535

سفر ہو تو ایسا! ——- حافظ ابو یحیٰی نورپوری

حیاتِ محدثین کے درخشاں پہلو

سفرتو آپ بھی کرتے رہتے ہیں ، لیکن میں آج آپ کو ایک عجیب و غریب سفر کی داستان سنانا چاہتا ہوں ، امید ہے کہ جہاں یہ واقعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا سبب بنے گا ، وہاں نہایت سبق آموز بھی ہو گا ۔
صدیوں پرانی بات ہے ، سخت گرمی کا موسم تھا ، تین طالب ِعلم قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اپنے علاقے کو خیر باد کہتے ہوئے سمندر پار جانے کے لیے روانہ ہوئے ، وہ اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ تین مہینوں کا راشن ساتھ لے کر جا رہے ہیں اور اب تو کئی ماہ مسلسل علم حاصل کر کے وہ اپنی علمی پیاس کو قدرے بجھا سکیں گے، لیکن : ہوتا ہے وہی جو منظورِخدا ہوتا ہے
اس دور میں انجنوں کی مدد سے چلنے والے بحری جہاز تو ہوتے نہیں تھے ، عام طور پر چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہوتیں جو ہوا کے رحم و کرم پر چلتی تھیں ۔ اگر قدرتی طور پر ہوا منزلِ مقصود کی طرف چل رہی ہوتی تومسافروں کی” پانچوں گھی میں ”ہو جاتیں ، لیکن خدانخواستہ اگر ہوا مخالف سمت اختیا ر کر لیتی تو بسا اوقات کئی کئی ماہ مسافر سمندر میں ہی بھٹکتے رہتے اور کھانے پینے کا ختم ہونے یا راستہ بھول جانے کی وجہ سے آخر کار زندگی سے مایوس ہو جاتے۔یوں سمندری لہروں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔
ا ن طلبہ کے ساتھ بھی ایسے ہی حالات پیش آئے۔ ان کی کشتی بھی مخالف ہوا کی بھینٹ چڑھ گئی ، لاکھ جتن کیے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ پورے تین ماہ یہ ہوائی طوفان کشتی کو سمندر میں میں گھماتا پھراتا رہا ، چند لقموں کے سوا سارا سامان ِ خورد و نوش کام آچکا تھا ۔ ان بے چاروں کے پاس دعاؤں اور التجاؤں کے سوا کوئی چارئہ کار نہ تھا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑانا شروع کر دیا ۔ ایک تو وہ تھے مسافر ، دوسرے سفر بھی طلبِ علم کا تھا ۔ ایسے مسافروں کے پاؤں میں تو فرشتوں جیسی مقدس مخلوق بھی اپنے نورانی پَر بچھانا فخر سمجھتی ہے ، پھر اللہ تعالیٰ جو” ارحم الرّاحمین” ہے ، اس کی رحمت جوش میں کیوں نہ آ جاتی ؟دعا قبول ہوئی اور کشتی کنارے جا لگی ، لیکن آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
اصل مصیبت کا آغاز اب ہوا ۔ مشیئت ِ الٰہی کو ان کی آزمائش مقصود تھی اور وہ بھی اپنی دُھن کے ایسے پکے تھے کہ مصائب سے گھبرا کر علم کی راہ سے ہٹ جانا ان کے لیے مشکل ہی نہیں ، ناممکن تھا ۔اس لیے بے سروسامانی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے انجام سے بے خبر منزل کی جانب بڑھنے لگے ۔ بھوک لگی تو بچے کھچے چند لقمے جو پاس تھے ، وہ بھی نگل لیے۔
اب نہ کھانے کو کچھ تھا نہ پینے کو ، سورج کی گرم لو اور صحرا کی تپتی ریت جہنم کا ساسماں پیدا کر رہی تھی ۔سارا دن چلتے چلتے گزر گیا ۔ دور دراز تک کسی چرند پرند کا نام و نشان تک نہ تھا ، سوائے موت کے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ، لیکن کھانے کی قلت اور پیاس کی شدت ان کے پایہئ استقلال میں لرزش پیدا نہ کر پائی ۔ رات ہوئی تو ایک جگہ سو گئے ۔ اگلے دن پھر منزل کی طرف رواں دواں رہے ۔ اب تو زبانیں خشک ہو چکی تھیں اور قدم ڈگمگانے لگے تھے ، پھر سارا دن یوں ہی گزرا ۔ رات ہوئی تو ایک جگہ گر گئے ۔
کئی دنوں کی مسلسل بھوک اور پیاس نے ان کو کسی کام کا نہ چھوڑا تھا ۔تیسرا دن تو گویا ان کے لیے قیامت ثابت ہوا۔ ان کی حالت اتنی دگر گو ں ہو گئی کہ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک طالب علم بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔ ذرا اندازہ کریں کہ بھوک پیاس نے اگر باقی دو ساتھیوں کے پلّے کچھ چھوڑا ہوتا تو وہ اسے سنبھالتے ۔ ان کو تو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔ اس دھچکے کے بعد وہ اپنی موت کو اور قریب دیکھنے لگے تھے ۔ اسے وہیں چھوڑ کر دونوں پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ، تھوڑی دور گئے تھے کہ دوسرا بھی گرمی اور پیاس کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین بوس ہو گیا ۔ اس اکیلے ساتھی کی مصیبت کا ذرا تصوّر کریں جو اپنے دونوں دوستوں کو گرمی اور پیاس سے تڑپ کر گرتا ہوا دیکھ تو سکتا تھا ، کچھ کر نہیں سکتا تھا ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اس کے اپنے حواس بھی جوا ب دینے لگے تھے ، لیکن پھر بھی ہمت کر کے اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں دوڑنے لگا۔
پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے سنتِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اپنے دین کے طالبوں اور خادموں کو آزماتا ضرور ہے ، لیکن کبھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا۔ ان کو جھنجھوڑتا ضرور ہے ، لیکن کبھی ناکامی و نامرادی کا منہ نہیں دکھاتا ۔ اس کا وعدہ جو ہے : (وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہ،) (الحج:٤٠)
”جو اللہ کے دین کے خادم ہوتے ہیں ، اللہ ان کی ضرور ضرور مدد فرماتا ہے۔”
(وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْن) (الروم :٤٧) ”ہم پر مومنوں کی مدد لازم ہے ۔”
دین کے ان جاں نثار طالب علموں کے مومن ہونے میںکس کو شبہ ہو سکتا ہے ـ؟ نیز آنے والے دنوں میںاللہ تعالیٰ نے ا ن سے اپنے دین کا بہت بڑا کا م لینا تھا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی مدد آ پہنچی ۔اپنے دو ساتھیوں کی زندگی بچانے کے لیے نکلنے والا اکیلا طالب ِ علم اچانک ایک قافلے کو دیکھتا ہے ۔ اسے زندگی کی ہلکی سی کرن محسوس ہوئی ، چنانچہ اپنا کپڑا ہلا کر ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگا۔ قافلے والوں نے اسے دیکھا تو ٹھہر گئے۔ گرمی اور پیاس اس پر بھی اپنا کا م کر چکی تھی ، قریب تھا کہ یہ بھی گر جاتا۔ انہوں نے اسے پانی پلایا ۔ جب جان میں جان آئی تو ان کو لے کر اپنے ساتھیوں کی طرف دوڑا ۔ پہلے ایک تک پہنچے اور اسے پانی کے چھینٹے مارے ، کچھ ہوش و حواس بحال ہوئے تو تھوڑا تھوڑا کر کے پانی پلایا ، پھر دوسرے کے پاس دوڑے دوڑے گئے اور اسے بھی پانی پلا کر ہوش میںلائے ، پھر قافلے نے ان پر ترس کھایا اور کچھ سامانِ خوردونوش ان کو مہیا کیا ۔
اسی سفر میں ان کو بھوک کی وجہ سے ایک مردہ جانور کے انڈے پی کر بھی اپنی جان بچانا پڑی تھی ۔
لیکن بھوک پیاس اور گرمی کی اتنی صعوبتیں اٹھانے کے بعد کیا وہ اپنے مشن سے دستبردار ہو گئے تھے ؟ ہر گز نہیں ! علم کی راہ میں ملنے والے یہ مصائب و آلام ان کو اس راہ سے ایک قدم بھی دور نہ کر سکے ، بلکہ ان کے شوق میںاور اضافے کا سبب بن گئے ، چنانچہ وہ ایک بار پھر نئے ولولے سے طلبِ علم کے لیے روانہ ہو گئے۔
(تقدمۃ الجرح والتعدیل :٣٦٤،٣٦٥،٣٦٦ ، وسندہ صحیح )
یہ (٢١٤)ہجری کا واقعہ ہے ، یعنی اسے رونما ہوئے قریباََ بارہ سو برس بیت چکے ہیں، لیکن آج بھی دین کے ان شیدائی طلباکے یہ کارنامے کتابی صورت میں اہلِ علم کے سامنے ہیں اور قیامت تک وہ انہیں اپنے لیے مشعلِ راہ بناتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ
ان طلبہ میں سے ایک کو ”امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، جو اپنے دور کے بہت بڑے محدث ہوئے اور علم ِ حدیث میں ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ بعد میں آنے والے ان کو فراموش کر کے حدیث کے میدان میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتے ۔
آپ امام ِ بخاری اور امام ابوزرعہ الرازی کے ہم عصر، امام ِ احمد بن حنبل کے شاگرد اور امام ِ ابوداود، امام ِ نسائی،امام ابنِ ماجہ اور دیگر بڑے بڑے محدثین کے استاذ تھے ۔ تمام ائمہ کرام نے بالاتفاق ان کی تعریف و توثیق کی ہے۔
آپ کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ یہ بھی ہے کہ دورانِ سفر زادِ راہ ختم ہونے پر مزید علم ِدین حاصل کرنے کے لیے اپنے کپڑے بیچ کر بھی گزارہ کیا تھا۔(تقدمۃ الجرح والتعدیل : ٣٦٣، وسندہ صحیح)
ہے کوئی طالب ِ علم جودنیا اور آخرت کی سعادتوں کو حاصل کرنے کے لیے آج بھی اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ کرتے ہوئے طلب ِعلم کی مشکلات کوخندہ پیشانی سے برداشت کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنا یہ وعدہ پورا کرے:
(وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا)(العنکبوت : ٦٩)
”اور جولوگ ہمارے(دین کے راستے)میںمحنت کرتے ہیں ، ہم ضرور ضروران کو اپنے(کامیابی و کامرانی والے)راستے دکھاتے ہیں ۔”

کیا آپ تیار ہیں ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.