1,616

سند دین ہے، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

سند دین ہے۔یہ اسلام کی حقانیت و صداقت پر قوی اور یقینی دلیل ہے۔یہ اہل الحدیث کی کرامت ہے جس کے ذریعے دینِ اسلام کو کج رووں ، کور چشموں اور بدباطنوں کی ہرزہ سرائی سے بچایا گیا ہے۔یہ وہ نمایاں امتیاز ہے جس کے بغیر قرآن و حدیث تک رسائی ممکن نہیں۔یہ اہل حق کی وہ خصوصیت ہے جس کے باعث دینِ حق محفوظ ہے۔یہ مؤمنوں پر اللہ تعالیٰ کی بے غایت نعمت کی علامت ہے۔
اہل باطل ہر دور میں اس نعمت سے محروم رہے ہیں۔ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں۔ وہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بغیر کسی سند اور حوالے کے قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ائمہ محدثین کے باغیوں کے پاس سند کا علم کہاں؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے دینِ اسلام سے یوں دشمنی کی کہ طائفہ منصورہ کے مقابلے میں ایک ایسے انسان کو لا کھڑا کیا جو حدیث ، اصولِ حدیث اور سند کے علم سے عاری تھا۔ اس کے جاہل اور نالائق پیروکاروں نے حق کے دلائل کو دیکھنے کے بعد یہ نعرہ بلند کیا کہ یَجِبُ عَلَیْنَا تَقْلِیدُ إِمَامِنَا (ہم پر تو اپنے امام کی تقلید واجب ہے) ۔ یہ محدثین کرام کی جہود، ان کے منہج و عقیدے اور ان کے فہم و عمل کے خلاف بہت بڑی سازش تھی۔ محدثین کے اصولوں کا مذاق اڑایا گیا۔ ان کے مقابلے میں نئے اصول گھڑ کر متعارف کرائے گئے۔ ایسے لوگوں کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ محدثین کرام اور ائمہ عظام کی کتابوں سے دلائل پیش کریں؟ ان بے چاروں کو کیا علم کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ ضعیف؟
ان سرکشوں کی بغاوت کا یہ عالم ہے کہ اپنے خود ساختہ مذہب کے خلاف آنے والی احادیث ِ رسول کو آحاد اور روایات کہہ کر ردّ کر دیتے ہیں اور بسااوقات تو ان کو عام تاریخی وقائع سے بھی زیادہ وقعت نہیں دیتے۔ یہ مختلف حیلوں بہانوں سے اللہ کی وحی پر مشتمل احادیث کا انکار کر دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظاہری تعارض پیدا کر کے حدیث کو نہ صرف ناقابل عمل ٹھہراتے ہیں بلکہ ردّ کر دیتے ہیں۔ محدثین کرام کے اصولوں کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکنے کی صورت میں حدیث کو منسوخ اور ضعیف قرار دے دیتے ہیں۔ اور کچھ نہ بن پڑے تو ائمہ محدثین کے فہم کے خلاف قرآن و حدیث کی من مانی تشریحات اور دور ازکار تاویلات کر دیتے ہیں۔ جب حدیثی دلائل سے منہ کی کھانی پڑے تو محدثین کرام کے خلاف زہر اگلتے ہوئے ان کو ظالم ، متعصب اور نامعلوم کیا کیا کہہ دیتے ہیں۔
یہ لوگ اصولِ محدثین کی بجائے شیطانی ”کشف” کی بنیاد پر حدیث کو صحیح اور ضعیف قرار دینے کے عادی ہیں۔بعض اوقات سخت ترین ضعیف حدیث کونامعلوم اور غیرمعتبرلوگوں کے عمل کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یقینی کلام قرار دے دیتے ہیں جبکہ بعض دفعہ بالکل صحیح احادیث میں اپنے عقلی ڈھکوسلوں سے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ حدیث ِ رسول کا حال اپنے پاپی دل سے معلوم کر لیتے ہیں۔ ان کے عجز اور بزدلی کا یہ عالم ہے کہ ان کے دلائل سندوں سے عاری ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ سند والوں سے بغض و عناد رکھتے ہیں۔ انہی کے بارے میں شیخ الاسلام امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م : 181ھ)فرماتے ہیں :
بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ (أَيِ الْمُبْتَدِعَۃِ) الْقَوَائِمُ، یَعْنِي الْإِسْنَادَ .
”ہمارے اور بدعتی لوگوں کے درمیان فرق ان پائیوںیعنی سندوں سے ہے۔”
(مقدمۃ صحیح مسلم، ص : 12، وسندہ، صحیحٌ)
اس قول کے معنیٰ و مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے شارحِ صحیح مسلم علامہ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)فرماتے ہیں : وَمَعْنٰی ہٰذَا الْکَلَامِ أَنَّ مَنْ جَاءَ بِإِسْنَادٍ صَحِیحٍ، قَبِلْنَا حَدِیثَہ،، وَإِلَّا تَرَکْنَاہُ، فَجَعَلَ الْحَدِیثَ کَالْحَیَوَانِ، لَا یَقُومُ بِغَیْرِ إِسْنَادٍ، کَمَا لَا یَقُومُ الْحَیَوَانُ بِغَیْرِ قَوَائِمٍ . ”اس کلام کا معنیٰ یہ ہے کہ جو صحیح سند لائے گا،ہم اس کی حدیث قبول کر لیں گے ، ورنہ چھوڑ دیں گے۔امام صاحب نے حدیث کو ایک جانور سے تشبیہ دی ہے، یعنی حدیث سند کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی جیسا کہ جانور پائیوں کے بغیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔”(شرح مسلم للنووي، ص : 12)
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ سند کا اہتمام کون کرتا ہے اور کون نہیں کرتا!
علامہ عینی حنفی(855-762ھ)حنفی مذہب کی معتبر کتاب ”ہدایہ” اور اس کے شارحین کے بارے میں لکھتے ہیں: فَانْظُرْ إِلٰی ہٰذَا التَّقْصِیرِ مِنْ ہٰؤُلَائِ، کَیْفَ سَکَتُوا عَنْ تَحْرِیرِ الْحَدِیثِ الَّذِي ذَکَرَہُ الْمُصَنِّفُ (أَي صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ) مِنْ غَیْرِ أَصْلٍ، وَالْخَصْمُ الَّذِي یَحْتَجُّ لِمَذْہَبِہٖ بِالْـأَحَادِیثِ الصَّحِیحَۃِ، ہَلْ یَرْضٰی بِہٰذَا الْحَدِیثِ الَّذِي لَیْسَ لَہ، أَصْلٌ ؟ ”ان لوگوں کی اس کوتاہی کی طرف دیکھو کہ یہ اس حدیث کی حقیقت کو واضح کیے بغیر کیسے خاموش ہو گئے جسے ہدایہ کے مصنف نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے؟ مخالفین جو صحیح احادیث سے اپنے موقف کے دلائل پیش کرتے ہیں، وہ ایسی حدیث سے کیسے راضی ہوں گے جس کی سند ہی نہیں ہے؟”
(البنایۃ في شرح الہدایۃ : 372/5)
ملّا علی قاری حنفی معتزلی(م : 1014ھ)لکھتے ہیں : لَا عِبْرَۃَ بِنَقْلِ النِّہَایَۃِ، وَلَا بِبَقِیَّۃِ شُرَّاحِ الْہِدَایَۃِ، فَإِنَّہُمْ لَیْسُوا مِنَ الْمُحَدِّثِینَ، وَلَا أَسْنَدُوا الْحَدِیثَ إِلٰی أَحَدٍ مِّنَ الْمُخَرِّجِینَ . ”صاحب ِ نہایہ اور دیگر شارحین ہدایہ کے حدیث نقل کرنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نہ تو وہ محدثین تھے نہ انہوں نے احادیث کے ساتھ ان کے باسند بیان کرنے والے محدثین کا حوالہ دیا۔”
(موضوعات کبیر، ص : 125، المصنوع، ص : 157)
علامہ ابو الحسنات عبد الحئی لکھنوی حنفی(1304-1264ھ)لکھتے ہیں :
وَہٰذَا صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ، مَعَ کَوْنِہٖ مِنْ أَجِلَّۃِ الْحَنَفِیَّۃِ، أَوْرَدَ فِیہَا أَخْبَارًا غَرِیبَۃً وَّضَعِیفَۃً، فَلَمْ یُعْتَمَدْ عَلَیْہَا، کَمَا یَظْہَرُ مِنْ مُّطَالَعَۃِ تَخْرِیجِ أَحَادِیثِہَا لِلزَّیْلَعِيِّ وَابْنِ حَجَرٍ . ”یہ صاحب ِہدایہ ہیں جو احناف کے اکابرمیں شمار ہونے کے باوجود ہدایہ میں منکر اور ضعیف (بلکہ من گھڑت۔ازناقل)روایات پیش کرتے ہیں۔ ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا،جیسا کہ حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجر کی طرف سے کی گئی اس کی احادیث کی تخریج کا مطالعہ کرنے سے عیاں ہو جاتا ہے۔”(ردع الإخوان، ص : 58)
اسحاق بن ابی فروہ نامی شخص امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ (م : 125ھ)کے پاس بغیر سند کے احادیث پڑھ رہا تھا۔ اُس کے اِس اقدام پر امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا :
قَاتَلَکَ اللّٰہُ یَا ابْنَ أَبِي فَرْوَۃَ ! مَا أَجْرَأَکَ عَلَی اللّٰہِ، لَا تُسْنِدُ حَدِیثَکَ ؟ تُحَدِّثُنَا بِأَحَادِیثَ لَیْسَ لَہَا خُطَمٌ وَّلَا أَزِمَّۃٌ . ”ابن ابی فروہ!اللہ تعالیٰ تجھے برباد کرے، تجھے اللہ تعالیٰ کے خلاف کتنی جرأت ہے کہ تو حدیث کی سند بیان نہیں کر رہا۔ تُو ہمیں ایسی احادیث سنا رہا ہے جن کی کوئی نکیل یا لگام نہیں۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : 6، الکفایۃ في علم الروایۃ للخطیب البغدادي، ص : 391، وسندہ، حسنٌ)
اہل باطل بعض عقائد واعمال پر باسند تو درکنار کوئی موضوع و من گھڑت روایت بھی پیش نہیں کر پاتے۔ درج ذیل مسائل پر ذرا ان سے دلیل کا مطالبہ کر کے دیکھ لیں۔
1 یہ لوگ گردن کے پہلو کا الٹے ہاتھوں سے مسح کرتے ہیں۔ اس پر کوئی جھوٹی روایت بھی پیش نہیں کر سکتے۔
2 یہ سجدہئ سہو یوں کرتے ہیں کہ تشہد میں عَبْدُہ، وَرَسُولُہ، کے الفاظ پڑھنے کے بعد ایک طرف سلام پھیردیتے ہیں، اس کے بعد دو سجدے کرتے ہیں ، پھر مکمل تشہد پڑھ کر سلام پھیرتے ہیں۔ اس پر ان کے پاس کون سی دلیل ہے؟
3 یہ نماز جنازہ میں ثناء پڑھتے ہیں اور اس میں جَلَّ ثَنَاءُ کَ کے الفاظ بڑھاتے ہیں۔ اس پر کوئی باسند دلیل پیش نہیں کرسکتے۔
4 یہ آج کا روزہ رکھتے وقت نیت کے الفاظ زبان سے یوں ادا کرتے ہیں :
وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ . ”میں ماہِ رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔” یہ بے ہنگم اور لایعنی الفاظ حدیث کی کسی کتاب میں مذکور نہیں۔
5 یہ لوگ ظہر کا انتہائی وقت دو مثل کو قرار دیتے ہیں۔ اس پر ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں۔
6 یہ لوگ مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق کرتے ہیں جبکہ اس فرق پر کوئی مستند دلیل ان کے توشہئ علم میں نہیں۔
7 یہ کہتے ہیں کہ اگر حالت ِ تشہد میں سلام پھیرنے کے بجائے جان بوجھ کر ہوا خارج کر دی جائے تو نماز مکمل اور درست ہے اور اگر غیردانستہ طور پر ہوا خارج ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ اس فرق پر کوئی جھوٹی روایت بھی ان کی پٹاری میں نہیں۔اس کے باوجود اسے فقہاء کی ”فقہ شریف” کا نام دیا جاتا ہے۔
8 یہ لوگ کہتے ہیں کہ نماز کا آغاز اللہ اکبر کے علاوہ کسی اور کلمے کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، جبکہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔
9 ان کے نزدیک انگور کی شراب کے علاوہ باقی شرابیں مثلاً جو اور شہد وغیرہ کی شرابیں حلال ہیں۔ اس پر بھی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
0 یہ لوگ نماز میں داخل ہوتے وقت جب رفع الیدین کرتے ہیں تو ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کے لُو کے ساتھ لگاتے ہیں۔ یہ بھی بے دلیل عمل ہے جسے عبادت کا نام دے دیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ اور بہت سے ایسے مسائل و احکام ہیں جو بے سند اور بے دلیل ہیں لیکن اہل باطل انہیں اپنا دین سمجھتے ہیں۔
ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی(م : 587ھ)ایک روایت یوں ذکر کرتے ہیں :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃٍ، فَلَمَّا فَرَغَ جَاءَ عُمَرُ، وَمَعَہ، قَوْمٌ، فَأَرَادَ أَنْ یُّصَلِّيَ ثَانِیًا، فَقَالَ لَہُ النِّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘اَلصَّلَاۃُ عَلَی الْجَنَازَۃِ لَا تُعَادُ، وَلٰکِنِ ادْعُ لِلْمَیِّتِ، وَاسْتَغْفِرْ لَہ،’
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ پڑھا کر فارغ ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے۔ ان کے ساتھ لوگ بھی تھے۔ انہوں نے دوبارہ جنازہ پڑھنا چاہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میت کا نماز جنازہ دوبارہ نہیں پڑھا جا سکتا، ہاں میت کے لیے دعا اور استغفار کر لو۔”
(بدائع الصنائع : 277/2، طبع مصر جدید)
یہ بے سند روایت ہے۔ دنیا کی کسی کتاب میں اس کی کوئی سند مذکور نہیں۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔
قارئین کرام ! اگر آپ کو کوئی دلیل پیش کرے تو آپ فوراً اس سے سند مانگیں، پھر ائمہ محدثین کرام کے اصولوں کے مطابق اس کی صحت کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اتنی سی بات پر یہ لوگ ایسے بھاگیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
علامہ ابو سعد عبد الکریم بن محمد سمعانی(م : 562ھ)فرماتے ہیں :
وَأَلْفَاظُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا بُدَّ لَہَا مِنَ النَّقْلِ، وَلَا تُعْرَفُ صِحَّتُہَا إِلَّا بِالْإِسْنَادِ الصَّحِیحِ . ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی سند بیان کرنا ضروری ہے۔ ان کا صحیح ہونا تو صرف صحیح سند سے معلوم ہو سکتا ہے۔”
(أدب الإملاء والاستملاء : 4/1)
ہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : 852ھ)کی اس بات پر اس بحث کا اختتام کرتے ہیں کہ :
مُدَارُ الْحَدِیثِ الصَّحِیحِ عَلَی الِاتِّصَالِ وَإِتْقَانِ الرِّجَالِ وَعَدَمِ الْعِلَلِ .
”حدیث کے صحیح ہونے کا دارو مدار سند کے اتصال ، راویوں کے اتقان اور مخفی علتوں کے معدوم ہونے پر ہوتاہے۔”(ہدی الساري في مقدمۃ فتح الباري، ص : 11)

سوال نمبر 1 : کیا بے وضو قرآنِ کریم کو ہاتھ لگایا جا سکتاہے؟
جواب : قرآنِ مجید کو بے وضو ہاتھ میں پکڑ کر تلاوت کرنا درست نہیں۔ سلف صالحین نے قرآن و سنت کی نصوص سے یہی سمجھا ہے۔قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو اسلافِ امت نے لیا ہے۔مسلک اہل حدیث اسی کا نام ہے۔آئیے تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
1 ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (لَا یَمَسّہ، إِلَّا الْمَطَہَّرُونَ) (الواقعۃ 56: 79)
”اس(قرآنِ کریم)کوپاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔”
اس آیت ِکریمہ میں پاک لوگوں سے مراد اگرچہ فرشتے ہیں لیکن اشارۃ النص سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان بھی پاک ہو کر ہی اسے تھامیں،جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں : ہٰذَا مِنْ بَابِ التَّنْبِیہِ وَالْإِشَارَۃِ، إِذَا کَانَتِ الصُّحُفِ الَّتِي فِي السَّمَاءِ لَا یَمَسُّہَا إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ، فَکَذٰلِکَ الصُّحُفُ الَّتِي بِأَیْدِینَا مِنَ الْقُرْآنِ لَا یَنْبَغِي أَنْ یَّمَسَّہَا إِلَّا طَاہِرٌ .
”یہ ایک قسم کی تنبیہ اوراشارہ ہے کہ جب آسمان میں موجود صحیفوں کو صرف پاک فرشتے ہی چھوتے ہیں تو ہمارے پاس جو قرآن ہے ، اسے بھی صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگائیں۔”(التبیان في أقسام القرآن لابن القیّم، ص : 338)
علامہ طیبی اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں : فَإِنَّ الضَّمِیرَ إِمَّا لِلْقُرْآنِ، وَالْمُرَادُ نَہْيُ النَّاسِ عَنْ مَّسِّہٖ إِلَّا عَلَی الطَّہَارَۃِ، وَإِمَّا لِلَّوْحِ، وَلَا نَافِیَۃٌ، وَمَعْنَی الْمُطَہَّرُونَ الْمَلَائِکَۃُ، فَإِنَّ الْحَدِیثَ کَشَفَ أَنَّ الْمُرَادَ ہُوَ الْـأَوَّلُ، وَیُعَضِّدُہ، مَدْحُ الْقُرْآنِ بِالْکَرَمِ، وَبِکَوْنِہٖ ثَابِتًا فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ، فَیَکُونُ الْحُکْمُ بِکَوْنِہٖ لَا یَمَسُّہ، مُرَتَّبًا عَلَی الْوَصْفَیْنِ الْمُتَنَاسِبَیْنِ لِلْقُرْآنِ .
”ضمیر یا تو قرآنِ کریم کی طرف لوٹے گی یا لوحِ محفوظ کی طرف۔ اگر قرآنِ کریم کی طرف لوٹے تو مراد یہ ہے کہ لوگ اسے طہارت کی حالت میں ہی ہاتھ لگائیں۔ اگر لوحِ محفوظ کی طرف ضمیر لوٹے تو لا نفی کے لیے ہوگا اور پاک لوگوں سے مراد فرشتے ہوں گے۔ حدیث ِنبوی نے بتا دیا ہے کہ پہلی بات ہی راجح ہے۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کو کریم بھی کہا گیا ہے اور اس کا لوحِ محفوظ میں ہونا ثابت بھی کیا گیا ہے، اس طرح نہ چھونے کے حکم کا اطلاق قرآن کریم کی دونوں حالتوں (لوحِ محفوظ اور زمینی مصحف) پرہوگا۔”(تحفۃ الأحوذي لمحمّد عبد الرحمٰن المبارکفوري : 137/1)
2 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّہ، کَانَ لَا یَمَسُّ الْمُصْحَفَ إِلَّا وَہُوَ طَاہِرٌ . ”آپ قرآنِ کریم کو صرف طہارت کی حالت میں چھوتے تھے۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 321/2، وسندہ، صحیحٌ)
3 مصعب بن سعد بن ابی وقاص تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کُنْتُ أُمْسِکُ الْمُصْحَفَ عَلٰی سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَاحْتَکَکْتُ، فَقَالَ لِي سَعْدٌ : لَعَلَّکَ مَسِسْتَ ذَکَرَکَ ؟، قَال : قُلْتُ : نَعَمْ، فَقَالَ : فَقُمْ، فَتَوَضَّأْ، فَقُمْتُ، فَتَوَضَّأْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ . ”میں اپنے والد سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس قرآنِ کریم کا نسخہ پکڑے ہوئے تھا۔ میں نے جسم پر خارش کی۔ انہوں نے پوچھا : کیا تم نے اپنی شرمگاہ کو چھوا ہے؟ میں نے عرض کی : جی ہاں، تو انہوں نے فرمایا : جاؤ اور وضو کرو۔ میں نے وضو کیا ، پھر واپس آیا۔”(الموطّا للإمام مالک : 42/1، وسندہ، صحیحٌ)
4 غالب ابو ہُذَیل کا بیان ہے : أَمَرَنِي أَبُو رَزِینٍ (مَسْعُودُ بْنُ مَالِکٍ) أَنْ أَفْتَحَ الْمُصْحَفَ عَلٰی غَیْرِ وُضُوئٍ، فَسَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ، فَکَرِہَہ، .
”مجھے ابورزین مسعود بن مالک اسدی نے بغیروضو مصحف کو کھولنے کا کہا تو میں نے اس بارے میں ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ سے سوال کیا۔ انہوں نے اسے مکروہ جانا۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 321/2، وسندہ، حسنٌ)
5 امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کَانَ سُفْیَانُ یَکْرَہُ أَنْ یَمَسَّ الْمُصْحَفَ، وَہُوَ عَلٰی غَیْرِ وُضُوءٍ . ”امام سفیان تابعی رحمہ اللہ بغیر وضو کے مصحف کو چھونے کو مکروہ سمجھتے تھے۔”(کتاب المصاحف لابن أبي داو،د : 740، وسندہ، صحیحٌ)
6،7 حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان دونوں تابعی ہیں۔ ان سے بے وضو انسان کے قرآنِ کریم کو پکڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو دونوں کا فتویٰ یہ تھا :
إِذَا کَانَ فِي عِلَاقَۃٍ، فَلَا بَأْسَ بِہٖ . ”جب قرآنِ کریم غلاف میں ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔”(کتاب المصاحف لابن أبي داو،د : 762، وسندہ، صحیحٌ)
یعنی بغیر غلاف کے بے وضو چھونا ان صاحبان کے ہاں بھی درست نہیں۔
8 امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یَحمَلُ الْمُصْحَفَ بِعِلَاقَتِہٖ، وَلَا عَلٰی وِسَادَۃٍ أَحَدٌ إِلَّا وَہُو طَاہِرٌ . ”قرآنِ پاک کو غلاف کے ساتھ یا تکیے پر رکھ کر بھی کوئی پاک شخص ہی اٹھائے۔”(الموطّا : 199/1)
9۔! امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف تھا،جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَبِہٖ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنْ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِینَ، قَالُوا : یَقْرَأُ الرَّجُلُ القُرْآنَ عَلٰی غَیْرِ وُضُوئٍ، وَلاَ یَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِلاَّ وَہُوَ طَاہِرٌ، وَبِہٖ یَقُولُ سُفْیَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ .
”بہت سے اہل علم صحابہ و تابعین کا یہی کہنا ہے کہ بے وضو آدمی قرآنِ کریم کی زبانی تلاوت توکر سکتا ہے، لیکن مصحف سے تلاوت صرف طہارت کی حالت میں کرے۔ امام سفیان ثوری، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔”
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 146)
شارحِ ترمذی علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : 1353ھ)فرماتے ہیں :
اَلْقَوْلُ الرَّاجِحُ عِنْدِي قَوْلُ أَکْثَرِ الْفُقَہَائِ، وَہُوَ الَّذِي یَقْتَضِیہِ تَعْظِیمُ الْقُرْآنِ وَإِکْرَامُہ،، وَالْمُتَبَادَرُ مِنْ لَّفْظِ الطَّاہِرِ فِي ہٰذَا الْحَدِیثِ ہُوَ الْمُتَوَضِّیئُ، وَہُوَ الْفَرْدُ الْکَامِلُ لِلطَّاہِرِ، وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ .
”میرے نزدیک جمہورفقہاء کا قول راجح ہے۔ قرآنِ کریم کی تعظیم و اکرام بھی اسی کی متقاضی ہے۔اس حدیث میں طاہر کے لفظ کا متبادر معنیٰ وضو والا شخص ہی ہے اور باوضو شخص ہی کامل طاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!”(تحفۃ الأحوذي : 137/1)
الحاصل : قرآنِ کریم کو بغیر وضو زبانی پڑھا جا سکتا ہے لیکن بے وضو شخص ہاتھ میں پکڑ کر اس کی تلاوت نہیں کر سکتا۔یہی قول راجح ہے کیونکہ سلف صالحین کی تصریحات کی روشنی میں قرآن و سنت کی نصوص سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
سوال نمبر 2 : اگر میت کے زیر ناف اور بغلوں کے بال اور ناخن بڑھے ہوئے ہوں توکیا ان کا ازالہ کرناچاہیے ؟
جواب : اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کی بنا پر یا سستی و کاہلی کی وجہ سے زیر ناف بال نہ مونڈھ سکا اور اسے موت آگئی تو زندہ لوگ اس کے زیر ناف بال نہیں مونڈھیں گے،کیونکہ اس عمل کی کوئی شرعی دلیل نہیں، نیز یہ عمل زندہ لوگوں کے لیے باعث ضرر ہے جبکہ میت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں،جیسا کہ امام ابن منذر رحمہ اللہ (391-242ھ)لکھتے ہیں :
اَلْوُقُوفُ عَنْ أَخْذِ ذٰلِکَ أَحَبُّ إِلَيَّ، لِـأَنَّہُ الْمَأْمُورَ بِأَخْذِ ذٰلِکَ مِنْ نَفْسِہِ الْحَيِّ، فَإِذَا مَاتَ انْقَطَعَ الْـأَمْرُ . ”میت کے زیر ناف بالوں کو مونڈھنے سے باز رہنا ہی میرے نزدیک بہتر ہے کہ کیونکہ مرنے والے کو اپنی زندگی میں اس کام کا حکم دیا گیا تھا۔ جب اسے موت آ گئی تو یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ ”
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 329/5)
امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں روایت ہے کہ :
إِنَّہ، کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُّؤْخَذَ مِنْ عَانَۃِ أَوْ ظُفُرِ الْمَیِّتِ . ”وہ میت کے زیر ناف بالوں کو مونڈھنا اور اس کے ناخنوں کو کاٹنا مکروہ جانتے تھے۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 246,245/3، وسندہ، صحیحٌ)
اس کے خلاف اسلافِ امت سے کچھ ثابت نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے میت کو غسل دیا اور استرا منگوایا۔(مصنف ابن أبي شیبۃ : 246/3)
لیکن اس کی سند ”مرسل” ہونے کی بنا پر ”ضعیف” اور ناقابل حجت ہے۔
زیرناف بالوں کی طرح میت کے ناخن بھی اتارنا درست نہیں۔امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا : تُقَلَّمُ أَظْفَارُ الْمَیِّتِ . ”میت کے ناخن اتار دیے جائیں گے۔” امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے یہ بات حماد رحمہ اللہ کے سامنے ذکر کی تو انہوں نے اس کا ردّ کیا اور فرمایا : أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ أَقْلَفَ، أَیُخْتَتَنُ؟
”مجھے بتاؤ کہ اگر وہ مختون نہ ہو تو کیا اس کا ختنہ بھی کیا جائے گا؟”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 246/3، وسندہ، صحیحٌ)
یعنی یہ سارے کام زندگی سے متعلق ہیں۔اگر اس نے زندگی میں سستی کاہلی کی ہے تو اس کا گناہ لکھ دیا گیا ہے اور اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر ایسا نہ کر سکا تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔اب موت کے بعد کی صفائی پر کوئی جزا و سزا نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :
مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُولُ ذٰلِکَ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُولُ : إِذَا کَانَ أَقْلَفَ أَیُخْتَتَنُ؟، یَعْنِي : لَا یُفْعَلُ . ”بعض لوگ کہتے ہیں میت کے ناخن کاٹ دیے جائیں جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ مختون ہو تو کیا اس کا ختنہ کیا جائے گا؟ یعنی ایسا کرنا درست نہیں۔”(مسائل الإمام أحمد لأبي داو،د : 246/3)
جب غیر مختون کا موت کے بعد ختنہ کرنے کا کوئی بھی قائل نہیں تو ناخن اور بال کاٹنا بھی ناجائز ہی ہوا۔
الحاصل : میت کے زیر ناف بال مونڈھنا اور اس کے ناخن کاٹنا درست نہیں۔یہ مُردے کے لیے بے فائدہ اور زندوں کے لیے تکلیف دہ عمل ہے۔
وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ!
nnnnnnn
دل کی عجیب مثال!
جناب عبد الحق دیوبندی،بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کہتے ہیں:
”قلب کی مثال برتن کی ہے،اگر برتن میں گندگی ہو اور آپ اس میں شہد اور گھی بھی ڈال دیں تو پلید ہو جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ بعض طلبہ معاذ اللہ دیوبند کے بھی قادیانی ہو گئے۔”
(دعواتِ حق، جلد دوم، ص : 442)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.