814

تحویل قبلہ سے متعلق سیدنا براء بن عازب والی حدیث۔۔۔حافظ ابویحیی نور پوری

تحویل قبلہ کے متعلق
سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ عنہ کی حدیث      قسط1
قارئین کرام ! صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کا یہ اتفاقی نظریہ رہا ہے کہ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سولہ یا سترہ برس تک بیت المقدس کی طرف منہ کر نماز ادا کرتے رہے اور آپ کے صحابہ کرام ] بھی آپ کی اقتدا میں اسی طرح نماز پڑھتے رہے ، لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دیرینہ خواہش یہ تھی کہ آپ کا قبلہ مسجد ِ حرام ہو ، تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر قبلہ تبدیل کر دیا ۔
سورۃ البقرۃ کی آیت (١٤٤)میں اسی بات کا تذکرہ ہے ، صحابہ و تابعین و ائمہ دین نے اس آیت کی بالاتفاق یہی تفسیر کی ہے ،اس بات کا تفصیلاً تذکرہ یہاں بہت زیادہ طوالت کا باعث ہوگا ، پھر یہ ہمارے موضوع سے خارج بھی ہے ، اس کی تفصیل ہم میرٹھی صاحب کی نام نہاد تفسیر ”مفتاح القرآن ” کے تعاقب میں پیش کریں گے ۔    ان شاء اللّٰہ !
مختصرا ً یہ کہ آج تک کسی مسلمان مفسر ، محدث یا عالم نے اس بات کا انکار نہیں کیا ، اس کے برعکس حافظ ابن عبدالبر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      وأجمع العلماء أنّ شأن القبلۃ أوّل ما نسخ من القرآن ، وأجمعوا أنّ ذلک بالمدینۃ ، وأنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم انّما صرف عن الصّلاۃ الی بیت المقدس وأمر بالصّلاۃ الی الکعبۃ بالمدینۃ ۔
”علمائے امت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ قرآن میں سب سے پہلے منسوخ ہونے والا معاملہ قبلہ کا ہے ، نیز ان کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ تحویل قبلہ والا معاملہ مدینہ میں ہوا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس سے ہٹ کر کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم مدینہ میں دئیے گئے ۔”    (التمھید لابن عبدالبر : ١٧/٤٩)
نیز لکھتے ہیں :     ولم یختلف العلماء فی أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اذا قدم المدینۃ صلّی الی بیت المقدس ستّۃ عشر شھرا ۔۔۔۔     ”اس بات میں علمائے امت کا اختلاف نہیں (بلکہ اجماع)ہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے(کم ازکم) سولہ ماہ بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نمازیں ادا کیں ۔”(التمھید لما فی الموطا من المعانی والاسانید : ٢٣/١٣٤۔١٣٥)
مگر اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پوری امت ِ مسلمہ کے اس اتفاقی نظرئیے کو بھی منکرینِ حدیث نے ٹھکرا کر یہ دعوی کیا ہے کہ     ”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے مہاجرین نے کبھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے کوئی فرض نماز ادا نہیں کی اور ہمیشہ آپ کا قبلہ خانہئ کعبہ ہی رہا ہے ۔”
(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٤٥)
اورانہوں نے اس بارے میں صحیح بخاری کی بالاتفاق صحیح احادیث پر جہالت و ہٹ دھرمی پر مبنی اعتراضات کیے ہیں ، ہم نے بھی بدستور ان اعتراضات کے علمی و تحقیقی جوابات دئیے ہیں ، اب فیصلہ قارئین کے ہاتھ میں ہے کہ صحابہ وتابعین اور ائمہ دین سمیت پوری امت ِ مسلمہ کی اجماعی واتفاقی تفسیر صحیح ہے یا چودہویں،پندرہویں صدی کے ان نام نہاد ”سکالرز” کی ، جنہیں قرآن وحدیث سے معمولی سا مَس بھی نہیں ہے؟
اصولی اعتراضات :
اعتراض نمبر 1 :     ”حضرت براء بن عازب  رضی اللہ عنہما  سے یہ حدیث صرف ابواسحاق ہمدانی کوفی نے روایت کی ہے ۔۔۔۔۔جلیل القدر وثقہ محدث تھے ، صحا بہ کرام میں سے حضرت براء بن عازب وجابر بن سمرہ وحارثہ بن وہب خزاعی ] سے حدیثیں سنی تھیں ، کثیر التعداد محدثین نے ان سے علمی استفادہ کیا اور حدیثیں روایت کی ہیں ، لیکن بڑھاپے میں ان کی عقل وقوت ِ حفظ میں بہت فتور آگیا تھا ، کچھ کا کچھ بیان کر دیتے تھے ، زہیر بن معاویہ وشعبہ و زکریا بن ابی زائدہ وسفیان بن عیینہ اور اسماعیل بن ابی خالد نے ابو اسحاق سے ان کے آخر زمانہ میں حدیثیں سنی تھیں ، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے اور ان کے پوتے اسرائیل بن یونس نے ان سے ہوشمندی کے زمانہ میں کچھ حدیثیں سنی تھیں اور مخبوط الحواسی کے زمانہ میں بھی اس لیے زہیر بن معاویہ وشعبہ وزکریا وابن عیینہ گو ثبت وثقہ محدث تھے ، لیکن جو حدیثیں ان لوگوں نے ابو اسحاق سے سن کر روایت کی ہیں ، ان میں بکثرت غلط سلط اور بے سروپا باتیں پائی جاتی ہیں ، یہی حال اسرائیل کی روایت کردہ حدیثوں کا ہے ، ہاں سفیان ثوری  رحمہ اللہ نے ابو اسحاق سے اس زمانہ میں حدیثیں سنی تھیں ، جب وہ صحیح الحواس تھے اور عقل وحفظ میں فتور نہ آیا تھا ۔۔۔۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٢٤۔٢٥)
K :      1    اس ایک عبارت میں میرٹھی صاحب نے اپنے خاص روایتی انداز میں کئی جھوٹ بول دئیے ہیں ، وہ یوں کہ انہوں نے پانچ راویوں زہیر بن معاویہ ، شعبہ ، زکریا بن ابی زائدہ ، سفیان بن عیینہ اور اسماعیل بن ابی خالد کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق نقل کیا ہے کہ انہوں نے ابو اسحاق سے مخبوط الحواسی کے زمانہ میں حدیثیں سنی تھیں ، حالانکہ :
أوّلا ً :      میرٹھی صاحب کے قول کے بالکل برعکس امام شعبہ  رحمہ اللہ کے بارے میں محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ انہوںنے امام ابو اسحاق السبیعی  رحمہ اللہ سے ان کی عقل میں فتور آنے سے پہلے احادیث سنی تھیں،شعبہ کے ابواسحاق سے اختلاط کے بعد احادیث لینے پر اتفاق تو دور رہا، کسی ایک محدث نے بھی امام شعبہ کے بارے میں یہ نہیں لکھا کہ انہوں نے ابو اسحاق سے مخبوط الحواسی کے بعد حدیثیں بیان کی ہیں ، بلکہ امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:      زکریا بن أبی زائدۃ وزھیر بن معاویۃ واسرائیل حدیثھم عن أبی اسحاق سواء وانّما أصحاب أبی اسحاق سفیان وشعبۃ ۔    ”ابو اسحاق سے زکریا بن ابی زائدہ ، زہیر بن معاویہ اور اسرائیل کی حدیث تقریباً برابر ہے ، ابواسحاق کے (سب سے پختہ)شاگرد تو سفیان اور شعبہ ہیں ۔”(تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری : ٣/٣٧٢)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      ولم أر فی البخاریّ من الرّوایۃ عنہ الّا عن القدماء من أصحابہ کالثّوریّ وشعبۃ ۔۔۔     ”میں نے صحیح بخاری میں ان (ابو اسحاق  رحمہ اللہ )کی کوئی روایت نہیں دیکھی ، سوائے ان روایات کے جو ان کے (مخبوط الحواسی سے)پہلے شاگرد بیان کرتے ہیں ، جیسا کہ امام سفیان ثوری اور شعبہ ; ہیں ۔۔۔”(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری : ٤٣١)
محدث البانی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      وکان قد اختلط ، الّا من روایۃ سفیان الثّوریّ وشعبۃ ، فحدیثھما عنہ حجّۃ ۔۔۔    ”وہ (ابو اسحاق)اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ، سوائے سفیان ثوری اور شعبہ کی روایت کے (کہ انہوں نے اختلاط سے پہلے بیان کیا تھا) ، لہٰذا ان دونوں کی ان سے حدیث حجت ہے۔”(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ : ٤/٨٣)
فائدہ جلیلہ:     امام ترمذی  رحمہ اللہ ایک حدیث کے بارے فرماتے ہیں :     انّ شعبۃ والثّوریّ سمعا ھذا الحدیث من أبی اسحاق فی مجلس واحد ۔۔۔    ”بلاشبہ اما م شعبہ اور امام سفیان ثوری;نے یہ حدیث امام ابو اسحاق  رحمہ اللہ سے ایک ہی مجلس میں سنی ہے ۔”(تحت حدیث : ١١٢٦)
پھر اس پر دلیل دیتے ہوئے باسند ِ صحیح امام شعبہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں : سمعت سفیان الثّوریّ یسأل أبا اسحاق : أسمعت أبا بردۃ ۔۔۔    ”میں نے سفیان ثوری کو سنا کہ وہ امام ابو اسحاق سے یہ پوچھ رہے تھے کہ ، کیا آپ نے ابو بردہ  رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ ۔۔۔”(جامع ترمذی ، تحت حدیث : ١١٢٥)
جب میرٹھی صاحب ببانگ ِ دہل یہ اعلان کر رہے کہ ”ہاں ، سفیان بن سعید ثوری  رحمہ اللہ نے ابو اسحاق سے اس زمانہ میں حدیثیں سنی تھیں ، جب وہ صحیح الحواس تھے اور عقل میں فتور نہ آیا تھا” تو بھلا یہ دعویٰ کتنی صداقت کا حامل ہے کہ ان کے ساتھ مل کراحادیث سننے والے شعبہ نے ابو اسحاق سے مخبوط الحواس ہونے کے بعد حدیثیں لی ہیں ؟
نہ جانے میرٹھی صاحب کواہل علم کے اس اتفاقی فیصلے کے خلاف” اہل علم کااتفاق” کہاں سے ملا تھا ، میرٹھی صاحب کا کوئی معتقد مہربانی کر کے ہمیں اپنے صاحب کی اس بات کا ثبوت دے !
ثانیا ً :      اسی طرح سفیان بن عیینہ  رحمہ اللہ کا ابو اسحاق السبیعی سے آخر میں سننا بھی کسی معتبر ذریعے سے ثابت نہیں ،چہ جائیکہ اس پراہل علم کا اتفاق ہو ، چنانچہ جب حافظ ابن الصلاح نے ان کے بارے میں فرمایا تھا :      ویقال : انّ سماع سفیان بن عیینۃ منہ بعد ما اختلط ۔۔۔ ”کہا جاتا ہے کہ سفیان بن عیینہ  رحمہ اللہ کا سماع ان (ابو اسحاق السبیعی  رحمہ اللہ )سے اختلاط کے بعد ہے ۔”(مقدمۃ ابن الصلاح : ٢٤٨)
تواس پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ زین الدین عبدا لرحیم بن الحسین العراقی (٧٢٥۔٨٠٦ھ) فرماتے ہیں :      ۔۔۔ان المصنّف ذکر کون سماع ابن عیینۃ منہ بعد ما اختلط بصیغۃ التّمریض ، وھو حسن ، فانّ بعض أھل العلم أخذ ذلک من کلام ابن عیینۃ ، لیس صریحاً فی ذلک ۔
”مصنف (حافظ ابن الصلاح)نے سفیان بن عیینہ کا (ابو اسحاق کے) مخبوط الحواس ہونے کے بعد سننا صیغہ تمریض (شک والے الفاظ )کے ساتھ ذکر کیا ہے اور یہ درست ہے ، کیونکہ بعض اہل علم نے یہ (اختلاط کے بعد سننے والی)بات سفیان بن عیینہ کی اس کلام سے اخذ کی ہے ، جو کہ اس بارے میں صریح نہیں ہے ۔”
(التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح : ١/١٤٥)
ثالثاً: میرٹھی صاحب لکھتے ہیں :     ”ان کے پوتے اسرائیل بن یونس نے ان سے ہوش مندی کے زمانہ میں بھی کچھ حدیثیں سنی تھیں اور مخبوط الحواسی کے زمانہ میں بھی ۔”(”مطالعہ” : ١/٢٥)    حالانکہ :
1 امام عبدالرحمن بن مہدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ما فاتنی من حدیث الثّوریّ عن أبی اسحاق الّذی فاتنی الّا لمّا اتّکلت بہ علی اسرائیل ، لأنّہ کان یأتی بہ أتمّ ۔
”مجھ سے ابواسحاق کی جو حدیث بواسطہ سفیان ثوری رہ گئی ہے ، وہ اسی وقت رہی ہے جب میں نے اس کے بارے میں اسرائیل پر اعتماد کیا ہے ، کیونکہ وہ اسے مکمل بیان کرتے ہیں ۔”(جامع ترمذی ، تحت حدیث : ١١٢٦)
اگر اسرائیل نے ابواسحاق سے بعد الاختلاط بیان کیا ہوتا تو عبدا لرحمن مہدی جیسے ماہر رجال وحدیث امام سفیان ثوری  رحمہ اللہ کو چھوڑ کر کبھی اسرائیل پر اعتماد نہ کرتے ، حالانکہ یہ بات سب کے ہاں مسلم ہے کہ امام سفیان ثوری نے ابو اسحاق سے قبل الاختلاط سنا ہے ۔
نیز ابنِ مہدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      کان اسرائیل یحفظ حدیث أبی اسحاق کما یحفظ الحمد ۔     ”اسرائیل کوامام ابو اسحاق کی احادیث سورہئ فاتحہ کی طرح یاد ہیں ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٢/١٧٠، وسندہ، صحیح)
2 امام بخاری  رحمہ اللہ نے ایک روایت میں سفیان ثوری اور شعبہ کے مقابلے میںابو اسحاق کی روایت میں اسرائیل کی طرف سے زیادت کو ”ثقہ کی زیادت” قرار دے کر قبول کیا ہے ۔
(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٧/١٠٨، وسندہ، صحیح)
اگر امام صاحب کے نزدیک انہوں نے بعد الاختلاط سنا ہوتا تو کبھی ان کی زیادت کو امام صاحب شعبہ اور سفیان ثوری ;کے مقابلے میں قبول نہ کرتے ، جنہوں نے بالاتفاق ابو اسحاق السبیعی  رحمہ اللہ سے قبل الاختلاط احادیث سنی ہیں ۔
3حجاج بن محمد کہتے ہیں ، ہم نے امام شعبہ  رحمہ اللہ سے ابو اسحاق  رحمہ اللہ کی حدیث بیان کرنے کو کہا تو انہوں نے فرمایا :      سلوا عنھا اسرائیل ، فانّہ أثبت فیھا منّی ۔    ”ان (ابو اسحاق کی احادیث )میں وہ مجھ سے اثبت(زیادہ ثقہ)ہے ۔”(الکامل لابن عدی : ١/٤١٣، وسندہ صحیح)
جب امام شعبہ بالاتفاق امام ابو اسحاق سے قبل الاختلاط بیان کرتے ہیں تو جس اسرائیل کو وہ ابو اسحاق سے بیان کرنے میں اپنے سے زیادہ ثقہ قرار دیتے ہیں ، وہ تو بالاولیٰ ابو اسحاق سے قبل الاختلاط بیان کرتے ہیں ، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ امام شعبہ جو اسرائیل کے ہم عصر ہیں اور ابو اسحاق سے بیان کرنے میں ان کے ساتھ شامل ہیں، ان سے بڑھ کراسرائیل کی روایات کو اور کون جان سکتا ہے ؟
اسی لیے حافظ ذہبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      نعم ! شعبۃ أثبت منہ الّا فی أبی اسحاق ۔
”ہاں! شعبہ ان (اسرائیل بن یونس)سے اثبت ہیں ، سوائے ابو اسحاق کی احادیث کے (ان میں اسرائیل شعبہ سے اثبت ہیں)۔”(میزان الاعتدال : ١/٢٠٩)
اگر اسرائیل نے بعد الاختلاط ابو اسحاق سے احادیث سنی ہوتیں تو وہ شعبہ سے ”اثبت ”کیسے قرار پاتے ؟
4 امام ابو حاتم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      اسرائیل من أتقن أصحاب أبی اسحاق ۔
”اسرائیل ابو اسحاق کے سب سے پختہ تلامذہ میں سے ہیں ۔”(الجرح والتعدیل : ٢/٣٣١)
نیز فرماتے ہیں :     زھیر أحبّ الینا من اسرائیل فی کلّ شیء الّا فی حدیث أبی اسحاق۔۔۔۔ وزھیر متقن صاحب سنّۃ غیر أنّہ تأخّر سماعہ من أبی اسحاق ۔۔۔
”زہیر ہمیں ہر چیز میں اسرائیل سے زیادہ اچھے ہیں ، سوائے ابو اسحاق کی حدیث کے۔۔۔زہیر متقن اور صاحب ِ سنت ہیں ، لیکن ان کا سماع ابو اسحاق سے (اختلاط کے)بعد ہوا ہے ۔”(الجرح والتعدیل : ٣/٥٨٨)
اس قول سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ امام ابو حاتم  رحمہ اللہ کے نزدیک اسرائیل کا سماع امام ابو اسحاق کے اختلاط سے پہلے کا ہے ، ورنہ اگر ابو اسحاق سے بعد الاختلاط بیان کرنے میں دو نوں شریک ہیں تو زہیر کی تمام روایات میں سے ابو اسحاق سے سنی ہوئی روایات کو اسرائیل کی ابو اسحاق سے بیان کی ہوئی روایات کے مقابلے میں مرجوح قرار دینے کا کوئی مطلب نہیں ۔
5 امام ابو زرعہ  رحمہ اللہ نے زہیر کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے ابو اسحاق سے اختلاط کے بعد سنا ہے ، جبکہ وہ اسرائیل کے بارے میں فرماتے ہیں :      أثبت أصحاب أبی اسحاق الثّوری وشعبۃ واسرائیل ۔    ”امام اسحاق بن راہویہ کے تلامذہ میں سے سفیان ثوری ، شعبہ اور اسرائیل سب سے بڑھ کر پختہ ہیں۔” (الجرح والتعدیل : ١/٦٦)
6 امام ترمذی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     واسرائیل ھو ثقۃ ثبت فی أبی اسحاق ۔    ”اسرائیل امام ابو اسحاق سے بیان کرنے میں ثقہ ثبت ہے ۔”(جامع ترمذی ، تحت حدیث : ١١٢٦)
7 عیسیٰ بن یونس فرماتے ہیں :     اسرائیل یحفط حدیث أبی اسحاق کما یحفظ الرّجل السّورۃ من القرآن ۔     ”اسرائیل کو امام ابو اسحاق کی حدیث اس طرح یاد ہے، جس طرح آدمی قرآنِ مجید کی سورت یاد کرتا ہے ۔”(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٧/١٠٨، وسندہ، صحیح)
شبابہ بن سوار نے جب عیسیٰ بن یونس سے ان کے والد (ابو اسحاق)کی حدیث لکھوانے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے فرمایا :     اکتبہ عن اسرائیل ، فانّ أبی أملاہ علیہ ۔    ”وہ (ابو اسحاق کی حدیث میرے بیٹے)اسرائیل سے لکھ لو ، کیونکہ میرے باپ (ابو اسحاق)نے اسے لکھوائی تھی ۔”(الجرح والتعدیل : ٢/٣٣٠)
8 امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      واسرائیل بن یونس بن أبی اسحاق السبیعیّ کثیر الحدیث ، مستقیم الحدیث فی أبی اسحاق وغیرہ ، وقد حدّث عنہ الأئمّۃ ، ولم یتخلّف أحد فی الرّوایۃ عنہ ۔    ”اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق کثیر الحدیث ہیں ، ابواسحاق اور دوسرے شیوخ سے بیان کرنے میں مستقیم الحدیث ہیں ، ان سے ائمہ کرام نے احادیث بیان کی ہیں ، کسی نے بھی ان سے روایت کرنے سے احتراز نہیں کیا۔”(الکامل لابن عدی : ١/٤٢٥)
نیز حدیث لا نکاح الّا بولیّ کے بارے میں لکھتے ہیں :      ومن الأئمّۃ من لم یثبت فی ھذا الباب الّا حدیث اسرائیل ھذا لحفظہ لحدیث أبی اسحاق ۔    ”کچھ ائمہ کرام ایسے بھی ہیں ، جنہوں نے اس مسئلے میں صرف اسرائیل کی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، کیونکہ اسرائیل کو ابو اسحاق کی حدیث (خوب)یاد تھی ۔”(الکامل لابن عدی : ١/٤٢٥)
9 امام دارقطنی  رحمہ اللہ اسرائیل کی ابوا سحاق سے بیان کی گئی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : واسرائیل من الحفّاظ عن أبی اسحاق ۔ ”اسرائیل ، ابو اسحاق سے بیان کرنے والے حفاظ (خوب یاد رکھنے والے لوگوں)میں سے تھے ۔”(العلل للدارقطنی : ٧/٢١١)
نیز ایک اورحدیث جو ابواسحاق کے واسطے سے ہے ، کے بارے میں لکھتے ہیں :
ویشبہ أن یکون قول اسرائیل محفوظا ، لأنّہ من الحفّاظ عن أبی اسحاق ۔
”(دوسرے راویوں ، جن میں ابواسحاق سے بالاتفاق قبل الاختلاط بیان کرنے والے سفیان ثوری بھی شامل ہیں ، کے مقابلے میں)اسرائیل کا قول محفوظ محسوس ہوتا ہے ، کیونکہ وہ ابو اسحاق سے احادیث کو (خوب)یاد رکھنے والے لوگوں میں سے تھے ۔”(العلل للدارقطنی : ١٣/٢٥٨)
0 امام حاکم  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :      فأمّا اسرائیل بن یونس بن أبی اسحاق الثّقۃ الحجّۃ فی حدیث جدّہ أبی اسحاق ۔    ”اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق اپنے دادا ابواسحاق سے حدیث بیان کرنے میں ثقہ اور حجت ہیں ۔”(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٢/١٨٤)
! عبیداللہ بن عمرو الرقی بیان کرتے ہیں کہ میں محمد بن سوقہ کو لے کر ابو اسحاق کے پاس آیا اور(ان کے پوتے) اسرائیل سے کہا ، ہمارے لیے شیخ سے اجازت طلب کریں ، انہوں نے کہا :      صلّی بنا الشّیخ البارحۃ ، فاختلط ۔     ”شیخ (ابو اسحاق )نے ہمارے ساتھ رات کو نماز پڑھی ، پھر وہ اختلاط کا شکارہو گئے ہیں ۔”    (عبیداللہ بن عمروکہتے ہیں )پھر ہم داخل ہوئے ، سلام کہا اور نکل گئے ۔
(تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی : ١/٤٦٩، وسندہ، صحیحٌ)
یہ اسرائیل کے ابو اسحاق سے قبل الاختلاط احادیث سننے کی روز ِ روشن کی طرح عیاں دلیل ہے ، کیونکہ ابواسحاق کے اختلاط کے وقت اسرائیل کی اتنی عمر تھی کہ ان سے اجازت لے کر ان کے دادا ابواسحاق سے ملتے تھے ، نیز وہ اس وقت اختلاط وعدم ِ اختلاط کی تمیز بھی کررہے تھے ۔
نیز عبیداللہ بن عمر و الرقی جو ابو اسحاق سے احادیث سننے آئے تھے ، وہ اسرائیل سے ایک سال چھوٹے تھے ، اسرائیل ١٠٠ ء میں پیدا ہوئے ہیں اور عبیداللہ بن عمرو ١٠١ ء میں ، لہٰذا اگر اس وقت عبیداللہ بن عمرو حدیث سننے کے قابل تھے تو اسرائیل کیوں نہیں تھے ،جو کہ ابو اسحاق کے پوتے بھی تھے؟
معلوم ہوا کہ امام شعبہ  رحمہ اللہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ ابو اسحاق سے بیان کرنے میں اسرائیل مجھ سے زیادہ ثقہ ہے ،اسی طرح امام ابو حاتم وغیرہ کا ابواسحاق سے بیان کرنے میں اسرائیل کو سب سے” اثبت” قراردینا بلاشک وشبہ صحیح اور حق ہے ۔
پھر یہ بات بھی اسرائیل کے ابو اسحاق سے قبل الاختلاط سماع پراپنی جگہ ایک مستقل دلیل ہے کہ بہت سے ائمہ ، جن میں امام علی بن مدینی ، محمد بن یحییٰS وغیرہ بھی شامل ہیں ،نے اسرائیل کی اس حدیث کو ”صحیح” قرار دیا ہے ، جو وہ ابو اسحاق سے بیان کررہے ہیں (المستدرک للحاکم : ٢/١٨٤)، اسی لیے متاخرین ائمہ میں سے:
b حافظ ذہبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     أکثر عن جدّہ ، وھو ثبت فیہ ۔     ”انہوں نے اپنے دادا (ابو اسحاق)سے بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں ، وہ ان سے بیان کرنے میں ثبت ( ثقہ)ہیں ۔”
(تاریخ الاسلام للذہبی : )
نیز فرماتے ہیں :     سمع جدّہ وجوّد حدیثہ وأتقنہ ۔     ”انہوں نے اپنے دادا سے سنا ہے ، ان کی احادیث کو بہت عمدہ (بیان)کیا ہے پختہ کیا ہے ۔”(تذکرۃ الحفاظ : ١/٢١٤)
شعبہ اور اسرائیل کا تقابل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :     نعم ! شعبۃ أثبت منہ الّا فی أبی اسحاق ۔     ”ہاں ! شعبہ ان سے زیادہ ثقہ ہیں ، لیکن ابو اسحاق سے بیان کرنے میں (اسرائیل زیادہ ثقہ ہیں)۔”(میزان الاعتدال : ١/٢٠٩)
مزید فرماتے ہیں :      ھو ثقۃ ، نعم ! لیس ھو فی التّثبّت کسفیان وشعبۃ ، ولعلّہ یقاربھما فی حدیث جدّہ ، فانّہ لازمہ صباحا ومساء عشرۃ أعوام ۔     ”وہ ثقہ ہیں ، ہاں ! وہ ثقاہت میں شعبہ وسفیان (ثوری)کی طرح تو نہیں ہیں ، البتہ اپنے دادا(ابواسحاق) سے حدیث بیان کرنے میں شاید وہ ان سے ملتے جلتے (قابل حجت)ہیں ، کیونکہ وہ اپنے دادا کے ساتھ قریباً دس سال صبح و شام لازم(شاگردی میں) رہے۔”(سیر اعلام النبلاء : ٧/٣٥٨)
امام عبدالرحمن بن مہدی نے ابواسحاق سے بیان کرنے میں اسرائیل کو شعبہ وسفیان سے بھی فوقیت دی ہے ، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ ان کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :      وھذا أنا الیہ أمیل ۔۔۔
”میں اسی مؤقف کی طرف مائل ہوں ۔”(سیر اعلام النبلاء : ٧/٣٥٩)
b حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      سماع اسرائیل من أبی اسحاق فی غایۃ الاتقان ، للزومہ ایّاہ ، لأنّہ جدّہ ، وکان خصیصاً بہ ۔     ”اسرائیل کا(اپنے دادا) ابواسحاق سے سماع حددرجہ صحیح ہے ، کیونکہ دادا ہونے کی وجہ سے انہوں نے ان کو لازم پکڑ رکھا تھا اور ان کے بہت خاص شاگرد تھے۔”(فتح الباری : ١/٣٥١)
پھر امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے جو اسرائیل کی حدیث کو ابو اسحاق سے متاخر قرار دیا ہے ،توان کا یہ قول بھی مطلق نہیں ہے ، بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ اسرائیل کی ابو اسحاق سے روایت شریک بن عبداللہ القاضی کی نسبت متاخرہے ، اسی لیے جب ان سے پوچھا گیا کہ ابو اسحاق سے بیان کرنے میں اسرائیل زیادہ محبوب ہے یا یونس؟ تو آپ نے فرمایا :
اسرائیل ، لأنّہ صاحب کتاب ۔    ”ہاں ! (اسرائیل ہی ابو اسحاق سے بیان کرنے میں مجھے زیادہ محبوب ہے )، کیونکہ اسرائیل کے پاس کتاب (ابو اسحاق کی لکھوائی ہوئی احادیث )تھیں ۔”
(الجرح والتعدیل : ٢/٣٣١)
دوسری بات یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل اور امام یحییٰ بن معین ;کا جمہور محدثین کرام، مثلاً امام عبدالرحمن بن المہدی ، امام شعبہ بن الحجاج، امام ابو حاتم الرازی ، امام ابو زرعہ الرازی ، امام بخاری ، امام ترمذی، امام ابن عدی ، امام دارقطنی وغیرہم کے مقابلے میں اسرائیل کے ابو اسحاق سے سماع کو بعد الاختلاط قرار دینا ناقابل التفات ہے ۔
2    قارئین کرام ! آپ میرٹھی صاحب کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں : ”چھ لاکھ حدیثوں کے اس عظیم انبار میں سے یہ انتخاب (تقریباً چار ہزار حدیثیں)کر کے ۔۔۔امام بخاری نے یہ شدید وشاق محنت کر کے گویا خزف ریزے چھانٹ کر موتی نکالے تھے اور علم وتحقیق کی بلند پایہ مثال قائم فرما دی تھی۔۔۔”(”مطالعہ” : ٢/٣٨٢)
نیز اس کے ساتھ ساتھ امام بخاری  رحمہ اللہ کے بارے میںان کے یہ الفاظ بھی ذہن نشین کر لیںکہ :
”صحت ِ احادیث کا التزام کر کے عالی مرتبہ شیخین نے علمائے معاصرین اور بعد میں آنے والے مصنفین و محدثین کے لیے نہایت اچھی مثال پیش کر دی تھی اور تحقیق کی وہ راہ دکھادی تھی ، جس پر چلنے سے سنت ِ نبویہ کی غل وغش سے حفاظت ہو سکتی تھی۔۔۔”(”مطالعہ” : ١/١٥)
اتنی سی تمہید کے بعد آپ امام بخاری  رحمہ اللہ کے بعد آنے والے محدثین میں سے ایک محدث امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ کا اپنی کتاب ”صحیح ابن حبان” کے بارے میں تبصرہ پڑھ لیں ، وہ لکھتے ہیں :
وأمّا المختلطون فی أواخر أعمارھم مثل الجریریّ وسعید بن أبی عروبۃ وأشباھھما ، فانّا نروی عنھم فی کتابنا ھذا ونحتجّ بما رووا الّا انّا لا نعتمد من حدیثھم الّا ما روی عنھم الثّقات من القدماء الّذین نعلم أنّھم سمعوا منھم قبل اختلاطھم ، وما وافقوا الثّقات فی الرّوایات الّتی لا نشکّ فی صحّتھا وثبوتھا من جھۃ أخری ۔۔۔
”رہے وہ راوی جو اپنی آخری عمر وں میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے ، مثلاً (سعید بن ایاس)جریری ، سعید بن ابی عروبہ وغیرہما ، تو ہم ان سے اپنی اس کتاب میںروایات لیں گے اور ان سے حجت پکڑیں گے ، لیکن ہم ان کی صرف انہی احادیث پر اعتماد کریں گے ، جو ان سے ان کے ایسے قدیم ثقہ شاگردوں نے بیان کی ہیں ، جن کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ انہوں نے ان (مختلطین )سے ان کے اختلاط سے پہلے سنی ہیں ، اور (اسی طرح)وہ روایات جن میں(قبل الاختلاط سننے والے شاگرد تو بیان نہیں کر رہے ، لیکن) ان مختلطین نے ان روایات میں ثقہ راویوں کی موافقت کی ہے اورجن کی صحت اور دوسری سند سے ثبوت میں ہمیں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔”(صحیح ابن حبان : ١/١٦١)
جب بقول میرٹھی صاحب ،امام بخاری  رحمہ اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چل کر بعد میں آنے والے محدثین اختلاط کا شکار ہونے والے راویوں کی روایات کے بارے میں اتنی زبردست احتیاط سے کام لے رہے ہیں تو خود امام بخاری  رحمہ اللہ کی احتیاط کا عالم بھلا کیا ہو گا ؟ کیا انہوں نے اختلاط کا شکار ہونے والے راویوں کی روایات بلا پرکھے اپنی کتاب میں پیش کر دی ہوں گی ؟ قطعاً نہیں ، بلکہ علامہ سخاوی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وما یقع فی الصّحیحین أو أحدھما من التّخریج لمن وصف بالاختلاط من طریق من لم یسمع منہ الّا بعدہ ، فانّا نعرف علی الجملۃ أنّ ذلک ممّا ثبت عند المخرّج أنّہ من قدیم حدیثہ ولو لم یکن من سمع منہ قبل الاختلاط علی شرطہ ۔۔۔۔
”اور صحیحین یا ان میں سے کسی ایک میں اختلاط کا شکار ہونے والے راویوں کی ایسی روایات ، جن کو ان کے وہ شاگرد بیان کررہے ہیں ، جنہوں نے اپنے شیوخ سے صرف اختلاط کے بعد ہی سنا ہے ، ہم ان سب کے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ مصنف کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ یہ حدیث اس کی پرانی (اختلاط کا شکار ہونے سے پہلے کی)حدیثوں میں سے ہے ، اگرچہ جس راوی نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا تھا ، وہ اس امام (بخاری ومسلم)کی شرط پر نہیں تھا ۔”(فتح المغیث : ٣/٣٦٦)
یعنی ایک حدیث بخاری ومسلم میں اگر اختلاط کے بعد سننے والا شاگرد بیان کر رہا ہے تو بخاری ومسلم کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث اختلاط سے پہلے سننے والے شاگرد بھی بیان کرتے ہیں ، لیکن انہوں نے ان کی روایت کو اپنی کتاب میں اس لیے جگہ نہیں دی کہ وہ (ثقاہت میں)ان کی شرط پر نہ تھے ۔
نیز حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      وأخرج عن من سمع منہ بعد الاختلاط قلیلا کمحمّد بن عبداللّٰہ الأنصاریّ وروح بن عبادۃ وابن أبی عدیّ ، فاذا أخرج من ھؤلاء انتقٰی منہ ما توافقوا علیہ ۔۔۔     ”امام بخاری نے ان(سعید بن ابی عروبہ )سے اختلاط کے بعد حدیث سننے والے راویوں ،مثلاً محمد بن عبداللہ انصاری ، روح بن عبادہ اور ابن ابی عدی سے بہت کم روایات لی ہیں ، جب امام صاحب ایسے (اختلاط کے بعد سننے والے)راویوں سے روایت ذکر کرتے ہیں تو (اس کی دوسری روایات میں سے)چھانٹ کر وہ روایت لیتے ہیں ، جس پر دوسرے ثقہ راویوں نے ان کی موافقت کی ہوتی ہے ۔”(ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری : ٤٠٦)
محدثین کرام کی صراحت کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اگر بالفرض صحیح بخاری کی روایت صرف اختلاط کے بعد بیان کرنے والے راویوں سے ہو تو بھی اس سے ضعف لازم نہیں آتا ، بلکہ وہ بھی دوسرے ثقہ راویوں کی موافقت اور تائید حاصل کرنے کی وجہ سے ”صحیح ”ہوتی ہے ، اس لیے کہ راوی کے اختلاط کی وجہ سے یہ ہمیں اس حدیث میں شبہ ہو جاتا ہے کہ شاید اس نے بیان میں غلطی کر دی ہو ، مگر جب ثقہ راوی اس کی موافقت کر دیں تو وہ شبہ بالکل کافور ہو جاتا ہے ۔
اب قارئین کرام فیصلہ فرمائیں کہ اگر خود صحیح بخاری کے راوی نے ہی اختلاط سے پہلے وہ روایت اپنے شیخ سے سنی ہو تو کیا وہ صحیح نہ ہو گی ، جیسا کہ ہم محدثین کرا م کے ایک جمِ غفیر سے تفصیلاً یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ اسرائیل بن یونس رحمہ اللہ  نے اپنے دادا ابو اسحاق السبیعی  رحمہ اللہ سے ان کے اختلاط سے پہلے احادیث لیں ہیں۔
پھر اگر تھوڑی دیر کے لیے میرٹھی صاحب کی یہ بات بھی تسلیم کر لی جائے کہ ”اسرائیل نے ان سے ہوش مندی کے زمانہ میں بھی کچھ حدیثیں سنی تھیں اور مخبوط الحواسی کے زمانہ میں بھی ” اور خود ان کے بقول امام بخاری چھ لاکھ کے ذخیرے سے سنگ ریزوں کو چھانٹ کر موتی نکالنے والے اور تحقیق کی وہ راہ دکھانے والے شخص ہیں،جس پر چلنے سے سنت ِ نبویہ کی غل وغش سے حفاظت ہو سکتی تھی، اورپھر ان کی دکھائی ہوئی اس راہ پر چل کر ”صحیح ” کے نام سے کتابیں لکھنے والے محدثین بھی ان چیزوں کا حد درجہ اہتمام کریں اور خود امام بخاری  رحمہ اللہ کو اتنا بھی پتا نہ ہو کہ یہ حدیث اسرائیل نے اختلاط سے پہلے اپنے دادا سے سنی ہے اور یہ اختلاط کے بعد ؟ ایسا فیصلہ کوئی انکار ِ حدیث کے خبط میں مبتلا عقل ہی کر سکتی ہے ، کوئی عقل مند آدمی ایسا نہیں کہہ سکتا۔
جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ اسرائیل کی حدیث بالکل ”صحیح” ہے تو دیگر راویوں، جنہوں نے ابو اسحاق السبیعی  رحمہ اللہ سے اختلاط کے بعد سنا ہے ، مثلاً زہیر بن معاویہ (صحیح بخاری : ٤٠)اور ابو الاحوص (صحیح مسلم : ٥٢٥)وغیرہما ،کی حدیث ان کی موافقت کی وجہ سے بلاشک وشبہ ”صحیح” ہو گی ۔
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں ، جس کو زہیر بن معاویہ  رحمہ اللہ ابو اسحاق  رحمہ اللہ  سے بیان کر رہے تھے :      وسماع زہیر منہ فیما قال أحمد بعد أن بدا تغیّرہ ، لکن تابعہ علیہ عند المصنّف اسرائیل بن یونس حفیدہ وغیرہ ۔۔۔
”اور زہیر کا سماع ان(ابواسحاق السبیعی  رحمہ اللہ )سے امام احمد  رحمہ اللہ کے بقول ان کے حافظہ کی خرابی کے ظاہر ہونے کے بعد ہے ، لیکن مصنف (امام بخاری  رحمہ اللہ )کے ہاں (صحیح بخاری میں)ہی اس کی متابعت ان کے پوتے اسرائیل بن یونس وغیرہ نے کر دی ہے ، (لہٰذا اختلاط والا شبہ رفع ہو گیا ہے)۔”(فتح الباری : ١/٩٦)
بالکل یہی معاملہ اس حدیث میں ہے کہ اگرچہ زہیر ، ابوالاحوص وغیرہ کا سماع ابو اسحاق سے بعد الاختلاط ہے ، لیکن قبل الاختلاط سماع والے راوی اسرائیل بن یونس نے ان کی متابعت کی ہے، لہٰذا ان کی حدیث اصولِ حدیث کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ،یوں خود میرٹھی صاحب کی تسلیم کردہ بات سے ہی ثابت ہو گیا ہے کہ ان کا اعتراض علم ِ حدیث سے جہالت یا ہٹ دھرمی کا کرشمہ ہے اور صحیح بخاری کی یہ حدیث بالکل بے غبار ہے ۔    والحمد للّٰہ !
3     رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نمازیںادا کرنے والا واقعہ اگر صرف ابواسحاق ہی صحابی ئ رسول سے بیان کر رہے ہوتے تو شاید میرٹھی صاحب کی بات کچھ قابل غور ہوتی، لیکن واقعہ یہ ہے کہ تابعین میں سے ثابت بن اسلم البنانی ، جو کہ ثقہ امام ہیں ، نے بھی یہی واقعہ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے ، صحابی ئ رسول سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
انّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان یصلّی نحو بیت المقدس ، فنزلت : (قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ)(البقرۃ : ١٤٤) ، فمرّ رجل من بنی سلمۃ ، وھم رکوع فی صلاۃ الفجر ، وقد صلّوا رکعۃ ، فنادٰی : ألا ! انّ القبلۃ قد حوّلت ، فمالوا کما ھم نحو القبلۃ ۔     ”بلاشبہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے رہے ، پھر یہ آیت نازل ہوئی : (قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ)(البقرۃ : ١٤٤)(تحقیق ہم نے آسمان کی طرف آپ کے چہرے کا باربار پھرنا دیکھ رہے ہیں ، لہٰذا ہم ضرورآپ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیں گے ، جسے آپ پسند کرتے ہیں ، سو اپنے چہرے کو مسجد ِ حرام کی طرف پھیر دیں)، پھر بنوسلمہ میں سے ایک آدمی گزرا ، وہ (صحابہ کرام)صبح کی نماز کے رکوع میں تھے ، ایک رکعت پڑھ چکے تھے ، اس صحا بی نے پکار لگائی ، خبردار ! یقینا قبلہ بدل دیا گیا ہے ، وہ لوگ اسی طرح (نماز کی حالت میں)قبلہ کی جانب مائل ہوگئے ۔”(صحیح مسلم : ٥٢٧)
اب بھی سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ابو اسحاق السبیعی  رحمہ اللہ کے اختلاط کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرنا تعصب اور ہوا پرستی کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ نے بھی یہی بیان کیا ہے کہ تحویل قبلہ کے حکم سے پہلے خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نمازیں پڑھتے رہے ہیں ۔
اعتراض نمبر 2 :     ”حضرت براء بن عازب کی اس حدیث کے متعلق جو تحقیقی مباحث ناظرین کے سامنے کے رکھے گئے ہیں ، ان کے ساتھ یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ حضور ِ اکرم کی مدینہ تشریف آوری کے وقت براء بن عازب نابالغ اور تقریباً سالہ بچے تھے ، اکابر صحابہ میں سے کسی سے بھی حدیث مروی نہیں ہے ۔”(”مطالعہ” : ١/٤٦)
K :      1    میرٹھی صاحب کی کئی جھوٹوں سے مرکب ایک”تحقیقی ” بحث تو آپ نے ملاحظہ کرلی ہے ، جس میں ”اہل علم کے اتفاق ”کا نام لے کرکئی جھوٹے دعوی جات کیے گئے ہیں ،جب کہ حقیقت بالکل برعکس ہے ، اگر اسی کام کا نام تحقیق ہے توادباً گزارش ہے کہ اس طرح کی ”تحقیق” تو مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے ہی بہت کردی ہے ، مزید کوئی کسر رہ گئی ہے ، جو آپ پوری کر رہے ہیں؟ باقی ”تحقیقی” مباحث کی تحقیق بھی ایک ایک کر کے آپ کے سامنے پیش کی جائے گی ۔    ان شاء اللّٰہ العزیز !
2    اصولِ حدیث سے تو میرٹھی صاحب اتنے نابلد ہیں کہ اس بارے میں ان کو ”جاہل مطلق” قرار دینا بے جا نہ ہوگا ، کیا کسی راوی کا نو سال کی عمر میں حدیث سننا اور جوان ہونے کے بعد بیان کرنا اس روایت کے لیے موجب ِ ضعف ہے ، خصوصاً جب کہ وہ صحابی ہو ؟
حافظ ابن الصلاح (٥٥٧۔٦٤٣ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     فتقبل روایۃ من تحمّل قبل الاسلام وروی بعدہ ، وکذلک روایۃ من سمع قبل البلوغ وروی بعدہ ، ومنع من ذلک قوم فأخطأوا ، لأنّ النّاس قبلوا روایۃ أحداث الصّحابۃ کالحسن بن علیّ وابن عبّاس وابن الزّبیر والنّعمان بن بشیر وأشباھھم من غیر فرق بین ما تحمّلوا قبل البلوغ وما بعدہ ، ولم یزالوا قدیما وحدیثا یحضرون الصّبیان مجالس التّحدیث والسّماع ویعتدّون بروایتھم لذلک ۔
” جو شخص اسلام لانے سے قبل روایت سنے اور اسلام لانے کے بعد بیان کرے ، اس کی روایت قبول کی جائے گی ، اسی طرح اس کی روایت بھی قبول کی جائے گی ، جس نے بلوغت سے قبل روایت سنی ہو اور بالغ ہونے کے بعد اسے بیان کرے ، کچھ لوگوں نے اس سے منع کیا ہے ، لیکن انہوں نے غلطی کی ہے ، کیونکہ (دور ِ سلف کے تمام)لوگوں نے کم سن صحابہ ، مثلاً حسن بن علی ، ابنِ عباس ، ابن زبیر ، نعمان بن بشیر اور ان جیسے دوسرے صحابہ کی احادیث کو یہ فرق کیے بغیرقبول کیا ہے کہ انہوں نے وہ بلوغت سے پہلے سنی ہیں یا بعد میں ، پھر قدیم وجدید دور میں محدثین بچوں کو حدیث سننے ، سنانے کی مجالس میں حاضر کرتے رہے ہیں اور ان کی روایات کو اہمیت دیتے رہے ہیں ۔”(مقدمۃ ابن الصلاح : ١/٧٣)
علامہ سخاوی  رحمہ اللہ (م ٩٠٢ھ)لکھتے ہیں :      وردّ علی القائلین بعدم قبول الصّبیّ باجماع الأئمّۃ علی قبول حدیث جماعۃ ومن صغار الصّحابۃ ممّا تحمّلوہ فی حال الصّغر کالسبطین ، وھما الحسن والحسین ابنا ابنتہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فاطمۃ الزّھراء والعبادلۃ ابن جعفر بن ابی طالب وابن الزّبیر وابن عبّاس والنّعمان بن بشیر والسّائب بن یزید والمسور بن خزیمۃ وأنس و مسلمۃ بن مخلد وعمربن أبی سلمۃ ویوسف بن عبداللّٰہ بن سلام وأبی الطّفیل وعائشۃ ونحوھم رضی اللّٰہ عنھم من غیر فرق بین ما تحمّلوہ قبل البلوغ وبعدہ مع احضار أھل العلم خلفا وسلفا من المحدّثین وغیرھم للصّبیان مجالس العلم ، ثمّ قبولھم أی العلماء أیضا من الصّبیان ما حدّثوا بہ من ذلک بعد الحلم أی البلوغ ۔۔۔    ”انہوں نے (الفیۃ الحدیث کے مصنف نے)بچے کی (بچپن میں سنی ہوئی اوربالغ ہونے کے بعد بیان کی گئی)حدیث قبول نہ کرنے والوں کا ردّ اس طرح کیا ہے کہ ایسے بہت سے راویوں سے روایت لینے پر امت کااجماع ہے ، صحابہ کرام میں سے ہی بہت سے صحابہ ایسے ہیں ، جنہوں نے بچپن میں (رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے )احادیث سنیں ، جیسا کہ سیدنا حسن وحسین ہیں جو کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ الزہرا  رضی اللہ عنہا  کے صاحبزادے ہیں ، نیزعبداللہ بن جعفر ، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عباس ، نعمان بن بشیر ، سائب بن یزید ، مسور بن مخرمہ ، انس بن مالک ، مسلمہ بن مخلد ، عمر بن ابی سلمہ ، یوسف بن عبداللہ بن سلام ، ابوالطفیل، سیدہ عائشہ وغیرہم ] ہیں ، امت نے ان کی احادیث کو مطلق طور پر قبول کیا ہے ، بغیر یہ فرق کیے کہ انہوں نے بلوغت سے پہلے وہ حدیثیں سنی ہیں یا بعد میں ، مزید برآں سلف وخلف محدثین ودیگر علمائے کرام علم کی مجالس میں بچوں کو بٹھاتے رہے ہیں ، پھر ان بچوں نے بالغ ہونے کے بعد جب ان حدیثوں کو بیان کیا تو محدثین نے ان کو قبول بھی کیا ۔۔۔”(فتح المغیث للسخاوی : ٢/٧)
صحابہ و تابعین اور محدثین کا توکسی راوی کی پانچ سال کی عمر میں سنی ہوئی حدیث کو قبول کرنے پر بھی اجماع ہے ، صحیح بخاری ہی مکمل پڑھ لیتے تو شاید میرٹھی صاحب یہ اعتراض نہ کرتے ، امام صاحب نے ان الفاظ میں باب قائم کیا ہے :      متٰی یصحّ سماع الصبیّ ۔ ”بچے کا حدیث کو سماع کرنا کب درست ہے؟”
پھر صحابی ئ رسول سیدنا محمودبن ربیع  رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں :      عقلت من النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم مجّۃ مجّھا فی وجھی ، وأنا ابن خمس سنین ، من دلو ۔
”مجھے نبی ئ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈول سے پانی لے کر اپنے منہ مبارک سے میرے چہرے پر ڈالنا یاد ہے،حالانکہ میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔”(صحیح بخاری : ٧٧، صحیح مسلم : ٣٣)
اصولِ حدیث پر پہلے پہل مستقل تصنیف کرنے والوںمیں سے ایک معروف محدث قاضی عیاض بن موسیٰ یحصبی رحمہ اللہ (م ٤٧٦۔٥٤٤ھ)لکھتے ہیں :     أمّا صحّۃ سماعہ فمتٰٰی ضبط ما سمعہ صحّ سماعہ ، ولا خلاف فی ھذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقد حدّد أھل الصّنعۃ فی ذلک أنّ أقلّہ سنّ محمود بن الرّبیع ۔۔۔۔    ”رہا اس (بچے )کے سماع کا صحیح ہونا تو جب وہ سنی ہوئی بات کو محفوظ کرنے لگے تو اس کا سماعِ حدیث صحیح ہوگا ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔۔۔ محدثین نے سماع کی کم از کم عمر کی تحدید میںسیدنا محمود بن ربیع  رضی اللہ عنہ  کی عمر کو کسوٹی بنایا ہے ۔۔۔”(الالماع الی معرفۃ اصول الروایۃ وتقیید السماع : ١/٦٢)
ابن الصلاح ، ابن دقیق العید ، خطیب بغدادی ، ابنِ کثیر ، ابنِ حجر وغیرہم S جیسے سب علمائے حدیث بھی اپنی کتابوں میں یہی بات ذکر کرتے اور اس کی تائید کرتے چلے آئے ہیں ، پھر صحیح بخاری کی صحت پر اجماع اس اصول پر اجماع کی خو د ایک مستقل دلیل ہے ۔
معلوم ہوا کہ حدیث کی صحت کے لیے یہ قطعاً ضروری نہیں ہے کہ وہ صحابی نے بالغ ہونے کے بعد سنی ہو، یہ محدثین کا اجماعی واتفاقی فیصلہ ہے ، جس کی مخالفت کوئی اصولِ حدیث سے جاہل آدمی ہی کر سکتا ہے ۔
اب قارئین کرام ہی بتائیں کہ اصولِ حدیث سے اتنی جہالت کے حامل شخص کو پوری امت ِ مسلمہ کے نزدیک متفق علیہ کتاب صحیح بخاری پر اعتراضات کا حق کس نے دیا ہے ؟
مسلمانو! اللہ کے لیے ان منکرینِ حدیث کے چنگل سے بچ جاؤ، کیا اب بھی آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ صحیح بخاری پر یہ اعتراضات کسی تحقیق کا نتیجہ نہیں ، بلکہ وحی ئ الٰہی کی صورت میں قرآن کی تشریح وتوضیح کے انکار کا دروازہ کھولا جا رہا ہے ، کیونکہ صحابی کے کم عمر ہونے کا اعتراض کسی ایک حدیث کی ”تحقیق وتنقید” نہیں ، بلکہ کم سنی کی حالت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سننے والے بیسیوں صحابہ کرام کی ہزاروں صحیح احادیث کے انکار کی خفیہ سازش ہے ، کیا اس کے بعد اسلام کی صحیح شکل وصورت باقی رہے گی ؟ اور کیا اس طرح کی روش اختیار کرنے والے لوگ اسلام سے مخلص ہو سکتے ہیں ؟ فیصلہ آپ پر ہے !
معزز قارئین !     جب سند کے اعتبار سے صحیح بخاری کی تحویل قبلہ والی حدیث بالکل ”صحیح ” ہے تو اس پر عقلی اعتراضات کی کوئی علمی حیثیت نہیں ، اس طرح کے اعتراضات تو منکرینِ قرآن ، قرآنِ کریم پر بھی کرتے آئے ہیں ، ان کا جواب دینے کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں ، البتہ اس سے منکرینِ حدیث کی بے عقلی ضرور ظاہر ہو گی ، لہٰذا اگلی قسط میںہم ایک ایک کا جواب عرض کریں گے ۔        ان شاء اللّٰہ تعالٰی!
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.