1,004

دست بوسی کی شرعی حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

دست بوسی مشروع ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بیان کرتی ہیں :
کَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَیْہِ؛ قَامَ إِلَیْہَا، فَأَخَذَ بِیَدِہَا، وَقَبَّلَہَا، وَأَجْلَسَہَا فِي مَجْلِسِہٖ، وَکَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَیْہَا؛ قَامَتْ إِلَیْہِ، فَأَخَذَتْ بِیَدِہٖ، فَقَبَّلَتْہُ، وَأَجْلَسَتْہُ فِي مَجْلِسِہَا ۔
’’وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف کھڑے ہوتے، ان کے ہاتھ کو پکڑتے،اسے بوسہ دیتے اورانہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے،توسیدہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھڑی ہوتیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتیں،اسے بوسہ دیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ ‘‘
(سنن أبي داوٗد : 5217، السنن الکبرٰی للنسائي : 8311، 9192، سنن الترمذي : 3872، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح غریب‘‘کہا ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (6953)نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
فائدہ مہمہ :
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی صحابی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ کو چومنا ثابت نہیں، اس بارے میں وارد شدہ ساری کی ساری روایات ’’ضعیف‘‘ہیں۔
البتہ سلف صالحین سے اہل علم و فضل کے ہاتھ چومنا ثابت ہے،جیسا کہ :
b مشہور تبع تابعی،عاصم بن بہدلہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
مَا قَدِمْتُ عَلٰی أَبِي وَائِلٍ قَطُّ مِنْ سَفَرٍ؛ إِلَّا قَبَّلَ کَفِّي ۔
’’میں جب بھی سفر سے واپس ابو وائل(شقیق بن سلمہ تابعی رحمہ اللہ )کے پاس پہنچا، تو انہوں نے میرا ہاتھ چوما۔‘‘
(القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الأعرابي : 5، وسندہٗ حسنٌ)
b حسین بن علی بن ولید جعفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رُبَّمَا فَعَلَہٗ لِي سُفْیَانُ، یَعْنِي ابْنَ عُیَیْنَۃَ، یَعْنِي یُقَبِّلُ یَدَہٗ ۔
’’بسا اوقات امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ میرا ہاتھ چوما کرتے تھے۔‘‘
(القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الأعرابي : 7، وسندہٗ صحیحٌ)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ، محدث ابو مسہر رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
إِذَا خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ؛ اِصْطَفَّ النَّاسُ لَہٗ یُمْنَۃً وَّیُسْرَۃً، یُسَلِّمُوْنَ عَلَیْہِ، وَیُقَبِّلُوْنَ یَدَہٗ ۔
’’جب آپ رحمہ اللہ مسجد کی طرف نکلتے، تو لوگ دائیں بائیں قطار بنا کر کھڑے ہوتے، آپ کو سلام کرتے اور آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتے۔‘‘
(تقدمۃ الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 291)
اہل علم و فضل،والدین،نیک بزرگوں اور اساتذئہ کرام کی عزت و تکریم کرتے ہوئے ان کا ہاتھ چومنا شرعاً مشروع اور جائز ہے،بشرطیکہ ان میں عجب و تکبر پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ایسی صورت میں اجتناب ضروری ہو جائے گا۔
حصولِ تبرک کے لیے دست بوسی :
اگر کوئی شخص اولیا ء اللہ اور صالحین کے ہاتھ حصولِ تبرک کے لیے چومتا ہے، تو یہ اقدام غیر شرعی،ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح بدعت اور منکر فعل ہے۔اس کے بدعت ہونے کی دو وجہیں ہیں؛پہلی یہ کہ تبرک آثارِ نبویہ کے ساتھ خاص ہے،اس تعظیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔دوسری یہ کہ خیر القرون میں کسی ثقہ مسلمان سے کسی کے ہاتھ تبرکاً چومنا ثابت نہیں۔سلف صالحین کی پیروی میں دین اپنانا چاہیے،کیونکہ وہ شریعت کے تقاضوں سے بہ خوبی واقف تھے اور انہیں پورا کرنے والے تھے۔
دست بوسی کے بارے میں چند روایات کی تحقیق :
ہاتھ چومنے کے متعلق چند روایات کی تحقیق پیش خدمت ہے:
1 حدیث ابن عمر : (سنن أبي داوٗد : 2647)
اس کی سند سخت ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس میں یزید بن ابو زیاد راوی جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ اور’’ سییء الحفظ‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’مدلس‘‘ بھی ہے۔
2 حدیث أسامۃ بن شریک : (المعجم الصغیر للطبراني : 2041، الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري : 2، القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الأعرابي : 3)
اس میں ابو سعید حارثی ’’ضعیف‘‘ہے۔
اس کا متابع راوی عمر بن یزید بن رفاعہ ابو ہشام الرفاعی بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔
3 حدیث زاہر بن حزام : (المعجم الکبیر للطبراني : 274/5، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبہاني : 3084، القبل والمصافحۃ لابن الأعرابي : 16)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ سالم بن ابو الجعد(حسن الحدیث) کثیر الارسال راوی ہے۔اس کا زاہر سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔
4 حدیث الحسن البصری : (القبل والمصافحۃ لابن الأعرابي : 24)
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
(ا) حسن بصری ’’مدلس‘‘ ہیں۔
(ب) عمرو بن عبید راوی ’’متروک‘‘ہے۔
(ج) سفیان بن عیینہ ’’مدلس‘‘ہیں۔
اس میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔
5 حدیث کعب بن مالک : (الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري : 1)
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ اس کا راوی اسحاق بن عبداللہ بن ابو فروہ’’ متروک‘‘ہے۔
6 حدیث زید العبدی : (الأدب المفرد للبخاري : 587، الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري : 6، مسند أبي یعلٰی : 685، المعجم الکبیر للطبراني : 345/20، 346)
یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ ہود بن عبداللہ بن سعد عصری راوی ’’مجہول‘‘ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 516/5)کے کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
b حافظ ابن قطان فاسی رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول الحال‘‘ قرار دیا ہے۔
(بیان الوہم والإیہام : 1248)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:ـ
لاَ یَکَادُ یُعْرَفُ ۔
’’یہ شخص غیر معروف ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 310/4)
7 حدیث جابر بن عبد اللّٰہ : (تقبیل الید لابن المقري : 11)
یہ روایت سخت ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
(ا) اعمش راوی ’’مدلس‘‘ہیں،انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
(ب) عبیداللہ بن سعید بن مسلم کوفی راوی ’’ضعیف‘‘ہے۔
(ج) صالح بن مبارک کے حالات نہیں مل سکے،وغیرہ۔
آثار صحابہ :
1 عبدالرحمن بن رزین رحمہ اللہ سے منسوب ہے :
میں نے صحابی ٔرسول،سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہکو سلام کیا،تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ باہر نکال کر فرمایا :
بَایَعْتُ بِہَاتَیْنِ نَبِيَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخْرَجَ کَفًّا لَّہٗ ضَخْمَۃً، کَأَنَّہَا کَفُّ بَعِیرٍ، فَقُمْنَا إِلَیْہَا فَقَبَّلْنَاہَا ۔
’’میںنے ان دونوں ہاتھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے۔انہوں نے اپنی ہتھیلی کو باہر نکالا جو اونٹ کی ہتھیلی کی مانند موٹی تھی۔ہم نے کھڑے ہو کر ان کی ہتھیلی کو بوسہ دیا۔‘‘(الأدب المفرد للبخاري : 973)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ عبدالرحمن بن رزین راوی ’’مجہول‘‘ہے۔سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (82/5)کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول‘‘قرار دیا ہے۔(سنن الدارقطني : 198/1)
2 یونس بن میسرہ سے یہ قول منسوب ہے :
ایک روز یزید بن اسود رضی اللہ عنہکے پاس ہمارا آنا ہوا۔ان کے پاس سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ تشریف لائے:
فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْہِ؛ مَدَّ یَدَہٗ، فَأَخَذَ یَدَہٗ، فَمَسَحَ بِہَا وَجْہَہٗ وَصَدْرَہٗ، لِأَنَّہٗ بَایَعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہنے انہیں دیکھ کر اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے اور سینے پر مَل لیا،کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہوئی تھی۔‘‘
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 306/9)
تبصرہ :
یہ جھوٹی داستان ہے،کیونکہ اسے بیان کرنے والے عمرو بن واقد قرشی ابو حفص اور موسیٰ بن عیسیٰ بن نذر ،دونوں ’’متروک‘‘ راوی ہیں۔
3 ثابت بنانی رحمہ اللہ سے منسوب ہے :
إِنَّہٗ قَالَ لِأَنَسٍ : أَمَسَسْتَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَقَبَّلَہَا ۔
’’انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہسے پوچھا :کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے چھوا تھا؟فرمایا: جی ہاں!اس پر انہوں نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔‘‘
(الأدب المفرد للبخاري : 974)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ سفیان بن عیینہ ’’مدلس‘‘ہیں۔ان کے سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔نیز علی بن زید بن جدعان ’’ضعیف‘‘ہے۔
4 یحییٰ بن حارث ذماری تابعی رحمہ اللہ سے منسوب ہے :
میری سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہسے ملاقات ہوئی، تو میں نے ان سے کہا:
أَمَسَسْتَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِکَ؟
’’کیا آپ کے ہاتھ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا ہے؟‘‘
انہوں نے فرمایا:جی ہاں!تو میں نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔
(المعجم الکبیر للطبراني : 94/22)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ ابو عبدالملک القاری راوی نامعلوم ہے۔
b اس کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَلَمْ أَعْرِفْہُ ۔
’’میں اسے نہیں جانتا۔‘‘(مجمع الزوائد : 42/8)
پیٹ کا بوسہ :
b عمیر بن اسحاق تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کُنْتُ مَعَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، فَلَقِیَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ، فَقَالَ : أَرِنِي؛ أُقَبِّلْ مِنْکَ، حَیْثُ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ، قَالَ : فَقَالَ بِقَمِیصِہٖ، قَالَ : فَقَبَّلَ سُرَّتَہٗ ۔
’’میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھا۔ہماری ملاقات سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔انہوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہسے کہا:مجھے اپنے جسم کی وہ جگہ دکھائیے،جہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے دیکھا ہے،تاکہ میں بھی وہیں پر آپ کو بوسہ دوں۔سیدنا حسن رضی اللہ عنہنے اپنی قمیص اٹھائی،تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی ناف پر بوسہ دیا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 255/2، 427، 488، 494، السنن الکبرٰی للبیہقي : 232/2، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (6965)اور امام حاکم رحمہ اللہ (168/3)نے’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہکا سیدنا حسن رضی اللہ عنہکو یہ بوسہ دینا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں تھا کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا،میں بھی وہاں بوسہ دوں،چنانچہ انہوں نے اس جگہ بوسہ دے دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.