1,100

قیامت کب آئے گی؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


قیامت کب آئے گی؟ یہ غیب کی بات ہے اور غیب کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُ وَمَا یَشْعُرُونَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ ٭ بَلِ ادَّارَکَ عِلْمُہُمْ فِی الْآخِرَۃِ بَلْ ہُمْ فِی شَکٍّ مِنْہَا بَلْ ہُمْ مِنْہَا عَمُونَ ) (النمل : ٦٥، ٦٦)
”کہہ دیجیے: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب (کی بات) نہیں جانتا، اور (جن کو کفار پکارتے ہیں) وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ (قبروں سے) کب اٹھائے جائیں گے۔بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہوچکا، بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں ہیں، بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں۔”
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری (م ٣١٠ھ)فرماتے ہیں :
یقول تعالی ذکرہ لنبیّہ محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : قل یا محمّد لسائلیک من المشرکین عن الساعۃ متی ہی قائمۃ : لا یعلم من فی السماوات والأرض الغیب الذی قد استأثر اللّٰہ بعلمہ ، وحجب عنہ خلقہ ، غیرہ ، والساعۃ من ذلک ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے : اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان مشرکین سے جو آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی ؟ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں اس کے سوا غیب کو کوئی نہیں جانتا۔غیب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے لیے مخصوص کر لیا ہے اور اپنی مخلوق سے اسے چھپا لیا ہے۔ قیامت بھی اسی غیب میں سے ہے۔”(تفسیر الطبری : ٢٠/٨)
قیامت کب واقع ہو گی ؟ اس کا یقینی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یہ اہل سنت والجماعت کا اتفاقی و اجماعی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے پر حدیثی دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 : سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ فی قبّۃ حمراء ، إذا جاء ہ رجل علی فرس عقوق یتبعہا مہرہ ، فقال : من أنت ؟ قال : (( أنا رسول اللّٰہ )) قال : متی الساعۃ ؟ قال : (( غیب ، ولا یعلم الغیب إلّا اللّٰہ ))
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ رنگ کے شامیانے میں تشریف فرما تھے کہ اچا نک ایک شخص نمودار ہوا جو حاملہ اونٹنی پر سوار تھا، اونٹنی کا بچہ اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ اس شخص نے (آتے ہی) کہا : آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں۔ کہا : قیامت کب آئے گی ؟ فرمایا : یہ غیب کی بات ہے اور غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/١٠٨، المعجم الکبیر للطبرانی : ٧/١٨، والسیاق لہ،، مسند الرؤیانی : ١١٤٨، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح” قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رجالہ رجال الصحیح۔ ”اس کے تمام راوی صحیح والے راوی ہیں۔”(مجمع الزوائد للہیثمی : ٨/٢٢٧)
دلیل نمبر 2 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( مفاتیح الغیب خمس ، لا یعلمہا إلّا اللّٰہ ، لا یعلم ما فی غد إلّا اللّٰہ ، ولا یعلم ما تغیض الأرحام إلّا اللّٰہ ، ولا یعلم متی یأتی المطر إلّا اللّٰہ ، ولا تدری نفس بأیّ أرض تموت ، ولا یعلم متی تقوم الساعۃ إلّا اللّٰہ ))
”پانچ چیزیں غیب کی کنجیاں ہیں ، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ (عورتوں کے)رحم کیا چیزکم کرتے ہیں۔اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی۔ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کس زمین میں فوت ہو گی۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔”
(صحیح البخاری : ١/٦٨١، ح : ٤٦٩٧)
دلیل نمبر 3 : سیدنا جبریل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں جواب دیا :
ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل ، ولکن سأحدّثک عن أشراطہا ۔۔۔
”جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا ہے ، وہ اس بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔البتہ میں اس کی کچھ علامات تمہیں بتاؤں گا۔”
(صحیح البخاری : ٤٧٧٧، صحیح مسلم : ٩)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٤٤ھ فرماتے ہیں :
أی تساوی فی العجز عن درک ذلک علم المسؤول والسائل ۔
”یعنی قیامت کو نہ جاننے کے حوالے سے سوال کرنے والے اور جس سے سوال کیا گیا ہے ، دونوں کا علم برابر ہے۔”(تفسیر ابن کثیر : ٤/٦٨٠، النمل : ٦٥، ٦٦)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
أی إنّ کلّ مسؤول وکلّ سائل فہو کذلک ۔ ”یعنی ہر اس شخص کا یہی حال ہے جس سے اس بارے میں سوال کیا جاتا ہے اور ہر سوال کرنے والے کا بھی یہی حال ہے (کہ کسی کو بھی اس بارے میں علم نہیں)۔”(فتح الباری لابن حجر : ١/١٢١)
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (٧٣٦۔٧٩٥ھ) فرماتے ہیں :
فمعناہ : إنّ الناس کلّہم فی وقت الساعۃ سواء ، وکلّہم غیر عالمین بہ علی الحقیقۃ ۔ ”اس کا معنیٰ یہ ہے کہ قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سب لوگ برابر لاعلم ہیں۔درحقیقت سب اس بارے میں نہیں جانتے۔”
(فتح الباری فی شرح صحیح البخاری لابن رجب : ١/١٩٦)
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) فرماتے ہیں :
وقد جاہر بالکذب بعض من یدّعی فی زماننا العلم وہو یتشبّع بما لم یعط أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان یعلم متی تقوم الساعۃ ، قیل لہ : فقد قال فی حدیث جبریل : (( ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) ، فحرّفہ عن موضعہ وقال : معناہ أنا وأنت نعلمہا ، وہذا من أعظم الجہل وأقبح التحریف ، والنبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أعلم باللّٰہ من أن یقول لمن کان یظنّہ أعرابیّا أنا وأنت نعلم الساعۃ ، إلّا أن یقول ہذا الجاہل : إنّہ کان یعرف أنّہ جبریل ، ورسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ہو الصادق فی قولہ : (( والّذی نفسی بیدہ ! ما جاء نی فی صورۃ إلّا عرفتہ غیر ہذہ الصورۃ )) ، وفی اللفظ الآخر : (( ما شبہ علی غیر ہذہ المرّۃ )) ، وفی اللفظ الآخر : (( رُدُّوا علیّ الأعرابیَّ )) ، فذہبوا فالتمسوا فلم یجدوا شیأا ، وإنّما علم النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ جبریل بعد مدّۃ ، کما قال عمر : فلبثت ملیّا ، ثمّ قال النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : (( یا عمر ! أتدری من السائل ؟ )) ، والمحرّف یقول : علم وقت السؤال أنّہ جبریل ، ولم یخبر الصحابۃ بذلک إلّا بعد مدّۃ ، ثمّ قولہ فی الحدیث : (( ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) یعمّ کل سائل ومسؤول ، فکلّ سائل ومسؤول عن ہذہ الساعۃ شأنہما کذلک ، ولکن ہؤلاء الغلاۃ عندہم أنّ علم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم منطبق علی علم اللّٰہ سواء بسواء ، فکلّ ما یعلمہ اللّٰہ یعلمہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، واللّٰہ تعالی یقول : ( وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ ) ، وہذا فی براء ۃ وہو فی أواخر براء ۃ ، وہی من أواخر ما نزل من القرآن ہذا ، والمنافقون جیرانہ فی المدینۃ ، ومن ہذا حدیث عقد عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا لمّا أرسل فی طلبہ فأثاروا الجمل فوجدوہ ، ومن ہذا حدیث تلقیح النخل ، وقال : (( ما أری لو ترکتموہ یضرّہ شیئ)) ، فترکوہ فجار شیصا ، فقال : (( أنتم أعلم بدنیاکم )) ، وقد قال اللّٰہ تعالی : (قُلْ لَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ)، وقال : (وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ ) ، ولما جری لأمّ المؤمنین عائشۃ ما جری ، ورماہا أہل الإفک بما رموہا بہ ، لم یکن صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یعلم حقیقۃ الأمر حتّی جاء ہ الوحی من اللّٰہ ببرائتہا ، وعند ہؤلاء الغلاۃ أنّہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یعلم الحال علی حقیقتہ بلا ریبۃ ، واستشار الناس فی فراقہا ودعا الجاریۃ فسألہا وہو یعلم الحال ، وقال لہا : (( إن کنت ألممت بذنب فاستغفری اللّٰہ)) وہو یعلم علما یقینا أنّہا لم تلمّ بذنب ، ولا ریب أنّ الحامل لہؤلاء علی ہذا اللغو إنّما ہو اعتقادہم أنّہ یکفّر عنہم سیأاتہم ویدخلہم الجنّۃ ، وکلّما غلوا وزادوا غلوّا فیہ کانوا أقرب إلیہ وأخصّ بہ ، فہم أعصی الناس لأمرہ وأشدّہم مخالفۃ لسنّتہ ، وہؤلاء فیہم شبہ ظاہر من النصاری الذین غلوا فی المسیح أعظم الغلوّ وخالفوا شرعہ ودینہ أعظم المخالفۃ ، والمقصود أن ہؤلاء یصدّقون بالأحادیث المکذوبۃ الصریحۃ ، ویحرّفون الأحادیث الصحیحۃ عن مواضعہا لترویج معتقداتہم ۔
”ہمارے زمانے کے بعض نام نہاد علماء کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ قیامت کب آئے گی؟ ان سے کہا گیا کہ حدیث ِ جبریل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا تھا کہ جس سے قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔(صحیح مسلم : ٩٣) انہوں نے اس حدیث میں (معنوی) تحریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اور تم دونوں اس کو جانتے ہیں۔ یہ سب سے بڑی جہالت اور سب سے قبیح تحریف ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے ، ایک ایسے شخص کو جسے ایک بدوی سمجھ رہے تھے ، کیسے کہہ سکتے تھے کہ میں اور تم دونوں قیامت کو جانتے ہیں؟ ہاں ہو سکتا ہے کہ یہ جاہل لوگ کہہ دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبریل کو پہچان رہے تھے۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس فرمان میں سچے تھے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جبریل کسی بھی صورت میں آئے تو میں نے پہچان لیے ، مگر میںاس صورت میں انہیں نہیں پہچان سکا۔(مسند الإمام أحمد : ١/٥٣، صحیح)ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں : جبریل علیہ السلام کسی بھی شکل میں مجھ پر مشتبہ نہیں ہوئے سوائے اس مرتبہ کے۔(صحیح ابن خزیمۃ : ١، صحیح ابن حبان : ١٧٣، وسندہ، صحیحٌ) ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(جبریل علیہ السلام کے جانے کے بعد) فرمایا : اس بدوی کو میرے پاس واپس لاؤ۔ صحابہ کرام گئے اور تلاش کیا لیکن وہ مل نہ سکے۔ (صحیح البخاری : ٥٠، ٤٧٧٧، صحیح مسلم : ٩٧)یقینا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام کے بارے میں ایک عرصہ بعد معلوم ہوا تھا جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں ایک عرصہ انتظار کرتا رہا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمر ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ سوال کرنے والا کون تھا؟(صحیح مسلم : ٩٣)جبکہ حدیث میں تحریف معنوی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سوال کرتے وقت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا تھاکہ یہ جبریل ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ایک عرصہ بعد ہی یہ بات بتائی تھی۔ پھر اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ جس سے سوال کیا جا رہا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔(صحیح مسلم : ٩٣) یہ بات عام ہے ، ہر وہ شخص جس سے قیامت کے بارے میں سوال کیا جائے اور ہر سوال کرنے والے کی حالت یہی ہوتی ہے(کہ انہیں قیامت کے بارے میں علم نہیں ہوتا)۔ اس کے برعکس ان غالی لوگوں کے موقف کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اللہ تعالیٰ کے علم پر بالکل منطبق ہو گیا ہے۔ان کے بقول ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ )(التوبۃ : ١٠١) [اور تمھارے آس پاس جو دیہاتی ہیں ان میں بعض منافق ہیں، اوربعض اہل مدینہ بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔(اے نبی!) آپ انھیں نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں]۔یہ فرمانِ باری تعالیٰ سورہئ براء ت میں ہے اور سورہئ براء ت کے بھی آخر میں ہے۔ سورہئ براء ت قرآنِ کریم کے ان مقامات میں سے جو آخر میں نازل ہوئے۔ یہ اس وقت کی حالت ہے جب منافقین مدینہ میں آپ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہار کے گم ہونے کا واقعہ ہے۔ اس حدیث میں یہ مذکورہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہار کو تلاش کرنے کے لیے صحابہ کرام کو بھیجا۔ پھر جب اونٹ کو اٹھایا گیا تو ہار اسی کے نیچے سے مل گیا۔(صحیح البخاری : ٤٧٥) اسی طرح کھجوروں کی تابیر والی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ سے فرمایا : میرا نہیں خیال کہ تم تابیر چھوڑو اور اس سے کوئی نقصان ہو۔ اہل مدینہ نے تابیر چھوڑ دی تو پھل کم آیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے دنیاوی معاملات کو مجھ سے بہتر جانتے ہو۔(صحیح مسلم : ١٨٣٦) اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے : (قُلْ لَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ)(الأنعام : ٥٠)[(اے نبی! کہہ دیجیے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ میں غیب بھی نہیں جانتا)]، نیز فرمایا : (وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ )(الأعراف : ١٨٨) (اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا)۔پھر جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اور بہتان لگانے والوں نے آپ پر بہتان لگایا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک حقیقت معلوم نہیں تھی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت کے بارے میں وحی نازل نہیں ہوئی۔ ان غالی لوگوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور حقیقت ِ حال کا علم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے علیحدگی اختیار کرنے کے بارے میں صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور لونڈی (بریرہ رضی اللہ عنہا )کو بلا کر پوچھ گچھ کی،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری صورت ِ حال معلوم تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم سے گناہ ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لو ، (صحیح البخاری : ٤٧٥٠) حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا!!! بلاشبہ ان لوگوں کو ایسی لغو باتیں کرنے پر ان کے اس عقیدے نے آمادہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گناہ معاف کر دیں گے اور ان کو جنت میں داخل کر دیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ جتنا غلو کریں گے اتنا زیادہ آپ کے مقرب اور خاص لوگ بن جائیں گے۔ حالانکہ یہ لوگ سب لوگوں سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر اور آپ کی سنتوں کے مخالف و نافرمان ہیں۔ یہ لوگ واضح طور پر ان نصاریٰ سے مشابہت رکھتے ہیں جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت زیادہ غلو سے کام لیا اور ان کی شریعت کی بہت زیادہ مخالفت کی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اپنے فاسد عقائد کو رواج دینے کے لیے یہ لوگ واضح طور پر جھوٹی ثابت ہوجانے والی احادیث کی تصدیق کرتے ہیں ، جبکہ صحیح احادیث میں تحریف ِ معنوی کرتے ہیں۔”
(المنار المنیف فی الصحیح والضعیف لابن القیم، ص : ٨١۔ ٨٤)
یہی عبارت من وعن جناب ملا علی قاری حنفی (م ١٠١٤ھ)نے اپنی کتاب الموضوعات الکبرٰی المعروف بہ ”موضات ِ کبیر” (ص ١١٩) میں نقل کی ہے۔
بات بڑی واضح ہے کہ جبریل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وقوعِ قیامت کے بارے میں پوچھاتو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس حوالے سے سائل و مسؤل دونوں کا علم برابر ہے۔ یعنی عدمِ علم میں ہم دونوں مساوی ہیں۔ تمہیں بھی معلوم نہیں اور مجھے بھی کہ قیامت کب واقع ہو گی۔ہاں البتہ قیامت کی چند نشانیاں میں تمہیں بتائے دیتا ہوں۔ یہ علامات اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تھیں لیکن قیامت کا قطعی علم آپ کو نہیں دیا۔
دلیل نمبر 4 : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لما کان لیلۃ أسری برسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لقی إبراہیم وموسی وعیسی ، فتذاکروا الساعۃ ، فبدأ بإبراہیم ، فسألوہ عنہا ، فلم یکن عندہ منہا علم ، ثمّ سألوا موسی ، فلم یکن عندہ منہا علم ، فردّ الحدیث إلی عیسی ابن مریم ، فقال : قد عہد إلیّ فیما دون وجبتہا ، فأمّا وجبتہا فلا یعلمہا إلا اللّٰہ ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات سیدنا ابراہیم ، سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسیٰo سے ملاقات کی۔ سب نے قیامت کے بارے میں مذاکرہ کیا(کہ وہ کب قائم ہو گی)۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بات شروع ہوئی۔ ان سے سوال ہوا تو ان کے پاس اس بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو ان کے پاس بھی اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ پھر سیدنا عیسیٰ ابن مریمiکی طرف بات آئی تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قیامت کے قائم ہونے سے پہلے (دنیا میں نزول کا) وعدہ کیا ہے۔ رہا اس کا قیام تو اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔”(سنن ابن ماجہ : ٤٠٨١، مسند الإمام أحمد : ١/٣٧٥، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٢/٣٨٤، ٤/٤٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح” قرار دیا ہے۔
علامہ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہذا إسناد صحیح ، رجالہ ثقات ۔
”یہ سند صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔”(مصباح الزجاجۃ : ٢/٣١٢)
اس کا راوی مؤثر بن عفازہ ثقہ ہے۔ اسے امام عجلی رحمہ اللہ (٤٤٣) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : ٥/٤٦٣) نے ثقہ قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے ان کی اس حدیث کی سند کو ”صحیح” کہا ہے جسے بیان کرنے میں منفرد ہیں۔ یہ بلاشبہ توثیق ہے۔ یہی حال ذہبی اور بوصیری کی تصحیح کا ہے۔ اسی سند کے ساتھ مستدرک حاکم(٢/٣٨٤) میں ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا : عہد اللّٰہ إلیّ فیما دون وجبتہا ، فلا نعلمہا ۔
”اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قیامت قائم ہونے سے پہلے(دنیا میں نزول) کا وعدہ کیا ہے۔ ہم قیامت کے قائم ہونے کا وقت نہیں جانتے۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فہؤلاء أکابر أولی العزم من المرسلین ، لیس عندہم علم بوقت الساعۃ علی التعیین ، وإنّما ردّوا الأمر إلی عیسی علیہ السلام ، فتکلّم علی أشراطہا ، لأنّہ ینزل فی آخر ہذہ الأمّۃ منفذا لأحکام رسول اللّٰہ ، ویقتل المسیح الدجّال ، ویجعل اللّٰہ ہلاک یأجوج ومأجوج ببرکۃ دعائہ ، فأخبر بما أعلمہ اللّٰہ تعالی بہ ۔
”یہ انبیاء اولو العزم پیغمبروں میں سے بڑے بڑے پیغمبر تھے۔ان کو قیامت کے قائم ہونے کا وقت معین طور پر معلوم نہیں تھا۔ ان سب نے اس معاملے کو عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیر دیا۔ عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اس کی علامات کے بارے میں بات کی کیونکہ وہ اس امت کے آخری دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو نافذ کرنے کے لیے نازل ہوں گے، مسیح دجال کو قتل کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کی برکت سے یاجوج ماجوج کو ہلاک کرے گا۔ (قیامت کے بارے میں)جو باتیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بتائی تھیں ، وہ انہوں نے بیان کر دیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٨، الأعراف : ١٨٧)
دلیل نمبر 5 : سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
سمعت النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یقول قبل أن یموت بشہر : (( تسألونّی عن الساعۃ ، وإنّما علمہا عند اللّٰہ )) ”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی موت سے ایک ماہ قبل یہ فرماتے ہوئے سنا : تم مجھ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہو حالانکہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔”
(مسند الإمام أحمد : ٣/٣٢٦، صحیح مسلم : ٢/٣١٠، ح : ٢٥٣٨)
تنبیہ : قرآنِ مجید ، احادیث ِ صحیحہ اور سلف صالحین کے متفقہ فہم کے خلاف بعض اہل بدعت کا کہنا ہے : ”صحابہ کرام] کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم قیامت ہے۔ مستدرک (ج ٤ ص ٥٦٧) عمران بن حصین سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کا بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ دن کون سا ہے؟ تو صحابہ کرام] نے عرض کی کہ اللہ کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اجمعین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آپ کو علم قیامت ہے۔”(مقیاس : ٣٨٣، ٣٨٤)
تبصرہ : اس روایت میں قیامت کے وقوع کا ذکر تک نہیں۔ بعض لوگوں نے تلبیس ابلیس سے کام لیتے ہوئے روایت کا وہ حصہ جو ان کے مدعا کے خلاف تھا، ہضم کر لیا تاکہ سادہ لوح عوام کو یہ باور کرا سکیں کہ وہ بھی اپنے عقیدے پر دلیل رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر دھوکا ہے ، کسی موضوع (من گھڑت) روایت میں بھی یہ بات نہیں ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے وقوع کا وقت معلوم تھا، ورنہ یہ لوگ ضرور ایسی روایت پیش کرتے ، بلکہ اپنے ماتھے کا جھومر بناتے۔ یہ روایت اصل میں یوںہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آیت ِ کریمہ : (یٰۤأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَيءٌ عَظِیمٌ) (الحج : ١) تلاوت کی اور صحابہ کرام سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے ؟ صحابہ کرام عرض کرنے لگے : اللہ اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ذاکم یوم ینادی آدم ، فینادیہ ربّہ ، فیقول : یا آدم ! ابعث بعث النار ، فیقول : وما بعث النار ؟ فیقول : من کلّ ألف تسعمأۃ وتسع وتسعون إلی النار وواحد إلی الجنّۃ )) ”یہ وہ دن ہو گا جب آدم کو پکارا جائے گا۔ آدم علیہ السلام کو ان کا ربّ پکارے گا اور فرمائے گا: آگ کا حصہ الگ کرو۔ آدم علیہ السلام عرض کریں گے : آگ کے حصے سے کیا مراد ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ہر 1000میں سے 999جہنم کی طرف اور ایک جنت کی طرف۔”
یعنی اس حدیث میں قیامت کے حالات کی بات ہو رہی ہے نہ کہ قیامت کے قائم ہونے کے وقت کی۔ اس کے باوجود اہل بدعت و ضلالت اسے اپنے باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے !
nnnnnnn
ہوشیار باش !
امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ (م ١٩٧ھ) کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے :
ما لقیت أحدا أفقہ من أبي حنیفۃ ، ولا أحسن صلاۃ منہ ۔
”میں نے امام ابوحنیفہ سے بڑھ کر فقیہ اور ان سے اچھی نماز پڑھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔”(تاریخ بغداد للخطیب : ١٣/٣٤٥)
لیکن یہ قول موضوع(من گھڑت) ہے۔ امام وکیع رحمہ اللہ اس سے بالکل بری ہیں۔یہ احمد بن صلت کی کارستانی ہے،جو بالاجماع جھوٹا اور وضاع (من گھڑت روایات بیان کرنے والا)تھا ۔ اس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یضع الحدیث ۔
”یہ اپنی طرف سے حدیث گھڑتا تھا ۔”(الضعفاء والمتروکون : ٥٩)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کی بھی اس کے بارے میں یہی رائے ہے ۔(المجروحین : ١/١٥٣)
امام ابنِ عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وما رأیت فی الکذّابین أقلّ حیاء منہ ۔
”جھوٹے لوگوں میں سے میں نے اس سے بڑھ کر کم حیا والاآدمی کوئی نہیں دیکھا ۔”
(الکامل لابن عدی : ١/١٩٩)
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں : حدّث بأحادیث ، أکثرھا باطلۃ ھو وضعھا ، ویحکی أیضا عن بشر بن الحارث ویحیی بن معین وعلیّ ابن المدینیّ أخبارا جمعھا بعد أن وضعھا فی مناقب أبی حنیفۃ ۔
”اس نے بہت سی ایسی احادیث بیان کی ہیں ، جن میں سے اکثر اس نے خود گھڑی ہیں ، نیز یہ بشر بن الحارث ، امام یحییٰ بن معین اور امام علی بن المدینی رحمہم اللہ سے منسوب اقوال خود گھڑ کر امام ابوحنیفہ کے مناقب میں بیان کرتا تھا۔”(تاریخ بغداد للخطیب : ٥/٣٣)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.