664

تبرکات کی شرعی حیثیت _____ علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

یہ نہایت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ بسااوقات اس کی وجہ سے توحید کے منافی اقوال و افعال سرزد ہو جاتے ہیں ، اولیاء و صلحاء کی عبادت کا بنیادی سبب ان کی ذات ، آثار اور قبور کو متبرک سمجھنا تھا ، شروع میں انہوں نے ان کے جسموں کوتبرک کی نیت سے چھوا، پھر ان کو پکارنے لگے ، ان سے مدد مانگنے لگے ، پھر ان اولیاء سے کام آگے بڑھا تو مختلف جگہیں ، جمادات اور اوقات کو متبرک سمجھنے جانے لگے۔
دراصل تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجرو ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا ۔
محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں :
١۔۔۔۔۔۔مشروع تبرک : جسے اللہ ورسول کے جائز قرار دیا ہو ۔
٢۔۔۔۔۔۔ممنوع تبرک : جو جائز تبرک میں شامل نہ ہویا شارع نے اس سے منع فرما دیاہو۔
ممنوع تبرک:
ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے:
سیدنا ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے ، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ایک بیری تھی ، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے)اپنااسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے ، اسے ذات ِ انواط کہا جاتا تھا ، ہم نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول !جس طرح مشرکین کا ذات ِ انواط ہے ، ہمارے لیے بھی کوئی ذات ِ انواط مقرر کر دیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ اکبر ، انہا السنن ، قلتم ، والذی نفسی بیدہ ، کما قالت بنو اسرائیل لموسی : (اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ)(الاعراف ؛ ١٣٨)لترکبن سنن من کان قبلکم ۔
”اللہ اکبر ! اللہ کی قسم ، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا :(اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ) (الاعراف ؛ ١٣٨)(ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجیے ، جس طرح ان (کافروں )کے معبودہیں )ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔”
(مسند الامام احمد : ٥/٢١٨، جامع الترمذی : ٢١٨٠،مسند الحمیدی ؛ ٨٤٨، المعجم الکبیر للطبرانی ؛ ٣/٢٧٦، صحیح)
امام ِ ترمذی نے اس حدیث کو ”حسن صحیح” اور امام ابن حبان (٦٧٠٢)نے ”صحیح” کہاہے۔
مشروع تبرک:
آئیے اب مشروع تبرک کے بارے میں جانتے ہیں :
عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں :
اخرج الینا انس رضی اللہ عنہ نعلین جرداوین ، لہما قبالان ، فحدثنی ثابت البنانی بعد عن انس انہما نعلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
”سیدناانس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے ، ان کے دو تسمے تھے ، اس کے بعدمجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔”
(صحیح بخاری : ١/٤٣٨،ح؛٣١٠٧)
ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہانے ایک سبز جبّہ نکالا اور فرمایا:
ہذہ کانت عند عائشۃ حتی قبضت ، فلما قبضت قبضتہا ، وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یلبسہا ، فنحن نغسلہا للمرضیٰ یستشفیٰ بہا ۔
”یہ سیدہ عائشہ کے پاس تھا ، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب ِ تن فرمایا کرتے تھے ، ہم اسے بیماروں کے لیے شفا کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں ۔”(صحیح مسلم : ٢/ ١٩٠، ح: ٢٠٦٩)
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا ، ابو حازم کہتے ہیں کہ سہل نے اسے نکالااور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا ، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔(صحیح بخاری : ٢/٨٤٢، ح: ٥٦٣٧)
عبید ہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے ، جنہیں ہم نے سیدناانس یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا ، کہتے ہیں ، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیاراہے۔
(صحیح بخاری : ١/٢٩،ح: ١٧٠)
یاد رہے کہ یہ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا ، اب کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
حافظ شاطبی فرماتے ہیں :
ان الصحابۃ بعد موتہ لم یقع من أحد منہم شیء من ذلک بالنسبۃ الی من خلفہ ، اذ لم یترک النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعدہ فی الأمۃ أفضل من أبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ، فہو کان خلیفتہ ، ولم یفعل بہ شیء من ذلک ، ولا عمر رضی اللہ عنہ ، وہو کان أفضل الأمۃ بعدہ ، ثم کذلک عثمان ، ثم علی ، ثم سائر الصحابۃ الذین لا أحد أفضل منہم فی الأمۃ ، ثم لم یثبت لوأحد منہم من طریق صحیح معروف أنّ متبرکا تبرک بہ علی أحد تلک الوجوہ أو نحوہا ، بل اقتصروا فیہم علی الاقتداء بالئافعال والئاقوال والسیر التی اتبعوا فیہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فہو اذا اجماع منہم علی ترک تلک الأشیائ۔
”صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ(تبرک)مقرر نہ کیا ، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابو بکر صدیق تھے ، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے ، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا ، نہ سیدنا عمر نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابو بکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے ، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے ، کسی سے بھی باسند ِ صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ )کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اورطریقہ کا ر پر اکتفاکیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک ِ تبرکات پر اجماع ہے ۔”
(الاعتصام ؛ ٢/٨۔٩)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تشد الرحل الا الی ثلاثۃ مساجد ، المسجد الحرام ، ومسجدی ہذا، والمسجد الأقصیٰ۔
”(تبرک کی نیت سے)سامان صرف ان تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، میری مسجد(مسجد ِ نبوی)اور مسجد ِ اقصیٰ ۔”(صحیح بخاری : ١/١٥٩، ح؛ ١١٨٩، صحیح مسلم ؛ ١/٢٤٧،ح؛ ١٣٩٧)
حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سامان باندھ کر جانے کی نذر مان لے تو اس پر نذر کا پور ا کرنا ضروری نہ ہوگا ، اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔(مجموع الفتاوٰی : ٢٧ /٦ ١٨ مختصرا)
حصولِ برکت کی خاطر انبیا ء و صلحاء کی قبرو ں کی زیارت کے لیے سفر بدعت ہے، صحابہ کرام و تابعین عظام نے ایسا نہیں کیا ، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
امام ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں :
لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد ؛ المسجد الحرام ، مسجد الرسول ، وبیت المقدس۔
”(برکت حاصل کرنے کی نیت سے)رخت ِ سفر صرف تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، مسجد ِ نبوی اور بیت المقدس۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ ؛ ٤/٦٥، وسندہ صحیح)
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.