2,430

حرمت نکاح متعہ ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

حرمت ِنکاح ِمتعہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی ہوئی شریعت ایک کامل اور اکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں تاقیامت تبدیلی کی گنجائش نہیں، کیونکہ مختلف ادوار اور حالات و حوائج میں بدلتے قوانین کو اسلام نے مستقل کر دیا ہے۔ زمانہ نزولِ وحی سے قیامت تک کے لیے ٹھوس دستور حیات پیش کئے گئے۔ یہ کمال ہی کا تقاضا تھا کہ صرف افراد کو نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو مدنظر رکھ کر قوانین مرتب کئے گئے۔ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے امور کو بتدریج حرام قرار دیا گیا۔ شراب کی مثال لے لیں کہ کس طرح غیر محسوس انداز سے مسلمان معاشرے کو اس سے پاک کیا گیا۔ پہلے فوائد کی نسبت خرابیوں کے زیادہ ہونے کا پتہ دے کر اس سے عمومی نفرت کا رجحان پیدا کیا، پھر نمازوں کے اوقات میں نشہ نہ کرنے کا حکم فرما کر اس کی لَت ختم کی، بالآخر اسے مستقل طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا۔
نکاحِ متعہ بھی انہی امور میں سے ہے، جنہیں اسلام نے ہمیشہ کے لیے غیر شرعی فرمایا۔ جیسے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عہد ِ رسالت میں شراب پی جاتی رہی، اسی طرح تدریجی حکمت ِعملی کے تحت عہد نبوی میں نکاحِ متعہ بھی ایک وقت تک جائز رہا، لیکن پھر اسے قیامت تک کے لیے حرام ٹھہرا کر شرعی نکاح کو حتمی اور لازمی اصول بنا دیا گیا۔
حرمت نازل ہونے سے پہلے شراب حلال تھی، کیا اب بھی حلال ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہے، تو حرمت ِ متعہ سے پہلے کے حالات کو دلیل بنا کر اسے سند جواز مہیا کرنا کیوں کر درست ہوا۔
نکاحِ متعہ کے فرد اور معاشرے پر نہایت مضر اثرات تھے، جن کی بنا پر اسے قیامت تک کے لیے شریعت بدر کردیا گیا۔ شرعی نکاح برقرار رکھا گیا، جو مفاسد سے بالکل خالی اور فرد و معاشرے کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔
نکاح کا اہم مقصد عفت و عصمت کا تحفظ ہے، جو نکاحِ متعہ سے حاصل نہیں ہوتا، نیز نکاحِ شرعی میں اہم جزو، دوام و استمرار ہے، جو متعہ میں نہیں پایا جاتا۔ نکاح لازمہ محبت و مودّت اور سکون ہے، جو متعہ میں ناپید ہے۔ شریعت میں بیک وقت ایک سے زائد بیویوں کا تصور تو ہے، لیکن ایک سے زائد خاوندوں کا تصور قطعاً نہیں، جبکہ نکاحِ متعہ میں درجنوں شوہر پائے جاتے ہیں، نکاح متعہ میں عورت کے لئے ایک دن میں بیسیوں افراد سے منہ کالا کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
نکاحِ متعہ کے ذریعے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور انسانوں میں بہیمانہ رویے پروان چڑھتے ہیں۔ بیک وقت کئی مردوں سے تعلق رکھنے والی کو کیا معلوم اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ کس کا ہے؟ ایسے بچے عام طور پر خونخوار درندے ہی بنتے ہیں، پر امن شہری نہیں بن پاتے۔ نکاحِ متعہ میں ولی (باپ، بھائی) کے حقوق بھی پا مال ہوتے ہیں۔ عصمت جو انسانیت کا جوہر ہے، ختم ہو جاتی ہے اور ماحول میں آوارگی اور انارکی پھیلتی ہے۔
شیخ الاسلام، ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم، ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  (٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وَالنِّکَاحُ الْمَبِیْحُ ہُوَ النِّکَاحُ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ الْمُسْلِمِینَ، وَہُوَ النِّکَاحُ الَّذِي جَعَلَ اللّٰہُ فِیہِ بَیْنَ الزَّوْجَیْنِ مَوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً.
”جائز نکاح وہی ہے، جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہے۔ یہی وہ نکاح ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے زوجین میں مودّت و رحمت کا باعث بنایا ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٣٢/٩٢، ٩٣)
نکاحِ متعہ کی بے شمار قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے شادی شدہ خواتین بھی بدکاری کی راہ اختیار کر لیتی ہیں، جیسا کہ
شیعہ کے شیخ الطائفہ، ابو جعفر، محمد بن حسن، طوسی (م :٤٦٠ھ) نے لکھا ہے :
وَلَیْسَ عَلَی الرَّجُلِ أَنْ یَّسْأَلَہَا؛ ہَلْ لَّہَا زَوْجٌ أَمْ لَا .
”نکاحِ متعہ میںعورت سے پوچھنا ضروری نہیں کہ اس کا خاوند ہے یا نہیں؟”
(النہایۃ، ص : ٤٩٠)
ان قباحتوں کے باوجود نکاحِ متعہ شیعہ مذہب کا بنیادی جزو ہے، جیسا کہ :
شیعہ فقیہ، محمد بن حسن، الحر العاملی (م : ١١٠٤ھ) نے لکھا ہے :
إِنَّ إِبَاحَۃَ الْمُتْعَۃِ مِنْ ضَرُورِیَّاتِ مَذْہَبِ الْإِمَامِیَّۃِ .
”نکاحِ متعہ کا جائز قرار دینا امامیہ کی مذہبی ضرورت ہے۔”
(وسائل الشیعۃ : ٧/٢٤٥)
نکاحِ متعہ اور اجماعِ امت:
امت ِمسلمہ کا اجماع ہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں نکاحِ متعہ تاقیامت حرام ہو چکا ہے۔ جیسا کہ :
امام ابو عُبَیْد، قاسم بن سلام رحمہ اللہ  (١٥٠۔٢٢٤ھ) فرماتے ہیں :
فَالْمُسْلِمُونَ الْیَوْمَ مُجْمِعُونَ عَلٰی ہٰذَا الْقَوْلِ : إِنَّ مُتْعَۃَ النِّسَاءِ قَدْ نُسِخَتْ بِالتَّحْرِیمِ، ثُمَّ نَسَخَہَا الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یَتَرَخَّصُ فِیہَا، إِلَّا مَا کَانَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَإِنَّہ، کَانَ ذٰلِکَ مَعْرُوفًا مِّنْ رَّأْیِہٖ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّہ، رَجَعَ عَنْہُ .
”آج مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نکاحِ متعہ منسوخ ہونے کی بنا پر حرام ہے۔ کتاب و سنت نے اسے منسوخ کہا ہے۔ کسی صحابی سے نکاح متعہ کی رخصت دینا ثابت نہیں، سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہما  کے۔ اس بارے میں ان کا فتویٰ مشہور تھا۔ پھر ہم تک یہ بات بھی پہنچی کہ (حق معلوم ہونے پر) انہوں نے اپنے فتوے سے رجوع فرما لیا تھا۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص : ٨٠)
امام ابو عبید رحمہ اللہ  مزید فرماتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْیَوْمَ جَمِیعًا مِّنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ وَأَہْلِ الْحِجَازِ وَأَہْلِ الشَّامِ وَأَصْحَابِ الْـأَثَرِ وَأَصْحَابِ الرَّأْيِ، وَغَیْرِہِمْ، أَنَّہ، لَا رُخْصَۃَ فِیہَا لِمُضْطَرٍّ وَّلَا لِغَیْرِہٖ، وَأَنَّہَا مَنْسُوخَۃٌ حَرَامٌ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ .
”اس دور میں اہل عراق، اہل حجاز اور اہل شام، نیز اصحاب الحدیث و اصحاب الرائے وغیرہ سب اہل علم کا اتفاقی فتویٰ ہے کہ مجبوری ہو یا نہ ہو، نکاحِ متعہ کی اجازت نہیں۔ یہ منسوخ اور حرام ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام] سے ثابت ہے۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص : ٨٢)
امام، ابو جعفر، احمد بن محمد بن سلامہ، طحاوی رحمہ اللہ  (٢٣٨۔٣٢١ھ) فرماتے ہیں:
فَہٰذَا عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ نَہٰی عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ، بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُّنْکِرٌ، وَفِي ہٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی مُتَابَعَتِہِمْ لَہ، عَلٰی مَا نَہٰی عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ، وَفِي إِجْمَاعِہِمْ عَلَی النَّہْيِ فِي ذٰلِکَ عَنْہَا دَلِیلٌ عَلٰی نَسْخِہَا، وَحُجَّۃٌ .
”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے اجتماع میں نکاح متعہ سے منع فرمایا۔ کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے ہم نوا تھے۔ صحابہ کرام] کا یہ اجماع منسوخیت متعہ کی ٹھوس دلیل ہے۔”
(شرح معاني الآثار : ٣/٢٦)
امام ابن منذر رحمہ اللہ  (٢٤٢۔٣١٩ھ) فرماتے ہیں:
جَاءَ عَنِ الْـأَوَائِلِ الرُّخْصَۃُ فِیہَا، وَلَا أَعْلَمُ الْیَوْمَ أَحْدًا یُجِیزُہَا إِلَّا بَعْضُ الرَّافِضَۃِ، وَلَا مَعْنٰی لِقَوْلٍ یُّخَالِفُ کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُولِہٖ .
”اوائل اسلام میں متعہ کی رخصت منقول ہے۔ میرے علم کے مطابق سوائے روافض کے کسی نے اسے جائز قرار نہیں دیا۔ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے مخالف قول کا کوئی وزن نہیں۔”
(فتح الباري لابن حجر : ٩/٧٨)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ  (٣٦٨۔٤٦٣ھ) لکھتے ہیں :
وَأَمَّا سَائِرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ مِّنَ الْخَالِفِینَ وَفُقَہَاءِ الْمُسْلِمِینَ فَعَلٰی تَحْرِیمِ الْمُتْعَۃِ .
”تمام صحابہ ، تابعین، ان کے بعد والے علماء اور فقہائے مسلمین متعہ کی حرمت پر متفق ہیں۔ ”
(التمہید لما في الموطّأ من المعانی والأسانید : ١٠/١٢١)
علامہ ابو بکر جصّاص رحمہ اللہ  (٣٠٥۔٣٧٠ھ) لکھتے ہیں :
وَقَدْ دَلَّلْنَا عَلٰی ثُبُوتِ الحَظْرِ بَعْدَ الْـإِبَاحَۃِ مِنْ ظَاہِرِ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَإِجْمَاعِ السَّلَفِ … وَلَا خِلَافَ فِیہَا بَیْنَ الصَّدْرِ الْـأَوَّلِ عَلٰی مَا بَیَّنَّا، وَقَدِ اتَّفَقَ فُقَہُاءُ الْـأَمْصَارِ مَعَ ذٰلِکَ عَلٰی تَحْرِیمِہَا، وَلَا یَخْتَلِفُونَ .
”ہم نے متعہ کے مباح ہونے کے بعد حرام ہونے کے ثبوت پر کتاب و سنت اور سلف کے اجماع کے دلائل بیان کر دیے ہیں۔ … اس بارے میں اسلام کے ابتدائی ادوار میں کوئی اختلاف نہیں تھا، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام علاقوں کے فقہائے کرام نے اس کی حرمت پر اتفاق کیا ہے، وہ اس بارے میں قطعاً اختلاف نہیں کرتے۔”
(أحکام القرآن للجصاص : ٢/١٥٣)
علامہ خطابی رحمہ اللہ  (٣١٩۔٣٨٨ھ) لکھتے ہیں :
تَحْرِیمُ الْمُتْعَۃِ کَالْـإِجْمَاعِ إِلَّا عَنْ بَّعْضِ الشِّیعَۃِ، وَلَا یَصِحُّ عَلٰی قَاعِدَتِہِمْ فِي الرُّجُوعِ إِلَی الْمُخْتَلَفَاتِ إِلٰی عَليٍّ وَّآلِ بَیْتِہٖ، فَقَدْ صَحَّ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّّہَا نُسِخَتْ، وَنَقَلَ الْبَیْہَقِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّہ، سُئِلَ عَنِ الْمُتْعَۃِ فَقَالَ : ہِيَ الزِّنَا بِعَیْنِہٖ .
”متعہ کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے سوائے بعض شیعہ کے۔ ان کے قاعدے و ضابطے کے مطابق بھی یہ (متعہ) درست نہیں، کیونکہ یہ لوگ اختلافی مسائل میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ  اور آپ کے اہل بیت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  سے ثابت ہے کہ متعہ منسوخ ہو چکا۔ امام بیہقی رحمہ اللہ  نے (السنن الکبریٰ : ٧/٢٠٧، وسندہ، صحیح) جعفر بن محمد رحمہ اللہ  سے نقل کیا ہے کہ ان سے متعہ کے بارے میں سوال ہوا، تو انہوں نے فرمایا : یہ تو واضح زنا ہے۔”
(فتح الباري : ٩/٧٨)
حافظ، ابو محمد، حسین بن مسعود، بغوی رحمہ اللہ  (م : ٥١٦ھ) فرماتے ہیں:
اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلٰی تَحْرِیمِ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ، وَہُوَ کَالْإِجْمَاعِ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ .
”علماء کرام نکاحِ متعہ کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ یہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔”
(شرح السنّۃ : ٩/١٠٠)
حافظ، عبد الرحمن بن علی، ابن الجوزی  رحمہ اللہ  (٥٠٨۔٥٧٩ھ) فرماتے ہیں:
فَقَدْ وَقَعَ الْإِتِّفَاقُ عَلَی النَّسْخِ .
”نکاحِ متعہ کی منسوخیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ١/١٤٦)
مشہور مفسر، ابو عبد اللہ، محمد بن احمد، قرطبی  رحمہ اللہ  (م : ٦٧١ھ) فرماتے ہیں :
فَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلٰی تَحْرِیمِہَا .
”نکاح متعہ کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔”
(تفسیر القرطبي : ٥/١٣٣)
علامہ مازری رحمہ اللہ  (م ٥٣٦ھ) لکھتے ہیں :
انْعَقَدَ الْـإِجْمَاعُ عَلٰی تَحْرِیمِہٖ، وَلَمْ یُخَالِفْ فِیہِ إِلَّا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُبْتَدِعَۃِ، وَتَعَلَّقُوا بِالْـأَحَادِیثِ الْوَارِدَۃِ، وَقَدْ ذَکَرْنَا أَنَّہَا مَنْسُوخَۃٌ، فَلَا دَلَالَۃَ لَہُمْ فِیْہَا .
”متعہ کے حرام ہونے پر اجماع منعقد ہو چکا ہے۔ اس کی مخالفت صرف ایک بدعتی گروہ نے کی ہے۔ انہوں نے اس بارے میں وارد احادیث سے دلیل لینے کی کوشش کی ہے ، حالانکہ ہم یہ ذکر کر چکے ہیں کہ وہ احادیث منسوخ ہیں، ان احادیث میں کوئی دلیل نہیں۔”
(المعلم بفوائد مسلم للمازري : ٢/١٣١)
قاضی عیاض رحمہ اللہ  (٤٧٦۔٥٤٤ھ) لکھتے ہیں :
وَوَقَعَ الْـإِجْمَاعُ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلٰی تَحْرِیمِہَا مِنْ جَمِیعِ الْعُلَمَاءِ إِلَّا الرَّوَافِضَ .
”اس کے بعد متعہ کی حرمت پر سوائے روافض کے تمام علمائے کا اجماع ہو گیا ۔”
(شرح مسلم للنووي : ٩/١٨١)
علامہ ابن العربی رحمہ اللہ  (٥٤٣ھ) فرماتے ہیں:
وَقَدْ کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَقُولُ بِجَوَازِہا، ثُمَّ ثَبَتَ رَجُوعُہ، عَنْہَا، فَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلٰی تَحْرِیمِہَا، فَإِذَا فَعَلَہَا أَحَدٌ رُجِمَ فِي مَشْہُورِ الْمَذْہَبِ .
”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نکاح متعہ کو جائز کہتے تھے، پھر آپ سے اس کے بارے میں رجوع بھی ثابت ہے، لہٰذااب نکاح متعہ کے حرام ہونے پر اجماع ہو چکا ہے۔ جو بھی اس کا مرتکب ہو گا، مشہور مذہب کے مطابق اسے رجم کیا جائے گا۔”
(تفسیر القرطبي : ٥/١٣٢۔١٣٣)
نکاحِ متعہ اور قرآنِ کریم:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ . إِلَّا عَلٰۤی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ . فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰۤئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ) (المؤمنون : ٥۔٧، المعارج : ٢٩۔٣١)
”مومن اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ اپنی شرمگاہیں محفوظ رکھتے ہیں۔یہ لوگ ملامت نہیں کیے جائیں گے۔ ان طریقوں سے کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرنے والے بغاوت کے مرتکب ہیں۔”
معلوم ہوا کہ بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی سے جنسی تعلق رکھنا جائز نہیں۔ جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے، وہ مرد کی بیوی ہوتی ہے، نہ لونڈی، لہٰذا متعہ حرام ہے۔
ام المومنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ  نے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو فرمایا :
بَیْنِي وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ : وَقَرَأَتْ ہٰذِہِ الْـآیَۃَ : (وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ)
”ہمارا فیصلہ کتاب اللہ سے ہو گا۔ انہوں نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت فرمائی : (وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ) (مومن اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔)”
(الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلّام : ١٣١، مسند الحارث [بغیۃ الباحث] : ٤٧٩، السنن الکبرٰی للبیہقي : ٧/٢٠٦، ٢٠٧، وسندہ، صحیحٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ .
”یہ حدیث امام بخاری و مسلمH کی شرط پر صحیح ہے۔”
(المستدرک : ٢/٣٠٥، ٣٩٣)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے :
(وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِینَ لَا یَجِدُونَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ) (النّور : ٣٣)
”جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ عصمت کی حفاظت کریں، حتی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔”
اس آیت ِکریمہ کی تفسیر میں الکیا الہراسی کے نام سے معروف، مفسر وفقیہ، علامہ، ابوالحسن، علی بن محمد، طبری رحمہ اللہ  (٤٥٠۔٥٠٤ھ) فرماتے ہیں :
أَمَرَہُمْ بِّالتَّعَفُّفِ عِنْدَ تَعَذُّرِ النِّکَاحِ عَمَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَذٰلِکَ عَلَی الْوُجُوبِ، وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ إِبَاحَۃَ الِاسْتِمْتَاعِ مَوْقُوفَۃٌ عَلَی النِّکَاحِ، وَلِذٰلِکَ یُحَرِّمُ مَا عَدَاہُ، وَلَا یُفْہَمُ مِنْہُ التَّحْرِیمُ بِمِلْکِ الْیَمِینِ، لِـأَنَّ مَنْ لَّا یَقْدِرُ عَلَی النِّکَاحِ لِعَدَمِ الْمَالِ لاَ یَقْدِرُ عَلٰی شِرَاءِ الْجَارِیَۃِ غَالِبًا، وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی بُطْلَانِ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ، وَدَلِیلٌ عَلٰی تَحْرِیمِ الِاسْتِمْنَاءِ .
” اللہ تعالیٰ نے بلا نکاح جنسی تسکین کے حرام ذرائع سے وجوبا منع فرمایا۔ یہ آیت ِدلیل ہے کہ جنسی تسکین کا جواز نکاح پر موقوف ہے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے باقی سارے ذرائع کو حرام قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت سے لونڈیوں کی حرمت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ (ان کا ذکر تو اس لیے نہیں کیا گیا کہ) جو شخص مال نہ ہونے کی وجہ سے نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا، وہ عموماً لونڈی خریدنے پر بھی قادر نہیں ہوتا۔ یہ آیت نکاحِ متعہ کی حرمت پر بھی دلیل ہے اور اس سے مشت زنی کا حرام ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔”
(أحکام القرآن : ٤/٣١٣۔٣١٤)
تنبیہ :
بعض لوگ قرآنِ کریم سے متعہ جائز ثابت کرنے کی نا کام کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ سورہئ نساء کی آیت نمبر ٢٤ پیش کرتے ہیں۔
فرمانِ الٰہی ہے :
(فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ اُجُورَہُنَّ فَرِیضَۃً)
”جن عورتوں سے فائدہ اٹھاؤ، انہیں حق مہر ضرور ادا کرو!”
مشہور مفسر، علامہ قرطبی رحمہ اللہ ، ابن خُوَیْز منداد بصری (م : ٣٩٠ھ) سے نقل کرتے ہیں:
وَلَا یَجُوزُ أَنْ تُحْمَلَ الْآیَۃُ عَلٰی جَوَازِ الْمُتْعَۃِ، لِـأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ نِّکَاحِ الْمُتْعَۃِ وَحَرَّمَہ،، وَلِـأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ : (فَانْکِحُوہُنَّ بِاِذْنِ أَہْلِہِنَّ)، وَمَعْلُومٌ أَنَّ النِّکَاحَ بِإِذْنِ الْـأَہْلِینَ ہُوَ النِّکَاحُ الشَّرْعِيُّ، بِوَلِيٍّ وَّشَاہِدَیْنِ، وَنِکَاحُ الْمُتْعَۃِ لَیْسَ کَذٰلِکَ .
”اس آیت ِکریمہ سے متعہ کا جواز کشیدنا جائز نہیں، کیونکہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاحِ متعہ سے منع فرمایا اور اسے حرام قرار دے دیا ہے، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے (اس سے اگلی آیت میں) ارشاد فرمایا : (فَانْکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ أَہْلِہِنَّ) (تم ان عورتوں سے ان کے ولیوںکی اجازت سے نکاح کرو۔) معلوم شد کہ ولی کی رضا مندی اور دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح شرعی ہی ہوتا ہے، نکاحِ متعہ کی صورت یہ نہیں۔”
(تفسیر القرطبي : ٥/١٢٩، ١٣٠)
معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم سے نکاحِ متعہ قطعاً ثابت نہیں، بلکہ صرف نکاحِ شرعی کا ثبوت ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ رضی اللہ عنہما  نے یہ آیت یوں تلاوت کی :
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْھُنَّ، إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی .
”جن عورتوں سے تم ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھاؤ۔”
(تفسیر الطبري : ٩٠٤٦، وسندہ، صحیحٌ، ٩٠٤٧، وسندہ، صحیحٌ، ٩٠٤٩، وسندہ، صحیحٌ، ٩٠٥٠، وسندہ، صحیحٌ)
تبصرہ :
1    ابتداء میں سیدنا عبدا للہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  متعہ کو جائز کہتے تھے، لیکن بعد میں نسخ کا علم ہونے پر رجوع کر لیا تھا، جیسا کہ ربیع بن سبرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
مَا مَاتَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَتّٰی رَجَعَ عَنْ ہٰذِہِ الْفُتْیَا .
”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  اس فتوے سے رجوع کر کے ہی فوت ہوئے۔”
(مسند أبي عوانۃ : ٢/٢٧٣، ح : ٢٣٨٤، وسندہ، صحیحٌ، طبع جدید)
فائدہ:
‘إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی’ والی قرات ابی بن کعب رضی اللہ عنہ  سے ثابت نہیں۔ اس کی سند میں سعید بن ابی عروبہ اور ان کے شیخ قتادہ دونوں ”مدلس” ہیں۔
2    اس آیت کا صحیح مفہوم امام طبری رحمہ اللہ  (٣١٠ھ) یوں بیان کرتے ہیں:
وَأَوْلَی التَّأْوِیلَیْنِ فِي ذٰلِکَ بِالصَّوَابِ تَأْوِیلُ مَنْ تَأَوَّلَہ، : فَمَا نَکَحْتُمُوہُ مِنْہُنَّ فَجَامَعْتُمُوہُ فَآتُوھُنَّ أُجُورَھُنَّ، لِقِیَامِ الْحُجَّۃِ بِتَحْرِیمِ اللّٰہِ مُتْعَۃَ النِّسَاءِ عَلٰی غَیْرِ وَجْہِ النِّکَاحِ الصَّحِیحِ أَوِ الْمِلْکِ الصَّحِیحِ عَلٰی لِسَانِ رَسُولِہٖ .
”اس آیت کی دو تفسیروں میں سے درست تفسیر یہ ہے : جن عورتوں سے تم نکاح اور جماع کر لو، انہیں حق مہر ادا کرو۔ وجہ صحت وہ دلائل ہیں، جن سے ثابت ہو چکا کہ اللہ تعالی نے جس متعہ کو حرام قرار دیا ہے، وہ اس نکاح سے الگ ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے درست قرار دیا ہے۔”
(تفسیر الطبري : ٣/٧٣٨، طبع دار الحدیث، القاہرۃ)
4    ‘فما استمتعتم بہ منھنّ’ سے مراد نکاح ہے، جیسا کہ سیدنا ربیع بن سبرہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
اِسْتَمْتِعُوا مِنْ ہٰذِہِ النِّسَائِ، وَالِاسْتِمْتَاعُ عِنْدَنَا التَّزْوِیجُ .
”عورتوں سے فائدہ اٹھائیے، ہمارے نزدیک فائدہ اٹھانے سے مراد نکاح ہے۔”
(مسند الدارمي : ٢٢٤١، مسند الحمیدي : ٨٧٠، مسند الإمام أحمد : ٣/٤٠٤، وسندہ، صحیحٌ)
امام حسن بصری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نکاح ہے۔
(تفسیر الطبري : ٩٠٣٩)
اگر کوئی کہے کہ اس سے مراد متعہ ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
یَاأَیُّہَا النَّاسُ! إِنِّي قَدْ کُنْتُ آذَنْتُ لَکُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَائِ، وَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَمَنْ کَانَ عِنْدَہ، مِنْھُنَّ شَيْءٌ فَلْیُخَلِّ سَبِیلَہ،، وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوھُنَّ شَیْئًا .
”لوگو! میں نے آپ کو نکاح متعہ کی اجازت دی تھی۔ اب یہ قیامت تک حرام ہے۔ جس کے پاس ایسی عورت ہو، اسے چھوڑ دے اور اسے دی ہوئی چیزوں میں کچھ بھی واپس نہ لیں۔”
(صحیح مسلم : ١/٤٥١، ح : ١٤٠٦/٢١)
مشہور لغوی ابن منظور (٦٣٠۔٧١١ھ) لکھتے ہیں :
فَإِنَّ الزَّجَّاجَ ذَکَرَ أَنَّ ہٰذِہِ آیَۃٌ غَلَطَ فِیہَا قَوْمٌ غَلَطًا عَظِیمًا لِجَھْلِھِمْ بِاللُّغَۃِ، وَذٰلِکَ أَنَّہُمْ ذَہَبُوا إِلٰی قَوْلِہٖ : (فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْہُنَّ) مِنَ الْمُتْعَۃِ الَّتِي قَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنَّہَا حَرَامٌ، وَإِنَّمَا مَعْنٰی : (فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْہُنَّ) فَمَا نَکَحْتُمْ مِّنْہُنَّ عَلَی الشَّرِیطَۃِ الَّتِي جَرٰی فِي الْـآیَۃِ أَنَّہ، الْإِحْصَانُ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِینَ أَيْ عَاقِدِینَ التَّزْوِیجَ، أَيْ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ عَلٰی عَقْدِ التَّزْوِیجِ الَّذِي جَرٰی ذِکْرُہ، فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَۃً، أَيْ مُہُورَہُنَّ فَإِنِ اسْتَمْتَعَ بِالدُّخُولِ بِہَا آتَی الْمَہْرَ تَامًّا وَّإِنِ اسْتَمْتَعَ بِعَقْدِ النِّکَاحِ آتیٰ نِصْفَ الْمَہْرِ .
”زجاج نے ذکر کیا ہے کہ ایک گروہ نے لغت سے نا واقفیت کی بنا پر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : (فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْہُنَّ) (جو تم عورتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوتے ہو) میں متعہ سے مراد وہ متعہ لیا ہے، جس کے حرام ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ آیت کا صحیح معنی یہ ہے کہ ان سے پاکدامنی کی شرط پر نکاح کریں اور نکاح کے عقد پر جو فائدہ اٹھائیں، اس پر انہیں حق مہر ادا کریں۔ اگر مرد نے عورت سے دخول کر کے اس سے فائدہ اٹھایا ہو گا، تو پورا مہر ادا کرے گا اور اگر صرف نکاح کا ہی فائدہ اٹھایا ہو، تو پھر نصف حق مہر دے گا۔”
(لسان العرب، مادۃ : م ت ع)
علامہ آلوسی حنفی (١٢٥٢۔١٣١٧ھ) لکھتے ہیں :
وَہٰذِہِ الْـآیَۃُ لَا تَدُلُّ عَلَی الْحِلِّ، وَالْقَوْلُ بِأَنَّھَا نَزَلَتْ فِي الْمُتْعَۃِ غَلَطٌ، وَتَفْسِیرُ الْبَعْضِ لَھَا بِذٰلِکَ غَیْرُ مَقْبُولٍ، لِـأَنَّ نَظْمَ الْقُرْآنِ الْکَرِیمِ یَأْبَاہُ حَیْثُ بَیَّنَ سُبْحَانَہ، أَوَّلًا الْمُحَرَّمَاتِ، ثُمَّ قَالَ عَزَّ شَأْنُہ، : (وَأُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِکُمْ)، وَفِیْہِ شَرْطٌ بِّحَسْبِ الْمَعْنٰی فَیُبْطَلُ تَحْلِیلَ الْفَرْجِ وَإِعَارَتَہ،، وَقَدْ قَالَ بِہِمَا الشِّیعَۃُ، ثُمَّ قَالَ جَلَّ وَعَلَا : (مُّحْصِنِینَ غَیْرَ مُسَافِحِینَ)، وَفِیہِ إِشَارَۃٌ إِلَی النَّہْيِ عَنْ کَوْنِ الْقَصْدِ مُجَرَّدَ قَضَاءِ الشَّہْوَۃِ وَصَبَّ الْمَاءِ وَاسْتِفْرَاغَ أَوْعِیَۃِ الْمَنِيِّ، فَبَطَلَتِ الْمُتْعَۃُ بِہٰذَا الْقَیْدِ، لِـأَنَّ مَقْصُودَ الْمَتَمَتِّعِ لَیْسَ إِلَّا ذَاکَ دُونَ التَّأَہُّلِ وَالِاسْتِیلاَدِ وَحِمَایَۃِ الذِّمَارُ وَالْعِرْضِ…. فَالْـإِحْصَانُ غَیْرُ حَاصِلٍ فِي امْرَأَۃِ الْمُتْعَۃِ أَصْلاً .
”یہ آیت متعہ کی حلت پر دلالت نہیں کرتی۔ اسے متعہ سے متعلق سمجھنا غلط ہے۔ بعض لوگوں کی ایسی تفسیر نا قابل قبول ہے۔ کیونکہ قرآنِ کریم کا سیاق و سباق اس سے انکاری ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے محرمات کا ذکر کیا، پھر فرمایا : (وَأُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِکُمْ) (ان کے علاوہ عورتیں تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں، بشر طیکہ تم حق مہر دے کر ان سے نکاح منعقد کرو۔) اس سے یہ شرط بھی اخذ ہوتی ہے کہ عورت اور اس کی شرمگاہ کی حلت کرائے پر حاصل کرنا حرام ہے۔ اس کے برعکس شیعہ ان دونوں ممنوعہ امور کے قائل ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (مُحْصِنِینَ غَیْرَ مُسَافِحِینَ) ‘تمہارا ارادہ پاکدامنی کا ہو، صرف شہوت نکالنے کا نہ ہو۔’ اس میں اشارہ ہے کہ صرف حصول شہوت کا مقصد منع ہے۔ اس قید سے متعہ باطل قرار پاتا ہے، کیونکہ متعہ کرنے والے شخص کا مقصود صرف یہی ہوتا ہے۔ اس کا مقصد گھر بسانا، اولاد کا حصول اورنسل و عزت کو محفوظ کرنا نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔ متعہ والی عورت سے پاکدامنی حاصل نہیں ہوتی۔”
(تفسیر روح المعاني للآلوسي : ٥/٦)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  (٦٦١۔٧٢٨ھ) اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں : اس آیت ِ کریمہ میں متعہ کے حلال ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے : (وَأُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِینَ غَیْرَ مُسَافِحِینَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَۃً وَّلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیمَا تَرَاضَیْتُمْ بِّہٖ مِنْ بَّعْدِ الْفَرِیضَۃِ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا. وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا أَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ) ‘ان (مذکورہ محرمات) کے علاوہ جو عورتیں ہیں، وہ تمھارے لیے حلال کر دی گئی ہیں۔ (شرط یہ ہے) کہ تم اپنے مال (مہر) کے بدلے انھیں حاصل کر کے ان سے نکاح کرو اور تمھاری نیت بدکاری کی نہ ہو، پھر جن سے مہر کے عوض تم فائدہ اٹھاؤ، انھیں ان کے مقرر کیے ہوئے مہر دے دو، اگر تم مہر مقرر کرلینے کے بعد اس (میں کمی بیشی) پر راضی ہوجاؤ، تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔ اور تم میں سے جو شخص آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، و ہ تمھاری ملکیت مومن لونڈیوں میں سے کسی لونڈی سے نکاح کرلے’۔ یہاں جن عورتوں سے فائدہ اٹھانے کی بات ہے، ان سے مراد وہ عورتیں ہیں، جن سے دخول ہو چکا ہے۔ نکاح کے بعد عورت سے دخول کرنے والے شخص کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو حق مہر ادا کرے۔ جس عورت کو دخول سے قبل ہی طلاق ہو جائے اور خاوند اس سے دخول کا فائدہ نہ اٹھا پایا ہو، وہ پورے حق مہر کی مستحق نہیں ہوتی، بلکہ اسے نصف مہر دیا جائے گا، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : ( وَکَیْفَ تَأْخُذُونَہ، وَقَدْ أَفْضٰی بَعْضُکُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَّأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیثَاقًا غَلِیظًا) ‘ تم ان سے مہر کیسے واپس لو گے، حالانکہ تم ایک دوسرے سے ملاپ کر چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے پختہ عہد لیا ہے؟’ اس آیت میں بھی نکاح کے بعد ملاپ حق مہر کی ادائیگی لازم کرنے کا سبب بتایا گیا ہے۔ وضاحت یوں ہے کہ اس آیت کو مال کے بدلے وقتی نکاح کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ ابدی نکاح ہی مکمل حق مہر ادا کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔ ضروری ہے کہ یہ آیت ابدی نکاح پر دلالت کرے۔ یہ دلالت خاص ہو یا عام۔ دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد لونڈیوں سے نکاح کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بات مطلق طور پر آزاد عورتوں سے نکاح کے متعلق تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ سلف کے ایک گروہ کی قراء ت یوں تھی کہ فما استمتعتم بہ منھنّ إلی أجل مسمّی ‘تم جس عورت سے ایک مقرر وقت تک فائدہ اٹھاؤ’، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قراء ت متواتر نہیں بلکہ اس کا زیادہ سے زیادہ رتبہ اخبار ِ آحاد کی طرح ہے۔ ہم اس بات کے انکاری نہیں کہ متعہ شروع اسلام میں حلال تھا، لیکن اس پر قرآنِ کریم دلالت کرتا ہے یا نہیں؟ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ الفاظ اگرچہ نازل ہوئے تھے، لیکن یہ مشہور قراء ت میں ثابت نہیں ہوئے، لہٰذا یہ منسوخ ہیں۔ ان کا نزول اس وقت ہوا ہو گا جب متعہ ابھی جائز تھا۔ متعہ حرام قرار دیا گیا تو یہ الفاظ منسوخ ہو گئے اور وقتی نکاح میں حق مہر کی ادائیگی کا حکم مطلق (ابدی) نکاح میں مہر کی ادائیگی پر تنبیہ کرنے کے لیے رہ گیا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا سکتا ہے کہ یہ دونوں قراء ت حق ہیں۔ جب متعہ حلال تھا تو حق مہر دینا واجب تھا۔ یہ آغاز اسلام میں جائز تھا۔ لہٰذا اس آیت میں متعہ کی حلت کا کوئی ثبوت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے لیے عورتوں سے مقررہ وقت تک متعہ کرنا حلال کر دیا گیا ہے، بلکہ فرمانِ باری تعالیٰ یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم نے فائدہ حاصل کیا ہے، ان کو حق مہر ادا کرو۔ عورت سے فائدہ اٹھانا حلال ہونے کی صورت میں ہو یا شبہے کی صورت میں، یہ آیت دونوں طرح کے فائدے کو شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنت ِ رسول اور اجماعِ امت دونوں دلائل سے نکاحِ فاسد میں حق مہر واجب ہے۔ فائدہ حاصل کرنے والا جب اس کام کو حلال سمجھتا ہو تو اس پر حق مہر واجب ہے۔ رہا حرام متعہ تو اس آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر وہ کسی عورت سے اس کی رضامندی سے بغیر نکاح کے فائدہ حاصل کرے گاتو یہ زنا ہو گا۔ اس میں کوئی حق مہر نہیں۔ اگر عورت کو مجبور کیا گیا ہو ،تو اس میں اختلاف مشہورہے۔
(منہاج السنۃ النبویۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ لابن تیمیۃ : ٢/١٥٥)
نکاحِ متعہ اور احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم :
نکاحِ متعہ پہلی دفعہ غزوہئ خیبر میں منع ہوا تھا، بعد میںفتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لئے اجازت دی گئی، پھر قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔
غزوہئ خیبر کے موقع پر ممانعت کی حدیث ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر 1 :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کو بتایا :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُتْعَۃِ، وَعَنْ لُّحُومِ الْحُمُرِ الْـأَہْلِیَّۃِ زَمَنَ خَیْبَرَ .
”غزوہئ خیبر کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا تھا۔”
(صحیح البخاري : ٥١١٥، صحیح مسلم : ١٤٠٧/٣٠)
ایک روایت کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کے الفاظ ہیں :
نَہٰی عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَاءِ یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ أَکْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْـإِنْسِیَّۃِ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہئ خیبر کے دن عورتوں سے نکاحِ متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔”
(صحیح البخاري : ٢/٦٠٦، ح : ٤٢١٦، صحیح مسلم : ١/٤٥٢، ح : ١٤٠٧)
صحیح مسلم کی روایت (١٤٠٧/٣١) ہے :
إِنَّہ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یُّلَیِّنُ فِي مُتْعَۃِ النِّسَائِ، فَقَالَ : مَہْلًا یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْہَا یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ لُّحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّۃِ .
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  کو متعہ کے باب میں نرمی اختیار کرتے دیکھا، تو فرمایا : ابن عباس! اس فتوے سے رُک جائیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہئ خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔”
صحیح مسلم (١٤٠٧/٣٢) کی ہی روایت میں ہے :
نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَاءِ یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ أَکْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّۃِ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہئ خیبر کے دن عورتوں سے نکاحِ متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔”
حدیث ِعلی رضی اللہ عنہ  اور علماء ِ حدیث :
اس حدیث کی صحت کے بارے میں اہل علم کی آراء ملاحظہ فرمائیں :
1    امام، ابو جعفر، احمد بن محمد، نحاس (م : ٣٣٨ھ) فرماتے ہیں :
وَلَا اخْتِلَافَ بَیْنَ الْعُلَمَاءِ فِي صِحَّۃِ الْإِسْنَادِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَاسْتِقَامَۃِ طَرِیقِہٖ بِرِوَایَتِہٖ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحْرِیمَ الْمُتْعَۃِ .
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ  سے مروی حرمت متعہ والی روایت کی صحت پر علما متفق ہیں۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص : ٣٢٢)
2    معروف محدث و مفسر، حافظ، ابو محمد، حسین بن مسعود، بغوی رحمہ اللہ  (م : ٥١٦ھ) فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّتَّفَقٌ عَلٰی صِحَّتِہٖ .
”اس حدیث کی صحت پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔”
(شرح السنّۃ : ٩/٩٩، ح : ٢٢٩٢)
3    حافظ، ابو الفرج، عبد الرحمن بن علی، ابن الجوزی رحمہ اللہ  (٥٠٨۔٥٩٧ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّہ، مُتَّفَقٌ عَلٰی صِحَّتِہٖ .
”بلاشبہ اس کے صحیح ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔”
(إعلام العالم بعد رسوخہ بناسخ الحدیث ومنسوخہ، ص : ٣٤٣)
4    حافظ، ابو الفضل، عبد الرحیم بن حسین، عراقی  رحمہ اللہ  (٧٢٥۔٨٠٦ھ) فرماتے ہیں :
وَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ .
”اس کی صحت پر اتفاق ہے۔”
(شرح البقرۃ والتذکرۃ : ٢/٦٦)
5    حافظ، ابو الحسن، علی بن محمد بن عبد الصمد، سخاوی  رحمہ اللہ  (٥٥٨۔٦٤٣ھ) بھی فرماتے ہیں :
وَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ .
”یہ حدیث متفق علیہ ہے۔”
(فتح المغیث : ٣/٣٥٠)
6    امیرالمومنین فی الحدیث، امام، ابو عبد اللہ، محمد بن اسماعیل، بخاری رحمہ اللہ  (١٩٤۔٢٥٦ھ) فرماتے ہیں :
وَبَیَّنَہ، عَلِيٌّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہ، مَنْسُوخٌ .
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کیا ہے کہ متعہ منسوخ ہو گیا ہے۔”
(صحیح البخاري، تحت الحدیث : ٥١١٩)
ایک شبہہ اور اس کا ازالہ :
بعض علما کا اس حدیث میں یوم خیبر والے الفاظ کو راوی کا وہم قرار دینا درست نہیں کیونکہ امام زہری رحمہ اللہ  کے تمام شاگرد یومِ خیبر کے الفاظ بیان کرنے میں متفق ہیں۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کے بیٹے سالم رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :
إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ عَنِ الْمُتْعَۃِ، فَقَالَ : حَرَامٌ، قَالَ : فَإِنَّ فُلَانًا یَّقُولُ فِیہَا، فَقَالَ : وَاللّٰہِ! لَقَدْ عُلِمَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّمَہَا یَوْمَ خَیْبَرَ، وَمَا کُنَّا مُسَافِحِینَ .
”ایک آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا : یہ حرام ہے۔ اس نے کہا : فلاں اسے جائز کہتا ہے، فرمایا : اللہ کی قسم! یہ طے شدہ بات ہے کہ غزوہئ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے حرام قرار دے دیا تھا۔ ہم زناکار نہیں۔”
(الموطّأ لابن وہب : ٢٤٩، صحیح أبي عوانۃ : ٣/٢٩، شرح معاني الآثار للطحاوي : ٣/٢٥، السنن الکبرٰی للبیہقي : ٧/٢٠٧، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو ”قوی”قرار دیا ہے۔
(التلخیص الحبیر : ٣/١٥٥)
معلوم ہوا کہ متعہ غزوہ خیبر کے موقع پر حرام ہو ا تھا۔
تنبیہ 1 :
علامہ، ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ  (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں :
”خیبر کے زمانہ میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس زمانہ میں متعہ حرام ہو، کیونکہ خیبر میں ساری کی ساری عورتیں یہودی تھیں، ان سے متعہ ممکن نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہی نہیں تھا، تو ان سے متعہ کیسے صحیح تھا؟ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح سورۃ المائدہ کی آیت (الْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ) کے نزول کے بعد جائز ہوا۔ یہ سورت بالکل آخری سورتوں میں سے ہے۔” (زاد المعاد : ٣/٤٦٠)
اس کے جواب میں شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
لَمْ یَقَعْ فِي الْحَدِیثِ التَّصْرِیحُ بِأَنَّہُمُ اسْتَمْتَعُوا فِي خَیْبَرَ، وَإِنَّمَا فِیہِ مُجَرَّدُ النَّہْيِ، فَیُؤْخَذُ مِنْہُ أَنَّ التَّمَتُّعَ مِنَ النِّسَاءِ کَانَ حَلَالًا .
”حدیث میں یہ صراحت تو نہیں ملتی کہ صحابہ کرام نے غزوہئ خیبر کے موقع پر فی الواقع متعہ کیا تھا۔ اس میں تو صرف ممانعت کا ذکر ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس دور میں متعہ حلال تھا۔”
(فتح الباري : ٩/١٧١)
نیز فرماتے ہیں :
یُمْکِنُ أَنْ یُّجَابَ بِأَنَّ یَہُودَ خَیْبَرَ کَانُوا یُصَاہِرُونَ الْـأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ قَبْلَ الْإِسْلَامِ، فَیَجُوزُ أَنْ یَّکُونَ ہُنَاکَ مِنْ نِّسَائِہِمْ مَّنْ وَّقَعَ التَّمَتُّعُ بِہِنَّ، فَلَا یَنْہَضُ الِاسْتِدْلَالُ بِمَا قَالَ .
”یہ بھی ممکن ہے کہ اوس و خزرج کی عورتوں سے متعہ ہوا ہو، کیوں کہ خیبر کے یہود اسلام سے قبل ان سے سسرالی رشتہ رکھتے تھے، لہٰذا ابن قیم رحمہ اللہ  کے بیان کردہ احتمال سے استدلال درست نہیں۔”
(فتح الباري : ٩/١٧٠)
تنبیہ 2 :
سنن نسائی کی ایک روایت (٣٣٦٩) میں یوم خیبر کی بجائے، یوم حنین کے الفاظ ہیں۔
یوم حنین کے الفاظ وہم پر مبنی ہیں۔ انہیں بیان کرنے میں عبد الوہاب ثقفی منفرد ہے۔ باقی سارے راوی یوم خیبر ہی بیان کرتے ہیں۔
ان الفاظ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
وَالظَّاہِرُ أَنَّہ، تَصْحِیفٌ مِّنْ خَیْبَرَ .
”ظاہر ہے کہ یہ خیبر سے تصحیف (پڑھنے میں غلطی) ہوئی ہے۔”
(التلخیص الحبیر : ٣/١٥٥)
اب فتح مکہ کے موقع پر ہونے والی ابدی حرمت ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر 2 ـ:
سیدنا سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنِّي قَدْ کُنْتُ أَذِنْتُ لَکُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَائِ، وَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَمَنْ کَانَ عِنْدَہ، مِنْہُنَّ شَيْءٌ فَلْیُخَلِّ سَبِیلَہ،، وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوہُنَّ شَیْئًا .
”لوگو! میں نے نکاح متعہ کی اجازت دی تھی، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔ جس کے پاس نکاحِ متعہ والی کوئی عورت ہو، وہ اس کا راستہ چھوڑ دے اور جو آپ نے ان کو دے دیا، اس میں سے کچھ واپس نہ لیں۔”
(صحیح مسلم : ١٤٠٦/٢١)
صحیح مسلم (١٤٠٦) میں یہ الفاظ بھی ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَائِمًا بَّیْنَ الرُّکْنِ وَالْبَابِ، وَہُوَ یَقُولُ .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ آپ حجر اسود اور باب کعبۃ کے درمیان کھڑے ہوئے یہ فرما رہے تھے۔”
دوسری روایت (صحیح مسلم : ١٤٠٦/٢٢) میں ہے :
أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمُتْعَۃِ عَامَ الْفَتْحِ، حِینَ دَخَلْنَا مَکَّۃَ، ثُمَّ لَمْ نَخْرُجْ مِنْہَا حَتّٰی نَہَانَا عَنْہَا .
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ والے سال مکہ میں داخل ہوتے ہوئے متعہ کی اجازت دی، پھر نکلنے سے پہلے منع فرما دیا۔”
تیسری روایت (صحیح مسلم : ١٤٠٦/٢٥) کے الفاظ یوں ہیں :
نَہٰی یَوْمَ الْفَتْحِ عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَاءِ .
”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں نکاح متعہ سے منع فرما یا۔”
چوتھی روایت میں یہی بات یوں بیان ہوئی ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الْمُتْعَۃِ، وَقَالَ : أَلَا إِنَّہَا حَرَامٌ مِّنْ یَّوْمِکُمْ ہٰذَا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ کَانَ أَعْطٰی شَیْئًا فَلَا یَأْخُذْہُ .
” اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعہ سے منع کیا اور ارشاد فرمایا : خبردار! یہ آج کے دن سے قیامت تک کے لیے حرام ہو گیا ہے۔ جس نے (کسی عورت کو متعہ کے عوض) کوئی چیز دی ہے، وہ واپس نہ لے۔”
(صحیح مسلم : ١٤٠٦/٢٨)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہئ خیبر کے موقع پر نکاحِ متعہ حرام کیا گیا، پھر بہت ہی محدود عرصے، تقریباً تین دن، کے لیے فتح مکہ کے موقع پر اس کی اجازت دی گئی اور اس کے بعد فتح مکہ والے دن قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔
متعہ کی حرمت کے حوالے سے دیگر روایات کا جائزہ :
متعہ کی حرمت اور غزوہئ اوطاس !
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
رَخَّصَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ أَوْطَاسٍ فِي الْمُتْعَۃِ ثَلَاثًۤا، ثُمَّ نَہٰی عَنْہَا .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اوطاس والے سال متعہ کی تین دن اجازت دی، پھر اس سے منع فرما دیا۔”
(صحیح مسلم : ١٤٠٥/١٨)
ظاہری طور پر ان احادیث میں قیامت تک متعہ حرام ہونے کا تعلق الگ الگ موقع سے ہے، لیکن حقیقت میں یہ دونوں ایک ہی بات بیان کر رہی ہیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ  جمع و تطبیق کی صورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَعَامُ أَوْطَاسٍ وَّعَامُ الْفَتْحِ وَاحِدٌ، فَأَوْطَاسٌ وَّإِنْ کَانَتْ بَعْدَ الْفَتْحِ، فَکَانَتْ فِي عَامِ الْفَتْحِ بَعْدَہ، بِیَسِیرٍ، فَمَا نَہٰی عَنْہُ؛ لَا فَرْقَ بَیْنَ أَنْ یُّنْسَبَ إِلٰی عَامِ أَحَدِہِمَا أَوْ إِلَی الْآخَرِ، وَفِي رِوَایَۃِ سَبْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ مَّا دَلَّ عَلٰی أَنَّ الْإِذْنَ فِیہِ کَانَ ثَلَاثًا، ثُمَّ وَقَعَ التَّحْرِیمُ، کَمَا ہُوَ فِي رِوَایَۃِ سَلَمَۃَ بْنِ الْـأَکْوَعِ، فَرِوَایَتُہُمَا تَرْجِعُ إِلٰی وَقْتٍ وَّاحِدٍ، ثُمَّ إِنْ کَانَ الْإِذْنُ فِي رِوَایَۃِ سَلَمَۃَ بْنِ الْـأَکْوَعِ بَعْدَ الْفَتْحِ فِي غَزْوَۃِ أَوْطَاسٍ، فَقَدْ نُقِلَ نَہْیُہ، عَنْہَا بَعْدَ الْإِذْنِ فِیہَا، وَلَمْ یَثْبُتِ الْإِذْنُ فِیہَا بَعْدَ غَزْوَۃِ أَوْطَاسٍ، فَبَقِيَ تَحْرِیمُہَا إِلَی الْـأَبَدِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ! .
”غزوہئ اوطاس اور فتح مکہ کا سال ایک ہی ہے۔ اوطاس کا واقعہ اگرچہ بعد میں وقوع پذیر ہوا، لیکن یہ اسی سال فتح مکہ کے کچھ ہی عرصہ بعد ہوا تھا، لہٰذا اس ممانعت کو غزوہئ اوطاس کے سال کی طرف منسوب کر لیں یا فتح مکہ کے سال کی طرف، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیدنا سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ  کی بیان کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تین دن تک متعہ کی اجازت تھی، پھر حرمت نازل ہو گئی۔ یہی بات سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ  کی روایت میں بیان ہوئی ہے۔ یوں دونوں روایات ایک ہی وقت بتا رہی ہیں۔ اگر سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ  کی روایت میں واقعۃً فتح مکہ کے بعد غزوہئ اوطاس ہی میں متعہ کی اجازت بیان ہوئی ہو، تو بھی اس اجازت کے بعد متعہ سے ممانعت مروی ہے اور اس کے بعد اس کی اجازت بالکل مروی نہیں، لہٰذا اس طرح بھی متعہ کی ابدی حرمت باقی ہے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : ٧/٢٠٤)
یعنی فتح مکہ اور غزوہئ اوطاس ایک ہی سال ہوئے، لہٰذا کسی نے اسے فتح مکہ کی طرف منسوب کیا اور کسی نے غزوہئ اوطاس کی طرف۔ یہ واقعہ ایک ہی ہے اور دراصل فتح مکہ کے موقع پر ہی متعہ کی ابدی حرمت کا اعلان فرما دیا گیا تھا۔
ایک اشکال اور اس کا ازالہ :
یہاں کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب متعہ غزوہئ خیبر میں حرام ہونے کے بعد فتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لیے دوبارہ جائز ہوا تھا اور پھر ابدی طور پر حرام ہوا تھا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کو چاہیے تھا کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  کو متعہ کے حوالے سے فتح مکہ والی حرمت ہی ذکر کرتے، نہ کہ غزوہئ خیبر والی، جو بعد میں منسوخ بھی ہو گئی تھی؟
اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
وَإِمَّا أَنْ یَّکُونَ الْإِذْنُ الَّذِي وَقَعَ عَامَ الْفَتْحِ لَمْ یَبْلُغْ عَلِیًّا، لِقِصَرِ مُدَّۃِ الْإِذْنِ، وَہُوَ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ .
”ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جو اجازت دی گئی تھی، وہ بہت مختصر عرصے، یعنی صرف تین دن کے لیے تھی، اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کو اطلاع نہ ہو سکی ۔”
(فتح الباري في شرح صحیح البخاري : ٩/١٧١)
نیز فرماتے ہیں :
یُمْکِنُ الِانْفِصَالُ عَنْ ذٰلِکَ بِأَنَّ عَلِیًّا لَّمْ تَبْلُغْہُ الرُّخْصَۃُ فِیہَا یَوْمَ الْفَتْحِ، لِوُقُوعِ النَّہْيِ عَنْہَا عَنْ قُرْبٍ .
”اس اشکال کو دور کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کو فتح مکہ کے دن متعہ کے بارے میں اجازت معلوم نہ ہو سکی، کیونکہ فوراً ہی تو دوبارہ متعہ سے منع فرما دیا گیا تھا۔”
(فتح الباري : ٩/١٦٩)
متعہ کی حرمت اور حجۃ الوداع:
گزشتہ صفحات میں یہ بات ثابت کی جا چکی ہے کہ نکاحِ متعہ کی حرمت ایک بار غزوہئ خیبر کے موقع پر ہوئی، پھر فتح مکہ کے سال تین دن کے لیے اس کی رخصت دی گئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیامت تک کے لیے اسے حرام فرما دیا۔ اس حقیقت کے برعکس بعض روایات میں حجۃ الوداع کا تذکرہ ہے، اس بارے میں تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ  سے منسوب ایک روایت ہے :
سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، یَنْہٰی عَنْ نِّکَاحِ الْمُتْعَۃِ .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو حجۃ الوداع کے موقع پر نکاحِ متعہ سے منع فرماتے ہوئے سنا۔”
(مسند الإمام أحمد : ٣/٤٠٤، سنن أبي داو،د : ٢٠٧٢)
یہ روایت ”شاذ”(ضعیف) ہے۔ اسماعیل بن امیہ راوی نے اسے بیان کرنے میں امام زہری رحمہ اللہ  کے شاگردوں کی ایک بڑی جماعت، جن میں معمر بن راشد، صالح بن کیسان، سفیان بن عیینہ، عمرو بن حارث شامل ہیں، کی مخالفت کی ہے۔
اس بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
وَرِوَایَۃُ الْجَمَاعَۃِ أَوْلٰی .
”امام زہری رحمہ اللہ  سے بیان کرنے والے زیادہ شاگردوں کی روایت راجح ہے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : ٧/٢٠٤)
پھر اس روایت میں صرف متعہ سے ممانعت کا ذکر ہے، متعہ کی اجازت کا نہیں۔ اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے، تو اس کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعہ کی ابدی حرمت کا اعلان تو فتح مکہ والے سال ہی فرما دیا تھا، البتہ مزید تاکید کے لیے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے حجۃ الوداع کے موقع پر بھی اس کا اعلان فرما دیا۔
اسی بات کو بیان کرتے ہوئے شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
فَلَعَلَّہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَادَ إِعَادَۃَ النَّہْيِ لِیَشِیعَ وَیَسْمَعَہ، مَنْ لَّمْ یَسْمَعْہُ قَبْلَ ذٰلِکَ .
”شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ممانعت کا اعلان دوبارہ اس لیے کیا ہو کہ یہ بات خوب نشر ہو جائے اور جو پہلے نہیں سن سکا، اب سن لے۔”
(فتح الباري : ٩/١٧٠)
سنن ابن ماجہ (١٦٩٢) وغیرہ میں ربیع بن سبرہ رضی اللہ عنہ  سے بیان کرتے ہوئے عبد العزیز بن عمر راوی نے بھی حجۃ الوداع کے ”شاذ” الفاظ بیان کیے ہیں، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
وَکَذٰلِکَ رَوَاہُ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْـأَکَابِرِ؛ ابْنُ جُرَیْجٍ وَّالثَّوْرِيُّ وَغَیْرُہُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَر، وَہُوَ وَہْمٌ، فَرِوَایَۃُ الْجُمْہُورِ عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَبْرَۃَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ زَمَنَ الْفَتْحِ .
”اسی طرح اکابر محدثین کی ایک جماعت، مثلاً ابن جریج اور سفیان ثوری وغیرہ نے عبد العزیز بن عمر سے حجۃ الوداع کے الفاظ نقل کیے ہیں، لیکن یہ (عبد العزیز بن عمر کا) وہم ہے۔ زیادہ راویوں نے ربیع بن سبرہ سے یہی بیان کیا ہے کہ متعہ کی حرمت فتح مکہ کے موقع پر ہوئی تھی۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : ٧/٢٠٧)
ثابت ہوا کہ صحیح الفاظ وہی ہیں، جو صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعہ سے فتح مکہ والے سال منع فرمایا تھا۔
اسی بارے میں شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
وَأَمَّا حَجَّۃُ الْوَدَاعِ، فَہُوَ اخْتِلَافٌ عَلَی الرَّبِیعِ بْنِ سَبْرَۃَ، وَالرِّوَایَۃُ عَنْہُ بِأَنَّہَا فِي الْفَتْحِ أَصَحُّ وَأَشْہَرُ .
”رہا (متعہ کی حرمت کے سلسلے میں) حجۃ الوداع (کا ذکر )، تو اس بارے میں ربیع بن سبرہ سے بیان کرنے میں کسی سے اختلاف ہوا ہے۔ ان سے صحیح ترین اور مشہور ترین روایت یہی ہے کہ متعہ کی حرمت فتح مکہ کے موقع پر ہوئی۔”
(فتح الباري : ٩/١٧٠)
یاد رہے کہ طیوریات (٢/٧٤٠) والی روایت امام زہری رحمہ اللہ  کی ”تدلیس” کی وجہ سے ”ضعیف”ہے۔
متعہ کی حرمت اور غزوہئ تبوک :
فقیہ ِامت، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَنَزَلْنَا ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ، فَرَآی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَصَابِیحَ، وَرَآی نِسَائً یَّبْکِینَ، فَقَالَ : مَا ہَذَا؟، فَقِیلَ : نِسَاءٌ تُمُتِّعَ مِنْہُنَّ یَبْکِینَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَرَّمَ [ أَوْ قَالَ : ہَدَمَ] الْمُتْعَۃَ النِّکَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالْعِدَّۃُ، وَالْمِیرَاثُ .
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت میں غزوہئ تبوک کے لیے نکلے۔ دورانِ سفر ہم ثنیۃ الوداع کے مقام پر ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چراغوں کو جلتے اور عورتوں کو روتے دیکھا، تو فرمایا : یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا : یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھا، وہ رو رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : نکاح ، طلاق، عدت اور وراثت نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔”
(مسند أبي یعلٰی : ٦٦٢٥، سنن الدارقطني : ٣/٢٥٩، شرح معاني الآثار للطحاوي : ٣/٢٦، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ  (٤١٤٩) نے ”صحیح”کہا ہے، جبکہ حافظ ابن قطان فاسی (بیان الوہم والإیہام الواقعین في کتاب الأحکام : ٥/٨٤) اور حافظ ابن حجر (التلخیص الحبیر : ٣/١٥٤، ح : ١٥٠٠)H نے اس کی سند کو ”حسن”قرار دیا ہے۔
اس کا راوی مؤمل بن اسماعیل جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ثقہ ، حسن الحدیث” ہے۔
اس حدیث سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ غزوہئ تبوک کے موقع پر متعہ کی حرمت ہوئی، بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے متعہ کی حرمت نازل ہو چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس موقع پر اس کو دوبارہ بیان فرما دیا۔
شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
وَأَمَّا قِصَّۃُ تَبُوکُ؛ فَلَیْسَ فِي حَدِیثِ أَبِي ہُرَیْرَۃَ التَّصْرِیحُ بِأَنَّہُمُ اسْتَمْتَعُوا مِنْہُنَّ فِي تِلْکَ الْحَالَۃِ، فَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ ذٰلِکَ وَقَعَ قَدِیمًا، ثُمَّ وَقَعَ التَّوْدِیعُ مِنْہُنَّ حِینَئِذٍ وَّالنَّہْيُ، أَوْ کَانَ النَّہْيُ وَقَعَ قَدِیمًا، فَلَمْ یَبْلُغْ بَعْضَہُمْ فَاسْتَمَرَّ عَلَی الرُّخْصَۃِ .
”غزوہئ تبوک کے سلسلے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ صحابہ کرام نے اس موقع پر عورتوں سے متعہ کیا۔ ممکن ہے کہ متعہ تو پہلے ہی ہوا ہو، لیکن عورتوں سے جدائی اس وقت ہوئی ہو اور اسی وقت یہ ممانعت بھی بیان ہو گئی ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ممانعت پہلے سے ہو، لیکن بعض صحابہ کرام کو اس کا علم نہ ہوا ہو اور وہ اس رخصت پر عمل کرتے رہے ہوں۔”
(فتح الباري : ٩/١٧٠)
سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما  کا بیان ہے :
خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، حَتّٰی إِذَا کُنَّا عِنْدَ الْعَقَبَۃِ مِمَّا یَلِي الشَّامَ، جَاءَ تْ نِسْوَۃٌ، فَذَکَرْنَا تَمَتُّعَنَا، وَہُنَّ یَجُلْنَ فِي رِحَالِنَا، أَوْ قَالَ : یَطُفْنَ فِي رِحَالِنَا، فَجَاءَ نَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَیْہِنَّ، فَقَالَ : مَنْ ہٰؤُلَاءِ النِّسْوَۃُ؟، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نِسْوَۃٌ تَمَتَّعْنَا مِنْہُنَّ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتَّی احْمَرَّتْ وَجَنَتَاہُ، وَتَمَعَّرَ لَوْنُہ،، وَاشْتَدَّ غَضَبُہ،، فَقَامَ فِینَا، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ نَہٰی عَنِ الْمُتْعَۃِ، فَتَوَادَعْنَا یَوْمَئِذٍ الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ، وَلَمْ نَعُدْ، وَلَا نَعُودُ لَہَا أَبَدًا، فَبِہَا سُمِّیَتْ یَوْمَئِذٍ ثَنِیَّۃُ الْوَدَاعِ .
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں غزوہئ تبوک کے لیے نکلے۔ جب ہم شام کی طرف عقبہ کے قریب پہنچے، توکچھ عورتیں آئیں۔ ہم نے ان سے متعہ کا معاہدہ کر لیا، وہ ہمارے خیموں میں گھوم پھر رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے۔ عورتوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے استفسار فرمایا کہ یہ کون ہیں؟ عرض کیا : اللہ کے رسول! یہ وہ عورتیں ہیں، جن سے ہم نے متعہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  غصے میں آ گئے، حتی کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور چہرہئ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خطبے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی حمد و ثناکی، پھر ہمیں متعہ سے منع فرما دیا۔ ہم مردوں اور عورتوں نے اسی وقت جدائی اختیار کر لی۔ دوبارہ کبھی ایسا نہیں کیا، نہ اب کبھی کریں گے۔ اسی بنا پر اس جگہ کا نام ثنیۃ الوداع (جدائی کی گھاٹی) پڑ گیا۔”
(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار، ص : ١٧٨، نصب الرایۃ للزیلعي : ٣/١٧٩)
لیکن یہ روایت باطل (جھوٹی) ہے، کیونکہ :
1    اس کا راوی عباد بن کثیر ”متروک” ہے۔
2    عبد اللہ بن محمد بن عقیل راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔ اس کے بارے میں حافظ نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
ضَعِیفٌ عِنْدَ الْـأَکْثَرِینَ .
”اکثر محدثین کرام نے اسے ضعیف کہا ہے۔”
(المجموع شرح المہذّب : ١/١٥٥)
علامہ مناوی رحمہ اللہ  حافظ ابو الفتح یعمری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ لِسُوءِ حِفْظِہٖ .
”جمہور محدثین کرام نے اسے حافظے کی خرابی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔”
(فیض القدیر : ٥/٥٢٧)
متعہ اور عمرۃ القضا:
امام معمر اور امام حسن بصریH کی طرف منسوب ہے کہ :
مَا حَلَّتِ الْمُتْعَۃُ قَطُّ، إِلَّا ثَلَاثًا فِي عُمْرَۃِ الْقَضَائِ، مَا حَلَّتْ قَبْلَہَا وَلَا بَعْدَہَا .
”متعہ صرف عمرۃ القضاء کے دوران تین دن حلال ہوا تھا۔ اس سے پہلے یا بعد کبھی حلال نہیں ہوا۔”
(مصنّف عبد الرزّاق : ٧/٥٠٣، ٥٠٤، ح : ١٤٠٤٠)
یہ قول امام عبد الرزاق رحمہ اللہ  کی ”تدلیس”کی وجہ سے ”ضعیف”ہے۔
کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے متعہ کو حرام کیا تھا؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں متعہ حلال تھا، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے اپنے دور ِخلافت میں اس کو حرام قرار دیاتھا۔ آئیے ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں :
صحابی ِرسول، سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
کُنَّا نَسْتَمْتِعُ بِالْقَبْضَۃِ مِنَ التَّمْرِ وَالدَّقِیقِ، الْـأَیَّامَ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَکْرٍ، حَتّٰی نَہٰی عَنْہُ عُمَرُ، فِي شَأْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ .
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد ِمبارک اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ  کے دورِ خلافت میں کھجوروں اور آٹے کی ایک مٹھی کے عوض متعہ کیا کرتے، حتی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے عمرو بن حریث کے معاملے میں ہمیں اس سے منع فرما دیا۔”
(صحیح مسلم : ١٤٠٥/١٦)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اتباع میں متعہ سے روکا، یہ نہیں کہ انہوں نے خود اسے حرام کیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ  کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے متعہ کی حرمت معلوم نہیں ہو سکی تھی، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے بتانے پر معلوم ہو گئی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے بھی اپنے دور ِخلافت میں متعہ سے روکا، تو یہی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے حرام کر دیا تھا، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں :
لَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لَنَا فِي الْمُتْعَۃِ ثَلَاثًا، ثُمَّ حَرَّمَہَا، وَاللّٰہِ! لَا أَعْلَمُ أَحَدًا یَّتَمَتَّعُ وَہُوَ مُحْصِنٌ، إِلَّا رَجَمْتُہ، بِالْحِجَارَۃِ، إِلَّا أَنْ یَّأْتِیَنِي بِأَرْبَعَۃٍ یَّشْہَدُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ أَحَلَّہَا بَعْدَ إِذْ حَرَّمَہَا .
”جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  خلیفہ بنے، تو انہوں نے لوگوں سے یوں خطاب فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں (فتح مکہ کے موقع پر) تین دن متعہ کی اجازت دی، پھر اسے حرام کر دیا۔ اللہ کی قسم! میں اگر کسی بھی شادی شدہ کو متعہ کرتا پاؤں گا، تو اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا، سوائے اس صورت کے کہ وہ اس پرچار گواہ لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعہ کو حرام کرنے کے بعد پھر حلال کر دیا تھا۔”
(سنن ابن ماجہ : ١٩٦٣، وسندہ، حسنٌ)
اسی لیے شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :
ثَبَتَ نَہْيُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہَا فِي حَدِیثِ الرَّبِیعِ ابْنِ سَبْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ أَبِیہِ، بَعْدَ الْإِذْنِ فِیہِ، وَلَمْ نَجِدْ عَنْہُ الْإِذْنَ فِیہِ بَعْدَ النَّہْيِ عَنْہُ، فَنَہْيُ عُمَرَ مُوَافِقٌ لِّنَہْیِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ : وَتَمَامُہ، أَنْ یُّقَالَ لَعَلَّ جَابِرًا وَّمَنْ نُّقِلَ عَنْہُ اسْتِمْرَارُہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ بَعْدَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی أَنْ نَّہٰی عَنْہَا عُمَرُ لَمْ یَبْلُغْہُمُ النَّہْيُ، وَمِمَّا یُسْتَفَادُ أَیْضًا أَنَّ عُمَرَ لَمْ یَنْہَ عَنْہَا اجْتِہَادًا، وَإِنَّمَا نَہٰی عَنْہَا مُسْتَنِدًا إِلٰی نَہْيِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ وَقَعَ التَّصْرِیحُ عَنہُ بِذٰلِکَ فِیمَا أَخْرَجَہُ ابْنُ مَاجَہْ مِنْ طَرِیقِ أَبِي بَکْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : لَمَّا وَلِيَ عُمَرُ خَطَبَ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لَنَا فِي الْمُتْعَۃِ ثَلَاثًا، ثُمَّ حَرَّمَہَا .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا متعہ کی اجازت دینے کے بعد اس سے منع کرنا سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ  کی بیان کردہ حدیث میں ثابت ہے، جبکہ ممانعت کے بعد اس کی اجازت ثابت نہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کا متعہ سے منع کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ممانعت کی موافقت میں تھا۔ یہ بات تب سمجھ میں آتی ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ  وغیرہ (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد متعہ کرتے رہے اور ان کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے روکا ) کوممانعت کا علم نہیں ہوا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے متعہ سے روکنے کا عمل اپنے اجتہاد سے نہیں کیا، بلکہ اس کی دلیل انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے منع کرنے ہی کو بنایا تھا۔ اس بات کی تصریح سنن ابن ماجہ کی اس روایت میں موجود ہے، جسے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے بیان کیاہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  خلیفہ بنے تو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں (فتح مکہ کے موقع پر) تین دن متعہ کی اجازت دی تھی، پھر اس سے (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے) منع فرما دیا۔”
(فتح الباري : ٩/١٧٢)
نیز یہ حدیث تو اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ  کے نزدیک بھی متعہ شریعت ِ اسلامیہ میں منسوخ اور حرام تھا، اسی لیے تو وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے بتانے پر اس کے قائل ہو گئے، ورنہ جس چیز کی رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دی ہو، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  اس کو کیسے حرام کر سکتے ہیں اور ان کے کہنے پر دوسرے صحابہ کرام کیونکر اس سے رُک سکتے ہیں؟
جیسا کہ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ  (٢٣٨۔٣٢١ھ) فرماتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ جَابِرٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ : کُنَّا نَتَمَتَّعُ حَتّٰی نَہَانَا عَنْہَا عُمَرُ، فَقَدْ یَجُوزُ أَنْ یَّکُونَ لَمْ یَعْلَمْ بِتَحْرِیمِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِیَّاہَا، حَتّٰی عَلِمَہ، مِنْ قَوْلِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَفِي تَرْکِہٖ مَا قَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَبَاحَہ، لَہُمْ، دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْحُجَّۃَ قَدْ قَامَتْ عِنْدَہ، عَلٰی نَسْخِ ذٰلِکَ وَتَحْرِیمِہٖ .
”رہا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ  (صحیح مسلم : ١٤٠٥) کا یہ قول کہ ہم متعہ کرتے رہے، حتی کہ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  نے ہمیں اس سے روکا، تو ہو سکتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا متعہ سے روکنا معلوم نہ ہوا ہو اور اس ممانعت کا علم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کے روکنے سے ہی ہوا ہو۔ پھر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ  کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جائز کی ہوئی رخصت سے رُک جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس کا منسوخ اور حرام ہونا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے) ثابت ہو چکا تھا۔”
(شرح معاني الآثار : ٣/٢٦)
علامہ ابو الفتح نصر بن ابراہیم المقدسی رحمہ اللہ  (م ٤٩٠ھ) فرماتے ہیں :
وَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی صِحَّۃِ مَا قُلْنَاہُ مِنَ الْـإِجْمَاعِ عَلٰی تَحْرِیمِہَا، لِـأَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ فِي ہٰذِہِ الْـأَخْبَارِ، وَفِیمَا تَقَدَّمَہَا نَہٰی عَنْہَا عَلَی الْمِنْبَرِ وَتَوَعَّدَ عَلَیْہَا، وَغَلَّظَ أَمْرَہَا، وَذَکَرَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّمَہَا وَنَہٰی عَنْہَا، وَذٰلِکَ بِحَضْرَۃِ الْمُہَاجِرِینَ وَالْـأَنْصَارِ، فَلَمْ یُعَارِضْہُ أَحَدٌ مِّنْہُمْ وَلَا رَدَّ عَلَیْہِ قَوْلَہ، فِي ذٰلِکَ، مَعَ مَا کَانُوا عَلَیْہِ مِنَ الْحِرْصِ عَلٰی إِظْہَارِ الْحَقِّ وَبَیَانِ الْوَاجِبِ، وَرَدِّ الْخَطَإِ کَمَا وَصَفَہُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہ، فِي ذٰلِکَ، أَلَا تَرٰی أَنَّ أَبِيِّ بْنَ کَعْبٍ عَارَضَہ، فِي مُتْعَۃِ الْحَجِّ، وَقَدْ عَارَضَہ، مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فِي رَجْمِ الْحَامِلِ، لِـأَنَّہ، لَا یَجُوزُ لِمِثْلِہِمُ الْمُدَاہَنَۃُ فِي الدِّینِ وَلَا السُّکُوتُ عَلَی اسْتِمَاعِ الْخَطَإِ، لَا سِیَّمَا فِیمَا ہُوَ رَاجِعٌ إِلَی الشَّرِیعَۃِ، وَثَابِتٌ فِي أَحْکَامِہَا عَلَی التَّأْبِیدِ، فَلَمَّا سَکَتُوا عَلٰی ذٰلِکَ وَلَمْ یُنْکِرْہُ أَحَدٌ مِّنْہُمْ، عُلِمَ أَنَّ ذٰلِکَ ہُوَ الْحَقَّ وَأَنَّہ، ثَابِتٌ فِي الشَّرِیعَۃِ مِنْ نَّسْخِ الْمُتْعَۃِ وَتَحْرِیمِہَا کَمَا ثَبَتَ عِنْدَہ،، فَصَارَ ذٰلِکَ کَأَنَّ جَمِیعَہُمْ قَرَّرُوا تَحْرِیمَہَا وَتَثَبَّتُوا مِنْ نَّسْخِہَا، فَکَانَتْ حَرَاماً عَلَی التَّأْیِیدِ، وَقَدْ رَوٰی ذٰلِکَ جَمَاعۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ سِوٰی عُمَرَ، فَرُوِيَ تَحْرِیمُہَا عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَّعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَّعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ، لِـأَنَّہ، رَجَعَ عَنْ إِبَاحَتِہَا لَمَّا بَانَ لَہ، صَوَابُ ذٰلِکَ، وَنُقِلَ إِلَیْہِ تَحْرِیمُہَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ مَذْہَبُ التَّابِعِینَ وَالْفُقَہَاءِ وَالْـأَئِمَّۃِ أَجْمَعِینَ، وَلَوْ لَمْ یَقُلْ بِتَحْرِیمِ الْمُتْعَۃِ إِلَّا وَاحِدٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ إِذْ لَمْ یَکُنْ لَّہ، فِیہِمْ مُّخَالِفٌ لَّوَجَبَ عَلَیْنَا الْـأَخْذُ بِقَوْلِہٖ، وَالْمَصِیرُ إِلٰی عِلْمِہٖ لِـأَنَّہ، لَمْ یَقُلْ ذٰلِکَ إِلَّا عَنْ عِلْمٍ ثَاقِبٍ، وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلٰی ذٰلِکَ؟ فَکَانَ مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ وَاسْتَحَلَّ نِکَاحَ الْمُتْعَۃِ مُخَالِفاً لِّلْـإِجْمَاعِ مُعَانِداً لِّلْحَقِّ وَالصَّوَابِ .
”یہ بات ہمارے دعویئ اجماع کی صحت پر دلیل ہے، کیونکہ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  بر سر منبر متعہ سے منع فرمایا، اس فعل سے ڈرایا اور اس معاملے کو گھمبیر قرار دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو حرام قرار دے کر اس سے منع فرما دیا تھا۔ یہ ساری کارروائی مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی موجودگی میں انجام پائی، لیکن کسی نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے روک ٹوک کی نہ ردّ کیا۔ حالانکہ صحابہ کرام اظہار ِحق، بیان ِواجب اور غلطی ردّ کرنے کے شیدائی تھے ، جیسا کہ ان کی یہ صفت اللہ تعالیٰ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی بیان کی ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  سے حج تمتع کے بارے میں اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  نے ان سے حاملہ کو رجم کرنے کے معاملے میں روک ٹوک کی تھی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام جیسے (مضبوط ایمان والے) لوگوں سے دین کے حوالے سے مداہنت اور غلط بات سن کر خاموشی ممکن نہیں، خصوصاً ایسے معاملے میں جو شریعت سے تعلق رکھتا ہو اور تا ابد ، شریعت میں موجود رہنے والا ہو۔ جب تمام صحابہ کرام خاموش ہو گئے اور کسی نے انکار نہیں کیا تو معلوم ہو گیا کہ یہی حق ہے اور متعہ کا منسوخ اور حرام ہونا ہی شریعت میں ثابت ہے ، جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے نزدیک تھا۔ یہ معاملہ تمام صحابہ کرام کے متعہ کے حرام اور منسوخ ہونے کا اقرار کرنے کے مترادف ہے، لہٰذا یہ تا ابد حرام ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے علاوہ بھی صحابہ کرام کی ایک جماعت نے اس بارے میں احادیث بیان کی ہیں۔ متعہ کا حرام ہونا سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا عبد اللہ بن عمر، سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا عبد اللہ بن زبیر اور سیدنا عبد اللہ بن عباسy سے مروی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے حق واضح ہونے اور متعہ کی حرمت پر حدیث ِ رسول پہنچنے پر رجوع فرما لیا تھا۔ یہی مذہب تمام تابعین، فقہائے کرام اور ائمہ دین کا ہے۔ اگر بالفرض متعہ کو صرف ایک صحابی ِرسول ہی حرام قرار دیتے اور کوئی صحابی اس معاملے میں ان کا مخالف نہ ہوتا تو ہم پر اس صحابی کے قول و علم کی پیروی لازم تھی، کیونکہ صحابی ایسی بات صرف ٹھوس علم کی بنیاد پر ہی کہتا ہے۔ اس پر صحابہ کرام نے اجماع کر لیا ہے۔ اب جو شخص اس کی مخالفت کرتے ہوئے نکاحِ متعہ کو حلال سمجھتا ہے وہ اجماع کا مخالف اور حق و صواب کا دشمن ہے۔”
(تحریم نکاح المتعۃ لأبي الفتح المقدسي، ص : ٧٧)
علامہ فخر رازی رحمہ اللہ  (٥٤٤۔٦٠١ھ)، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے متعہ کے متعلق خطاب کے بارے میں لکھتے ہیں :
ذَکَرَ ہٰذَا الْکَلَامَ فِي مَجْمَعِِ الصَّحَابَۃِ وَمَا أَنْکَرَ عَلَیْہِ أَحَدٌ، فَالْحَالُ ہٰہُنَا لَا یَخْلُو إِمَّا أَنْ یَّقَالَ : إِنَّہُمْ کَانُوا عَالِمِینَ بِحُرْمَۃِ الْمُتْعَۃِ فَسَکَتْوا، أَوْ کَانُوا عَالِمِینَ بِأَنَّہَا مُبَاحَۃٌ وَّلٰکِنَّہُمْ سَکَتُوا عَلٰی سَبِیلِ الْمُدَاہَنَۃِ، أَوْ مَا عَرَفُوا إِبَاحَتَہَا وَلَا حُرْمَتَہَا، فَسَکَتُوا لِکَوْنِہِمْ مُتَوَقِّفِینَ فِي ذٰلِکَ، وَالْـأَوَّلُ ہُوَ الْمَطُلُوبُ، وَالثَّانِي یُوجِبُ تَکْفِیرَ عُمَرَ، وَتَکْفِیرَ الصَّحَابَۃِ لِـأَنَّ مَنْ عَلِمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَکَمَ بِإِبَاحَۃِ الْمُتْعَۃِ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ مَّحْظُورَۃٌ مِّنْ غَیْرِ نَسْخٍ لَّہَا فَہُوَ کَافِرٌ بِّاللّٰہِ، وَمَنْ صَدَّقَہ، عَلَیْہِ مَعَ عِلْمِہٖ بِکَوْنِہٖ مُخْطِئًا کَافِرًا، کَانَ کَافِرًا أَیْضًا، وَہٰذَا یَقْتَضِي تَکْفِیرَ الْـاُمَّۃِ، وَہُوَ عَلٰی ضِدِّ قَوْلِہٖ : (کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ)(آل عمران : ١١٠)، وَالْقِسْمُ الثَّالِثُ : وَہُوَ أَنَّہُمْ مَّا کَانُوا عَالِمِینَ بِکَوْنِ الْمُتْعَۃِ مُبَاحَۃً أَوْ مَحْظُورَۃً فَلِہٰذَا سَکَتُوا، فَہٰذَا أَیْضًا بَّاطِلٌ، لِـأَنَّ الْمُتْعَۃَ بِتَقْدِیرِ کَوْنِہَا مُبَاحَۃً تَکُونُ کَالنِّکَاحِ، وَاحْتِیَاجُ النِّاسِ إِلٰی مَعْرِفَۃِ الْحَالِ فِي کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا عَامٌّ فِي حَقِّ الْکُلِّ، وَمِثْلُ ہٰذَا یُمْنَعُ أَنْ یَّبْقٰی مَخْفِیًّا، بَلْ یَجِبُ أَنْ یَّشْتَہِرَ الْعِلْمُ بِہٖ، فَکَمَا أَنَّ الْکُلَّ کَانُوا عَارِفِینَ بِأَنَّ النِّکَاحَ مُبَاحٌ، وَأَنَّ إِبَاحَتَہ، غَیْرُ مَنْسُوخَۃٍ، وَجَبَ أَنْ یَّکُونَ الْحَالُ فِي الْمُتْعَۃِ کَذٰلِکَ، وَلَمَّا بَطَلَ ہٰذَانِ الْقِسْمَانِ ثَبَتَ أَنَّ الصَّحَابَۃَ إِنَّمَا سَکَتُوا عَنِ الْـإِنْکَارِ عَلٰی عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ لِـأَنَّہُمْ کَانُوا عَاِلمِینَ بِأَنَّ الْمُتْعَۃَ صَارَتْ مَنْسُوخَۃً فِي الْـإِسْلَامِ .
”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے یہ باتیں صحابہ کرام کے مجمع میں کیں، کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ اس صورت ِ حال میں تین باتیں کہی جا سکتی ہیں : پہلی یہ کہ صحابہ کرام کو متعہ کی حرمت کا علم تھا، لہٰذا وہ خاموش ہو گئے، دوسری یہ کہ انہیں متعہ کی اباحت معلوم تھی، لیکن وہ مداہنت کی وجہ سے خاموش رہے یا تیسری یہ کہ انہیں متعہ کے حرام ہونے یا مباح ہونے کے بارے میں علم ہی نہ تھا، لہٰذا وہ اس بارے میں توقف کرتے ہوئے خاموش رہے۔ پہلی بات ہی درست ہے ، دوسری بات سے تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  اور تمام صحابہ کرام کی تکفیر لازم آتی ہے، کیونکہ جو شخص جانتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعہ کو مباح قرار دیا ہے، پھر وہ بغیر نسخ کی دلیل کے کہے کہ یہ حرام ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جسے اس کی غلطی اور کفر پر آگاہی ہو، پھر بھی اس کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ٹھہرے گا۔ یوں ساری کی ساری امت کا کافر ہونا لازم آئے گا اور یہ بات اس فرمانِ باری تعالیٰ کے خلاف ہے : (کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ) ‘تم بہترین امت ہو۔’ تیسری بات کہ صحابہ کرام کو متعہ کی حرمت یا اباحت کے بارے میں علم ہی نہ تھا، اس لیے وہ خاموش ہو گئے، یہ بھی باطل ہے، کیونکہ متعہ کو مباح سمجھیں، تو وہ نکاح کی طرح ہے۔ لوگ جس طرح نکاح کی بابت علم کے محتاج ہیں، اسی طرح متعہ (اگر حلال ہو تواس) کی معرفت کے بھی محتاج ہوں گے۔ اس طرح کا معاملہ مخفی رہنا ممکن نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں علم مشہور و معروف ہو۔ جس طرح سب کو علم تھا کہ نکاح مباح ہے اور اس کی اباحت منسوخ نہیں، اسی طرح متعہ کے بارے میں علم ہونا بھی ضروری تھا۔ جب یہ (آخری) دونوں باتیں باطل ہیں تو ثابت ہو گیا ہے کہ صحابہ کرام سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  پر انکار کرنے سے صرف اس لیے خاموش رہے کہ انہیں اسلام میں متعہ کے منسوخ ہو جانے کا علم تھا۔”
(تفسیر الفخر الرازي : ٣/٢٨٧)
متعہ اور علمائے امت:
صحابہ کرام] کا فتویٰ :
صحابی ِرسول، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں :
لَا یَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ یَّنْکِحَ امْرَأَۃً إِلَّا نِکَاحَ الْإِسْلَامِ، یُمْہِرُہَا، وَیَرِثُہَا وَتَرِثُہ،، وَلَا یُقَاضِیہَا عَلٰی أَجَلٍ مَّعْلُومٍ، إِنَّہَا امْرَأَتُہ،، فَإِنْ مَّاتَ أَحَدُہُمَا لَمْ یَتَوَارَثَا .
”کسی مرد کے لیے جائز نہیں کہ کسی عورت سے اسلام کے نکاح کے علاوہ کوئی اور نکاح کرے۔ مرد عورت کو حق مہر دے گا اور بیوی (کے فوت ہونے پر اس) کا وارث بنے گا، (اور اس کے فوت ہونے پر) بیوی اس کی وارث بنے گی۔ کوئی مرد عورت سے معین مدت تک نکاح نہ کرے کہ وہ اس کی بیوی تو ہو، لیکن اگر دونوں میں سے کوئی فوت ہو جائے، تو دوسرا اس کا وارث نہ بن سکے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : ٧/٢٠٧، وسندہ، صحیحٌ)
امام عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ قَامَ بِمَکَّۃَ، فَقَالَ : إِنَّ نَاسًا أَعْمَی اللّٰہُ قُلُوبَہُمْ، کَمَا أَعْمٰی أَبْصَارَہُمْ، یُفْتُونَ بِالْمُتْعَۃِ، یُعَرِّضُ بِرَجُلٍ، فَنَادَاہُ، فَقَالَ : إِنَّکَ لَجِلْفٌ جَافٍ، فَلَعَمْرِي، لَقَدْ کَانَتِ الْمُتْعَۃُ تُفْعَلُ عَلٰی عَہْدِ إِمَامِ الْمُتَّقِینَ، یُرِیدُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ الزُّبَیْرِ : فَجَرِّبْ بِنَفْسِکَ، فَوَاللّٰہِ، لَئِنْ فَعَلْتَہَا لَـأَرْجُمَنَّکَ بِأَحْجَارِکَ .
”سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  مکہ میں کھڑے ہوئے اور ایک شخص کی طرف تعریض کرتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی طرح کچھ لوگوں کے دل بھی اندھے کر دئیے ہیں اور وہ متعہ کے جواز پر فتویٰ دے رہے ہیں۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا، تو وہ کہنے لگا : تم بڑے سخت طبع آدمی ہو، قسم سے متعہ تو امام المتقین، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد ِمبارک میں ہوتا رہا ہے۔ اس پر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  فرمانے لگے : اپنی ذات پر ذرا تجربہ تو کرو۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے ایسا کیا، تو میں ضرور تمہیں رجم کر دوں گا۔”
(صحیح مسلم : ١٤٠٦/٢٧)
سیدنا عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کا رجوع :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نکاحِ متعہ کو جائز سمجھتے تھے، لیکن جب انہیں متعہ کی حرمت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان معلوم ہوا، تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع فرما لیا تھا، جیسا کہ :
ابوجمرہ، نصر بن عمران تابعی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :
سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ، فَقَالَ مَوْلًی لَّہ، : إِنَّمَا کَانَ ذٰلِکَ فِي الْغَزْوِ، وَالنِّسَاءُ قَلِیلٌ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا : صَدَقْتَ .
”میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے متعۃالنساء کے بارے میں سوال کیا، تو ان کے غلام نے کہا : یہ تو غزوات میں جائز ہوتا تھا، جب عورتیں کم تھیں۔ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے فرمایا : آپ نے سچ فرمایا۔”
(شرح معاني الآثار للطحاوي : ٣/٢٦، وسندہ، حسنٌ)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی اس روایت کو ذکرکرنے کے بعد امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں :
ہٰذَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُولُ : إِنَّمَا أُبِیحَتْ وَالنِّسَاءُ قَلِیلٌ، أَيْ فَلَمَّا کَثُرْنَ ارْتَفَعَ الْمَعْنَی الَّذِي مِنْ أَجْلِہٖ أُبِیحَتْ .
”یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  ہیں، جو فرما رہے ہیں کہ متعہ اس وقت جائز قرار دیا گیا تھا، جب عورتیں کم تھیں۔ جب عورتیں زیادہ ہو گئیں، تو سبب جوازختم ہو گیا۔”
(شرح معاني الآثار : ٣/٢٦)
مشہور لغوی، ابن منظور، افریقی(٢٨٢۔٣٧٠ھ) لکھتے ہیں :
فَالثَّابِتُ عِنْدَنَا أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ یَرَاہَا حَلَالاً، ثُمَّ لَمَّا وَقَفَ عَلٰی نَہْيِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہَا رَجَعَ عَنْ إِحْلَالِہَا .
”ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  متعہ کو حلال سمجھتے تھے، پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرما دیا تھا، تو انہوں نے اس کو حلال قرار دینے سے رجوع فرما لیا تھا۔”
(لسان العرب : ٨/٣٣٠)
امام ابو عُبَیْد، قاسم بن سلام رحمہ اللہ  (١٥٠۔٢٢٤ھ) فرماتے ہیں :
وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یَتَرَخَّصُ فِیہَا، إِلَّا مَا کَانَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَإِنَّہ، کَانَ ذٰلِکَ مَعْرُوفًا مِّنْ رَّأْیِہٖ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّہ، رَجَعَ عَنْہُ .
”ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی سے متعہ کی رخصت ثابت نہیں، البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  کا فتوی مشہور ہے۔ انہوں نے بھی اس فتوے سے رجوع فرما لیا تھا۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص : ٨٠)
تابعین اور نکاحِ متعہ :
امام سعید بن مسیب  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
نَسَخَ الْمُتْعَۃَ الْمِیرَاثُ .
”متعہ کو وراثت نے منسوخ کر دیا ہے۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٣/٥٥١، ح : ١٧٠٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کے شاگرد ِ رشید، امام عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
أَلَا وَإِنَّ الْمُتْعَۃَ ہِيَ الزِّنَا .
”خبردار! نکاحِ متعہ زنا ہی ہے۔”
(الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلّام : ١٣٠، مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٣/٥٥٢، وسندہ، حسنٌ)
امام مالک رحمہ اللہ  اور متعہ:
صاحب ِ ہدایہ، علامہ مرغینانی حنفی (م : ٥٩٣ھ) نے لکھا ہے :
وَقَالَ مَالِکٌ : ہُوَ جَائِزٌ .
”امام مالک رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ متعہ جائز ہے۔”
(الہدایۃ شرح بدایۃ المبتدي : ٢/٣٣٣)
لیکن امام مالک رحمہ اللہ  کی طرف اس قول کی نسبت غلط ہے، اس پر کئی دلائل ہیں :
1    امام مالک رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ”مؤطا” میں متعہ کی حرمت پر حدیث ذکر کی ہے۔ شارحِ ہدایہ، علامہ عینی حنفی (٧٦٢۔٨٥٥ھ) اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
عَادَۃُ مَالِکٍ أَنْ لَّا یَرْوِيَ حَدِیثًا فِي مُؤَطَّإِہٖ إِلَّا وَہُوَ یَذْہَبُ وَیَعْمَلُ بِہٖ، وَلَوْ ذُکِرَ عَنْہُ مَا ذَکَرَہُ الْـأَکْمَلُ لَذَکَرَہ، أَصْحَابُہ،، وَلَمْ یُنْقَلْ عَنْہُ شَيْءٌ مِّنْ ذٰلِکَ .
”امام مالک رحمہ اللہ  کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کتاب مؤطا میں جو بھی حدیث ذکر کرتے ہیں، اس کے مطابق اپنا مذہب بناتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اگر بات ایسے ہی ہوتی، جیسے اکمل نے ذکر کی ہے (کہ امام مالک  رحمہ اللہ  متعہ کو جائز سمجھتے تھے)، تو امام مالک رحمہ اللہ  کے شاگرد ان سے یہ بات ذکر کرتے، لیکن ان سے ایسی کوئی بات منقول نہیں۔”
(البنایۃ شرح الہدایۃ : ٥/٦٣)
2    علمائے حق میں سے کسی نے اس قول کو امام مالک رحمہ اللہ  کی طرف منسوب نہیں کیا۔
3    صاحب ِہدایہ کے ردّ میں کاکی ،حنفی لکھتے ہیں :
ہٰذَا سَہْوٌ، فَإِنَّ الْمَذْکُورَ فِي کُتُبِ مَالِکٍ حُرْمَۃُ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ .
”یہ صاحب ِہدایہ کی غلطی ہے، کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ  کی کتب میں نکاحِ متعہ کی حرمت ذکر کی گئی ہے۔”
(البنایۃ شرح الہدایۃ للعیني الحنفي : ٥/٦٣)
4    مالکی کتب میں متعہ کو بالاجماع حرام لکھا گیا ہے۔
5    شارحِ ہدایہ، علامہ ابن ہمام حنفی (٧٩٠۔٨٦١ھ) لکھتے ہیں :
نِسْبَتُہ، إِلٰی مَالِکٍ غَلَطٌ .
”امام مالک کی طرف اس قول کی نسبت غلط ہے۔”
(فتح القدیر : ٣/٢٤٧)
6    اس بارے میں ابن نجیم ،حنفی(م : ٧٩٠ھ) لکھتے ہیں :
وَمَا فِي الْہِدَایَۃِ، مِنْ نِّسْبَتِہٖ إِلٰی مَالِکٍ، فَغَلَطٌ، کَمَا ذَکَرَہُ الشَّارِحُونَ .
”ہدایہ میں امام مالک رحمہ اللہ  کی طرف جو نکاح متعہ کے جواز کی نسبت کی گئی ہے، وہ غلط ہے، جیسا کہ شارحین نے ذکر کیا ہے۔”
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق : ٣/١١٥)
معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ  کا متعہ کو جائز کہنا قطعاً ثابت نہیں۔
اہل حجاز اور متعہ :
امام اوزاعی رحمہ اللہ  کی طرف یہ قول منسوب ہے :
یُجْتَنَبُ أَوْ یُتْرَکُ مِنْ قَوْلِ أَہْلِ الْعِرَاقِ خَمْسٌ، وَمِنْ قَوْلِ أَہْلِ الْحِجَازِ خَمْسٌ، وَمِنْ قَوْلِ أَہْلِ الْعِرَاقِ : شُرْبُ الْمُسْکِرِ، وَالْـأَکْلُ عِنْدَ الْفَجْرِ فِي رَمَضَانَ، وَلَا جُمُعَۃَ إِلَّا فِي سَبْعَۃِ أَمْصَارٍ، وَتَأْخِیرُ صَلَاۃِ الْعَصْرِ حَتّٰی یَکُونَ ظِلُّ کُلِّ شَيْءٍ أَرْبَعَۃَ أَمْثَالِہٖ، وَالْفِرَارُ یَوْمَ الزَّحْفِ، وَمِنْ قَوْلِ أَہْلِ الْحِجَازِ : اسْتِمَاعُ الْمَلَاہِي، وَالْجَمْعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ، وَالْمُتْعَۃُ بِالنِّسَائِ، وَالدِّرْہَمُ بِالدِّرْہَمَیْنِ، وَالدِّینَارُ بِالدِّینَارَیْنِ یَدًا بِیَدٍ، وَإِتْیَانُ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِہِنَّ .
”پانچ اقوال اہل عراق کے اور پانچ اہل حجاز کے چھوڑ دئیے جائیں : اہل عراق کے اقوال: 1 نشہ آور چیز پینا۔ 2 رمضان میں فجر کے نزدیک کھانا۔ 3 سات شہروں کے علاوہ کہیں بھی جمعہ نہ ہونا۔ 4 چار گنا سایہ ہونے تک عصر کی نماز کو لیٹ کرنا۔ 5 کفار سے لڑائی کے دوران بھاگ جانا۔ اہل حجاز کے پانچ اقوال: 1 موسیقی سننا۔ 2 دو نمازوں کو بغیر عذر کے جمع کرنا۔ 3 عورتوں سے متعہ کرنا۔ 4 نقد کی صورت میں ایک درہم کے بدلے دو درہم اور ایک دینار کے بدلے دو دینار کا لین دین کرنا۔ 5 عورتوں سے غیر فطری مبا شر ت ۔ ”
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ٦٥، تاریخ دمشق لابن عساکر : ٥٤/٥٨، ٥٩)
لیکن اس کی سند سخت ”ضعیف”ہے، کیونکہ امام اوزاعی رحمہ اللہ  کے شاگرد ابو عبد اللہ بن بحر کی توثیق نہیں مل سکی۔ غیرمعتبر اور نامعلوم لوگوں کی بیان کردہ بات قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ  کی طرف منسوب ایک قول میں متعہ کے جواز کی نسبت اہل مکہ کی طرف کی گئی ہے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : ١/٣٦٢)
اس کی سند ”ضعیف”ہے، کیونکہ اس کا راوی محمد بن ادریس بن حجاج المعروف بہ ابن ابو حمادہ ”مجہول”ہے۔ متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ اس میں ایک اور علت بھی ہے۔
متعہ اور حج تمتع:
بعض احادیث میں حج تمتع کو بھی متعہ کہا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے دھو کے سے اسے نکاح متعہ کی دلیل بنایا ہے، جیسا کہ :
مسلم القری، تابعی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :
دَخَلْنَا عَلٰی أَسْمَاءِ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ، فَسَأَلْنَاہَا عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ، فَقَالَتْ : فَعَلْنَاہَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”ہم سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما  کے پاس آئے اور ان سے عورتوں کے متعہ (حج) کے بارے میں سوال کیا، تو فرمایا : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد ِ مبارک میں ایسا کیا ۔”
(السنن الکبرٰی للنسائي : ٥٥١٥، مسند أبي داو،د الطیالسي : ١٧٤٢، وسندہ، حسنٌ)
معجم کبیر طبرانی (٢٤/١٠٣) میں صرف ”متعہ”کے الفاظ ہیں۔
اس سے مراد حجِ تمتع ہے ، اسے بھی مجازاً متعہ حج کہا جاتا ہے۔ اصل عبارت یوں ہے :
فَسَأَلْنَاہَا عَنْ مُّتْعَۃِ الْحَجِّ لِلنِّسَاءِ .
”ہم نے سیدہ اسماء سے عورتوں کے لیے حج تمتع کرنے کے بارے میں پوچھا۔”
اسی پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد ِ مبارک میں حج ِتمتع کیا تھا۔ اس بات کی وضاحت صحیح مسلم کی اس روایت سے ہوتی ہے :
مسلم القری رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں :
سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ مُّتْعَۃِ الْحَجِّ، فَرَخَّصَ فِیہَا، وَکَانَ ابْنُ الزُّبَیْرِ یَنْہٰی عَنْہَا، فَقَالَ : ہٰذِہٖ أُمُّ ابْنِ الزُّبَیْرِ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِیہَا، فَادْخُلُوا عَلَیْہَا، فَاسْأَلُوہَا، قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَیْہَا، فَإِذَا امْرَأَۃٌ ضَخْمَۃٌ عَمْیَائُ، فَقَالَتْ : قَدْ رَخَّصَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا .
”میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے حج تمتع کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے اس کی رخصت دی، جبکہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  اس سے منع فرماتے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے فرمایا : ابن زبیر رضی اللہ عنہ  کی والدہ ہی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس میں رخصت دی تھی، ان کے پاس جا کر پوچھ لیں۔ ہم سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما  کے پاس حاضر ہوئے۔ نابینا ہونے کے ساتھ ان پر موٹاپا بھی طاری ہو چکا تھا۔ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج تمتع کی اجازت دی تھی۔”(صحیح مسلم : ١٢٣٨)
اس کی مزید تائید صحیح بخاری (١٧٩٦) اور صحیح مسلم (١٢٣٧) کی ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ثابت ہوا کہ حدیث میں متعہ سے مراد متعۃ الحج ہے، نہ کہ نکاحِ متعہ۔
الحاصل :
قرآن وسنت اور اجماعِ امت کی رُو سے نکاحِ متعہ قیامت تک حرام کر دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.