1,552

ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


سیدہ امِ کلثوم بنت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما کا
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نکاح
ابن الحسن محمدی
خلیفۃ المسلمین،داماد ِرسولِ امین، سیدنا مولیٰ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ پاک سے ہونے والی اپنی بیٹی سیدہ اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح امیر المومنین، خلیفہ راشد، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کیا۔یہ بات تواتر اور اجماع کی حد تک ثابت ہے۔اہل سنت اور شیعہ اس میں متفق ہیں، بلکہ شیعہ محدثین اور فقہاء نے اس نکاح کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے، جیسا کہ :
شیعہ مؤرّخ،احمد بن یعقوب نے 17 ہجری میں خلافت ِفاروقی کے احوال میں لکھا ہے:
وَفِي ہٰذِہِ السَّنَۃِ خَطَبَ عُمَرُ إِلٰی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، وَأُمُّہَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰہِ، فَقَالَ عَلِيٌّ : إِنَّہَا صَغِیرَۃٌ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ یَقُولُ : ’کُلُّ نَسَبٍ وَّسَبَبٍ یَّنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي وَصِہْرِي، فَأَرَدْتُّ أَنْ یَّکُونَ لِي سَبَبٌ وَّصِہْرٌ بِرَسُولِ اللّٰہِ، فَتَزَوَّجَہَا وَأَمْہَرَہَا عَشْرَۃَ آلاَفِ دِینَارٍ ۔
’’اسی سال سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف ان کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کے لئے پیغامِ نکاح بھیجا۔یاد رہے کہ یہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لخت ِجگر تھیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : امِ کلثوم ابھی عمر میں چھوٹی ہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(میں یہ رشتہ صرف اس لیے طلب کر رہا ہوں کہ)میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:روز ِقیامت تمام نسب اور سبب منقطع ہو جائیں گے، سوائے میرے تعلق،نسب اور سسرالی رشتہ کے۔ اب میری یہ خواہش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق اور سسرالی رشتہ ہو۔اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ دس ہزار دینار حق مہر کے عوض اپنی صاحبزادی کی شادی کر دی۔ ‘‘
(تاریخ الیعقوبي : 149/2، 150)
محمد بن جعفر کُلَیْنِی نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک روایت ذکر کی ہے ۔ آپ سے اس عورت کی عدت کے بارے میں پوچھا گیا،جس کا خاوند فوت ہو گیا ہو کہ وہ عدت کہاں گزارے ؟اپنے خاوند کے گھر یا جہاں چاہے گزار سکتی ہے؟اس پر امام صاحب نے فرمایا :جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے، پھر فرمایا:
إِنَّ عَلِیًّا لَّمَّا مَاتَ عُمَرُ أَتٰی أُمَّ کُلْثُومٍ، فَأَخَذَ بِیَدِہَا، فَانْطَلَقَ بِہَا إِلٰی بَیْتِہٖ ۔
’’جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے، توسیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے گھر لے گئے۔‘‘(الکافي في الفروع، کتاب الطلاق، 115/6، 116)
طوسی شیعہ نے امام باقر رحمہ اللہ سے یہ روایت ذکر کی ہے :
مَاتَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ بِنْتُ عَلِيٍّ وَّابْنُہَا زَیْدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي سَاعَۃٍ وَّاحِدَۃٍ، لَا یُدْرٰی أَیُّہُمَا ہَلَکَ قَبْلُ، فَلَمْ یُورِثْ أَحَدُہُمَا مِنَ الْآخِرَۃِ، وَصُلِّيَ عَلَیْہِمَا جَمِیعًا ۔
’’سیدہ امِ کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید بن عمر بن خطاب بالکل ایک ہی وقت میں فوت ہوئے،یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا،نہ دونوں میں سے کوئی دوسرے کا وارث بنا۔دونوں کی نماز ِجنازہ بھی اکٹھی ادا کی گئی۔‘‘
(تہذیب الأحکام ، کتاب المیراث : 262/9)
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی سگی بہن، سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نکاح کو درجِ ذیل شیعہ علماء نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے :
سید مرتضیٰ ’’علم الہدیٰ‘‘(الشافي، ص : 166)، فخر شیعہ،ابنِ شہر آشوب (مناقب آل أبي طالب : 162/3، طبعۃ ممبئی، الہند)، شیعہ عالم اربلی(کشف الغمّۃ في معرفۃ الأئمّۃ، ص : 10، طبع إیران، القدیم)،ابنِ ابو الحدید(شرح نہج البلاغۃ : 124/3)، مقدس اردبیلی(حدیقۃ الشیعۃ، ص : 277، طبعۃ طہران)، قاضی نور اللہ شوشتری ملقب بہ الشہید الثالث(مجالس المؤمنین، ص : 76، طبعۃ إیران، القدیم) وغیرہ ۔
اس نکاح سے فقہائے شیعہ نے ہاشمیہ عورت کے غیر ہاشمی مرد کے ساتھ نکاح کے جواز کا استدلال کیا ہے۔
شیعہ فقیہ حلّی(م : 672ھ)نے لکھا ہے :
وَیَجُوزُ إِنْکَاحُ الْحُرَّۃِ الْعَبْدَ، وَالْعَرَبِیَّۃِ الْعَجَمِيَّ، وَالْہَاشِمِیَّۃَ غَیْرَ الْہَاشِمِيَّ ۔
’’آزاد عورت کا غلام مرد کے ساتھ، عربی عورت کا عجمی مرد کے ساتھ اور ہاشمی عورت کا غیر ہاشمی مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے۔‘‘
(شرائع الإسلام في مسائل الحلال والحرام، کتاب النکاح : 467/2)
اس کتاب کے شارح العاملی ملقب بہ الشہید الثانی نے لکھا ہے :
وَزَوَّجَ النَّبِيُّ ابْنَتَہٗ عُثْمَانَ، وَزَوَّجَ ابْنَتَہٗ زَیْنَبَ بِأَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیعِ، وَلَیْسَا مِنْ بَنِي ہَاشِمٍ، وَکَذٰلِکَ زَوَّجَ عَلِيٌّ ابْنَتَہٗ أُمَّ کُلْثُومٍ مِّنْ عُمَرَ، وَتَزَوَّجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ فَاطِمَۃَ بِنْتَ الْحُسَیْنِ، وَتَزَوَّجَ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَیْرِ أُخْتَہَا سَکِیْنَۃَ، وَکُلُّہُمْ مِّنْ غَیْرِ بَنِي ہَاشِمٍ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا،اپنی دوسری بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔یہ دونوں بنو ہاشم کے آدمی نہیں تھے۔اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی شادی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی،ایسے ہی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی شادی سیدہ فاطمہ بنت حسین سے اور سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شادی ان(فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا )کی بہن سکینہ سے ہوئی۔یہ سب غیر ہاشمی تھے۔‘‘(مسالک الأفہام شرح شرائع الإسلام، باب لواحق العقد : 410/7)
مشہور معتزلی شیعہ،ابن ابو الحدید نے ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے :
إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَجَّہَ إِلٰی مَلِکِ الرُّومِ بَرِیدًا، فَاشْتَرَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ امْرَأَۃُ عُمَرَ طِیبًا بِدَنَانِیرَ، وَجَعَلَتْہُ فِي قَارُورَتَیْنِ، وَأَہْدَتْہُمَا إِلَی امْرَأَۃِ مَلِکِ الرُّومِ، فَرَجَعَ الْبَرِیدُ إِلَیْہَا، وَمَعَہُ مِلْئُ الْقَارُورَتَیْنِ جَوَاہِرَ، فَدَخَلَ عَلَیْہَا عُمَرُ، وَقَدْ صُبَّتِ الْجَوَاہِرُ فِي حِجْرِہَا، فَقَالَ : مِنْ أَیْنَ لَکِ ہٰذَا ؟ فَأَخْبَرَتْہُ، فَقَبَضَ عَلَیْہِ وَقَالَ : ہٰذَا لِلْمُسْلِمِینَ، قَالَتْ : کَیْفَ، وَہُوَ عِوَضُ ہَدِیَّتِي؟ قَالَ : بَیْنِي وَبَیْنَکَ أَبُوکَ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَیْہِ السَّلَامُ : لَکَ مِنْہُ بِقِیمَۃِ دِینَارِکَ، وَالْبَاقِي لِلْمُسْلِمِینَ جُمْلَۃً، لِّأَنَّ بَرِیدَ الْمُسْلِمِینَ حملہ ۔
’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے قاصد کو رومی بادشاہ کی طرف بھیجا،آپ کی زوجہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے کچھ دینار کی خوشبو خریدی اور اسے دو بوتلوں میں بند کر کے رومی بادشاہ کی بیوی کو تحفہ بھیجا۔جب قاصد واپس آیا، تو وہ جواہرات کی بھری دو بوتلیں لایا۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، تو ان کی گود میںجواہرات پڑے تھے۔آپ نے پوچھا : یہ جواہرات کہاں سے آئے ہیں؟انہوںنے بتایا، توسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہ جواہرات ان سے لے لئے اور فرمایا : یہ مسلمانوں کے ہیں۔سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : یہ کیسے ہو سکتا ہے؟یہ تو میرے بھیجے ہوئے ہدیے کے عوض میں آئے ہیں۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے اور آپ کے در میان آپ کے والد فیصلہ کریں گے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :بیٹی تیرے دیناروں کی قیمت کے برابر جواہرات تجھے ملیں گے،باقی تمام مسلمانوں کے حصے میں آئیں گے،کیونکہ قاصد مسلمانوں ہی کا تھا۔‘‘
(شرح نہج البلاغۃ : 575/4، طبعۃ بیروت، 1375ہـ)
ہم نے یہ حوالہ جات معروف اہل حدیث عالم،شہید ِاسلام،علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی مایۂ ناز کتاب [الشیعۃ وأہل البیت] (ص : 106۔۔۔ 109)سے لیے ہیں۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں۔جب شیعہ نے یہ بات تسلیم کر لی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کیا تھا، تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تینوں خلفائے راشدین کے درمیان بے حد محبت اور گہرا تعلق تھا، وہ ایک دوسرے کے احترام میں رشتے ناطے تک قائم کرتے تھے اور ایک دوسرے کے حقوق کے پاسبان اور پاسدار تھے۔۔۔ توشیعہ نے امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر کے ایک قول گھڑ لیا۔ وہ یہ ہے :
إِنَّ ذٰلِکَ فَرْجٌ غُصِبْنَاہُ ۔ ’’یہ رشتہ ہم سے چھین لیا گیا تھا۔‘‘
(الکافي في الفروع : 141/2، طبعۃ الہند)
شیعہ اصولِ حدیث کے مطابق یہ قول ’’صحیح‘‘ہے، البتہ اہل سنت کے اصولِ حدیث کی رو سے یہ قول جھوٹا اور مردود ہے، کیونکہ :
1 علی بن ابراہیم بن ہاشم ابو الحسن قمی
2 اس کا باپ ابراہیم بن ہاشم ابن الخلیل ابو اسحاق قمی
3 محمد بن ابو عمیر
4 ہشام بن سالم
5 حماد بن عثمان
6 ابو الحسن زرارہ بن امین الشیبانی
یہ سب کے سب ’’مجہول‘‘ ہیں۔
ان اشخاص کی توثیق نہیں مل سکی، ان میں سے بعض کے تو حالات زندگی ہی کا پتہ نہیں چل سکا۔یہ نامعلوم جھوٹوں کی کارستانی ہے۔
شیعہ عالم مقدس اردبیلی نے لکھا ہے:
إِنَّ عَلِیًّا لَّمْ یَکُنْ یُّرِیدُ أَنْ یُّزَوِّجَ ابْنَتَہٗ أُمَّ کُلْثُومٍ مِّنْ عُمَرَ، وَلٰکِنَّہٗ خَافَ مِنْہُ، فَوَکَّلَ عَمَّہٗ عَبَّاسًا لِّیُزَوِّجَہَا مِنْہُ ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنی بیٹی امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کریں، مگر ڈر کی وجہ سے انہوں نے یہ کام کیا،چنانچہ اپنے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو یہ کام سپرد کیا کہ وہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیں۔ ‘‘(حدیقۃ الشیعۃ، ص : 277)
کیا ایسے لوگ اہل بیت اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خیرخواہ ہو سکتے ہیں؟ایک جھوٹی کہانی گھڑ کر یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ (معاذ اللہ)سیدنا علی رضی اللہ عنہ نہایت بزدل تھے اور اپنے حقوق کے حصول میں اس قدر چشم پوشی سے کام لیتے تھے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے ان کی عزت و عصمت تک چھین لی،مگر انہوں نے پوری زندگی زبان تک نہیں کھولی۔ایسی رسوائی والی باتوں سے ہم اللہ رب العزت کی پناہ میں آتے ہیں۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ اس قسم کی باتوں سے بہت بلند تھے۔جس دل میں ذرہ برابر ایمان ہو، وہ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی طرف یہ رسوا کن بات منسوب نہیں کر سکتا۔ ایک دن آنے والا ہے جس دن اللہ رب العزت ایسے جھوٹوں کو اپنی گرفت میں لے گا، پھر کوئی ان کو چھڑا نہیں سکے گا۔
کتب ِاہل سنت اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نکاح
اس حوالے سے اہل سنت کی کتب سے بھی دلائل ملاحظہ ہوں:
1 سیدنا ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَسَمَ مُرُوطًا بَیْنَ نِسَائٍ مِّنْ نِّسَائِ الْمَدِینَۃِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَیِّدٌ، فَقَالَ لَہٗ بَعْضُ مَنْ عِنْدَہٗ : یَا أَمِیرَ المُوْمِنِینَ ! أَعْطِ ہٰذَا ابْنَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِي عِنْدَکَ، یُرِیدُونَ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، فَقَالَ عُمَرُ : أُمُّ سَلِیطٍ أَحَقُّ، وَأُمُّ سَلِیطٍ مِّنْ نِّسَائِ الْـأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَایَعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ : فَإِنَّہَا کَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ یَوْمَ أُحُدٍ ۔
’’سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں، توایک عمدہ چادر بچ گئی۔آپ کے پاس بیٹھے لوگوں میں سے کسی نے کہا:امیر المومنین!آپ یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو عنایت کر دیجئے جو کہ آپ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ہیں۔اس شخص کی مراد سیدہ امِ کلثوم بنت ِعلی رضی اللہ عنہما تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(میری بیوی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے مقابلہ میں)بی بی امِ سلیط رضی اللہ عنہا اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں۔وہ انصاری عورت تھیں،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہوئی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ عورت غزوۂ اُحُدکے دن پانی کی مشکیں اپنی کمر پر لاد کر ہمارے پاس لاتی تھی۔‘‘(صحیح البخاري : 2725)
2 نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلّٰی عَلَی تِسْعِ جَنَائِزَ جَمِیعًا، فَجَعَلَ الرِّجَالَ یَلُونَ الْإِمَامَ، وَالنِّسَائَ یَلِینَ الْقِبْلَۃَ، فَصَفَّہُنَّ صَفًّا وَّاحِدًا، وَوُضِعَتْ جَنَازَۃُ أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِيٍّ امْرَأَۃِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَابْنٍ لَّہَا، یُقَالُ لَہٗ زَیْدٌ، وُضِعَا جَمِیعًا، وَالْإِمَامُ یَوْمَئِذٍ سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ، وَفِي النَّاسِ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ، وَأَبُو سَعِیدٍ، وَأَبُو قَتَادَۃَ، فَوُضِعَ الْغُلَامُ مِمَّا یَلِي الْإِمَامَ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نو میّتوں پر اکٹھی نماز جنازہ ادا کی۔انہوں نے مردوں کو امام اور عورتوں کو قبلہ کی جانب رکھا۔ان سب کی ایک صف بنا دی،جبکہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا ، جو کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں انہیں اور ان کے زید نامی بیٹے،دونوں کو اکٹھا رکھا۔اس روز سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ امام تھے،جبکہ جنازہ پڑھنے والوں میں سیدنا عبداللہ بن عمر،سیدنا ابوہریرہ،سیدنا ابو سعید خدری اورسیدناابو قتادہy شامل تھے۔ بچے کو امام کی جانب رکھا گیا۔‘‘(سنن النسائي : 1980، سنن الدارقطني : 79/2، 80، السنن الکبرٰی للبیہقي : 33/4، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن الجارود رحمہ اللہ (545)نے صحیح کہا ہے۔
اس کی سند کو حافظ نووی رحمہ اللہ (المجموع شرح المہذب : 224/5)نے ’’حسن‘‘، جبکہ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (البدر المنیر : 385/5)اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : 146/2)نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
3 امام شعبی رحمہ اللہ ،سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
إِنَّہٗ صَلّٰی عَلٰی أَخِیہِ، وَأُمِّہٖ أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِيٍّ، فَجَعَلَ الْغُلَامَ مِمَّا یَلِي الْإِمَامَ، وَالْمَرْأَۃَ فَوْقَ ذٰلِکَ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بھائی اور اپنی والدہ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کی نماز ِجنازہ پڑھائی،انہوں نے بچے کو امام کی جانب رکھا اور عورت کو اوپر والی جانب۔‘‘
(مسند علي ابن الجعد : 574، وسندہٗ صحیحٌ)
4 امام شعبی رحمہ اللہ ہی بیان کرتے ہیں :
صَلَّی ابْنُ عُمَرَ عَلٰی زَیْدِ بْنِ عُمَرَ، وَأُمِّہٖ أُمِّ کُلْثُومِ بِنْتِ عَلِيٍّ، فَجَعَلَ الرَّجُلَ مِمَّا یَلِي الْإِمَامَ، وَالْمَرْأَۃَ مِنْ خَلْفِہٖ، فَصَلّٰی عَلَیْہِمَا أَرْبَعًا، وَخَلْفَہُ ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ، وَالْحُسَیْنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ۔
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بھائی زید بن عمر اور اپنی والدہ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کی نماز ِجنازہ پڑھائی۔انہوں نے بچے کو امام کی جانب رکھا اور عورت کو اس کے پیچھے رکھا،چار تکبیروں کے ساتھ ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ان کی اقتدا میں محمد بن حنفیہ، سیدنا حسین بن علی اور سیدنا عبداللہ بن عباسy نے نماز ِجنازہ ادا کی۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 38/4، وسندہٗ صحیحٌ)
5 عمار بن ابو عمار، مولیٰ بنو ہاشم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
شَہِدْتُہُمْ یَوْمَئِذٍ، وَصَلّٰی عَلَیْہِمَا سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ، وَکَانَ أَمِیرَ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ، وَخَلْفَہٗ ثَمَانُونَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’میں سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا اور ان کے بیٹے زید بن عمر بن خطاب کی نماز ِجنازہ میں شریک تھا۔ سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی نماز جنادہ ادا کی۔وہ ان دنوں گورنر تھے۔ان کے پیچھے اَسّی صحابہ کرام موجود تھے۔‘‘
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 340/8، وسندہٗ حسنٌ)
شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان روایات کے مابین یوں جمع و تطبیق کی ہے :
فَیُحْمَلُ عَلٰی أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَمَّ بِہِمْ حَقِیقَۃً بِإِذْنِ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، وَیُحْمَلُ قَوْلُہٗ : إِنَّ الْإِمَامَ کَانَ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ، یَعْنِي الْـأَمِیرَ، جَمَعًا بَیْنَ الرِّوَایَتَیْنِ، أَوْ أَنَّ نِسْبَۃَ ذٰلِکَ لِابْنِ عُمَرَ لِکَوْنِہٖ أَشَارَ بِتَرْتِیبِ وَضْعِ تِلْکَ الْجَنَائِزِ، عَلَی الْجِنَازَۃِ فِي الصَّلَاۃِ ۔
’’درحقیقت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کی اجازت سے نماز ِجنازہ پڑھائی تھی۔ حدیث میں یہ جو مذکور ہے کہ سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ ان کے ا مام تھے، تو اس سے مراد امارت ہے۔یوں ان روایات کے درمیان جمع کی صورت بنتی ہے، یا پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے جنازہ پڑھانے سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے نماز ِجنازہ کے لئے چارپائیوں کو ترتیب میں رکھنے کا اشارہ فرمایا تھا۔ ‘‘(التلخیص الحبیر : 146/2)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.