۃ ، ولا ینقل عملہ عن أحد من علماء الأمّۃ الذین ہم القدوۃ فی الدین المتمسّکون بآثار المتقدّمین ، بل ہو بدعۃ أحدثہا البطّالون وشہوۃ نفس اعتنی بہا الأکّالون ۔ ”میں اس میلاد کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں نہیں پاتا ۔ نہ ہی اس کا عمل ان علمائے امت سے منقول ہے جو دین میں ہمارے پیشوا ہیں اور متقدمین کے آثار کو لازم پکڑنے والے ہیں ، بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جسے باطل پرست لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور ایسی نفسانی خواہش ہے جس کا اہتمام شکم پرور(پیٹ پرست) لوگوں نے کیا ہے ۔ ”
(الحاوی للسیوطی : ١/١٩٠۔١٩١)
2    علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م ٧٩٠ھ) نے بھی عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیا ہے۔
(الاعتصام للشاطبی : ١/٣٩)
3    شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
فإنّ ہذا لم یفعلہ السلف مع قیام المقتضی لہ ، وعدم المانع منہ ، ولو کان ہذا خیرا محضا أو راجحا لکان السلف رضی اللّٰہ عنہم أحقّ بہ منّا ، فإنّہم کانوا أشدّ محبّۃ لرسول اللّٰہ وتعظیما لہ منّا ، وہم علی الخیر أحرص ۔
”یہ کام سلف صالحین نے نہیں کیا، باوجود اس بات کے کہ اس کا تقاضا (تعظیم ِ رسول) موجود تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی ۔ اگر یہ کام بالکل خیر والا یا زیادہ خیر والا ہو تا تو اسلاف اس پر عمل کے حوالے سے ہم سے زیادہ حقدار تھے ، کیونکہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور وہ نیکی کے زیادہ طلب گار تھے ۔ ”
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ : ص ٢٩٥)
4    حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ  (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
أصل عمل المولد بدعۃ ، لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثۃ ۔ ”میلاد کے عمل کی اصل بدعت ہے ۔ یہ عمل تین (مشہود لہا بالخیر)زمانوں کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں ۔ ”(الحاوی للفتاوی للسیوطی : ١/١٩٦)
5    محمد بن محمد بن محمد ابن الحاج (م ٧٣٧ھ) فرماتے ہیں :
فإن خلا منہ وعمل طعاما فقط ، ونوی بہ المولد ودعا إلیہ الإخوان ، وسلم من کلّ ما تقدّم ذکرہ ، فہو بدعۃ بنفس نیّتہ فقط ، لأنّ ذلک زیادۃ فی الدین ولیس من عمل السلف الماضین ، واتّباع السلف أولی ، ولم ینقل عن أحد منہم أنہ نوی المولد ، ونحن تبع ، فیسعنا ما وسعہم ۔
”اگر میلاد اس (گانے )سے خالی ہو اور صرف کھانا بنایا جائے اور نیت میلاد کی ہواور کھانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جائے ۔ یہ کام اگر مذکورہ قباحتوں سے خالی بھی ہوتو یہ صرف اس کی نیت کی وجہ سے بدعت بن جائے گا ، کیونکہ یہ دین میں زیادت ہے ۔ سلف صالحین کا اس پر عمل نہیں ۔ سلف کی اتباع ہی لائقِ عمل ہے ۔ سلف صالحین میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے میلاد کی نیت سے کوئی کام کیا ہو ۔ ہم سلف صالحین کے پیروکار ہیں ۔ ہمیں وہی عمل کافی ہوجائے گاجو سلف کو کافی ہوا تھا۔” (الحاوی للفتاوی للسیوطی : ١/١٩٥)
6    حافظ سخاوی رحمہ اللہ (٨٣١۔ ٩٠٢ھ) لکھتے ہیں : لم یفعلہ أحد من القرون الثلاثۃ ، إنّما حدث بعدُ ۔ ”یہ کام تینوں زمانوں (صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین )میں سے کسی نے نہیں کیا ۔ یہ تو بعد میں ایجاد ہوا۔”(‘جاء الحق’ از نعیمی : ١/٢٣٦)
7    حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔ ٩١١ھ) فرماتے ہیں : وأوّل من أحدث فعل ذلک صاحب أربل الملک المظفّر أبو سعید کوکبری ۔۔۔
”سب سے پہلے جس نے اسے ایجاد کیا وہ اربل کا بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری تھا۔”
(الحاوی للفتاوی للسیوطی : ١/١٨٩ [٢٤] )
علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بعد کی ایجاد ہے ۔ ابن الحاج رحمہ اللہ (م٧٣٧ھ)نے کیا خوب کہا ہے :
فالسعید السعید من شدّ یدہ علی امتثال الکتاب والسنّۃ والطریق الموصلۃ إلی ذلک ، وہی اتّباع السلف الماضین رضوان اللّٰہ علیہم أجمعیـــن ، لأنّہم أعلم بالسنّۃ منّا ، إذ ہم أعرف بالمقال ، وأفقہ بالحال ۔۔۔
”کتنا خوش بخت ہے وہ شخص جو کتاب وسنت پر عمل اور کتاب وسنت کی طرف پہنچانے والے راستے کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے ۔ کتاب وسنت کی طرف پہنچانے والا راستہ سلف صالحین] کاراستہ ہے ، کیونکہ وہ سنت کو ہم سے بڑھ کر جاننے والے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قولِ رسول   صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ عالم، دین کے متعلق باتوں کو بخوبی جاننے والے اور اس وقت کے حالات کو زیادہ سمجھنے والے تھے۔”(المدخل لابن الحاج : ٢/١٠)
علامہ ابنِ رجب رحمہ اللہ (٧٣٧۔٧٩٥ھ)نے بھی کیا خوب لکھا ہے :
فأمّا ما اتّفق السلف علی ترکہ ، فلا یجوز العمل بہ ، لأنّہم ما ترکوہ إلّا علی علم أنّہ لا یعمل بہ ۔ ”جس کام کو چھوڑنے پر سلف صالحین نے اتفاق کیا ہو ، اس پر عمل جائز نہیں ، کیونکہ بلاشبہ انہوں نے یہ جان کر ہی اسے چھوڑا ہے کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ ”(فضل علم السلف علی علم الخلف لابن رجب : ص ٣١)
معلوم ہوا کہ جس کام کے چھوڑنے پر سلف صالحین متفق ہوں ، اس کا کو کرنا جائز نہیں ہے ۔ لہٰذا جشنِ عید میلاد النبی اور ذکر ِ ولادت پر کھڑا ہونا اور اس طرح کی دوسری بدعات وخرافات سلف صالحین ، ائمہ اہل سنت اور متقدمین سے قطعاً ثابت نہیں ہیں ، لہٰذا یہ امور بدعات ِ سیئہ اور افعالِ شنیعہ ہیں۔

اہلِ سنت والجماعت کا اتفاقی واجماعی عقیدہ ہے کہ سیدنا ومولانا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  چوتھے برحق خلیفہ اور امیر المومنین ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل ومناقب ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے محبت عین ایمان اور آپ سے بغض نفاق ہے ۔ اس کے برعکس بعض لوگ آپ رضی اللہ عنہ  کو خلیفہ بلافصل کہتے ہیں ۔ وہ اس حوالے سے بعض قرآنی آیات بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ان آیات سے ان کا موقف ثابت ہوتا ہے یا نہیں ؟
قرآنی دلیل نمبر 1 : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥)
”بلاشبہ تمہارے دوست ، اللہ ، اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔ ”
شیعہ عالم طوسی کہتے ہیں : وأمّا النصّ علی إمامتہ من القرآن ، فأقوی ما یدلّ علیہ قولہ تعالیٰ : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥)
”رہی قرآنِ کریم سے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کی امامت کی دلیل تو اس پر سب سے قوی دلیل یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥) (بلاشبہ تمہارے دوست ، اللہ ، اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکاہ ادا کرتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں )۔۔۔۔۔۔”(تلخیص الشافی : ٢/١٠)
مشہور شیعہ طبرسی لکھتے ہیں : وہذہ الآیۃ من أوضح الدلائل علی صحّۃ إمامۃ علیّ بعد النبیّ بلا فصل ۔ ”یہ آیت اس بات کی سب سے واضح دلیل ہے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کی امامت بلافصل کا قول درُست ہے۔”
(مجمع البیان للطبرسی : ٢/١٢٨)
اسی طرح ابن المطہر الحلی نے اپنی منہاج الکرامۃ (ص ١٤٧) میں سب سے پہلی دلیل یہی ذکر کی ہے ۔
بعض نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے : ” اس آیت کے حضرت علی  علیہ السلام کے حق میں نازل ہونے پر تمام مفسرین ومحقق محدثین کا اتفاق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب علامہ حلی نے کتاب کشف الحق میں اس کے نزول کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ أجمعوا علی نزولہا فی علیّ یعنی مفسرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی  علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ ”
(اثبات الامامت از محمد حسین ڈھکو : ص ١٤٤،١٤٨)
تبصرہ : یہ کائنات کا بدترین جھوٹ ہے ۔ یہ بات لکھنے والے نے اپنے علم اور عقل پر ظلم کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) نے سچ فرمایا ہے : وقد رأینا فی کتبہم من الکذب والإفتراء علی النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وصحابتہ وقرابتہ أکثر ممّا رأینا من الکذب فی کتب أھل الکتاب من التــوراۃ والإنجیل ۔ ”ہم نے ان لوگوں (رافضیوں)کی کتابوں میں نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے صحابہ کرام اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت پر جو جھوٹ پایا ہے ، وہ توراۃ وانجیل میں اہلِ کتاب کے (شامل کیے ہوئے)جھوٹ سے بھی بڑھ کر

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.