979

ضعیف+ضعیف=صحیح، شمارہ 30، ابو یحیی نور پوری

”حسن” حدیث کے مبحث میں امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاحِ ”حسن” ایک معرکۃ الآراء قول کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اُصولِ حدیث یا فنِّ حدیث کے بیان میں جن لوگوں نے حدیث ِ”حسن” کے بارے میں ذرا بھی تفصیلی بات کی ہے ، لازماً اس ضمن میں امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاحِ ”حسن” کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔ اگرچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب العلل الصغیر میں اپنی اصطلاحِ ”حسن” کی وضاحت بھی کی ہے لیکن پھر بھی اس کے سمجھنے میں علمائے کرام کے اقوال مختلف ہو گئے ہیں ۔
یہ بات تو سب کو تسلیم ہے کہ اگر خود قائل اپنی کسی بات کی قولی یا فعلی تشریح کر دے تو دوسرے لوگوں کے بیان کیے گئے مفہوم کے مقابلے میں وہی معتبر ہوتی ہے ۔ اس مختصر مضمون میں ہم جامع ترمذی میں خود امام ترمذی رحمہ اللہ کے طرز عمل کی روشنی میں ان کی اصطلاحِ ”حسن” کا صحیح معنیٰ و مفہوم قارئین کی نظر کریں گے ۔
سب سے پہلے تو ہم وہ تعریف ذکر کرتے ہیں جو خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی اصطلاحِ ”حسن” کے بارے میں ذکر کی ہے ، فرماتے ہیں :
وَمَا ذَکَرْنَا فِي ہٰذَا الْکِتَابِ : حَدِیثٌ حَسَنٌ ، فَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِہٖ حُسْنَ إِسْنَادِہٖ، عِنْدَنَا کُلُّ حَدِیثٍ یُرْویٰ، لَا یَکُونُ فِي إِسْنَادِہٖ مَنْ یُّتَّہَمُ بَالْکِذْبِ، وَلَا یَکُونُ الْحَدِیثُ شَاذًّا، وَیُرْویٰ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ نَحْوَ ذَاکَ فَہُوَ عِنْدَنَا حَدِیثٌ حَسَنٌ .
”ہم نے اس کتاب میں حدیث ِحسن کی جو اصطلاح ذکر کی ہے ، اس سے مراد سند کا حسن ہونا ہے ۔ ہمارے نزدیک ہر وہ حدیث جس کی سند میں نہ کوئی راوی متہم بالکذب ہو نہ وہ حدیث شاذ ہو ، نیز وہ اسی طرح کی اور سند سے بھی مروی ہو ، وہ حدیث حسن ہے ۔ ”
(العلل الصغیر للترمذي مندرجۃ في آخر جامع الترمذي : ص ٨٩٨، طبع دار السلام بالریاض)
اس تعریف میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی اصطلاحِ ”حسن” میں تین شرائط ذکر کی ہیں :
1    اس کی سند میں کوئی متہم بالکذب راوی نہ ہو ۔
2    وہ حدیث شاذ نہ ہو ۔
3    اس کی سندیں ایک سے زائد ہوں ۔
جس شرط کی بنا پر اس تعریف کو سمجھنے میں اختلاف واقع ہوا ہے ، وہ تیسری شرط ہے ۔ اس شرط میں مذکور ایک سے زائد سندوں کا کیا مطلب ہے ؟ اس بارے میں مختلف خیالات کی وجہ سے بعد والے محققین کی آراء مختلف ہوئی ہیں ۔ بعض لوگوں کے خیال میں اس سے مراد کسی حدیث کی ایک سے زائد ایسی کمزور سندیں ہیں جن سب میں تھوڑی تھوڑی کمزوری ہوتی ہے لیکن ان زیادہ سندوں کی وجہ سے وہ حدیث قابل حجت ”حسن” بن جاتی ہے۔ لیکن یہ بات دلائل کی رُو سے درُست نہیں ۔ خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے جو منہج جامع ترمذی میں ”حسن” کے حوالے سے اپنایا ہے ، وہ بھی اس نظریے کو سختی سے مسترد کرتا ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کی طرف سے ”حسن” کی تعریف اور جامع ترمذی رحمہ اللہ میں اس کے اطلاق کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ امام صاحب کی ایک خاص اصطلاح ہے جو عام محدثین سے مختلف ہے ۔ تعریف میں عِنْدَنَا(ہمارے نزدیک)کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں ۔ اگر اس سے محدثین کرام والی ”حسن” جو کہ قابل حجت ہوتی ہے ، مراد ہوتی تو اس تعریف میں اپنے لیے خصوصیت کا تذکرہ نہ ہوتابلکہ سرے سے اس وضاحت کی ہی ضرورت نہ ہوتی ۔ اس ہمارے دعوے پر جامع ترمذی میں امام صاحب کے بہت سے اطلاقات ِ حسن بھی ہمارے لیے دلیل ہیں۔ہم اس سلسلے میں صرف وہ مقامات زیر بحث لائیں گے جہاں امام صاحب نے صرف حَدِیثٌ حَسَنٌ کہاہے ، کیونکہ حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ اور حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ میں تو شاید کوئی اور احتمال ہو سکتا ہو اور بعض محققین نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ جب امام ترمذی رحمہ اللہ  صرف ”حسن” کہیں تو ان کی یہ مراد ہو گی ورنہ نہیں۔ لہٰذا آئیے اس مسئلے کی تحقیق کی غرض سے جامع ترمذی سے صرف ”حسن” کی ایک دو مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں :
1    امام ترمذی رحمہ اللہ نے سب سے پہلے جو حَدِیثٌ حَسَنٌ کا اطلاق کیا ہے ، وہ ملاحظہ فرمائیں ۔ امام صاحب سر پر مسح کی احادیث ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
بَابُ مَا جَاء َ فِی مَسْحِ الرَّأْسِ أَنَّہ، یُبْدَأُ بِمُقَدَّمِ الرَّأْسِ إِلیٰ مُؤَخَّرِہِ .
” اس حدیث کا بیان جس میں یہ ذکر ہے کہ سر کے مسح کو سر کے اگلے حصے سے شروع کیا جائے گا ۔”    ۔۔۔۔۔۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ : أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسَحَ رَأْسَہ، بِیَدَیْہِ، فَأَقْبَلَ بِہِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِہٖ ثُمَّ ذَہَبَ بِہِمَا إِلیٰ قَفَاہُ، ثُمَّ رَدَّہُمَا حَتّیٰ رَجَعَ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِی بَدَأَ مِنْہُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ. قَالَ أَبُو عِیسیٰ : وَفِي الْبَابِ عَنْ مُعَاوِیَۃَ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ وَعَائِشَۃَ، قَالَ أَبُو عِیسیٰ : حَدِیثُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہٰذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، وَبِہٖ یَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ . ”سیدنا عبد اللہ بن زیدرضی اللہ عنہبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہeاپنے سر کا دونوں ہاتھوں کے ساتھ یوں مسح فرماتے کہ اپنے سر کے اگلے حصے سے شروع کرتے حتی کہ دونوں ہاتھوں کو اپنی گدی مبارک تک لے جاتے ۔ پھر ان کو واپس لوٹاتے حتی کہ اس جگہ تک آ جاتے جہاں سے مسح شروع کیا تھا ، پھر اپنے پاؤں مبارک دھوتے ۔ اس مسئلے میں سیدنا معاویہ ، سیدنا مقدام بن معدیکرب اور سیدہ عائشہyسے احادیث مروی ہیں ۔ سیدنا عبد اللہ بن زیدرضی اللہ عنہکی حدیث اس(سر کے مسح کے)مسئلے میں صحیح ترین اور بہترین ہے ۔ امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہS کا مذہب اسی حدیث کے مطابق ہے ۔ ”
اس کے بعد فرماتے ہیں :     بَابُ مَا جَاء َ أَنَّہ، یُبْدَأُ بِمُؤَخَّرِ الرَّأْسِ .
” اس حدیث کا بیان جس میں یہ ذکر ہے کہ سر کا مسح سر کے پچھلے حصے سے شروع کیا جائے گا ۔ ”     پھر امام صاحب یہ حدیث بیان فرماتے ہیں :
۔۔۔۔۔۔ عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاء َ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِہِ مَرَّتَیْنِ بَدَأَ بِمُؤَخَّرِ رَأْسِہٖ ثُمَّ بِمُقَدَّمِہِ وَبِأُذُنَیْہِ کِلْتَیْہِمَا ظُہُورِہِمَا وَبُطُونِہِمَا . قَالَ أَبُو عِیسیٰ : ہٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ، وَحَدِیثُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ أَصَحُّ مِنْ ہٰذَا وَأَجْوَدُ إِسْنَادًا، وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْکُوفَۃِ إِلیٰ ہٰذَا الْحَدِیثِ، مِنْہُمْ وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ .
”سیدہ ربیّع بنت عفرائرضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہeنے اپنے سر کا دو مرتبہ مسح کیا ۔ اپنے سر کے پچھلے حصے سے شروع کیا پھراگلے حصے کا مسح کیا اور اپنے دونوں کانوں کی اندرونی و بیرونی جانب مسح کیا ۔ یہ حدیث حسن ہے ، جبکہ سیدنا عبد اللہ بن زیدرضی اللہ عنہکی بیان کردہ حدیث صحیح تر اور سند کے اعتبار سے زیادہ عمدہ ہے ۔ بعض اہل کوفہ اس حدیث کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ ان میں سے امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ بھی ہیں ۔ ”(جامع الترمذي : ٣٢،٣٣، طبع دارالسلام، بالریاض)
جامع ترمذی میں یہ سب سے پہلا مقام ہے جہاں امام ترمذی رحمہ اللہ نے کسی حدیث کے لیے حَدِیثٌ حَسَنٌ کا اطلاق کیا ہے ۔ اور یہاں کتنے صاف الفاظ میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی ”حسن” کو خود مرجوح اور ناقابل عمل قرار دیا ہے ۔ اگر امام ترمذی رحمہ اللہ  کی ”حسن” سے مراد قابل حجت و قابل عمل حدیث ہوتی تو وہ کبھی ایک حدیث کو ”حسن” کہنے کے ساتھ ساتھ اس پر ایسا تبصرہ نہ فرماتے ۔
پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس حدیث کا دارومدار عبد اللہ بن محمد بن عقیل پر ہے جیسا کہ علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ ، علامہ شوکانی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حَدِیثُ رُبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ہٰذَا لَہ، رِوَایَاتٌ وَّأَلْفَاظٌ، مَدَارُ الْکُلِّ عَلیٰ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ مُحَمِّدِ بْنِ عَقِیلٍ، وَفِیہِ مَقَالٌ مَشْہُورٌ لَّاسِیَّمَا إِذَا عَنْعَنَ، وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ فِي جَمِیعِہَا . ”سیدہ ربیِّع بنت معوِّذرضی اللہ عنہا کی اس حدیث کی کئی سندیں اور کئی الفاظ ہیں۔ سب کا دارومدار عبد اللہ بن محمد بن عقیل پر ہے اور ان کے بارے میں (محدثین کی) کلام (جرح) مشہور ہے خصوصاً جب وہ عَنْ کے لفظ سے بیان کریں ۔ تمام سندوں میں انہوں نے ایسا ہی کیا ہے ۔ ”    آخر میں مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وَہُوَ مَذْہَبٌ مَّرْجُوحٌ، وَالْمَذْہَبُ الرَّاجِحُ الْمُعَوَّلُ عَلَیْہِ ہُوَ الْبَدَاءَ ۃُ بِمُقَدَّمِ الرَّأْسِ .
”یہ مرجوح مذہب ہے ۔ راجح مذہب جس پر اعتماد کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سر کا مسح سر کے اگلے حصے سے شروع کیا جائے ۔(تحفۃ الاحوذي : ١/١١٢،١١٣، طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یعنی اس حدیث کی پورے ذخیرہئ حدیث میں کوئی ایسی سند نہیں جس میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل موجود نہ ہو ، جبکہ زیادہ ”ضعیف” سندوں کے آپس میں مل کر ”حسن” ہونے کے جو علمائے کرام قائل ہیں ، ان کے نزدیک یہ حدیث اس وقت تک ”حسن” نہیں بن سکتی جب تک عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی متابعت موجود نہ ہو ۔ پھر اس حدیث کے شواہد (مؤید احادیث)بھی موجود نہیں جیسا کہ خود امام ترمذی رحمہ اللہ کے عمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ۔ اگر اس کا کوئی شاہد (مؤید حدیث)امام صاحب کی نظر میں ہوتا تو وہ اسے اپنے اسلوب کے مطابق وَفِي الْبَابِ کہہ کر ذکر کر دیتے ۔ اگر کسی صاحب ِ علم کے پاس اس حدیث کی کوئی اور سند یا کوئی شاہد موجود ہو تو وہ اسے افادہئ عام کے لیے پیش کرے ۔
یہ تھی پہلی حدیث جسے امام ترمذی رحمہ اللہ  نے ”حسن” قرار دیا ہے اور اسی حدیث سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاحِ ”حسن” کا مطلب امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک قطعاً یہ نہیں کہ اس کی ایک سے زائد خفیف ”ضعف” والی سندیں ہیں اور وہ مل کر قابل حجت بنتی ہیں ۔ ایک مقام پر امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل صدوق (معتبر) راوی ہیں ۔ اگرچہ بعض محدثین کرام نے ان کے حافظے پر جرح کی ہے ۔
(جامع الترمذي ، تحت الحدیث : ٣، طبع دار السلام، بالریاض)
اگر بالفرض امام صاحب اس کا یہ خفیف ”ضعف” دُور کرنا چاہتے ہوتے تو اس کی کوئی اور سند یا کوئی شاہد پیش کرتے اور اگر ایسا ہوتا تو پھر اس کے خلاف پہلی حدیث کو راجح قرار نہ دیتے ۔
2    امام ترمذی رحمہ اللہ رفع الیدین کی احادیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
بَابُ مَا جَاء َ فِي رَفْعِ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الرُّکُوعِ .
”ان احادیث کا بیان جن میں رکوع کرتے وقت رفع الیدین کا ذکر ہے ۔ ”
۔۔۔۔۔۔ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّــــــــلاَۃَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَتّیٰ یُحَاذِیَ مَنْکِبَیْہِ، وَإِذَا رَکَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہ، مِنَ الرُّکُوعِ، وَزَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِیثِہٖ : وَکَانَ لاَ یَرْفَعُ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ ۔۔۔۔۔۔ وَفِيالْبَابِ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَمَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَیْـــرَۃَ وَأَبِي حُمَیْدٍ وَأَبِي أُسَیْدٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ وَأَبِي قَتَادَۃَ وَأَبِي مُوسَی الْـأَشْعَرِيِّ وَجَابِرٍ وَعُمَیْرٍ اللَّیْثِيِّ، قَالَ أَبُو عِیسیٰ : حَدِیثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ، وَبِہٰذَا یَقُولُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْہُمُ ابْنُ عُمَرَ وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ وَأَنَسٌ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الزُّبَیْرِ وَغَیْرُہُمْ، وَمِنَ التَّابِعِینَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعَطَاء ٌ وَطَاو،سٌ وَمُجَاہِدٌ وَنَافِعٌ وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَسَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ وَغَیْرُہُمْ، وَبِہٖ یَقُولُ مَالِکٌ وَمَعْمَرٌ وَالْـأَوْزَاعِيُّ وَابْنُ عُیَیْنَۃَ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ، وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ : قَدْ ثَبَتَ حَدِیثُ مَنْ یَرْفَعُ یَدَیْہِ، وَذَکَرَ حَدِیثَ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیہِ، وَلَمْ یَثْبُتْ حَدِیثُ ابْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّمَ لَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّۃٍ ۔۔۔۔۔۔ کَانَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ یَریٰ رَفْعَ الْیَدَیْنِ فِي الصَّــلاَۃِ، وَقَالَ یَحْیَی : وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ : کَانَ مَعْمَرٌ یَریٰ رَفْعَ الْیَدَیْنِ فِي الصَّـــلاَۃِ، وَسَمِعْتُ الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ یَقُولُ : کَانَ سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ وَعُمَرُ بْنُ ہَارُونَ وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَیْلٍ یَرْفَعُونَ أَیْدِیَہُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلاَۃَ وَإِذَا رَکَعُوا وَإِذَا رَفَعُوا رُء ُوسَہُمْ .
”سالم اپنے والد (سیدنا ابنِ عمررضی اللہ عنہما ) سے بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہe کو دیکھا ۔ آپ جب نماز شروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے تو اپنے کندھوں کے برابر رفع الیدین فرماتے تھے ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ آپ دونوں سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے میں سیدنا عمر ، سیدنا علی ، سیدنا وائل بن حجر ، سیدنا مالک بن حویرث ، سیدنا انس ، سیدنا ابو ہریرہ ، سیدنا ابو حمید ، سیدنا ابو اُسید ، سیدنا سہل بن سعد، سیدنا محمد بن مسلمہ ، سیدنا ابو قتادہ ، سیدنا ابو موسیٰ اشعری ، سیدنا جابر ، سیدنا عمیر لیثی y سے احادیث مروی ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما  کی حدیث حسن صحیح ہے ۔ بعض (بقولِ امام بخاری رحمہ اللہ تمام۔ ناقل٭)اہل علم صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ ان صحابہ کرام میں سیدنا عبد اللہ بن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی بات ہی راجح ہے ۔ بعض صحابہ کرام سے عدمِ رفع کی جو روایات مروی ہیں ، ان میں سے ایک بھی اُصولِ محدثین کے مطابق ثابت نہیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں : ماہنامہ ضرب ِ حق ، شمارہ نمبر0 .
عمر ، سیدنا جابر بن عبد اللہ ، سیدنا ابو ہریرہ ،سیدنا انس ، سیدنا عبد اللہ بن عباس ، سیدنا عبد اللہ بن زبیر وغیرہمy شامل ہیں ۔ تابعین عظام میں سے امام حسن بصری ، امام عطاء بن ابی رباح ، امام طاؤس ، امام مجاہد ، امام نافع ، امام سالم بن عبد اللہ ، امام سعید بن جبیروغیرہمy کا یہی مذہب ہے۔ امام مالک ،امام معمر ، امام اوزاعی ،امام سفیان بن عیینہ ، امام عبد اللہ بن مبارک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہمS کا یہی قول ہے ۔ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رفع الیدین کرنے والے لوگوں کی دلیل ، یعنی سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما  کی حدیث ثابت ہے جبکہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہکی وہ حدیث ثابت نہیں جس میں یہ ذکر ہے کہ نبی ئ اکرمeنے صرف پہلی دفعہ رفع الیدین کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام مالک بن انس رحمہ اللہ بھی نماز میں رفع الیدین کے قائل تھے ۔ یحییٰ کا بیان ہے کہ ہمیں امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے بیان کیا : امام معمر رحمہ اللہ نماز میں رفع الیدین کرتے تھے ۔ میں نے جارود بن معاذ کو یہ بیان کرتے سنا کہ امام سفیان بن عیینہ ، عمر بن ہارون اور امام نضر بن شمیل نماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے ۔ ”
اس کے بعد امام صاحب فرماتے ہیں : بَابُ مَا جَاء َ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّۃٍ .     ”اس حدیث کا بیان جس میں یہ ذکر ہے کہ نبی اکرمeنے صرف پہلی دفعہ رفع الیدین کیا تھا ۔”
۔۔۔۔۔۔ عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُودٍ : أَلَا أُصَلِّي بِکُمْ صَلاَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلّیٰ فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّۃٍ، قَالَ : وَفِي الْبَابِ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ أَبُو عِیسیٰ : حَدِیثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِیثٌ حَسَنٌ، وَبِہٖ یَقُولُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِینَ، وَہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْکُوفَۃِ .
”علقمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہنے فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ کے رسولeکی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے صرف پہلی دفعہ رفع الیدین کیا ، دوبارہ نہیں کیا ۔ اس بارے میں سیدنا براء بن عازبرضی اللہ عنہسے بھی ایک حدیث مروی ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہکی حدیث حسن ہے ۔ نبی ئ اکرمeکے کئی صحابہ کرام اور تابعین اسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے (صحابہ کرام اور جمہور تابعین کے بارے میںیہ بات ثابت نہیں۔ ناقل)۔ امام سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے ۔ ”
(جامع الترمذي ، رقم الحدیث : ٢٥٧، طبع دار السلام، بالریاض)
ملاحظہ فرمائیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ مؤخر الذکر حدیث پر امام عبد اللہ بن مبارک  رحمہ اللہ  کی جرح پہلی حدیث کے تحت ذکر کر آئے ہیں ۔ پھر اس حدیث کو ”حسن” بھی قرار دے رہے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک اس اصطلاحِ ”حسن” سے مراد ایسی حدیث نہیں ہوتی جو قابل حجت ہو ۔
نصب الرایہ کے حاشیے پر ایک تعلیق تھی جس کا مضمون یہ تھا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے سیدنا ابنِ مسعودرضی اللہ عنہکی حدیث کو حجت سمجھتے ہوئے ”حسن” کہا ہے ۔ اس کا ردّ کرتے ہوئے ایک عرب محقق دکتور حمزہ ملیباری لکھتے ہیں :
”تعلیق لکھنے والے شخص نے کہا ہے کہ سیدنا ابنِ مسعودرضی اللہ عنہکی حدیث امام ترمذی رحمہ اللہ  کے نزدیک ثابت ہے ۔ شاید یہ بات اس نے امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس حدیث کو حسن کہنے سے اخذ کی ہے ۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا کسی حدیث کو حسن کہنے کا مقصد نبی ئ اکرمeسے اس حدیث کا ثبوت کا اعتقاد نہیں، بلکہ صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ اس حدیث کے متن میں غرابت نہیں ، یعنی یہ متن شاذ نہیں نیز شواہد کی وجہ سے معروف ہونے کی بنا پر غریب بھی نہیں ۔ وہ شواہد نبی eسے روایت یا عمل کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں اور بعض صحابہ و تابعین کے قول کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ اس بارے میں نبی ئ اکرمeسے کچھ بھی ثابت نہ ہو ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم بہت سارے مقامات پر دیکھتے ہیں کہ امام صاحب حدیث کو مرفوع روایت کے اعتبار سے معلول قرار دیتے ہیں اور اس میں راوی کی غلطی واضح کرتے ہیں پھر ساتھ ہی اس کے متن کو حسن بھی کہہ دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے اس حدیث ِ(سیدنا عبد اللہ بن مسعود) میں دیکھ لیا ہے کہ امام صاحب نے امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی طرف سے اس حدیث میں علت بیان کی ہے ۔ اس پر کوئی تعاقب بھی نہیں کیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث ان کے ہاں مرفوع ثابت نہیں ۔ پھر اس کے بعد انہوں نے اس اسے حسن بھی قرار دیا ہے اور اپنے حسن کہنے کے سبب کی طرف یہ کہہ کر توجہ دلائی ہے کہ کئی اہل علم صحابہ کرام اور تابعین اس کے قائل ہیں اور یہی امام سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا مذہب ہے ۔ لہٰذا امام ترمذی رحمہ اللہ کے کسی حدیث کو حسن قرار دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ امام صاحب کے ہاں نبی ئ اکرمeسے ثابت ہے اور قابل حجت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
(الموازنۃ بین المتقدمین والمتأخرین في تصحیح الأحادیث وتعلیلہا : ص ٨١ ، ملتقی أہل الحدیث)
یہ بھی ملحوظ رہے کہ محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہکی اس حدیث میں علت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی جانب سے واقع ہوئی ہے ۔ پھر اس حدیث کا مدار بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ پر ہے ۔ پورے ذخیرہئ حدیث میں اس حوالے سے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی متابعت کسی نے نہیں کی ۔ اگر امام ترمذی رحمہ اللہ کی ”حسن”سے مراد کئی کم ضعف والی سندیں ہوتیں جو ان کے نزدیک سب کے ملنے سے ” قابل حجت حسن” بن جاتی ہوتیں تو یہ حدیث ان کے نزدیک کبھی ”حسن” نہ ہوتی کیونکہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے واسطے کے بغیر ذخیرہئ حدیث میں اس حدیث کی کوئی سند نہیں ۔
دکتور حمزہ صاحب کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی اصطلاحِ ”حسن” سے قابل حجت اور نبی ئاکرمeسے ثابت حدیث مراد نہیں لیتے بلکہ بسا اوقات امام صاحب کی مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس پر صحابہ و تابعین کا عمل ہے ۔ اس کی ایک مثال ہم ساتھ ہی بیان کیے دیتے ہیں ۔
3    امام ترمذی رحمہ اللہ ایک حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ کَأَنَّہ، عَلَی الرَّضْفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ أَبُو عِیسیٰ : ہٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ إِلاَّ أَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ، وَالْعَمَلُ عَلیٰ ہٰذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ یَخْتَارُونَ أَنْ لَّا یُطِیلَ الرَّجُلُ الْقُعُودَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ، وَلاَ یَزِیدَ عَلَی التَّشَہُّدِ شَیْئًا، وَقَالُوا : إِنْ زَادَ عَلَی التَّشَہُّدِ فَعَلَیْہِ سَجْدَتَا السَّہْوِ، ہٰکَذَا رُوِيَ عَنِ الشَّعْبِيِّ وَغَیْرِہٖ .
”رسول اللہeجب پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد بیٹھتے تو یوں (جلدی سے تیسری رکعت کے لیے اُٹھ جاتے)جیسے گرم پتھر پر ہوں ۔ یہ حدیث حسن ہے ، مگر ابو عبیدہ نے اپنے والد (سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ) سے سماع نہیں کیا ۔ اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے ۔ وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ آدمی دو رکعتوں کے بعد تشہد کو لمبا نہ کرے اور تشہد سے زائد کچھ نہ پڑھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ تشہد سے کوئی چیز (درود ، دُعائیں )زائد پڑھے گا تو اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہو جائیں گے ۔ امام شعبی رحمہ اللہ وغیرہ سے اسی طرح مروی ہے ۔ ”
(جامع الترمذي، رقم الحدیث : ٣٦٦، طبع دار السلام، بالریاض)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں خود وجہئ ضعف بیان کرنے کے باوجود اسے ”حسن” قرار دیا ہے ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ پورے ذخیرہئ حدیث سے اس حدیث کی کوئی ایسی سند دریافت نہیں ہو سکی جس میں ابو عبیدہ کا واسطہ نہ ہو ، یعنی ابو عبیدہ اس حدیث کے مرکزی راوی ہیں اور ان کا اپنے والد سے سماع نہیں ۔ پھر بھی امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن” قرار دیا ہے ۔ اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے بعد میں بعض اہل علم کا عمل اس پر پیش کیا ہے ۔ یعنی امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاحِ ”حسن” عام محدثین کرام کی قابل حجت ”حسن” سے ہٹ کر ایک اصطلاح ہے جس کے ضمن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اہل علم کے عمل کی وجہ سے بھی حدیث ”حسن” ہو جاتی ہے چاہے اس بارے میں نبی ئ اکرمeسے کچھ بھی ثابت نہ ہو سکے ۔ اس سے بڑھ کر اس بات پر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ  کی اپنی اصطلاحِ ”حسن” سے مراد ایسی حدیث نہیں ہوتی جو کم ضعف والی زیادہ سندوں کے ملنے سے قابل حجت حسن بن جائے ؟؟؟
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی جانب سے ”حسن” کی تعریف میں جو ایک سے زائد سندوں سے مروی ہونے کے الفاظ ہیں ، ان کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی حدیث کو کسی بھی طبقے میں ایک سے زائد راوی بیان کریں تو اس کی سندیں ایک سے زائد ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً ہم انہی حدیثوں کو دیکھتے ہیں جو ”ضعیف+ضعیف=حسن” کے اصول کو ماننے والوں کے ہاں بھی قابل حجت نہیں بنتیں ۔ ان حدیثوں کی سندیں بھی ایک سے زائد ہیں ، جیسا کہ :
1    پہلی حدیث جو سر کے پچھلے حصے سے مسح شروع کرنے کے متعلق تھی اس کی سند کا نقشہ یوں ہے :

صحابیہ سیدہ ربیِّع بنت معوذ

(مرکزی راوی)عبد اللہ بن محمد بن عقیل
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٣٢، الرقم : ١٥٣، طبع مکتبۃ الرشد، بالریاض، جامع الترمذي، رقم الحدیث : ٣٣، طبع دار السلام، بالریاض، سنن أبي داو،د، رقم الحدیث : ١٢٦، طبع دار السلام، بالریاض ، المعجم الکبیر للطبراني : ٢٤/٢٦٨، طبع دار إحیاء التراث العربي)
یہاں سے سندیں مختلف ہوتی ہیں
عبد اللہ بن محمد بن عقیل سے بیان کرنے والے یہ دو شاگرد ہیں:

سفیان بن سعید الثوری         بشر بن مفضّل

مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٣٢، الرقم : ١٥٣، طبع مکتبۃ الرشد، بالریاض، المعجم الکبیر للطبراني : ٢٤/٢٦٨، طبع دار إحیاء التراث العربي
سنن أبي داو،د، رقم الحدیث : ١٢٦، طبع دار السلام، بالریاض، جامع الترمذي، رقم الحدیث : ٣٣، طبع دار السلام، بالریاض
اس کے بعد سفیان ثوری سے اور بشر بن مفضّل کے شاگردوں کے ایک سے زائد ہونے کی وجہ سے سندیں مزید زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ یہی مطلب ہے امام ترمذی رحمہ اللہ کے ”حسن”کی اصطلاح میں ایک سے زائد سندوں کی شرط لگانے کا ۔ واللہ اعلم!
2    سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہوالی عدمِ رفع الیدین والی ”ضعیف” حدیث کی سندیں بھی سفیان ثوری کے بہت سے شاگردوں کی وجہ سے بہت زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاحِ ”حسن” میں ایک سے زائد سندوں کی شرط لگانے کا مطلب یہی ہے ۔ یہ نہیں کہ اس کی ایک سے زائد تھوڑے ضعف والی سندیں ہیں جو مل ملا کر قابل حجت ”حسن” بن جاتی ہیں ۔ ایسا کہنا امام ترمذی رحمہ اللہ کے اسلوب کے خلاف ہے ۔
یہی بات سمجھ نہ پانے کی وجہ سے بعض علمائے کرام نے امام ترمذی رحمہ اللہ پر اس حوالے سے تنقید کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن” میں زائد سندوں کی شرط لگانے کے باوجود بہت سی غریب (ایک سند والی) حدیثوں کو ”حسن” کہہ دیا ہے ۔ مثلاً حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فَإِنَّہ، یَقُولُ فِي کَثِیرٍ مِّنَ الْـأَحَادِیثِ : ہٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ، لَا نَعْرِفُہ، إِلَّا مِنْ ہٰذَا اَلْوَجْہِ . ”امام ترمذی رحمہ اللہ بہت سی حدیثوں کے بارے میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ۔ ”
(اختصار علوم الحدیث لابن کثیر : ص ١٣١، طبع دار المعارف، بالریاض)
حافظ عراقی رحمہ اللہ اُصولِ حدیث کو اشعار کی صورت میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَقَالَ التِّرمِذِيُّ : مَا سَلِمْ
مِنَ الشُّذُوْذِ مَعَ رَاوٍ مَّا اتُّہِـمْ
بِکَذِبٍ وَّلَمْ یَکُنْ فَرْداً وَرَدْ
قُلْتُ : وَقَدْ حَسَّنَ بَعْضَ مَا انفَرَدْ
”امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حسن حدیث وہ ہے جو شذوذ سے سلامت ہو اور اس کا کوئی راوی متہم بالکذب نہ ہو نہ وہ غریب (اکیلی) سند سے آئی ہو ۔ میں (عراقی)کہتا ہوں کہ امام صاحب نے (اس تعریف کے خلاف)بعض غریب حدیثوں کو بھی حسن کہہ دیا ہے ۔ ”
(ألفیۃ العراقي، الرقم : ٥١،٥٢)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاحِ ”حسن” کو اس معنیٰ پر محمول کیا جائے کہ اس سے مراد ”ضعیف+ضعیف=حسن”ہے تو اس سے امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول و فعل میں تناقض لازم آتا ہے اور اس طرف بعض علمائے کرام نے اشارہ بھی کیا ہے ، حالانکہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی یہ مراد نہیں ۔ واللہ اعلم!
رہا حافظ ابنِ صلاح رحمہ اللہ کا ”حسن ” کی اقسام بیان کرتے ہوئے یہ کہنا کہ تھوڑے ضعف کی حامل کئی سندوں والی حدیث سب سندوں کو ملا کر ”حسن” بن جاتی ہیں وَکَلَامُ التِّرْمِذِيِّ عَلیٰ ہٰذَا الْقِسْمِ یُتَنَزَّلُ . ”اور امام ترمذی رحمہ اللہ کی کلام کو اسی پر محمول کیا جائے گا ”تو یہ ان کی خطا ہے ۔ اس کا ردّ کرتے ہوئے حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قُلْتُ : لَا یُمْکِنُ تَنْزِیلُہ، لِمَا ذَکَرْنَاہُ عَنْہُ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
” میں کہتا ہوں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی کلام کو اس معنیٰ پر محمول کرنا اس وجہ سے ممکن نہیں جو ہم بیان کر چکے ہیں (کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بعض ایک سند والی حدیثوں کو بھی حسن قرار دیا ہے) واللہ اعلم ۔”(اختصار علوم الحدیث لابن کثیر : ص ١٣٣، طبع دار المعارف، بالریاض)
اس ساری بحث کے بعد ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کی اصطلاحِ ”حسن” سے ”ضعیف+ضعیف=حسن”کا اُصول کشید کرنا کسی طور درُست نہیں ۔ ہمارا یہ دعویٰ ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے کہ متقدمین محدثین جو اصطلاحِ حدیث میں ہمارے لیے حجت ہیں ، ان میں سے کسی سے یہ اُصول ثابت نہیں ۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ کوئی لفظی جھگڑا نہیں، یعنی ہمارا مطالبہ یہ نہیں کہ ہمیں متقدمین محدثین سے یہی لفظ دکھائے جائیں کہ ”ضعیف+ضعیف=حسن” ، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس اُصول کو ثابت کرنے کے لیے متقدمین محدثین سے کوئی ایسی عبارت پیش کر دی جائے جس کا یہ مفہوم ہو کہ اگر کسی حدیث کی ذخیرہئ حدیث میں موجود سب سندیں تھوڑی تھوڑی ”ضعیف” بھی ہوں تو کثرت ِ طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو ان شاء اللہ ہمیں تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو گی ۔
بعض اصحاب کے ذہن میں یہ اشکال بہت زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اُصول کے ثبوت کے سلسلے میں متقدمین محدثین کی قید کیوں اور اُصولِ حدیث کے ثبوت کے لیے صرف متقدمین محدثین ہی حجت کیوں ہیں ؟ تو اس کا جواب ہم ایک عرب محقق دکتور حاتم بن عارف العونی کی ایک فکر انگیز تحریر سے عرض کرتے ہیں ، وہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
”پہلی بات یہ ہے کہ جس شخص کو علم حدیث سے کچھ مَس ہے اسے اس بات میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے نقادِ حدیث ائمہ دین مثلاً امام یحییٰ بن معین ، امام علی بن مدینی ، امام احمدبن حنبل ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابو داؤد ، امام ترمذی ، امام نسائی ، امام ابو حاتم ، امام ابو زرعہ ، امام ابنِ خزیمہ ، امام عقیلی ، امام عبد الرحمن بن ابی حاتم ،امام ابنِ عدی، امام ابنِ حبان ، امام دارقطنیS اور اس دَور کے دیگر علمائے حدیث ، متاخرین مثلاً حافظ ذہبی ، حافظ ابنِ حجر، حافظ سخاوی ، علامہ سیوطی اور بعد والوں کے مقابلے میں بہت بہت گنا بڑھ کر عالم تھے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس شخص کو علم حدیث ، علمائے حدیث اور حالات ِ محدثین سے کچھ تعلق ہے اسے اس بات میں کوئی شک نہیں مذکورہ (متقدمین) محدثین کے قلوب و اذہان سب لوگوں سے بڑھ کر ان علوم سے پاک تھے جنہوں نے اسلامی علوم میں داخل ہو کر بہت بُرا اثر چھوڑا۔ علوم اسلامیہ پر بُرا اثر چھوڑنے والے ان علوم میں سے بطور مثال علم منطق اور اس کا پروردہ علم کلام ہے ۔ متقدمین محدثین متاخرین کی طرح ان علوم سے بلاواسطہ یا بالواسطہ متاثر نہیں ہوئے جیسا کہ میں نے اس بات کی وضاحت اپنی کتاب المنہج المقترح میں کر دی ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ پہلی صدیوں میں علم حدیث محدثین کے ہاں زندہ تھا کیونکہ وہی لوگ تھے جو اس کی نشو و نما کے مراحل میں اس کے ہم رکاب ہوئے تھے اور انہی (متقدمین محدثین)نے علم حدیث کو لاحق ہونے والے خطرات کا سامنا کر کے اس کا دفاع کیا تھا ، نیز یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے علم حدیث کے لیے قواعد بنائے اور مکمل کیے تھے حتی کہ علم حدیث اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تھا۔ پھر اس زمانے کے بعد علم حدیث میں کمی شروع ہو گئی یہاں تک کہ وہ درجہئ اجنبیت کو پہنچ گیا (جیسا کہ حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ناقل)۔
یہی وجہ ہے کہ متاخرین پر علم حدیث کے بہت سے واضح مسائل پوشیدہ رہ گئے اور ان سے اس علم کی بعض اصطلاحات مخفی ہو گئیں ۔ وہ بہت سے مقامات پر زبانِ حال یا مقال سے یہ اعلان کرنے لگے کہ ان کو متقدمین کے اقوال و مناہج کو تفصیلاً پڑھنے اور ان میں غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ علم حدیث کے اُن بڑے بڑے گھمبیر مسائل اور اصطلاحات کی وضاحت ہو جائے جو متقدمین کے ہاں بہت شفاف اور واضح تھیں ۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے متقدمین محدثین کو اپنی کتاب المنہج المقترح میں اہل اصطلاح کا نام دیا ہے اور متاخرین کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ اہل اصطلاح نہیں ہیں کیونکہ متاخرین علماء متقدمین محدثین کی اصطلاحات کی ترجمانی کرنے والے اور ان کے نشانات ِ علم سے اُصولی و فروعی مسائل استنباط کرنے والے ہیں ۔ متاخرین کا اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کہ وہ ہمارے لیے کتابوں کی صورت میں متقدمین کے چھوڑے ہوئے کام کی حفاظت کریں ۔
اس بحث سے ہمارے سامنے دونوں فریقوں (متقدمین اور متاخرین) میں فرق ظاہر ہو گیا ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے جیسے بعض عرب وہ تھے جن کی لغت حجت تھی ، وہ اہل لغت کہلاتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو ان کے بعد آئے اور اس بارے میں کتب تصنیف کیں بلکہ بعض لوگ ان کے ایک عرصہ بعد آئے جبکہ علم منطق نے لغت کے علوم کو بھی اُسی طرح بگاڑ دیا تھا جیسے دیگر علوم کو بگاڑا تھا اور علم لغت بھی اُسی طرح کمزور ہو گیا تھا جیسے دیگر علوم کمزور ہو گئے تھے ۔ جب متقدمین اور متاخرین کی نسبت معاملہ ایسا ہے تو بھلا اب کوئی شخص اس بات میں شک کرے گا کہ متقدمین اور متاخرین میں بہت فرق ہے ؟
میرا سوال ہے کہ اگر دو آدمی کسی علم کے بارے میں بات کریں ۔ ایک آدمی اس علم کا زیادہ عالم بلکہ اس علم کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ہو اور دوسرا کئی گنا کم علم رکھنے والا ہو بلکہ اس کا زیادہ سے زیادہ کام پہلے آدمی کی کلام کوسمجھنا اور اس کے منہج کی وضاحت تلاش کرنا ہو تو دونوں میں سے کون اس علم کے مسائل کی معرفت کا زیادہ اہل ہو گا اور کس کا قول زیادہ درُست اور زیادہ صحیح ہو گا؟ اس سوال کو مزید وضاحت سے کہیں تو یوں ہو گا کہ اگر متاخرین میں سے کوئی کسی حدیث کو (متقدمین کے برعکس)صحیح قرار دے تو کیا اس کے حکم کو درُست قرار دینے پر یہ چیزیں اثر انداز نہیں ہوں گی کہ وہ متقدمین کے مقابلے میں کم علم ہے اور اس کی سوچ و فکر کئی ایسے علوم سے متاثر ہوئی ہے جو علم حدیث سے ہٹ کر ہیں ، نیز وہ ہمیشہ علم حدیث کے بعض اہم مسائل اور اصطلاحات کو سمجھنے اور ان کی وضاحت طلب کرنے کا ضرورت مند ہے ؟
جب متاخرین میں سے کوئی عالم حدیث کو قبول یا ردّ کرنے کے بارے میں کوئی قاعدہ بنائے یا جرح و تعدیل کے اعتبار سے راویوں کے مراتب مقرر کرنے کے سلسلے میں کوئی اُصول وضع کرے ، پھر ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ قاعدہ یا اُصول متقدمین محدثین کے اقوال و اسالیب سے ثابت ہونے والے واضح قاعدے یا صریح منہج کے خلاف ہے تو کون اس بات میں تردّد کرے گا کہ اس بارے میں اُن متقدمین کی بات ہی معتبر ہے جو اہل اصطلاح اور واضعین علم ہیں ؟!!! یقینا میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس بات میں اختلاف کرے کیونکہ میں ایسے طالب علم کا تصور بھی نہیں کر سکتا جسے علم کا ماخذ ہی معلوم نہ ہو ۔
رہی بات ان لوگوں کی جو یہ کہتے ہیں کہ متاخرین علمائے حدیث مثلاً حافظ ذہبی، حافظ عراقی، حافظ ابنِ حجر ، حافظ سخاوی اور حافظ سیوطی S قواعد ِ حدیث میں متقدمین کے منہج کو زیادہ جانتے ہیں ، نیز انہوں نے متقدمین کے مذہب کی تائید کی ہے (لہٰذا متاخرین بھی حجت ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو میرا جواب یہ ہے کہ جب متاخرین متقدمین سے اختلاف کریں (اور یہ اختلاف صحیح حدیث کی تعریف سے لے کر مدبّج تک بہت زیادہ ہوا ہے) تو پھر فیصلہ کیا ہو گا ؟ کس کی طرف رجوع کیا جائے گا ؟ کیا بھلا متقدمین کے اسالیب ، احکام اور اقوال ہی قابل اعتبار نہیں ہوں گے ؟ یا ایسی باتیں کرنے والا شخص ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم متقدمین ائمہ کے اقوال میں غور و فکر کا دروازہ بند کر دیں؟ کتنی مشابہت ہے اس شخص کی مقلدین سے ! ہم دلیل کی پیروی کرنے والے لوگ اپنے مذاہب کی تقلید کرنے والوں کے سامنے دلائل پیش کرتے ہیں اور ان کی ایسی باتوں سے بڑا متعجب اور ناراض ہوتے ہیں کہ ہمارا امام ان دلائل کو تم سے زیادہ جانتا تھا ، ہر وہ دلیل جو ہمارے امام کے قول کے خلاف ہو گی وہ منسوخ یا مؤوّل ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میں بعض دلیل کے پیروکاروں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اسی طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ جب یہ شخص ہم سے متقدمین کے مناہج و اقوال میں غور وفکر کے دروازے کو بند کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ وہ خود اسی منہج کی تائید کرتا ہے تو پھر وہ اس منہج کی طرف دعوت دینے والوں پر کیا اعتراض کرتا ہے ؟ مجھے ڈر ہے کہ اصطلاحات ِ حدیث میں منہج سلف کی طرف دعوت دینے والوں پر طعن کرنے والے شخص کو یہ حرکت شعوری یا لاشعوری طور پر اندھی تقلید کی طرف لے جائے گی ۔ یوں دلیل کی طرف رجوع جو کہ سلفیت کی بنیاد ہے ، منہدم ہو جائے گی ۔ علوم حدیث کی تحقیقات میں ہمارے منہج کی مخالفت کرنے والے معاصرین کی یہ صورت ِ حال ہمارے مشاہدے میں ہے ۔
ہم تو اہل بدعت کے لیے مضحکہ بن جائیں گے کہ فقہی فروع میں تو اجتہاد کرتے ہیں جبکہ علوم حدیث میں تقلید کر رہے ہیں اور علمائے کرام کی عقیدے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے پر تو راضی ہیں جبکہ مصطلحات ِ حدیث میں ان کی غلطی کی نشاندہی پر ناراض ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متاخرین کی علوم حدیث میں غلطیاں ہمیشہ ایسی نہیں ہوتیں جو عام غلطیوں کی طرح جزوی ہوں اور ان کا آسانی سے ادراک کیا جا سکے اور ان غلطیوں سے اس علم پر کوئی سنگین اثر نہ پڑے بلکہ ان میں سے بعض غلطیاں ایسی ہیں جن کا نتیجہ خطرناک منہجی غلطی کی صورت میں ظاہر ہو تاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں مَیںہر اس شخص کو نصیحت کروں گا جو متقدمین کے منہج کو زندہ کرنے کے شرف و اجر سے محروم ہے کہ وہ جلدی سے اس منہج پر عمل پیرا ہونے والے لوگوں کا ہم رکاب ہو جائے۔ منہج متقدمین وہ منہج ہے جس کے پیروکار اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روز بروز بڑھ رہے ہیں ۔ بھائی ! تجھے حسد اور تکبر جیسی نفسانی خواہشات حق کی طرف رجوع کرنے سے روکے نہ رکھیں ورنہ حق اور اہل حق کے غلبے کی وجہ سے تیری پریشانی، غم اور گناہ میں اضافہ ہوتا جائے گا کیونکہ اگر باطل کی حکومت بھی آجائے تو حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے مغلوب نہیں ہوتا ۔ دلیل کا غلبہ ہر زمانے میں حق کو ہی حاصل ہوتا ہے ۔ ”
(الحدیث الحسن بین الحدّ والحجیۃ لمحمد أحمد جلمد : ص ٣٨۔٤٢)
یہی ہماری دعوت ہے کہ متاخرین جس طرح عقیدے کے بعض معاملات میں علم کلام سے متاثر ہو کر متقدمین کے منہج سے ہٹ گئے ہیں ، اسی طرح کئی معاملات میں فقہی موشگافیوں ، علم منطق اور علم کلام سے متاثر ہو کر وہ علم حدیث اور اُصولِ حدیث میں بھی غلطی کھا گئے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جیسے ہم دیگر معاملات میںدلیل طلب کرنے کی روش اپناتے ہیں اسی طرح علوم حدیث میں بھی دلیل کے طالب ہوں اور صرف متاخرین کی کتب ِ اصطلاح سے مرعوب ہو کر علم حدیث میں متقدمین کے منہج کو نہ چھوڑیں۔
آئندہ قسط میں ہم بیان کریں گے کہ متقدمین کسی ایسی حدیث کو قابل حجت نہیں سمجھتے تھے جس کی سب سندوں میں تھوڑا تھوڑا ضعف ہوتا تھا بلکہ اس حوالے ان کا طریقہ یہ تھا کہ فلاں حدیث کی سب سندیں ضعیف ہیںاور فلاں حدیث کے سب طرق میں تھوڑی تھوڑی کمزوی ہے وغیرہ۔ وہ ایسی حدیث کو قابل حجت نہیں سمجھتے تھے ۔ اس حوالے سے متقدمین محدثین کے کلام سے مثالیں بھی پیش کی جائیں گی اور متقدمین اور متاخرین کے منہج کا موازنہ بھی کیا جائے گا ۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.