557

تفسیر الجلالین ۔ حافظ ابویحیٰ نورپوری

حافظ ابویحیٰ نورپوری
مفسر ین کے نام:- یہ تفسیر درجِ ذیل دو مفسرین کی کاوش ہے :
ا٭ جلال الدین المحلی، محمد بن احمد المفسر، الاصولی، الشافعی (٧٩١۔۔۔۔۔۔٨٧٤ھ)
٢٭ جلال الدین السیوطی عبدالرحمن بن ابی بکر (٨٤٩۔۔۔۔۔۔ ٩١١ھ)
تفسیر کا نام:- الجلالین۔
تفسیر ہٰذا کے عمومی اوصاف:- اس تفسیر میں دو جلال نامی علماء شریک ہوئے ہیں۔ جلال الدین المحلی نے اس تفسیر کو سورہئ کہف سے شروع کر کے سورہئ ناس تک تحریر کیا پھر جب سورہ فاتحہ سے شروع ہوئے تو فوت ہوئے۔ اس کے بعد جلال الدین السیوطی نے اسے مکمل کیا۔ سورہئ فاتحہ سے شروع ہو کر سورہ اسراء تک انہوں نے لکھی۔یہ تفسیر مختصر اور جامع ہے۔ اپنے اختصار اور آسانی کی وجہ سے یہ لوگوں میں مشہور ہے۔
عقیدہ:- دونوں مصنف اشعری مؤوّل ہیں۔
صفات ِ باری تعالیٰ میں جلال الدین محلی کی تاویلات:-
جلال الدین محلّی نے صفت ِ”رحمت” کی تاویل ”مستحقین رحمت کے لیے اردہئ خیر” سے کی ہے ، جیسا کہ ”الرحمن الرحیم” کی تفسیر میں موجود ہے۔ ”الودود” کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”اپنے اولیاء کے لیے محبوب” ، صفتِ ”حیا” کی تاویل ”ترک” سے کی ہے اور یہ لفظ ”صفت حیا” کا لازم ہے، جیسا کہ اس آیت میں واضح ہے:(وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحَْیِیْ مِنَ الْحَقِّ) (الأحزاب : ٥٣)
انہوں نے(اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا) (الصّف : ٤)
میں ”محبت” کی تاویل ”نصرت و اکرام” سے کی ہے۔
صفت ”قبضتہ” کی تاویل ”ملک و تصرف” اور ”یمین” کی تاویل ”قدرۃ” سے کی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں انہوں نے یہ تاویل کی ہے :
(وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہ، یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِّیَمِیْنِہٖ)(الزمر :٦٧)
(وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ) (الفجر :٢٢) میں صفت ”مجیئت” کی تاویل ”اللہ کے حکم کے آنے ” سے کی ہے ، البتہ: (اِلٰی رَبِّھَا نَاضِرَۃٌ) (القیامۃ :٢٣)
سے قیامت کے دن مومنوں کے لیے ان کے رب کی ”رؤیت” ثابت کی ہے۔
استواء والی آیات میں کہتے ہیں کہ جیسے اس کے شایانِ شان ہے، یہ مجمل بات ہے،پھر (اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ) (الفاطر :١٠)کی تفسیر میں لکھتے ہیں:”یعنی وہ اس کو جانتا ہے۔”
جلال الدین سیوطی کی تاویلات:- صفت ”حیائ” کی تاویل آیت مبارکہ:
(اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیِیْ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا) (البقرہ:٢٦)میں ”ترک” سے کی ہے۔
(اُولٰئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَۃَ اللّٰہِ) (البقرہ : ٢١٨)میں صفت ”رحمت” کو ”ثواب” سے تعبیر کیا ہے۔ اور
(اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیئُ بِھِمْ) میں صفت ”استہزائ” کی تاویل ”بدلہ استہزائ” سے کی ہے۔ اسی طرح
(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحبِبْکُمُ اللّٰہُ)(آل عمران :٣١)
میں صفت ِ”محبت” کی تاویل ”ثواب” سے کی ہے۔
(ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّأْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ)(البقرہ :٢١١)
کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”اتیان” سے مراد ”اتیان أمرہ”(اللہ تعالیٰ کے حکم کا آنا)ہے۔
(بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَانِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَائُ) (المائدہ :٦٤)میں ”یدین” کی تاویل ”سخاوت میں مبالغہ” اور ”افادہئ کثیرہ” سے کی ہے، کیونکہ کوئی سخی آدمی سخاوت اپنے ہاتھ سے ہی کرتا ہے۔
احادیث و اسانید:- اس تفسیر میں احادیث ، اسباب نزول اور آثارِ سلف اکثر بغیر سند و مرجع ذکر کیے گئے ہیں، بسا اوقات مراجع کا ذکر موجود بھی ہے۔
فقہی احکام:- اختصار سے راجح فقہی اقول ذکر کیے گئے ہیں۔
لغت ، نحو اور شعر:-ـ ترکیب کا ذکر مختصر انداز سے موجود ہے۔
قراء ات:- مختصراً قراء ات مشہورہ بھی بتاتے ہیں۔
اسرائیلی روایات میں آپ کا انداز:-
بعض آیات کی تفسیر میں اسرائیلی روایات کے معانی بھی بیان ہیں اور ان پر جرح بھی نہیں ، ان میں بعض انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی بھی موجود ہے، جیسا کہ( سورہ ص ۤکی تفسیر میں) داؤد علیہ السلام کی آزمائش کا جھوٹا قصہ موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.