9,729

سورت بقرہ کی آخری آیات کی فضیلت، حافظ ابو یحیی نور پوری

اللہ ربّ العالمین کا یہ فضلِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کواپنی رحمت ومغفرت کے اسباب مہیا کیے ہیں ۔ ان میں سے ایک سبب سورہئ بقرہ کی آخری آیات ِ بیّنات بھی ہیں۔ ان کی فضیلت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنیے:
1    سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وأوتیت ہؤلاء الآیات من آخر سورۃ البقرۃ من کنز تحت العرش ، لم یعط مثلہ أحد قبلی ، ولا أحد بعدی ۔ ”مجھے سورہئ بقرہ کی یہ آخری آیات عرش کے نیچے خزانے سے دی گئی ہیں۔ ان جیسی آیات نہ پہلے کسی کو ملی ہیں اورنہ بعد میں کسی کو ملیںگی۔”
(السنن الکبرٰی للنسائی : ٨٠٢٢، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث ِ مبارکہ کوامام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٢٦٤)اورامام ابنِ حبان رحمہ اللہ (٦٤٠٠) نے ”صحیح” کہا ہے۔
2    سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو تین چیزیں دی گئیں: ١۔ پانچ نمازیں ٢۔ سورہئ بقرہ کی آخری آیات اور ٣۔ شرک کے سوا ااپ کی امت کے لیے تمام گناہوں کی معافی۔”(صحیح مسلم : ١٧٣)
3    سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنّ اللّٰہ کتب کتابا قبل أن یخلق السماوات والأرض بألفی عام ، فأنزل منہ آیتین ختم بھما ســورۃ البقرۃ ، ولا تقرآن فی دار ثلاث لیال ، فیقرّ بہا شیطان ۔
”اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمین کی پیدائش سے دو ہزار پہلے ایک کتاب لکھی۔ اس میں سے دوآیات نازل فرمائیں، جن کے ساتھ سورہئ بقرہ کا اختتام فرمایا۔ جس بھی مکان میں یہ آیتیں دن راتیں پڑھ دی جائیں ، شیطان اس میں ٹھہر نہیں سکتا۔”
(مسند الامام احمد : ٤/٢٧٤، سنن الترمذی : ٢٨٨٢، وقال : حسن غریب ، مسند الدارمی : ٢/٤٤٩، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٥٦٢،٢/٢٦٠، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (٧٨٢)اورامام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
4    ابوالاسودظالم بن عمرو الدؤلی کہتے ہیں : ”میں نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ مجھے وہ قصہ بیان کریں،جب آپ نے شیطان کوپکڑ لیا تھا۔ انہوں نے بتایا : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے صدقہ (کی حفاظت)پر متعین کیا۔ کھجوریں کمرے میں پڑی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ کم ہورہی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کھجوریں شیطان لے جاتا ہے۔ایک دن میں کمرے میں داخل ہوا اوردروازہ بند کردیا۔ اندھیرا اس قدر شدید تھا کہ اس نے دروازے کو ڈھانپ لیا۔ شیطان نے ایک صورت اختیار کی ،پھردوسری صورت اختیارکی ۔ وہ دروازے کے شگاف سے اندر گھس آیا۔ میں نے بھی لنگوٹا کس لیا۔ اس نے کھجوریں کھانا شروع کردیں۔ میں نے جھپٹ کر اُسے دبوچ لیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن ! (تو کیاکررہا ہے؟)اس نے کہا: مجھے جانے دو۔ میں بوڑھا ہوں اورکثیرالاولاد ہوں۔ میراتعلق نصیبین (بستی کانام) کے جنوں سے ہے۔ تمہارے صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کی بعثت سے پہلے ہم بھی اسی بستی کے باسی تھے۔ جب آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )مبعوث ہوئے توہمیں یہاں سے نکال دیاگیا۔ (خدارا!) مجھے چھوڑ دیں۔ میں دوبارہ کبھی نہیں آؤں گا۔ میں نے اسے چھوڑدیا۔ جبرئیلuنے آکر سارا معاملہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبتادیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صبح کی نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منادی کرنے والے نے منادی کی کہ معاذ بن جبل کہاں ہے؟ میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کے قیدی کا کیامعاملہ ہے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسارا معاملہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عنقریب دوبارہ ضرور آئے گا۔ آپ بھی دوبارہ جائیں۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کردیا۔ شیطان آیا ،دروازے کے شگاف سے اندر گھسا اورکھجوریں کھانا شروع کردیں۔ میں نے اس کے ساتھ وہی پہلے والا معاملہ کیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن! تُو نے آئندہ کبھی نہ آنے کا وعدہ کیاتھا ۔ اس نے کہا: میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کوئی تم میں سے سورہئ بقرہ کی(آخری آیات للّٰہ ما فی السموات والأرض ۔۔۔ )نہیں پڑھے گا تواسی رات ہم میں سے کوئی اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا۔”(الہواتف لابن ابی الدنیا : ١٧٥، دلائل النبوۃ لأبی نعیم : ٥٤٧، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٠/١٦١۔١٦٢، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٥٦٣، دلائل النبوۃ للبیہقی : ٧/١٠٩۔١١٠، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو”صحیح” قراردیا ہے۔
5    ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (( من قرأ بالآیتین من آخر سورۃ البقرۃ فی لیلۃ کفتاہ )) ”جوشخص رات کو سورہئ بقرہ کی آخری دوآیات پڑھ لے گا ، وہ اس کو کافی ہوجائیں گی۔”(صحیح البخاری : ٥٠٠٩، صحیح مسلم : ٨٠٨)
کافی ہونے کامطلب یہ ہے کہ ١۔ یہ شیطان کہ شرانگیزیوں سے حفاظت دیں گی۔ ٢۔ناگہانی مصائب اورآفات سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔ ٣۔ نماز ِ تہجد سے کفایت کریںگی۔
ذراسوچئے ! ہمارے گھرانے خیروبھلائی سے کس قدر محروم ہیں! اتنے بڑے نافع اور مفید عمل سے خالی اورشر سے لبریز ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ آپ اپنے گھر میں یہ سراسر خیروبرکت والا عمل کب شروع کرنے والے ہیں؟
6    سیدناابنِ عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جبرئیلu،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ناگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اوپر اٹھایا۔ جبرئیلuنے کہا : یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے، جسے صرف آج کھولا گیا ہے۔ آج سے پہلے کبھی نہیں کھولاگیا۔ پھر اس سے ایک فرشتہ نازل ہوا۔ جبرئیلuنے فرمایا: یہ فرشتہ جوآج اُترا ہے، آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔ اس فرشتے نے سلام کیا اورکہا: آپ کوان دو نُوروں کی بشارت ہوجوآپ کو دئیے گئے ہیںاورآپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے ۔ ایک سورہئ فاتحہ اوردوسرا سورہئ بقرہ کی آخری آیات ۔ آپ ان میں جو حرف بھی پڑھیں گے ، اس کا مصداق آپ کومل جائے گا۔”(صحیح مسلم : ٨٠٦)

2 تبصرے “سورت بقرہ کی آخری آیات کی فضیلت، حافظ ابو یحیی نور پوری

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.