715

قیامت کب آئے گی، شمارہ 36 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں : ولا یعلم الغیب غیرہ ۔ ”اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔”
(التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥)
اس کے برعکس صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین کے باغی قرآن و حدیث کے خلاف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان ہیں، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ یہ انتہائی باطل اور گمراہ کن عقیدہ ہے۔ اس قسم کے گمراہی پر مبنی عقائد مسلمانوں میں کیسے گھس آئے ؟ اس کی ایک وجہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) یوں بیان فرماتے ہیں : وأظہر اللّٰہ من نور النبوّۃ شمسا طمست ضوء الکواکب ، وعاش السلف فیہا برہۃ طویلۃ ، ثمّ خفی بعض نور النبوّۃ ، فعرّب بعض کتب الأعاجم الفلاسفۃ من الروم والفرس والہند فی أثناء الدولۃ العبّاسیّۃ ، ثمّ طلبت کتبہم فی دولۃ المأمون من بلاد الروم ، فعرّبت ، ودرسہا الناس وظہر بسبب ذلک من البدع ما ظہر ۔
”اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نور کا سورج ظاہر کیا جس کی روشنی سے ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سلف صالحین لمبا عرصہ اسی روشنی میں رہے ، پھر نور نبوت (سے لوگوں کااستفادہ)کچھ ماند پڑ گیا۔عباسی دور ِ حکومت میں روم ، فارس اور ہند کے عجمی فلاسفیوں کی کچھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، پھر مامون الرشید کے دور میں روم کے علاقوں سے ان عجمیوں کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور اسی وجہ سے وہ بدعتیں ظاہر ہوئیں جو اب لوگوں میں نظر آتی ہیں۔”(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ : ٢/٨٤)
بعض وجوہات کی طرف شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر الطواغیت الأربعۃ التی ہدم بہا أصحاب التأویل الباطل معاقل الدین ، وانتہکوا بہا حرمۃ القرآن ، ومحوا بہا رسوم الإیمان ، وہی قولہم : إنّ کلام اللّٰہ وکلام رسولہ أدلّۃ لفظیّۃ ، لا تفید علما ولا یحصل منہا یقین ۔ وقولہم : إنّ آیات الصفات وأحادیث الصفات مجازات لا حقیقۃ لہا ، فہذہ الطواغیت الأربع ہی التی فعلت بالإسلام ما فعلت ، وہی التی محت رسومہ ، وأزالت معالمہ ، وہدمت قواعدہ ، وأسقطت حرمۃ النصوص من القلوب ، ونہجت طریق الطعن فیہا لکلّ زندیق وملحد فلا یحتج علیہ المحتجّ بحجّۃ من کتاب اللّٰہ أو سنّۃ رسولہ إلّا لجأ إلی طاغوت من ہذہ الطواغیت واعتصم بہ واتخذہ جُنَّۃ یصدّ بہ عن سبیل اللّٰہ ، واللّٰہ تعالی بحولہ وقوّتہ ومنّہ وفضلہ قد کسر ہذہ الطواغیت طاغوتا طاغوتا علی ألسنۃ خلفاء رسلہ وورثۃ أنبیائہ ، فلم یزل أنصار اللّٰہ ورسولہ یصیحون بأہلہا من أقطار الأرض ویرجمونہم بشہب الوحی وأدلۃ المعقول ۔
”ان طاغوتوں کا ذکر جن کے ذریعے باطل تاویلات کرنے والے لوگوں نے دین کے معالم کو ڈھایا ، قرآن کی حرمت کو پامال کیا اور ایمان کے نشانات کو مٹایا۔وہ طاغوت ان کے یہ اقوال ہیں : وہ کہتے ہیں کہ کلام اللہ اور کلام رسول لفظی دلائل ہیں ، یہ علم کا فائدہ نہیں دیتے نہ ان سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز کہتے ہیں کہ صفاتِ باری تعالیٰ والی آیات و احادیث مجازی ہیں ، حقیقی نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عادل راویوںکی بیان کردہ صحیح احادیث ِ رسول جن کو امت نے تلقی بالقبول کیا ہے ، وہ بھی علم کا فائدہ نہیں دیتیں ، زیادہ سے زیادہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب عقل اور وحی میں تعارض آ جائے تو عقل کو لیا جائے گا ، وحی کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ چار طاغوت ہیں جنہوں نے اسلام کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے۔ انہی طاغوتوں نے اسلام کے نشانات کو مٹایا ، اس کے معالم کو دھندلا کیا ، اس کی بنیادوں کو منہدم کیا ، وحی کی حرمت کو دلوں سے نکالا اور ہر زندیق و ملحد کو نصوصِ وحی میں طعن کرنے کا راستہ دیا ہے۔ جب کوئی شخص کتاب اللہ یا سنت ِ رسول کے ذریعے ایسے لوگوں کے خلاف دلائل ذکر کرنے لگتا ہے تو وہ اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے انہی طاغوتوں میں سے کسی طاغوت کا سہارا لیتے ، اسے لازم پکڑتے اور اسے ڈھال بناتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت و طاقت اور اپنے فضل و کرم سے اپنے رسولوں کے نائبوں اور اپنے انبیاء کے ورثاء کی زبانی ان طاغوتوں کو ایک ایک کرکے توڑا۔اللہ اور اس کے رسول کے جانثارہر دور میںاورزمین کے ہر کونے میں ان طاغوتوں کے پچاریوں کو للکارتے رہے اور ان کو وحی کے انگاروں اور عقل کے دلائل کے ذریعے رجم کرتے رہے۔”
(الصواعق المرسلۃ علی الطائفۃ الجہمیۃ والمعطلۃ لابن القیم : ٢/٣٧٩، ٣٨٠)
قیامت کب آئے گی؟ یہ غیب کی بات ہے اور غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ قیامت کب آئے گی ، قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کی مخالفت اور صریح جھوٹ ہے۔
قیامت کا علم مخفی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی پر ظاہر نہیں کیا جیسا کہ :
1 فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی) (طٰہٰ : ١٥)
”بلاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔”
2 فرمانِ الٰہی ہے : (إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ) (حم السجدۃ : ٤٧)
”قیامت کا علم اسی کے پاس ہے۔”
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
”علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔”(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں :
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) ۔ ”یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
3 فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (فَہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَنْ تَأْتِیَہُمْ بَغْتَۃً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُہَا فَأَنّٰی لَہُمْ إِذَا جَاءَ تْہُمْ ذِکْرٰہُمْ) (محمّد : ١٨)
”چنانچہ یہ لوگ تو بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے، یقینًااس کی نشانیاں آچکی ہیں، تو جب قیامت ان کے پاس آپہنچے گی تو ان کے لیے کہاں ہوگا نصیحت حاصل کرنا۔”
قیامت اچانگ آئے گی۔ معلوم ہوا کہ کسی کے پاس قیامت کا علم نہیں۔
4 ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ) (الزخرف : ٨٥)
”اسی کے پاس قیامت کا علم ہے۔”
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں : ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی؟”(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
5 نیز فرمایا : (یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا) (الاحزاب : ٦٣)
”(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ئ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
6 اللہ رب العزت کا فرمان ہے : (یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ) (الاعراف : ١٨٧)
” (اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔”
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ ”
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ”وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں :
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل ۔ ”آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک ۔
”میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے۔”(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
7 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَّا تُوعَدُونَ ) (الجن : ٢٥)
”(اے نبی!) کہہ دیجیے : میں نہیں جانتا کہ جس (قیامت ) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا (دور)۔”
مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرماتے ہیں :
أی لا یعرف وقت نزول العذاب ووقت قیام الساعۃ إلّا اللّٰہ ، فہو غیب لا أعلم منہ إلّا ما یعرفنیہ اللّٰہ ۔ ”یعنی عذاب کے نازل ہونے اور قیامت کے قائم ہونے کا وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ یہ غیب کی بات ہے ۔ میں اس میں سے صرف وہی جانتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مجھے بتا دیتا ہے۔(تفسیر القرطبی : ١٩/٢٧)
8 اللہ رب العزت فرماتا ہے : (وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیبٌ) (الشورٰی : ١٧) ”اور(اے نبی!)آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت قریب ہو۔”
یہ آیت ِ کریمہ اس بات پر صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قیامت کے بارے میں خبر نہیں دی تھی۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (١٠٧۔١٩٨ھ) فرماتے ہیں : ما کان فی القرآن (وَمَا أَدْرٰکَ) فقد أعلمہ ، وما قال : (وَمَا یُدْرِیکَ) فإنّہ لم یعلمہ ۔
”قرآنِ کریم میں جن چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (وَمَا أَدْرٰکَ) (آپ کو کیا معلوم ہے؟)کہا ہے، ان چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی اور جن چیزوں کے بارے میں (وَمَا یُدْرِیکَ)(آپ کیا معلوم کریں گے؟)کہا ہے ، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہیں دی۔”
(صحیح البخاری : ١/٢٧٠، قبل الحدیث : ٢٠١٤، تغلیق التعلیق لابن حجر : ٣/٢٠٥، وسندہ، صحیحٌ)
یہی بات شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ (م ٥٦١ھ) نے فرمائی ہے۔
(غنیۃ الطالبین للجیلانی : ص ٥٥، طبع لاہور)
9 فرمانِ ربانی ہے : (إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ) (لقمان : ٣٤)
”بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔”
0 فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسٰہَا ٭ فِیمَ أَنْتَ مِنْ ذِکْرٰہَا ٭ إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا ٭) (النازعات : ٤٢، ٤٣)
”(اے نبی!) وہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہو گی؟ آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا غرض ؟ اس (کے علم) کی انتہا تو تیرے رب کے پاس ہے۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کی تفسیر میں اہل سنت و اہل حق کا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں : أی لیس علمہا إلیک ولا إلی أحد من الخلق ، بل مردّہا ومرجعہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، فہو الذی یعلم وقتہا علی الیقین ۔
”یعنی آپ کو یا مخلوق میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں بلکہ اس کا مرجع و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔وہی یقینی طور پر اس کے قائم ہونے کا وقت جانتا ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٣٨٥)
! فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ) (سبا : ٣)
”اور کافروں نے کہا : ہم پر قیامت نہیں آئے گی، کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! میرے عالم الغیب رب کی قسم ! بلاشبہ وہ ضرور آئے گی، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ذرہ برابر کوئی چیز بھی اس سے چھپی نہیں رہ سکتی اور اس (ذرے) سے کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب (لوح محفوظ) میں (درج) نہ ہو۔”
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو علم غیب کی صفت سے موصوف بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ قیامت اگرچہ آنے والی ہے لیکن اس کے آنے کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ کافروں سے کہہ دو کہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی لیکن اس کے آنے کا وقت اس علام الغیوب کے سوا کوئی نہیں جانتاجس سے ایک ذرے کے برابر چیز بھی چھپ نہیں سکتی۔”(تفسیر الطبری : ٢٢/٧٥)
یہ گیارہ قرآنی آیات بینات ہیں۔ ان آیات سے اور ان کی تفسیر و تشریح میں ائمہ اہل سنت و محدثین عظام کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ قیامت کا وقت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ قیامت کب واقع ہو گی کیونکہ یہ غیب کی بات ہے اور غیب صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر اس نے اپنی صفت علّام الغیوب (غیب جاننے والا) بیان کی ہے۔(المائدۃ : ١٠٩، ١١٦، التوبۃ : ٧٨، سبا : ٤٨)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی اور مخلوق غیب دان نہیں۔
علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (٧٠٤۔٧٤٤ھ) شرک کے بیان میں لکھتے ہیں :
وقولہ : إنّ المبالغۃ فی تعظیمہ واجبۃ ، أیرید بہا المبالغۃ بحسب ما یراہ کلّ أحد تعظیماً حتّی الحجّ إلی قبرہ والسجود لہ والطواف بہ ، واعتقاد أنّہ یعلم الغیب ، وأنّہ یعطی ویمنع ، ویملک لمن استغاث بہ من دون اللّٰہ الضرّ والنفع ، وأنّہ یقضی حوائج السائلین ویفرّج کربات المکروبین ، وأنّہ یشفع فیمن یشاء ویدخل الجنّۃ من یشاء ، فدعوی وجوب المبالغۃ فی ہذا التعظیم مبالغۃ فی الشرک وانسلاخ من جملۃ الدین ۔
”سُبکی کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں مبالغہ کرنا واجب ہے۔ کیا ان کی مبالغہ سے مراد وہ تعظیم ہے جسے کوئی شخص اپنے خیال میں تعظیم سمجھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا حج ، اس پر سجدہ ، اس کا طواف اور یہ اعتقاد کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان ہیں ، آپ دیتے بھی ہیں اور روک بھی لیتے ہیں، جو اللہ کو چھوڑ کر آپ سے مانگتا ہے ، اس کے لیے نفع ونقصان کے مالک ہیں ، سوال کرنے والوں کی حاجات آپ پوری کرتے ہیں اور غم زدہ لوگوں کی مشکلات رفع کرتے ہیں ، نیز آپ جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے اور جسے چاہیں گے جنت میں داخل کر دیں گے۔۔۔ اگر یہ مراد ہے تو تعظیم میں مبالغہ دراصل شرک میں مبالغہ اور دین سے مکمل طور پر نکل جانا ہے۔”(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی لابن عبد الہادی : ٣٤٦)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.