1,388

سورج کی واپسی، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کے پلٹ جانے کے متعلق روایات کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے :
روایت نمبر 1 : سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوحٰی إِلَیْہِ، وَرَأْسُہٗ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، فَلَمْ یُصَلِّ الْعَصْرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’صَلَّیْتَ یَا عَلِيُّ؟‘ قَالَ : لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’اَللّٰہُمَّ، إِنَّہٗ کَانَ فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَۃِ رَسُولِکَ، فَارْدُدْ عَلَیْہِ الشَّمْسَ‘، قَالَتْ أَسْمَائُ : فَرَأَیْتُہَا غَرَبَتْ، ثُمَّ رَأَیْتہَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میںتھا۔وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے،یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی!کیا آپ نے نماز پڑھی ہے؟انہوں نے عرض کیا: نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی :اے اللہ!علی تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری میں مشغول تھے،ان کے لیے سور ج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے ؛ میں نے سورج کو غروب ہوتے بھی دیکھا،پھر سورج کے غروب ہوجانے کے بعد اسے طلوع ہوتے بھی دیکھا۔ ‘‘
(السنّۃ لابن أبي عاصم : 1323، مختصراً، مشکل الآثار للطحاوي : 9/2، المعجم الکبیرللطبراني : 152,147/24، تاریخ دمشق لابن عساکر : 314/42)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابو طالب راوی ’’مجہول الحال‘‘ ہے۔سوائے امام ابن حبان (الثقات : 3/6)کے کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَیْسَ بِذٰلِکَ الْمَشْہُورِ فِي حَالِہٖ ۔
’’اس کا حال مجہول ہے۔ ‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 89/6)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
فِیْہِ مَنْ لَّمْ اَعْرِفُہُمْ ۔ ’’اس روایت میں ایسے راوی ہیں، جن کو میں نہیں پہچانتا۔ ‘‘(مجمع الزوائد : 185/9)
لیکن ایک مقام پر امام ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو ثقہ کہا ہے۔
(مجمع الزوائد : 297/8)
یہ تساہل پر مبنی فیصلہ ہے،جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس میں دوسری وجہ ضعف یہ بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب جو کہ امام زین العابدین رحمہ اللہ کی ہمشیرہ ہیں وہ ہیں تو ثقہ،لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سنی ہے یا نہیں؟
(البدایۃ والنہایۃ : 89/6)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَا سَمَاعُ إِبْرَاہِیمَ مِنْ فَاطِمَۃَ، وَلَا سَمَاعُ فَاطِمَۃَ مِنْ أَسْمَائَ، وَلَا بُدَّ فِي ثُبُوتِ ہٰذَا الْحَدِیثِ مِنْ أَنْ یُّعْلَمَ أَنَّ کُلًّا مِّنْ ہٰؤُلَائِ عَدْلٌ ضَابِطٌ، وَأَنَّہٗ سَمِعَ مِنَ الْآخَرِ، وَلَیْسَ ہٰذَا مَعْلُومًا ۔
’’نہ ابراہیم کا فاطمہ سے اور نہ فاطمہ کا سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت ہے۔اس حدیث کے ثبوت کے لیے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اس کے تمام راوی عادل و ضابط ہیں یا نہیں،نیز انہوں نے ایک دوسرے سے سنا ہے یا نہیں۔ مگر اس روایت کے راویوں کے متعلق یہ بات معلوم نہیں ہو سکی۔‘‘
(منہاج السنّۃ النبویّۃ : 189/4)
تنبیہ :
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے،بے حقیقت بات ہے۔
روایت نمبر 2 : سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ بِالصَّہْبَائِ، ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِیًّا عَلَیْہِ السَّلَامُ فِي حَاجَۃٍ فَرَجَعَ، وَقَدْ صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَہٗ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، فَلَمْ یُحَرِّکْہُ حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’اَللّٰہُمَّ، إِنَّ عَبْدَک عَلِیًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِہٖ عَلٰی نَبِیِّکَ، فَرُدَّ عَلَیْہِ شَرْقَہَا‘، قَالَتْ أَسْمَائُ : فَطَلَعَتِ الشَّمْسُ حَتّٰی وَقَعَتْ عَلَی الْجِبَالِ وَعَلَی الْـأَرْضِ، ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ، فَتَوَضَّأَ وَصَلَّی الْعَصْرَ، ثُمَّ غَابَتْ، وَذٰلِکَ فِي الصَّہْبَائِ، فِي غَزْوَۃِ خَیْبَرَ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صہبا نامی جگہ پر نماز ظہر ادا کی۔پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کسی کام بھیجا۔جب وہ واپس آئے،تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا فرما چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک ان کی گود میں رکھا۔انہوں نے حرکت نہ کی، (کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل نہ آ جائے)،یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی : اے اللہ!تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے نبی کے لئے روکا ہوا تھا،لہٰذا ان پر سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیںکہ سورج اوپر آ گیا،یہاں تک کہ اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وضو کیا اور عصر کی نماز پڑھی۔پھر سورج غروب ہو گیا۔یہ واقعہ غزوئہ خیبر کے موقع پر صہبا نامی جگہ پر پیش آیا۔‘‘
(مشکل الآثار للطحاوي : 1068، المعجم الکبیر للطبراني : 145,144/24)
تبصرہ :
اس کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے، جیسا کہ :
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کا ضعف و سقم یوں بیان کرتے ہیں :
وَہٰذَا الْإِسْنَادُ فِیہِ مَنْ یَّجْہَلُ حَالُہٗ، فإنَّ عَوْنًا ہٰذَا وَأُمَّہٗ لَا یُعْرَفُ أَمْرُہُمَا بِعَدَالَۃٍ وَّضَبْطٍ، یُقْبَلُ بِسَبَبِہِمَا خَبَرُہُمَا، فِیْمَا ہُوَ دُوْنَ ہٰذَا الْمَقَامِ، فَکَیْفَ یَثْبُتُ بِخَبَرِہِمَا ہٰذَا الْـأَمْرُ الْعَظِیمُ الَّذِي لَمْ یَرْوِہٖ أَحَدٌ مِّنْ أَصْحَابِ الصِّحَاحِ، وَلَا السُّنَنِ، وَلَا الْمَسَانِیدِ الْمَشْہُورَۃِ، فَاللّٰہُ أَعْلَمُ، وَلَا نَدْرِي أَسَمِعَتْ أُمُّ ہٰذَا مِنْ جَدَّتِہَا أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ أَوْ لَا ۔
’’اس سند میںعون اور اس کی والدہ کے حافظے اور عدالت کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔یہی دو امور ہیںجن کی بنا پر ان کی روایت قبول کی جا سکتی تھی اور ان میں وہ قابل قبول مقام تک نہیں پہنچ پائے۔ان کے بیان کی بنیاد پر ایک ایسا اہم مسئلہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے،جس کو نہ مشہور اصحابِ صحاح و سنن و مسانید میں سے کسی نے بیان نہیں کیا۔پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ ام عون کا سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے سماع بھی ہے یا نہیں۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 88/6)
b حافظ ہیثمی عون بن محمد کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَلَمْ أَجِدْ مَنْ تَرَجَّمَہٗ ۔ ’’مجھے اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔‘‘
(مجمع الزوائد : 237/3، 50/4)
b ایک روایت،جس کی سند میں عون بن محمد اور اس کی ماں ام عون موجود ہیں ، کے بارے میں ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :
وَفِي إِسْنَادِہٖ مَنْ یُّحْتَاجُ إِلٰی کَشْفِ حَالِہٖ ۔
’’اس سند میں ایسے راوی ہیں،جن کے حالات کا واضح ہونا ضروری ہے۔‘‘
(الجوہر النقي في الردّ علی البیہقي : 396/3)
لہٰذا عون بن محمد کی ایک دوسری روایت کی سند کو حافظ منذری(الترغیب والترہیب : 89/3)اور حافظ ابن حجر کا ’’حسن‘‘کہنا ،نیز حافظ عراقی (فیض القدیر للمناوي : 327/4)کا ’’جید‘‘ کہنا قطعاً صحیح نہیں۔
b اس کی سند میں ام عون بھی ’’مجہولہ‘‘ہیں۔
اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ’’مقبولہ‘‘ کہا ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 8750)
b حافظ بوصیری(مصباح الزجاجۃ : 52/2)اور سندھی حنفی (حاشیۃ السندي علی ابن ماجۃ : 1611)نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے۔
b حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا الْحَدِیثُ مُنْکَرٌ، وَفِیہِ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنَ الْمَجَاہِیلِ ۔
’’یہ حدیث منکر ہے اس میں کئی ایک مجہول راوی ہیں۔ ‘‘
(تاریخ دمشق : 314/42)
روایت نمبر 3 : سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ أُوحِيَ إِلَیْہِ، فَسَتَرَہٗ عَلِيٌّ بِثَوْبِہٖ، حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : ’یَا عَلِيُّ، صَلَّیْتَ الْعَصْرَ ؟‘، قَالَ : لَا قَالَ : ’اللَّہُمَّ ارْدُدِ الشَّمْسَ عَلٰی عَلِيٍّ‘، قَالَتْ : فَرَجَعَتِ الشَّمْسُ حَتّٰی رَأَیْتُہَا فِي نِصْفِ الْحُجُرِ، أَوْ قَالَتْ : نِصْفِ حُجْرَتِي ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھانپ رکھا تھا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی سے فارغ ہوئے، تو پوچھا: علی ! کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے؟انہوںنے عرض کیا:نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی :اے اللہ ! علی کے لئے سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:سورج واپس پلٹا یہاں تک کہ اس کی روشنی میرے حجرے کے صحن کے درمیان میں آن پہنچی۔ ‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 314/42، الموضوعات لابن الجوزي : 356/1، اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 338/1)
تبصرہ :
یہ باطل سند ہے، کیونکہ :
1 اس کا راوی ابو العباس ابن عقدہ ’’ضعیف‘‘ہے۔
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔(السنن : 264/2)
b حمزہ بن یوسف سہمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
سَمِعْتُ أَبَا عُمَرَ بْنِ حَیْوَیْہِ یَقُولُ : کَانَ أَحْمَدُ بْنُ عُقْدَۃَ فِي جَامِعِ بَرَاثَا یُمْلِي مَثَالِبَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ : الشَّیْخَیْنِ، یَعْنِي أَبَا بَکْرٍ وَّعُمَرَ، فَتَرَکْتُ حَدِیثَہٗ، وَلَا أُحَدِّثُ عَنْہُ بَعْدَ ذٰلِکَ شَیْئًا ۔
’’میں نے ابو عمر بن حیویہ کو یہ کہتے سنا کہ احمد بن عقدہ براثا کی جامع میں صحابہ کرام یا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عیوب لکھواتا تھا۔اس پر میں نے اس کی روایت چھوڑ دی۔اس کے بعد میں اس سے کوئی چیز بیان نہیں کرتا۔ ‘‘
(سؤالات السہمي : 166)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ صَاحِبَ مَعْرِفَۃٍ وَّحِفْظٍ، وَمُقَدَّمًا فِي ہٰذِہِ الصَّنَاعَۃِ؛ إِلَّا أَنِّي رَأَیْتُ مَشَایِخَ بَغْدَادَ مُسِیئِینَ الثَّنَائَ عَلَیْہِ ۔
’’یہ بڑا عالم، حافظ اور اس فن میں مقدم تھا،مگر میں نے بغداد کے مشائخ کو دیکھاکہ وہ اس پر جرح کرتے ہیں۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 206/1)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کَانَ رَجُلَ سَوْئٍ ۔
’’یہ برا آدمی تھا۔ ‘‘(تاریخ بغداد للخطیب : 22/5، وسندہٗ صحیحٌ)
امام دارقطنی رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا :
أَیْش أَکْبَرُ مَا فِي نَفْسِکَ عَلَیْہِ ؟
’’کیا آپ کے ذہن میں اس کی کوئی اچھائی ہے؟‘‘
تو وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے ، پھر فرمایا :
اَلْـأَکْثَرُ مِنَ الْمَنَاکِیرِ ۔
’’اس کی اکثر روایات منکر ہیں۔‘‘(تاریخ بغداد : 22/5، وسندہٗ صحیحٌ)
b ابن عقدہ نے عبدالغفار بن القاسم ابو مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا، تو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا :
وَابْنُ سَعِیدِ (ابْنِ عُقْدَۃَ) حَیْثُ قَالَ، ہٰذَا الْمَیْلُ الشَّدِیدُ إِنَّمَا کَانَ لِإِفْرَاطِہٖ فِي التَّشَیُّعِ ۔
’’ابن سعید (ابن عقدہ)نے یہ انتہا کا میلان اس لیے ظاہر کیا ہے کہ وہ خود غالی شیعہ ہے۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 327/5)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِیہِ ضُعْفٌ ۔
’’اس میں کمزوری ہے۔ ‘‘(سیر أعلام النبلاء : 341/5، 342)
نیز ابن خراش اور ابن عقدہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَفِیہِمَا رَفْضٌ وَّبِدْعَۃٌ ۔
’’ان دونوں میں دشمنی صحابہ اور بدعت موجود ہے۔ ‘‘(میزان الاعتدال : 128/1)
مزید فرماتے ہیں : شِیعِيٌّ، وَضَعَّفَہٗ غَیْرُ وَاحِدٍ ۔
’’یہ (رافضی)شیعہ ہے اور اس کو کئی ایک محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ‘‘
(المغني في الضعفاء : 55/1)
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَابْنُ عُقْدَۃَ مُتَّہَمٌ، فَإِنَّہٗ رَافِضِيٌّ خَبِیثٌ ۔
’’ابن عقدہ متہم راوی ہے،کیونکہ یہ خبیث رافضی ہے۔ ‘‘
(جامع المسانید والسنن : 524/5)
اگر کوئی کہے کہ ابن عقدہ اس سند میں منفرد نہیں،بلکہ شاذان فضلی کے استاذ ابو الحسن علی بن ابراہیم بن اسماعیل بن کعب دقاق نے اس کی متابعت کی ہے۔
(اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 338/1)
تو اس سے پوچھا جائے کہ شاذان فضلی کس مصیبت کا نام ہے؟اس کے استاذ ابوالحسن علی بن ابراہیم کے بھی حالات زندگی نہیں مل سکے۔
بعض لوگ اسے علی بن اسماعیل بن کعب،جس کا ترجمہ (حالاتِ زندگی)تاریخ بغداد للخطیب (345/11)میں ہے،سمجھتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔ اگریہی مراد لیا جائے، تو یہ بھی ’’مجہول‘‘ہے۔
اسے ازدی نے ثقہ کہا ہے۔(تاریخ بغداد للخطیب : 258/13، طبعۃ بشّار)
لیکن ابو الفتح محمدبن الحسین ازدی بے چارہ خود ’’ضعیف‘‘ہے۔کوئی ’’ضعیف‘‘ کسی کو کیسے ثقہ کہہ سکتا ہے؟یوں یہ متابعت سرے سے ثابت ہی نہیں ہے۔
شاذان فضلی نا معلوم کی سند میں علی بن جابر اودی بھی ’’مجہول‘‘ ہے۔
2 اس روایت کا دوسرا راوی عبدالرحمن بن شریک ہے۔
b امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے وَاہِي الْحَدِیثِ (کمزور)کہا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 244/5)
امام ابن حبان رحمہ اللہ اسے اپنی کتاب (الثقات : 375/8)میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : رُبَمَا أَخْطَأَ ۔ ’’کبھی کبھی غلطی کر جاتا ہے۔‘‘
لہٰذا امام حاکم(33/2)کا اس کی ایک روایت کو’’صحیح علی شرط مسلم‘‘کہنا،حافظ ہیثمی (مجمع الزوائد : 68/8)کا اسے ثقہ قرار دینا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقریب التہذیب : 3893)کا اسے ’’صدوق‘‘ کہنا امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ جیسے جمہور ائمہ کی جرح کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہے۔اس پر ضعف ہی غالب ہے۔
3 عبدالرحمن یہ روایت اپنے باپ شریک بن عبداللہ القاضی سے بیان کر رہا ہے۔ شریک القاضی راوی جب کوفہ میں عہدۂ قضا پر فائز ہوئے ،تو ان کا حافظہ جواب دے گیا تھا۔یہ معلوم نہیں کہ ان کے بیٹے عبدالرحمن بن شریک نے یہ روایت اپنے والد سے ان کا حافظہ بگڑنے سے پہلے سنی تھی یا بعد میں۔
اسی لیے حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا حَدِیثٌ بَاطِلٌ، أَمَّا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ شَرِیکٍ عَنْ أَبِیہِ؛ فَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ : ہُوَ وَاہِي الْحَدِیثِ، قُلْتُ : وَ ( أَمَّا ) أَنَا؛ فَلَا أَتَّہِمُ بِہٰذَا إِلَّا ابْنَ عُقْدَۃَ، فَإِنَّہٗ کَانَ رَافِضِیًّا، یُحَدِّثُ بِمَثَالِبِ الصَّحَابَۃِ .
’’یہ حدیث باطل ہے۔عبدالرحمن بن شریک اپنے باپ سے بیان کرتا ہے۔اس کے بارے میں امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں:وہ کمزور روایات بیان کرتا ہے۔میں کہتا ہوں:میرے خیال میں صرف ابن عقدہ ہی اس روایت کو گھڑنے والا ہے، کیونکہ وہ رافضی ہے اور صحابہ کرام کے عیوب بیان کرتا ہے۔‘‘(الموضوعات : 356/1)
روایت نمبر 4 : سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی سے منسوب ہے :
لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ شُغِلَ عَلِيٌّ بِمَا کَانَ مِنْ قِسْمَۃِ الْغَنَائِمِ، حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ، فَسَأَلَ النَّبِيُّ عَلِیًّا؛ ’ہَلْ صَلَّیْتَ الْعَصْرَ؟‘ قَالَ : لَا، فَدَعَا اللّٰہَ، فَارْتَفَعَتْ حَتّٰی تَوَسَّطَتِ الْمَسْجِدَ، فَصَلّٰی عَليٌّ، فَلَمَّا صَلّٰی؛ غَابَتِ الشَّمْسُ، قَالَ : فَسَمِعْتُ لَہَا صَرِیرًا کَصَرِیرِ الْمِنْشَارِ فِي الْخَشَبَۃِ ۔
’’خیبر کے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ مالِ غنیمت کی تقسیم میں مشغول رہے، حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ انہوں نے عرض کیا:نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور سورج بلند ہوتا ہوا مسجد کے درمیان میں آ گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، تو سورج کے غروب ہونے کی آواز میں نے سنی جیسا کہ کسی لکڑی میں آرا چلایا جاتا ہے۔ ‘‘
(أخرجہ أبو الحسن شاذان الفضلي، [کما في اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 340/1]، وأبو القاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ الحسکاني [کما في منہاج السنّۃ النبویّۃ لابن تیمیۃ : 191/4]، البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 90/6)
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
1 صاحب ِکتاب ابو الحسن شاذان فضلی کے حالات نہیں مل سکے۔
2 اس کے راوی صباح بن یحییٰ کے بارے میں :
b امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیںـ:
فِیہِ نَظَرٌ ۔ ’’یہ مجہول راوی ہے۔‘‘(التاریخ الکبیر : 315/4)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ شِیعِيٌّ، مِنْ جُمْلَۃِ شِیعَۃِ الْکُوفَۃِ ۔
’’یہ کوفہ کے شیعوں میں سے ہے۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 84/4)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَتْرُوکٌ، بَلْ مُتَّہَمٌ ۔
’’یہ متروک بلکہ متہم بالکذب راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 306/2)
b ابنِ عراق رحمہ اللہ کہتے ہیں : شِیعِيٌّ، مَتْرُوکٌ، مُتَّہَمٌ ۔
’’یہ شیعہ، متروک اور متہم بالکذب راوی ہے۔‘‘(تنزیہ الشریعۃ : 67/1)
اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
3 اس کے استاذ محمد بن صبیح دمشقی کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
4 عبداللہ بن الحسین بن جعفر
5 حسین مقتول
6 فاطمہ بنت علی
7 ام الحسن بنت علی
ان سب راویوں کا تعارف اور ان کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
روایت نمبر 5 : ایک روایت یوں ہے :
أَخْرَجَہٗ أَبُو الْقَاسِمِ الْحَسْکَانِيُّ (کَمَا فِي مِنْہَاجِ السُّنَّۃِ النَّبَوِیَّۃِ لِابْنِ تَیْمِیَۃِ : 190/4) عَنْ أَبِي حَفْصٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْقَاضِي الْجِعَابِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ جَعْفَرٍ الْعَسْکَرِيُّ مِنْ أَصْلِ کِتَابِہٖ ۔۔۔۔ ۔
تبصرہ :
اس کی سند بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے،کیونکہ :
1 ام اشعث راویہ ’’مجہولہ‘‘ہے۔
2 احمد بن محمد بن یزید بن سلیم کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔
3 امام سفیان ثوری کی ’’تدلیس‘‘ہے۔
n اس روایت کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا مِمَّا لَا یُقْبَلُ نَقْلُہٗ إِلَّا مِمَّنْ عُرِفَ عَدَالَتُہٗ وَضَبْطُہٗ؛ لَا مِنْ مَّجْہُولِ الْحَالِ، فَکَیْفَ إِذَا کَانَ مِمَّا یَعْلَمُ أَہْلُ الْحَدِیثِ أَنَّ الثَّوْرِيَّ لَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ، وَلَا حَدَّثَ بِہٖ عَبْدُ الرَّزَّاقِ؟ وَأَحَادِیثُ الثَّوْرِيِّ وَعَبْدِ الرَّزَّاقِ یَعْرِفُہَا أَہْلُ الْعِلْمِ بِالْحَدِیثِ، وَلَہُمْ أَصْحَابٌ یَّعْرِفُونَہَا، وَرَوَاہُ خَلَفُ بْنُ سَالِمٍ، وَلَوْ قُدِّرَ أَنَّہُمْ رَوَوْہُ؛ فَأُمُّ أَشْعَثَ مَجْہُولَۃٌ، لَا یَقُومُ بِرِوَایَتِہَا شَيْئٌ ۔
’’ایسی روایات صرف ان لوگوں سے روایت کرنا جائز ہے،جن کی عدالت اور حافظہ معروف ہو۔مجہول الحال راویوں سے ایسے بیانات لینا جائز نہیں۔پھر یہ ایسی روایت ہے،جس کے بارے میں محدثین جانتے ہیں کہ اس کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے بیان ہی نہیں کیا۔امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کی تمام روایات کو محدثین جانتے ہیں۔محدثین کے تمام شاگرد بھی ان روایات سے واقف ہیں،لیکن اس روایت کو صرف خلف بن سالم نے بیان کیا ہے۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ محدثین نے اسے بیان کیا ہے، تو بھی اس میں ام اشعث مجہولہ راویہ ہے۔ اس کی کوئی روایت کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔‘‘
(منہاج السنّۃ النبویّۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریّۃ : 190/4)
n حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا إِسْنَادٌ غَرِیبٌ جِدًّا، وَحَدِیثُ عَبْدِ الرَّزاق وَشَیْخِہِ الثَّوْرِيِّ مَحْفُوظٌ عِنْدَ الْـأَئِمَّۃِ، لاَ یَکَادُ یُتْرَکُ مِنْہُ شَيْئٌ مِّنَ الْمُہِمَّاتِ، فَکَیْفَ لَمْ یَرْوِ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ مِثْلَ ہٰذَا الْحَدِیثِ الْعَظِیمِ؛ إِلَّا خَلَفُ بْنُ سَالِمٍ، بِمَا قَبْلَہٗ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِینَ لَا یُعْرَفُ حَالُہُمْ فِي الضَّبط وَالْعَدَالَۃِ کَغَیْرِہِمْ؟ ثُمَّ إِنَّ أُمَّ أَشْعَثَ مَجْہُولَۃٌ ۔
’’یہ سند انتہا درجے کی منکر ہے۔امام عبدالرزاق رحمہ اللہ اور ان کے استاذ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی احادیث محدثین کے ہاں محفوظ ہیں، کوئی اہم روایت ان سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے اس طرح کی عظیم معجزہ کی حامل حدیث صرف خلف بن سالم ہی بیان کریں۔دوسری بات یہ ہے کہ سالم سے اوپر والے راوی اپنے حافظے اور عدالت کے اعتبار سے دوسرے راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔تیسرے یہ کہ ام اشعث مجہولہ ہے۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 89/6)
روایت نمبر 6 : اس روایت کی ایک سند یوں ہے :
عَنْ حُسَیْنٍ الْـأَشْقَرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِینَارٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَیْنِ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ عَلِيٍّ، عَنْ أَسْمَائَ ۔
(أخرجہ القاسم الحسکاني، کما في منہاج السنّۃ لابن تیمیۃ : 191/4، 192)
تبصرہ :
یہ باطل سند ہے۔اس کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا إِسْنَادٌ لَّا یَثْبُتُ ۔ ’’یہ سند صحیح نہیں۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 89/6)
1 اس کا راوی حسین بن حسن اشقر جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے ۔
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔
’’جمہور محدثین کرام نے اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد : 102/9)
b امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِیہِ نَظَرٌ ۔
’’یہ منکر الحدیث راوی ہے۔‘‘(التاریخ الکبیر : 385/2)
نیز فرماتے ہیں : عِنْدَہٗ مَنَاکِیرُ ۔
’’اس کے پاس منکر روایات ہیں۔‘‘(التاریخ الصغیر : 291/2)
b امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، وَکَانَ صَدُوقًا ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث منکر ہوتی ہے، اگرچہ وہ خود سچا تھا۔‘‘
(سؤالات ابن ہاني : 2358)
b امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہُوَ شَیْخٌ مُّنْکَرُ الْحَدِیثِ ـ
’’یہ منکر احادیث بیان کرنے والا راوی ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 50/3)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَیْسَ بِقَوِيٍّ فِي الْحَدِیثِ ۔ ’’حدیث بیان کرنے میں بہت کمزور تھا۔‘‘
(الجرح والتعدیل : 49/3)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جَمَاعَۃٌ مِّنْ ضُعَفَائِ الْکُوفِیِّینَ یُحِیلُونَ بِالرِّوَایَاتِ عَلٰی حُسَیْنٍ الْـأَشْقَرِ، عَلٰی أَنَّ حُسَیْنًا ہٰذَا فِي حَدِیثِہٖ بَعْضُ مَا فِیہِ ۔
’’ضعیف کوفی راویوں کی ایک جماعت حسین اشقر کی طرف روایات منسوب کرتی تھی، حالانکہ خود اس حسین کی حدیث میں بھی ضعف موجود ہے۔ ‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 362/2)
b امام دارقطنی(کتاب الضعفاء والمتروکین :195)اور امام نسائیH (الضعفاء والمتروکون : 146)نے بھی اسے ’’غیر قوی‘‘ قرار دیا ہے۔
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَہُوَ شِیعِيٌّ مَّتْرُوکٌ ۔
’’یہ شیعہ اور متروک راوی ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 570/3)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَحُسَینٌ مُّتَّہَمٌ ۔
’’حسین اشقر متہم بالکذب راوی ہے۔‘‘(تلخیص کتاب الموضوعات : 151/1)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 28/6)
2 علی بن حسین اگر زین العابدین ہیں، تو عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے ان کا زمانہ نہیں پایااور اگر کوئی اور ہے ،تو اسے ہم نہیں جانتے۔
روایت نمبر 7 : ایک اور سند ملاحظہ ہو :
یَرْوِیہِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِینَارٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّہٖ فَاطِمَۃَ بِنْتِ حُسَیْنٍ، عَنْ أَسْمَائَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
(أخرجہ أبو الحسن شاذان الفضلی، کما في اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 339/1)
تبصرہ :
یہ انتہائی جھوٹی سند ہے،کیونکہ :
1 صاحب ِکتاب شاذان فضلی کون ہے؟ کوئی پتہ نہیں۔
2 امام طبرانی کا استاذ اسماعیل بن الحسن خفاف ’’مجہول‘‘ہے۔
3 یحییٰ بن سالم کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
4 صباح مروزی (مزنی)اگر صباح بن یحییٰ ہے ،تو متہم ہے ۔اگر کوئی اور ہے تو وہ ’’مجہول‘‘ہے۔
5 اسماعیل بن اسحاق راشدی کی توثیق درکا رہے۔
6 فاطمہ بنت ِحسین کا سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں۔
روایت نمبر 8 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
لَمَّا کُنَّا بِخَیْبَرَ شَہِدَ رَسُولُ اللّٰہِ فِي قِتَالِ الْمُشْرِکِینَ، فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ، وَکَانَ مَعَ صَلَاۃِ الْعَصْرِ؛ جِئْتُہٗ، وَلَمْ أُصَلِّ صَلاۃَ الْعَصْرِ، فَوَضَعَ رَأْسَہٗ فِي حِجْرِي، فَنَامَ، فَاسْتَثْقَلَ، فَلَمْ یَسْتَیْقِظْ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا صَلَّیْتُ صَلاۃَ الْعَصْرِ، کَرَاہِیَۃً أَنْ أُوقِظَکَ مِنْ نَّوْمِکَ، فَرَفَعَ یَدَہٗ، ثُمَّ قَالَ : ’اللَّہُمَّ، إِنَّ عَبْدَکَ تَصَدَّقَ بِنَفْسِہٖ عَلٰی نَبِیِّکَ، فَارْدُدْ عَلَیْہِ شَرْقَہَا‘، قَالَ : فَرَأَیْتُہَا عَلَی الْحَالِ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ بَیْضَائَ نَقِیَّۃً، حَتّٰی قُمْتُ، ثُمَّ تَوَضَّأْتُ، ثُمَّ صَلَّیْتُ، ثُمَّ غَابَتَ ۔
’’جب ہم غزوئہ خیبر میں تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے لڑائی میں شریک ہوئے۔اگلے دن عصر کے وقت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے ابھی تک عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر مبارک رکھ کر سو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار نہ ہوئے،یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی ،کیونکہ آپ کو نیند سے بیدار کرنا مجھے اچھا نہیں لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر یہ دعاکی:اللہ ! تیرے بندے نے اپنی جان کو تیرے نبی پر قربان کر رکھا تھا۔اس پر سورج کو واپس لو ٹادے۔میں نے دیکھا کہ سورج عصر کے وقت کی طرح بالکل صاف سفید روشن ہو گیا۔میں اٹھا، وضو کیا اورنماز پڑھی۔پھر سورج غروب ہو گیا۔‘‘
(أخرجہ أبو الحسن شاذان الفضلي، کما في اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 340/1، 341)
تبصرہ :
یہ سفید جھوٹ ہے،کیونکہ :
1 شاذان کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔یہ کوئی جھوٹ کا کاریگر لگتا ہے۔
2 یحییٰ بن عبداللہ بن حسن بن علی کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔
3 ابو اسحاق ابراہیم بن رشید کون ہے؟ تعارف درکار ہے۔
4 عبداللہ بن فضل طائی کی توثیق درکار ہے۔
البتہ مالینی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن منذر نے کہا :
کَانَ ثِقَۃً؛ إِلَّا أَنَّہٗ کَانَ یَغْلُو فِي التَّشَیُّعِ ۔
’’یہ ثقہ راوی تھا،البتہ غالی شیعہ بھی تھا۔ ‘‘(لسان المیزان لابن حجر : 326/3)
عبداللہ بن منذر ائمہ جرح و نقد میں سے نہیں۔ لہٰذا ان کی توثیق معتبر نہیں۔
5 عبیداللہ بن سعید بن کثیر بن عفیر سخت مجروح ہے۔
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَکِلَا الْحَدِیثَیْنِ یَرْوِیہِمَا عَنْہُ ابْنُہٗ عُبَیْدُ اللّٰہِ، وَلَعَلَّ الْبَلَائُ مِنْ عُبَیْدِ اللّٰہ ۔
’’ان دونوں حدیثوں کو سعید سے اس کے بیٹے عبیداللہ نے بیان کیا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ عبیداللہ ہی کی گھڑنتل ہے۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 412/3)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنْ أَبِیہِ عَنِ الثِّقَاتِ الْـأَشْیَائَ الْمَقْلُوبَاتِ، لَا یُشْبِہُ حَدِیثُہٗ حَدِیثَ الثِّقَاتِ ۔
’’یہ اپنے باپ سے منسوب کر کے ثقہ راویوں کی سند سے مقلوب روایتیں بیان کرتا ہے۔اس کی حدیث ثقہ راویوں کی حدیث جیسی نہیں ہوتی۔ ‘‘
(المجروحین : 67/2)
b حسین بن اسحاق اصبہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
لَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِخَبَرِہٖ إِذَا انْفَرَدَ ۔
’’جب یہ کوئی روایت بیان کرنے میں منفرد ہو، تو اس کی روایت کو دلیل بنانا جائز نہیں ہوتا۔‘‘(المجروحین : 67/2)
لہٰذا امام ابو عوانہ رحمہ اللہ کا اپنی کتاب میں اس کا ذکر کرنا مفید نہیں۔
روایت نمبر 9 : سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
قَالَ عَلِيٌّ یَوْمَ الشُّورٰی : أَنْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ، ہَلْ فِیکُمْ مَّنْ رُدَّتْ لَہُ الشَّمْسُ غَیْرِي، حِین نَام رَسُولُ اللّٰہِ، وَجَعَلَ رَأْسَہٗ فِي حِجْرِي، حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ، فَانْتَبَہَ، فَقَالَ : ’یَا عَلِيُّ، صَلَّیْتَ الْعَصْرَ؟‘، قُلْتُ : اللّٰہُمَّ لَا، فَقَالَ : ’اللّٰہُمَّ ارْدُدْہا عَلَیْہِ، فَإِنَّہٗ کَانَ فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَۃِ رَسُولِکَ‘ ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کے دن فرمایا:میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں:کیا میرے علاوہ کوئی ہے ،جس کیلئے سورج واپس پلٹ آیا تھا۔اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر مبارک رکھے سو رہے تھے،یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے،تو فرمایا:علی!کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے؟میں نے عرض کیا:نہیں۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی:اے اللہ! ان کے لئے سورج کو واپس پلٹا دے،کیونکہ یہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے۔ ‘‘
(أخرجہ شاذان الفضلي، کما في اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 341/1)
تبصرہ :
یہ روایت صریح جھوٹ ہے اور خالص ابلیسی کارروائی ہے،کیونکہ :
1 شاذان فضلی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
2 اس کا استاذابو الحسن بن صفوہ بھی ’’مجہول‘‘ہے۔
3 حسن بن علی بن محمد عدوی،طبری کی بھی توثیق درکار ہے۔
4 احمد بن علا رازی کا پتہ نہیں چل سکا۔
5 اسحاق بن ابراہیم تیمی کے حالات ِزندگی نہیں مل سکے۔
6 ابراہیم بن یزید نخعی ’’مدلس‘‘ہیں۔
7 علقمہ کا سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے سماع درکار ہے۔
روایت نمبر 0 : جویریہ بنت ِمسہر سے منسوب ہے :
خَرَجْتُ مَعَ عَلِيٍّ، فَقَالَ : یَا جُوَیْرِیَۃُ، إِنَّ النَّبِيَّ کَانَ یُوحٰی إِلَیْہِ، وَرَأْسُہٗ فِي حِجْرِي ۔۔۔۔۔ ۔
(أخرجہ أبو القاسم الحسکاني، کما في منہاج السنّۃ لابن تیمیۃ : 194/4)
تبصرہ :
یہ صریح جھوٹ ہے،جیسا کہ :
b شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا الْإِسْنَادُ أَضْعَفُ مِمَّا تَقَدَّمَ، وَفِیہِ مِنَ الرِّجَالِ الْمَجَاہِیلِ الَّذِینَ لَا یُعْرَفُ أَحَدُہُمْ بِعَدَالَۃٍ وَّلَا ضَبْطٍ، وَانْفِرَادُہُمْ بِمِثْلِ ہٰذَا الَّذِي، لَوْ کَانَ عَلِيٌّ قَالَہٗ، لَرَوَاہُ عَنْہُ الْمَعْرُوفُونَ مِنْ أَصْحَابِہٖ، وَبِمِثْلِ ہٰذَا الْإِسْنَادِ عَنْ ہٰذِہِ الْمَرْأَۃِ، وَلَا یُعْرَفُ حَالُ ہٰذِہِ الْمَرْأَۃِ، وَلَا حَالُ ہَوُلَائِ الَّذِینَ رَوَوْا عَنْہَا، بَلْ وَلَا تُعْرَفُ أَعْیَانُہُمْ، فَضْلًا عَنْ صِفَاتِہِمْ، لَا یَثْبُتُ فِیہِ شَيْئٌ، وَفِیہِ مَا یُنَاقِضُ الرِّوَایَۃَ الَّتِي ہِيَ أَرْجَحُ مِنْہُ، مَعَ أَنَّ الْجَمِیعَ کَذِبٌ، فَإِنَّ الْمُسْلِمِینَ رَوَوْا مِنْ فَضَائِلِ عَلِيٍّ، وَّمُعْجِزَاتِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا ہُوَ دُونَ ہٰذَا، وَہٰذَا لَمْ یَرْوِہٖ (أَحَدٌ) مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِیثِ ۔
’’یہ روایت گزشتہ روایت سے زیادہ سخت ضعیف ہے۔اس میں ایسے مجہول راوی ہیں جن میں سے کسی کی عدالت و ضبط معروف نہیں۔وہ اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہیں۔اگر واقعی ایسا ہوتا،تو ضرور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشہور رفقا ان سے بیان کرتے۔اس جیسی روایت کو بیان صرف ایک عورت جویریہ بنت ِمسہر نے کیا، جو خود مجہولہ ہے!پھر اس سے بیان کرنے والے راویوں کے حالات بھی معلوم نہیں،بلکہ ان کی شخصیتوں ہی کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔یہ روایت جھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ان روایات کے بھی مخالف ہے،جو اس کی نسبت راجح ہیں۔مسلمانوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو بیان کیا ہے، مگر یہ ان سب سے بڑھ کر ہے،پھر بھی کسی محدث نے اسے نقل نہیں کیا۔‘‘(منہاج السنّۃ :194/4)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا الْإِسْنَادُ مُظْلِمٌ، وَأَکْثَرُ رِجَالِہٖ لَا یُعْرَفُونَ، وَالَّذِي یَظْہَرُ، ــــ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ـــ أَنَّہٗ مُرَکَّبٌ مَّصْنُوعٌ، مِمَّا عَمِلَتْہُ أَیْدِي الرَّوَافِضِ، قَبَّحَہُمُ اللّٰہُ ۔
’’یہ سند جھوٹی ہے۔ اس کے اکثر راوی مجہول ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی ہے، جو کہ رافضیوں کی گھڑنت ہے۔ اللہ ان کو تباہ و برباد کرے۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 92/6)
روایت نمبر ! : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
نَام رَسُولُ اللّٰہِ، وَرَأْسُہٗ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، وَلَمْ یَکُنْ صَلَّی الْعَصْرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ؛ دَعَا لَہٗ، فَرُدَّتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ حَتّٰی صَلّٰی، ثُمَّ غَابَتْ ثَانِیَۃً ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے سو گئے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابھی تک عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی کہ سورج غروب ہو گیا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے،تو ان کے لئے دعا کی۔سورج ان کے لیے پلٹ آیا،حتی کہ انہوں نے نماز ادا کر لی۔پھر سورج دوبارہ غروب ہو گیا۔‘‘
(أخرجہ شاذان الفضلي، کما في اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 338/1، وأبو القاسم الحسکاني، کما في منہاج السنّۃ لابن تیمیۃ : 194/4)
تبصرہ :
یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 دائود بن فراہیج کے بارے میں امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَکَانَ کَبِرَ، وَافْتَقَرَ ۔ ’’یہ زیادہ بوڑھا اور مختلط ہو گیا تھا۔‘‘
(التاریخ الکبیر للبخاري : 230/3، وسندہٗ صحیحٌ)
معلوم نہیں کہ اس نے یہ روایت کب بیان کی؟
2 دائود بن فراہیج سے نیچے ابن مردویہ تک سند بھی غائب ہے۔
اللّآلي المصنوعۃ للسیوطی(309/3)میں مذکور اس کی دوسری باطل سند بھی ہے،کیونکہ :
1 اس میں دائود کا متابع عمارہ بن فیروز ’’مجہول‘‘ ہے۔
b امام عقیلی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لَا یُتَابَعُ عَلٰی حَدِیثِہٖ ۔ ’’اس کی حدیث پر متابعت نہیں کی گئی۔‘‘
(الضعفاء الکبیر : 316/3)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَایُعْرَفُ مَنْ ہُوَ ۔
’’کوئی پتہ نہیں کہ یہ کون ہے؟‘‘(میزان الاعتدال : 178/3)
2 یزید بن عبدالملک نوفلی جمہور محدثین کے نزدیک سخت ترین ’’ضعیف‘‘ اور ’’منکر الحدیث‘‘ہے۔
b امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام دارقطنی،امام نسائی،امام ابن عدی اور امام بزار رحمہم اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ اور ’’منکر الحدیث‘‘ کہا ہے۔
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقریب التہذیب : 7751)نے اسے ’’ضعیف‘‘کہا ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
مُجْمَعٌ عَلٰی ضُعْفِہٖ ۔
’’محدثین کرام کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 141/4)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ مَتْرُوکٌ، ضَعَّفَہٗ جُمْہُورُ الْـأَئِمَّۃِ ۔
’’وہ متروک راوی ہے،جمہور ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ‘‘
(مجمع الزوائد : 91/4)
3 یحییٰ بن یزید بن عبدالملک راوی ’’ضعیف‘‘ اور ’’منکر الحدیث‘‘ ہے۔
4 شاذان فضلی کون ہے؟ لگتا ہے یہ اسی کی گھڑنتل ہے۔
b اس روایت کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا إِسْنَادٌ مُّظْلِمٌ، لَا یَثْبُتُ بِہٖ شَيْئٌ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ، بَلْ یُعْرَفُ کَذِبُہٗ مِنْ وُّجُوہٍ ۔۔۔ ۔
’’یہ سند اندھیری ہے۔اہل علم کے نزدیک اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا، بلکہ کئی طرح سے اس کا جھوٹا ہونا واضح ہوتا ہے۔ ‘‘(منہاج السنّۃ : 193/4)
روایت نمبر @ : سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
دَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا رَأْسُہٗ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، وَقَدْ غَابَتِ الشَّمْسُ ۔۔۔۔۔ ۔
(أخرجہ أبو القاسم عبید اللّٰہ الحسکاني، کما في منہاج السنّۃ لابن تیمیۃ : 193/4)
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے،جیسا کہ :
b شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا الْإِسْنَادُ لَا یَثْبُتُ بِمِثْلِہٖ شَيْئٌ، وَکَثِیرٌ مِّنْ رِّجَالِہٖ لَا یُعْرَفُونَ بِعَدَالَۃٍ وَّلَا ضَبْطٍ، وَلَا حَمْلٍ لِّلْعِلْمِ، وَلَا لَہُمْ ذِکْرٌ فِي کُتُبِ الْعِلْمِ ۔
’’اس طرح کی ساری روایات غیر ثابت ہیں۔ان کے اکثر راوی عدالت، حافظے اور علمی اعتبار سے غیر معروف ہیں۔ان کا کسی علمی اور جرح و تعدیل کی کتب میں کوئی تذکرہ نہیں۔ ‘‘(منہاج السنۃ : 193/4)
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا إِسْنَادٌ مُّظْلِمٌ أَیْضًا، وَمَتْنُہٗ مُنْکَرٌ، وَمُخَالِفٌ لِّمَا تَقَدَّمَہٗ مِنَ السِّیَاقَاتِ، وَکُلُّ ہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ مَوْضُوعٌ مَّصْنُوعٌ مُفْتَعَلٌ، یَسْرِقُہٗ ہٰؤُلاَئِ الرَّافِضَۃُ بَعْضُہُمْ مِّنْ بَعْضٍ، وَلَوْ کَانَ لَہٗ أَصْلٌ مِّنْ رِّوَایَۃِ أَبِي سَعِیدٍ لَتَلَقَّاہُ عَنْہُ کِبَارُ أَصْحَابِہٖ ۔
’’یہ سند بھی اندھیری ہے اور اس کا متن منکر ہے۔یہ اس واقعے کے گزشتہ سیاق کے بھی مخالف ہے۔یہ ساری چیزیں اس کے موضوع، من گھڑت اور خود ساختہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔روافض نے ایک دوسرے سے اس روایت کا سرقہ کیا ہے۔اگر یہ واقعی سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ہوتی، تواسے ان کے کبار اصحاب ضرور ان سے بیان کرتے۔ ‘‘
(البدایۃ والنہایۃ : 92/6)
روایت نمبر # : سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، وَکَانَ یُوحٰی إِلَیْہِ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْہُ، قَالَ : ’یَا عَلِيُّ، صَلَّیْتَ الْعَصْرَ؟‘ قَالَ : لَا، قَالَ : ’اللّٰہُمَّ، إِنَّکَ تَعْلَمُ أَنَّہٗ کَانَ فِي حَاجَتِکَ وَحَاجَۃِ رَسُولِکَ، فَرُدَّ عَلَیْہِ الشَّمْسَ‘، فَرَدَّہَا، فَصَلّٰی عَلِيٌّ، فَغَابَتْ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کا نزول ہو رہاتھا۔جب وحی ختم ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا : علی! کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے؟انہوں نے عرض کیا: نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی:اے اللہ!تُو جانتا ہے کہ یہ تیرے اور تیرے رسول کے کام میں مشغول تھے، ان کے لیے سورج کو لوٹا دے۔اللہ تعالیٰ نے سورج کو پلٹا دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی ،تو سورج پھر غروب ہو گیا۔ ‘‘
(تلخیص المتشابۃ للخطیب : 225/1، الذریّۃ الطاہرۃ للدولابي : 164)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
1 اس کے راوی ابراہیم بن حیان کے بارے میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إِبْرَاہِیمُ بْنُ حَیَّانَ فِي عِدَادِ الْمَجْہُولِینَ ۔
’’ابراہیم بن حیان کا شمار مجہول راویوں میں ہوتا ہے۔‘‘(تلخیص المتشابہ : 225/1)
روایت نمبر $ : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الشَّمْسَ، فَتَأَخَّرَتْ سَاعَۃً مِّنْ نَّہَارٍ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کو حکم دیا، تو وہ تھوڑی دیر کے لئے لیٹ ہو گیا۔‘‘
(المعجم الأوسط للطبراني : 4039، اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 312/1)
تبصرہ :
یہ سند باطل ہے،کیونکہ :
1 ولید بن عبدالواحد تمیمی راوی کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔
2 ابو الزبیر ’’مدلس‘‘ ہیں اور انہو ں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
خلاصۃ التحقیق :
مذکورہ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کے واپس آنے کے بارے میں بیان کی جانے والی ساری کی ساری روایات ’’ضعیف‘‘ اور باطل ہیں۔ کسی میں مجہول، کسی میں ضعیف اورکسی میں متروک راوی پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچتی۔
اس روایت کے بارے میں جمہور ائمہ محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں :
b حافظ ابو بکر محمد بن حاتم بن زنجویہ بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب [إثبات إمامۃ الصدیق] میں فرماتے ہیں :
اَلْحَدِیثُ ضَعِیفٌ جِدًّا، لَا أَصْلَ لَہٗ، کَذَا مِمَّا کَسَبَتْ أَیْدِي الرَّوَافِضِ ۔
’’یہ روایت سخت ضعیف اور بے اصل ہے۔ یہ روافض کی کارستانی ہے۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 87/6)
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ امام ابن مدینی رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ روایت بے اصل ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ : 93/6)
b حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّنْکَرٌ، وَفِیہِ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنَ الْمَجَاہِیلِ ۔
’’یہ حدیث منکر ہے، اس میں کئی ایک مجہول راوی ہیں۔‘‘(تاریخ دمشق : 314/42)
b امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَالرِّوَایَۃُ فِیہِ لِینَۃٌ ۔
’’اس روایت میں کمزوری ہے۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 328/3)
b حافظ جورقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّنْکَرٌ مُّضْطَرِبٌ ۔ ’’یہ حدیث منکر اور مضطرب ہے۔ ‘‘
(الأباطیل والمناکیر والصحاح والمشاہیر : 308/1)
b حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے ’’موضوع‘‘(من گھڑت) قرار دیا ہے۔
(الموضوعات : 356/1)
b حافظ محمد بن ناصر بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا الْحَدِیثُ مَوْضُوعٌ ۔ ’’ یہ حدیث من گھڑت ہے۔ ‘‘
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 87/6)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ـ : صَدَقَ ابْنُ نَاصِرٍ ۔
’’ابن ناصر نے بالکل سچ کہا ہے۔ ‘‘(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 87/6)
b نیز اس کے بارے میں خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لٰکِنَّہَا سَاقِطَۃٌ، لَیْسَتْ بِصَحِیحَۃٍ ۔
’’یہ روایت جھوٹی ہے، صحیح نہیں۔‘‘(تلخیص الموضوعات : 118)
b شیخ الاسلام ،امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے من گھڑت قرار دیاہے۔
(منہاج السنۃ : 185/4، 195)
b محمد بن عبید طنافسی اور یعلیٰ بن عبیدطنافسیH نے بھی اسے من گھڑت ہی قرار دیا ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 93/6)
b حافظ ابو الحجاج یوسف مزی رحمہ اللہ نے بھی اسے’’موضوع‘‘قرار دیا ہے۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 93/6)
b حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسے جھوٹی روایتوں میں ذکر کیا ہے۔
(المنار المنیف : 56/1)
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا الْحَدِیثُ ضَعِیفٌ وَّمُنْکَرٌ مِّنْ جَمِیعِ طُرُقِہٖ، فَلَا تَخْلُو وَاحِدَۃٌ مِّنْہَا عَنْ شِیعِيٍّ، وَّمَجْہُولِ الْحَالِ، وَشِیعِيٍّ وَّمَتْرُوکٍ ۔
’’یہ روایت اپنے جمیع طرق کے ساتھ ضعیف و منکر ہے۔اس کی کوئی ایک سند بھی شیعہ ، مجہول الحال اور شیعہ و متروک راویوں سے خالی نہیں ہے۔ ‘‘
(البدایۃ والنہایۃ : 87/6)
b علامہ معلمی رحمہ اللہ اس روایت پر یوں تبصرہ کرتے ہیں :
ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ أَنْکَرَہَا أَکْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ، لأَِوْجُہٍ؛ اَلْـأَوَّلُ : أَنَّہَا لَوْ وَقَعَتْ؛ لَنُقِلَتْ نَقْلاً یَّلِیقُ بِمِثْلِہَا، اَلثَّانِي : أَنَّ سُنَّۃَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَوَارِقِ أَنْ تَکُونَ لِمَصْلِحَۃٍ عَظِیمَۃٍ، وَلَا یَظْہَرُ ہُنَا مَصْلِحَۃٌ، فَإِنَّہٗ إِنْ فُرِضَ أَنَّ عَلِیًّا فَاتَتْہُ صَلَاۃُ الْعَصْرِ، کَمَا تَقُولُ الْحِکَایَۃُ، فَإِنْ کَانَ ذٰلِکَ لِعُذْرٍ؛ فَقَدْ فَاتَتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلاَۃُ الْعَصْرِ یَوْمَ الْخَنْدَقِ لِعُذْرٍ، وَفَاتَتْہُ وَأَصْحَابَہٗ صَلَاۃُ الصُّبْحِ فِي سَفَرٍ، فَصَلاَّہُمَا بَعْدَ الْوَقْتِ، وَبَیَّنَ أَنَّ مَا وَقَعَ لِعُذْرٍ؛ فَلَیْسَ فِیہِ تَفْرِیطٌ، وَجَائَتْ عِدَّۃُ أَحَادِیثَ فِي أَنَّ مَنْ کَانَ یُحَافِظُ عَلٰی عِبَادَۃٍ، ثُمَّ فَاتَتْہُ لِعُذْرٍ؛ یَکْتُبُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہٗ أَجْرَہَا کَمَا کَانَ یُؤَدِّیہَا، وَإِنْ کَانَ لِغَیْرِ عُذْرٍ؛ فَتِلْکَ خَطِیئَۃٌ إِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی مَغْفِرَتَہَا؛ لَمْ یَتَوَقَّفْ ذٰلِکَ عَلٰی إِطْلَاعِ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِہَا، وَلَا یَظْہَرُ لِإِطْلَاعِہَا مَعْنًی، کَمَا أَنَّہٗ لَوْ قَتَلَ رَجُلٌ آخَرَ ظُلْمًا، ثُمَّ أَحْیَا اللّٰہُ الْمَقْتُولَ؛ لَمْ یَکُنْ فِي ذٰلِکَ مَا یُکَفِّرُ ذَنْبَ الْقَاتِلِ، اَلثَّالِثُ : إِنَّ طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِہَا آیَۃٌ قَاہِرَۃٌ، إِذَا رَآہَا النَّاسُ آمَنُوا جَمِیعًا، کَمَا ثَبَتَ فِي الْـأَحَادِیثِ الصَّحِیحَۃِ، وَبِذٰلِکَ فُسِّرَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ {یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ}(الأنعام 6 : 158)، فَکَیْفَ یَقَعُ مِثْلُ ہٰذَا فِي حَیَاۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا یُنْقَلُ أَنَّہٗ تَرَتَّبَ عَلَیْہِ إِیمَانُ رَجُلٍ وَّاحِدٍ ۔
’’کئی وجوہ کی بنا پر اہل علم نے اس قصے کو منکر قرار دیا ہے؛1 اگر ایسا واقعی رونما ہوا ہوتا، تو اسے اہم واقعات کی طرح (کثرت سے)نقل کیا جاتا۔ 2خارقِ عادت کاموں کے بارے میں اللہ عزوجل کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی عظیم مصلحت کے پیش نظر رونما ہوتے ہیں،لیکن اس واقعہ میں ایسی کوئی مصلحت نظر نہیں آرہی۔اگر یہ مان لیا جائے کہ واقعی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نمازِ عصر رَہ گئی تھی،تو وہ یا کسی عذرکی وجہ سے رہی ہو گی،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ عصر بھی غزوئہ خندق کے موقع پر رہ گئی تھی۔اسی طرح صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نماز ِفجر بھی لیٹ ہو گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے نماز کا وقت گزر جانے کے بعد نماز ادا کی تھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے ایسا ہو جائے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔بے شمار احادیث میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ جو شخص پابندی کے ساتھ کسی عبادت کو سرانجام دیتاہے،اگر کسی عذر کی وجہ سے کبھی وہ عبادت رہ جائے، تو اس کو اسی طرح اجر ملتا ہے، جس طرح ادا کرنے پر ملتا تھا۔اور اگر یہ مانا جائے کہ (معاذ اللہ)سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی عذر کے نماز ِعصر کو لیٹ کیا تھا،تو یہ ایک گناہ تھا، جسے اللہ چاہتا تو معاف فرما دیتا اور اس معافی کے لیے سورج کو مغرب سے طلوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی،نہ اس کا کوئی فائدہ۔اگر کوئی آدمی کسی کو ناجائز قتل کردے، پھر اللہ رب العزت مقتول کو دوبارہ زندہ کردیں، تو اس سے قاتل کا گناہ کسی صورت معاف نہیں ہو گا۔یہ صورت بھی ایسی ہی ہے۔3 مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا بڑی سخت نشانی ہے اور جب لوگ اس کو دیکھیں گے، توسب ایمان لے آئیں گے،جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اللہ رب العزت کے اس فرمان کی تفسیر بھی یہی کی گئی ہے:{یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ}(الأنعام 6 : 158)} (جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی،کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا،جو اس سے پہلے مؤمن نہیں ہو گا)۔اب کیسے ممکن ہے کہ ایسی نشانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِطیبہ ہی میں رونما ہوجائے اور پھر اس کے نتیجے میں کسی ایک بھی شخص کے ایمان لانے کے بارے میں کوئی بات نقل نہیں کی گئی۔‘‘(حاشیۃ الفوائد المجموعۃ للشوکاني : 358، 357)

2 تبصرے “سورج کی واپسی، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.