809

سجدہ سہو کے طریقے ۔ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
سجدہ سہو (نماز میں بھول چوک کے سجدے )کے تین طریقے ثابت ہیں :
پہلا طریقہ :
نمازی نماز مکمل کرے ، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے ، پھر نماز کا سلام پھیر دے ۔
١٭ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن بحینہ الاسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ِ ظہر میں (بھول کر)درمیانی تشہد پڑھے بغیر کھڑے ہو گئے ، جب نماز پوری کر لی تو:
سجد سجدتین یکبّر فی کلّ سجدۃ وہو جالس قبل أن یّسلّم وسجدہما النّاس معہ مکان ما نسی من الجلوس ۔
”(اس بھولے ہوئے تشہد کے بدلے میں )آپ نے بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے دو سجدے کر لیے ، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا ۔”(صحیح بخاری : ١/١٦٤، ح : ١٢٣٠، صحیح مسلم : ١/٢١١، ح : ٥٨٠)
٢٭ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پڑ جائے کہ اس نے تین رکعتیں ادا کی ہیں یا چا ر تو اسے چاہیے کہ شک ختم کر ے ، یقین پر بنیاد ڈالے ثمّ یسجد سجدتین قبل أن یسلّم ۔(پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرلے )، اگر اس نے (بھول کر )پانچ رکعتیں پڑھ لیں ، وہ (ان دو سجدوں کی وجہ سے)اس کی نماز کو جفت کر دیں گی ، اگر چار پوری کرنے کے لیے (ایک رکعت)پڑھی ہے ، وہ دونوں (سجدے )شیطان کی تذلیل کے لیے ہیں ۔ (صحیح مسلم : ١/٢١١، ح : ٥٧١)
امام مکحول شامی تابعی اور امامِ اہلِ سنت زہری فرماتے ہیں :
سجدتان قبل أن یسلّم ۔ ”سلام سے پہلے دو سجدے ہیں ۔”(مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/٣٠ ، وسندہ، حسن)
دوسرا طریقہ :
٭سلام کے بعد دو سجدے کرے ، پھر سلام پھیرے ، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، ابراہیم (راویئ حدیث )کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے (بھول کر نماز میں )کمی کی یا زیادتی کی ، جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیا گیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آگیا ہے ، آپ نے فرمایا ، وہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ، آپ نے ایسے ایسے نماز ادا فرمائی ہے ، اس پر آپ نے اپنے پاؤں مبارک کو دوہرا کیا ، قبلہ کی طرف رخِ انور فرمایا ، وسجد سجدتین، ثمّ سلّم ۔ ”اور دو سجدے کیے ، پھر سلام پھیرا ” جب ہماری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا ، اگر نماز میں کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں آگاہ کرتا ، لیکن میں بشر ہوں ، جیسے تم بھول جاتے ہو ، اسی طرح میں بھی بھول جاتا ہوں ، جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو ، جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پڑ جائے تو درستی کے لیے سوچ بچار کرے اور اسی پراپنی نماز پوری کر لے ، ثمّ یسلّم ، ثمّ یسجد سجدتین۔ ”پھر سلام پھیرے ، پھر دو سجدے کرے ۔”(صحیح بخاری : ١/٥٨، ح : ٦٠١)
٭٭سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی ، تین رکعات کے بعد سلام پھیر دیا ، پھر اپنے گھر تشریف لے گئے ، خرباق نامی آدمی کھڑاہوا ، جس کے ہاتھ قدرے لمبے تھے ، اس نے کہا ، اے اللہ کے پیغمبر ! اس نے آپ کا یہ فعل مبارک ذکر کیا ، آپ غصے میں چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور فرمایا ، کیا یہ سچ کہتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ، جی ہاں ! اس پر آپ نے ایک رکعت پڑھی ، پھر سلام پھیرا ، ثمّ سجد سجدتین ، ثمّ سلّم ۔ ” ُپھر دو سجدے کیے ، پھر سلام پھیرا ۔” (صحیح مسلم : ١/٢١٤، ح : ٥٧٤)
٭٭٭سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے سجدہئ سہو کے بارے میں فرمایا :
یسلّم ، ثمّ یسجد ، ثمّ یسلّم ۔ ”سلام پھیرے ، پھر سجدہ کرے ، پھر سلام پھیرے ۔” (شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٤٢، وسندہ، حسن)
تیسرا طریقہ :
نماز مکمل کرے ، سلام کے بعد دو سجدے کر ے ، پھر تشہد پڑھے ، پھر سلام پھیرے ، جیسا کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
انّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّٰی بھم ، فسہا ، فسجد سجدتین ، ثمّ تشہّد ، ثمّ سلّم ۔
”نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھائی ، آپ بھول گئے ، (سلام پھیرنے کے بعد )دو سجدے کیے ، پھر تشہد بیٹھے ، پھر سلام پھیرا ۔”(سنن ابی داو،د : ١٠٣٩، سنن ترمذی : ٣٩٥، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن غریب صحیح ” امام ابنِ خزیمہ(١٠٦٢) نے ”صحیح ” اور امام ابنِ حبان (٢٦٧٠، ٦٧٢ ٢ ) ، امام حاکم (١/٣٢٣)نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ثمّ تشہّد کے الفاظ محمد بن سیرین کے شاگردوں میں سے صرف اشعث بن عبدالملک الحرانی نے بیان کئے ہیں اور وہ ”ثقہ ” ہے ، لہٰذا یہ زیادت محفوظ ہے ،باقی رہا ابنِ سیرین کا یہ کہنا کہ لم أسمع فی التّشہّد وأحبّ الیّ أن یتشہّد ۔ ”میں نے تشہد کے بارے میں (کچھ )نہیں سنا ، تشہد بیٹھنا ہی مجھے محبوب ہے ۔”(سنن ابی داؤد : ١٠١٠) تو یہ اس روایت کے لیے موجبِ ضعف نہیں ، یہ ”نَسِیَ بعد ما حدّث ” کی قبیل سے ہے ،لہٰذا اما م ابن المنذر (الاوسط : ٣/٣١٧)، امام بیہقی(٢/٣٥٥) ، امام ابن عبدالبر(التمہید : ١٠/٢٠٩) وغیرہ کا ثم تشہد کے الفاظ کو خطاء اور غیر ثابت کہنا صحیح نہیں ۔
فائدہ نمبر ١: حدیث ابنِ مسعود (مسند الامام احمد : ١/٤٢٨۔٤٢٩،سنن ابی داؤد: ١٠٢٨، السنن الکبرٰی للنسائی : ٦٠٥، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٣٥٥۔٣٥٦)مرسل ہونے کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ،حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں : والرّاجح أنّہ لا یصحّ سماعہ من أبیہ ”راجح یہ ہے کہ اس (ابو عبیدہ )کا اپنے والد سے سماع صحیح ثابت نہیں ۔”(التقریب : ٨٢٣١)
نیز فرماتے ہیں : فانّہ عند الأکثر لم یسمع من أبیہ ۔
”اکثر (محدثین )کے نزدیک ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ۔”(موافقۃ الخبر الخبر لابن حجر : ١/٣٦٤)
امام ابن المنذر فرماتے ہیں : الخبر غیر ثابت ۔”یہ روایت ثابت نہیں ہے ۔”(الاوسط : ٣/٣١٧)
امام بیہقی فرماتے ہیں : وہذا غیر قویّ ومختلف فی رفعہ ومتنہ ۔(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٣٥٦)
فائدہ نمبر ٢: حدیث مغیرۃ بن شعبہ (السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٣٥٥)کی سند ”ضعیف ” ہے ، اس میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ جمہور کے نزدیک ”ضعیف ” اور ”سیئ الحفظ ” ہے ،اس کے بارے میں حافظ ابنِ کثیر فرماتے ہیں : سیّیئ الحفظ ، لا یحتجّ بہ عند أکثرہم ۔(تحفۃ الطالب لابن کثیر : ٣٤٥)
حافظ بیہقی لکھتے ہیں : وہٰذا ینفرد بہ ابن أبی لیلیٰ ہٰذا ، ولا حجّۃ فیما ینفرد بہ لسوء حفظہ وکثرۃ خطئہ فی الرّوایات۔(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی : ٣/٢٨٢)
امام ابنِ سیرین (سنن ابی داؤد : ١٠١٠، وسندہ، صحیح)،امام شافعی (الام : ١/١٣٠)،اما م احمد بن حنبل (مسائل احمد لابی داؤد : ٥٣)،اما م ابراہیم نخعی (مصنف ابن ابی شیبہ : ١/٣١، وسندہ، صحیح)، حکم بن عتیبہ اور امام حماد بن ابی سلیمان (مصنف ابن ابی شیبۃ)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.