991

رسالت ماب کے متعلق روایات کی تحقیق

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے کچھ روایات عام طور پر سنی سنائی جاتی ہیں،ان کی تحقیق پیشِ خدمت ہے:
روایت نمبر 1 :
سیدنا عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ وَکَّلَ بِقَبْرِي مَلَکًا أَعْطَاہُ أَسْمَاعَ الْخَلَائِقِ، فَلَا یُصَلِّي عَلَيَّ أَحَدٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، إِلَّا بَلَّغَنِي بِاسْمِہٖ وَاسْمِ أَبِیہِ ؛ ھٰذَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَدْ صَلّٰی عَلَیْکَ .
”اللہ تعالیٰ میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو گی۔روز قیامت تک جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ درود پڑھنے والے اور اس کے والد کانام مجھ تک پہنچائے گا اور عرض کرے گا:اللہ کے رسول! فلاں کے بیٹے فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔”
(مسند البزّار : 254/4، ح : 1425، التاریخ الکبیر للبخاري : 416/6، مسند الحارث : 962/2، ح : 1063، الترغیب لابي القاسم التیمي : 319/2، ح : 1671)
ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی(العظمۃ : 263/2)اور امام طبرانی(المعجم الکبیر، جلاء الافھام لابن القیّم، ص : 84، مجمع الزوائد للہیثمي : 162/10، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 249/3)کے بیان کردہ الفاظ یہ ہیں :
إِنَّ لِلّٰہِ مَلَکًا أَعْطَاہُ أَسْمَاعَ الْخَلَائِقِ کُلِّہَا، وَہُوَ قَائِمٌ عَلٰی قَبْرِي إِذَا مِتُّ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَلَیْسَ اَحَدٌ مِّنْ اُمَّتِي یُصَلِّي عَليَّ صَلَاۃً، إِلَّا سَمَّاہُ بِاسْمِہٖ وَاسْمِ أَبِیہِ، قَالَ : یَا مُحَمَّدُ ! صَلّٰی عَلَیْکَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ کَذَا وَکَذَا، فَیُصَلِّي الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ الرَّجُلِ بِکُلِّ وَاحِدَۃٍ عَشْرًا .
اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ایسا ہے جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عنایت کی گئی ہے۔وہ میری موت کے بعد قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا۔ میرا جو بھی امتی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود کو پڑھنے والے اور اس کے والد کے نام سمیت مجھ تک پہنچاتے ہوئے عرض کرے گا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!فلاں بن فلاں نے آپ پر اتنا اتنا درود بھیجا ہے۔اللہ رب العزت اس شخص پر ایک درود پڑھنے کے عوض دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔”
تبصرہ : یہ روایت سخت ضعیف ہے ،کیونکہ :
1 اس کا راوی عمران بن حمیری جعفی ”مجہول الحال” ہے۔سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 223/5)کے کسی نے اس کی توثیق نہیںکی۔
اس کے بارے میںامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یُتَابَعُ عَلَیْہِ .
”یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔”(التاریخ الکبیر 416/6:)
امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میںکوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں کی۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میںفرماتے ہیں: لَا یُعْرَفُ .
”یہ مجہول راوی ہے۔”(میزان الاعتدال : 236/3)
حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔(القول البدیع للسخاوي، ص : 119)
حافظ ہیثمی،حافظ ذہبی پر اعتماد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَقَالَ صَاحِبُ الْمِیزَانِ : لَا یُعْرَفُ .
”صاحب ِمیزان الاعتدال(علامہ ذہبی رحمہ اللہ )کا کہنا ہے کہ یہ راوی مجہول ہے۔”
(مجمع الزوائد : 162/10)
علامہ عبد الروف مناوی ،علامہ ہیثمی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لَمْ اَعْرِفْہُ . ”میں اسے پہچان نہیں پایا۔”(فیض القدیر : 612/2)
2 اس کا راوی نعیم بن ضمضم ضعیف ہے۔اس کے بارے میں:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔
(المغني في الضعفاء : 701/2)
علامہ ہیثمی لکھتے ہیں: نَعِیمُ بْنُ ضَمْضَمَ ضَعِیفٌ .
نعیم بن ضمضم ضعیف راوی ہے۔(مجمع الزوائد : 162/10)
اس کے بارے میںادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
روایت نمبر 2 :
قَالَ (شِیرْوَیْہِ بْنُ شَھْردَارَ) الدَّیْلَمِيُّ : أَنْبَأَنَا وَالِدِي (شَھْردَارُ بْنُ شِیرْوَیْہِ) : أَنْبَأَنَا أَبُو الْفَضْلِ الْکَرَابِیسِيُّ (مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَمْدَوَیْہِ) : أَنْبَأَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ بْنُ تُرْکَانَ (الْفَرْضِيُّ) : حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ سَعِیدٍ (لَعَلَّہُ ابْنُ مُوسَی بْنِ سَعِیدٍ أَبُو عِمْرَانَ الْھَمْدَانِيُّ) : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ سُفْیَانَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَالِحٍ الْمَرْوَزِيُّ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ خِرَاشٍ عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِیفَۃَ، عَنْ أَبِي الطُّفَیْلِ، عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّیقِ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) : ‘أَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَيَّ، فَإِنَّ اللّٰہَ وَکَّلَ بِي مَلَکًا عِنْدَ قَبْرِي، فَإِذَا صَلّٰی عَلَيَّ رَجُلٌ مِّنْ اُمَّتِي، قَالَ لِي ذٰلِکَ الْمَلَکُ : یَا مُحَمَّدُ ! إِنَّ فُلانَ ابْنَ فُلانٍ صَلّٰی عَلَیْکَ السَّاعَۃَ’ .
”سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا کرنا۔اللہ تعالیٰ میری قبر کے پاس ایک فرشتے کو مامور کرے گا۔جب میری امت میں سے کوئی فرد مجھ پر درود بھیجے گا تو یہ فرشتہ میری جناب میںعرض کرے گا :اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!فلاں بن فلاں نے ابھی آپ پر درود بھیجا ہے۔”
(اللآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي : 259/1، الصحیحۃ للألباني : 1530)
تبصرہ: اس کی سند ضعیف ہے ،کیونکہ :
1 اس کا راوی بکر بن خداش ”مجہول الحال” ہے۔سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 148/8)کے کسی نے اس کی توثیق نہیںکی۔
2 محمد بن عبد اللہ بن صالح مروزی کے حالات ِزندگی نہیںمل سکے۔
3 ابوالفضل کرابیسی کے حالات اور توثیق بھی نہیںملی۔
حافظ سخاوی لکھتے ہیں : وَفِي سَنَدِہٖ ضَعْفٌ .
”اس کی سند میںکمزوری ہے۔”(القول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع، ص : 161)
یوں یہ دونوں روایات بلحاظ ِسند ضعیف ہیں۔
روایت نمبر 3 :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِینَ، یُبَلِّغُونِّي عَنْ اُمَّتِي السَّلَامَ، قَالَ : وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘حَیَاتِي خَیْرٌ لَّکُمْ، تُحَدِّثُونَ وَنُحَدِّثُ لَکُمْ، وَوَفَاتِي خَیْرٌ لَّکُمْ، تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُکُمْ، فَمَا رَأَیْتُ مِنْ خَیْرٍ حَمِدْتُّ اللّٰہَ عَلَیْہِ، وَمَا رَأَیْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللّٰہَ لَکُمْ’ .
”زمین میںاللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کر رہے ہیں جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ ہم آپس میںہم کلام ہوتے رہتے ہیںاور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہو گی کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے رہیں گے۔میں جو بھلائی دیکھوں گا،اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کروں گا اور جو بُرائی دیکھوں گا ،تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کروں گا۔”
(مسند البزّار : 308/5، ح : 1925)
تبصرہ : اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ :
1 امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بصیغہ عن روایت کر رہے ہیں۔مسلّم اصول ہے کہ ثقہ مدلس جب بخاری و مسلم کے علاوہ محتمل الفاظ سے حدیث بیان کرے تو جب تک سماع کی تصریح نہ ملے،وہ ضعیف ہی ہوتی ہے۔
2 اس میں عبد المجید بن ابی رواد بھی ”مدلس” ہے۔ سماع کی تصریح موجود نہیں۔ نیز عبد المجید بن ابی رواد جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف”اور مجروح بھی ہے۔اس پر امام حمیدی(الضعفاء الکبیر للبخاري :307)،امام ابوحاتم رازی(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 65/6)،امام ابن حبان(کتاب المجروحین : 160/2)، امام دارقطنی(سوالات البرقاني : 317)، امام محمدبن یحییٰ بن ابی عمر(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 96/3، وسندہ، صحیحٌ)، امام ابن سعد(الطبقات الکبرٰی : 500/5)، امام ابن عدی(الکامل في ضعفاء الرجال : 346/5)، امام ابوزرعہ(أسامي الضعفاء :637)وغیرہم نے سخت جروح کر رکھی ہیں۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فَقَدْ ضَعَّفَہ، کَثِیرُونَ .
”یقینا اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔”
(المغني عن حمل الأسفار في تخریج الإحیاء : 144/4)
لہٰذا حافظ بوصیری کا اسے کے بارے میں [وَثَّقَہُ الْجُمْہُورُ] کہنا ”صحیح” نہیں۔
روایت نمبر 4 : داود بن ابی صالح حجازی کا بیان ہے :
أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا، فَوَجَدَ رَجُلًا وَّاضِعًا وَجْہَہ، عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَاَقْبَلَ عَلَیْہِ، فَإِذَا ہُوَ أَبُو اَیُّوبَ، فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ‘لَا تَبْکُوا عَلَی الدِّینِ إِذَا وَلِیَہ، اَہْلُہ،، وَلٰکِنِ ابْکُوا عَلَیْہِ إِذَا وَلِیَہ، غَیْرُ أَہْلِہٖ’ .
”ایک دن مروان آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے تھا۔ مروان نے کہا:تمہیں معلوم ہے کہ کیا کر رہے ہو؟ اس شخص نے مروان کی طرف چہرہ موڑا تو وہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ تھے۔انہوں نے فرمایا:ہاں ،مجھے خوب معلوم ہے،میںآج حجر اسود کے پاس نہیں گیا،بلکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جب دین کا والی کوئی دین دار شخص بن جائے تو اس پر نہ رونا۔ اس پر اس وقت روناجب اس کے والی نااہل لوگ بن جائیں۔
(مسند الإمام أحمد : 422/5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 515/4)
تبصرہ : اس روایت کی سند ”ضعیف”ہے۔اس کے راوی داؤد بن صالح حجازی کے بارے میںحافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لَا یُعْرَفُ .
”یہ مجہول راوی ہے۔”(میزان الاعتدال : 9/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میںفرماتے ہیں : مَقْبُولٌ .
”یہ مجہول الحال شخص ہے۔”(تقریب التہذیب : 1792)
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اس کی بیان کردہ اس روایت کی سند کو ”صحیح”کہنا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا ان کی موافقت کرنا صحیح نہیں۔
دین کی باتیں ثقہ لوگوں سے قبول کی جائیں گی نہ کہ مجہول اور لاپتہ افراد سے ۔
فائدہ : یہ روایت قبر کے ذکر کے بغیر معجم کبیر طبرانی(189/4، ح : 3999)اور معجم اوسط طبرانی (94/1، ح : 284)میں بھی موجود ہے،لیکن اس کی سند درجِ ذیل وجوہ سے ضعیف ہے :
1 سفیان بن بشر کوفی راوی نامعلوم اور غیرمعروف ہے۔
حافظ ہیثمی اس کے بارے میںفرماتے ہیں : وَلَمْ أَعْرِفْہُ .
”میںاسے نہیں پہچانتا۔”(مجمع الزوائد : 130/9)
2 مطلب بن عبد اللہ بن حنطب راوی ”مدلس” ہے اور وہ بصیغہ عن روایت کر رہا ہے۔اس کے سماع کی تصریح نہیںملی۔
3 مطلب بن عبد اللہ کا سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے سماع بھی ثابت نہیں۔
4 اس روایت میںامام طبرانی رحمہ اللہ کے دو استاذ ہیں۔ایک ہارون بن سلیمان ابوذر ہے اور وہ مجہول ہے،جبکہ دوسرا احمدبن محمدبن حجاج بن رشدین ہے اور وہ ”ضعیف” ہے۔اس کے بارے میںامام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سَمِعْتُ مِنْہُ بِمِصْرَ، وَلَمْ اُحَدِّثْ عَنْہُ، لِمَا تَکَلَّمُوا فِیہِ .
”میںنے اس سے مصر میںاحادیث سنی تھیں،لیکن میں وہ احادیث بیان نہیںکرتا کیونکہ محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے۔”(الجرح والتعدیل : 75/2)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صَاحِبُ حَدِیثٍ کَثِیرٍ، أُنْکِرَتْ عَلَیْہِ أَشْیَائُ، وَھُوَ مِمَّنْ یُّکْتَبُ حَدِیثُہ، مَعَ ضُعْفِہٖ .
”اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں۔ ان میںسے کئی ایک روایات کو محدثین کرام نے منکر قرار دیا ہے۔اس کے ضعیف ہونے کے باوجود اس کی حدیث(متابعات و شواہد میں) لکھی جائے گی۔”(الکامل في ضعفاء الرجال : 198/1)
حافظ ہیثمی نے بھی احمد بن محمد بن حجاج بن رشدین کو ”ضعیف” قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد : 25/5، 694/6)
روایت نمبر 5 :
قَالَ ابْنُ عَسَاکِرٍ : أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ الْـأَکْفَانِيِّ : نَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَحْمَدَ : أَنَا تَمَّامُ بْنُ مُحَمَّدٍ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَیْضِ : نَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالِ بْنِ أَبِي الدَّرْدَاءِ : حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ ابْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِیہِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ اُمِّ الدَّرْدَائِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، قَالَ : إِنَّ بِلَالًا رَاٰی فِي مَنَامِہِ النَّبِيَّ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)، وَہُوَ یَقُولُ لَہ، : ‘مَا ہٰذِہِ الْجَفْوَۃُ یَا بِلَالُ ! أَمَا اٰنَ لَکَ أَنْ تَزُورَنِي یَا بِلَالُ؟’ فَانْتَبَہَ حَزِینًا وَّجِلًا خَائِفًا، فَرَکِبَ رَاحِلَتَہ، وَقَصَدَ الْمَدِینَۃَ، فَاَتٰی قَبْرَ النَّبِيِّ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)، فَجَعَلَ یَبْکِي عِنْدَہ،، وَیُمَرِّغُ وَجْہَہ، عَلَیْہِ، وَاَقْبَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، فَجَعَلَ یَضُمُّہُمَا وَیُقَبِّلُہُمَا، فَقَالَا لَہ، : یَا بِلَالُ ! نَشْتَہِي نَسْمَعُ أَذَانَکَ الَّذِي کُنْتَ تُؤَذِّنُہ، لِرَسُولِ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) فِي السَّحَرِ، فَفَعَلَ، فَعَلَا سَطْحَ الْمَسْجِدِ، فَوَقَفَ مَوْقِفَہُ الَّذِي کَانَ یَقِفُ فِیہِ، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : اللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، ارْتَجَّتِ الْمَدِینَۃُ، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، زَادَ تَعَاجِیجُہَا، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ، خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنْ خُدُورِہِنَّ، فَقَالُوا : أَبُعِثَ رَسُولُ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)، فَمَا رُئِيَ یَوْمٌ أَکْثَرَ بَاکِیًا وَّلَا بَاکِیَۃً بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ .
سیدنا ابوالدردائ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے خواب میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:اے بلال!یہ کیا زیادتی ہے؟کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کرو؟اس پر بلال رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے۔ انہوں نے اپنی سواری کا رخ مدینہ منورہ کی طرف کرلیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر پہنچے اور اس کے پاس رونا شروع کر دیا۔ اپنا چہرہ اس پر ملنے لگے۔سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ادھر آئے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان سے معانقہ کیا اور ان کو بوسہ دیا۔ان دونوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا:ہم آپ کی وہ اذان سننا چاہتے ہیںجو آپ مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہا کرتے تھے۔ انہوںنے ہاںکر دی۔مسجد کی چھت پر چڑھے اور اپنی اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں دورِ نبوی میں کھڑے ہوتے تھے۔ جب انہوں نے اَللّٰہُ أَکْبَرُ ،اللّٰہُ أَکْبَرُ کہا تو مدینہ (رونے کی آواز سے )گونج اٹھا۔پھر جب انہوںنے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہا تو آوازیں اور زیادہ ہو گئیں۔جب وہ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ پر پہنچے تو دوشیزائیں اپنے پردوںسے نکل آئیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے :کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نے مدینہ میں مَردوں اور عورتوں کے رونے والا اس سے بڑا دن کوئی نہیں دیکھا۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 137/7)
تبصرہ : یہ گھڑنتل ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَھِيَ قِصَّۃٌ بَیِّنَۃُ الْوَضْعِ . ”یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنت ہے۔”
(لسان المیزان : 108/1)
علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھٰذَا الْـأَثَرُ الْمَذْکُورُ عَنْ بِلَالٍ لَیْسَ بِصَحِیحٍ . ”سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے منسوب مذکورہ روایت ثابت نہیں۔”
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: إِسْنَادُہ، لَیِّنٌ، وَھُوَ مُنْکَرٌ .
اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔(سیر أعلام النبلاء : 358/1)
ابن عراق کنانی کہتے ہیں : وَھِيَ قِصَّۃٌ بِیِّنَۃُ الْوَضْعِ .
”یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہواہے۔”(تنزیہ الشریعۃ : 59)
اس روایت کی سند میںکئی خرابیاںہیں۔تفصیل یہ ہے :
1 ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ مجہول ہے۔(تاریخ الإسلام : 67/17)
نیز فرماتے ہیں : فِیہِ جَھَالَۃٌ . ”یہ نامعلوم راوی ہے۔”
(میزان الاعتدال : 64/1، ت : 205)
حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ھٰذَا شَیْخٌ لَّمْ یُعْرَفْ بِثِقَۃٍ وَّأَمَانَۃٍ، وَلَا ضَبْطٍ وَّعَدَالَۃٍ، بَلْ ھُوَ مَجْھُولٌ غَیْرُ مَعْرُوفٍ بِالنَّقْلِ، وَلَا مَشْھُورٍ بِالرِّوَایَۃِ، وَلَمْ یَرْوِ عَنْہُ غَیْرُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَیْضِ، رَوٰی عَنْہُ ھٰذَا الْاَثَرَ الْمُنْکَرَ .
”یہ ایسا راوی ہے جس کی امانت و دیانت اور ضبط و عدالت معلوم نہیں۔یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیرمعروف ہے۔اس سے محمدبن فیض کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اس سے روایت کیا ہے۔”(الصارم المنکي، ص : 314)
2 اس روایت کے دوسرے راوی سلیمان بن بلال بن ابو درداء کے بارے میں حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بَلْ ھُوَ مَجْھُولُ الْحَالِ، وَلَمْ یُوَثِّقْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْعُلَمَائِ، فِیمَا عَلِمْنَاہُ . ”یہ مجہول الحال شخص ہے۔ہمارے علم کے مطابق اسے کسی ایک بھی عالم نے معتبرقرار نہیں دیا۔”
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314)
3 سلیمان بن بلال کا سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں، یوںیہ روایت منقطع بھی ہے۔حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلَا یُعْرَفُ لَہ، سَمَاعٌ مِّنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ . ”اس کا سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہو سکا۔”(أیضًا)
حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں : وَھُوَ أَثَرٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ، وَإِسْنَادُہ، مَجْھُولٌ، وَفِیہِ انْقِطَاعٌ .
”یہ روایت غریب اور منکر ہے۔ اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع بھی ہے۔”
(أیضًا)
تنبیہ : حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِسْنَادُہ، جَیِّدٌ، مَا فِیہِ ضَعِیفٌ، لٰکِنْ إِبْرَاھِیمُ ھٰذَا مَجْھُولٌ .
”اس کی سند عمدہ ہے۔ اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں، البتہ یہ ابراہیم نامی راوی مجہول ہے۔”(تاریخ الإسلام : 373/5، بتحقیق بشّار، وفي نسخۃ : 67/17)
یہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا علمی تسامح ہے۔ جس روایت کی سند میں دو راوی ”مجہول” ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ انقطاع بھی ہو، وہ عمدہ کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر خود انہوں نے اپنی دوسری کتاب (سیر أعلام النبلاء : 358/1)میں اس کی سند کو کمزور اور اس روایت کو ”منکر” بھی قرار دے رکھا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر وغیرہ کی بات درست ہے کہ یہ قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ یہ ان ”مجہول” راویوں میں سے کسی کی کارروائی ہے۔ واللہ اعلم!
روایت نمبر 6 : محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ جَابِرًا رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَھُوَ یَبْکِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَھُوَ یَقُولُ : ھٰھُنَا تُسْکَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ‘مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ’ .
”میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس روتے دیکھا۔وہ فرما رہے تھے : آنسو بہانے کی جگہ یہی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔” (شعب الإیمان للبیہقي : 3866)
تبصرہ : اس کی سند سخت ترین ”ضعیف” ہے، کیونکہ :
1 امام بیہقی رحمہ اللہ کا استاذ محمد بن حسین ابوعبد الرحمن سلمی ”ضعیف” ہے۔
اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تَکَلَّمُوا فِیہِ، وَلَیْسَ بِعُمْدَۃٍ . ”محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے، یہ اچھا شخص نہیں تھا۔”
(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 523/3)
انہوں نے اسے ”ضعیف”بھی کہا ہے۔(تذکرۃ الحفّاظ : 166/3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ : 252/2)
محمد بن یوسف قطان نیشاپوری فرماتے ہیں : غَیْرُ ثِقَۃٍ، وَکَانَ یَضَعُ لِلصُّوفِیَۃِ الْـأَحَادِیثَ . ”یہ قابل اعتبار شخص نہیں تھا۔۔۔یہ صوفیوں کے لیے روایات گھڑتا تھا۔”(تاریخ بغداد للخطیب : 247/2، وسندہ، صحیحٌ)
2 اس کے مرکزی راوی محمدبن یونس بن موسیٰ کُدَیمی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اُتُّھِمَ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ وَبِسَرِقَتِہٖ .
”اس پر حدیث گھڑنے اور چوری کرنے کا الزام ہے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال : 292/6)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَکَانَ یَضَعُ عَلَی الثِّقَاتِ الْحَدِیثَ وَضْعًا، وَلَعَلَّہ، قَدْ وَضَعَ أَکْثَرَ مِنْ أَلْفِ حَدِیثٍ .
”یہ شخص ثقہ راویوں سے منسوب کر کے خود حدیث گھڑ لیتا تھا۔ شاید اس نے ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں۔”(کتاب المجروحین : 313/2)
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”متروک” قرار دیا ہے۔ (سؤالات الحاکم : 173)
ایک مقام پر فرماتے ہیں : کَانَ الْکُدَیْمِيُّ یُتَّھَمُ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ .
”کُدَیمی پر حدیث گھڑنے کا الزام تھا۔” (سؤالات السھمي : 74)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کے سامنے اس کی ایک روایت پیش کی گئی تو انہوں نے فرمایا:
لَیْسَ ھٰذَا حَدِیثٌ مِّنْ أَھْلِ الصِّدْقِ . ”یہ سچے شخص کی بیان کردہ حدیث نہیں۔” (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 122/8)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أَحَدُ الْمَتْرُوکِینَ .
”یہ ایک متروک راوی ہے۔” (میزان الاعتدال في نقد الرجال : 74/4، ت : 8353)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے۔(تقریب التھذیب : 6419)
فائدہ : نافع تابعی رحمہ اللہ اپنے استاذ،صحابی ئ جلیل کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَکْرَہُ مَسَّ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔”
(جزء محمد بن عاصم الثقفي، ص : 106، ح : 27، سیر أعلام النبلاء للذھبي : 378/12، وسندہ، صحیحٌ)
ابو حامد محمد بن محمد طوسی المعروف بہ علامہ غزالی(505-450ھ) قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں :
إِنَّہ، عَادَۃُ النَّصَارٰی وَالْیَھُودِ . ”ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔”
(إحیاء علوم الدین : 244/1)
حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کو چومنے اور اس پر ماتھا وغیرہ ٹیکنے کے بارے میں فرماتے ہیں : لاَ یَجُوزُ أَنْ یُّطَافَ بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیُکْرَہُ إِلْصَاقُ الْبَطْنِ وَالظَّہْرِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ، قَالَہُ الْحَلِیميُّ وَغَیْرُہ،، وَیُکْرَہُ مَسْحُہ، بِالْیَدِ وَتَقْبِیلُہ،، بَلِ الْـأَدَبُ أَنْ یَّبْعُدَ مِنْہُ کَمَا یَبْعُدُ مِنْہُ لَوْ حَضَرَ فِي حَیَاتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ہٰذَا ہُوَ الصَّوَابُ، وَہُوَ الَّذِي قَالَہُ الْعُلَمَاءُ وَأَطْبَقُوا عَلَیْہِ، وَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یَغْتَرَّ بِکَثِیرٍ مِّنَ الْعَوَامُّ فِي مُخَالَفَتِہِمْ ذٰلِکَ فَإِنَّ الِاقْتِدَاءَ وَالْعَمَلَ إِنَّمَا یَکُونُ بِأَقْوَالِ الْعُلمائِ، وَلاَ یُلْتَفَتُ إِلٰی مُحْدَثَاتِ العَوَامِّ وَجَہَالَاتِہِمْ، وَلَقَدْ أَحْسَنَ السَّیِّدُ الْجَلِیلُ أَبُو عَلِيٍّ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِي قَوْلہٖ مَا مَعْنَاہُ : اتَّبِعْ طُرُقَ الْہُدٰی وَلاَ یَضُرُّکَ قِلَّۃُ السَّالِکِینَ، وَإِیَّاکَ وَطُرُقَ الضَّلاَلَۃِ، وَلاَ تَغْتَرَّ بِکَثْرَۃِ الْہَالِکِینَ، وَمَنْ خَطَرَ بِبَالِہٖ أَنَّ الْمَسْحَ بِالْیَدِ وَنَحْوِہٖ أَبْلَغُ فِي الْبَرَکَۃِ، فَہُوَ مِنْ جَہَالَتِہٖ وَغَفْلَتِہٖ، لِأَنَّ الْبَرَکَۃَ إِنَّمَا ہِيَ فِیمَا وَافَقَ الشَّرْعَ وَأَقْوَالَ الْعُلَمَائِ، وَکَیْفَ یَبْتَغِي الْفَضْلَ فِي مُخَالَفَۃِ الصَّوَابِ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا جائز نہیں۔اسی طرح قبر مبارک کی دیوار سے اپنا پیٹ اور اپنی پشت چمٹانا بھی مکروہ ہے۔علامہ حلیمی وغیرہ نے یہ بات فرمائی ہے۔ قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانااور اسے بوسہ دینا بھی مکروہ عمل ہے۔قبر مبارک کا اصل ادب تو یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ کے پاس حاضر ہونے والے کے لیے ادب دور رہنا ہی تھا۔ یہی بات درست ہے اور علمائے کرام نے اسی بات کی صراحت کی ہے اور اس پر اتفاق بھی کیا ہے۔کوئی مسلمان عام لوگوں کے ان ہدایات کے برعکس عمل کرنے سے دھوکا نہ کھا جائے،کیونکہ اقتدا تو علمائے کرام کے (اتفاقی) اقوال کی ہوتی ہے ،نہ کہ عوام کی بدعات اور جہالتوں کی۔سید جلیل ابوعلی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے : [راہِ ہدایت کی پیروی کرو، اس راہ پر چلنے والوں کی قلت نقصان دہ نہیں۔ گمراہیوں سے بچواور گمراہوں کی کثرت ِافراد سے دھوکا نہ کھاؤ](ہم اس قول کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے)۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قبرمبارک کو ہاتھ لگانے اور اس طرح کے دوسرے بدعی کاموں سے زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے، وہ اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر ایسا سوچتا ہے، کیونکہ برکت تو شریعت کی موافقت اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ملتی ہے۔ خلاف ِشریعت کاموں میں برکت کا حصول کیسے ممکن ہے؟”
(الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص : 456)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ أَوِ الصَّلَاۃُ عِنْدَہ،، أَوْ قَصْدُہ، لِأَجْلِ الدُّعَاءِ عِنْدَہ،، مُعْتَقِدًا أَنَّ الدُّعَاءَ ہُنَاکَ أَفْضَلُ مِنَ الدُّعَاءِ فِي غَیْرِہٖ، أَوِ النَّذْرُ لَہ، وَنَحْوُ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ ہٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ ہُوَ مِمَّا أُحْدِثَ مِنَ الْبِدَعِ الْقَبِیحَۃِ الَّتِي ہِيَ مِنْ شُعَبِ الشِّرْکِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ .
”قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانا،اس کے پاس نماز پڑھنا،دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا،یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا عام جگہوں سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم واحکم!”
(مجموع الفتاوٰی : 321/24، )
نیز فرماتے ہیں : وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ، أَيَّ قَبْرٍ کَانَ، وَتَقْبِیلُہ، وَتَمْرِیغُ الْخَدِّ عَلَیْہِ، فَمَنْہِيٌّ عَنْہُ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ قُبُورِ الْـأَنْبِیَائِ، وَلَمْ یَفْعَلْ ہٰذَا أَحَدٌ مِّنْ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا، بَلْ ہٰذَا مِنَ الشِّرْکِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا) (نوح71: 24-23)، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ ہٰؤُلَاءِ أَسْمَاءُ قَوْمٍ صَالِحِینَ، کَانُوا مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، وَأَنَّہُمْ عَکَفُوا عَلٰی قُبُورِہِمْ مُدَّۃً، ثُمَّ طَالَ عَلَیْہِمُ الْـأَمَدُ، فَصَوَّرُوا تَمَاثِیلَہُمْ، لَاسِیَّمَا إِذَا اقْتَرَنَ بِذٰلِکَ دُعَاءُ الْمَیِّتِ وَالِاسْتِغَاثَۃُ بِہٖ ….
”قبر کسی کی بھی ہو، اس کو (تبرک کی نیت سے)چھونا، اس کو بوسہ دینا اور اس پر اپنے رخسار ملنا منع ہے اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔یہ کام انبیائے کرام کی قبور مبارکہ کے ساتھ بھی کیا جائے تو اس کا یہی حکم ہے۔اسلاف ِامت اور ائمہ دین میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا،بلکہ یہ کام شرک ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا)(نوح71: 24-23)[وہ (قوم نوح کے مشرکین)کہنے لگے:ہم کسی بھی صورت وَد’، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہیں چھوڑیں گے۔(یوں) انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کر دیا]۔ یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ یہ سب قوم نوح میں کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ایک عرصہ تک یہ لوگ ان کی قبروں پر ماتھے ٹیکتے رہے،پھر جب صدیاں بیت گئیں تو انہوں نے ان نیک ہستیوں کی مورتیاں گھڑ لیں۔قبروں کی یہ تعظیم اس وقت خصوصاً شرک بن جاتی ہے جب اس کے ساتھ ساتھ میت کو پکارا جانے لگے اور اس سے مدد طلب کی جانے لگے۔۔۔” (مجموع الفتاوٰی : 92-91/27)
شیخ موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : اِتَّفَقَ السَّلَفُ عَلٰی أَنَّہ، لَا یَسْتَلِمُ قَبْرًا مِّنْ قُبُورِ الْـأَنْبِیَاءِ وَغَیْرِہِمْ، وَلَا یَتَمَسَّحُ بِہٖ، وَلَا یُسْتَحَبُّ الصَّلَاۃُ عِنْدَہ،، وَلَا قَصْدُہ، لِلدُّعَاءِ عِنْدَہ، أَوْ بِہٖ؛ لِأَنَّ ہٰذِہِ الْـأُمُورَ کَانَتْ مِنْ أَسْبَابِ الشِّرْکِ وَعِبَادَۃِ الْأَوْثَانِ . ”سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیائے کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے ،نہ اس کو (تبرک کی نیت سے)چھونا۔قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے قبروں کے پاس جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دُعا کرنامستحسن نہیں۔یہ سارے کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں۔”(مجموع الفتاوٰی : 31/27)
علامہ ابن الحاج(م:737ھ)قبرنبوی کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَتَرٰی مَنْ لَّا عِلْمَ عِنْدَہ، یَطُوفُ بِالْقَبْرِ الشَّرِیفِ، کَمَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ الْحَرَامِ، وَیَتَمَسَّحُ بِہٖ وَیُقَبِّلُہ،، وَیُلْقُونَ عَلَیْہِ مَنَادِیلَہُمْ وَثِیَابَہُمْ، یَقْصِدُونَ بِہِ التَّبَرُّکَ، وَذٰلِکَ کُلُّہ، مِنَ الْبِدَعِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ إِنَّمَا یَکُونُ بِالِاتِّبَاعِ لَہ، ـــ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ ــــ وَمَا کَانَ سَبَبُ عِبَادَۃِ الْجَاہِلِیَّۃِ لِلْـأَصْنَامِ إِلَّا مِنْ ہٰذَا الْبَابِ . ”آپ جاہلوں کو دیکھیں گے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا کعبہ کی طرح طواف کرتے ہیں، اور تبرک کی نیت سے اس کو چھوتے ہیں ،بوسہ دیتے ہیں، اس پر اپنے رومال اور کپڑے ڈالتے ہیں۔یہ سارے کام بدعت ہیں،کیونکہ برکت تو صرف اور صرف آپ علیہ السلام کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔دور جاہلیت میں بتوں کی عبادت کا سبب یہی چیزیں بنی تھیں۔” (المدخل : 263/1)
احمدونشریسی(م : 914ھ)لکھتے ہیں: وَمِنْھَا تَقْبِیلُ قَبْرِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ أَوِ الْعَالِمِ، فِإِنَّ ھٰذَا کُلَّہ، بِدْعَۃٌ . ”ان کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی نیک شخص یا عالم کی قبر کو چوما جائے۔ یہ سب کام بدعت ہیں۔”(المعیار المعرب : 490/2)
روایت نمبر 7 : حاتم بن وردان کا بیان ہے :
کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یُوَجِّہُ بِالْبَرِیدِ قَاصِدًا إِلَی الْمَدِینَۃِ، لِیُقْرِیئَ عَنْہُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ . ”امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک قاصد کو ڈاک دے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ کرتے کہ وہ ان کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرے۔”(شعب الإیمان للبیھقي : 3869)
تبصرہ : اس روایت کی سند ”ضعیف” اور باطل ہے، کیونکہ :
1 اس کے راوی ابراہیم بن فراس کی توثیق نہیں ملی۔
2 اس کا استاذ احمد بن صالح رازی بھی ”مجہول” ہے۔
روایت نمبر 8 : یزید بن ابوسعید مقبری بیان کرتے ہیں :
قَدِمْتُ عَلٰی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، إِذْ کَانَ خَلِیفَۃً، بِالشَّامِ، فَلَمَّا وَدَّعْتُہ، قَالَ : إِنَّ لِي إِلَیْکَ حَاجَۃً، إِذَا أَتَیْتَ الْمَدِینَۃَ فَتَرٰی قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاقْرَئْہُ مِنِّي السَّلَامَ .
”میں امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس شام میں گیا۔جب میں واپس ہونے لگا تو انہوں نے فرمایا: مجھے تم سے ایک کام ہے، وہ یہ کہ جب مدینہ منورہ میں جاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرو تو میری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرنا۔”
(شعب الإیمان للبیھقي : 3870، تاریخ دمشق لابن عساکر : 203/65)
تبصرہ : اس قول کی سند ”ضعیف”ہے۔ اس کا راوی رباح بن بشیر ”مجہول” ہے۔ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ”مجہول” قرار دیا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 490/3)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 242/8)کے سوائے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
روایت نمبر 9 : ابو اسحاق قرشی کہتے ہیں :
کَانَ عِنْدَنَا رَجُلٌ بِالْمَدِینَۃِ، إِذْ رَاٰی مُنْکَرًا لَّا یُمْکِنُہ، أَنْ یُّغَیِّرَہ،، أَتَی الْقَبْرَ، فَقَالَ :
أَیَا قَبْرَ النَّبِيِّ وَصَاحِبَیْہِ ……… أَلَا یَا غَوْثَنَا، لَوْ تَعْلَمُونَا .
”مدینہ میں ہمارے قریب ایک آدمی رہتا تھا۔جب وہ کسی ایسی برائی کو دیکھتا جس کو ختم کرنے کی اس میں طاقت نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوتا اور کہتا : اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دو ساتھیوں (سیدنا ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما )کی قبر! اگر آپ ہمیں جانتے ہیں تو ہماری مدد کیجیے!” (شعب الإیمان للبیھقي : 3879)
تبصرہ : اس روایت کی سند میں ابو اسحاق قرشی کون ہے؟ اس کا تعین درکار ہے، نیز اس کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
روایت نمبر 0 : سلیمان بن سُحَیْم بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! ھٰؤُلَاءِ الَّذِینَ یَأْتُونَکَ، فَیُسَلِّمُونَ عَلَیْکَ، أَتَفْقَہُ سَلَامَھُمْ ؟ قَالَ : ‘نَعَمْ، وَأَرُدُّ عَلَیْھِمْ’ . ”میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول! یہ لوگ جو آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر سلام پڑھتے ہیں، کیا آپ ان کے سلام کو سمجھتے ہیں؟ فرمایا : ہاں، میں ان کو جواب بھی دیتا ہوں۔”
(شعب الإیمان للبیھقي : 3868)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے۔ ابن ابو رجال کا سلیمان بن سُحَیم سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔
روایت نمبر ! : نُبَیْہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب احبار رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضرہوئے۔سیدہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ۔کعب کہنے لگے : جب بھی دن طلوع ہوتا ہے،ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور قبر پر اپنے پَر لگاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں۔”
(الزھد للإمام عبد اللّٰہ بن المبارک : 1600، مسند الدارمي : 47/1، ح : 94، فضل الصلاۃ علی النبي لإسماعیل بن إسحاق القاضي : 102، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني : 390/5)
تبصرہ : اس روایت میں نُبَیْہ بن وہب ،کعب احبار سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ ان کا کعب احبار سے سماع و لقاء ثابت نہیں۔یوں یہ سند ”منقطع” ہے۔
امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (321-238ھ) ایک ”منقطع” روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
فَدَخَلَ ھٰذَا الْحَدِیثُ فِي الْـأَحَادِیثِ الْمُنْقَطِعَۃِ الَّتِي لَا یَحْتَجُّ أَھْلُ الْإِسْنَادِ بِمِثْلِھَا .
”یہ حدیث منقطع روایات میں سے ہے ،جنہیں محدثین کرام قابل حجت نہیں سمجھتے۔”
(شرح مشکل الآثار للطحاوي : 326/10، ح : 4140)
دین قرآنِ کریم اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ تعلیمات کانام ہے۔سند امت ِمحمدیہqکا امتیازی وصف اور خاص شناخت ہے۔مسلمانوں کا پورا دین صحیح احادیث میں موجود ہے۔دین اسلام کو ”ضعیف” اور من گھڑت روایات کی کوئی ضرورت نہیں۔ایسی روایات کو اپناناکسی مسلمان کو زیبا نہیں۔اہل حق کو صرف وہی احادیث کافی ہیں، جو محدثین کے اجماعی اصولوں کے مطابق صحیح ہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح احادیث ہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.