2,631

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی تھا؟

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی تھا؟
صحیح بخاری(2812)کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
اورمرزا انجینئر صاحب نے جب اس حدیث کوذکر کیا توبریکیٹ میں لکھا کہ(اجتہادی طور پر)سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
یعنی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہ شہادت اجتہادی طور پر ہوگی ،بدنیتی یا ارادتا نہیں ہو گی،ا ور آپ نے کہا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ، ہم آپ کو صحیح بخاری (1127)سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارےمیں یاد کراوتے ہیں:
اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ لَيْلَةً، فَقَالَ: «أَلاَ تُصَلِّيَانِ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا
مفہوم:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں تشریف لے گئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ رات کو کوئی تہجد ادا کر لیا کرو ،تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ،نہ اللہ ہمیں چھوڑتا ہے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سخت ناراض ہوئے اور بغیر کچھ بولے وہاں سے واپس پلٹ گئے،حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس جا رہے تھے تو آپ افسوس اور غصے سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ فرمارہے تھے “وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا”
انسان کتنا کٹ حجت اور حیلے باز ہے ۔
یہ حدیث کسی صحابی نے جا کر نہیں سنائی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود جا کر ان سے فرمایا لیکن انسان ہونے کے ناطے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلط تاویل کر دی ،چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنی سستی کا اعتراف کرتے لیکن انسان ہونے کے ناطے انہوں نے اس کی غلط تاویل کردی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں انہوں نے ایک حجت قائم کرنے کوشش کی ۔
بلکل اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ گروہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لغوی طور پر باغی قرار دیا ہے ،نہ ہی کہ اصطلاحی باغی اور آپ نے اپنے پمفلٹ میں یہ لکھ کر کہ” اجتہادی طور پر”یہ بات ثابت کر دی کہ آپ جتنی بھی باتیں اپنے ویڈیوز لیکچرز میں کرتے ہیں وہ بلکل غلط ہیں ۔
اس حدیث کے آخرمیں الفاظ ہیں کہ جنہیں آپ لوگ بڑا اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں:
يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اس جماعت کو جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ جماعت سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو دوزخ کی طرف بلائے گی۔
ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ جماعت کن لوگوں پر مشتمل تھی؟
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ :
اگر اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دوزخی ہونگے توپھر قرآن کریم کے بقول آپ کے نزدیک بھی اللہ ان سے ہمیشہ کے لیےراضی ہو گیا تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور آپ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ” انہوں نے امت نال کم پایا اے”اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ والے صحابی ہیں کہ جن کے بارے میں آپ بھی کہتے کہ وہ پکے جنتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی منافقانہ رویہ کیوں ہے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں؟ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ وہ اس حدیث کی ضد میں آکر دوزخی ہیں۔معاذ اللہ۔
سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ :
مسند احمد(8042)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابْنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ: عَمْرٌو وَهِشَامٌ
عاص کے دونوں بیٹےمومن ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بھی لیے،عمرو بن عاص اور ہشام بن عاص رضی اللہ عنھما ۔
جس کے ایمان کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود دیں آپ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ” انہوں نے امت نال کم پایا اے”؟ان کو آپ بد نیت قراردیتے ہیں کہ جن کے ایمان کی گواہی بذریعہ وحی دے گئی۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ :
مسند احمد(22952)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنااور تلاوت سن کر اپنےساتھ موجود صحابی سے پوچھا کہ :
تَرَاهُ مُرَائِيًا؟
آپ کا کیا خیال ہے،آپ انہیں ریا کار سمجھتے ہیں؟
تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ہی بتا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ، لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ
نہیں، یہ تو مومن ہیں، اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے ہیں۔
جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ وحی ایسی بشارتیں دیں ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ ڈھوگ رچاتے رہے، یہ امت کے ساتھ دھوکہا ور فراڈ کرتے رہے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
جس طرح مرزا صاحب استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ وہ باغی تھے اور وہ جہنمی ہیں ،معاذ اللہ ، اگر باغی کا مطلب یہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ وحی ان کے ایمان کی گواہیاں کیوں دیتے؟ قرآن میں اللہ ان سے راضی کیوں ہوتا؟یہ جو الفاظ ہیں کہ وہ جماعت ان کو دوزخ کی طرف بلائے گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سو فیصد حق پر سمجھتے تھے، اب جو حق پر سمجھتا ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینا حق ہے ظاہر ہے کہ وہ تو جنت کی طرف بلائے گااور جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ تھاوہ سمجھتے تھے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سو فیصد حق پر ہیں اسی لیے ان کی حمایت میں نکل پڑے،وہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو بلا رہے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑیں اور ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں،اگر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سو فیصد حق پر سمجھتے ہوئے بھی دوسرے گروہ میں شامل ہو جاتے تو یہ جہنم کا راستہ ہوتا،کیونکہ حق کو چھوڑ رہے ہیں لیکن وہ لوگ خود جہنم کی طرف نہیں جارہے تھےکیونکہ ان کے ایمان کی گواہی تو خود اللہ نے دی ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں ۔
قیامت کے دن اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دیکھائیں گے؟ہمیں آپ سے ہمدردی ہے،اللہ کے لیے ہماری باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کیا یہ جو باتیں آپ نے کی ہیں یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے احترام کے منافی ہیں یا نہیں؟اللہ آپ کو ہدایت نصیب فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.