975

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلطی.

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلطی

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے انسان ہونے کے ناطے ایک حدیث کی غلط تاویل ہو گئی، تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے توسیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ عمار  رضی اللہ عنہ ہمارے مخالف گروہ کی طرف سے لڑ رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے آگے سے یہ بات فرمادی کہ:ہم نے تو انہیں قتل نہیں کیا ہے، انہیں قتل تو اس نے کیا ہے جو ان کو لے کے آیا ہے(سیدنا علی رضی اللہ عنہ )۔

تو جذبات میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جذبات میں یہ بات کہہ دی کیونکہ اگر وہ اپنے آپ کو نا حق سمجھتے ہوتے تو پھر میدان میں نکلتے ہی نا،پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کی بات کو مان لیا جاتا کہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کو موخر ہی کرنا ہے، پھر تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا  بھی نا نکلتیں،سیدنا طلحہ وزبیر رضی اللہ عنھما  جو عشرہ مبشرہ ہیں وہ بھی نا نکلتے۔تو اس لیے انہوں نے یہ تاویل کی کہ ہم حق پر ہیں اور جو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ  کاقتل ہم پر ڈالا جا رہا ہےلیکن لے کر سیدنا علی  رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔

ہم مانتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ تاویل صحیح نہیں تھی لیکن انہوں نے جو صحیح سمجھا وہی کیا۔

مرزا صاحب اسی بات کو بنیاد بنا کر سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ پر طعن کا بازار گرم کرتے ہیں،ہم کہتے ہیں کہ اگر یہی بات کوئی اہل بیت  علیھم السلام کےبارے میں کہے کہ تو پھر آپ کا کیا خیال ہے؟

ذیل میں ہم کچھ احادیث بیان کرتے ہیں اور ان کا مقصد اہل بیت  علیھم السلام  کی توہین کرنا قطعا نہیں ہےاور نہ ہی یہ ہمارا عقیدہ ونظریہ ہے، ہم صرف الزامی طور پر مرزاصاحب کے بقول ہی پھکی والا جواب دینے لگے ہیں ۔

صحیح بخاری (1127)سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے بارےمیں ہے؛

اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ لَيْلَةً، فَقَالَ: «أَلاَ تُصَلِّيَانِ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا

مفہوم:نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دن سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے گھر میں تشریف  لے گئے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ رات کو کوئی تہجد ادا کر لیا کرو ،تو سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ،نہ اللہ ہمیں چھوڑتا ہے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے ہیں تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اس پر سخت ناراض ہوئے اور بغیر کچھ بولے وہاں سے واپس پلٹ گئے،حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جا رہے تھے تو آپ افسوس اور غصے سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ  فرمارہے تھے “وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا”

انسان کتنا کٹ حجت اور حیلے باز ہے ۔

یہ حدیث کسی صحابی نے جا کر نہیں سنائی بلکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  خود جا کر ان سے فرمایا لیکن  انسان ہونے کے ناطے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے غلط تاویل کر دی ،چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنی سستی کا اعتراف کرتے لیکن انسان ہونے کے ناطے انہوں نے اس کی غلط تاویل کردی، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے مقابلے میں انہوں نے ایک حجت قائم کرنے کوشش کی ۔

یہ حدیث پڑھنے کے بعد بھی سیدنا علی  رضی اللہ عنہ یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا  کے بارے میں ہمارے دلوں میں ذرا برابر بھی ملال نہیں آیا “رضی اللہ عنھم ورضو اعنہ”ان سے دنیا میں جو بھی کمی وکوتاہی ہوئی ہے اللہ نے ان سے معاف فرما دی ہے، جب اللہ نے ان کو معاف فرما دیا ہےا ور ان کی موت بھی ایمان پر ہوئی ہےتو ہم کون ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں دلوں میں میل رکھیں یا یہ کہیں کہ انہوں نے جو کیا اس کی وجہ سے ہمارے دل زخمی ہیں۔۔آپ صحابہ کرامyکے بارے میں زبان درازی کر کے اپنی آخرت ہی تباہ کریں گے،جو غلطی وکوتاہی آ پ اچھالتے ہیں وہ چاہے صحابہ کی ہو یا اہل بیت کی برابر ہے لیکن یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ نے ان سے ان کی غلطیاں معاف کر دی ہیں تو آپ ان کی غلطیاں اچھال کر اپنی آخرت کیوں خراب کرتے ہیں۔جس کے دل میں کسی صحابی یا اہل بیت کے کسی ایک فرد کے بارے میں بھی رنج اور میل آگئی ایسا شخص ایمان سے فارغ ہے،وہ سنی نہیں ہے۔

کیا یہ انصاف ہے یا منافقانہ پالیسی کہ انبیا کی غلطیاں بیان کرنا تو ثواب کا کام ہےاور صحابہ کرام کی غلطیوں کواچھالنایہ ثواب کا کام ہےلیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ جو غلطی ہےکبھی اس پر کسی نے کوئی لیکچر دیا ہو ؟ اس سے کس نے عبرت حاصل کرنی تھی؟اگر آپ منصف مزاج ہو تے تو آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ غلطی بھی بیان کرتےاور پھر عوام کےسامنے ان کی اسی طرح کے تبصرے کرتے کہ جس طرح کے آپ سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ کے بارے میں دیتے ہیں۔یا پھر آپ بات کو واضح کردیں کہ ہم اہل بیت کو معصوم مانتے ہیں پھر بات تو سمجھ آئے گی کہ آپ رافضی ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر منافقانہ اور دوغلی پالیسی کیوں ہے؟

ہم بار بار یہی اعلان کرتے ہیں کہ سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھما  کی اس واضح غلطی کے باوجود بھی ہم ان سے انتہا درجے کی محبت کرتے ہیں اور ان سے محبت کرنا ایمان کا الزمی حصہ سمجھتے ہیں، جو لوگ ان کے بارے میں اپنے دلوں میں کسی قسم کا رنج رکھتے ہیں ہم ان کو ظالم اور ایمان سے فارغ قرار دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.