1,619

حدیث لولاک کی استنادی حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

گمراہ صوفیوں نے ایک جھوٹی اور من گھڑت روایت مشہور کر رکھی ہے کہ کائنات کی تخلیق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوئی۔ذخیرہئ حدیث میں موجود اس کی تمام سندوں کا تفصیلی جائزہ اور ان پر منصفانہ تبصرہ پیش خدمت ہے۔ قارئین کرام غور سے اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں کہ کیا ایسی روایات کو دینِ اسلام کا نام دیا جا سکتا ہے اور کیا ایسی روایات کو اپنی تائید میں پیش کرنے والے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خیرخواہ ہو سکتے ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے:
روایت نمبر 1 : سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
‘وَلَوْلَاکَ یَا مُحَمَّدُ ! مَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا’
”اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو تخلیق نہ کرتا۔”
(تاریخ ابن عساکر : ٣/٥١٨، الموضوعات لابن الجوزی : ١/٢٨٨، ٢٨٩)
تبصرہ : یہ باطل روایت ہے ۔ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے ”موضوع” (من گھڑت) قرار دیا ہے۔ حافظ سیوطی نے بھی ان کے حکم کو برقرار رکھا ہے۔
(اللآلی المصنوعۃ للسیوطی : ١/٢٧٢)
اس روایت کے باطل ہونے کی کئی وجوہات ہیں :
1 محمد بن عیسیٰ بن حیان مدائنی روای جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” (ناقابل اعتبار)ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”متروک الحدیث” قرار دیا ہے۔(سوالات الحاکم : ١٧١)
نیز امام موصوف نے اسے ”ضعیف” بھی کہا ہے۔
(العلل للدارقطنی : ٥/٣٤٧، سنن الدارقطنی : ١/٧٨)
امام ابواحمد الحاکم فرماتے ہیں : حدّث عن مشایخہ ما لم یتابع علیہ ۔
”اس نے اپنے اساتذہ سے ایسی روایات بیان کی ہیں جن پر متابعت نہیں کی گئی۔”
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی : ٢/٣٩٩، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ لالکائی رحمہ اللہ بھی اسے ”ضعیف” کہتے ہیں۔(تاریخ بغداد للخطیب : ٢/٣٩٨)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ”متروک” قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال للذہبی : ٣/٦٧٨)
حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ یہ ”ضعیف” راوی ہے۔(الموضوعات : ١/٢٨٩)
صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقات (٩/١٤٣)میں ذکر کیا ہے اور برقانی نے اسے ثقہ کہا ہے۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ٢/٣٩٨)
معلوم ہوا کہ اس کا ضعف ہی راجح ہے۔
2 محمد بن صباح راوی اگر کوفی ہے تو امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بقويّ ۔ ”یہ مضبوط راوی نہیں۔”(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم : ٧/٢٩٠)
3 ابراہیم بن ابی حیہ بھی سخت ”ضعیف” راوی ہے۔
اس کو امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے ”منکرالحدیث” قرار دیا ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاری : ١/٢٨٣)
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے کتاب الضعفاء والمتروکین (١٧)میں ذکر کیا ہے۔
نیز انہوں نے اسے ”متروک” بھی قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال للذہبی : ١/٧٩)
امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” کہا ہے۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ١/٢٣٨، وسندہ، حسنٌ)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ”منکر الحدیث” راوی ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٢/١٤٩، ت : ٤٩١)
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بشيء ۔ ”یہ فضول آدمی تھا۔”(لسان المیزان لابن حجر : ١/٥٢)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یروی عن جعفر بن محمّد وہشام مناکیر وأوابد ، یسبق إلی القلب أنّہ المتعمّد بہا ۔
”یہ جعفر بن محمد اور ہشام سے منکر اور من گھڑت روایات بیان کرتا ہے۔ دل کو لگتا یہی ہے کہ اس نے خود ایسی روایات گھڑی ہیں۔”(المجروحین لابن حبان : ١/١٠٣، ١٠٤)
حافظ ابن الجوزی نے بھی اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے۔(الموضوعات : ١/٢٨٩)
البتہ امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ نے اسے شیخ ثقۃ کبیر (الجرح والتعدیل : ٢/١٤٩) کہہ دیا ہے لیکن ان کا یہ قول جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے۔
4 خلیل بن مرۃ نامی راوی بھی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ”منکر الحدیث” راوی ہے۔
(سنن الترمذی : ٢٦٦٦، ٣٤٧٤)
نیز فرماتے ہیں : فیہ نظر ۔ (التاریخ الکبیر للبخاری : ٣/١٩٩)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے حدیث میں غیر قوی قرار دیا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم : ٣/٣٧٩)
امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے۔(الضعفاء والمتروکین : ١٧٨)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی ”ضعیف” کہا ہے۔
(المجروحین لابن حبان : ١/٢٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : منکر الحدیث عن المشاہیر ، کثیر الروایۃ عن المجاہیل ۔ ”یہ مشہور راویوں سے منکر احادیث بیان کرتا ہے، اس کی زیادہ تر روایات مجہول راویوں سے ہیں۔”(المجروحین لابن حبان : ١/٢٨٦)
حافظ ابن حجر اور حافظ ذہبیH نے بھی اسے ”ضعیف” ہی قرار دیا ہے۔چنانچہ جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں امام ابن شاہین وغیرہ کی توثیق مفید نہیں۔
5 اس روایت کی سند میں یحییٰ نامی راوی سے مراد اگر یحییٰ ابن ابی صالح سمان ہے تو وہ مجہول ہے۔(تقریب التہذیب لابن حجر : ٧٥٦٩)
امام ابن حبان رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے اسے ثقہ قرار نہیں دیا۔
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : شیخ مجہول ، لا أعرفہ ۔ ”یہ کوئی نامعلوم شیخ ہے ، میں اسے نہیں پہچانتا۔”(الجرح والتعدیل : ٩/١٥٨)
اور اگر یہ یحییٰ بن ابی حیہ ابو جناب کلبی ہے تو پھر ”ضعیف” ہے اور ”تدلیس تسویہ”کا مرتکب ہے۔ علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں : وأکثر الناس علی تضیعف الکلبيّ ۔
”اکثر محدثین کرام نے کلبی کو ضعیف قرار دیا ہے۔”(نصب الرایۃ للزیلعی : ٢/٢٣)
لہٰذا یہ سند پانچ وجہ سے باطل ہے۔ اس سے اہل باطل ہی دلیل لے سکتے ہیں۔
روایت نمبر 2 : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے :
‘أَتَانِي جِبْرِیلُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ! لَوْلَاکَ لَمَا خُلِقَتِ الْجَنَّۃُ، وَلَوْلَاکَ مَا خُلِقَتِ النَّارُ’ ”میرے پاس جبریل آئے اور کہنے لگے : اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اگر آپ نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کیا جاتا۔”
(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألبانی : ١/٤٥٠)
تبصرہ : یہ جھوٹی روایت ہے ، کیونکہ :
1 عبید اللہ بن موسیٰ قرشی راوی کے حالات نہیں مل سکے۔
2 فضیل بن جعفر بن سلیمان راوی کی توثیق اور حالات معلوم نہیں ہوئے۔
3 عبد الصمد بن علی بن عبداللہ راوی کی بھی توثیق نہیں ملی۔
اس کے بارے میں امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیثہ غیر محفوظ ، ولا یعرف إلّا بہ ۔ ”اس کی حدیث غیر محفوظ ہے اور وہ اسی روایت کے ساتھ معروف ہے۔”(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٣/٨٤)
معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان تینوں میں سے کسی ایک کی کارستانی ہے۔
روایت نمبر 3 : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
[أَوْحَی اللّٰہُ إِلٰی عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ : یَا عِیسٰی ! آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَہ، مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ یُؤْمِنُوا بِہٖ، فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّۃَ وَلَا النَّارَ، وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ، فَکَتَبْتُ عَلَیْہِ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُحَمَّدٌ رَسُولٌ اللّٰہِ، فَسَکَنَ]
”اللہ تعالیٰ نے عیسیٰuکی طرف وحی کی کہ اے عیسیٰ! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )پر ایمان لائیے اورحکم دیجیے کہ آپ کی امت میں سے جو لوگ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )کا زمانہ پائیں ، وہ ان پر ایمان لائیں۔ اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نہ ہوتے تو میں آدم(u)کو پیدا نہ کرتا، اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نہ ہوتے تو میں جنت اور جہنم کو پیدا نہ کرتا۔میں نے عرش کو پانی کے اوپر پیدا کیا تو وہ ہلنے لگا۔ میں نے اس پر لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُحَمَّدٌ رَسُولٌ اللّٰہِلکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٢/٢١٤، ٢١٥، ح : ٤٢٢٧)
تبصرہ : یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ایک جھوٹی کہانی ہے کیونکہ :
1 اس کا راوی عمرو بن اوس انصاری ایک نامعلوم و مجہول راوی ہے۔ اس راوی اور اس روایت کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یجہل حالہ ، أتی بخبر منکر ، أخرجہ الحاکم فی مستدرکہ ، وأظنّہ موضوعا ۔
”یہ راوی مجہول الحال ہے۔ اس نے ایک منکر روایت بیان کی ہے جسے امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں ذکر کیا ہے۔میرے خیال کے مطابق وہ روایت من گھڑت ہے۔”
(میزان الاعتدال للذہبی : ٣/٥٢٤٦، ٦٣٣٠)
2 سعید بن ابی عروبہ ”مدلس” اور ”مختلط” راوی ہے۔
3 قتادہ بن دعامہ راوی بھی ”مدلس” ہیں، انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
لہٰذا اس قول کی سند کو امام حاکم رحمہ اللہ کا ”صحیح” کہنا ناقابل اعتبار ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی اس بات کا ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے :
أظنّہ موضوعا علی سعید ۔ ”میرے خیال میں یہ سعید پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔”(تلخیص المستدرک للذہبی : ٢/٤١٥)
لسان المیزان میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی حکم کو برقرار رکھا ہے۔
تنبیہ : طبقات المحدثین باصبہان لابی الشیخ (٢/٢٨٧) میں عمرو بن اوس انصاری مجہول کی متابعت سعید بن اوس انصاری نے کی ہے لیکن اس کی سند میں محمد بن عمر محاربی راوی لاپتہ افراد میں سے ہے۔لہٰذا اس متابعت کا کوئی فائدہ نہیں۔
روایت نمبر 3 : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِیئَۃَ، قَالَ : یَا رَبِّ ! أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ، لَمَا غَفَرْتَ لِي، فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : یَا آدَمُ ! وَکَیْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْہُ ؟ قَالَ : لِأَنَّکَ یَا رَبِّ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِیَدِکَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِکِ رَفَعَتُ رَأْسِي، فَرَأَیْتُ عَلٰی قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَکْتُوبًا : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ، فَعَلِمْتُ أَنَّکَ لَمْ تُضِفْ إِلَی اسْمِکَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَیْکَ، فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : صَدَقْتَ یَا آدَمُ، إِنَّہ، لَـأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ، وَإِذْ سَأَلْتَنِي بِحَقِّہٖ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُکَ’ ”جب آدمuنے گناہ کا ارتکاب کیا تو انہوں نے عرض کیا : اے میرے رب! میں تجھ سے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے حق کے ساتھ سوال کرتاہوں کہ مجھے معاف کردے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم! تو نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کو کیسے پہچان لیا جبکہ میں نے ابھی تک اسے پیدا ہی نہیں کیا؟ آدم نے عرض کیا : اس لیے کہ جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھا یا اور عرش کے پائیوں پر لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ لکھا دیکھا ۔ میں جان گیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اسی کا نام لکھا ہے جو مخلوق میں سے تجھے سب سے محبوب ہے۔اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم تو نے سچ کہاہے۔وہ ساری مخلوق میں سے مجھے زیادہ محبوب ہیں۔چونکہ تو نے مجھ سے ان کے حق کے ساتھ مانگا ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا ہے۔ اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔”(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٢/٦١٤، ٦١٥، ح : ٤٢٢٨، المعجم الصغیر للطبرانی : ٩٩٢، المعجم الاوسط للطبرانی : ٦٥٠٢، دلائل النبوۃ للبیہقی : ٥/٤٨٨، تاریخ ابن عساکر : ٧/٤٣٧)
تبصرہ : یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے۔ جب امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح الاسناد” کہا تو ان کے ردّ میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا : بل موضوع ۔
”بلکہ یہ روایت تو موضوع(من گھڑت) ہے۔”(تلخیص المستدرک للذہبی : ٢/٦١٥)
اور جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل(میزان الاعتدال : ٢/٥٠٤، ت : ٤٦٠٤) کہا تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے اس حکم کو برقرار رکھا۔(لسان المیزان لابن حجر : ٣/٣٥٩، ٣٦٠)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وفیہ من لم أعرفہم ۔ ”اس روایت میں کئی راوی ایسے ہیں جنہیں میں نہیں پہچانتا۔”(مجمع الزوائد للہیثمی : ٨/٣٥٣)
حافظ سیوطی نے اس روایت کو ”ضعیف” قرار دیا ہے۔
(مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا : ٩٦)
ملاعلی قاری حنفی نے بھی اسے ”ضعیف” کہا ہے۔(شرح الشفا للقاری : ٢/٢٢٤)
قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بھی اسے ”ضعیف” کہا ہے۔
(خطبات حکیم الاسلام : ٢/١٢٥)
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے بھی اسے ”ضعیف” تسلیم کیا ہے۔
(شرح صحیح مسلم از سعیدی : ٧/٥٩)
اس کا راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک ”ضعیف و متروک”ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : والأکثر علی تضعیفہ ۔
”جمہور محدثین کرام اس کو ضعیف کہتے ہیں ۔”(مجمع الزوائد : ٢/٢١)
حافظ ابنِ ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعّفہ الکلّ ۔ ”اسے سب نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(البدر المنیر : ٥/٤٥٨)
اس کو امام احمد بن حنبل ، امام علی بن المدینی ، امام بخاری ، امام یحییٰ بن معین ، امام نسائی ، اما م ابو حاتم الرازی ، امام ابو زرعہ الرازی ، امام ابنِ سعد ، امام ابنِ خزیمہ ، امام ابنِ حبان ، امام ساجی ، امام طحاوی حنفی ، امام جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہم نے ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ ۔
”اس نے اپنے باپ سے موضوع (من گھڑت ) احادیث بیان کی ہیں ۔
(المدخل للحاکم : ١٥٤)
یہ حدیث بھی عبد الرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ زید بن اسلم سے روایت کی ہے ، لہٰذا یہ بھی موضوع (من گھڑت ) ہے ۔
اس کے دوسرے راوی عبد اللہ بن مسلم فہری کے بارے میں حافظ ذہبی فرماتے ہیں :
ولا أدری من ذا ؟ ”میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟”
(تلخیص المستدرک للذہبی : ٢/٦١٥)
تنبیہ نمبر 1 : یہی روایت اسی سند سے امام ابوبکر آجری نے اپنی کتاب الشریعۃ (ص ٤٢٧) میں موقوفاً بھی ذکر کی ہے۔
تنبیہ نمبر 2 : یہ روایت بعض الناس کو کوئی فائدہ نہیں دے گی کیونکہ یہی لوگ یہ من گھڑت روایت بھی پیش کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا۔اس روایت کو صحیح ثابت کرنے پر تو اہل بدعت نے اپنا پورا زور صرف کر دیا ہے لیکن اہل حق سے ان کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔
اگر اس نور والی روایت کو صحیح مانیں تو زیر بحث روایت باطل ہو جائے گی۔ دونوں میں سے کسی ایک کو جھوٹ ماننا ہی پڑے گا۔زیر بحث روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمuسے فرمایا کہ ابھی میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہیں کیا تو تم نے انہیں کیسے پہچان لیا؟اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمuکی تخلیق کے وقت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا نہیں ہوئے تھے۔اب فیصلہ بعض الناس خود ہی کر لیں کہ کس جھوٹ کو اپنانا ہے اور کس کو چھوڑنا ہے!!!
روایت نمبر 4 : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُّوحِہٖ عَطَسَ آدَمُ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ، فَقَالَ اللّٰہُ : حَمِدَنِي عَبْدِي، وَعِزَّتِي وَجَلَالِي ! لَوْلَا عَبْدَانِ أُرِیدُ أَنْ أَخْلُقَہُمَا فِي دَارِ الدُّنْیَا مَا خَلَقْتُکَ، قَالَ : إِلٰہِي ! فَیَکُونَانِ مِنِّي؟ قَالَ : نَعَمْ یَا آدَمُ ! اِرْفَعْ رَأسَکَ وَانْظُر، فَرَفَعَ رَأْسَہ،، فَإِذَا ہُوَ مَکْتُوبٌ عَلَی الْعَرْشِ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ، نَبِيُّ الرَّحْمَۃِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ ”جب اللہ تعالیٰ نے آدمuکو پیدا کیا اور ان میں اپنی روح پھونکی تو ان کو چھینک آئی۔ انہوں نے الحمد للہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے میری تعریف کی ہے۔میری عزت اور میرے جلال کی قسم! اگر دو بندوں کو دنیا میں پیدا کرنے کا ارادہ نہ ہوتاتو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔ آدم نے عرض کیا : اے میرے الٰہ ! کیا وہ دونوں میری ہی نسل سے ہوں گے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں اے آدم! سر اٹھا اور دیکھ ، آدم نے سر اٹھایا تو عرش پرلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ، نَبِيُّ الرَّحْمَۃِلکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔”(المناقب للموفق الخوارزمی، ص : ٣١٨، الجواہر السنیۃ فی الأحادیث القدسیۃ للحر العاملی : ٢٩٢، ٢٩٣)
تبصرہ : یہ جھوٹی روایت ہے کیونکہ :
1 موفق رافضی شیعہ ہے۔ اس کی کوئی توثیق ثابت نہیں۔
2 ابو محمد ہارون بن موسیٰ تلعکبری کی اگرچہ شیعہ کتب میں توثیق موجود ہے لیکن اہل سنت کی کتابوں میں اس کی توثیق موجود نہیں، اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : روایۃ للمناکیر ، رافضي ۔
”یہ کثرت سے منکر روایات بیان کرنے والا اور رافضی شخص ہے۔”
(میزان الاعتدال للذہبی : ٤/٢٨٧، ت : ٩١٧٤)
3 فیحان عطار ابو نصر کا کوئی اتا پتا نہیں چلا۔
4 ربیع بن جراح راوی بھی نامعلوم ہے۔
5 سلیمان بن مہران اعمش کی ”تدلیس” بھی موجود ہے۔
6 عبد العزیز بن عبد اللہ ، جعفر بن محمد اور عبد الکریم نام کے راویوں کا تعین اور ان کی توثیق درکار ہے۔
7 ابن شاذان کی شیعہ کتب میں تعریف موجود ہے مگر اہل سنت کی کتابوں میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی ایک روایت کو جھوٹ قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال للذہبی : ٣/٤٦٦)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے : ولقد ساق أخطب خوارزم من طریق ہذا الدجّال ابن شاذان ، أحادیث کثیرۃ باطلۃ سمجۃ رکیکۃ في مناقب السیّد عليّ رضي اللّٰہ عنہ ۔ ”اخطب خوارزم نے اس دجال ابن شاذان کی سند سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں بہت سی باطل ، بے تکی اور بے ہودہ روایات بیان کی ہیں۔”(میزان الاعتدال : ٣/٤٦٧)
اس روایت میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔
روایت نمبر 5 : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
لمّا خلق اللّٰہ تعالی آدم ونفخ فیہ من روحہ عطس ، فألہمہ اللّٰہ : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) ، فقال لہ ربّہ : یرحمک ربّک ، فلمّا أسجد لہ الملائکۃ تداخلہ العجب ، فقال : یا ربّ ! خلقت خلقا أحبّ إلیک منّی ؟ فلم یجب ، ثمّ قال الثانیۃ ، فلم یجب ، ثمّ قال الثالثۃ ، فلم یجب ، ثمّ قال اللّٰہ عزّ وجلّ لہ : نعم ، ولولاہم ما خلقتک ، فقال : یا ربّ ! فأرنیہم ، فأوحی اللّٰہ عزّ وجلّ إلی ملائکۃ الحجب أن ارفعوا الحجب ، فلمّا رفعت إذا آدم بخمسۃ أشباح قدّام العرش ، فقال : یا رب ! من ہؤلاء ؟ قال : یا آدم ! ہذا محمّد نبیّی، وہذا علیّ أمیر المؤمنین ابن عمّ نبیّی ووصیّہ ، وہذہ فاطمۃ ابنۃ نبیّی ، وہذان الحسن والحسین ابنا علیّ وولدا نبیّی ، ثمّ قال : یا آدم ! ہم ولدک ، ففرح بذلک ، فلمّا اقترف الخطیئۃ قال : یا رب ! أسألک بمحمّد وعلیّ وفاطمۃ والحسن والحسین لما غفرت لی ، فغفر اللّٰہ لہ بہذا ۔
”جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا اور ان میں اپنی روح پھونکی تو انہوں نے چھینک ماری۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں الہام کیا کہ وہ الحمد للہ رب العلمین کہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تجھ پر تیرا رب رحم کرے۔جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے انہیں سجدہ کرایا تو ان میں تکبر آیا اور انہوں نے کہا : اے میرے رب! کیا تو نے کوئی ایسی مخلوق بھی پیدا کی ہے جو تجھے مجھ سے بڑھ کر محبوب ہو؟ اللہ تعالیٰ نے کوئی جواب نہ دیا۔انہوں نے دوسری مرتبہ یہی سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے پھر جواب نہ دیا۔تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں ، اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔آدم نے عرض کیا : اے میرے رب! میری ان سے ملاقات کرا دے۔اللہ تعالیٰ نے حجاب کے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ حجاب اٹھا دو۔جب پردے اٹھ گئے تو آدم نے دیکھا کہ عرش کے سامنے پانچ مورتیاں نظر آئیں۔ انہوں نے عرض کیا : اے میرے رب ! یہ کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ (پہلے)میرے نبی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہیں، (دوسرے) امیر المومنین اور میرے نبی کے چچازاد اور وصی علی ہیں، (تیسری)میرے نبی کی بیٹی فاطمہ ہیں اور (چوتھے ، پانچویں) علی کے بیٹے اور میرے نبی کے نواسے حسن و حسین ہیں۔پھر فرمایا : اے آدم! یہ تیری اولاد ہیں۔اس سے آدم خوش ہو گئے۔ جب آدم نے گناہ کا ارتکاب کیا تو کہا : اے میرے رب ! میں تجھ سے محمد ، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کے واسطے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔”(الیقین لعلی بن موسٰی بن طاو،س الحسنی : ١٧٤، ١٧٥)
تبصرہ : یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے اور کسی مجہول رافضی ، شیعہ اور دشمنِ صحابہ کی کارستانی ہے۔اس روایت میں علی بن ابراہیم قاضی اور اس کے باپ سمیت کئی راوی بالکل مجہول اور نامعلوم ہیں۔نیز ابو احمد جرجانی قاضی راوی بھی موجود ہے ۔ اگر اس سے مراد محمد بن علی بن عبدل ہے تو وہ ”متہم بالکذب” راوی ہے۔
(الموضوعات لابن الجوزی : ١/٣٤٩)
اگر یہ محمد بن محمد بن مکی ہے تو وہ بھی ”ضعیف” راوی ہے۔اسی طرح حجاج نامی راوی بھی اس میں موجود ہے۔ اگر اس سے مراد حجاج بن ارطاۃ ہے تو وہ بھی ”ضعیف و مدلس” راوی ہے۔ اسی طرح اس سند میں ابن ابی نجیح ”مدلس” بھی ہے۔ نیز علی بن موسیٰ بن طاؤوس حسنی راوی رافضی ہے۔اس کی نقل کا کوئی اعتبار نہیں۔
قارئین کرام ہی فیصلہ فرمائیں کہ جس سند میں اس قدر جہالتیں اور قباحتیں موجود ہوں اور جس روایت میں رافضی عقائد جھلک رہے ہوں، اسے بطور دلیل ذکر کرنا بھلا کسی اہل سنت کو زیب دیتا ہے؟
روایت نمبر 6 : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لمّا خلق اللّٰہ آدم ونفخ فیہ الروح عطس آدم ، فألہم أن قال : الحمد للّٰہ ربّ العلمین ، فأوحی اللّٰہ إلیہ : یا آدم ! حمدتّنی ، فوعزّتی وجلالی ، لولا عبدان أرید أن أخلقہما فی آخر الدنیا ما خلقتک ۔
”جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونکی تو انہوں نے چھینک ماری۔ان کو الہام ہوا کہ وہ الحمدللہ رب العلمین کہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ اے آدم! تو نے میری تعریف کی ہے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! اگر میں نے دنیا کے آخر میں دو بندوں کو پیدا کرنے کا ارادہ نہ کیا ہوتا تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔”
(بشارۃ المصطفٰی لمحمد الطبری الرافضی، ص : ١١٦، ١١٧، الجواہر النسیۃ فی الأحادیث القدسیّۃ للحر العاملی، ص : ٢٧٣)
تبصرہ : یہ سراسر جھوٹی روایت ہے کیونکہ :
1 حسین بن حسن اشقر راوی جمہور کے نزدیک”ضعیف” ہے۔ اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ”فیہ نظر” فرمایا ہے ۔(التاریخ الکبیر للبخاری : ٢/٣٨٥)
نیز فرماتے ہیں : عندہ، مناکیر ۔ ”یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔”
(التاریخ الصغیر للبخاری : ٢/٢٩١)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : منکر الحدیث ، وکان صدوقا ۔
”یہ تھا تو سچا لیکن روایات منکر بیان کرتا تھا۔”(سوالات ابن ہانی : ٢٣٥٨)
امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہو شیخ منکر الحدیث ۔
”یہ شیخ منکر الحدیث تھا۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٣/٥٠)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بقويّ فی الحدیث ۔
”فن حدیث میں چنداں مضبوط نہیں۔”(الجرح والتعدیل : ٣/٤٩)
امام جوزجانی فرماتے ہیں : غال من الشتّامین للخیرۃ ۔
”غالی رافضیوں اور صحابہ کرام پر سب و شتم کرنے والوں میں سے تھا۔”
(احوال الرجال للجوزجانی : ٩٠)
امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکین : ١٩٥)اور امام نسائی رحمہ اللہ (الضعفاء المتروکین : ١٤٦)نے اسے ”لیس بالقوی” کہا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہو شیعی جلد ، وضعّفہ غیر واحد ۔
”یہ کٹر شیعہ تھا۔ اسے کئی ایک محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔”
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : ٦/٨٦)
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : وضعّفہ الجمہور ۔ ”اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔”(مجمع الزوائد : ٦/٨٢، ٩/١٠٢)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” کہا ہے۔(فتح الباری لابن حجر : ٦/٤٦٧)
حافظ سیوطی کہتے ہیں : حسین الأشقر متّہم ۔ ”حسین اشقر متہم بالکذب راوی ہے۔”(ذیل الأحادیث الموضوعۃ، ص : ٥٨)
2 اس کی سند میں سلیمان بن مہران اعمش راوی ”مدلس” ہے۔
3 محمد بن علی بن خلف عطار سے نیچے کے سب راویوں کی توثیق ثابت نہیں ہو سکی، مثلاً عبید بن موسیٰ رویانی ، ابو الحسن احمد بن محمد بن اسحاق ، ابو یعقوب اسحاق بن محمد بن عمران خباز ، محمد بن احمد بن یوسف ، ابو محمد عبد الملک بن محمد بن احمد بن یوسف ، ابو سعید محمد بن احمد بن حسین نیشاپوری خزاعی ، ابو نجم محمد بن عبد الوہاب بن عیسیٰ سمان رازی۔
کیا اس قدر خرابیوں کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اس روایت کے جھوٹ ہونے میں کسی عقلمند کو کوئی شبہ رہ سکتا ہے؟
تنبیہ : روایت لولاک ما خلقت الأفلاک کو علامہ صنعانی نے ”موضوع” کہا ہے۔(الموضوعات للصنعانی : ٥١)
دنیا کی کسی کتاب میں اس کی کوئی سند نہیں مل سکی، نہ اہل سنت کی کسی کتاب میں نہ شیعہ کی کسی کتاب میں۔اس کے باوجود بعض لوگ اس پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں۔ اسے محمدباقر مجلسی رافضی شیعہ نے اپنی کتاب بحار الأنوار (١٥/٢٨، ٥٤/١٩٩) میں ابوالحسن البکری کی کتاب کتاب الأنوار کے حوالے سے بے سند ذکر کیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اس کی کوئی سند ہے تو ہمیں پیش کرے، ورنہ یہ بات تو طے ہے کہ بے سند روایات وہی لوگ پیش کرتے ہیں جن کی اپنی کوئی سند نہیں ہوتی۔
ہم نے اہل سنت اور روافض کی کتابوں میں موجود چھ مرفوع اور موقوف روایات پر تبصرہ کر کے ان کا باطل ہونا آشکارا کر دیا ہے۔ اگر دنیا میں کسی کے پاس ان چھ روایات کے علاوہ کوئی اور باسند روایت ہے تو وہ پیش کرے۔
فقہ حنفی اور حدیث ”لولاک” :
حنفی مذہب کی معتبر کتب میں لکھا ہے : وفی جواہر الفتاوی : ہل یجوز أن یقال : لولا نبیّنا محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لما خلق اللّٰہ آدم ؟ قال : ہذا شیء یذکرہ الوعّاظ علی رؤوس المنابر ، یریدون بہ تعظیم نبیّنا محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، والأولٰی أن یحترز عن مثل ہذا ، فإنّ النبیّ علیہ الصلاۃ والسلام ، وإن کان عظیم المنزلۃ والرتبۃ عند اللّٰہ ، فإنّ لکلّ نبیّ من الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام منزلۃ ومرتبۃ ، وخاصّۃ لیست لغیرہ ، فیکون کلّ نبیّ أصلا بنفسہ ۔
”جواہر الفتاویٰ میں سوال ہے کہ کیا یہ کہنا جائز ہے کہ اگر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ آدمuکو پیدا نہ کرتا؟ جواب یہ دیا گیا : یہ ایسی چیز ہے جو واعظین منبروں پر چڑھ کر بیان کرتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ایسی باتوں سے احتراز کیا جائے کیونکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند مقام اور مرتبہ رکھتے تھے لیکن ہر نبی کو بھی ایک مقام اور مرتبہ حاصل تھا اور ہر نبی کے پاس کوئی نہ کوئی ایسی خصوصیت تھی جو دوسرے کسی کے پاس نہ تھی۔ لہٰذا ہر نبی کا اپنا ایک مستقل مقام ہے۔”(الفتاوی التاتارخانیّۃ : ٥/٤٨٥)
اس کے باوجود بعض لوگ ان جھوٹی روایات کو اپنے اسباب ِ شکم پروری کو دوام بخشنے اور اکل و شرب کی دکان کو چمکانے کے لیے برسر منبر بیان کرتے ہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح راستے کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.