1,402

قربانی کے احکام ومسائل ۔ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
ذوالحجہ کے عالی شان ایام :
اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے طکے پہلے دس دن انتہائی بابرکت اورحرمت والے ہیں ، ان ایا م میں کیے جانے والے نیک اعمال دوسرے دنو ں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ پر فوقیت و فضیلت رکھتے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ـ :
”دوسرے دنو ں کی بہ نسبت ان دنوں میں کیا جانے والا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہوتاہے ، صحابہ کرام نے عرض کی ، دوسرے دنوں میں کیا جانے والاجہاد بھی ان دنوں کے عمل سے افضل نہیں؟ فرمایا،جہاد بھی نہیں ، ہاں ! اگر کوئی آدمی اپنا جان و مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلتا ہے اور کچھ واپس نہیں آتا ۔”(صحیح بخاری : ٩٦٩، سنن ابی داؤد : ٢٤٣٨، جامع ترمذی : ٧٥٧، سنن ابن ماجہ : ١٧٢٧)
سیدناابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”عرفہ کے دن (٩ذو الحجہ کا)روزہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔”(صحیح مسلم : ١١٦٢)
الحاصل ان مبارک دنوں میں نفلی نماز ، نفلی روزوں ، صدقہ و خیرات ، ذکر و اذکار ، تکبیر و تہلیل اور دیگر نیک اعمال کا اہتمام مولائے رحمن و رحیم کی بے پایاں رحمت اور لا متناہی مغفرت کا باعث ہے ۔
ان دنو ں میں کیے جانے والے مبارک اعمال میں سے ایک عالی مرتبت و عالی مقام عمل ”قربانی” بھی ہے ، جو کہ اسلام کا باکمال اور ممتاز شعار ہے ۔
قربانی
دس ذو الحجہ کے بابرکت دن کا پر امن سورج پیغامِ مسرت لے کر مسکراہٹوں کی کرنیں بکھیرتا ہو ا طلوع ہوا ، دو رکعت نمازِ عید الاضحی کی ادائیگی اور خطبہئ عید سننے کے بعد فرزندانِ امت ِ مسلمہ گھروں میں پہنچے ، عید الفطر کی طرح محو ِ استراحت نہ ہوئے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے رزق میں سے اونٹ ، گائے ، بکری یا بھیڑ ، دنبے کا انتخاب کیا ، اس کی لگام کو تھاما ، عاجزی و فروتنی اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات سے سرشار ہو کر مخصوص مقام پر پہنچ کر جانور کو لٹایا اور ”بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ” کا نعرہ لگا کر جانور کو اللہ رب العزت کے نام پر ذبح کر کے سنت کو دوام بخشا ، اس عمل کی بنیادخوردونوش ، نمودو نمائش اور ریا کاری نہیں ، بلکہ امت ِ مسلمہ کا شعارِ اسلام کے ساتھ لگاؤ اور اللہ و رسول کے ساتھ گہری محبت کا نتیجہ ہے ۔
قربانی کا حکم :
ذوالحجہ کے ایامِ قربانی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مخصوص شرائط کے حامل جانوروں کا خون بہانا شعارِ اسلام اور عظیم عبادت ہے ، جسے قربانی کہا جاتا ہے ، یہ سنت ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من کان لہ سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا۔
”جو شخص استطاعت و قدرت کے باوجود قربانی نہیں کرتا ، وہ ہماری عید گاہو ں کے قریب تک نہ پھٹکے۔”(مسند احمد : ٢/٣٢١، سنن ابن ماجہ : ٣١٢٣، واللفظ لہ، المستدرک للحاکم : ٢/٣٩٠،٤/٢٣١،٢٣٢، وسندہ حسن)
اس حدیث کی سند کو امامِ حاکم نے ”صحیح ”کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
اس کا راوی عبداللہ بن عیاش القتبانی جمہور کے نزدیک ” موثق ، حسن الحدیث ” ہے ، حافظ ذہبی لکھتے ہیں : حدیثہ فی عداد الحسن۔(سیر اعلام النبلاء : ٧/٣٣٤)
واضح رہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس خدشہ کے پیشِ نظر قربانی چھوڑنا ثابت ہے کہ کہیں لوگ اس کو واجب نہ سمجھ لیں ۔(السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٦٥، وسندہ صحیح)
سیدنا ابو مسعود بدری انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں :
لقد ہممت ان ادع الاضحیۃ وانی لمن ایسرکم بہا ، مخافۃ ان یحسب انہا حتم واجب۔
”میں تو قربانی ترک کرنے کا ارادہ کرتا ہوں ، اس ڈر سے کہ اسے حتمی اور واجب نہ سمجھ لیا جائے ، حالانکہ میں تم سب سے بڑھ کر آسانی سے قربانی کر سکتا ہوں ۔”(السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٦٥، وسندہ صحیح)
حافظ ابنِ حجر نے اس اثر کی سند کو ”صحیح ”کہا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما(السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٦٥، وسندہ صحیح) اور سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المحلی لابن حزم : ٧/٣٥٨، وسندہ صحیح )کے وجوب کے قائل نہیں تھے ۔
زیاد بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے قربانی کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا ، یہ سنت اور کارِ خیر ہے ۔(صحیح بخاری : ٢/٨٣٢تعلیقا، تغلیق التعلیق ؛ ٥/٣، وسندہ صحیح)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے موصولاًذکر کر کے اس کی سند کو ”جید” قرار دیا ہے ۔
امیر المؤمنین فی الحدیث امامِ بخاری اور دیگر محدثین عظام کے نزدیک بھی قربانی سنت ہے۔
امام ابو حنیفہ سے باسند ِ صحیح قربانی کو واجب قرار دینا ثابت نہیں ہے ، مدعی پر دلیل لازم ہے ۔
قربانی کے جانور کی عمر :
قربانی کے جانور کے لیے دوندا ہونا شرط ہے ، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تذبحوا الا مسنّۃ الا أن یّعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضّان۔
”تم دوندا جانور ہی ذبح کرو ، اگر تنگی واقع ہو جائے تو بھیڑ کی نسل سے جذعہ ذبح کر لو۔” (صحیح مسلم : ٢/١٥٥، ح : ١٩٦٣)
حافظ نووی کہتے ہیںکہ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ”مُسِنَّۃٌ ” اس اونٹ یا گائے اور بکری وغیرہ کو کہتے ہیں ، جو دوندا ہو ، نیز اس حدیث میں یہ وضاحت ہو گئی ہے کہ بھیڑ کی جنس کے علاوہ کسی اور جنس کا ”جَذَعَۃٌ” جائز نہیں ، قاضی عیاض کے بقول اس پر اجماع ہے ۔(شرح مسلم للنووی : ٢/١٥٥)
امام ترمذی فرماتے ہیں : وقد أجمع أہل العلم أن لا یجزیئ الجذع من المعز ، وقالوا : انما یجزیئ الجذع من الضان۔
”اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ بکری کی جنس کا ”جذعہ” قربانی میں کفایت نہیں کرتا، جبکہ بھیڑ کی جنس کا ”جَذَعَۃٌ” کفایت کر تا ہے۔” (جامع ترمذی تحت حدیث : ١٥٠٨)
یاد رہے کہ ”جَذَعَۃٌ” کی عمر میں اختلاف ہے ، جمہور ایک سال کے قائل ہیں اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے، حافظ نووی لکھتے ہیں :
والجذع من الضّأن ما لہ سنۃ تامّۃ ، ہذا ہو الأصح عند أصحابنا ، وہو الأشہر عند أہل اللّغۃ وغیرہم ۔
بھیڑ کی جنس کا ”جَذَعَۃٌ” مکمل ایک سال کا ہوتا ہے ، ہمارے اصحاب کے نزدیک یہی صحیح تر بات ہے ، نیز یہی اہلِ لغت وغیر ہ کے ہاں مشہور قول ہے ۔”(شرح مسلم للنووی : ٢/١٥٥)
اس حدیث میں مذکورہ حکم عام ہے ، ہر جانور کو شامل ہے ، وہ بکری کی جنس ہو یا بھیڑ کی ، گائے کی جنس ہو یا اونٹ کی ، ان سب کا دوندا ہونا ضروری ہے ، وہ صحیح احادیث جن سے بھیڑ کے ”جَذَعَۃٌ” کی قربانی کا جواز ملتا ہے ، وہ تنگی پر محمول ہیں ، یعنی دوندا جانور نہ ملے تو ایک سال کا دنبہ یا بھیڑ ذبح کی جا سکتی ہے ، اس طرح تمام احادیث پر عمل ہو جا ئے گا۔
تنگی کی دو صورتیں ممکن ہیں ، ایک دوندے جانورکا دستیاب نہ ہونا اور دوسرے ایسے جانور کو خریدنے کی طاقت نہ ہونا، ایسی صورت میں بھیڑ کا یعنی ”جَذَعَۃٌ” ایک سال کا دنبہ ذبح کیا جائے گا۔
تنبیہ : بعض ناعاقبت اندیش لوگ جانور کو دوندا باورکروانے کے لیے سامنے والے دانت توڑ دیتے ہیں ، یہ محض دھوکا اور فریب ہے ، ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ۔
جانور کی قربانی میں شراکت:
بکر ا ، بکری ، دنبہ اور بھیڑ میں سے ہر ایک جانور صرف ایک آدمی کو کفایت کرتا ہے ، ہاں ایک بکرا یا دنبہ تمام اہلِ خانہ کے لیے کافی ہے ، دلائل ملاحظہ ہوں :
١٭ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنبے کی قربانی کی اور فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ ، اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّۃٍ مُحَمَّدٍ ۔
”اللہ کے نام کے ساتھ (ذبح کرتا ہوں )، اے اللہ ! (یہ قربانی )محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )، آل محمد اور امت ِ محمد کی طرف سے قبول فرما۔”(صحیح مسلم : ٢/١٥٦، ح: ١٩٦٧)
اس حدیث ِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایک دنبہ تمام اہلِ خانہ کی طرف سے ذبح کیا جا سکتا ہے ، سب کی طرف سے قربانی ادا ہو جائے گی ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دنبہ اپنی طرف سے ، اپنی آل کی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے ذبح کیا ۔
واضح رہے کہ جب حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جانے والے حجاجِ کرام منیٰ میں قربانی کریں گے تو ان کے گھر کے بقیہ افراد اس میں شریک نہیں ہوں گے ۔
فائدہ: امت کی طرف سے قربانی کرنا نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے ۔
٢٭ عطاء بن یسا ر رحمہ اللہ کہتے ہیں ، میں نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا : کیف کانت الضّحایا فیکم علٰی عہد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ؟
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہئ اقدس میں تمہاری قربانیاں کیسی ہوتی تھیں ؟ ”
تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
کان الرّجل فی عہد النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یضحّی بالشّاۃ عنہ وعن أہل بیتہ فیأکلون و یطعمون ، ثمّ تباہی النّاس فصار کما ترٰی ۔
”آدمی عہد ِ نبوی میں ایک بکری کی قربانی اپنی طرف سے اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے کرتاتھا، وہ خود بھی گوشت کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ، بعد ازاں لوگ (قربانی کرنے میں )باہم فخرو مباہات کرنے لگ گئے ، جن کی (نا گفتہ بہ )حالت آپ کے سامنے ہے۔”
(مؤطا امام مالک بروایۃ یحیی : ٢/٤٨٦، جامع ترمذی : ١٥٠٥، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٧ واللفظ لہ ، السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٦٨، وسندہ صحیح)امامِ ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن صحیح” کہاہے ۔
٣٭ عبداللہ بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں :
کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یضحّی بالشّاۃ الواحدۃ عن جمیع أہلہ ۔
”رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتے تھے۔”
(المستدرک للحاکم : ٣/٤٥٦، ٤/٢٢٩ واللفظ لہ ، السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٦٨، الآحاد والمثانی لاحمد بن عمرو : ٦٧٩، وسندہ صحیح)
امامِ حاکم نے اس حدیث کو ” صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ا ن کی موافقت کی ہے ۔
٤٭ ابو سریحہ الغفاری حذیفہ بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے زیادتی پر اکسایا ، بعد اس کے کہ میں نے سنت کو جان لیا تھا کہ اہلِ خانہ ایک یا دو بکریا ں قربانی کے لیے ذبح کرتے تھے ، (اب ہم ایسا کریں )تو ہمارے پڑوسی ہمیں کنجوس کہتے ہیں ۔”
(سنن ابن ماجہ : ٣١٤٨ واللفظ لہ ، المستدرک للحاکم : ٤/٢٢٨، السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٦٩، شرح معانی الآثار للطحاوی : ٤/١٧٤، المعجم الکبیر للطبرانی : ٣٠٥٦، ٣٠٥٧ ، ٣٠٥٨ ، وسندہ صحیح)
اس حدیث کی سند کو امامِ حاکم نے ”صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ،علامہ سندی حنفی لکھتے ہیں : اسنادہ صحیح ورجالہ موثّقون۔
”اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راویوں کی توثیق بیان کی گئی ہے ۔”(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ)
اونٹ میں شراکت:
ایک اونٹ میں دس حصہ دار شریک ہو سکتے ہیں ، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں عید الاضحی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس اورایک گائے میں سات آدمی شریک ہوئے۔
(مسند الامام احمد : ٢٤٨٨، السنن الکبری للنسائی : ٤١٢٣، ٤٣٩٢، ٤٤٨٢، جامع ترمذی : ٩٠٥، سنن ابن ماجہ : ٣١٣١، المستدرک للحاکم :٤/٢٣٠، السنن الکبری للبیہقی : مشکل الآثار للطحاوی : ٣/٢٤٥، شرح السنۃ للبغوی : ١١٣٢، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امامِ ترمذی نے ”حسن غریب” امام ابنِ حبان (٤٠٠٧)نے ”صحیح” اور امامِ حاکم نے ”صحیح علیٰ شرط البخاری ”کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ میں دس آدمی حصہ ڈال سکتے ہیں ، اس کے تعارض میں ایک روایت ہے ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ والے سال نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی ، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیااور ایک گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی گئی ۔(صحیح مسلم : ١/٤٢٤، ح : ١٣١٨)
اس حدیث کو ”ہدی” (منیٰ میں جانے والی قربانی )پر محمول کریں تو ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث سے مخالفت ختم ہوجاتی ہے ، یعنی منیٰ میں حجاجِ کرام ایک اونٹ میں سات آدمی شریک ہوں گے ، جبکہ دیگر لوگ ایک اونٹ کو دس آدمیوں کی طرف سے ذبح کر سکتے ہیں ۔
جانور کے عیوب:
قربانی کا جانور درجِ ذیل عیوب و نقائص سے سالم ہونا چاہیے :
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أربع لا تجوز فی الأضاحی : العوراء بیّن عورہا ، والمریضۃ بیّن مرضہا ، والعرجاء بیّن ظلعہا ، والکبیر الّتی لا تُنْقی ۔
”چار قسم کے جانوروں کی قربانی کرنا جائز نہیں : (١)کانا جانور، جس کاکانا پن ظاہر ہو ، (٢)بیمار جانور، جس کی بیماری ظاہر ہو ،(٣) لنگڑا جانور ، جس کا لنگڑ ا پن ظاہر ہو اور(٤) شکستہ و لاغر جانور ، جس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو۔”(مسند احمد ٤ /٨٤ ، سنن ابی داؤد : ٢٨٠٢ ، سنن النسائی : ٤٣٧٤ ، جامع ترمذی : ١٤٩٧ ، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٤ ، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امامِ ترمذی ، امام ابنِ خزیمہ (٢٩١٢)،امام ابنِ حبان (٥٩١٩،٥٩٢٢)، امام ابن الجارود(٤٨١)اور امامِ حاکم(١/٤٦٧۔٤٦٨) نے ”صحیح” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
جانورخریدنے کے بعد ان عیوب میں سے کوئی عیب پیدا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
سیدنا عبدا للہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :
ان کان أصابہا بعد ما اشتریتموہا فامضوہا وان کان أصابہا قبل أن تشتروہا فأبدلوہا
”اگر خریدنے کے بعد عیب پیدا ہو تو قربانی کر دو ، لیکن اگر عیب پہلے سے موجود ہو تو اسے بدل لو۔” (السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٨٩ ، وسندہ صحیح)
امامِ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اذا اشتری رجل أضحیۃ فمرضت عندہ أو عرض لہا مرض فہی جائزۃ ۔
”جب آدمی قربانی کا جانور خرید لے ، پھر بعد میں وہ بیمار ہو جا ئے تواس کی قربانی جائز ہے۔” (مصنف عبدالرزاق : ٤/٣٨٦ ، ح: ٨١٦١ ، وسندہ صحیح)
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (قربانی کے )جانور کی آنکھیں او ر کان بغور دیکھنے کا حکم دیا۔ (مسند الامام احمد : ١/١٠٥، سنن النسائی : ٧/٢١٣، ح : ٤٣٨١، سنن ترمذی : ١٥٠٣، سنن ابن ماجہ :٣١٤٣، وسندہ حسن )
اس کو امام ترمذی نے ”حسن صحیح” اور امام ابنِ خزیمہ (٢٩١٤)اورامام حاکم نے ”صحیح” کہاہے۔
یہ حکم واجبی نہیں ، بلکہ ندب و ارشاد پر محمول ہے ۔
نیز سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کان کٹے ہوئے اور سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔
(سنن ابی داؤد : ٢٨٠٥، سنن نسائی : ٤٣٨٢، سنن ترمذی : ١٥٠٣، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٥، وسندہ حسن)
امامِ ترمذی نے اس کو ” حسن صحیح ” کہا ہے ، نسائی وغیرہ میں شعبہ نے قتادہ سے بیان کیاہے۔
یاد رہے کہ یہ نہی تحریمی نہیں ، بلکہ تنزیہی ہے ، کا ن اور سینگوں میں تھوڑابہت نقص مضر نہیں ۔
تنبیہ:
قربانی کے جانور کا خصی ہونا عیب نہیں ہے ،نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی ہے۔(مسند الامام احمد : ٣/٣٧٥، سنن ابی داؤد : ٢٧٩٥، سنن ابن ماجہ : ٣١٢١، وسندہ حسن)
امام ابنِ خزیمہ(٢٨٩٩) نے اس حدیث کو ” صحیح” کہا ہے ، ابنِ اسحاق نے سما ع کی تصریح کر رکھی ہے اور ابنِ خزیمہ نے راوی ابو عیاش کی توثیق کی ہے ، ایک جماعت نے اس سے روایت کی ہے۔
پیدائشی طور پر سینگوں کا نہ اگنا قطعی طورپر عیب نہیں ۔
متفرق احکام:
۔۔۔۔۔۔قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ اپنے بال کاٹے اور نہ ناخن تراشے۔(صحیح مسلم : ٢/١٦٠، ح : ١٩٧٧)
۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ جس آدمی کو قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو ، لیکن وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے سر کے بال اور مونچھیں کا ٹ لیتا ہے ، ناخن تراش لیتا ہے اور دوسری ضروری صفائی کر لیتا ہے اور پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرتاہے ، تو اسے قربانی کا پورا اجروثواب ملے گا۔
(مسند الامام احمد : ٢/١٦٩، سنن ابی داؤد : ٢٧٨٩، سنن نسائی : ٤٣٦٥، وسندہ حسن)
امام ابنِ حبان (٥٩١٤)، امام حاکم (٤/٢٢٣)، اور حافظ ذہبی نے اس حدیث کو ”صحیح ” کہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔قربانی کی استطاعت کے لیے زکوٰ ۃ کے نصاب کی شرط لگانا بے بنیاد ہے ، ہر مسلمان اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنی صورت ِ حال کو سامنے رکھ کر قربانی کی استطاعت کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر ے۔
۔۔۔۔۔۔بیک وقت ایک آدمی ایک سے زائد قربانیاں کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔قربانی کرتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے : بِسْمِ اللّٰہِ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ(صحیح مسلم : ١٩٦٦)اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ وَمِنْ أَہْلِیْ۔ (صحیح مسلم : ١٩٦٧، استدلالاً)
”اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ (ذبح کرتا ہو ں )اور اللہ سب سے بڑا ہے ، اے اللہ ! (یہ قربانی ) میری طرف سے اور میرے اہل کی طرف سے قبول فرما۔”
۔۔۔۔۔۔عورت اپنے ہاتھ سے قربانی کاجانور ذبح کر سکتی ہے ، خواہ ایامِ مخصوصہ ہی کیوں نہ ہو ں ۔
۔۔۔۔۔۔قربانی کے جانور کا گوشت ، سری پائے اور کھال یا چمڑا وغیرہ قصاب کو بطورِ اجر ت دینا ممنوع ہے ، قصاب کو اپنی جیب سے اجرت دی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔قربانی کے گوشت میں مساکین وفقراء کا حق ہے ، جو انہیں ملنا چاہیے ، اس حق کی مقدارمقرر نہیں ، بقیہ گوشت جو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔(صحیح بخاری : ٥٥٦٩)
۔۔۔۔۔۔قربانی کی کھال کا وہی مصرف ہے ،جو اس کے گوشت کا ہے ، لہٰذا وہ کھال کسی حق دار(مسکین و محتاج)کو دی جاسکتی ہے ۔(صحیح بخاری : ١٧١٧، صحیح مسلم : ١٣١٧) یا اپنے ذاتی استعمال میں لائی جا سکتی ہے ۔(صحیح مسلم : ١٩٧١)
یاد رہے کہ قربانی کے جانور کا کوئی حصہ نہ فروخت کیا جا سکتا ہے اور نہ اپنی ذاتی خدمت کے عو ض کسی کو دیا جا سکتا ہے اور اگر کھال فروخت کرنا پڑے تو اس کی قیمت مساکین و فقراء کو دے دی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔ایک آدمی نے قربانی کی نیت سے جانور پالا ہو ا تھا ، وہ وقت سے پہلے مر گیا ، گم ہو گیا یا وہ وقت پر دوندا نہیں ہوا تو اس صورت میں اگر اس کو دوسر اجانور قربانی کرنے کی استطاعت ہے تو ٹھیک ، ورنہ وہ قربانی نہ کرنے کی وجہ سے گنا ہگار؟
۔۔۔۔۔۔ذبح کے وقت بہنے والا خون حرا م ہے ، اس کے علاوہ حلال جانور کے تما م اعضاء حلال ہیں ، جبکہ حنفیوں ، دیوبندیوں کے نزدیک حلال جانور میں سات چیزیں حرام ہیں ، جس روایت کو دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، وہ انقطاع کی وجہ سے ” ضعیف” اور ناقابلِ حجت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔میت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت نہیں ، اگر کوئی ایسا عمل کرتا ہے تو وہ صدقہ ہو گا نہ کہ قربانی ، نیز اس کا سارا گوشت تقسیم کر دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔اونٹ کا گو شت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔(صحیح مسلم : ٣٦٠)
یوم عرفہ(نو ذوالحجہ)سے ایام تشریق کے آخر تک تکبیرات:
یومِ عرفہ (نو ذوالحجہ )کی نمازِ فجر سے لے کر تیرھویں ذوالحجہ کی شام تک فرضی نمازوں کے دیگر اذکا ر کے ساتھ یہ تکبیرات بھی پڑھنی چاہئیں ، ان دنوں کے عام اوقات میں بھی یہ تکبیرات پڑھیں ۔
اما م ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ مسلمان نو ذوالحجہ کو فرض نماز کے بعد قبلہ کی طرف منہ کر کے یہ تکبیرات پڑھتے تھے :اللّٰہ أکبر ، اللّٰہ أکبر ، لا الہ الّا اللّٰہ ، واللّٰہ أکبر ، وللّٰہ الحمد۔
”اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑ اہے، اس کے سوا کوئی معبود (برحق )نہیں ، اللہ سب سے بڑا ہے ، تعریف و ثناء بھی اسی ہی کی ہے ۔”(مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/١٦٧، وسندہ صحیح)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نو ذوالحجہ کی نمازِ فجر سے لے کر تیرھویں ذوالحجہ کی شام تک یہ تکبیرات پڑھتے تھے : اللّٰہ أکبر کبیراً ، اللّٰہ أکبر کبیراً ، اللّٰہ أکبر وأَجلُّ ، اللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد۔
”اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑاہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، وہ انتہائی عظمت والا ہے ، وہ سب سے بڑا ہے ، تعریف بھی اسی ہی کی ہے ۔”(مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/١٦٧، وسندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ الفاظ بھی ثابت ہیں :
اللّٰہ أکبر ، اللّٰہ أکبر ، اللّٰہ أکبر ، وللّٰہ الحمد ، اللّٰہ أکبر وأَجَلُّ ، اللّٰہ أکبر علٰی ما ھَدانا۔
”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے، اسی کی تعریف ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے، وہ انتہائی عظمت والا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے، اس وجہ سے کہ اس نے ہمیں ہدایت دی ۔” (السنن الکبری للبیہقی : ٣/٣١٥، وسندہ صحیح)
ابو عثما ن نہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں تکبیرات کے کلمات سکھاتے تھے ، کہتے تھے کہ ان کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو:
اَللّٰہُ اَئکْبَرُ ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ، اَللّٰہُمَّ أَنْتَ أَعْلٰی وَأَجَلُّ مِنْ أَنْ تَکُوْنَ لَکَ صَاحِبَۃٌ أَوْ یَکُوْنَ لَکَ وَلَدٌ أَوْ یَکُوْنَ لَکَ شَرِیْکٌ فِیْ الْمُلْکِ أَوْ یَکُوْنَ لَکَ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا ، اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنَا۔
”اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اے اللہ ! تو اس سے اعلی و اجل ہے کہ تیری کوئی بیوی ہو یا تیری اولاد ہو یا بادشاہی میں تیرا کوئی شریک ہو یا عاجزی و کمزوری کی وجہ سے تیر ا کوئی مددگار ہو، اس اللہ کو جان کر اس کی بڑائی بیان کرتے رہو ، اے اللہ ! ہمیں معاف فرما ، اے اللہ ! ہم پر رحم فرما!” (السنن الکبری للبیہقی : ٣/٣١٦، وسندہ صحیح)
امام حسن بصری رحمہ اللہ یہ تکبیرات پڑھتے تھے : اللّٰہ أکبر ، اللّٰہ أکبر ، اللّٰہ أکبر۔
”اللہ سب سے بڑا ہے ،اللہ سب سے بڑا ہے ،اللہ سب سے بڑا ہے ۔” (السنن الکبری للبیہقی : ٣/٣١٦، وسندہ صحیح)
یاد رہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تکبیرات ثابت پڑ ھنا ثابت نہیں ، سنن دارقطنی (٢/٥٠) والی روایت سخت ترین ”ضعیف ” ہے ، اس میں عمر و بن شمر راوی ” متروک و کذاب ” موجود ہے ۔
جس روایت میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ تکبیرات پڑھتے تھے :
اللّٰہ أکبر ، اللّٰہ أکبر ، لا الہ الّا اللّٰہ ، واللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر ، وللّٰہ الحمد۔
اس کی سند ابو اسحاق السبیعی کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ۔(دیکھیں مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/١٦٧)
تنبیہ :
شقیق بن سلمہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نو ذوالحجہ کو نمازِ فجر سے لے کر آخری یومِ تشریق (تیر ہ ذوالحجہ )کو نمازِ عصر کے بعد تک تکبیرات پڑھتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/٦٥،وسندہ صحیح)
سیدنا علی کے اس فعلِ مبارک کے خلاف صاحب ِ ہدایہ وغیر ہ نے امام ابو حنیفہ کا مذہب نقل کیا ہے کہ یومِ عرفہ (نو ذوالحجہ )کی فجر سے عید کی عصر تک تکبیرات ہیں ۔(الہدایۃ : ١/١٧٤۔١٧٥)
فائدہ :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل جو مصنف ابن ابی شیبہ (٢/١٦٥) میں ہے ، ابو اسحا ق کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، لہٰذا امام ابو حنیفہ کا مذہب بے دلیل اور ضعیف ہے۔
ایامِ قربانی :
قربانی کے تین دن ہیں ، جیسا کہ :
١۔۔۔۔۔۔سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : النّحر ثلاثۃ أیام۔ یعنی: ” قربانی تین دن ہے ۔” (أحکام القرآن للطحاوی : ٢/٢٠٥، وسندہ صحیح)
٢۔۔۔۔۔۔سیدناا بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :
النّحر یومان بعد النحر وأفضلہا یوم النّحر۔
”دسویں ذوالحجہ کے بعد قربانی کے دو دن ہیں ، دسویں ذوالحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے۔” (أحکام القرآن للطحاوی : ٢/٢٠٥، وسندہ حسن)
٣۔۔۔۔۔۔سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ قربانی دسویں ذوالحجہ کے بعد دو دن ہے ۔ (مؤطا امام مالک :؟؟ وسندہ صحیح)
٤۔۔۔۔۔۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
الأضحٰی یوم النّحر ویومان بعدہ ۔
”قربانی دسویں ذوالحجہ اور اس کے بعد دو دن ہے۔” (السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٩٧، المحلی لابن حزم : ٧/٣٧٧، وسندہ صحیح)
٥۔۔۔۔۔۔سلیمان بن موسیٰ الاشدق تابعی نے کہاکہ قربانی کے تین دن ہیں ، تو امام مکحول تابعی کہنے لگے ، انہوں نے سچ کہا ہے ۔(السنن الکبری للبیہقی : ٩/٢٩٧، وسندہ حسن)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.