1,288

قربانی کے تین ایام اور صحابہ کرام

قربانی کے تین دن اور صحابہ کرام
حافظ محمد بلال ( دار التخصص والتحقیق، جامعہ امام بخاری،سرگودھا)

صحابہ کرام سے قربانی کے تین دن والا موقف باسند صحیح ثابت ہے،چار والا کسی ایک سے بھی ثابت نہیں،لیکن انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوست جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اصولِ محدثین کا پاس نہ کرتے ہوئے ایک طرف تو بلاوجہ تین دن والے کئی صحیح الاسناد اقوال کو رد کر دیا ہے،جب کہ دوسری طرف صحابہ کرام کی طرف منسوب بے سند اقوال کو ان سے ثابت باور کرانے کی کوشش کی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ موصوف باوجود پورا زور صرف کرنے کے صحابہ کرام سے چاردن قربانی والے آثار کو ثابت کرنے میں بے بس ہو گئے اور آخر کار اپنی بے بسی کا اظہار کر ہی دیا۔ ان کا یہ اعتراف ہم اسی مضمون کے آخر میں پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ
اب ہم صحابہ کرام کے تین دن قربانی والے اقوال پر سنابلی صاحب کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔
1 خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور تین دن قربانی:
قال الإمام الطحاوي :
قد حدثنا أحمد بن أبي عمران، قال حدثنا عبید اللہ بن محمد التیمي، قال حدثنا حماد بن (الصواب : عن) سلمۃ بن کہیل، عن حجتہ (الصواب : حجیۃ) عن علي، قال النحر ثلاثۃ أیام .
”امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے تین دن ہیں (١٠،١١، ١٢ذوالحجہ) ۔” (أحکام القرآن : 2/205، ح : 1569)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کی سند ”حسن” ہے۔
پہلا اعتراض اور اس کی حقیقت :
لیکن جناب سنابلی صاحب اس اثر کو بلاوجہ ”ضعیف ”قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”لیکن حقیت یہ ہے کہ یہ اثر ضعیف و مردود ہے۔ اس کی سند میں کئی علتیں اور الٹ پلٹ باتیں ہیں، لیکن اس کے مردود ہونے کے لئے بس یہی ایک بات کافی ہے کہ امام طحاوی کے استاذ ”احمد بن ابی عمران ” کی توثیق کسی بھی امام سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔” (چار دن قربانی کی مشروعیت، ص : 50)
حالانکہ امام ابن یونس مصری رحمہ اللہ سے امام طحاوی رحمہ اللہ کے استاذ احمد بن ابی عمران کی توثیق ثابت ہے۔
موصوف نے تاریخ بغداد سے امام ابن یونس کی توثیق کا حوالہ دے کر اس توثیق کو غیر ثابت کرنے کے لیے اس کی سند کے دو راویوں پر جرح میں ناحق توانائی صرف کی، جب کہ احمد بن ابی عمران کی صریح توثیق امام ابن یونس نے اپنی کتاب ” تاریخ ابن یونس ” میں کررکھی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
أحمد بن أبي عمران الفقیہ … حسن الدرایۃ بألوان من العلم کثیرۃ… وکان ثقۃ .
”احمد بن ابی عمران فقیہ، کئی علوم میں ماہر اور ثقہ تھے۔”
(تاریخ ابن یونس المصري : 2/27، ت : 64)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد وثقہ ابن یونس في تاریخ مصر .
”احمد بن ابی عمران کو ابن یونس نے ”تاریخ مصر ” میں ثقہ قرار دیا ہے۔”
(البدایۃ و النہایۃ : 14/653)
جب امام ابن یونس کی اپنی کتاب سے احمد بن ابی عمران کی صریح توثیق دیکھی، تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ موصوف نے اصل کتاب سے روگردانی کرتے ہوئے تاریخ بغداد کا کیوں حوالہ دیا؟
سنابلی صاحب اپنی تنقید کی زد میں:
خود سنابلی صاحب اپنی ایک کتاب میں ایک اہل حدیث عالم کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اب جب کہ یہ روایت اسی سند کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے، جو قرآن کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب ہے، تو اسی حدیث کو صحیح بخاری بلکہ مشہور کتب احادیث سے بھی دور جا کر ابن سعد کی طبقات نقل کیا گیا! آخر کیوں؟! مزید یہ کہ ابن سعد سے یہ روایت پیش کرنے کے بعد اس کی سند کو صحیح ثابت کرنے پر توانائی صرف کی جارہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ روایت اسی سند کے ساتھ صحیح بخاری میں موجود ہے تو پھر ابن سعد کی کتاب طبقات سے اسے پیش کرکے اس کی سند پر بحث کرنے کے بجائے کیا یہ آسان نہ تھا کہ صحیح بخاری سے اسے نقل کردیا جاتا ؟ ہمارے خیال سے صحیح بخاری سے یہ روایت اس لیے نہیں نقل نہیں کی گئی کیوں کہ اگر صحیح بخاری سے یہ روایت نقل کرکے یہ کہا جاتا کہ امام بخاری کے دعوے کے خلاف اس روایت میں دلیل موجود ہے تو ایک بچے کے ذہن میں بھی سوال اٹھتا کہ اگر صحیح بخاری ہی میں یہ روایت موجود ہے توامام بخاری نے اس کے خلاف دعوی کرلیا ؟ اس مصیبت سے بچنے کے لیے چالاکی یہ کی گئی کہ اسی روایت کو صحیح بخاری سے ہٹ کر بلکہ مشہور کتب احادیث سے بھی دور جا کر ابن سعد سے نقل کیا گیا تاکہ ابن سعد کا حوالہ دیکھتے ہوئے قاری ایک طرف یہ سمجھے کہ جناب نے کمال کر دیا، آخر کتب رجال سے دلیل ڈھونڈ نکالی اور ساتھ میں قاری کا ذہن اس طرف بھی نہ جائے کہ یہ روایت حدیث کی کسی مشہور کتاب میں بھی ہوسکتی ہے، پھر صحیح بخاری میں اس کے ہونے کا تو خیال ہی دل میں نہ آئے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ جو شخص خود کو بہت زیادہ چالاک سمجھتا ہے اس کی سب سے بڑی بے وقوفی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو بے وقوف سمجھتا ہے، حالاں کہ کسی کو یہ خوش فہمی نہیں پالنی چاہیے کہ ہماری چالاکیوں کی تہہ تک کوئی پہنچ نہیں سکتا۔” (یزید بن معاویہ ، 197، 198)
اگر کوئی سنابلی صاحب پر تنقید کرتے ہوئے انہی کے الفاظ میں یہ کہ دے کہ:
”اب جب کہ احمد بن ابی سلیمان کی توثیق امام ابن یونس کی کتاب تاریخ ابن یونس ( تاریخ مصر) میں موجود ہے، تو پھر دور جاکر خطیب کی کتاب تاریخ بغداد سے حوالہ نقل کیا گیا! آخر کیوں؟ مزیدیہ کہ تاریخ بغداد سے منقول توثیق کی سند کو ضعیف ثابت کرنے پر توانائی صرف کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ توثیق ابن یونس کی کتاب میں موجود ہے تو پھر خطیب کی تاریخ بغداد سے اسے پیش کرکے اس کی سند پر بحث کرنے کی بجائے کیا یہ آسان نہ تھا کہ تاریخ ابن یونس سے اسے نقل کردیا جاتا؟ ہمارے خیال سے تاریخ ابن یونس کا حوالہ اس لیے نہیں دیا گیا کہ کہیں احمد بن ابی عمران کی توثیق ثابت نہ ہوجائے جس کی وجہ سے خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان تسلیم کرنا پڑ جائے گا جسے سنابلی صاحب نے بلاوجہ ضعیف کہا ہے۔ اس مصیبت سے بچنے کے لیے چالاکی یہ کی گئی کہ اسی توثیق کو تاریخ ابن یونس سے ہٹ کر تاریخ بغداد سے نقل کر کے سند پر جرح کردی تا کہ تاریخ بغداد کا حوالہ دیکھتے ہوئے قاری ایک طرف یہ سمجھے کہ یہ توثیق ثابت نہیں اور ساتھ قاری کا ذہن اس طرف بھی نہ جائے کہ احمد بن ابی عمران کی توثیق امام ابن یونس کی اپنی کتاب میں بھی ہوسکتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جو شخص خود کو بہت زیادہ چالاک سمجھتا ہے، اس کی سب سے بڑی بیوقوفی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروںکو بے وقوف سمجھتا ہے، حالاں کہ کسی کو یہ خوش فہمی نہیں پالنی چاہیے کہ ہماری چالاکیوں کی تہہ تک کوئی پہنچ نہیں سکتا۔”
تو سنابلی صاحب کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
اس سند میں کچھ موہوم خرابیاں:
سنابلی صاحب لکھتے ہیں:
”اس کی سند میں کئی اور علتیں اور الٹ پلٹ باتیں ہیں۔۔۔ اس سند میں اور بھی خرابیاں ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔”
(چار دن قربانی، ص : 50، 51)
ہماری سنابلی صاحب سے استدعا ہے کہ طوالت سے خوف نہ کھائیں اور وہ خرابیاں بھی بیان کر دیں تا کہ ان کی حقیقت سے بھی لوگوں کو آگاہی ہو سکے۔
یاد رہے کہ اس سند میں سرے سے کوئی خرابی ہے ہی نہیں، رہی ”الٹ پلٹ باتوں” کی بات تو اس کی فن حدیث سے تعلق رکھنے والے ادنیٰ طلبہ علم کے ہاں بھی کوئی حیثیت نہیں، چہ چائے کہ اہل علم کی صف کے لوگ ایسا کہیں۔
اہل علم اس ”الٹ پلٹ”کی خوب وضاحت دے چکے ہیں، اگر سنابلی صاحب اس پر اصرار کریں گے، تو ہم مثالوں سے اسے واضح کر دیں گے۔ ان شاء اللّٰہ
2 سیدنا عبداللہ عمر رضی اللہ عنہ اور تین دن قربانی:
وحدثني یحیی، عن مالک، عن نافع، أن عبد اللّٰہ بن عمر قال : الأضحی یومان بعد یوم الأضحی .
” یوم نحر کے بعد دودن قربانی کے ہیں ۔”
(موطأ الإمام مالک : 2/487، عبدالباقي)
اس کی سند صحیح ہے۔ خود سنابلی صاحب نے بھی اسے ”صحیح” تسلیم کیا ہے ۔
(چار دن قربانی، ص : 54)
مگر سند کو صحیح وثابت تسلیم کر لینے کے بعد بھی وہ اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما کا موقف ماننے کے لیے تیار نہیں، چنانچہ لکھتے ہیں :
”لیکن گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ انہیں کی طرف چار د ن قربانی کا قول بھی منسوب ہے۔ممکن ہے آپ نے بعد میں رجوع فرماتے ہوئے حدیث کے موافق اپنا موقف بدل لیا ہو اور پہلے نصوص سے لاعلم ہونے کے سبب تین دن قربانی کی بات کہی ہو، واللہ اعلم ۔”(چار دن قربانی، ص : 55)
ہم سوال کرتے ہیں کہ چار دن والے قول کی سند کہاں ہے؟ اگر دنیا جہان میں اس قول کی کوئی سند نہیں، تو ایسے بے سروپا قول کو ایسے قول کے مقابلے میں پیش کرنا کیا علمی دیانت کہلا سکتا ہے، جسے آپ خود صحیح وثابت تسلیم کر رہے ہیں؟
اگر اس قول کی کوئی سند ہے، تو پیش کرنا آپ پر قرض ہے، تا کہ اس کی حقیقت بھی لوگوں کے سامنے آ سکے۔
3 سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور تین دن قربانی:
قال الإمام الطحاوي :
وما قد حدثنا إبراہیم بن مرزوق، قال حدثنا وہب بن جریر، قال حدثنا شعبۃ، عن میسرۃ بن حبیب، عن المنہال بن عمرو، عن سعید بن جبیر، عن ابن عباس، قال النحر یومان بعد یوم النحر، وأفضلہا یوم النحر .
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یوم النحر (دس ذو الحجہ) کے بعد قربانی کے دو دن ہیں، افضل دن پہلا (١٠ ذو الحجہ ) ہے۔”
(أحکام القرآن : 2/205، ح : 1571)
اس کی سند ”حسن ”ہے۔
منہال بن عمرو کے تفرد کا بہانہ:
لیکن سنابلی صاحب نے بلا جواز اسے ”ضعیف ”قرار دینے کی کوشش کی ہے، موصوف لکھتے ہیں:
”یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں المنہال بن عمروہیں ۔ یہ گرچہ صدوق ہیں، بخاری کے رجال میں سے ہیں، مگر متکلم فیہ ہیں، متعدد محدثین نے ان پر کلام کیا ہے اور ضعفا کے مؤلفین نے انہیں ضعفا میں ذکر کیا ہے، عام حالات میں موصوف معتبر ہیں، لیکن موصوف کے ایسے تفردات قابل قبول نہیں ہوں گے، جن میں غلطی کا قوی احتمال ہو۔”(چاردن قربانی، ص : 53)
منہال بن عمرو پر کلام کی حقیقت :
سنابلی صاحب سے ہمارا پہلا سوال ہے کہ کیا منہال بن عمرو پر محدثین کا کلام مضر ہے؟ کیا یہ اس روایت سے جان چھڑانے کا بہانہ بن سکتا ہے؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں:
المنہال بن عمرو تکلم فیہ بلاحجّۃ .
”منہال بن عمرو پر بلا دلیل جرح کی گئی ہے ۔”
(ہدی الساري : 1/464، بیروت)
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفیہ کلام لّا یضرّ .
”ان پر ایسا کلام ہواہے ،جو مضر نہیں۔” (الصحیحۃ : 2/442)
دکتور بشار عواد معروف لکھتے ہیں:
ولم یجرح بجرح حقیقيّ .
”منہال پر کوئی حقیقی جرح ہے ہی نہیں ۔”
(حاشیۃ تہذیب الکمال في أسماء الرجال : 28/572)
منکر عذاب ِقبر ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے بھی عود ِروح والی روایت کو رد کرنے کے لیے منہال بن عمروپر بالکل ایسے ہی جرح کی تھی، جس کے تفصیلی اور دندان شکن جواب کے لیے استاذِ محترم حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ کا مضمون بنام ”حدیث عودِ روح اور ڈاکٹر عثمانی کی جہالتیں ”ملاحظہ فرمائیں۔ ( ماہنامہ السنہ ، جہلم ، شمارہ ٤٩ تا ٥٤)
ضعفا کے مؤلفین کا ثقہ رواۃ کوذکر کرنا مضر نہیں!
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ضعفا کے مؤلفین کسی ثقہ راوی کو ضعفا میں ذکرکرنا اس کی ثقاہت کے لیے مضر ہے؟ موصوف کو ” ضعفا کے مؤلفین نے انہیں ضعفا میں ذکر کیا ہے” والا جملہ لکھنے کی ضرورت شاید اس لیے پیش آئی کہ قارئین سمجھیں کہ ہو سکتا ہے، ان محدثین نے منہال کو ضعیف سمجھ کر ہی ضعفا میں درج کیا ہو۔
موصوف خود لکھتے ہیں :
”ضعفاکے مولفین کبھی کبھی ثقہ رواۃ کو بھی یہ بتلانے کے لیے ضعفا میں ذکر کر دیتے ہیں کہ ان پر فلاں نے جرح کی ہے اوران کا مقصد اس راوی کو ضعیف بتلانا نہیں ہوتا۔” (یزید بن معاویہ، ص : 666)
لہٰذا سنابلی صاحب کا یہ کہنا کہ ”ضعفا کے مولفین نے انہیں ضعفا میں ذکر کیا ہے” سوائے مغالطے کے اور کچھ نہیں۔
کیا واقعی اس بیان میں منہال بن عمرو کا تفرد ہے؟
جب دیگر صحابہ کرام سے بھی تین دن قربانی کا موقف ثابت ہے اور کسی ایک صحابی سے بھی چار کی کوئی ایک بھی روایت ثابت نہیں، تو منہال بن عمرو سے غلطی کا احتمال ختم ہو گا یا قوی ہو گا؟ لہٰذا منہال کے تفرد کا بہانہ بنا کر اس اثر کو بلادلیل ”ضعیف” قرار دینا کسی طور پر تحقیقی مزاج سے ہم آہنگی نہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب چار دن والے قول کی حقیقت :
سنابلی صاحب نے اپنے کتابچے (چار دن قربانی کی مشروعیت ، ص : ٣٤) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر پیش کر کے کہا :
” اس کی سند ضعیف ہے، لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعدد سندوں سے منقول ہے، جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔”
عرض ہے کہ اس کی سند صرف ضعیف نہیں، بلکہ سخت ضعیف ہے، کیوں کہ اس کا راوی ” طلحہ بن عمرو الحضرمی” محدثین کے ہاں سخت ضعیف و متروک ہے۔
جناب سنابلی صاحب نے اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے سکوت کو بھی دلیل بنانے کی سعی کی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں :
”حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ابن ابی شیبہ کی کتاب سے مذکورہ بالا روایت نقل کی ہے اور اس کی تضعیف نہیں کی ہے،جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نظر میں یہ سند صحیح ہے۔۔۔”
(چار دن قربانی کی مشروعیت، ص : 35)
جو لوگ سکوت ابن حجر رحمہ اللہ کو دلیل بناتے ہیں، ان کا موقف انتہائی کمزور ہے۔ ایک مقلد نے جب اس طرح کا موقف اپناکر اپنا ناکام دفاع کرنے کی کوشش کی، تو اس کا دندان شکن تفصیلی جواب محقق العصر علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے دیا۔
دیکھیں ( اعلاء السنن فی المیزان ، ص : 74)
4 سیدنا عمر، سیدنا انس اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے اقوال سنابلی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں:
حدثنا جریر، عن منصور، عن مجاہد، عن ماعز بن مالک أو مالک بن ماعز الثقفی قال ساق أبی ہدیین عن نفسہ وامرأتہ وبنتہ، فأضلہما بذی المجاز، فلما کان یوم النحر ذکر ذلک لعمر فقال تربص الیوم وغدا وبعد، فإنما النحر فی ہذہ الثلاثۃ أیام .
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قربانی صرف تین دن ہے۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 14442)
ابن حزم رحمہ اللہ اپنی سند سے لکھتے ہیں:
ومن طریق ابن أبی شیبۃ نا زید بن الحباب عن معاویۃ بن صالح حدثنی أبو مریم سمعت أبا ہریرۃ یقول : الأضحی ثلاثۃ أیام .
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: قربانی تین دن ہے ۔”
(المحلی : 6/40)
ومن طریق وکیع عن شعبۃ عن قتادۃ عن أنس قال الأضحی یوم النحر ویومان بعدہ .
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قربانی دس ذوالحجہ اور دو دن اس کے بعد ہے۔”
(المحلی : حوالۃ مذکورۃ)
سنابلی صاحب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اثر کے بارے لکھتے ہیں :
”یہ روایت ضعیف ومردود ہے، کیوں کہ ” ماعز بن مالک ” یا ”مالک بن ماعز” دونوں نامعلوم ہیں۔” (چار دن قربانی ، ص : 52)
مؤخر الذکر آثار کے بارے کہتے ہیں کہ یہ ادھوری سند ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
حالانکہ ان آثار کی کی تائیدصحیح آثار سے بھی ہوتی ہے،نیز بالکل بے سند نہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ضعیف و مردود ہیں اور دوسری طرف موصوف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے چار دن قربانی والے سخت ضعیف اثر کو اور دیگر صحابہ کرام کی طرف منسوب بے سروپا آثار کو معتبر ٹھہرانے کے لیے کوشاں ہیں، کیا یا باسند صحیح اقوال سے تائید لینا دانش مندی ہے یا سخت ضعیف اور بے سند آثار سے ؟ تعجب ہے کہ ادھوری سند والے اقوال مردود اور جن کی سند ہی نہیں وہ مقبول؟
دوسری بات یہ ہے کہ سنابلی صاحب کا اپنا قاعدہ ملاحظہ فرمائیں :
”یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف کتاب وسنت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے نہ کہ امتیوں کے اقوال کی، اس لیے امتیوں کے اقوال کی صحیح سندوں کا مفقود ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔”(چار دن قربانی کی مشروعیت ، ص : 33)
اگر یہ قاعدہ سنابلی صاحب کے صرف اپنے مفاد میں استعمال کے ساتھ خاص نہیں تو کیا اسے تینوں مؤخر الذکر صحابہ کرام سے اثبات کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا؟ اس پر تو کئی صحابہ کرام کے با سند صحیح ثابت آثار بھی واضح قرینہ بنتے ہیں۔
کیا یہ تحقیق کا تقاضا ہے کہ بے سروپا اور بے اصل وبے سند آثار کو تائید وقرینہ بنانے کے لیے زور صرف کیا جائے اور یہ قاعدہ بنایا جائے کہ ان کو قبول کرنے کے لیے صحیح سند کی ضرورت نہیں، لیکن باسند صحیح ثابت کئی ایک آثار کو باسند ضعیف آثار کے لیے تائید و قرینہ بنانے سے انکار کر دیا جائے؟
چار دن والے اقوال اور سنابلی صاحب کی تحقیق!
صحابہ کرام سے تین دن قربانی والا موقف تو ثابت ہے، لیکن چار دن قربانی کی کوئی ایک بھی روایت کسی ایک بھی صحابی سے پایہ صحت کو نہیں پہنچتی۔
بے سند اقوال سے اثبات کی کوشش !
سنابلی صاحب نے سیدنا علی، سیدنا جبیر بن مطعم اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے چار دن قربانی ثابت کرنے کے لیے ان کی طرف منسوب بے سند اقوال نقل کیے ہیں۔ بے سند اقوال نقل کر کے ان پر سرخیاں جمانا کہ فلاں فلاں صحابی چار دن قربانی کا قائل تھا، تحقیقی مزاج کے ہی منافی ہے۔
ایک نئی منطق ۔۔۔صحیح الاسناد اقوال کا بے سند اقوال سے ردّ:
سنابلی صاحب جب صحابہ کرام سے تین دن قربانی والے اقوال کو ثابت اور چار دن والے اقوال کو غیر ثابت، بل کہ بے سروپا پایا، تو ایک نئی منطق ایجاد کی، لکھتے ہیں :
”لیکن گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ انہی کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے۔ ممکن ہے آپ نے بعد میں رجوع فرماتے ہوئے حدیث کے موافق اپنا موقف بدل لیا ہے ۔۔ ۔”(چار دن قربانی کی مشروعیت ،ص :55)
اس نئی منطق پر ہمارے کچھ ملاحظات ہیں:
اگر صحیح وثابت آثار ِ صحابہ کے ہوتے ہوئے ان سے منقول بے سند آثار سے ان کا رجوع ثابت کرنے کی رَوَش درست قرار دے دی جائے، تو مقلدین کے پاس ان کے تمام تفردات میں صرف بے سند ہی نہیں، کثرت سے باسند آثار ِ صحابہ بھی موجود ہیں، لیکن ان کی اسانید محدثین کرام کے معیار ِ صحت پر پورا نہیں اترتیں۔ اگر سنابلی صاحب کہیں، تو ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، جن میں فقہا بطور جزم صحابہ کرام کی طرف بے سند و باسند ضعیف آثار منسوب کرتے ہیں۔
ہم یہاں صرف ایک مثال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری وغیرہ میں نبی اکرمe کی وفات کے بعد رفع الیدین سے نماز پڑھنا ثابت ہے، لیکن احناف کے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی عدم رفع والی روایت بھی موجود ہے، جس کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے۔
اگر صحیح ثابت اثر کے خلاف بے سند اثر کو رجوع بنا کر پیش کیا جانا تحقیق ہے، تو مقلدین کے پیش کردہ اس با سند اثر کو بالاولیٰ رجوع مان لینا چاہیے۔
فقہا کا بے سند منسوب کرنا کیا ثبوت کی دلیل ہے؟
سنابلی صاحب لکھتے ہیں :
”متعدد اہل علم نے ان صحابہ کی طرف بالجزم چار دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ ممکن ہے ان اقوال کی صحیح سندیں ایسی کتب میں ہوں، جن تک ہماری رسائی نہ ہو یا جو مفقود ہو چکی ہوں۔ ۔۔ عام طور پر فقہا اس نوعیت کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں۔”(چار دن قربانی کی مشروعیت ،ص : 33)
کیا فقہا و مجتہدین کا باسند ضعیف یا بے سند اقوال سے حجت پکڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اقوال ثابت ہیں؟
سنابلی صاحب کا یہ اصول ظفر احمد تھانوی صاحب کے اس اصول سے ملتا جلتا ہے، جسےمحدث العصر، شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بہت تفصیل کے ساتھ پاش پاش کیا ہے، فرماتے ہیں:
”مگر اس رائے کے برعکس علامہ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے کہا ہے :
عمل العالم او فتیاہ علی وفق حدیث لیس حکما منہ بصحۃ ذلک الحدیث .
”عالم کا عمل یا اس کا حدیث کے مطابق فتوی اس کی طرف سے حدیث پر صحت کا حکم نہیں ہے۔”
سیدھی سی بات ہے کہ جب کسی عالم و مجتہد صحیح حدیث کے خلاف قول وعمل اس کو مستلزم نہیں کہ وہ حدیث اس کے نزدیک ضعیف ہو، تو اس کا عمل اس کی صحت کی دلیل کیوں کر بن سکتا ہے؟کیوں کہ اس بات کا احتمال ہے کہ اس حدیث کے علاوہ بھی کوئی خارجی دلیل اس کی مؤید ہو، جیسے یہ کہ اجماع یا قیاس اس کا مؤید ہو۔ اس بنا پر مجتہد نے اس حدیث پر عمل کیا ہو یا اس سے استدلال کیا ہو۔”(اعلاء السنن فی المیزان، ص : 48)
ہمارا سوال ہے کہ جب کسی مجتہد یا عالم کا کسی حدیث نبوی کے موافق فتوی یا اسے بالجزم منسوب کرنا اس کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتا تو کسی صحابی کے قول کو اپنے موقف میں پیش کرنا یا اسے بالجزم منسوب کرنا کیسے اس کے ثبوت کی دلیل بن سکتا ہے؟
اپنے ہی اصول کی بے اصولی :
یاد رہے کہ سنابلی صاحب کے نزدیک ضعیف روایت جب بے سند کے مقابل آئے، تو ضعیف قوی ہوتی ہے۔
سنابلی صاحب اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ان تمام روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینے ہی میں تھے۔ یہ تمام روایات اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن باسند ہیں، جبکہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کی ذکر کردہ بات بے سند و بے اصل ہے ، لہٰذا یہ باسند روایات ابن عبد البر کی بیان کردہ بے سند بات سے زیادہ قوی ہیں اور زیادہ قوی روایات کو بے اصل یا کم قوی روایات کے خلاف پیش کیا جا سکتا ہے۔”
(یزید بن معاویہ، ص : 132)
یہاں تو وہ ضعیف روایات کو بے سند روایت سے قوی قرار دے رہے ہیں، لیکن خود ایام ِ قربانی والے مسئلہ میں صحابہ کرام کے صحیح وثابت آثار کو بے سند یا سخت ضعیف آثار سے قوی ماننے کے لیے تیار نہیں ہو رہے۔
سنابلی صاحب کے مذکورہ اصول کی رُو سے تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام سے تین دن قربانی والا موقف اگر صحابہ کرام سے باسند صحیح ثابت نہ بھی ہوتا، سب سندیں ضعیف ہی ہوتیں، تو بھی اسے چاردن قربانی والی بے سندو بے اصل روایات کے خلاف پیش کیا جاسکتا تھا، چہ چائیکہ تین دن والا موقف ہی صحابہ کرام سے ثابت ہے، چاردن والا قطعا ثابت نہیں!
الحاصل :
صحابہ کرام سے تین دن قربانی والا موقف ثابت ہے، جب کہ چار دن قربانی والا موقف قطعا ثابت نہیں۔ والحمد للّٰہ

پی ڈی ایف میں ڈاون لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.