1,896

تبرکات کی شرعی حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

قرآن و حدیث پر مبنی عقائد و اعمال کو صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین و ائمہ دین کے فہم کی روشنی میں سمجھنا اور اپنانا اہل سنت واہل حق کا وطیرہ ہے۔کتنے ہی عقائد و اعمال ایسے ہیں کہ سلف صالحین کے نزدیک وہ کفر و شرک اور بدعت ہیں،لیکن اہل کلام و اہل بدعت کے ہاں وہ دین کا درجہ رکھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب ِسلف کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے، جبکہ اہل بدعت کا مزعومہ دین ان کی آرا و خواہشات پر مبنی ہے۔یہ لوگ پہلے عقیدہ اور عمل وضع کرتے ہیں،بعد میں قرآن و حدیث کی باطل تاویل اور دورازکار توجیہ کر کے اسے بطور ِدلیل پیش کرتے ہیں۔یوں ان کا عقیدہ اور عمل سلف صالحین کے مطابق باطل قرارپاتا ہے۔
b امامِ اندلس،محمد بن وضاحرحمہ اللہ (286-199ھ) فرماتے ہیں :
فَعَلَیْکُمْ بِالِاتِّبَاعِ لِأَئِمَّۃِ الْہُدَی الْمَعْرُوفِینَ، فَقَدْ قَالَ بَعْضُ مَنْ مَضٰی : کَمْ مِّنْ أَمْرٍ ہُوَ الْیَوْمَ مَعْرُوفٌ عِنْدَ کَثِیرٍ مِّنَ النَّاسِ؛ کَانَ مُنْکَرًا عِنْدَ مَنْ مَّضٰی، وَمُتَحَبَّبٌ إِلَیْہِ بِمَا یُبْغِضُہٗ عَلَیْہِ، وَمُتَقَرَّبٌ إِلَیْہِ بِمَا یُبْعِدُہُ مِنْہُ، وَکُلُّ بِدْعَۃٍ عَلَیْہَا زِینَۃٌ وَّبَہْجَۃٌ ۔
’’تم پر معروف ائمہ ہدیٰ کی پیروی ضروری ہے۔بعض اسلاف نے کہا ہے : کتنے ہی معاملات آج لوگوں میں مشہور ہیں،لیکن اسلاف کے ہاں وہ منکر تھے، کتنے ہی امور آج محبوب ہیں،حالانکہ اسلاف کے نزدیک قابل نفرت تھے اور کتنے ہی معاملات آج تقربِ الٰہی کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں،جبکہ اسلاف کے ہاں وہ اللہ تعالیٰ سے دُوری کا سبب تھے۔ہر بدعت خوبصورت اور خوش نما ہوتی ہے۔‘‘
(البدع والنہي عنہا، ص : 89، تحت الحدیث : 107)
تین فضیلت والے زمانوں کے لوگ،یعنی صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین معیار ِ حق ہیں۔ان کے فہم و منہج کے مطابق قرآن و حدیث کی پیروی ضروری ہے۔ تبرک ایسے اہم مسئلہ پر بھی ہم فہم سلف کی روشنی میں گفتگو کرتے ہیں۔
تبرک کی تعریف :
b عالَمِ عرب کے مشہور عالِم،علامہ محمد بن صالح،عثیمینرحمہ اللہ (1421-1347ھ) تبرک کے حوالے سے فرماتے ہیں :
تَبَرُّکٌ تَفَعُّلٌ مِّنَ الْبَرَکَۃِ، وَالْبَرَکَۃُ ہِيَ کَثْرَۃُ الْخَیْرِ وَثُبُوتُہٗ، وَہِيَ مَأْخُوذَۃٌ مِّنَ الْبِرْکَۃِ بِالْکَسْرِ، وَالْبِرْکَۃُ مَجْمَعُ الْمَائِ، وَمَجْمَعُ الْمَائِ یَتَمَیَّزُ عَنْ مَّجْرَی الْمَائِ بِأَمْرَیْنِ؛ الْکَثْرَۃِ وَالثُّبُوتِ، وَالتَّبَرُّکُ طَلَبُ الْبَرَکَۃِ، وَطَلَبُ الْبَرَکَۃِ لَا یَخْلُو مِنْ أَمْرَیْنِ؛ الْـأَوَّلُ أَنْ یَّکُونَ التَّبَرُّکُ بِأَمْرٍ شَرْعِيٍّ مَّعْلُومٍ، مِّثْلِ الْقُرْآنِ، قَالَ تَعَالٰی : {کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ}(صٓ 38 : 29)، فَمِنْ بَرَکَتِہٖ أَنَّ مَنْ أَخَذَ بِہٖ حَصَلَ لَہُ الْفَتْحُ، فَأَنْقَذَ اللّٰہُ بِذٰلِکَ أُمَمًا کَثِیرَۃً مِّنَ الشِّرْکِ، وَمِنْ بَرَکَتِہٖ أَنَّ الْحَرْفَ الْوَاحِدَ بِعَشْرَ حَسَنَاتٍ، وَہٰذَا یُوَفِّرُ لِلْإِنْسَانِ الْوَقْتَ وَالْجُہْدَ….، إِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ مِنْ بَرَکَاتِہِ الْکَثِیرَۃِ، وَالثَّانِي أَنْ یَّکُونَ بِأَمْرٍ حِسِّيٍّ مَّعْلُومٍ، مِثْلِ التَّعْلِیمِ، وَالدُّعَائِ، وَنَحْوِہٖ، فَہٰذَا الرَّجُلُ یَتَبَرَّکُ بِعِلْمِہٖ وَدَعْوَتِہٖ إِلَی الْخَیْرِ، فَیَکُونُ ہٰذَا بَرَکَۃً لِّأَنَّنَا نِلْنَا مِنْہُ خَیْرًا کَثِیرًا، وَقَالَ أُسَیْدُ ابْنُ حُضَیْرٍ : مَا ہٰذِہٖ بِأَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یَا آلَ أَبِي بَکْرٍ، فَإِنَّ اللّٰہَ یَجْرِي عَلٰی بَعْضِ النَّاسِ مِنْ أُمُورِ الْخَیْرِ مَا لَا یَجْرِیہِ عَلٰی یَدِ الْآخَرِ، وَہُنَاکَ بَرَکَاتٌ مَّوْہُومَۃٌ بَاطِلَۃٌ مِّثْلُ مَا یَزْعُمُہُ الدَّجَّالُونَ أَنَّ فُلَانًا ـــ الْمَیِّتَ الَّذِي یَزْعُمُونَ أَنَّہٗ وَلِيٌّ ـــ أَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ بَرَکَتِہٖ، وَمَا أَشْبَہَ ذٰلِکَ، فَہٰذِہٖ بَرَکَۃٌ بَاطِلَۃٌ، لَا أَثَرَ لَہَا، وَقَدْ یَکُونُ لِلشَّیْطَانِ أَثَرٌ فِي ہٰذَا الْـأَمْرِ، لٰکِنَّہَا لَا تَعْدُو أَنْ تَکُونَ آثَارًا حِسِّیَّۃً، بِحَیْثُ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَخْدِمُ ہٰذَا الشَّیْخَ، فَیَکُونُ فِي ذٰلِکَ فِتْنَۃً، أَمَّا کَیْفِیَّۃُ مَعْرِفَۃِ ہَلْ ہٰذِہٖ مِنَ الْبَرَکَاتِ الْبَاطِلَۃِ أَوِ الصَّحِیحَۃِ؛ فَیُعْرَفُ ذٰلِکَ بِحَالِ الشَّخْصِ، فَإِنْ کَانَ مِنْ أَوْلِیَائِ اللّٰہِ الْمُتَّقِینَ الْمُتَّبِعِینَ لِلسُّنَّۃِ الْمُبْتَعِدِینَ عَنِ الْبِدْعَۃِ، فَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ یَجْعَلُ عَلٰی یَدَیْہِ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ مَا لاَ یَحْصُلُ لِغَیْرِہٖ، وَمِنْ ذٰلِکَ مَا جَعَلَ اللّٰہُ عَلٰی یَدِ شَیْخِ الْإِسْلَامِ ابْنِ تَیْمِیَّۃِ مِنَ الْبَرَکَۃِ الَّتِي انْتَفَعَ بِہَا النَّاسُ فِي حَیَاتِہٖ وَبَعْدَ مَوْتِہٖ، أَمَّا إِنْ کَانَ مُخَالِفًا لِّلْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، أَوْ یَدْعُو إِلٰی بَاطِلٍ، فَإِنَّ بَرَکَتَہٗ مَوْہُومَۃٌ، وَقَدْ تَضَعُہَا الشَّیَاطِینُ لَہٗ مُسَاعَدَۃً عَلٰی بَاطِلِہٖ، وَذٰلِکَ مِثْلُ مَا یَحْصُلُ لِبَعْضِہِمْ أَنَّہٗ یَقِفُ مَعَ النَّاسِ فِي عَرَفَۃَ ثُمَّ یَأْتِي إِلٰی بَلَدِہٖ، وَیُضَحِّي مَعَ أَہْلِ بَلَدِہٖ ۔
’’تبرک،برکۃ مادہ سے بابِ تفعل کا مصدر ہے۔بھلائی کی کثرت اور اس کے دوام کو برکت کہتے ہیں۔ــلفظ ِ برکت، بِرکۃ سے ماخوذ ہے،جو پانی کے تالاب کو کہا جاتا ہے۔تالاب کا بہتے ہوئے پانی سے دو طرح کا فرق ہوتا ہے؛ ایک زیادہ ہونے سے اور دوسرے ٹھہرنے سے۔تبرک برکت طلب کرنے کا نام ہے۔برکت کو طلب کرنا دو طرح سے ہو سکتا ہے؛ایک تو کسی شرعی معلوم امر سے،جیسے قرآنِ کریم سے برکت حاصل کرنا،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ} (جو کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے،مبارک ہے)۔ یہ اس کتاب کی برکت ہے کہ جو اسے اپنا لیتا ہے،اسے فتح حاصل ہوتی ہے۔اس کتاب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کو شرک سے بچایا۔یہ بھی قرآنِ کریم کی برکت ہے کہ ایک حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملتی ہیں۔اس سے انسان کے وقت اور محنت دونوں کی بچت ہوتی ہے۔یوں قرآنِ مجید کی اور بھی بہت سی برکات ہیں۔ برکت کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی حسی معلوم چیز سے برکت حاصل کی جائے،جیسے تعلیم،دعا وغیرہ سے۔کوئی شخص اپنے علم اور نیکی کی طرف دعوت کی وجہ سے متبرک ہے،تو اس سے برکت حاصل ہو گی،کیونکہ ہم اس سے بہت زیادہ بھلائی حاصل کر سکیں گے۔(مثلاًجب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے ہار گم ہونے پرتیمم کا حکم نازل ہوا،تو)سیدنا اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پرکہا تھا : اے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آل! یہ کوئی تمہاری پہلی برکت نہیں۔اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ہاتھ پر ان امورِ خیر کو جاری کر دیتا ہے،جو دوسروں کے ہاتھ پر جاری نہیں ہوتے۔لیکن بہت سی باطل اور وہم و گمان پر مبنی برکات ہیں،جیسے دجال قسم کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں مردہ،جسے وہ ولی سمجھ رہے ہوتے ہیں،نے تم پر یہ برکت نازل کی ہے،وغیرہ۔یہ باطل برکت ہے،جس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور بسااوقات تو شیطان اس معاملے میں تعاون کرتا ہے،لیکن یہ معاملات حسی آثار سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔شیطان اس بزرگ کا نام استعمال کرتا ہے اور وہ اس سلسلے میں فتنہ بن جاتا ہے۔رہی یہ بات کہ باطل اور صحیح برکات میں فرق کیسے کیا جائے، تو اس کی پہچان اس شخص کی حالت دیکھ کر ہو گی۔اگر وہ اللہ تعالیٰ کے متقین اولیا،سنت ِ رسول کے متبعین اور بدعت سے دُور رہنے والے افراد میں سے ہو،تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں میں ایسی خیر و برکت رکھ دیتا ہے،جو دوسروں سے حاصل نہیں ہوتی۔اس کی مثال وہ برکت ہے،جو اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمہ اللہ کے ہاتھ پر رکھی تھی،جس سے ان کی زندگی اور بعد از وفات لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں۔اگر وہ شخص کتاب وسنت کا مخالف ہویا باطل کی طرف دعوت دیتا ہو،تو اس کی برکت ایک وہمی امر ہے اور بسااوقات شیاطین اس کے باطل فعل پر معاونت کے لیے کسی امر کو رونما کرتے ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کے ساتھ عرفہ میں وقوف کرتے بھی پائے گئے،پھر وہ اپنے علاقے میں آ کر اہل علاقہ کے ساتھ قربانی کرتے بھی پائے گئے۔‘‘
(القول المفید علی کتاب التوحید : 194/1، 195)
b شیخ صالح بن عبد العزیز بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ(ولادت : 1959ئ) [موصوف اپنے والد ِگرامی،مفتی عرب،شیخ عبد العزیز بن محمد بن ابراہیم،شیخ عبد العزیز بن مرشد، شیخ عبد اللہ بن عقیل،شیخ عبد اللہ بن غدیان ،شیخ صالح اطرم،شیخ حماد انصاری اور شیخ اسماعیل انصاری کے شاگرد ہیں]فرماتے ہیں :
وَقَالَ سُبْحَانَہٗ : {وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ} (الصافات 37 : 113) وَقَالَ : {وَجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا} (مریم 19 : 31)، فَالَّذِي یُبَارِکُ؛ ہُوَ اللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا، فَلَا یَجُوزُ لِلْمَخْلُوقِ أَنْ یَّقُولَ : بَارَکْتُ عَلَی الشَّيْئِ، أَوْ أُبَارِکُ فِعْلَکُمْ، لِأَنَّ الْبَرَکَۃَ وَکَثْرَۃَ الْخَیْرِ وَلُزُومَہٗ وَثُبَاتَہٗ؛ إِنَّمَا ذٰلِکَ مِنَ الَّذِي بِیَدِہِ الْـأَمْرُ؛ وَہُوَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَدْ دَلَّتِ النُّصُوصُ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی أَنَّ الْـأَشْیَائَ الَّتِي أَحَلَّ اللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا الْبَرَکَۃَ فِیہَا؛ قَدْ تَکُونُ أَمْکِنَۃً أَوْ أَزْمِنَۃً، وَقَدْ تَکُونُ مَخْلُوقَاتٍ آدَمِیَّۃً ۔
فَہٰذَانِ قِسْمَانِ؛ اَلْقِسْمُ الْـأَوَّلُ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بَارَکَ بَعْضَ الْـأَمَاکِنِ کَبَیْتِ اللّٰہِ الْحَرَامِ، وَحَوْلَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، کَمَا قَالَ سُبْحَانَہٗ : {الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ} (الإسراء 17 : 1)، وَمَعْنٰی کَوْنِ الْـأَرْضِ مُبَارَکَۃً أَنْ یَّکُونَ فِیہَا الْخَیْرُ الْکَثِیرُ اللَّازِمُ، یَعْنِي أَبَدًا، أَنْ یُّتَمَسَّحَ بِأَرْضِہَا، أَوْ أَنْ یُّتَمَسَّحَ بِحِیطَانِہَا، لِأَنَّ بَرَکَتَہَا لَازِمَۃٌ لَّا تَنْتَقِلُ بِالذَّاتِ، یَعْنِي أَنَّکَ إِذَا لَامَسْتَ الْـأَرْضَ، أَوْ دُفِنْتَ فِیہَا، أَوْ تَبَرَّکْتَ بِہَا، فَإِنَّ بَرَکَتَہَا لَا تَنْتَقِلُ إِلَیْکَ بِالذَّاتِ، وَإِنَّمَا بَرَکَتَہَا مِنْ جِہَۃِ الْمَعْنٰی فَقَطْ، کَذٰلِکَ بَیْتُ اللّٰہِ الْحَرَامُ ہُوَ مُبَارَکٌ لَّا مِنْ جِہَۃِ ذَاتِہٖ، یَعْنِي لَیْسَ کَمَا یَعْتَقِدُ الْبَعْضُ أَنَّ مَنْ تَمَسَّحَ بِہِ انْتَقَلَتْ إِلَیْہِ الْبَرَکَۃُ، وَإِنَّمَا ہُوَ مُبَارَکٌ مِّنْ جِہَۃِ الْمَعْنٰی، یَعْنِي اجْتَمَعَتْ فِیہِ الْبَرَکَۃُ الَّتِي جَعَلَہَا اللّٰہُ فِي ہٰذِہِ الْبِنْیَۃِ؛ مِنْ جِہَۃِ تَعَلُّقِ الْقُلُوبِ بِہَا، وَکَثْرَۃِ الْخَیْرِ الَّذِي یَکُونُ لِمَنْ أَرَادَہَا وَأَتَاہَا وَطَافَ بِہَا، وَتَعَبَّدَ عِنْدَہَا، وَکَذٰلِکَ الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ؛ ہُوَ حَجَرٌ مُّبَارَکٌ، وَلٰکِنْ بَرَکَتُہٗ لِأَجْلِ الْعِبَادَۃِ، یَعْنِي أَنَّ مَنِ اسْتَلَمَہٗ تَعَبُّدًا مُّطِیعًا لِّلنَّبِيِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِلَامِہٖ لَہٗ، وَفِي تَقْبِیلِہٖ، فَإِنَّہٗ یَنَالُہٗ بِہٖ بَرَکَۃَ الِاتِّبَاعِ، وَقَدْ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا قَبَّلَ الْحَجَرَ : إِنِي لَـأَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَّا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ، فَقَوْلُہٗ : لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ، یَعْنِي لَا یَجْلِبُ لِمَنْ قَبَّلَہٗ شَیْئًا مِّنَ النَّفْعِ، وَلَا یَدْفَعُ عَنْ أَحَدٍ شَیْئًا مِّنَ الضُّرِّ، وَإِنَّمَا الْحَامِلُ عَلَی التَّقْبِیلِ مُجَرَّدُ الاِتِّسَائُ، تَعَبُّدًا لِّلّٰہِ، وَلِذٰلِکَ قَالَ : وَلَوْلَا أَنِّي رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ؛ مَا قَبَّلْتُکَ، فَہٰذَا مَعْنَی الْبَرَکَۃِ الَّتِي جُعِلَتْ فِي الْـأَمْکِنَۃِ، وَأَمَّا مَعْنٰی کَوْنِ الزَّمَانِ مُبَارَکًا؛ مِثْلَ شَہْرِ رَمَضَانَ، أَوْ بَعْضِ أَیَّامِ اللّٰہِ الْفَاضِلَۃِ، فَیَعْنِي أَنَّ مَنْ تَعَبَّدَ فِیہَا، وَرَامَ الْخَیْرَ فِیہَا، فَإِنَّہٗ یَنَالُ مِنْ کَثْرَۃِ الثَّوَابِ مَا لَا یَنَالُہٗ فِي غَیْرِہَا مِنَ الْـأَزْمِنَۃِ ۔
وَالْقِسْمُ الثَّانِي الْبَرَکَۃُ الْمُنَوَّطَۃُ بِبَنِي آدَمَ، وَہِيَ الْبَرَکَۃُ الَّتِي جَعَلَہَا اللّٰہُ جَلَّ وَعََلَا فِي الْمُؤْمِنِینَ مِنَ النَّاسِ، وَعَلٰی رَأْسِہِمْ سَادَۃُ الْمُؤْمِنِینَ مِنَ الْـأَنْبِیَائِ وَالرُّسُلِ، فَہٰؤُلَائِ بَرَکَتُہُمْ بَرَکَۃٌ ذَاتِیَۃٌ، یَعْنِي أَنَّ أَجْسَامَہُمْ مُّبَارَکَۃٌ، فَاللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا ہُوَ الَّذِي جَعَلَ جَسَدَ آدَمَ مُبَارَکًا، وَجَعَلَ جَسَدَ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مُبَارَکًا، وَجَعَلَ جَسَدَ نُوحٍ مُّبَارَکًا، وَہٰکَذَا جَسَدَ عِیسٰی وَمُوسٰی، عَلَیْہِمْ جَمِیعًا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ جَعَلَ أَجْسَادَہُمْ جَمِیعًا مُّبَارَکَۃً، بِمَعْنٰی أَنَّہٗ لَوْ تَبَرَّکَ أَحَدٌ مِّنْ أَقْوَامِہِمْ بِأَجْسَادِہِمْ، إِمَّا بِالتَّمَسُّحِ بِہَا، أَوْ بِأَخْذِ عَرَقِہَا، أَوِ التَّبَرُّکِ بِبَعْضِ أَشْعَارِہِمْ، فَہٰذَا جَائِزٌ، لِأَنَّ اللّٰہَ جَعَلَ أَجْسَادَہُمْ مُّبَارَکَۃً بَرَکَۃً مُّتَعَدِّیَۃً، وَہٰکَذَا نَبِیُّنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَسَدُہٗ أَیْضًا جَسَدٌ مُّبَارَکٌ؛ وَلِہٰذَا وَرَدَ فِي السُّنَّۃِ أَنَّ الصَّحَابَۃَ کَانُوا یَتَبَرَّکُونَ بَعَرَقِہٖ، وَیَتَبَرَّکُونَ بِشَعْرِہٖ، وَإِذَا تَوَضَّأَ اقْتَتَلُوا عَلٰی وَضُوئِہٖ، إِلٰی آخِرِ مَا وَرَدَ فِي ذٰلِکَ، ذٰلک أَنَّ أَجْسَادَ الْـأَنْبِیَائِ فِیہَا بَرَکَۃٌ ذَاتِیَۃٌ یَّنْتَقِلُ أَثَرُہَا إِلٰی غَیْرِہِمْ، وَہٰذَا مَخْصُوصٌ بِالْـأَنْبِیَائِ وَالرُّسُلِ، أَمَّا غَیْرُہُمْ؛ فَلَمْ یَرِدْ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ مِنْ أَصْحَابِ الْـأَنْبِیَائِ وَالرُّسُلِ مَنْ بَرَکَتُہُمْ بَرَکَۃٌ ذَاتِیَۃٌ، حَتّٰی أَفْضَلُ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ أَبُو بَکْرٍ وَّعُمَرُ، فَقَدْ جَائَ بِالتَّوَاتُرِ الْقَطْعِيِّ أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَالتَّابِعِینَ وَالْمُخَضْرَمِینَ لَمْ یَکُونُوا یَتَبَرَّکُونَ بِأَبِي بَکْرٍ وَّعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ، کَمَا کَانُوا یَتَبَرَّکُونَ بِشَعْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ بِوَضُوئِہٖ، أَوْ بِنُخَامَتِہٖ، أَوْ بِعَرَقِہٖ، أَوْ بِمَلَابِسِہٖ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، فَعَلِمْنَا بِہٰذَا التَّوَاتُرِ الْقَطْعِيِّ أَنَّ بَرَکَۃَ أَبِي بَکْرٍ وَّعُمَرَ إِنَّمَا ہِي بَرَکَۃُ عَمَلٍ، لَیْسَتْ بَرَکَۃَ ذَاتٍ تَنْتَقِلُ، کَمَا ہِيَ بَرَکَۃُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلِہٰذَا جَائَ فِي الْحَدِیثِ الَّذِي رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ فِي صَحِیحِہٖ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ لَمَا بَرَکَتُہٗ کَبَرَکَۃِ الْمُسْلِمِ، فَدَلَّ ہٰذَا عَلٰی أَنَّ فِي کُلِّ مُسْلِمٍ بَّرَکَۃٌ، وَفِي الْبُخَارِيِّ أَیْضًا قَوْلُ أُسَیْدِ بْنِ حُضَیْرٍ : مَا ہٰذِہٖ بِأَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یَا آلَ أَبِي بَکْرٍ، فَہٰذِہِ الْبَرَکَۃُ الَّتِي أُضِیفَتْ لِکُلِّ مُسْلِمٍ، وَأُضِیفَتْ لِآلِ أَبِي بَکْرٍ، ہِيَ بَرَکَۃُ عَمَلٍ، ہٰذِہِ الْبَرَکَۃُ رَاجِعَۃٌ إِلَی الْإِیمَانِ، وَإِلَی الْعِلْمِ، وَالدَّعْوَۃِ، وَالْعَمَلِ، فَکُلُّ مُسْلِمٍ فِیہِ بَرَکَۃٌ، وَہٰذِہِ الْبَرَکَۃُ لَیْسَتْ بَرَکَۃَ ذَاتٍ، وَإِنَّمَا ہِيَ بَرَکَۃُ عَمَلٍ، وَبَرَکَۃُ مَا مَعَہٗ مِنَ الْإِسْلَامِ وَالْإِیمَانِ، وَمَا فِي قَلْبِہٖ مِنَ الْإِیقَانِ، وَالتَّعْظِیمِ لِلّٰہِ جَلَّ وَعَلَا، وَالْإِجْلَالِ لَہٗ، وَالِاتِّبَاعِ لِرَسُولِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَہٰذِہِ الْبَرَکَۃُ الَّتِي فِي الْعِلْمِ، أَوِ الْعَمَلِ، أَوِ الصَّلَاحِ، لاَ تَنْتَقِلُ مِنْ شَخْصٍ إِلٰی آخَرَ، وَعَلَیْہِ فَیَکُونُ مَعْنَی التَّبَرُّکِ بِأَہْلِ الصَّلَاحِ؛ ہُوَ الِاقْتِدَائُ بِہِمْ فِي صَلَاحِہِمْ، وَالتَّبَرُّکُ بِأَہْلِ الْعِلْمِ؛ ہُوَ الْـأَخْذُ مِنْ عِلْمِہِمْ وَالِاسْتِفَادَۃُ مِنْہُ وَہٰکَذَا، وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُّتَبَرَّکَ بِہِمْ بِمَعْنٰی أَنْ یُّتَمَسَّحَ بِہِمْ، أَوْ یُتَبَرَّکُ بِرِیقِہِمْم، لِأَنَّ أَفْضَلَ الْخَلْقِ مِنْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ، وَہُمُ الصَّحَابَۃُ، لَمْ یَفْعَلُوا ذٰلِکَ مَعَ خَیْرِ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ أَبِي بَکْرٍ وَّعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ، وَہٰذَا أَمْرٌ مَّقْطُوعٌ بِہٖ، فَمَعْنٰی تَبَرُّکِ الْمُشْرِکِینَ أَنَّہُمْ کَانُوا یَرْجُونَ کَثْرَۃَ الْخَیْرِ، وَدَوَامَ الْخَیْرِ، وَلُزُومَ الْخَیْرِ، وَثُبَاتَ الْخَیْرِ بِالتَّوَجُّہِ إِلَی الْآلِہَۃِ، وَہٰذِہِ الْآلِہَۃُ یَکُونُ مِنْہَا الصَّنَمُ الَّذِي مِنَ الْحِجَارَۃِ، وَالْقَبْرِ مِنَ التُّرَابِ، وَیَکُونُ مِنْہَا الْوَثَنُ وَالشَّجَرُ، وَیَکُونُ مِنْہَا الْبِقَاعُ الْمُخْتَلِفَۃُ، کَالْغَارِ أَوْ عَیْنِ مَائٍ، أَوْ نَحْوِ ذٰلِکَ، فَہٰذِہِ التَّبَرُّکَاتُ الْمُخْتَلِفَۃُ جَمِیعُہَا تَبَرُّکَاتٌ شِرْکِیَّۃٌ ۔
’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِسْحَاقَ} (الصافات 37 : 113)(ہم نے ابراہیم اور اسحاقiپر برکت نازل کی)نیز فرمایا:{وَجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا} (مریم 19 : 31) (اور مجھے[عیسیٰ علیہ السلام کو] مبارک بنایا)۔یعنی برکت دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔کسی مخلوق کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ میں نے فلاں چیز کو برکت دی ہے یا میں تمہارے کام کو مبارک کروں گا،کیونکہ برکت،کثرت ِخیر اور لزوم و ثبات ِخیر اسی ذات کے پاس ہے،جس کے ہاتھ میں سب معاملات ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔کتاب و سنت کی نصوص یہ بتاتی ہیں کہ جن چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہے،وہ جگہوں کی صورت میں بھی ہیں،وقت کی صورت میں بھی ہیں اور انسانوں کی صورت میں بھی۔اس کی دو قسمیں ہیں:پہلی تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بعض جگہوں کو برکت دی ہے،جیسے بیت اللہ الحرام کو اور بیت المقدس کے ماحول کو،جیسے فرمایا : {الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ} (الإسراء 17 : 1) (جس کے اردگرد کو ہم نے برکت دی)۔تو جگہ کے مبارک ہونے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس میں خیر کثیر ہوتی ہے،جو اس میں لازم، یعنی ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ (برکت کی نیت سے) اس جگہ کی زمین کو چھوا جائے یا اس کی دیواروں کو مس کیا جائے،کیونکہ اس کی برکت اس جگہ کے ساتھ لازم ہوتی ہے،بالذات منتقل نہیں ہوتی۔اگر آپ اس جگہ کو ہاتھ لگائیں یا اس میں دفن ہو جائیں یا اس سے تبرک حاصل کرنے کی کوشش کریں،تو اس کی برکت آپ کی طرف بالذات منتقل نہیں ہو گی۔اس کی برکت تو صرف معنوی ہوتی ہے۔یوں بیت اللہ الحرام مبارک ہے،لیکن معنوی طور پر بالذات نہیں۔بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو بیت اللہ کو چھوئے گا،اس کی برکت اس پر منتقل ہو جائے گی،یہ خیال درست نہیں،کیونکہ بیت اللہ معنوی طور پر مبارک ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمارت میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کئی برکتیں جمع ہیں،مثلاً دل اس کے ساتھ اٹک جاتے ہیں،جو اس میں آنے کا ارادہ کرتا ہے،آتا ہے اور طواف کرتا ہے اور اس کے پاس عبادت کرتا ہے،اس کو خیر کثیر حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح حجر اسود مبارک پتھر ہے،لیکن اس کی برکت صرف عبادت کے لیے ہے،یعنی جو اس کو عبادت کے لیے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چومتا ہے اور اس کا استلام کرتا ہے،اسے اس بنا پر اتباع کی برکت حاصل ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب حجر اسود کو چوما تو فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے،نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان یہ بتاتا ہے کہ جو شخص حجر اسود کو چومتا ہے، حجراسود نہ اسے نفع کی کوئی صورت دے سکتا ہے نہ اس سے کسی نقصان والی چیز کو دُور کر سکتا ہے۔اسے چومنے کا باعث صرف اللہ کی عبادت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔اسی لیے پھر انہوں نے فرمایا : اگر میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھتا،تو میں بھی تجھے نہ چومتا۔جگہوں میں برکت ہونے کا یہی معنیٰ ہے۔اور کسی وقت،مثلاً ماہِ رمضان یا دیگر فضیلت والے ایام کے مبارک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان دنوں میں عبادت کرے گا اور خیر کا ارادہ کرے گا، وہ باقی اوقات کے مقابلے میں زیادہ ثواب حاصل کرے گا۔
دوسری قسم وہ ہے جو انسانوں میں ودیعت کی ہے،یہ وہ برکت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مؤمن لوگوں میں رکھ دیا ہے۔ان لوگوں میں سرفہرست مؤمنوں کے سردار انبیا و رسل ہیں۔انبیائِ کرام کی برکت ذاتی ہوتی ہے،یعنی ان کے اجسام برکت والے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے جسم کو مبارک بنایا،ابراہیم علیہ السلام کے جسم کو مبارک بنایا،نوح علیہ السلام کے جسم کو مبارک بنایا،اسی طرح عیسیٰ و موسیٰiکے اجسام کو مبارک بنایا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کے کسی امتی نے ان کے اجسام کو چھو کر یا ان کا پسینہ لے کر یا ان کے بالوں سے برکت حاصل کی،تو یہ جائز تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اجسام کو ایسی برکت نصیب فرمائی تھی،جو آگے منتقل بھی ہوتی تھی۔اسی طرح ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بھی مبارک تھا۔ اسی لیے احادیث میں وارد ہے کہ صحابہ کرام] آپ کے پسینے اور بالوں سے تبرک لیتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے،تو وہ آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے میں باہم مقابلہ کرتے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر تبرکات کا معاملہ تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انبیائِ کرام کے اجسام میں برکت ذاتی تھی جس کا اثر دوسروں تک منتقل بھی ہوتا تھا۔لیکن یہ معاملہ ابنیا ورسل کے ساتھ خاص ہے۔ان کے علاوہ انبیائِ کرام کے صحابہ میں سے کسی صحابی کے بارے میں بھی یہ وارد نہیں کہ ان کی برکت ذاتی ہو۔یہاں تک کہ امت ِمحمدیہqکی سب سے بزرگ ہستیاں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں،ان کے بارے میں بھی تواتر ِقطعی سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صحابہ کرام،تابعین اور مخضرمین(جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا، لیکن زیارت نہ کر سکے) سیدنا ابو بکر و عمراور عثمان و علیy سے تبرک نہیں لیتے تھے،جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں،وضو کے پانی، تھوک، پسینے، لباس وغیرہ سے تبرک لیا جاتا تھا۔اس تواتر ِقطعی سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی برکت، عمل والی برکت تھی۔یہ ذاتی برکت نہیں تھی،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی طرح دوسروں کو منتقل ہوتی ہو۔اسی لیے صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک درخت کی برکت ایسی ہے جیسے مسلمان کی برکت ہوتی ہے۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ ہر مسلمان میں برکت ہوتی ہے۔صحیح بخاری ہی میں سیدنا اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہکا یہ قول موجود ہے :(انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا ہار گم ہونے کی وجہ سے آیت ِ تیمم کے نزول پرفرمایا:)اے آلِ ابو بکر! یہ کوئی تمہاری پہلی برکت نہیں۔یہ وہی برکت ہے،جسے ہر مسلمان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور آلِ ابوبکر کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے۔یہ عمل والی برکت ہے اور یہی برکت ایمان،علم،دعوت اور عمل کی طرف لے کر جاتی ہے۔لہٰذا ہر مسلمان میں برکت موجود ہوتی ہے،لیکن یہ برکت ذاتی نہیں ہوتی،بلکہ عمل کی اور مسلمان میں موجود اسلام و ایمان اور اس کے دل میں موجود یقین،اللہ تعالیٰ کی تعظیم،اس کے جلال اور اتباعِ رسول کی برکت ہوتی ہے۔یہی برکت ہے جو علم،عمل اور نیکی میں ہوتی ہے، یہ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتی۔اسی بنا پر نیک لوگوں سے تبرک کا معنیٰ یہ ہے کہ نیکی میں ان کی اقتدا کی جائے،اہل علم سے تبرک کا معنیٰ یہ ہو گا کہ ان سے علم حاصل کیا جائے اور استفادہ کیا جائے۔ان سے اس طرح تبرک لینا جائز نہیں کہ ان کو چھوا جائے یا ان کے لعاب سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ اس امت کی سب سے بزرگ ہستیاں صحابہ کرام ہیں،انہوں نے اس امت کی بزرگ ترین ہستیوں، سیدنا ابو بکروعمر اور عثمان و علیyسے ایسا تبرک حاصل نہیں کیا اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مشرکین کے تبرک کی یہی صورت تھی کہ وہ اپنے معبودوں کی طرف توجہ کر کے کثرت ِ خیر،دوامِ خیر اور لزوم و ثبات ِخیر کی امید کرتے تھے۔ان کے معبودوں میںپتھرکے بت،مٹی کی قبریں،آستانے، درخت، مختلف جگہیں،جیسے غاریں،چشمے وغیرہ شامل تھے۔یہ سارے تبرکات شرکیہ ہیں۔‘‘
(التمہید لشرح کتاب التوحید، ص : 127-124)
b شیخ الاسلام،ابن تیمیہرحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ الْقَائِلِ : نَحْنُ فِي بَرَکَۃِ فُلَانٍ، أَوْ مِنْ وَّقْتِ حُلُولِہٖ عِنْدَنَا حَلَّتِ الْبَرَکَۃُ، فَہٰذَا الْکَلَامُ صَحِیحٌ بِاعْتِبَارٍ بَاطِلٌ بِاعْتِبَارٍ، فَأَمَّا الصَّحِیحُ : فَأَنْ یُّرَادَ بِہٖ أَنَّہٗ ہَدَانَا وَعَلَّمَنَا وَأَمَرَنَا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ، فَبِبَرَکَۃِ اتِّبَاعِہٖ وَطَاعَتِہٖ؛ حَصَلَ لَنَا مِنَ الْخَیْرِ مَا حَصَلَ، فَہٰذَا کَلَامٌ صَحِیحٌ، کَمَا کَانَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ لَمَّا قَدِمَ عَلَیْہِمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي بَرَکَتِہٖ لَمَّا آمَنُوا بِہٖ وَأَطَاعُوہُ، فَبِبَرَکَۃِ ذٰلِکَ حَصَلَ لَہُمْ سَعَادَۃُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، بَلْ کُلُّ مُؤْمِنٍ آمَنَ بِالرَّسُولِ وَأَطَاعَہٗ حَصَلَ لَہٗ مِنْ بَرَکَۃِ الرَّسُولِ بِسَبَبِ إیمَانِہٖ وَطَاعَتِہٖ مِنْ خَیْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ مَا لَا یَعْلَمُہٗ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَیْضًا إِذَا أُرِیدَ بِذٰلِکَ أَنَّہٗ بِبَرَکَۃِ دُعَائِہٖ وَصَلَاحِہٖ دَفَعَ اللّٰہُ الشَّرَّ وَحَصَلَ لَنَا رِزْقٌ وَّنَصْرٌ، فَہٰذَا حَقٌّ، کَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’وَہَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ؛ بِدُعَائِہِمْ وَصَلَاتِہِمْ وَإِخْلَاصِہِمْ‘، وَقَدْ یَدْفَعُ الْعَذَابَ عَنِ الْکُفَّارِ وَالْفُجَّارِ لِئَلَّا یُصِیبَ مِنْ بَیْنِہِمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ مِمَّنْ لَّا یَسْتَحِقُّ الْعَذَابَ، وَمِنْہُ قَوْلُہٗ تَعَالٰی : {وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَائٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ أَنْ تَطَئُوْھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ مبِغَیْرِ عِلْمٍ لِّیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَائُ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا} (الفتح 48 : 25)، فَلَوْلَا الضُّعَفَاء ُ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ کَانُوا بِمَکَّۃَ بَیْنَ ظَہْرَانَيِ الْکُفَّارِ؛ عَذَّبَ اللّٰہُ الْکُفَّارَ، وَکَذٰلِکَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَوْلَا مَا فِي الْبُیُوتِ مِنَ النِّسَائِ وَالذَّرَارِيِّ؛ لَـأَمَرْتُ بِالصَّلَاۃِ، فَتُقَامُ، ثُمَّ أَنْطَلِقُ مَعِيَ بِرِجَالٍ مَّعَہُمْ حُزَمٌ مِّنْ حَطَبٍ إِلٰی قَوْمٍ لَّا یَشْہَدُونَ الصَّلَاۃَ مَعَنَا، فَأُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوتَہُمْ‘، وَکَذٰلِکَ تَرَکَ رَجْمَ الْحَامِلِ حَتّٰی تَضَعَ جَنِینَہَا، وَقَدْ قَالَ الْمَسِیحُ عَلَیْہِ السَّلَامُ {وَجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ} (مریم 19 : 31)، فَبَرَکَاتُ أَوْلِیَائِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ بِاعْتِبَارِ نَفْعِہِمْ لِلْخَلْقِ بِدُعَائِہِمْ إِلٰی طَاعَۃِ اللّٰہِ، وَبِدُعَائِہِمْ لِلْخَلْقِ، وَبِمَا یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ الرَّحْمَۃِ، وَیَدْفَعُ مِنَ الْعَذَابِ بِسَبَبِہِمْ؛ حَقٌّ مَّوْجُودٌ، فَمَنْ أَرَادَ بِالْبَرَکَۃِ ہٰذَا، وَکَانَ صَادِقًا؛ فَقَوْلُہٗ حَقٌّ، وَأَمَّا الْمَعْنَی الْبَاطِلُ؛ فَمِثْلُ أَنْ یُّرِیدَ الْإِشْرَاکَ بِالْخَلْقِ، مِثْلُ أَنْ یَّکُونَ رَجُلٌ مَّقْبُورٌ بِمَکَانٍ، فَیُظَنُّ أَنَّ اللّٰہَ یَتَوَلَّاہُمْ لِأَجْلِہٖ، وَإِنْ لَّمْ یَقُومُوا بِطَاعَۃِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ، فَہٰذَا جَہْلٌ، فَقَدْ کَانَ الرَّسُولُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیِّدَ وَلَدِ آدَمَ، مَدْفُونٌ بِالْمَدِینَۃِ عَامَ الْحَرَّۃِ، وَقَدْ أَصَابَ أَہْلَ الْمَدِینَۃِ مِنَ الْقَتْلِ وَالنَّہْبِ وَالْخَوْفِ مَا لَا یَعْلَمُہٗ إِلَّا اللّٰہُ، وَکَانَ ذٰلِکَ لِأَنَّہُمْ بَعْدَ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ أَحْدَثُوا أَعْمَالًا أَوْجَبَتْ ذٰلِکَ، وَکَانَ عَلٰی عَہْدِ الْخُلَفَائِ یَدْفَعُ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِإِیمَانِہِمْ وَتَقْوَاہُمْ، لِأَنَّ الْخُلَفَائَ الرَّاشِدِینَ کَانُوا یَدْعُونَہُمْ إِلٰی ذٰلِکَ، وَکَانَ بِبَرَکَۃِ طَاعَتِہِمْ لِلْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ وَبَرَکَۃِ عَمَلِ الْخُلَفَائِ مَعَہُمْ؛ یَنْصُرُہُمْ اللّٰہُ وَیُؤَیِّدُہُمْ، وَکَذٰلِکَ الْخَلِیلُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَدْفُونٌ بِالشَّامِ، وَقَدِ اسْتَوْلَی النَّصَارٰی عَلٰی تِلْکَ الْبِلَادِ قَرِیبًا مِّنْ مِّائَۃِ سَنَۃٍ، وَکَانَ أَہْلُہَا فِي شَرٍّ، فَمَنْ ظَنَّ أَنَّ الْمَیِّتَ یَدْفَعُ عَنِ الْحَيِّ مَعَ کَوْنِ الْحَيِّ عَامِلًا بِمَعْصِیَۃِ اللّٰہِ؛ فَہُوَ غَالِطٌ، وَکَذٰلِکَ إِذَا ظَنَّ أَنَّ بَرَکَۃَ الشَّخْصِ تَعُودُ عَلٰی مَنْ أَشْرَکَ بِہٖ، وَخَرَجَ عَنْ طَاعَۃِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ، مِثْلُ أَنْ یَّظُنُّ أَنَّ بَرَکَۃَ السُّجُودِ لِغَیْرِہٖ، وَتَقْبِیلِ الْـأَرْضِ عِنْدَہٗ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ یُحَصِّلُ لَہُ السَّعَادَۃَ، وَإِنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِطَاعَۃِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ، وَکَذٰلِکَ إِذَا اعْتَقَدَ أَنَّ ذٰلِکَ الشَّخْصَ یَشْفَعُ لَہٗ وَیُدْخِلُہُ الْجَنَّۃَ بِمُجَرَّدِ مَحَبَّتِہٖ وَانْتِسَابِہٖ إِلَیْہِ؛ فَہٰذِہِ الْـأُمُورُ وَنَحْوُہَا مِمَّا فِیہِ مُخَالَفَۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَہُوَ مِنْ أَحْوَالِ الْمُشْرِکِینَ وَأَہْلِ الْبِدَعِ، بَاطِلٌ لَّا یَجُوزُ اعْتِقَادُہٗ وَلَا اعْتِمَادُہٗ، وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
’’کسی کا یہ کہنا کہ ہم فلاں کی برکت میں ہیں یا اس کے ہمارے پاس آنے کے وقت سے ہمارے پاس برکت نازل ہونا شروع ہو گئی ہے؛یہ کلام ایک اعتبار سے درست اور ایک اعتبار سے باطل ہے۔صحیح اس طرح ہے کہ اس سے مراد یہ ہو ؛ اس نے ہماری راہنمائی کی،ہمیں دین سکھایا،ہمیں نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا،یوں اس کی پیروی و اطاعت کی برکت سے ہمیں یہ بھلائی حاصل ہو گئی ہے۔ یہ کلام درست ہے،جیسا کہ اہل مدینہ کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے اور آپ کی اطاعت کی،تو اس عمل کی برکت سے انہیں دنیا و آخرت کی سعادت حاصل ہو گئی۔بلکہ جو شخص بھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی اطاعت کرتا ہے،اسے ایمان و اطاعت کی وجہ سے دنیا و آخرت کی بے انتہا بھلائی کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت حاصل ہو گی۔اسی طرح جب یہ مراد ہو کہ کسی شخص کی دُعا و صلاح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شر کو ختم کر دیا اور ہمیں رزق و نصرت حاصل ہو گئی،تو یہ بھی درست ہے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری مدد صرف تمہارے کمزوروں کی دُعا،نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کی جاتی ہے۔کبھی اللہ تعالیٰ کفار و فجار سے عذاب اس لیے ٹال دیتا ہے کہ ان کے درمیان رہنے والے مؤمنین کو یہ عذاب نہ پہنچ جائے، جو اس کے مستحق نہیں۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی مدعا ہے : {وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَائٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ أَنْ تَطَئُوْھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ مبِغَیْرِ عِلْمٍ لِّیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَائُ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا} (الفتح 48 : 25) (اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم انہیں پامال کر دیتے تو تمہیں ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ جاتا(تو بھی تمہیں فتح ہوجاتی مگر تاخیر)اس لئے(ہوئی)کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے۔اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو ان میں سے کافر وں کو ہم دردناک عذاب سے دوچار کرتے)۔یعنی اگر مکہ میں کفار کے درمیان کمزور مؤمن موجود نہ ہوتے،تو اللہ تعالیٰ کفار پر عذاب نازل فرماتا۔اسی طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں حکم دیتا، نماز کی اقامت کہی جاتی،پھر میں اپنے ساتھ ایسے مردوں کو لے کر ،جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوتے،ان لوگوں کی طرف چلتا جو ہمارے ساتھ نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور میں ان کے گھروں کو جلا دیتا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم (زنا کرنے والی)حاملہ عورت کو اس وقت تک رجم کرنے سے رُک گئے جب تک اس نے بچے کو نہیں جن لیا۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : {وَجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ}(مریم 19 : 31)(میں جہاں بھی ہوں،اللہ تعالیٰ نے مجھے مبارک بنایا ہے)۔چنانچہ اولیاء اللہ کی برکات اس اعتبار سے ہوتی ہیں کہ وہ مخلوق کو اطاعت ِ الٰہی کی طرف دعوت دیتے ہیں،ان کے لیے دُعا کرتے ہیں اور ان کے سبب اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اور وہ عذاب سے بچتے ہیں۔یہ صورت برحق اور موجود ہے۔جو سچا شخص برکت سے یہ مراد لیتا ہے،اس کی بات برحق ہے۔ رہا برکت کا غلط معنیٰ،تو وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے،جیسے کوئی بزرگ کسی جگہ دفن ہو اور اس کے بارے میں یہ گمان کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے،اگرچہ وہ اللہ و رسول کی اطاعت بجا نہ بھی لاتے ہوں۔یہ اعتقاد جہالت پر مبنی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اولاد ِآدم کے سردار تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دفن تھے،لیکن حادثۂ حرہ کی صورت میں اہل مدینہ اس قتل و لوٹ مار اور خوف کا شکار ہوئے،جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔یہ سانحہ اس لیے پیش آیا کہ خلفاء ِراشدین کے بعد اہل مدینہ نے ایسے اعمال ایجاد کر لیے تھے،جن کی بنا پر اس حادثہ کا پیش آنا ضروری ہو گیا تھا۔ خلفاء ِ راشدین کے دَور میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان و تقویٰ کی وجہ سے اہل مدینہ کو عذاب سے بچایا ہوا تھا،کیونکہ خلفا لوگوں کو ایمان و تقویٰ کی طرف دعوت دیتے تھے۔خلفا کی اطاعت کی برکت اور خود خلفا کے عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی نصرت و تائید کرتا تھا۔اسی طرح خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام شام میں مدفون ہیں،اس کے باوجود نصاریٰ ان علاقوں پر تقریباً سو سال تک قابض رہے ہیںاہل شام اس دوران بہت مصیبت میں تھے۔لہٰذا جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی مرنے والی ہستی کسی زندہ شخص کو گناہ گار ہونے کے باوجود عذاب سے بچاتی ہے، وہ غلطی پر ہے۔اسی طرح جب کوئی شخص یہ اعتقاد رکھے کہ کسی ہستی کی برکت اسے حاصل ہوتی ہے،جو اس ہستی کو اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اور اللہ و رسول کی اطاعت چھوڑ دیتا ہے،مثلاً وہ یہ سمجھ لے کہ غیر اللہ کو سجدہ،غیراللہ کے پاس زمین کو بوسہ دینا وغیرہ سعادت کا سبب بنتا ہے،اگرچہ وہ اللہ و رسول کی اطاعت نہ بھی کرے، نیز وہ غیر اللہ اس کے لیے سفارش کرے گا اور اپنی محبت اور انتساب کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کرائے گا،تو ایسے کتاب و سنت کے مخالف امور مشرکین و اہل بدعت کا پیشہ ہیں۔یہ باطل امور ہیں،جن پر اعتقاد و اعتماد جائز نہیں،واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 115-113/11)
n قارئین کرام! یہاں رُک کر شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمہ اللہ (728-661ھ)کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اظہار ِعقیدت بھی ملاحظہ فرمائیں:
وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجِبُ عَلَیْنَا أَنْ نُّحِبَّہٗ حَتّٰی یَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْنَا مِنْ أَنْفُسِنَا وَآبَائِنَا وَأَبْنَائِنَا وَأَہْلِنَا وَأَمْوَالِنَا، وَنُعَظِّمَہٗ، وَنُوَقِّرَہٗ، وَنُطِیعَہٗ بَاطِنًا وَّظَاہِرًا، وَنُوَالِيَ مَنْ یُّوَالِیہِ، وَنُعَادِيَ مَنْ یُّعَادِیہِ، وَنَعْلَمَ أَنَّہٗ لَا طَرِیقَ إِلَی اللّٰہِ إِلَّا بِمُتَابَعَتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا یَکُونُ وَلِیًّا لِّلّٰہِ، بَلْ وَلَا مُؤْمِنًا وَلَا سَعِیدًا نَّاجِیًا مِنَ الْعَذَابِ؛ إِلَّا مَنْ آمَنَ بِہٖ، وَاتَّبَعَہٗ بَاطِنًا وَّظَاہِرًا، وَلَا وَسِیلَۃَ یُتَوَسَّلُ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا؛ إِلَّا الْإِیمَانُ بِہٖ وَطَاعَتُہٗ، وَہُوَ أَفْضَلُ الْـأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ، وَخَاتَمُ النَّبِیِّینَ، وَالْمَخْصُوصُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِالشَّفَاعَۃِ الْعُظْمَی الَّتِي مَیَّزَہُ اللَّہُ بِہَا عَلٰی سَائِرِ النَّبِیِّینَ، صَاحِبُ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، وَاللِّوَائِ الْمَعْقُودِ لِوَائِ الْحَمْدِ، آدَمُ فَمَنْ دُونَہٗ تَحْتَ لِوَائِہٖ، وَہُوَ أَوَّلُ مَنْ یَّسْتَفْتِحُ بَابَ الْجَنَّۃِ، فَیَقُولُ الْخَازِنُ : مَنْ أَنْتَ؟ فَیَقُولُ : أَنَا مُحَمَّدٌ، فَیَقُولُ : بِکَ أُمِرْتُ أَنْ لَّا أَفْتَحَ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ، وَقَدْ فَرَضَ عَلٰی أُمَّتِہٖ فَرَائِضَ، وَسَنَّ لَہُمْ سُنَنًا مُّسْتَحَبَّۃً، فَالْحَجُّ إِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ فَرْضٌ، وَالسَّفَرُ إِلٰی مَسْجِدِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْـأَقْصٰی لِلصَّلَاۃِ فِیہِمَا وَالْقِرَائَۃِ وَالذِّکْرِ وَالدُّعَائِ وَالِاعْتِکَافِ مُسْتَحَبٌّ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ، وَإِذَا أَتٰی مَسْجِدَہٗ، فَإِنَّہٗ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ وَیُصَلِّي عَلَیْہ، وَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ فِي الصَّلَاۃِ وَیُصَلِّی عَلَیْہِ فِیہَا ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت ہم پر فرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہماری جانوں، ہمارے آباواجداد،ہماری اولادوں،ہمارے اہل وعیال اور ہمارے اموال سے بڑھ کر محبوب ہو جائیں۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر،آپ کی ظاہری و باطنی اطاعت،آپ سے محبت رکھنے والوں سے محبت اور آپ کی دشمنی کرنے والوں سے دشمنی بھی ہم پر فرض ہے۔نیز ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا کوئی راستہ نہیں۔کوئی بندہ ولی تو کیا،مؤمن اور سعید و ناجی بھی نہیں ہو سکتا،جب تک آپ پر ایمان نہ لائے اور ظاہری و باطنی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار نہ بن جائے۔اللہ تعالیٰ کے تقرب کا کوئی وسیلہ آپ پر ایمان اور آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کے سوا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلوں اور بعد والوں سب سے افضل اور خاتم النبیین ہیں۔قیامت کے دن شفاعت ِعظمیٰ بھی آپ کے ساتھ خاص ہو گی،جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیا پر برتری دی ہے۔آپ مقامِ محمود پر فائز ہوں گے اور لواء الحمد آپ کے ہاتھ میں ہو گا،جس کے نیچے آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کے تمام (مؤحد)لوگ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے پہلے وہ شخص ہوں گے، جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو دربان پوچھے گا : آپ کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے : میں محمد ہوں۔ اس پر دربان عرض کرے گا : آپ وہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آپ کے علاوہ کسی کے لیے میں دروازہ نہ کھولوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے بہت سے فرائض و مستحب سنن مقرر کی ہیں۔ مثلاً بیت اللہ کا حج فرض ہے،جبکہ مسجد ِنبوی اور مسجد ِاقصیٰ کی طرف نماز،قراء ت، ذکر،دعا اور اعتکاف کی نیت سے سفر کرنا سب مسلمانوں کے ہاں اتفاقی طور پر مستحب ہے۔ جب کوئی مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جاتا ہے،تو آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے، نیز ہر نماز میں بھی درود و سلام کا ہدیہ پیش کرتا ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 320/27، 321)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برکت حاصل کرنا کمال ایمان کی نشانی اور انتہائی محبت ِنبوی کا ثبوت ہے۔جس چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِبابرکات سے کسی قسم کا علاقہ اور واسطہ ہو،خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک ہوں،جبہ مبارک ہو،عصا مبارک ہو،نعلین شریفین ہوں،اس سے تبرک لینا مشروع اور جائز ہے۔ان آثار کی تعظیم و تکریم درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِبابرکات سے محبت کا اظہار ہے۔اس حقیقت سے کسی مسلمان کو انکار کی مجال نہیں۔
آثار سے تبرک خاصۂ نبوی ہے:
خوب یاد رہے کہ آثار سے تبرک ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔کسی اور شخصیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی پر قیاس کر کے اس کے آثار سے تبرک کا جواز پیش کرنا کسی بھی صورت درست نہیں،کیونکہ مخلوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی پر کسی ولی یا صالح شخص کو قیاس کر کے اس کے آثار سے تبرک لینا جائز ہوتا،تو سلف صالحین،یعنی صحابہ کرام،تابعین عظام اور ائمہ دین ضرور ایسا کرتے، کیونکہ وہ قرآن و حدیث کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے تھے اور قرآن و حدیث کے مفاہیم و معانی اور مطالب کو سب سے بڑھ کر جاننے والے تھے۔
b علامہ شاطبیرحمہ اللہ (م : 780ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّ الصَّحَابَۃَ بَعْدَ مَوْتِہٖ لَمْ یَقَعْ مِنْ أَحَدٍ مِّنْہُمْ شَيْئٌ مِّنْ ذٰلِکَ بِالنِّسْبَۃِ إِلٰی مَنْ خَلْفَہٗ، إِذْ لَمْ یَتْرُکِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَہٗ فِي الْـأُمَّۃِ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَہُوَ کَانَ خَلِیفَتَہٗ، وَلَمْ یُفْعَلْ بِہٖ شَيْئٌ مِّنْ ذٰلِکَ، وَلَا عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَہُوَ کَانَ أَفْضَلَ الْـأُمَّۃِ بَعْدَہٗ، ثُمَّ کَذٰلِکَ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِيٌّ، ثُمَّ سَائِرُ الصَّحَابَۃِ الَّذِینَ لَا أَحَدٌ أَفْضَلُ مِنْہُمْ فِي الْـأُمَّۃِ، ثُمَّ لَمْ یَثْبُتْ لِوَاحِدٍ مِّنْہُمْ مِّنْ طَرِیقٍ صَحِیحٍ مَّعْرُوفٍ أَنَّ مُتَبَرِّکًا تَبَرَّکَ بِہٖ عَلٰی أَحَدِ تِلْکَ الْوُجُوہِ أَوْ نَحْوِہَا، بَلِ اقْتَصَرُوا فِیہِمْ عَلَی الِاقْتِدَائِ بِالْـأَفْعَالِ وَالْـأَقْوَالِ وَالسِّیَرِ الَّتِي اتَّبَعُوا فِیہَا النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَہُوَ إِذًا إِجْمَاعٌ مِّنْہُمْ عَلٰی تَرْکِ تِلْکَ الْـأَشْیَائِ ۔
’’صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابوبکر صدیق تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بھی تھے۔ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا۔نہ سیدنا عمر سے کوئی اس طرح کا تبرک لیا گیا۔وہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے،پھر سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے،کسی صحابی کے بارے میں باسند ِ صحیح ثابت نہیں کہ کسی صحابی یا تابعی نے ان کے ساتھ تبرک والا ایسا سلسلہ جاری کیا ہو،بلکہ انہوں(دیگر صحابہ و تابعین) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اورطریقہ کارمیں پہلوں کی پیروی پر اکتفا کیا، لہٰذا یہ ان کی طرف سے تبرک بالآثار کو ترک کرنے پر اجماع ہے۔‘‘(الاعتصام : 8/2، 9)
b علامہ ابن رجبرحمہ اللہ (795-736ھ)لکھتے ہیں :
وَکَذٰلِکَ التَّبَرُّکُ بِالْـآثَارِ؛ فَإِنَّمَا کَانَ یَفْعَلُہٗ الصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَّعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ یَکُونُوا یَفْعَلُونَہٗ مَعَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ، وَلَا یَفْعَلُہٗ التَّابِعُونَ مَعَ الصَّحَابَۃِ مَعَ عُلُوِّ قَدَرِھِمْ ۔
’’اسی طرح آثار کے ساتھ تبرک کا معاملہ ہے۔صحابہ کرامy نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کے ساتھ تبرک لیا کرتے تھے،لیکن آپس میں وہ ایسا نہیں کرتے تھے،نہ ہی تابعین کرام صحابہ کرام کے آثار کے ساتھ تبرک لیتے تھے،حالانکہ ان کی قدر و منزلت بہت بلند تھی۔‘‘
(الحکم الجدیدۃ بالإذاعۃ من قول النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بعثت بالسیف بین یدي الساعۃ، ص : 55)
b علامہ،عبد الرحمن بن حسنرحمہ اللہ (1285-1193ھ)لکھتے ہیں :
وَأَمَّا مَا ادَّعَاہُ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِینَ مِنْ أَنَّہٗ یَجُوزُ التَّبَرُّکُ بِآثَارِ الصَّالِحِینَ؛ فَمَمْنُوعٌ مِّنْ وُّجُوہٍ : مِنْہَا أَنَّ السَّابِقِینَ الْـأَوَّلِینَ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَمَنْ بَعْدَہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَفْعَلُونَ ذٰلِکَ مَعَ غَیْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَا فِي حَیَاتِہٖ وَلَا بَعْدَ مَوْتِہٖ، وَلَوْ کَانَ خَیْرًا لَّسَبَقُونَا إِلَیْہِ، وَأَفْضَلُ الصَّحَابَۃِ أَبُو بَکْرٍ وَّعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَقَدْ شَہِدَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَنْ شَہِدَ لَہٗ بِالْجَنَّۃِ، وَمَا فَعَلَہٗ أَحَدٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ مَعَ أَحَدٍ مِّنْ ہٰؤُلَائِ السَّادَۃِ ۔
’’بعض متاخرین جو صالحین کے آثار سے تبرک لینے (کے جواز)کا دعویٰ کرتے ہیں،تو یہ کئی وجہ سے ممنوع ہے؛ ایک تو اس لیے کہ سلف صالحین ،صحابہ و تابعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے آثار سے تبرک نہیں لیتے تھے،نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد۔اگر یہ نیکی کا کام ہوتا تو سلف صالحین ہم سے پہلے ضرور اس کام کو کر چکے ہوتے۔صحابہ کرام میں سے بزرگ ترین ہستیاں،سیدنا ابو بکر وعمر اور عثمان وعلیy ،جو ان صحابہ میں شامل تھے،جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی،ان بزرگ ترین ہستیوں کے آثار سے بھی کسی نے تبرک نہیں لیا۔‘‘(فتح المجید شرح کتاب التوحید، ص : 142)
b علامۂ ہند،نواب صدیق حسن خانرحمہ اللہ (1307-1248ھ)لکھتے ہیں :
وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُّقَاسَ أَحَدٌ مِّنَ الْـأُمَّۃِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ ذٰلِکَ الَّذِي یَبْلُغُ شَأْنَہٗ؟ قَدْ کَانَ لَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي حَالِ حَیَاتِہٖ خَصَائِصُ کَثِیرَۃٌ، لَا یَصْلُحُ أَنْ یُّشَارِکَہٗ فِیہَا غَیْرُہٗ ۔
’’امت میں کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا جائز نہیں۔کون ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو پہنچ سکے؟حیات ِمبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے خصائص حاصل تھے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔‘‘(الدین الخالص : 250/2)
b مفتی ٔاعظم سعودی عرب،شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازرحمہ اللہ (1420-1330) فرماتے ہیں :
وَأَمَّا التَّبَرُّکُ بِشَعْرِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَرَقِہٖ وَوَضُوئِہٖ؛ فَلَا حَرَجَ فِي ذٰلِکَ کَمَا تَقَدَّمَ، لأَِنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَقَرَّ الصَّحَابَۃَ عَلَیْہِ، وَلِمَا جَعَلَ اللّٰہُ فِیہِ مِنَ الْبَرَکَۃِ، وَہِيَ مِنَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ، وَہٰکَذَا مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِي مَائِ زَمْزَمَ مِنَ الْبَرَکَۃِ، حَیْثُ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ زَمْزَمَ : ’إِنَّہَا مُبَارَکَۃٌ، وَإِنَّہَا طَعَامُ طعمٍ وَّشِفَائُ سُقْمٍ‘، وَالْوَاجِبُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ الِاتِّبَاعُ وَالتَّقَیُّدُ بِالشَّرْعِ، وَالْحَذِرُ مِنَ الْبِدَعِ الْقَوْلِیَّۃِ وَالْعَمَلِیَّۃِ، وَلِہٰذَا لَمْ یَتَبَرَّکِ الصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِشَعْرِ الصِّدِّیقُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، أَوْ عَرَقِہٖ أَوْ وَضُوئِہٖ، وَلاَ بِشَعْرِ عُمَرَ أَوْ عُثْمَانَ أَوْ عَلِيٍّ أَوْ عَرَقِہِمْ أَوْ وَضُوئِہِمْ، وَلاَ بِعَرَقِ غَیْرِہِمْ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَشَعْرِہٖ وَوَضُوئِہٖ، لِعِلْمِہِمْ بِأَنَّ ہٰذَا أَمْرٌ خَاصٌّ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ فِي ذٰلِکَ، وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : {وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الْاَنْھَارُ خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ} (التوبۃ 9 : 100) ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں،پسینے اور وضو کے پانی سے تبرک لینے میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ بیان ہو چکا ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے اس عمل پر رضامندی ظاہر فرمائی اور اس میں برکت موجود ہے،جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ برکت جو آبِ زمزم میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا : یہ بابرکت پانی ہے، بھوک کے لیے کھانا اور بیماری کے لیے شفا ہے۔مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پیروی و پابندی کریں اور قولی و عملی بدعات سے اجتناب کریں۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامy نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بالوں،پسینے اور وضو کے پانی سے تبرک نہیں لیا،نہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علیy اور دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ ایسا معاملہ کیا،کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ تبرک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے اور اس سلسلے میں کسی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا : {وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَھَا الْاَنْھَارُ خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ}(التوبۃ 9 : 100) (جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے)پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میںسے بھی اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ اُن کی پیروی کی،اللہ اُن سے خوش ہو گیا اور وہ اللہ سے خوش ہو گئے اور اللہ نے ان کیلئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں،وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔یہی بڑی کامیابی ہے)۔‘‘(مجموع فتاوی ابن باز : 121/9)
b نیز فرماتے ہیں :
لَا نَعْلَمُ شَیْئًا فِي ہٰذَا إِلَّا مَا ثَبَتَ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللّٰہَ جَعَلَ فِي جِسْمِہٖ وَعَرَقِہٖ وَمَسِّ جَسَدِہٖ بَرَکَۃً خَاصَّۃً بِہٖ عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلَامُ، وَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ مِنَ الْعُلَمَائِ وَغَیْرِہِمْ، وَمَا یَفْعَلُہٗ بَعْضُ النَّاسِ مِنَ التَّبَرُّکِ بِبَعْضِ النَّاسِ؛ فَہُوَ غَلَطٌ لَّا وَجْہَ لَہٗ، وَلَیْسَ عَلَیْہِ دَلِیلٌ، إِنَّمَا ہٰذَا خَاصٌّ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِأَنَّ اللّٰہَ جَعَلَ فِي عَرَقِہٖ بَرَکَۃً، وَفِي رِیقِہٖ وَفِي وَضُوئِہٖ وَفِي شَعْرِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَلِہٰذَا وُزِّعَ شَعْرُہٗ بَیْنَ النَّاسِ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، وَأَمَرَ الصَّحَابَۃَ أَنْ یَّأْخُذُوا مِنْ فَضْلِ وَضُوئِہٖ وَمِنْ عَرَقِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ فِیہِ مِنَ الْبَرَکَۃِ، وَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ غَیْرُہٗ، وَلِہٰذَا لَمْ یَتَبَرَّکِ الصَّحَابَۃُ بِالصِّدِّیقِ، وَلَا بِعُمَرَ وَلَا بِعُثْمَانَ وَلَا بِعَلِيٍّ، وَہُمْ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدَ الْـأَنْبِیَائِ، فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ ہٰذَا خَاصٌّ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَمَّا مَا یَفْعَلُہٗ بَعْضُ النَّاسِ مِنَ التَّبَرُّکِ بِبَعْضِ الْعُلَمَائِ، أَوْ بِبَعْضِ الْعُبَّادِ، أَوْ بِبَعْضِ جُدُرَانِ الْکَعْبَۃِ، أَوْ بِکَسْوَۃِ الْکَعْبَۃِ؛ فَکُلُّ ہٰذَا لَا أَصْلَ لَہٗ، بَلْ یَجِبُ مَنْعُہٗ ۔
’’ہمارے علم میں آثار سے تبرک کے بارے میں صرف وہی چیز ہے،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم،پسینے اور بدن کو چھونے میں خاص برکت رکھی تھی۔اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر علما وغیرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔بعض لوگ جو کچھ بزرگ ہستیوں کے آثار سے تبرک لیتے ہیں،وہ غلط کام ہے، جس کی کوئی وجہِ جواز نہیں،نہ اس پر کوئی دلیل ہے۔ایسا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال،لعاب،وضو کے پانی اور بالوں میں برکت رکھی تھی۔یہی وجہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے گئے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بچے ہوئے پانی اور پسینے کو لیں،کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی۔اس معاملے میں کسی اور کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آثار سے تبرک نہیں لیا،نہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علیy کے ساتھ ایسا کیا گیا، حالانکہ یہ ہستیاں انبیائِ کرام کے بعد سب سے بزرگ ترین ہستیاں تھیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تبرک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔کچھ لوگ جو بعض علما،بعض عابدوں، کعبہ کی بعض دیواروں یا غلاف ِکعبہ سے تبرک لیتے ہیں،اس کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس سے روکنا ضروری ہے۔‘‘
(مجموع فتاوی ابن باز : 285/28، 286)
حجر اسود اور آثارِ صالحین سے تبرک:
b ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں :
’’جیسے مناسک ِحج ادا کرتے ہوئے حجر اسود،رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم سے برکت کا حصول شرک نہیں،تو کسی پیغمبر یا ولی سے واسطہ تیمن یا واسطہ تبرک شرک کیسے ہو گا؟اگر ایک پتھر کو واسطہ بنا لینا جائز ہو اور انبیا و اولیا کو واسطہ بنانا ناجائز اور شرک تصور کیا جائے،تو یہ حقیقی تصور ِدین کے خلاف ہے۔‘‘
(تبرک کی شرعی حیثیت، ص : 19)
الحمد للہ!ہم نے تبرکِ مشروع اور تبرکِ ممنوع کی وضاحت کر دی ہے۔حجر اسود کو بوسہ دینا، رکن یمانی کو چھونا اور مقامِ ابراہیم پر نماز ادا کرنا شرعاً جائز ہے۔یہ سب کچھ قرآن و حدیث کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔ان اعمال کا اپنا خاص موقع و محل ہے۔طواف کے علاوہ حجر اسود کو بوسہ دینا اور رکن یمانی کو چھونا جائز نہیں،کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت کا موقع و محل متعین کرنے کا اختیار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔رہا یہ کہنا کہ حجراسود کو بوسہ اس لیے دیا جاتا ہے ،رکن یمانی کو چھوا اس لیے جاتا ہے اور مقامِ ابراہیم پر نماز کی ادائیگی اس لیے کی جاتی ہے کہ اس سے تبرک حاصل کیا جائے،تو یہ غلط فہمی ہے،جسے دُور کیا جانا ضروری ہے۔حجر اسود، رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم کو واسطہ تیمن و تبرک بنانا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے ثابت نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چومتے ہوئے واضح طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ اطاعت ِ رسول کے علاوہ اسے چھونے کا اور کوئی مقصد نہیں،ملاحظہ فرمائیں :
b سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے،اسے بوسہ دیا اور فرمایا :
’إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ؛ مَا قَبَّلْتُکَ‘ ۔
’’بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے،نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا،تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
(صحیح البخاري : 1597، صحیح مسلم : 1270)
کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کو جان کر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حجر اسود کو تبرک کی نیت سے چوما جاتا ہے؟
اسلافِ امت حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے،رکن یمانی کو چھوتے تھے اور مقامِ ابراہیم پر نماز ادا کرتے تھے،لیکن تبرک کی نیت سے نہیں،بلکہ پیرویٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے ایسا کرتے تھے۔پھر یہی اسلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے آثار سے تبرک حاصل نہیں کرتے تھے،بلکہ وہ اس چیز سے قطعاً ناواقف تھے۔رہے آثار ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ،تو ان سے تبرک کا ثبوت شریعت میں موجود ہے اور اسلاف ِامت اس پر عمل پیرا تھے۔
b علامہ،محب الدین،احمد بن عبداللہ،طبریرحمہ اللہ (694-615ھ)فرماتے ہیں :
إِنَّمَا قَالَ ذٰلِکَ لِأَنَّ النَّاسَ کَانُوا حَدِیثِيْ عَہْدٍ بِعِبَادَۃِ الْـأَصْنَامِ، فَخَشِيَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنْ یَّظُنَّ الْجُہَّالُ بِأَنَّ اسْتِلَامَ الْحَجَرِ ہُوَ مِثْلُ مَا کَانَتِ الْعَرَبُ تَفْعَلُہٗ، فَأَرَادَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنْ یُّعْلِمَ أَنَّ اسْتِلَامَہٗ لَا یُقْصَدُ بِہٖ إِلاَّ تَعْظِیمُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالْوُقُوفُ عِنْدَ أَمْرِ نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّ ذٰلِکَ مِنْ شَعَائِرِ الْحَجِّ الَّتِي أَمَرَ اللّٰہُ بِتَعْظِیمِہَا، وَأَنَّ اسْتِلَامَہٗ مُخَالِفٌ لِّفِعْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ فِي عِبَادَتِہِمُ الْـأَصْنَامَ، لِأَنَّہُمْ کَانُوا یَعْتَقِدُونَ أَنَّہَا تُقَرَّبُہُمْ إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی، فَنَبَّہَ عُمَرُ عَلٰی مُخَالِفَۃِ ہٰذَا الِاعْتِقَادِ، وَأَنَّہٗ لَا یَنْبَغِي أَنْ یُّعْبَدَ إِلاَّ مَنْ یَّمْلِکُ الضَّرَرَ وَالنَّفْعَ، وَہُوَ اللّٰہُ جَلَّ جَلَالُہٗ ۔
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس لیے فرمائی کہ لوگ نئے نئے بتوں کی عبادت کو چھوڑ کر آئے تھے۔آپ کو خدشہ ہوا کہ کہیں جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ حجر اسود کو چومنے کا عمل عربوں کے (دورِ جاہلیت والے)عمل کی طرح ہے۔آپ نے اس بات سے خبردار کرنا چاہا کہ ان کے حجر اسود کو چومنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور فرمانِ نبوی کی پیروی ہے،نیز یہ ان شعائر ِحج میں سے ہے،جن کی تعظیم کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور حجر اسود کو چومنا دور ِجاہلیتوالی بتوں کی عبادت کے بالکل خلاف ہے،کیونکہ مشرکین یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بت ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تنبیہ فرمائی کہ اس اعتقاد کی مخالفت کی جائے اور یہ بتایا کہ عبادت صرف اسی کی جائز ہے،جو نفع و نقصان کا مالک ہو اور ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري للعیني : 240/9)
b ملا علی، قاری،حنفی،ماتریدی(م : 1014ھ)لکھتے ہیں :
وَفِیہِ إِشَارَۃٌ مِنْہُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی أَنَّ ہٰذَا أَمْرٌ تَعَبُّدِيٌّ، فَنَفْعَلُ، وَعَنْ عِلَّتِہٖ لَا نَسْأَلُ ۔
’’اس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ حجر اسود کو چومنا ایک تعبدی (عبادت کے لیے جاری کیا گیا)حکم ہے۔ہم اسے بجا لائیں گے، لیکن اس کی علت کے بارے میں سوال نہیں کریں گے۔‘‘
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 213/3)
b علامہ،ڈاکٹر،شمس الدین،سلفی،افغانیرحمہ اللہ (1420-1372ھ)فرماتے ہیں:
دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْحَجَرَ الْـأَسْوَدَ إِذًا لَّا یَنْفَعُ وَلَا یَضُرُّ، وَأَنَّ تَقْبِیلَہٗ عَلٰی خِلَافِ الْقِیَاسِ لِمُجَرَّدِ التَّعَبُّدِ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، لاَ لأَِجْلِ التَّبَرُّکِ بِہٖ، فَمَا ظَنُّکَ بِأَحْجَارِ الْقُبُورِ وَأَشْجَارِہَا؟ فَلَا یُقَاسُ عَلَیْہِ تَقْبِیلُ غَیْرِہٖ مِنَ الْـأَحْجَارِ وَالْـأَشْجَارِ، وَفِي کَلَامِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ إِشَارَۃٌ إِلٰی أَنَّ تَقْبِیلَ الْحَجَرِ لِأَجْلِ الْخَوْفِ وَالطَّمْعِ وَالتَّعْظِیمِ؛ فِیہِ خَوْفُ الْوُقُوعِ فِي الشِّرْکِ، فَلِہٰذَا نَبَّہَ النَّاسَ بِأَنَّہٗ لَا یَضُرُّ وَلَا یَنْفَعُ، وَہٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الصَّحَابَۃَ کَانُوا یَہْتَمُّونَ بِأَمْرِ التَّوْحِیدِ وَحِمَایَۃِ حِمَاۃٍ وَسَدِّ ذَرَائِعِ الشِّرْکِ ۔
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ حجر اسود نفع و نقصان نہیں دیتا، نیز باقی پتھروں کو چھوڑ کر اسے چومنا صرف اللہ عزوجل کی عبادت کے لیے ہے، نہ کہ اس سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے۔(جب حجر اسود کا یہ معاملہ ہے،تو اب)قبروں کے پتھروں اور درختوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟حجر اسود کو چومنے پر دیگر حجر وشجر کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے کلام میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حجر اسود کو اگر خوف،لالچ اور تعظیم کی نیت سے چوما جائے، تواس صورت میں شرک میں واقع ہونے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔اسی لیے انہوں نے لوگوں کو اس بات کی وضاحت فرما دی کہ یہ نفع و نقصان نہیں دیتا۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام توحیدکے حکم،عقیدے کی حفاظت اور شرک کے اسباب کو ختم کرنے کا بہت اہتمام کرتے تھے۔‘‘
(جہود علماء الحنفیّۃ في إبطال عقائد القبوریّۃ : 658-656/2)
b نیز فرماتے ہیں :
إِذًا لَّا یَجُوزُ تَقْبِیلُ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ، وَاسْتِلَامُہٗ وَالتَّمَسُّحُ بِہٖ لأَِجْلِ التَّبَرُّکِ بِہٖ وَالِاسْتِشْفَائِ بِہٖ، فَکَیْفَ یَجُوزُ التَّبَرُّکُ بِالْقُبُورِ، وَأَحْجَارِہَا، وَأَشْجَارِہَا، وَخِرَقِہَا، وَزُیُوتِہَا، وَشُمُوعِہَا، وَنَحْوِہَا؟ وَفِي ذٰلِکَ عِبْرَۃٌ لِّلْقُبُورِیَّۃِ عَامَّۃً، وَالدُّیُوبَنْدِیَّۃِ التَّبْلِیغِیَّۃِ خَاصَّۃً ! فَلَوْ کَانَ التَّبَرُّکُ بِہٰذِہِ الْـأَشْیَائِ جَائِزًا لَّکَانَ الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ أَوْلٰی وَأَحْرٰی وَأَلْیَقُ، لِأَنَّہٗ مَسَّتْہُ أَیْدِي الْـأَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِینَ، وَالصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ، وَالْـأَوْلِیَائِ وَالصَّالِحِینَ ۔
’’جب حجر اسود کو تبرک اور شفا کے حصول کی خاطر چومنا اور چھونا جائز نہیں،تو قبروں،ان کے پتھروں،درختوں،کپڑوں،تیل،شمعوں وغیرہ سے تبرک اور شفا کا حصول کیسے جائز ہوا؟اس میں قبرپرستوں کے لیے عموماً اور تبلیغی دیوبندیوں کے لیے خصوصاً عبرت ہے۔اگر قبروں اور ان کے متعلقات سے تبرک جائز ہے، تو حجر اسود اس کے زیادہ لائق ہے،کیونکہ اسے انبیا و مرسلین،صحابہ و تابعین اور اولیا و صالحین کے ہاتھوں نے چھوا ہوا ہے۔‘‘
(جہود علماء الحنفیّۃ في إبطال العقائد القبوریّۃ : 659-652/2)
b شیخ،محمد بن صالح،عثیمینرحمہ اللہ (1421-1347ھ)فرماتے ہیں :
أَيُّ حَجَرٍ کَانَ حَتّٰی الصَّخْرَۃِ الَّتِي فِي بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَلاَ یُتَبَرَّکُ بِہَا، وَکَذَا الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ لَا یُتَبَرَّکُ بِہٖ، وَإِنَّمَا یُتَعَبَّدُ لِلّٰہِ بِمَسْحِہٖ وَتَقْبِیلِہِ اتِّبَاعًا لِّلرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبِذٰلِکَ تَحْصُلُ بَرَکَۃُ الثَّوَابِ، وَلِہٰذَا قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ : إِنِي لَـأَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَّا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ؛ مَا قَبَّلْتُکَ، فَتَقْبِیلُہٗ عِبَادَۃٌ مَّحْضَۃٌ، خِلَافًا لِّلْعَامَّۃِ، یَظُنُّونَ أَنَّ بِہٖ بَرَکَۃٌ حِسِّیَّۃٌ، وَلِذٰلِکَ إِذَا اسْتَلَمَہٗ بَعْضُ ہٰؤُلَائِ؛ مَسَحَ عَلٰی جَمِیعِ بَدَنِہٖ تَبَرُّکًا بِذٰلِکَ ۔
’’کوئی بھی پتھر ہو،خواہ بیت المقدس میں موجود صخرہ ہو،اس سے تبرک نہیں لیا جا سکتا۔یہی معاملہ حجر اسود کا ہے،اس سے بھی برکت حاصل نہیں کی جا سکتی۔اسے چھو کر اور اس کو بوسہ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے،اسی سے ثواب کی صورت میں برکت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہنے فرمایا تھا : میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے،تُو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔چنانچہ حجر اسود کو چومنا صرف ایک عبادت ہے۔ عام لوگوں کا اعتقاد اس کے خلاف ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر میں حسی برکت ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ اسے چھوتے ہیں تو تبرک کی نیت سے اپنے سارے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔‘‘(القول المفید علی کتاب التوحید : 196/1)
b معروف مفسر،علامہ،عبد الرحمن بن ناصر،سعدیرحمہ اللہ (1376-1307ھ) فرماتے ہیں :
فَإِنَّ الْعُلَمَائَ اتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّہٗ لَا یُشْرَعُ التَّبَرُّکُ بِشَيْئٍ مِّنَ الْـأَشْجَارِ وَالْـأَحْجَارِ وَالْبُقَعِ وَالْمَشَاہِدِ وَغَیْرِہَا، فَإِنَّ ہٰذَا التَّبَرُّکَ غُلُوٌّ فِیہَا، وَذٰلِکَ یَتَدَرَّجُ بِہٖ إِلٰی دُعَائِہَا وَعِبَادَتِہَا، وَہٰذَا ہُوَ الشِّرْکُ الْـأَکْبَرُ، ۔۔۔، وَہٰذَا عَامٌّ فِي کُلِّ شَيْئٍ، حَتّٰی مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ وَحُجْرَۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَخْرَۃِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ وَغَیْرِہَا مِنَ الْبُقَعِ الْفَاضِلَۃِ، وَأَمَّا اسْتِلَامُ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ وَتَقْبِیلُہٗ، وَاسْتِلَامُ الرُّکْنِ الْیَمَانِيِّ مِنَ الْکَعْبَۃِ الْمُشَرَّفَۃِ؛ فَہٰذَا عُبُودِیَّۃٌ لِّلّٰہِ وَتَعْظِیمٌ لِّلّٰہِ وَخُضُوعٌ لِّعَظَمَتِہٖ، فَہُوَ رُوحُ التَّعَبُّدِ، فَہٰذَا تَعْظِیمٌ لِّلْخَالِقِ وَتَعَبُّدٌ لَّہٗ، وَذٰلِکَ تَعْظِیمٌ لِّلْمَخْلُوقِ وَتَأَلُّہٌ لَّہٗ، فَالْفَرْقُ بَیْنَ الْـأَمْرَیْنِ کَالْفَرْقِ بَیْنَ الدُّعَائِ لِلّٰہِ الَّذِي ہُوَ إِخْلَاصٌ وَّتَوْحِیدٌ، وَالدُّعَائِ لِلْمَخْلُوقِ الَّذِي ہُوَ شِرْکٌ وَّتَنْدِیدٌ ۔
’’علماء ِکرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی شجر و حجر اور جگہ و مقام وغیرہ سے تبرک لینا جائز نہیں،کیونکہ یہ تبرک میں غلو ہے اور یہ تبرک بالتدریج ان چیزوں کو پکارنے اور ان کی عبادت کرنے کی طرف لے جاتا ہے جو کہ شرکِ اکبر ہے۔ یہ اصول ہر چیز کے لیے عام ہے،حتی کہ مقامِ ابراہیم،حجرۂ نبوی،بیت المقدس کے پتھرجیسی فضیلت والی جگہوں کے لیے بھی۔رہا حجر اسود کو چھونا اور چومنا،نیز کعبہ مشرفہ کے رکن یمانی کو چھونا،تو یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و تعظیم ہے اور اس کی عظمت کے سامنے جھک جانے کا نام ہے۔یہی عبادت کی روح ہے۔یہ خالق کی تعظیم و عبادت ہے،جبکہ دیگر پتھروں اور مقامات کو چھونا مخلوق کی تعظیم و عبادت ہے۔ دونوں کے درمیان فرق وہی ہے جو خالق اور مخلوق کو پکارنے کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پکارنا اخلاص و توحید ہے،جبکہ مخلوق کو (مافوق الاسباب)پکارنا شرک اور ساجھی بنانا ہے۔‘‘(القول السدید شرح کتاب التوحید، ص : 51)
b دکتور،عبد اللہ بن عبد العزیز بن حماد،ابنِ جبرین لکھتے ہیں :
فَقَوْلُ عُمَرَ ھٰذَا صَرِیحٌ فِي أَنَّ تَقْبِیلَ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ إِنَّمَا ہُوَ اتِّبَاعٌ لِّلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَالْمُسْلِمُ یَفْعَلُہٗ تَعَبُّدًا لِّلّٰہِ تَعَالٰی، وَاقْتِدَائً بِخَیْرِ الْبَرِیَّۃِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَیْسَ مِنْ بَابِ التَّبَرُّکِ فِي شَيْئٍ ۔
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اس بات میں صریح ہے کہ حجر اسود کو چومنا صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے لیے ہے۔مسلمان صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایسا کرتا ہے۔اس کا تبرک کے مسئلے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘(تسھیل العقیدۃ الإسلامیّۃ، ص : 311)
b شیخ،صالح بن عبد العزیز،آل الشیخ فرماتے ہیں :
وَکَذٰلِکَ الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ ہُوَ حَجَرٌ مُّبَارَکٌ، وَلٰکِنَّ بَرَکَتَہٗ لِأَجْلِ الْعِبَادَۃِ، یَعْنِي أَنَّ مَنِ اسْتَلَمَہٗ تَعَبُّدًا مُّطِیعًا لِّلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِلَامِہٖ لَہٗ، وَفِي تَقْبِیلِہٖ، فَإِنَّہٗ یَنَالُہٗ بِہٖ بَرَکَۃَ الِاتِّبَاعِ ۔
’’اسی طرح حجر اسود مبارک پتھر ہے،لیکن اس کی برکت عبادت کی وجہ سے ہے، یعنی جو اسے عبادت کی نیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چومے گا،وہ اس عمل کی وجہ سے اتباع کی برکت حاصل کر لے گا۔‘‘
(التمہید في شرح کتاب التوحید، ص : 125-124)
دیگر اشیا کو بوسہ دینے کی شرعی حیثیت :
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صرف اسی چیز کو بوسہ دینا مشروع اور جائز ہوتا ہے،جس کے لیے شریعت ِاسلامیہ نے اجازت دی ہو۔جن چیزوں کو بوسہ دینے کی شریعت میں گنجائش نہ ہو،انہیں حجر اسود پر قیاس کرنا بدعت ہے،جیسا کہ :
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر،عسقلانیرحمہ اللہ (852-771ھ)فرماتے ہیں :
قَالَ شَیْخُنَا فِي شَرْحِ التِّرْمِذِيِّ : فِیْہِ کَرَاھِیَۃُ تَقْبِیلِ مَا لَمْ یَرِدِ الشَّرْعُ بِتَقْبِیلِہٖ ۔
’’ہمارے شیخ(ابو الفضل بن الحسین)جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس چیز کو چومنے کے بارے میں شریعت کی کوئی دلیل وارد نہ ہوئی ہو،اسے چومنا مکروہ ہے۔‘‘
(فتح الباري في شرح صحیح البخاري : 463/3)
ایک جھوٹی روایت :
ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا :
إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ ۔
’’بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے۔تُو نہ نفع دیتا ہے نہ نقصان۔‘‘
تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا :
بَلٰی، یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، إِنَّہٗ یَضُرُّ وَیَنْفَعُ ۔
’’کیوں نہیں،امیر المومنین! یہ تو نفع و نقصان دیتا ہے۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 457/1، أخبار مکّۃ للأزرقي : 323/1، شعب الإیمان للبیہقي : 3749)
یہ جھوٹی روایت ہے۔اس کو گھڑنے کا’’کارنامہ‘‘ ابو ہارون عبدی نامی ‘‘متروک‘‘و ’’کذاب‘‘راوی نے سرانجام دیا ہے۔ اس کے بارے میں :
b حافظ ذہبیرحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَالْـأَکْثَرُ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ أَوْ تَرْکِہٖ ۔
’’اکثر محدثین کرام نے اسے ضعیف یا متروک قرار دیا ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال : 173/3)
b حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُضَعَّفٌ عِنْدَ الْـأَئِمَّۃِ ۔
’’ائمہ محدثین کے ہاں یہ ضعیف قرار دیا گیا ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 21/3)
لہٰذا احمد یار خاں نعیمی گجراتی صاحب کا یہ کہنا بے دلیل اور باطل ہے کہ :
’’سنگ ِاسود نفع و نقصان پہنچانے والا ہے۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 375/1)
رُکنِ یمانی سے تبرک :
دورانِ طواف رکن یمانی کا استلام(ہاتھ سے چھونا)سنت ہے،لیکن اسے بوسہ دینا جائز نہیں،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ صرف حجر اسود کو دیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کعبۃ اللہ کا طواف کیا۔سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کعبۃ اللہ کے چاروں کونوں کو ہاتھ سے چھوتے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے فرمایا : آپ کعبۃ اللہ کے (دو شامی)کونوں کو کیوں چھوتے ہیں؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو انہیں نہیں چھوتے تھے۔سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
لَیْسَ شَيْئٌ مِّنَ الْبَیْتِ مَھْجُورًا ۔
’’بیت اللہ کی کوئی چیز بھی چھوڑنے کے قابل نہیں۔‘‘
اس پر سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الأحزاب 33 : 21)
’’تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اسوۂ حسنہ ہے۔‘‘
یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
صَدَقْتَ ۔
’’آپ نے بالکل سچ کہا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 217/1، شرح معاني الآثار للطحاوي : 184/2، وسندہٗ حسنٌ)
اس کا راوی خصیف بن عبد الرحمن جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ ہے۔اس کے بارے میں :
b حافظ نوویرحمہ اللہ (676-631ھ)فرماتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ الْبَیْہَقِيِّ : إِنَّ خُصَیْفًا غَیْرُ قَوِيٍّ؛ فَقَدْ خَالَفَہٗ فِیہِ کَثِیرُونَ مِنَ الْحُفَّاظِ وَالْـأَئِمَّۃِ الْمُتَقَدِّمِینَ فِي الْبَیَانِ ۔
’’رہا امام بیہقیرحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ خصیف غیر قوی راوی ہے،تو اس بیان میں انہوں نے بہت سے حفاظ اور ائمہ متقدمین کی مخالفت کی ہے۔‘‘
(المجموع شرح المہذّب : 216/7، الجوھر النقيّ للترکماني الحنفي : 37/5، البدر المنیر لابن الملقّن : 149/6)
b علامہ،محمد بن بیر علی،برکوی،حنفیرحمہ اللہ (981-929ھ)لکھتے ہیں :
اِتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یُسْتَلَمُ وَلَا یُقَبَّلُ إِلَّا الْحَجَرُ الْـأَسْوَدُ، وَأَمَّا الرُّکْنُ الْیَمَانِيُّ؛ فَالصَّحِیحُ أَنَّہٗ یُسْتَلَمُ وَلَا یُقَبَّلُ ۔
’’علماء ِکرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چھونا اور چومنا صرف حجر اسود کے ساتھ خاص ہے۔رہا رکن یمانی تو اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ اسے چھوا جائے گا،چوما نہیں جائے گا۔‘‘(زیارۃ القبور، ص : 52، طبع دار الإفتائ)
b عالَمِ عرب کے مشہور عالِم، علامہ وفقیہ ،محمد بن صالح،عثیمینرحمہ اللہ (1421-1347ھ) فرماتے ہیں:
وَمَعَ الْـأَسَفِ، إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ اتَّخَذُوا مِنَ الْعِبَادَاتِ نَوْعًا مِّنَ التَّبَرُّکِ فَقَطْ؛ مِثْلُ مَا یُشَاہَدُ مِنْ أَنَّ بَعْضَ النَّاسِ یَمْسَحُ الرُّکْنَ الْیَمَانِيَّ، وَیَمْسَحُ بِہٖ وَجْہَ الطِّفْلِ وَصَدْرَہٗ، وَہٰذَا مَعْنَاہُ أَنَّہُمْ جَعَلُوا مَسْحَ الرُّکْنِ الْیَمَانِيِّ مِنْ بَابِ التَّبَرُّکِ لَا التَّعَبُّدِ، وَہٰذَا جَہْلٌ، وَقَدْ قَالَ عُمَرُ فِي الْحَجَرِ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَّا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ؛ مَا قَبَّلْتُکَ ۔
’’افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگوں نے عبادات کو صرف تبرک کی ایک قسم بنا لیا ہے،جیسے دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ رکن یمانی کو چھوتے ہیں اور پھر بچوں کے چہرے اور سینے پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔اس کا معنیٰ یہ ہے کہ انہوں نے رکن یمانی کو عبادت کی بجائے تبرک کے لیے چھونا شروع کر دیا ہے۔یہ جہالت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا تھا : میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے، نہ تُو نفع دیتا ہے نہ نقصان۔اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا،تو میں تجھے نہ چومتا۔‘‘(القول المفید علی کتاب التوحید : 181/1)
مقامِ ابراہیم سے تبرک :
طوافِ کعبہ کے بعد مقامِ ابراہیم پر دو رکعتیں ادا کی جاتی ہیں،جیسا کہ :
n اللہ تعالیٰ کا فرمانِ گرامی ہے :
{وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی} (البقرۃ 2 : 125)
’’تم مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔‘‘
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے،جیسا کہ :
n سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَیْتِ سَبْعًا، وَصَلّٰی خَلْفَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں۔‘‘(صحیح البخاري : 1627)
مقامِ ابراہیم پر دو رکعتیں اداکرنے میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،لیکن بعض لوگوں کا اعتقاد کچھ اور ہی ہے۔ ایک صاحب یوں لکھتے ہیں :
’’مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے،جس پر کھڑے ہو کر حضرت خلیل علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی۔ ان کے قدم پاک کی برکت سے اس پتھر کا یہ درجہ ہوا ہے کہ دنیا بھر کے حاجی اس کی طرف سر جھکاتے ہیں۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ از احمد یار خان نعیمی بریلوی: 373/1، فتاویٔ رضویہ از احمد رضا خان بریلوی: 398/21)
یہ غلو پر مبنی بات ہے،کیونکہ صحابہ کرام و تابعین عظام اور ائمہ دین سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چومتے ہوئے یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ اس میں کوئی ذاتی برکت نہیں،لیکن احمد یار خاں بریلوی اس میں بھی ذاتی برکت کے قائل ہیں۔ یہی معاملہ انہوں نے حجر اسود کے ساتھ کیا ہے۔کیا ان لوگوں کو سلف صالحین سے زیادہ علم ہے؟اگر مقامِ ابراہیم میں کوئی ذاتی برکت ہوتی،تو صحابہ و تابعین اور ائمہ دین ضرور اس کے بارے میں ہمیں بتا دیتے۔
سلف صالحین نے تو مقامِ ابراہیم کو چھونے اور بوسہ دینے کو بدعت قرار دیا ہے،جیسا کہ :
b حافظ نوویرحمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں :
لَا یُقَبِّلُ مَقَامَ إِبْرَاہِیمَ، وَلَا یَسْتَلِمُہٗ، فَإِنَّہٗ بِدْعَۃٌ ۔
’’کوئی مسلمان مقامِ ابراہیم کو نہ چوم سکتا ہے،نہ اسے (تبرک کی نیت سے)چھو سکتا ہے،کیونکہ یہ بدعت ہے۔‘‘(الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص : 392)
b شیخ الاسلام ثانی،عالِمِ ربانی،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ أَنْکَرَ السَّلَفُ التَّمَسُّحَ بِحَجَرِ الْمَقَامِ الَّذِي أَمَرَ اللّٰہُ أَنْ یُّتَّخَذَ مِنْہُ مُصَلًّی ۔
’’سلف صالحین نے اس مقام کے پتھر کو بوسہ دینے کا ردّ کیا ہے،جس پر نماز پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔‘‘(إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان : 212/1)
b علامہ،محمد بن بیر علی،برکوی،حنفیرحمہ اللہ (981-929ھ)بھی لکھتے ہیں :
وَلَقَدْ أَنْکَرَ السَّلَفُ التَّمَسُّحَ بِحَجَرِ الْمَقَامِ الَّذِي أَمَرَ اللّٰہُ أَنْ یُّتَّخَذَ مِنْہُ مُصَلًّی ۔
’’سلف صالحین نے اس مقام کے پتھر کو بوسہ دینے کا ردّ کیا ہے،جس کے پاس نماز پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔‘‘(زیارۃ القبور، ص : 52، طبع دار الإفتائ)
لہٰذا یہ کہنا سراسر باطل ہے کہ مقامِ ابراہیم پر نماز اس لیے پڑھی جاتی ہے کہ وہاں موجود پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدم پڑے تھے۔
بعض لوگ اس طرح کی کارروائی سے انبیاء ِکرام اور اولیاء ِعظام کی قبروں پر عبادت کے لیے جواز کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں اور باور یہ کرانا چاہتے ہیں کہ انبیا واولیا جہاں جہاں قدم رکھیں،وہ جگہ اس درجہ مبارک ہو جاتی ہے کہ وہاں عبادت کرنا روا ہو جاتی ہے۔یوں ان کا منشا پورا ہو جاتا ہے۔بت پرستی کا بنیادی سبب یہی بنا کہ پہلے پہل بزرگوں کی تصاویر بنا کر ان کی یاد کو تازہ کیا۔پھر قبروں سے فیض اور تبرک کی غرض سے ان کی طرف متوجہ ہوئے۔اس کے بعد قبرپرستی میں مبتلا ہو گئے۔
سیدہ مریم[ کے حجرہ سے تبرک!
ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب’’حجرۂ مریم[ سے حضرت زکریا علیہ السلام کا تبرک‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں :
’’حضرت زکریا علیہ السلام نے جب حضرت مریم[ کے حجرے میں بے موسم پھلوں کو دیکھا،تو اسی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کی ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَائِ} (آل عمرٰن 3 : 38) [اسی جگہ زکریا( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دُعا کی،عرض کیا: میرے مولا!مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔بے شک تُو ہی دُعا کا سننے والا ہے]۔
اس سے ثابت ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا واسطہ تبرک و تیمن اور واسطہ توسل اختیار کرنا شرک نہ تھا۔اگر ایسا ہوتا،تو اللہ رب العزت خصوصیت کے ساتھ قرآن میں اس کا ذکر نہ فرماتا،کیونکہ الفاظ ربانی یوں ہیں : {ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ} یعنی اسی جگہ زکریا نے اپنے رب سے دُعا کی۔‘‘(تبرک کی شرعی حیثیت، ص : 40)
قادری صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ اس جگہ کو متبرک جان کر سیدنا زکریا علیہ السلام نے وہاں دُعا کی تھی،لیکن متقدمین ائمہ مفسرین کچھ اور ہی کہتے ہیں۔آئیے ان سے اس آیت کی صحیح تفسیر جان کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ قادری صاحب کا یہ دعویٰ سچا ہے یا جھوٹا۔
b مشہور تابعی،عظیم مفسر ومحدث،عبد الرحمن، المعروف سدی کبیررحمہ اللہ (م : 127ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فَلَمَّا رَآی زَکَرِیَّا مِنْ حَالِہَا ذٰلِکَ، یَعْنِي فَاکِہَۃَ الصَّیْفِ فِي الشِّتَائِ، وَفَاکِہَۃَ الشِّتَائِ فِي الصَّیْفِ؛ قَالَ : إِنَّ رَبًّا أَعْطَاہَا ہٰذَا فِي غَیْرِ حِینِہٖ لَقَادِرٌ عَلٰی أَنْ یَّرْزُقَنِي ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً، وَرَغِبَ فِي الْوَلَدِ، فَقَامَ فَصَلَّی، ثُمَّ دَعَا رَبَّہُ سِرًّا، فَقَالَ : {رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیْبًا وَّلَمْ اَکُنْ مبِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیًّا} (مریم 19 : 4) ۔
’’جب سیدنا زکریا علیہ السلام نے یہ صورت ِحال دیکھی،یعنی گرمی میں سردی کے پھل اور سردی میں گرمی کے پھل،توکہنے لگے : جس رب نے بغیر موسم کے یہ پھل مہیا کیے ہیں، یقینا وہ مجھے بھی پاکیزہ اولاد عطا کرنے پر قادر ہے۔یہ سوچ کر زکریا علیہ السلام کو اولاد میں رغبت ہوئی۔وہ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔پھر اپنے ربّ سے سرگوشی کرتے ہوئے دُعا کی : {رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیْبًا وَّلَمْ اَکُنْ مبِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیًّا} (مریم 19 : 4)(میرے ربّ!بلاشبہ میری ہڈیاں کمزور ہو چکی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہو چکا ہے،لیکن میرے ربّ!میں تجھ سے دُعا کر کے محروم نہیں رہوں گا)۔
(تفسیر الطبري : 189-188/3، وسندہٗ حسنٌ)
اس کے راوی موسیٰ بن ہارون ہمدانی کو امام دارقطنیرحمہ اللہ نے ’’ثقہ‘‘کہا ہے۔
(سؤالات الحاکم للدارقطني : 230)
عمرہ بن حماد بن طلحہ قناد صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ’’ثقہ‘‘ہیں۔
اسباط بن نصر ہمدانی راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’حسن الحدیث‘‘ہیں۔
یوں یہ سند ’’حسن‘‘ہے۔
b امامِ تفسیرو حدیث،محمد بن جریر،طبریرحمہ اللہ (310-224ھ)فرماتے ہیں :
أَمَّا قَوْلُہٗ : {ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ}؛ فَمَعْنَاہُ : عِنْدَ ذٰلِکَ أَيْ عِنْدَ رُؤْیَۃِ زَکَرِیَّا مَا رَآی عِنْدَ مَرْیَمَ مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ الَّذِي رَزَقَہَا، وَفَضْلِہٖ الَّذِي آتَاہَا مِنْ غَیْرِ تَسَبُّبِ أَحَدٍ مِّنَ الْآدَمَیِّینَ فِي ذٰلِکَ لَہَا، وَمُعَایَنَتِہٖ عِنْدَہَا الثَّمَرَۃَ الرَّطْبَۃَ الَّتِي لَا تَکُونُ فِي حِینِ رُؤْیَتِہٖ إِیَّاہَا عِنْدَہَا فِي الْـأَرْضِ؛ طَمِعَ فِي الْوَلَدِ مَعَ کِبَرِ سِنِّہٖ مِنَ الْمَرْأَۃِ الْعَاقِرِ، فَرَجَا أَنْ یَّرْزُقَہُ اللّٰہُ مِنْہَا الْوَلَدَ مَعَ الْحَالِ الَّتِي ہُمَا بِہَا، کَمَا رَزَقَ مَرْیَمَ عَلٰی تَخَلِّیہَا مِنَ النَّاسِ مَا رَزَقَہَا مِنْ ثَمَرَۃِ الصَّیْفِ فِي الشِّتَائِ، وَثَمَرَۃِ الشِّتَائِ فِي الصَّیْفِ، وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ مِّثْلُہٗ مِمَّا جَرَتْ بِوُجُودِہٖ فِي مِثْلِ ذٰلِکَ الْحِینِ الْعَادَاتُ فِي الْـأَرْضِ، بَلِ الْمَعْرُوفُ فِي النَّاسِ غَیْرُ ذٰلِکَ، کَمَا أَنَّ وِلَادَۃَ الْعَاقِرِ غَیْرُ الْـأَمْرِ الْجَارِیَۃِ بِہِ الْعَادَاتِ فِي النَّاسِ، فَرَغِبَ إِلَی اللّٰہِ جَلَّ ثَنَاؤُہٗ فِي الْوَلَدِ، وَسَأَلَہٗ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۔
’’اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ{ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ} (اسی وقت زکریا نے اپنے ربّ کو پکارا)،تو اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جب سیدنا زکریا علیہ السلام نے سیدہ مریم[ کے پاس اللہ تعالیٰ کادیا ہوا رزق اور فضل دیکھا،جو انہیں بغیر کسی آدمی کے سبب سے ملا تھا،نیز یہ دیکھا کہ ان کے پاس ایسے تازہ پھل تھے،جو اس وقت زمین پر موجود نہ تھے،تو باوجود بڑھاپے اور اپنی اہلیہ کے بانجھ ہونے کے،انہیں اولاد میں رغبت ہوئی۔انہیں یہ امید ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی اہلیہ کو اسی حالت میں اولاد دے گا،جیسے مریم[ کو خلوت کے دوران گرمی میں سردیوں کے پھل اور سردی میں گرمیوں کے پھل عنایت فرمائے۔اگرچہ یہ کام اس وقت زمین میں معمول کا نہ تھا،بلکہ یہ لوگوں کے ہاں دستور کے خلاف تھا۔اسی طرح بانجھ عورت کا ماں بننا بھی لوگوں میں معروف نہ تھا۔اسی لیے سیدنا زکریا علیہ السلام نے اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع فرمایا اور نیک اولاد کا سوال کیا۔‘‘
(تفسیر الطبري : 189-188/3)
اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھا ،تو ان میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی خواہش رکھوں۔اس لیے انہوں نے وہیں اللہ تعالیٰ سے دُعا شروع کر دی اور اپنی دُعا کے وسیلے سے اپنی حاجت طلب کی، لیکن ڈاکٹر صاحب اسے جگہ کے تبرک اور وسیلے کی طرف لے گئے ہیں۔سلف صالحین کے خلاف ان کی یہ تفسیر مقبول نہیں ہو سکتی۔
بعض لوگ قرآن و حدیث کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق نہیں سمجھتے،لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی انسان قرآن و حدیث کو صحابہ کرام اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق نہ سمجھے،تو وہ باولے کتے کی طرح آوارہ ہو جاتا ہے،اسے اپنے ہوش و حواس پر قابو نہیںرہتا اور پھر وہ کچھ بکنا شروع کر دیتا ہے جو اسے کفر و شرک کے در پر لا کھڑا کرتا ہے۔ جو لوگ فہم سلف کو درخور ِاعتنا نہیں سمجھتے،وہ دراصل قرآن و حدیث کو اپنی باطل آرا کا تختۂ مشق بنانا چاہتے ہیں۔
سیدنا موسٰی و ہارونi کے آثار سے تبرک:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ آیَۃَ مُلْکِہٖ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ آلُ مُوْسٰی وَآلُ ھَارُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰئِکَۃُ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ٭} (البقرۃ 2 : 248)
’’پیغمبر نے اُن سے کہا کہ اُس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔اس میں تمہارے رب کی طرف سے تسلی(بخشنے والی چیز)ہو گی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی،جو موسیٰ اور ہارون(i)چھوڑ گئے تھے۔اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے ایک بڑی نشانی ہے۔‘‘
اس آیت ِکریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق،جسے فرشتے اٹھا کر بنی اسرائیل کے پاس لائے تھے،اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی تھی۔اس قوم کے لوگ اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے اور اسے دیکھ کر سکون اور راحت حاصل کرتے تھے۔اس صندوق میں کیا تھا؟اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے،کیونکہ یہ غیب کی بات ہے۔قرآن و حدیث نے اس بارے میں ہماری رہنمائی نہیں کی۔اگر اس کو جاننے میں ہمارے لیے کوئی خیر ہوتی،تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے آگاہ فرما دیتے۔
b احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
’’اس آیت کی تفسیر میں تفسیر خازن(182/1)وروح البیان(386/1)وتفسیر مدارک(205/1) اور جلالین(ص : 50)وغیرہم نے لکھا ہے کہ تابوت ایک شمشاد کی لکڑی کا صندوق تھا،جس میں انبیا کی تصاویر(یہ تصاویر کسی انسان نے نہ بنائی تھیں،بلکہ قدرتی تھیں)،ان کے مکانات ِشریفہ کے نقشے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کے کپڑے اور آپ کے نعلین شریف اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عصا اور ان کاعمامہ وغیرہ تھا۔بنی اسرائیل جب دشمن سے جنگ کرتے،تو برکت کے لیے اس کو سامنے رکھتے تھے۔جب خدا سے دُعا کرتے،تو اس کو سامنے رکھ کر دُعا کرتے تھے۔بخوبی ثابت ہوا کہ بزرگان کے تبرکات سے فیض لینا ان کی عظمت کرنا طریقۂ انبیا ہے۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 370/1، بدر الأنوار في آداب الآثار مندرج في فتاوی الرضویّۃ : 398/2، 414)
یہ کہنا کہ اس صندوق میں تصاویر تھیں،یہ تھا،وہ تھا،بالکل بے دلیل باتیں ہیں،نیز بنی اسرائیل کا دشمن سے جنگ کرتے ہوئے اس سے برکت حاصل کرنا بھی بے ثبوت بات ہے۔ یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں؟اس ضمن میں وہب بن منبہ کا ایک قول ہے،جو کہ ثابت نہیں ہے۔
وہ قول یوں ہے :
فَکَانُوا لَا یَلْقَاھُمْ عَدُوٌّ، فَیُقَدِّمُونَ التَّابُوتَ وَیَزْحِفُونَ بِہٖ مَعَھُمْ؛ إِلَّا ھَزَمَ اللّٰہُ ذٰلِکَ الْعَدُوَّ ۔
’’بنی اسرائیل کو جب دشمن سے پالا پڑتا،تو وہ تابوت کو آگے کر دیتے اور دشمن سے دوبدو لڑائی شروع کر دیتے۔اللہ تعالیٰ ضرور اس دشمن کو شکست دیتا تھا۔‘‘
(تاریخ الطبري : 468/1)
یہ قول جھوٹاہے،کیونکہ :
1 محمد بن حمید رازی جمہور محدثین کرام کے نزدیک’’غیرثقہ‘‘اور ’’ضعیف‘‘ہے۔
اسے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔(تقریب التہذیب : 5834)
2 محمد بن اسحاق(حسن الحدیث)’’مدلس‘‘ہیں۔
3 محمد بن اسحاق کو یہ روایت بیان کرنے والا نامعلوم و ’’مجہولــ ‘‘ہے۔
b اشرف علی تھانوی،دیوبندی صاحب مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’اس آیت میں اصل ہے آثار ِصالحین سے برکت حاصل کرنے کی۔‘‘
(بیان القرآن : 145)
حالانکہ اس آیت میں تو تذکرہ سیدنا موسیٰ وہارونi کے آثار کا ہے،بزرگانِ دین کے تبرکات سے فیض کیسے ثابت کر لیا گیا؟ہم تفصیل کے ساتھ یہ بات ذکر کر چکے ہیں کہ انبیاء ِ کرامo کے آثار سے تبرک شریعت کی روشنی میں جائز و ثابت ہے،جبکہ دیگر صالحین کے آثار سے تبرک مشروع نہیں۔یہی وجہ ہے کہ خیرالقرون میں ایک انسان بھی اولیا و صالحین کے آثار سے تبرک حاصل نہیں کرتا تھا۔
ھاتوا برھانکم إن کنتم صادقین! فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا ۔۔۔
انوکھی بات :
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ گرامی ہے :
{سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ٭} (بني إسرائیل 17 : 1)
’’وہ (ذات)پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ(یعنی بیت المقدس)تک،جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں،لے گئی تا کہ ہم اُسے اپنی(قدرت کی)نشانیاں دکھائیں۔بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے ۔‘‘
ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اس آیت پر عنوان قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مسجد ِ اقصیٰ کے گردو نواح کو انبیاء ِکرام کا مسکن ہونے کی وجہ سے بابرکت بنا دیا۔‘‘(’’تبرک کی شرعی حیثیت‘‘، ص : 28)
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ بات نہیں بتائی کہ مسجد ِاقصیٰ کے اردگرد کو بابرکت کیوں بنایا گیا۔
اس کی دلیل ڈاکٹر صاحب نے یوں دی ہے :
’’علامہ قرطبی اور علامہ شوکانی کے قول کے مطابق بابرکت ہونے کی بڑی وجہ مزارات ِانبیا ہیں۔‘‘(’’تبرک کی شرعی حیثیت‘‘، ص : 29)
یہ علامہ قرطبی اور علامہ شوکانیHپر بہتان ہے۔دونوں شخصیات نے قطعاً ایسا نہیں کہا۔
علامہ قرطبیرحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَقِیلَ : بِمَنْ دُفِنَ حَوْلَہٗ مِنَ الْـأَنْبِیَائِ وَالصَّالِحِینَ ۔
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ برکت اردگرد دفن انبیا و صالحین کی وجہ سے ہے۔‘‘
(تفسیر القرطبي : 212/10)
یعنی علامہ قرطبیرحمہ اللہ نے تو کسی مجہول انسان کی بات کو بصیغۂ تمریض بیان کیا ہے۔یہ قرآن کی تفسیر کیسے بن گئی؟
خیرالقرون میں سے کوئی بھی قبور ِانبیا و صالحین سے تبرک کا قائل و فاعل نہیں تھا۔ کیا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کو قرآنِ کریم کی یہ آیت سمجھ میں نہ آئی تھی؟دین کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کا فہم ہی اسلم و احکم ہے۔
قمیصِ یوسف علیہ السلام سے تبرک:
سیدنا یوسف علیہ السلام کے قصے میں قرآنِ کریم نے ان کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں :
{اِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیْرًا}
(یوسف 12 : 93)
’’میری یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرے پر ڈالو،وہ بینا ہو جائیں گے۔‘‘
اس کے بعد فرمانِ گرامی ہے :
{فَلَمَّا اَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ اَلْقَاہُ عَلٰی وَجْھِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا}(یوسف 12 : 96)
’’جب خوشخبری دینے والا آیا اور اس نے قمیص کو ان (یعقوب علیہ السلام )کے چہرے پر ڈالا،تو وہ بینا ہو گئے۔‘‘
اس واقعہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص سے تبرک لیتے ہوئے اسے سیدنا یعقوب علیہ السلام کے چہرۂ مبارک پر ڈالا گیا تھا،لہٰذا نیک لوگوں کے آثار سے تبرک لینا جائز ہوا۔
حالانکہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر ایسا کیا تھا اور یہ پیغمبر کا معجزہ ہے۔
پھر بھی اگر یہی اصرار کیا جائے کہ یہ قمیص کا تبرک ہی تھا،توہم تفصیل سے یہ بات ذکر کر چکے ہیں کہ انبیاء ِکرام کے آثار سے تبرک جائز و مشروع ہے،لیکن امتیوں کو انبیا پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے تبرک:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ’’حجر‘‘ کی سرزمین میں اترے،اس کے کنویں سے پانی نکالا اور اس سے آٹا گوندھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ اس وادی کے کنویں سے جو پانی نکالا ہے،اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔
وَأَمَرَھُمْ أَنْ یَسْتَقُوا مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي کَانَتْ تَرِدُھَا النَّاقَۃُ ۔
’’نیز انہیں فرمایا کہ وہ اس کنویں سے پانی لیں،جس پر سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی۔‘‘(صحیح البخاري : 3379، صحیح مسلم : 2981)
اس سے بعض لوگ استدلال کرتے ہیں کہ سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے پانی پینے کی وجہ سے وہ کنواں متبرک ہو گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تبرک لینے کے لیے وہاں سے پانی لینے کا حکم فرمایا تھا۔
لیکن یہ بات نہایت بے تُکی اور مردود ہے،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات خود متبرک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی سے تبرک لینا بھی توہین ہے،چہ جائیکہ کسی اور نبی کی اونٹنی کے کنویں کے پانی سے تبرک لیا جائے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ منحوس وادی عذاب ِ الٰہی کا شکار ہو گئی تھی۔ظاہر ہے کہ اس کے پانی پر بھی اس کا اثر ہوا تھا،جو صحت کے لیے نقصان دہ تھا۔البتہ جس کنویں سے سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی،اس کا معاملہ مختلف تھا۔
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجررحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں :
وَفِي الْحَدِیثِ کَرَاہِیَۃُ الِاسْتِسْقَائِ مِنْ بِیَارِ ثَمُودَ، وَیَلْتَحَقُ بِھَا نَظَائِرُھَا مِنَ الْـآبَارِ وَالْعُیُونِ الَّتِي کَانَتْ لِمَنْ ھَلَکَ بِتَعْذِیبِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی کُفْرِہٖ ۔
’’اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قومِ ثمود کے کنووں سے پانی پینا مکروہ ہے۔ وہ کنویں اور چشمے بھی اسی حکم میں ہیں،جن کا تعلق ان لوگوں سے تھا،جو اپنے کفر پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘‘(فتح الباري : 380/6)
یعنی اس معاملے کا تعلق تبرک سے ہے ہی نہیں۔یہ خیال کرنا کہ وہ پانی مبارک تھا،کیونکہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی وہ پانی پیتی تھی،بلادلیل ہے اور کسی کی بلادلیل بات قابل قبول نہیں ہوتی۔
لہٰذا علامہ نووی(شرح صحیح مسلم : 112/18)اور علامہ قرطبی(الجامع لاحکام القرآن : 47/10)کی طرف مذکورہ حدیث سے صالحین کے آثار سے تبرک لینے کے جواز کا استدلال درست نہیں۔
حیات ِمبارکہ کے ساتھ خاص تبرک:
یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تبرک کی کئی صورتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ تک محدود تھیں،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد ِاقدس،دست ِمبارک،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے پانی، پسینہ مبارک،لعاب ِدہن،ناخن مبارک،وغیرہ سے تبرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ تک ہی ہو سکتا تھا۔
بعد از وفات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک:
بعد از وفات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک کی دو صورتیں ہی باقی رَہ گئی ہیں :
1 آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کر کے خیر کثیر،اجر ِعظیم اور سعادت ِدارین حاصل کرنا،جیسا کہ :
n شیخ الاسلام والمسلمین،ابن تیمیہرحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
کَانَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ لَمَّا قَدِمَ عَلَیْہِمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي بَرَکَتِہٖ لَمَّا آمَنُوا بِہٖ وَأَطَاعُوہُ؛ فَبِبَرَکَۃِ ذٰلِکَ حَصَلَ لَہُمْ سَعَادَۃُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، بَلْ کُلُّ مُؤْمِنٍ آمَنَ بِالرَّسُولِ وَأَطَاعَہٗ حَصَلَ لَہٗ مِنْ بَرَکَۃِ الرَّسُولِ بِسَبَبِ إیمَانِہٖ وَطَاعَتِہٖ مِنْ خَیْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ مَا لَا یَعْلَمُہٗ إِلَّا اللَّہُ ۔
’’جب اہل مدینہ کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر مطیع و فرمانبردار بن گئے،تو اس کی برکت سے انہیں دنیا و آخرت کی سعادت نصیب ہوئی،بلکہ جو بھی شخص رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِبابرکات پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی اطاعت کرتا ہے،اسے اس ایمان و اطاعت کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت دنیا و آخرت کی ان بھلائیوں کی صورت میں نصیب ہوتی ہے،جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 113/11)
2 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے تبرک کی دوسری صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثارِ مبارکہ،جیسے عصامبارک،بال مبارک،نعلین شریفین،جبہ مبارک وغیرہ سے تبرک کا حصول تھی۔
تبرک کی اقسام
مشروعیت کے اعتبار سے تبرک کی دو قسمیں ہیں :
1 تبرکِ مشروع(جائز تبرک)
2 تبرکِ ممنوع(ناجائز تبرک)
آئیے اب دونوں قسموں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ؛
تبرکِ مشروع :
تبرک امور ِتوقیفی میں سے ہے،یعنی اس کا تعلق ان چیزوں سے ہے،جن کا تعین شریعت نے خود کیا ہے۔کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ شریعت کی معتبر دلیل کے بغیر کسی چیز کو متبرک قرار دے۔لہٰذا وہی تبرک جائز اور مشروع ہو گا،جس کا جواز شریعت سے ثابت ہو گا،جیسا کہ صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین و ائمہ دین نے آثار ِنبوی سے تبرک حاصل کیا۔یہ ان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال محبت کی دلیل ہے اور اسلاف ِامت کی اس رَوَش کی پیروی لازم ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیاپگڑی شریف وغیرہ صحابہ کرام،تابعین وتبع تابعین کے دور میں موجود تھیں اور کیا اسلاف ِ امت کا ان سے تبرک لینا ثابت ہے؟اگر اس دور میں بھی ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں تھا، تو اتنی صدیوں بعد یہ کہاں سے دریافت ہو گئیں؟
تبرکِ ممنوع :
جو تبرک شرعی دلائل سے ثابت ہے،وہ جائز ہے،اس کے علاوہ باقی ہر قسم کا تبرک ممنوع و ناجائز اور حرام ہے۔ممنوع تبرک کی پھر دو قسمیں ہیں :
1 شرکی تبرک 2 بدعی تبرک
1 شرکی تبرک :
ایسا تبرک جس سے شرک لازم آئے۔اس کی پھر دو قسمیں بنتی ہیں ؛
۱۔ ایک وہ جس میں کسی چیز کے بارے میں یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اس کی برکت ذاتی ہے اور یہ سمجھا جائے کہ وہ از خود مافوق الاسباب خیرو برکت عطا کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ایسا اعتقاد چونکہ عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت شرک ہے۔
۲۔ شرکی تبرک کی دوسری قسم یہ ہے کہ حصولِ برکت کی نیت سے اولیا و صالحین اور ان کی قبروں،مزاروں اور آستانوں پر جانور ذبح کرنا یا ان کے نام کی منتیں ماننا تاکہ ان کی برکت نصیب ہو جائے یا وہ خوش ہو کر دُعا اور سفارش کریں یا قبر پر اعتکاف اور طواف سے تبرک حاصل کرنا۔یہ بھی غیر اللہ کی عبادت ہونے کی بنا پر شرک میں داخل ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا٭} (الجن 72 : 18)
’’تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔‘‘
n علامہ،ابراہیم بن موسیٰ،شاطبیرحمہ اللہ (م : 790ھ)لکھتے ہیں :
وَالْآیَاتُ الَّتِي قَرَّرَ فِیہَا حَالَ الْمُشْرِکِینَ فِي إِشْرَاکِہِمْ أَتٰی فِیہَا بِذِکْرِ الضَّلَالِ، لِأَنَّ حَقِیقَتَہٗ أَنَّہٗ خُرُوجٌ عَنِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیمِ، لِأَنَّہُمْ وَضَعُوا آلِہَتَہُمْ لِتُقَرِّبَہُمْ إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی فِي زَعْمِہِمْ، فَقَالُوا : {مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی} (الزمر 39 : 3)، فَوَضَعُوہُمْ مَّوْضِعَ مَنْ یُتَوَسَّلُ بِہٖ حَتّٰی عَبَدُوہُمْ مِنْ دُونِ اللّٰہِ، إِذْ کَانَ أَوَّلُ وَضْعِہَا فِیمَا ذَکَرَ الْعُلَمَائُ صُوَرًا لِّقَوْمٍ یَوُدُّونَہُمْ وَیَتَبَرَّکُونَ بِہِمْ، ثُمَّ عُبِدَتْ، فَأَخَذَتْہَا الْعَرَبُ مِنْ غَیْرِہَا عَلٰی ذٰلِکَ الْقَصْدِ، وَہُوَ الضَّلَالُ الْمُبِینُ ۔
’’جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے شرک کا حال بیان فرمایا ہے،ان میں گمراہی کا ذکر کیا ہے،کیونکہ حقیقت میں یہ صراط ِمستقیم سے بھٹک جانا ہے۔ مشرکین نے (بتوں کی صورت میں)اپنے معبود اس لیے گھڑے تھے کہ وہ ان کے خیال میں انہیں اللہ کے قریب کرتے تھے،چنانچہ انہوں نے کہا :{مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی} (الزمر 39 : 3) (ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ مرتبے میں ہمیں اللہ کے قریب کر دیں)۔یوں انہوں نے انہیں تقرب ِالٰہی کا وسیلہ بنایا تھا،لیکن ایک وقت آیا کہ ان کی عبادت کرنے لگے۔علمائِ کرام نے ذکر کیا ہے کہ ا نہوں نے آغاز میں ان لوگوں کی تصویریں بنائیں جن سے وہ محبت کرتے تھے اور تبرک حاصل کرتے تھے، پھر ان کی پوجا کی جانے لگی۔عربوں نے بھی اسی نیت سے غیروں سے یہ فعل لے لیا، لیکن یہ واضح گمراہی ہے۔‘‘(الاعتصام : 182/1، ت : الھلالي)
n شیخ الاسلام،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہرحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَأَمَّا الْـأَشْجَارُ وَالْـأَحْجَارُ وَالْعُیُونُ وَنَحْوُہَا، مِمَّا یَنْذِرُ لَہَا بَعْضُ الْعَامَّۃِ، أَوْ یُعَلِّقُونَ بِہَا خِرَقًا، أَوْ غَیْرَ ذَلِکَ، أَوْ یَأْخُذُونَ وَرَقَہَا یَتَبَرَّکُونَ بِہٖ، أَوْ یُصَلُّونَ عِنْدَہَا، أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ؛ فَہٰذَا کُلُّہٗ مِنَ الْبِدَعِ الْمُنْکَرَۃِ، وَہُوَ مِنْ عَمَلِ أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ، وَمِنْ أَسْبَابِ الشِّرْکِ بِاللّٰہِ تَعَالٰی ۔
’’درخت،پتھر اور چشمے وغیرہ،جن کے لیے کچھ لوگ نذریں مانتے ہیں یا ان کے ساتھ کپڑوں کے ٹکڑے وغیرہ باندھتے ہیںیا ان کے پتے تبرک کے لیے لیتے ہیں یا ان کے پاس نماز وغیرہ پڑھتے ہیں،یہ سب کام منکر بدعات اور جاہلیت والے اعمال اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے اسباب میں سے ہیں۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 136/27، 137)
n شاہ ولی اللہ دہلوی حنفیرحمہ اللہ (1176-1114ھ)لکھتے ہیں :
کَانَ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَقْصُدُونَ مَوَاضِعَ مُعَظَّمَۃً بِزَعْمِہِمْ یَزُورُونَہَا، وَیَتَبَرَّکُونَ بِہَا، وَفِیہِ مِنَ التَّحْرِیفِ وَالْفَسَادِ مَا لَا یَخْفٰی، فَسَدَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْفَسَادَ لِئَلَّا یَلْتَحِقَ غَیْرُ الشَّعَائِرِ بِالشَّعَائِرِ، وَلِئَلَّا یَصِیرَ ذَرِیعَۃً لِّعِبَادِۃِ غَیْرِ اللّٰہِ، وَالْحَقُّ عِنْدِي أَنَّ الْقَبْرَ وَمَحَلُّ عِبَادَۃِ وَلِيٍّ مِّنْ أَوْلِیَائِ اللّٰہِ وَالطُّورُ کُلُّ ذٰلِکَ سَوَائٌ فِي النَّہْيِ ۔
’’زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسے مقامات کی زیارت کے لیے جاتے تھے جو ان کے خیال میں قابل احترام ہوتے تھے،وہ ان سے برکت حاصل کرتے تھے۔اس عمل میںچونکہ واضح طور پر تحریف اور فساد موجود تھا،اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بگاڑ کے اس دروازے کو بند کر دیا تاکہ جو چیزیں شعائر ِاسلام میں شامل نہیں،وہ شعائر میں شامل نہ ہو جائیں اور غیر اللہ کی عبادت کا ذریعہ نہ بن جائیں۔میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ قبر،کسی ولی کی عبادت گاہ،حتی کہ کوہِ طور سب اس (حکم ممانعت) میں برابر ہیں(ان سب کی طرف تقرب وتبرک کی نیت سے سفر ممنوع ہے)۔‘‘
(حجّۃ اللّٰہ البالغۃ، من أبواب الصلاۃ : 192/1)
n معروف عرب عالم،عبد الرحمن بن ناصر،سعدیرحمہ اللہ (1376-1303ھ)لکھتے ہیں:
فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنَ الشِّرْکِ وَمِنْ أَعْمَالِ الْمُشْرِکِینَ، فَإِنَّ الْعُلَمَائَ اتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّہٗ لَا یُشْرَعُ التَّبَرُّکُ بِشَيْئٍ مِّنَ الْـأَشْجَارِ وَالْـأَحْجَارِ وَالْبُقَعِ وَالْمَشَاہِدِ وَغَیْرِہَا، فَإِنَّ ہٰذَا التَّبَرُّکَ غُلُوٌّ فِیہَا، وَذٰلِکَ یَتَدَرَّجُ بِہٖ إِلٰی دُعَائِہَا وَعِبَادَتِہَا، وَہٰذَا ہُوَ الشِّرْکُ الْـأَکْبَرُ، کَمَا تَقَدَّمَ انْطِبَاقُ الْحَدِّ عَلَیْہِ، وَہٰذَا عَامٌّ فِي کُلِّ شَيْئٍ حَتّٰی مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ وَحُجْرَۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَخْرَۃِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ وَغَیْرِہَا مِنَ الْبُقَعِ الْفَاضِلَۃِ، وَأَمَّا اسْتِلَامُ الْحَجَرِ الْـأَسْوَدِ وَتَقْبِیلُہٗ، وَاسْتِلَامُ الرُّکْنِ الْیَمَانِيِّ مِنَ الْکَعْبَۃِ الْمُشَرَّفَۃِ، فَہٰذَا عُبُودِیَّۃٌ لِّلّٰہِ، وَتَعْظِیمٌ لِّلّٰہِ، وَخُضُوعٌ لِّعَظَمَتِہٖ، فَہُوَ رُوحُ التَّعَبُّدِ، فَہٰذَا تَعْظِیمٌ لِّلْخَالِقِ وَتَعَبُّدٌ لَّہٗ، وَذٰلِکَ تَعْظِیمٌ لِّلْمَخْلُوقِ وَتَأَلُّہٌ لَّہٗ، فَالْفَرْقُ بَیْنَ الْـأَمْرَیْنِ کَالْفَرْقِ بَیْنَ الدُّعَائِ لِلّٰہِ الَّذِي ہُوَ إِخْلَاصٌ وَّتَوْحِیدٌ، وَالدُّعَائُ لِلْمَخْلُوقِ الَّذِي ہُوَ شِرْک ٌوَّتَنْدِیدٌ ۔
’’یہ اعمال شرک ہیں اور مشرکین کے اعمال ہیں،کیونکہ علمائِ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ شجرو حجراور مزارات وغیرہ میں سے کسی بھی چیز سے تبرک لینا جائز نہیں۔یہ تبرک غلو پر مبنی ہے اور یہ عمل بتدریج دعا اور عبادت کی طرف لے جاتا ہے،جو کہ شرکِ اکبر ہے۔سابقہ سطور میں اسے شرکِ اکبر قرار دینے پر بات ہو چکی ہے۔ یہ قاعدہ ہر چیز کے لیے عام ہے،حتی کہ مقامِ ابراہیم،حجرۂ نبوی اور بیت المقدس وغیرہ جیسی فضیلت والی جگہیں بھی اس میں شامل ہیں۔رہا حجر اسود کا استلام اور اس کو چومنا اور کعبہ شریف کے رکن یمانی کا استلام،تو یہ اللہ کی عبادت،اس کی تعظیم اور اس کی عظمت کے آگے جھکنا ہے۔یہی عبادت کی روح ہوتی ہے۔ یہ خالق کی تعظیم اور عبادت ہے،جبکہ اشجارو احجار اور مزارات سے تبرک لینا مخلوق کی تعظیم و عبادت ہے۔ان دونوں میں وہی فرق ہے،جو اللہ اور مخلوق کو پکارنے میں ہے۔اللہ کو پکارنا اخلاص اور توحید ہے،جبکہ مخلوق کو(مافوق الاسباب)پکارنا شرک اور ساجھی بنانا ہے۔‘‘(القول السدید شرح کتاب التوحید، ص : 50)
ایک دلیل :
ممنوع تبرک کے شرک میں داخل ہونے کی ایک دلیل ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا ابوواقد،حارث بن عوف،لیثی رضی اللہ عنہ (م : 68ھ)بیان کرتے ہیں :
لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ؛ خَرَجَ بِنَا مَعَہٗ قِبَلَ ہَوَازِنَ، حَتّٰی مَرَرْنَا عَلٰی سِدْرَۃِ الْکُفَّارِ، سِدْرَۃٌ یَّعْکِفُونَ حَوْلَہَا وَیَدْعُونَہَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ، قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ کَمَا لَہُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، إِنَّہَا السُّنَنُ، ہٰذَا کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسٰی : {اجْعَلْ لَنَا اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ٭} (الأعراف 7 :138)‘، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’إِنَّکُمْ لَتَرْکَبُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ‘ ۔
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا،تو ہمارے ساتھ ہوازن کی طرف تشریف لے گئے۔ہم کفار کی اس بیری کے پاس سے گزرے،جس کے گرد وہ قیام کرتے تھے اور اسے ذات ِانواط کا نام دیتے تھے۔ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ان کی طرح کا کوئی ذات ِانواط مقرر کر دیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر! یہ تو بنی اسرائیل کے نقش قدم کی پیروی ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا :{اجْعَلْ لَنَا اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ٭}(الأعراف 7 :138) (ہمارے لیے بھی الٰہ مقرر کر دیجیے جس طرح ان [مشرکین]کے الٰہ ہیں۔موسیٰرحمہ اللہ نے فرمایا:تم جاہل قوم ہو)۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 21897، 21900، سنن الترمذي : 2180، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذیرحمہ اللہ نے’’حسن صحیح‘‘اور امام ابن حبانرحمہ اللہ (6702)نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
n علامہ طرطوشی(520-451ھ)اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
فَانْظُرُوا ـــ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ ـــ أَیْنَمَا وَجَدْتُّمْ سِدْرَۃً أَوْ شَجَرَۃً یَّقْصِدُہَا النَّاسُ، وَیُعَظِّمُونَ مِنْ شَأْنِہَا، وَیَرْجُونَ الْبَرْئَ وَالشِّفَائَ مِنْ قِبَلِہَا، وَیَنُوطُونَ بِہَا الْمَسَامِیرَ وَالْخِرَقَ؛ فَہِيَ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، فَاقْطَعُوہَا ۔
’’اللہ آپ پر رحم کرے،آپ جہاں بھی ایسی بیری یا کوئی درخت دیکھیں، جس کی زیارت کے لیے لوگ آتے ہوں،اس کی تعظیم کرتے ہوں،اس سے شفا یابی کی امید رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ کیل اور کپڑے وغیرہ لٹکاتے ہوں،تو وہ ذات ِ انواط ہے،اسے کاٹ دیں۔‘‘(الحوادث والبدع، ص : 39)
n علامہ ابو شامہرحمہ اللہ (655-599ھ)لکھتے ہیں :
وَمِنْ ہٰذَا الْقِسْمِ أَیْضًا مَّا قَدْ عَمَّ الِابْتِلَائُ بِہٖ؛ مِنْ تَزْیِینِ الشَّیْطَانِ لِلْعَامَّۃِ تَخْلِیقَ الْحِیطَانِ وَالْعُمُدِ وَسَرْحَ مَوَاضِعَ مَخْصُوصَۃٍ فِي کُلِّ بَلَدٍ، یَحْکِي لَہُمْ حَاکٍ أَنَّہٗ رَآی فِي مَنَامِہٖ بِہَا أَحَدًا مِّمَّنِ اشْتَہَرَ بِالصَّلاَحِ وَالْوِلَایَۃِ، فَیَفْعَلُونَ ذٰلِکَ، وَیُحَافِظُونَ عَلَیْہِ مَعَ تَضْیِیعِہِمْ فَرَائِضَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَسُنَنَہٗ، وَیَظُنُّونَ أَنَّہُمْ مُّتَقَرِّبُونَ بِذٰلِکَ، ثُمَّ یَتَجَاوَزُونَ ہٰذَا إِلٰی أَنْ یُّعَظِّمَ وَقْعَ تِلْکَ الْـأَمَاکِنِ فِي قُلُوبِہِمْ، فَیُعَظِّمُونَہَا، وَیَرْجُونَ الشِّفَائَ لِمَرْضَاہُمْ، وَقَضَائَ حَوَائِجِہِمْ بِالنَّذْرِ لَہُمْ، وَہِيَ مِنْ بَیْنِ عُیُونٍ وَّشَجَرٍ وَّحَائِطٍ وَّحَجَرٍ ۔
’’اسی قبیل سے وہ خرافات ہیں،جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہو چکے ہیں۔ شیطان عوام کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ دیواریں اور میناربنائیں،نیز ہر علاقے میں مخصوص جگہوں پر عمارتیں کھڑیں کریں۔ایک بیان کرنے والا بیان کرتا ہے کہ اس نے اپنے خواب میں فلاں مشہور نیک ولی کو دیکھا ہے،اس پر لوگ قبوں کی تعمیر شروع کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرائض و سنن کو ضائع کر کے ان کی حفاظت کرتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ وہ اس کام کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کر رہے ہیں۔پھر وہ اس سے آگے بڑھتے ہیں اور شیطان ان کے دلوں میں ان جگہوں کی تعظیم بٹھا دیتا ہے اور وہ ان کی تعظیم شروع کر دیتے ہیں،نیز وہ ان جگہوں پر نذر مان کر اپنے مریضوں کی شفا اور اپنی ضرورتوں کے پورا ہونے کی امید رکھنے لگتے ہیں۔یہ جگہیں چشموں، درختوں، دیواروں اور پتھروں کے درمیان ہیں۔‘‘
(الباعث علٰی إنکار البدع والحوادث، ص : 25، 26)
n شیخ الاسلام،ابن تیمیہرحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
فَأَنْکَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُجَرَّدَ مُشَابَہَتَہُمْ لِلْکُفَّارِ فِي اتِّخَاذِ شَجَرَۃٍ یَّعْکُفُونَ عَلَیْہَا، مُعَلِّقِینَ عَلَیْہَا سِلَاحَہُمْ، فَکَیْفَ بِمَا ہُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذٰلِکَ مِنْ مُّشَابَہَتِہِمُ الْمُشْرِکِینَ، أَوْ ہُوَ الشِّرْکُ بِعَیْنِہٖ؟
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے ساتھ محض اس مشابہت پر سختی سے ردّ فرمایا کہ ایک درخت مقرر کیا جائے،جس کے اردگرد وہ بیٹھا کریں اور اس پر اپنا اسلحہ لٹکائیں۔ایسی صورت میں وہ کام کیسے جائز ہو سکتا ہے،جو اس سے بڑھ کر مشرکین سے مشابہت کا باعث ہو یا بعینہٖ شرک ہو؟‘‘
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم : 158/2)
n علامہ،محمد بن صالح،عثیمینرحمہ اللہ (1421-1347ھ)فرماتے ہیں :ـ
فَہٰؤُلَائِ طَلَبُوا سِدْرَۃً یَّتَبَرَّکُونَ بِہَا کَمَا یَتَبَرَّکُ الْمُشْرِکُونَ بِہَا، وَأُولٰئِکَ طَلَبُوا إِلٰہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃً، فَیَکُونُ فِي کِلَا الطَّلَبَیْنِ مُنَافَاۃٌ لِّلتَّوْحِیدِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ بِالشَّجَرِ نَوْعٌ مِّنَ الشِّرْکِ، وَاتِّخَاذُہٗ إِلٰہًا شِرْکٌ وَّاضِحٌ ۔
’’صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے بیری کا ایک درخت ہونا چاہیے جس سے وہ تبرک حاصل کریں،جیسا کہ مشرکین تبرک حاصل کرتے تھے، جبکہ موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں نے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے معبود ہوں جیسے اس دور کے کفار نے بنائے ہوئے تھے۔ان دونوں مطالبات میں توحید کی نفی تھی،کیونکہ درختوں سے تبرک شرک کی ایک قسم ہے اور ان کو الٰہ بنانا واضح شرک ہے۔‘‘
(القول المفید علی کتاب التوحید : 205/1)
تبرکِ بدعی :
آثار ِصالحین اور آثار ِاولیا سے تبرک حاصل کرنا بدعت ہے،کیونکہ آثار سے تبرک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ قبر نبوی یا قبور ِصالحین سے تبرک غیر مشروع ہے،کیونکہ اس پر کوئی دلیل شرعی نہیں،بلکہ بہت سی احادیث ِنبویہ صریح طور پر اس فعل کی قباحت و شناعت بیان کرتی ہیں۔
مقامِ ابراہیم کو بطور ِتبرک بوسہ دینا،کعبۃ اللہ کی دیواروں کو چومنا،غلافِ کعبہ کو پکڑ کر دُعائیں کرنا ،کعبہ کے پرنالے کے نیچے کھڑے ہو جانا،صالحین کے آثار کو چومنا،بطور ِتبرک صالحین کے پاؤں کو بوسہ دینا اور برکت حاصل کرنے کی نیت سے حجر اسود کو چومنا، انبیائِ کرام اور الیائِ عظام کے مقامات ِ ولادت ووفات سے تبرک حاصل کرنا،شب ِبراء ت، شب ِمیلاد النبی اور شب ِمعراج کو عبادت کے ساتھ خاص کر کے تبرک حاصل کرنا،مسجد ِحرام، مسجد ِنبوی اور مسجد ِاقصیٰ کی زمین کو چومنا،مسجد ِنبوی کے ستونوں کو چومنا،جمعرات یا کسی بھی دن اس نظریے سے نکاح کرنا کہ اس میں برکت ہو گی،نعلین شریفین کی (جو کہ فرضی ہوتی ہے)بنا کر اس سے تبرک حاصل کرنا،کعبۃ اللہ کی شبیہ بنانا،صالحین کی قبروں کی مٹی کو متبرک سمجھنا، صالحین کی نشست گاہوں،اقامت گاہوں کو متبرک خیال کرنا،خاص نیت سے ان کی قبروں کی طرف سفر کرنا،وہاں نماز پڑھنا،صالحین کی قبروں پر مساجد بنانا،وہاں صدقات و خیرات تقسیم کرنا،ننگے پاؤں چل کر قبروں پر حاضری دینا،نذر و نیاز دینا اور ان کی اشیا و آثار کے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں دُعا کر کے تبرک حاصل کرنابدعت ہے۔
سلف صالحین،صحابہ کرام،تابعین عظام ،تبع تابعین اور ائمہ اسلام سے ایسا کچھ ثابت نہیں۔ اگر یہ افعال و اعمال دین کا حصہ ہوتے،تو اسلاف ِامت بڑھ چڑھ کر ان کو اپناتے، کیونکہ وہ خیرو برکت کے حصول پر بہت زیادہ حریص تھے۔وہ دین ہی کیا جس کا بافضیلت زمانوں میں ذکر تک نہ ہو؟
امامِ بریلویت،احمد رضا خان بریلوی کس قدر غلو میں مبتلا ہیں! لکھتے ہیں :
’’لہٰذا دربارہ کربلائے معلی(قبر حسین رضی اللہ عنہ)اب صرف کاغذ پر صحیح نقشہ لکھا ہوا محض بقصد ِتبرک بے آمیزش منہیات پاس رکھنے کی اجازت ہو سکتی ہے۔‘‘
(فتاویٔ رضویہ، جلد 21، صفحہ : 424)
نیز لکھتے ہیں :
’’یونہی اگر روضہ مبارکہ حضرت شہزادہ گلگوں قبا حسین شہید ظلم و جفا صلوات اللہ وتعالیٰ وسلامہ علی جدہ الکریم وعلیہ کی صحیح مثل بنا کر محض تبرک بے آمیزش منکرات شرعیہ مکا ن میں رکھے تو شرعاً کوئی حرج نہ تھا۔‘‘(فتاویٔ رضویہ : 423/21)
قارئین کرام! جس مذہب پر قرآن و حدیث،آثار ِصحابہ اور ائمہ محدثین کے قول و فعل سے دلیل نہ ملے،یقینا وہ عجمی اور بدعی مذہب ہے۔اس کی بنیاد تو وحیِ شیطانی اور خواہشات ِنفسانی پر ہوتی ہے۔اس سب کے باوجود ایسے مذہب کو اپنانے والے اپنے آپ کو اس دھڑلے سے اہل سنت کہتے ہیں کہ عام لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں۔لیکن جن لوگوں کا مشن ہی بدعات کوفروغ دینا ہو،وہ صحابہ و تابعین کو کیسے معیار بنا لیں؟
n شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہابرحمہ اللہ (1233-1200ھ)لکھتے ہیں :
ذَکَرَ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِینَ أَنَّ التَّبَرُّکَ بِآثَارِ الصَّالِحِینَ مُسْتَحَبٌّ کَشُرْبِ سُؤْرِہِمْ، وَالتَّمَسُّحُ بِہِمْ أَوْ بِثِیَابِہِمْ، وَحَمْلِ الْمَوْلُودِ إِلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمْ لِیُحَنِّکَہٗ بِتَمْرَۃٍ حَتّٰی یَکُونَ أَوَّلَ مَا یَدْخُلُ جَوْفَہٗ رِیقُ الصَّالِحِینَ، وَالتَّبَرُّکُ بِعَرَقِہِمْ وَنَحْوِ ذٰلِکَ، وَقَدْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ أَبُو زَکَرِیَّا النَّوَوِيُّ فِیْ شَرْحِ مُسْلِمٍ فِي الْـأَحَادِیثِ الَّتِي فِیہَا أَنَّ الصَّحَابَۃِ فَعَلُوا شَیْئًا مِّنْ ذٰلِکَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَظَنَّ أَنَّ بَقِیَّۃَ الصَّالِحِینَ فِي ذٰلِکَ کَالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہٰذَا خَطَأٌ صَرِیحٌ لِّوُجُوہٍ؛ مِنْہَا عَدَمُ الْمُقَارَبَۃِ فَضْلاً عَنِ الْمُسَاوَاۃِ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْفَضْلِ وَالْبَرَکَۃِ، وَمِنْہَا عَدَمُ تَحَقُّقِ الصَّلَاحِ، فَإِنَّہٗ لَا یَتَحَقَّقُ إِلَّا بِصَلَاحِ الْقَلْبِ، وَہٰذَا أَمْرٌ لَّا یُمْکِنُ الِاطِّلَاعُ عَلَیْہِ إِلَّا بِنَصٍّ، کَالصَّحَابَۃِ الَّذِینَ أَثْنَی اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَرَسُولُہٗ، أَوْ أَئِمَّۃُ التَّابِعِینَ، وَمَنْ شَہَرَ بِصَلَاحٍ وَّدِینٍ کَالْـأَئِمَّۃِ الْـأَرْبَعَۃِ وَنَحْوِہِمْ؛ مِنَ الَّذِینَ تَشْہَدُ لَہُمُ الْـأُمَّۃُ بِالصَّلَاحِ، وَقَدْ عُدِمَ أُولٰئِکَ، أَمَّا غَیْرُہُمْ؛ فَغَایَۃُ الْـأَمْرِ أَنْ نَّظُنَّ أَنَّہُمْ صَالِحُونَ، فَنَرْجُو لَہُمْ، وَمِنْہَا أَنَّا لَوْ ظَنَنَّا صَلَاحَ شَخْصٍ؛ فَلَا نَأْمَنُ أَنْ یُّخْتَمَ لَہٗ بِخَاتِمَۃٍ سُوئٍ، وَالْـأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیمِ، فَلَا یَکُونُ أَہْلاً لِّلتَّبَرُّکِ بِآثَارِہٖ،
وَمِنْہَا أَنَّ الصَّحَابَۃَ لَمْ یَکُونُوا یَفْعَلُونَ ذٰلِکَ مَعَ غَیْرِہٖ، لَا فِي حَیَاتِہٖ وَلَا بَعْدَ مَوْتِہٖ، وَلَوْ کَانَ خَیْرًا لَّسَبَقُونَا إِلَیْہِ، فَہَلَّا فَعَلُوہُ مَعَ أَبِي بَکْرٍ وَّعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَّنَحْوِہِمْ؛ مِنَ الَّذِینَ شَہِدَ لَہُمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّۃِ، وَکَذٰلِکَ التَّابِعُونَ؛ ہَلَّا فَعَلُوہُ مَعَ سَعِیدِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ، وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَیْنِ، وَأُوَیْسٍ الْقَرْنِيِّ، وَالْحَسَنِ الْبَصَرِيِّ وَنَحْوِہِمْ؛ مِمَّنْ یُّقْطَعُ بِصَلَاحِہِمْ، فَدَلَّ أَنَّ ذٰلِکَ مَخْصُوصٌ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمِنْہَا أَنَّ فِعْلَ ہٰذَا مَعَ غَیْرِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمَنُ أَنْ یُّفْتِنَہٗ، وَتَعْجَبَہٗ نَفْسُہٗ، فَیُورِثُہُ الْعُجْبَ وَالْکِبْرَ وَالرِیَائَ، فَیَکُونُ ہٰذَا کَالْمَدْحِ فِي الْوَجْہِ، بَلْ أَعْظَمُ ۔
’’بعض متاخرین نے ذکر کیا ہے کہ نیک لوگوں کے آثار سے تبرک لینا مستحب ہے، مثلاً ان کا بچا ہوا پانی وغیرہ پینا،ان کے جسم یا کپڑوں کو چھونا،نومولود بچے کو ان میں سے کسی کے پاس لے کر جانا تاکہ وہ اسے کھجور کی گھٹی دے اور بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز داخل ہو،وہ نیک لوگوں کا لعاب ہو،اسی طرح ان کے پسینے سے برکت حاصل کرناوغیرہ۔اس قسم کی بہت سی باتیں علامہ،ابوزکریا، نوویرحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں ان احادیث کے تحت کی ہیں،جن میں صحابہ کرام کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک لینے کا بیان تھا۔علامہ نوویرحمہ اللہ نے یہ سمجھ لیا کہ باقی نیک لوگوں کا بھی اس سلسلے میں وہی معاملہ ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا،لیکن یہ واضح غلطی ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں؛ 1نیک لوگ فضل و برکت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر تو کجا قریب قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ 2 عام نیک لوگوں کی نیکی متحقق نہیں ہوتی،کیونکہ نیکی تو دل کی پاکیزگی سے ثابت ہوتی ہے اور دل کا معاملہ ایسا ہے،جس کا علم صرف نص سے ہو سکتا ہے۔مثلاً صحابہ کرام جن کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی یا تابعین ائمہ اور وہ لوگ جن کی نیکی اور دین داری مشہور ہو گئی،جیسے ائمہ اربعہ وغیرہ،جن کی نیکی کی ساری امت گواہی دیتی ہے۔یہ سب لوگ تو گزر چکے ہیں۔رہے باقی نیک لوگ،تو ان کی نیکی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ہمارا گمان ہوتا ہے۔ہم اللہ کے ہاں ان کے نیک ہونے کی امید رکھتے ہیں۔3 اگر ہم کسی شخص کے نیک ہونے کا گمان کر بھی لیں،تو اس بات کا خدشہ ختم نہیں ہوتا کہ ان کا خاتمہ بُرا ہو جائے،جبکہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔اگر کسی کا خاتمہ بُرا ہو جائے،تو وہ تبرک کا اہل نہیں رہے گا۔4 صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے تبرک نہیں لیا،نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد۔اگر یہ نیکی کا کام ہوتا،تو وہ ضرور ہم سے پہلے اسے کرتے۔صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکروعمر اور عثمان وعلی وغیرہ] کے ساتھ ایسا کیوں نہ کیا،جن کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی گواہی دی تھی؟اسی طرح تابعین کرام نے امام سعید بن مسیب، علی بن حسین، اویس قرنی،حسن بصری وغیرہرحمہم اللہ سے کیوں تبرک نہ لیا،جن کو یقینی طور پر نیک کہا جا سکتا ہے؟اس سے معلوم ہوا کہ تبرک کا معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص تھا۔5 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کا تبرک لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ ایسا کرنا اسے فتنے میں مبتلا نہ کردے۔وہ اس وجہ سے خودپسندی،تکبر اور ریاکاری کا شکار نہ ہو جائے۔یہ معاملہ کسی کے سامنے تعریف کرنے کی طرح ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر مضر ہے۔‘‘
(تیسیر العزیز الحمید في شرح کتاب التوحید الذي ھو حقّ اللّٰہ علی العبید، ص : 150، 151)
n علامہ،ڈاکٹر،شمس الدین،افغانی،سلفیرحمہ اللہ (1420-1372ھ)لکھتے ہیں :
تَبَرُّکٌ بِدْعِيٌّ؛ وَہُوَ مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ طَلَبُ الْخَیْرِ وَالنَّمَائِ مِنْ غَیْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیمَا لَا یَقْدِرُ عَلَیْہِ إِلَّا اللّٰہ، بَلْ کَانَ فِیہِ طَلَبُ الْخَیْرِ وَالنَّمَائِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَلٰکِنْ بِوَاسِطَۃِ شَيْئٍ لَّمْ یَرِدِ الشَّرْعُ بِہٖ، کَطَلَبِ الْبَرَکَۃِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی بِوَاسِطَۃِ غُلَافِ الْکَعْبَۃِ، أَوْ طَلَبِ الْبَرَکَۃِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی بِوَاسِطَۃِ اسْتِلَامِ الْحُجْرَۃِ النَّبَوِیَّۃِ، أَوْ طَلَبِ الْبَرَکَۃِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی بِوَاسِطَۃِ تَمْرِ الْمَدِینَۃِ النَّبَوِیَّۃِ، وَنَحْوِہَا مِمَّا لَمْ یَرِدْ بِہِ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ، وَقَدْ ذَکَرْتُ عِدَّۃَ أَمْثِلَۃٍ لِّلتَّبَرُّکَاتِ الْبِدْعِیَّۃِ الَّتِي یَرْتَکِبُہَا الْقُبُورِیَّۃُ عَامَّۃً وَّالدِّیُوبَنْدِیَّۃُ خَاصَّۃً ۔
’’تبرک ِبدعی وہ ہے جس میں غیر اللہ سے ایسی خیرو بھلائی کی طلب تو نہ ہو،جس پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہے،البتہ اس میں اللہ تعالیٰ سے کسی ایسی چیز کے واسطے سے خیرو بھلائی طلب کی جائے،جس کا جواز شریعت میں موجود نہیں،جیسے اللہ تعالیٰ سے غلاف ِکعبہ یا استلامِ حجرۂ نبویہ یا مدینہ نبویہ کی کھجور وغیرہ جیسی چیزوں کے واسطے سے برکت طلب کرناجن کا کتاب و سنت سے کوئی ثبوت نہیں۔میں نے بدعی تبرکات کی بہت سی مثالیں ذکر کی ہیں،جن کا ارتکاب قبرپرست (بریلوی) عموماً اور دیوبندی لوگ خصوصاً کرتے ہیں۔‘‘
(جہود علماء الحنفیّۃ في إبطال عقائد القبوریّۃ : 1579/3)
b حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہے :
وَلَا یَجُوزُ أَخْذُ شَيْئٍ مِّنْ طِیبِ الْکَعْبَۃِ، لَا لِلتَّبَرُّکِ وَلَا لِغَیْرِہٖ، وَمَنْ أَخَذَ شَیْئًا مِّنْہُ؛ لَزِمَہٗ رَدُّہٗ إِلَیْہَا، فَإِنْ أَرَادَ التَّبَرُّکَ أَتٰی بِطِیبٍ مِّنْ عِنْدِہٖ؛ فَمَسَحَہٗ بِہَا، ثُمَّ أَخَذَہٗ ۔
’’کعبہ کی کوئی خوشبو لینا جائز نہیں،نہ تبرک کے لیے نہ کسی اور مقصد کے لیے۔ جو شخص وہاں سے کوئی چیز لے،اسے لوٹانا لازم ہے۔اگر اس کا ارادہ تبرک کا ہو، تو وہ اپنی خوشبو لے آئے اور کعبہ سے مس کر کے ساتھ لے جائے۔‘‘
(الفتاوی الہندیۃ، المعروف بہ فتاوی عالمگیری : 265/1)
یہ حصولِ تبرک کا نیا طریقہ ہے،جسے صحابہ و تابعین اور ائمہ دین نہیں جانتے تھے۔ اس کے بدعت ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔
b جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
’’غلافِ کعبہ زادھا اللہ تنویراً کے تبرک ہونے اور اس کی تقبیل تبرک کے جواز میں کوئی کلام نہیں۔اگر بوسہ دینے میں صرف اسی قدر اعتقاد ہو اور کسی کو ایذا بھی نہ ہو، تو کچھ مضائقہ نہیں،موجب ِثواب و برکت ہے۔‘‘(فتاویٰ اشرفیہ، ص : 65)
یہ غلو پر مبنی بدعی نظریہ ہے۔سوائے حجر اسود کے کسی چیز کو بطور ِتبرک چومنا جائز نہیں۔علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں :
وَفِیہِ کَرَاھِیَۃُ تَقْبِیلِ مَا لَمْ یَرِدِ الشَّرْعُ بِتَقْبِیلِہٖ مِنَ الْـأَحْجَارِ وَغَیْرِہَا ۔
’’اس(سیدنا عمر رضی اللہ عنہکے فرمان)سے ثابت ہوتا ہے کہ جن پتھروں وغیرہ کے چومنے کا ذکر شریعت میں موجود نہیں،انہیں چومنا مکروہ ہے۔‘‘
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : 241/9)
غلافِ کعبہ کے چومنے پر کون سی شرعی دلیل ہے؟
گنگوہی صاحب اور بدعی تبرکات :
b جناب محمد عاشق الٰہی میرٹھی صاحب،رشید احمد گنگوہی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’انسان کو جب کسی کے ساتھ محبت ہوتی ہے،تو اس کے تمام متعلقات سے الفت پیدا ہو جاتی ہے۔چونکہ حضرت امام ربانی قدس سرہ کے سواد ِ قلب میں حق تعالیٰ شانہ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت راسخ ہو گئی تھی،اس لیے حرمین شریفین کے خس و خاشاک تک آپ محبوب سمجھتے اور خاص وقعت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ مدنی کھجوروں کی گٹھلیاں پسوا کر صندوقچہ میں رکھ لیتے اور کبھی کبھی سفوف بنا کر پھانکا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ لوگ حرمین شریفین کی چیزوں زمزمی کے ٹین اور تخم خرما(کھجور کی گٹھلی) کو یونہی پھینک دیتے ہیں۔یہ نہیں خیال کرتے کہ ان چیزوں کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ہوا لگی ہے۔مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدنی کھجور کی گٹھلی پسی ہوئی حضرت نے صندوقچہ میں سے نکال کر مجھے عطا فرمائی کہ لو، اس کو پھانک لو۔ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی املی مجھے کھلائی اور ایک دفعہ مدینہ الرسول کی مٹی عطا فرمائی کہ اس کو کھا لو۔میں نے عرض کیا کہ حضرت مٹی کھانا تو حرام ہے!آپ نے فرمایا : میاں وہ مٹی اور ہو گی۔‘‘
(تذکرۃ الرشید : 47/2، 48)
نیز لکھتے ہیں :
’’حرمین شریفین سے آئے ہوئے تبرکات کو جب آپ اپنے خدام پر تقسیم فرماتے، تو چہرہ مبارک پر بشاشت اور آواز کے لہجہ میں مسرت و انبساط محسوس ہوتا تھا۔ آپ کا دل چاہتا تھا کہ دوسرے بھی ان اشیا کا احترام کریں۔ ایک مرتبہ مولوی حسین احمد صاحب مہاجر مدنی نے ایک گھڑا بھر کر غسالہ شریف کا بھیجا۔جس دقت اور اہتمام کے ساتھ گنگوہ پہنچایا گیا،وہ ظاہر ہے۔آپ نے اس کے پہنچتے ہی اس کو کھلوایا اور سبیل لگا دی۔اس دن جو بھی آیا،جواب سلام کے بعد آپ کا یہ ارشاد ہوتا تھا : میاں مولوی یحییٰ ،ان کو بھی پانی پلاؤ۔بندہ بھی خوش نصیبی سے اس دن جا پہنچا اور تبرک سے فیض یاب ہوا۔۔۔‘‘(تذکرۃ الرشید : 48/2)
حسین احمد مدنی دیوبندی صاحب،گنگوہی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’گنگوہ شریف کے لیے جو تبرکات عامہ تھے،وہ بھائی صاحب اپنے ساتھ لے گئے،مگر حجرہ شریفہ کا غبار،مسجد شریف کی کھجوریں(اس زمانہ میں صحن مسجد نبوی میں بھی چند درخت کھجوروں کے تھے) اور بعض خصوصی دیگر تبرکات میرے ہی پاس تھے۔چونکہ حجرہ مطہرہ نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے خاص خدام جن کو آغاوات کہتے ہیں،مجھ سے پڑھا کرتے تھے،اس لیے خصوصی تبرکات مجھ کو حاصل کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔‘‘(نقش حیات : 102/1)
نیز لکھتے ہیں :
’’غبار حجرہ مطہرہ پیش کیا گیا،اس کو سرمہ میں ڈلوایا اور روزانہ اس سرمہ کو استعمال فرماتے رہے۔مسجد نبوی علی صاحبھا الصلاۃ والسلام کی کھجوروں کے تین دانے پیش کیے گئے،ان کو تقریباً 72حصہ میں کر کے تقسیم فرمائے۔ مدینہ منورہ کی کھجوریں جو تقسیم کی گئیں،ان کے متعلق ہدایت فرمائی کہ ان کی گٹھلیاں پھینکی نہ جائیں، ان کو ہاون دستہ میں کٹوا کر رکھ لیا اور روزانہ اس میں سے تھوڑا سا پھانک لیا کرتے تھے۔‘‘(نقش حیات: 103/1)
b جناب حسین احمد مدنی صاحب،گنگوہی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’بعض مخلصین نے کچھ کپڑے مدینہ منورہ سے خدمت ِاقدس میں تبرکاً ارسال کیے۔ حضرت نے نہایت تعظیم اور وقعت کی نظر سے ان کو دیکھا اور شرفِ قبول سے ممتاز فرمایا۔بعض طلبہ حضار مجلس نے عرض بھی کیا کہ حضرت اس کپڑے میں کیا برکت حاصل ہوئی،یورپ کا بنا ہوا ہے،تاجر مدینہ میں لائے،وہاں سے دوسرے لوگ خرید لائے،اس میں تو کوئی وجہ تبرک ہونے کی نہیں معلوم ہوئی۔ حضرت نے شبہ کو ردّ فرمایا اور یوں ارشاد فرمایا کہ مدینہ منورہ کی اس کو ہوا تو لگی ہے۔اسی وجہ سے اس کو یہ اعزاز اور برکت حاصل ہوئی۔‘‘
(الشہاب الثاقب، ص : 231، 232)
نیز لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا(گنگوہی)کے یہاں تبرکات میں حجرہ مطہرہ نبویہ کے غلاف کا ایک سبز ٹکڑا بھی تھا۔بروز جمعہ کبھی کبھی حاضرین و خدام کو جب ان تبرکات کی زیارت خود کرایا کرتے تھے،تو صندوقچہ خود اپنے دست ِمبارک سے کھولتے اور غلاف کو نکال کر اوّل اپنی آنکھوں سے لگاتے اور منہ سے چومتے تھے،پھر اوروں کی آنکھوں سے لگاتے اور ان کے سروں پر رکھتے۔‘‘(الشہاب الثاقب، ص : 231)
مزید لکھتے ہیں :
’’حجرہ مطہرہ نبویہ کا جلا ہوا زیتون کا تیل وہاں سے حضرت(گنگوہی)رحمۃ اللہ علیہ کے بعض مخلصین نے ارسال کیا تھا۔حضرت نے باوجود نزاکت ِطبعی کے، جس کی حالت عام لوگوں پر ظاہر ہے،اس کو پی ڈالا۔‘‘(الشہاب الثاقب، ص : 232)
نیز لکھتے ہیں :
’’خود احقر(حسین مدنی)نے سوال کیا کہ بعد چالیس روز کے جالی شریف میں اندرون حجرہ مطہرہ اہل مدینہ بچوں کو داخل کرتے ہیں اور خادم روضہ مطہرہ اس کو لے جا کر سامنے روضہ اقدس کے قبلہ کی طرف لٹا دیتا ہے اور دعا مانگتا ہے۔ یہ فعل کیسا ہے؟ تو آپ نے استحسان فرمایا اور پسند کیا۔‘‘
(الشہاب الثاقب، ص : 232، 233)
گنگوہی صاحب کے بارے میں عاشق الٰہی میرٹھی نے یہ بھی لکھا ہے :
’’مقامِ ابراہیم کا ٹکڑا جو حضرت کے پاس تھا،اس کی نسبت ارشاد فرمایا کہ میرے پاس ایسی چیز ہے کہ اگر شیخ عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ موجود ہوتے،تو وہ بھی اس کی زیارت کو آتے۔حضرت امام ربانی(گنگوہی)تبرکات کے نہایت قدر دان تھے۔حق تعالیٰ نے آپ کو تبرکات بھی وہ عطا فرمائے تھے،جن کا دوسری جگہ وجود نہ تھا۔مقامِ ابراہیم،جس کی زیارت سے حرم محترم میں بھی ہزار ہا مخلوق محروم رہتی ہے، اور اگر زیارت ہوتی ہے،تو عموماً رشوت دے کر،جو معصیت ہے،اس کا ٹکڑا آپ کے پاس تھا،جس کو خدام کی خواہش پر آپ صندوقچی سے نکالتے اور پانی میں ڈال کر نکال لیتے اور پانی کو مجمع پر تقسیم کرا دیا کرتے تھے۔اس انمول تبرک کی آپ کو اس درجہ محبت و قدر تھی کہ کبھی معتبر سے معتبر خادم کے بھی حوالہ نہیں فرمایا۔جس وقت آپ اس کی زیارت کراتے،تو مسرت سے باغ باغ ہو جاتے تھے،بمقتضائے وأما بنعمۃ ربک فحدث آپ نے بارہا یہ الفاظ فرمائے کہ مجھے حق تعالیٰ نے وہ شے عطا فرمائی ہے،جو دوسرے کے پاس نہیں ہے۔آپ کے پاس بیت اللہ زادھا اللہ شرفا وتعظیما کی مقدس چوکھٹ کا چھوٹا سا ایک ٹکڑا بھی تھا۔اس کی محبت و قدردانی بھی اسی درجہ کی تھی،بلکہ شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔
اعلیحضرت حاجی صاحب (امداد اللہ مہاجر مکی)کا عطا فرمایا ہوا جبہ بھی آپ کے پاس تھا۔یہ بھی انہیں تبرکات کے صندوقچہ میں رہتا تھا۔جس وقت آپ اس کو نکالتے،تو اوّل خود دست مبارک میں لے کر اپنی آنکھوں سے لگاتے اور پھر یکے بعد دیگرے دوسروں کو سر پر رکھنے کا موقع عطا فرماتے تھے۔اس وقت آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی اور یوں فرمایا کرتے تھے کہ اس کو کئی سال حضرت نے پہنا اور پھر مجھ کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمایا تھا۔جو شخص لے کر آیا تھا، اسے یوں کہلا بھیجا تھا کہ اس کو پہننا۔سو کبھی کبھی تعمیل ارشاد کو پہنا کرتا ہوں۔تبرک ہے، رکھ چھوڑا ہے۔‘‘(تذکرۃ الرشید : 167/2، 168)
قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے خلاف تبرک کی بدعی صورتیں نکالنا کوئی محبت نہیں۔ محبت وہی ہے جو شریعت کی ہدایات کے مطابق کی جائے۔اگر یہی بدعی تبرکات بریلوی حضرات اختیار کریں،تو ان پر فتویٰ لگ جاتا ہے،لیکن اگر یہی بدعات و خرافات آلِ دیوبند کے گھر پہنچ جائیں ،تو عین دین کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔
پاخانے سے تبرک :
جب کوئی انسان سلف صالحین اور ائمہ ہدیٰ کے راستے سے ہٹ جائے،تو اس سے واہی تباہی اور مضحکہ خیز اور رسوا کن حرکات و سکنات کا صدور یقینی ہو جاتا ہے۔اندھی عقیدت و محبت اور غلو اس کو مرغوب ہو جاتا ہے،جیسا کہ بانی تبلیغی جماعت،مولوی محمد الیاس صاحب کی نانی جی کے متعلق آتا ہے :
’’بی امی کی عمر طویل ہوئی اور انہوں نے نواسوں کی اولاد کو بھی دیکھا۔ اخیر عمر میں بصارت اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھیں اور مرض الموت میں تین سال کامل صاحب ِفراش رہیں،مگر نہ قلبی ولسانی ذکر اللہ میں فرق آیا اور صبر و رضا بر قضا میں کمی لاحق ہوئی۔جس مریض کو تین سال مرضِ اسہال میں اس طرح گزریں کہ کروٹ بدلنا بھی دشوار ہو،اس کے متعلق یہ خیال بے موقع نہ تھا کہ بستر کی بدبو دھوبی کے یہاں بھی نہ جائے گی،مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ غسل کے لیے چارپائی سے اتارنے پر پوتڑے نکالے گئے،جو نیچے رکھ دیے جاتے تھے، تو ان میں بدبو کی جگہ خوشبو اور ایسی نِرالی مہک پھوٹتی تھی کہ ایک دوسرے کو سونگھاتا اور ہر مرد و عورت تعجب کرتا تھا۔چنانچہ بغیر دھلوائے ان کو تبرک بنا کر رکھ لیا گیا۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل از محمد عاشق الٰہی میرٹھی، ص : 96، 97)
جس شریعت میں صحابہ کرام جیسی مقدس ہستیوں کے لباسوں سے تبرک لینا روا نہ رکھا گیا،اس میں کسی مولوی کی نانی کے پاخانے والے پوتڑوں کے تبرک کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
b جناب اشرف علی تھانوی صاحب بیان کرتے ہیں:
’’ایک متقی پرہیزگار بزرگ نے مجھے ایک انگرکھا(اچکن)مومی چھینٹ کا دیا تھا۔ میں اس کو تبرک سمجھ کر پہنتا تھا۔اس کا یہ اثر تھا کہ جب تک وہ بدن پر رہتا، معصیت اور گناہ کا خطرہ تک نہ آتا تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ بزرگوں کے کپڑوں میں کیا رکھا ہے؟مگر میں نے تو یہ مشاہدہ کیا ہے۔‘‘
(مجالس حکیم الامت از مفتی محمد شفیع، ص : 100)
کپڑوں سے تبرک صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔اس خصوصیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔جب صحابہ کرام وتابعین عظام نے خلفاء ِ راشدین کے کپڑوں سے تبرک حاصل نہیں کیا،تو صدیوں بعد کسی بزرگ کو یہ شرف کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.