409

روزوں کی قضائی——- علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

سوال: کیارمضان میںکسی عذر کی بنا پرچھوڑے گئے روزوں کی قضائی رمضان کے فوراََ بعد دینا ضروری ہے؟
جواب : رمضان کے چھوڑے گئے روزوں کی قضائی پے درپے مستحب تو ہے، ضروری نہیں، کیونکہ:
١۔۔۔۔۔۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:(فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ) (البقرۃ:١٨٥)”دوسرے دنوںکی گنتی ہے۔”
٢۔۔۔۔۔۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:کان یکون علیّ الصوم من رمضان فما أستطیع أن أقضیہ إلاّ فی شعبان۔”مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضائی ہوتی، میں انہیں شعبان سے پہلے نہ رکھ سکتی تھی۔”
(صحیح بخاری:١٩٥٠ ، صحیح مسلم: ١١٤٦)
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کی قضاء کو مطلق طور پر مؤخر کرنا جائز ہے، خواہ عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے۔”(فتح الباری :٤/١٩١)
٣۔۔۔۔۔۔سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: لا یضرّک کیف قضیتھا، إنّما ھی عدّۃ من أیام أخر”
”تجھے کوئی نقصان نہیں، جیسے جی چاہے قضائی دے، صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا ضروری) ہے۔”
(تغلیق التعلیق لابن حجر: ٣/١٨٦، وسندۃ، صحیح) ٤۔۔۔۔۔۔امام عطاء بن أبی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ،دونوں نے فرمایا: فرقہ إذا أحصیتہ،َ ۔ ”جب تو گنتی رکھے، تو وقفے میں کوئی حرج نہیں۔”(سنن دارقطنی:٢/١٩٣، وسندہ، حسن)
٥۔۔۔۔۔۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یواترہ، إن شاءَ
”چاہے، تو پے درپے رکھ لے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ: ٣/٣٤، وسندہ، صحیح)
٦۔۔۔۔۔۔بکر بن عبداللہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنہ، کان لا یری بہٖ بأسا، ویقول: إنّما قال اللّٰہ (فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَئیَّامِِ اُئخَرَ)
”آپ رضی اللہ عنہ وقفے یا تأخیر میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، اور فرماتے تھے، کہ اللہ تعالیٰ نے صرف دوسرے دنوں کی گنتی کا ذکر فرمایا ہے۔”(السنن الکبری للبیہقی: ٤/٢٥٨، وسندہ، صحیح)
٧۔۔۔۔۔۔أبو عامر الہوزنی کہتے ہیں:
سمعت أبا عبیدۃ بن الجراح رضی اللّٰہ عنہ سئل عن قضاء رمضان فقال: إنّ اللّٰہ لم یرخص لکم فی فطرہٖ وھو یرید أن یشق علیکم فی قضائہٖ ، فأحص العدۃ واصنع ماشئت۔
”میں نے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو سنا، آپ سے رمضان کی قضاء کے بارے پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے روزہ چھوڑنے کی رخصت اس لیے نہیں دی کہ قضاء میں تم پر مشقت ڈال دے، آپ گنتی شمار کریں اور جو چاہیں کریں۔” (السنن الکبری للبیہقی: ٤/٢٥٨، سنن دار قطنی: ٢/١٩١، وسندہ، حسن)
٨۔۔۔۔۔۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فرق قضاء رمضان، وأحص العدّۃ۔
”رمضان کی قضاء کو وقفے سے پورا کرلو، لیکن گنتی شمار کرو۔”(سنن دار قطنی: ٢/١٩٢، وسندہ، حسن)
٩۔۔۔۔۔۔ امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ وقفے سے قضاء رمضان میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔
(ابن ابی شیبہ:٣/٣٣، وسندہ، صحیح)
١٠۔۔۔۔۔۔ جعفر بن میمون کہتے ہیں:
قضاء رمضان عدّۃ من أیام أخر۔”قضاء رمضان میں صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا) ضروری ہے۔”(ابن ابی شیبہ:٣/٣٣، وسندہ، صحیح)
فوری قضائی کے قائلین کے دلائل
سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما قضائے رمضان کے بارے میں فرماتے ہیں:
یتابع بینہ۔ ”اس میں پے درپے روزہ رکھا جائے گا۔”(مصنف ابن أبی شیبہ:٣/٣٤، وسندہ، صحیح)
عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یواتر قضاء رمضان۔”رمضان کے روزوں کی قضاء لگا تار دے گا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: ٣/ ٣٤، وسندہ، صحیح)
سعید بن مسیّب فرماتے ہیں: یقضیہ کھیأتہٖ۔
”جس طرح چھوڑے تھے، اسی طرح قضائی دے گا۔”(مصنف ابن ابی شیبہ: ٣/٣٤، وسندہ، صحیح)
محمد بن سیرین کہتے ہیں: أحب إلیّ أن یصومہ کما أفطرہ۔
”مجھے محبوب یہی ہے کہ جس طرح روزے چھوڑے تھے، اسی طرح قضائی دے۔”(ابن أبی شیبہ: ٣/٣٤، وسندہ، صحیح)
حکم بن عتیبہ کہتے ہیں:”لگاتار قضائی دینا مجھے پسندہے۔”(ابن ابی شیبہ:٣/٣٤، وسندہ، صحیح)
قاسم بن محمدکہتے ہیں:صمہ متتابعا، إلا أن یقطع بک کما قطع بک فیہ۔
”لگاتار روزے رکھ، الا یہ کہ(قضائی میں بھی) وہی عارضہ پیش آجائے، جو پہلے پیش آیا تھا۔” (ابن ابی شیبہ: ٣/٣٤، وسندہ، صحیح)
ان سب اقوال کو استحباب پر محمول کیا جائے گا، جیسا کہ امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:
یقضیہ متتابعاً أحبّ إلیّ وإن فرق أجزأہ،۔
”رمضان کی قضائی لگاتار ہو، تو مجھے محبوب ہے، اگروقفہ آجائے، تو کفایت کر جائے گی۔” (مصنف ابن أبی شیبہ: ٣/٣٥، وسندہ، صحیح)
روزوں کی قضائی پے درپے مستحب ہے، ضروری نہیں، جو لوگ لگاتار قضائی کو ضروری قرار دیتے ہیں، ان کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہے، نہ سلف صالحین میں سے ان

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.