1,010

طب نبوی، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

دوائی کرنا سنت اور مستحب ہے۔ شفاء اللہ کے حکم سے ہی ہوتی ہے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے شفاء رکھی ہے۔ ذیل میں ان کا ذکر ملاحظہ فرمائیں :
1 کلونجی : سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (( إنّ فی الحبّۃ السوداء شفاء من کلّ داء إلّا السام )) ”کلونجی میں موت کے علاوہ ہر بیماری کی شفاء ہے۔”
(صحیح البخاری : ٥٦٨٨، صحیح مسلم : ٢٢١٥)
2 سنائے مکّی : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ثلاث فیہنّ شفاء من کلّ داء إلّا السام ، السنا ۔۔۔۔ )) ”تین چیزوں میں سوائے موت کے ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ ان میں سے ایک چیز سنائے مکی ہے۔”(السنن الکبری للنسائی : ٣٤٦٧، وسندہ، حسنٌ)
3 عُود ہندی : ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (( علیکم بہذا العود الہندی ، فإنّ فیہ سبعۃ أشفیۃ )) ”تم اس عود ِ ہندی (قسط شیریں)کو ضرور استعمال کرو کیونکہ اس میں سات بیماریوں کے لیے شفاء ہے۔”
(صحیح البخاری : ٥٦٩٢، صحیح مسلم : ٢٢١٤)
4 کُھمبی : سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( الکمأۃ من المنّ الّذی أنزل اللّٰہ عزّ وجلّ علی بنی اسرائیل ، وماء ہا شفاء للعین )) ”کھمبی اس منّ کی ایک شکل ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل کیا تھا ۔اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفاء ہے۔”
(صحیح البخاری : ٥٧٠٨، صحیح مسلم : ٢٠٤٩)
5 عجوہ کھجور : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( العجوۃ من الجنّۃ ، وفیہا شفاء من السمّ ))
”عجوہ جنت کی کھجور ہے۔ اس میں زہر کے لیے شفاء ہے۔”
(سنن الترمذی : ٢٠٦٦، وقال : حسن غریب ، وسندہ، حسنٌ)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (( من تصبّح بسبع تمرات عجوۃ لم یضرّہ ذلک الیوم سمّ ولا سحر )) ”جو آدمی صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لے ، اسے اس دن زہر اور جادو نقصان نہ دے سکے گا۔”
(صحیح البخاری : ٥٧٦٩، صحیح مسلم : ٢٠٤٧)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”(مدینہ منورہ کے) بالائی حصے کی عجوہ کھجوروں میں شفاء ہے یا صبح کے وقت ان کا استعمال شفاء کا باعث ہے۔”(صحیح مسلم : ٢٠٤٨)
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( وإنّ العجوۃ من فاکھۃ الجنّۃ )) ”عجوہ جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے۔”(مسند الامام احمد : ٥/٣٥١، وسندہ، حسنٌ)
6 دُنبے کی چکّی : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (( شفاء عرق النساء ألیۃ شاۃ أعرابیّۃ تذاب ، ثمّ تجزّأ ثلاثۃ أجزاء ، ثمّ یشرب علی الریق فی کلّ یوم جزء )) ”عرق النساء سے شفاء حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جنگلی بھیڑ(دنبے)کی چکّی کو لے کر پگھلا لیا جائے ، پھر اس کے تین حصے کر لیے جائیں ، پھر روزانہ ایک حصہ نہار منہ پی لیا جائے۔”(سنن ابن ماجہ : ٣٤٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
7 شہد : شہد کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:
(فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ) (النحل : ٦٩) ”اس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔”
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : میرے بھائی کو دست لگ گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُسے شہد پلاؤ۔ اس نے اپنے بھائی کو شہد پلایا ، پھر حاضر ہو کر عرض کی کہ میں نے اس کو شہد پلایا تھا لیکن اس کے دست اور بڑھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اسے یہی فرمایا: جب وہ چوتھی مرتبہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اس کو شہد پلاؤ۔ اس نے کہا : اسے شہد پلایا تھا مگر اس کے دست اور بڑھ گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بات سچی ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ پھر اس نے شہد پلایا تو اس کا بھائی شفاء یاب ہو گیا۔”
(صحیح البخاری : ٥٦٨٣، صحیح مسلم : ٢٢١٧)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( الشفاء فی ثلاث : شربۃ عسل ، وشرطۃ محجم ، وکیّۃ نار ، وأنہی أمّتی عن الکیّ )) ”(کامل) شفاء تین چیزوں میں ہے: 1شہد کا گھونٹ 2سنگی لگوانا اور 3 آگ سے داغنا ، لیکن میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے روکتا ہوں۔”(صحیح البخاری : ٥٦٨٠)
فائدہ : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھے اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔(صحیح البخاری : ٥٤٣١، صحیح مسلم : ١٤٧٤/٢١)
8 آب زمزم : سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ آپ یہاں (حرم میں) کب سے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : تیس دنوں سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیس دنوں سے یہاں ہو ؟ میں نے عرض کی: جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : آپ کا کھانا کیا تھا ؟ میں نے کہا : زمزم کے علاوہ کوئی کھانا پینا نہیں تھا۔ یقینا میں موٹا ہو گیا ہوں۔ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔ میں نے اپنے کلیجے میں بھوک کی وجہ سے لاغری اور کمزوری تک محسوس نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إنّہا مبارکۃ ، وہی طعام طعم وشفاء سقم ))
”یقینا یہ مبارک پانی ہے۔ یہ کھانا بھی ہے اور بیماری کے لیے شفاء بھی ہے۔”
(مسند الطیالسی : ص ٦١، ح : ٤٥٧، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ : حدیث : (( ماء زمزم لما شرب لہ )) کی تمام سندیں ”ضعیف” ہیں۔
9 گائے کا دودھ : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ما أنزل اللّٰہ من داء إلّا أنزل لہ شفاء ، وفی ألبان البقر شفاء من کلّ داء )) ”اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی شفاء نازل نہ کی ہو۔ گائے کے دودھ میں ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔”(المستدرک للحاکم : ٤/١٩٤، وصححہ ، ووافقہ الذہبی ، وسندہ، صحیحٌ)
مسند البزار (٣٠٠) اور السنن الکبری للنسائی (٧٥٦٨) کے الفاظ یہ ہیں :
(( فی ألبان البقر شفاء )) ”گائیوں کے دودھ میں شفاء ہے۔”
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( علیکم بألبان البقر ، فإنّہا ترم من کلّ شجر ، وہو شفاء من کلّ داء ))
”گائے کا دودھ ضرور استعمال کرو ، کیونکہ وہ ہر درخت چرتی ہے۔ اس کے دودھ میں ہر بیماری کے لیے شفاء ہے ۔”(المستدرک للحاکم : ٤/٤٠٣، وسندہ، صحیحٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم دوائی استعمال کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( نعم تداووا ، بأنّ اللّٰہ لم ینزل داء إلّا أنزل لہ دواء ، علیکم بألبان البقر ، فإنّہا ترم من الشجر ))
”ہاں ، دوائی استعمال کیا کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی شفاء نازل نہ کی ہو۔ تم گائیوں کا دودھ ضرور استعمال کرو کیونکہ وہ (تمام) درختوں سے چرتی ہے۔”(الجعدیات لابی القاسم البغوی : ٢١٦٤، وسندہ، حسنٌ)
0 سنگی لگوانا : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگی لگوائی اور فرمایا : تمہاری دواؤں میں سے بہترین چیز فصد کھلوانا ، یعنی سنگی لگوانا ہے۔”(صحیح البخاری : ٥٦٩٦، صحیح مسلم : ١٥٧٧/٦٢)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مقنع کی عیادت کی ، پھر فرمایا : میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک تم پچھنے (سنگی)نہ لگوا لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (( إنّ فیہ شفاء ا )) ”بلاشبہ اس میں شفاء ہے۔”(صحیح مسلم : ٢٢٠٥)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (( إن کان فی شیء من أدویتکم خیر ففی شرطۃ محجم أو شربۃ من عسل أو لذعۃ بنار )) ”اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی میں خیر ہے تو سنگی لگوانے میں ، شہد پینے میں یا آگ سے داغ دینے میں ہے۔”
(صحیح البخاری : ٥٦٨٣، صحیح مسلم : ٢٢٠٥)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من احتجم لسبع عشرۃ وتسع عشرۃ وإحدی وعشرین کان شفاء من کلّ داء )) ”جو آدمی (اسلامی مہینے کی) سترہ ، انیس اور اکیس تاریخ کو سنگی لگواتا ہے ، اسے ہر مرض سے شفاء ہو گی ۔”(سنن ابی داؤد : ٣٨٦١، السنن الکبری للبیہقی : ٩/٣٤، المستدرک للحاکم : ٤/١١٠، مختصرا ، وصححہ علی شرط مسلم واقرہ الذہبی ، وسندہ، حسنٌ)
اس کے راوی سعید بن عبد الرحمن جُمحی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وثّقہ الأکثر ۔ ”اسے اکثر محدثین کرام نے ثقہ قرار دیا ہے۔”
(فتح الباری لابن حجر : ١٠/١٥٠)
! آگ سے داغنا : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( الشفاء فی ثلاث : شربۃ عسل ، وشرطۃ محجم ، وکیّۃ نار ، وأنہی أمّتی عن الکیّ )) ”(کامل) شفاء تین چیزوں میں ہے: 1شہد کا گھونٹ 2سنگی لگوانا اور 3 آگ سے داغنا ، لیکن میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے روکتا ہوں۔”(صحیح البخاری : ٥٦٨٠)
ایک روایت میں ہے : (( وما أحبّ أن أکتوی )) ”میں آگ سے داغنے کو پسند نہیں کرتا۔”(صحیح البخاری : ٥٦٨٣، صحیح مسلم : ٢٢٠٥)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اُبَی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک طبیب بھیجا۔ اس نے ان کی ایک رگ کاٹ کر آگ سے داغ دیا۔”(صحیح مسلم : ٢٢٠٧)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے بازو کی ایک رگ میں تیرلگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے تیر کے پھالے کے ساتھ ان کو داغا۔ ان کے ہاتھ میں ورم آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ داغ دیا۔”(صحیح مسلم : ٢٢٠٨)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کُویت من ذات الجنب ورسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حیّ ۔ ”مجھے ذات الجنب کی بیماری میں داغ دیا گیا ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے۔”(صحیح البخاری : ٥٧٢١)
سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ : إنّہ اکتوی من اللقوۃ ۔ ”آپ رضی اللہ عنہما نے لقوہ کی بیماری میں داغنے کو کہا۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ : کان ۔۔۔ ینھی عن الکیّ ، ثمّ اکتوی بعد ۔ ”آپ رضی اللہ عنہ پہلے داغنے سے منع کیا کرتے تھے ، پھر بعد میں داغنے کے قائل و فاعل ہو گئے۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٦٥، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے ان لوگوں کی صفات بیان فرمائیں جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ا ن کی تعداد سترہزار ہو گی۔ (( ہم الّذین لا یسترقون ، ولا یتطیّرون ، ولا یکتوون ، وعلی ربّہم یتوکّلون )) ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو دم کا مطالبہ نہیں کریں گے ، نہ بدفالی اور بدشگونی کریں گے نہ داغ لگوائیں گے۔ وہ خاص اپنے رب پر بھروسہ کریں گے۔”(صحیح البخاری : ٥٧٠٥، صحیح مسلم : ٢١٨)
حاصل کلام یہ ہے کہ آگ سے داغنے سے شفاء حاصل ہوتی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو داغ دے کر اس کا جواز پیش کیا ہے۔ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سے روکنے کی بات ہے تو یہ نہی و ممانعت اختیاری اور تنزیہی ہے، یعنی اس سے بچنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی اور چارہ نہ ہو تو ایسا کر لیا جائے ۔ یہ عمل قابل مواخذہ نہیں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داغنے کو پسند نہ کرنے سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی ، دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکتویٰ کو ناپسند کیا ہے ، یعنی کسی کو کہہ کر داغ لگوانے کو آپ پسند نہیں کرتے تھے۔ باقی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کو کہہ کر داغ نہ لگوانے والوں کی تعریف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضل اور اولیٰ یہ ہے کہ داغ لگوانے سے اجتناب کیا جائے۔
واللّٰہ أعلم بالصواب!

طب نبوی، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ” ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و ربکاتہ
    بہی (سفرجل) کے بارے میں کچھ روایات ملتی ہیں اگر ہوسکے تو ان روایات کی تحقیق بتادیں۔
    جزاک اللہ خیراً

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.