1,047

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام نسائی رحمہ اللہ کی شہادت کی جھوٹی داستان

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام نسائی رحمہ اللہ کی شہادت کی جھوٹی داستان
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کا انکارکرنے کے لیے مرزاصاحب ہٹ دھرمی پہ اترآئےہیں، باربار مرزا صاحب کو بتایاگیا کہ جوروایات آپ پیش کررہے ہیں وہ بے سند ہیں ،ضعیف ہیں اگر ثابت بھی ہیں تو ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو آپ نکالنا چاہتے ہیں لیکن مرزاصاحب کی ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے کہ وہی بے سند روایات باربار بیان کرتے ہیں جیسا کہ ؛
امام نسائی رحمہ اللہ کی شہادت کی جھوٹی داستان ،مرزا صاحب کہتے ہیں کہ “امام نسائی رحمہ اللہ دمشق میں گئےوہاں لوگ تین سوسال گزرنے کے بعد منبروں پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہتے تھے، امام نسائی رحمہ اللہ کو بڑا غصہ آیا، انہوں نے ارادہ کیا کہ میں علی کے فضائل پر کتاب لکھوں تو وہاں لوگوں نے کہا کہ حضرتِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بھی کوئی حدیث بیان کریں تو انہوں نے میرے والی بات کہ میری زبان بند ہی رہنے دوتو وہاں کے لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ بتائیں تو امام صاحب نے فرمایا کہ اللہ معاویہ کو صحابی ہونے کی وجہ سے چھوڑ دے تو تمہارے لیے کافی نہیں؟اور پھر کہا کہ مجھے تو معاویہ کے بارے میں صرف ایک صحیح حدیث کا پتہ ہےجو صحیح مسلم میں موجود ہے کہ اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے ،پس اتنی بات تھی کہ ناصبی ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو اتنا مارا کہ ان کی شرمگاہ پر بھی زخم بن گئےحتی کہ وہ قریب المرگ ہوگئے پھر ان کو ان کی خواہش کے مطابق مکہ لے کر جایا گیا اور وہاں ہی ان کو دفن کردیاگیا۔”
ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی روایت ہے، آپ خود کہتے ہیں کہ تاریخ کی جھوٹی روایات کھوٹے سکوں کی مانند ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کہ یہ کھوٹے سکے آپ کیوں بیان کرتے ہیں؟ہم پہلے بھی کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ کی شہادت کا واقعہ ثابت نہیں ہے پھر آپ نے ایک ڈھونگ بنانے کی کوشش کی اور کہا کہ” ان کی شہادت کا واقعہ توتواتر کے ساتھ ساری کتابوں میں نقل ہورہا ہے”
واہ مرزا صاحب! ہم نے اس پر ایک کلپ بنایاتھا”ضعیف روایات اور متواتر کا ڈھونگ” اس میں ہم نے بتایاتھاکہ جو روایت ضعیف ہو اور وہ مرز اصاحب کے حق میں ہواس کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ متواتر ہوگئی ہےاور کچھ روایتیں بہت ساری کتابوں میں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کو ماننا نہیں ہوتا تو صاف انکارکردیتے ہیں۔
ہم نے اس وقت بھی پوچھا تھا کہ اگر آپ اسےمتوتر کہتے ہیں تو متواتر کی شرطیں کیا ہیں؟متواتر تو تب ہوگی جب اس کو ہردور مین اتنی بڑی تعداد بیان کرے کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا ناممکن ہو۔
آپ سب کو چھوڑیں ، آپ صرف ساتھ ثقہ ایسے بندے پیش کردیں جو امام نسائی کی شہادت کے دور میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوں، سات کوچھوڑیں آپ صر ف تین بندے ہی پیش کردیں جو اس واقعہ کو امام نسائی رحمہ اللہ کی شہادت کے دور میں بیان کرتے ہوں ، تین کو بھی چھوڑیں ،آپ صر ف دو بندے ہی ایسے پیش کردیں جو امام نسائی کی شہادت کے دور میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوں، تاقیامت اس کا جواب دینا آپ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی، ہم آپ کو چیلنج کرتے ہیں کہ آپ اس واقعہ میں متواتر کی شرطیں ثابت کریں یا پھر اس کے ضعیف ہونے پر علی الاعلان توبہ کریں اور اس سے رجوع کریں، اللہ آپ کو توفیق عطافرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.