2,327

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں درود سنتے ہیں؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری


کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرمبارک میں درود سنتے ہیں؟
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں درود و سلام سنتے ہیں۔ بعض لوگ تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلق طور پر سلام سنتے ہیں،جبکہ بعض کے نزدیک اگر قبر مبارک کے قریب سلام کہا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور دور سے کہا جائے، تو خود نہیں سنتے،بل کہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ درود وسلام پہنچاتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں قریب یا دُور سے سلام سننا قطعاً ثابت نہیں۔جو لوگ ایسے نظریات رکھتے ہیں،ان کے مزعو مہ دلائل کا اصولِ محدثین کی روشنی میں جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر 1 : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُہٗ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ نَائِیًا أُبْلِغْتُہٗ‘ ۔
’’جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجے گا،مجھے اس کا درود پہنچا دیا جائے گا۔‘‘
(شعب الإیمان للبیہقي : 1481، حیاۃ الأنبیاء في قبورہم للبیہقي : 19، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 136/4۔137، تاریخ بغداد للخطیب : 292/3، الترغیب والترہیب لأبي القاسم الأصبہاني : 1666)
تبصرہ :
یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 اس کے راوی محمد بن مروان سدی (صغیر)کے ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک‘‘ ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔
امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام نسائی، امام جوزجانی اور امام ابن عدی رحمہم اللہ وغیرہ نے اس پر سخت جرح کر رکھی ہے۔
2 اس کی سند میں سلیمان بن مہران اعمش’’مدلس‘‘ ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
محدثین کرام اعمش کی ابو صالح سے عن والی روایت کو ’’ضعیف‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔
امام عقیلی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
لَا أَصْلَ لَہٗ مِنْ حَدِیثِ الْـأَعْمَشِ، وَلَیْسَ بِمَحْفُوظٍ، وَلَا یُتَابِعُہٗ إِلَّا مَنْ ہُوَ دُونَہٗ ۔
’’یہ حدیث اعمش کی سند سے بے اصل ہے۔یہ محفوظ بھی نہیں۔محمد بن مروان کی متابعت اس سے بھی کمزور راوی کر رہا ہے۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 137/4)
سنن بیہقی والی روایت میں ابو عبدالرحمن نامی راوی ،اعمش سے بیان کرتا ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
أَبُو عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ہٰذَا ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ السُّدِّيُّ؛ فِیمَا أَرٰی، وَفِیہِ نَظَرٌ ۔
’’میرے خیال میں یہ ابو عبد الرحمن راوی محمد بن مروان سدی ہے اور اس میں کلام ہے۔‘‘(حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، ص : 103)
امام ابن نمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
دَعْ ذَا، مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ لَیْسَ بِشَيْئٍ ۔
’’اس (روایت)کو چھوڑ دو،کیونکہ محمد بن مروان کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 292/3)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ لَّا یَصِحُّ ۔ ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔‘‘
(الموضوعات : 303/1)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَفِي إِسْنَادِہٖ نَظَرٌ، تَفَرَّدَ بِہٖ مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ السُّدِّيُّ الصَّغِیرُ، وَہُوَ مَتْرُوکٌ ۔
’’اس کی سند محل نظر ہے، اس کو بیان کرنے میں محمد بن مروان سدی صغیر متفرد ہے اور وہ متروک ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 228/5)
روایت نمبر 2 : یہ روایت ان الفاظ سے بھی آتی ہے :
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي؛ سَمِعْتُہٗ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ نَائِیًا؛ وُکِّلَ بِہَا مَلَکٌ یُبَلِّغُنِي، وَکُفِيَ بِہَا أَمْرَ دُنْیَاہُ وَآخِرَتَہٗ، وَکُنْتُ لَہٗ شَہِیدًا أَوْ شَفِیعًا‘ ۔
’’جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا، میں اسے سنوں گا اور جو مجھ پر دور سے درود پڑھے گا،اس درود پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا جائے گا،جو اسے مجھ تک پہنچائے گا۔اس درود کے ذریعے اس شخص کے دنیا و آخرت کے معاملات سدھر جائیں گے اور میں اس کے لئے گواہ اور سفارشی بن جائوں گا۔‘‘
(شعب الإیمان للبیہقي : 1481، تاریخ بغداد للخطیب : 291/3۔292، واللّفظ لہٗ، الترغیب والترہیب لأبي القاسم الأصبہاني : 1698)
تبصرہ :
یہ روایت ’’موضوع‘‘(من گھڑت)ہے، اس میں محمد بن مروان سدی کے علاوہ محمد بن یونس بن موسیٰ قرشی کدیمی راوی بھی ’’وضاع‘‘ہے، نیز اس میں اعمش کی ’’تدلیس‘‘ بھی موجود ہے۔
تنبیہ :
ایک سند میں محمد بن مروان سدی کی متابعت ابو معاویہ محمد بن خازم ضریر نے کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں :
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي؛ سَمِعْتُہٗ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَيَّ مِنْ بَعِیدٍ أُعْلِمْتُہٗ‘ ۔
’’جو آدمی مجھ پر میری قبر کے پاس درود پڑھے گا،میں اسے خود سنوں گااور جو دور سے مجھ پر درود بھیجے گا،مجھے اس کے بارے میں بتایاجائے گا۔‘‘
(الصلاۃ علی النبي لأبي الشیخ نقلا عن جلاء الأفہام لابن القیّم، ص : 19، الثواب لأبي الشیخ نقلا عن اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي، ص : 283/1)
تبصرہ :
اس کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن اعرج راوی ہے، جس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ہے، اگرچہ ابو الشیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الطبقات (451/3)میں اور امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے اخبار اصبھان (113/3)میں اس کے حالات ِزندگی درج کیے ہیں۔
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباري : 488/6)اور حافظ سخاوی رحمہ اللہ (القول البدیع، ص : 154)کا اس کی سند کو’’ جید‘‘ کہنا درست نہیں ،بل کہ تعجب خیز ہے۔
روایت نمبر 3 : سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’أَکْثرُوا الصَّلَاۃ عَلَيَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَإِنَّہٗ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ، تَشْہَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ، لَیْسَ مِنْ عَبْدٍ یُّصَلِّي عَلَيَّ؛ إِلَّا بَلَغَنِي صَوتُہٗ حَیْثُ کَانَ‘ ۔
’’جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو،کیونکہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔جو بھی آدمی مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ جہاں بھی ہو، مجھے اس کی آواز پہنچ جاتی ہے۔‘‘
ہم نے عرض کیا : آپ کی وفات کے بعد بھی ایسا کریں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’وَبَعْدَ وَفَاتِي، إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْـأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْـأَنْبِیَائِ‘ ۔
’’ہاں!میری وفات کے بعد بھی۔ یقینا اللہ رب العزت نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘
(الطبراني نقلا عن جلاء الأفہام لابن القیّم الجوزیۃ، ص : 63)
تبصرہ :
اس کی سند ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔ سعید بن ابو ہلال کا سیدنا ابو دردا سے سماع و لقا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو طبقہ سادسہ (چھٹے طبقہ)میں ذکر کیا ہے(تقریب التہذیب : 2410)۔اس طبقہ کے راویوں کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہوتی۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِنَّ إِسْنَادَہٗ لَا یَصِحُّ ۔
’’اس کی سند صحیح نہیں۔‘‘(القول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع، ص : 164)
روایت نمبر 4 : ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:جو آپ پر نزدیک سے اور دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے، کیا یہ سب درود آپ پر پیش کیے جاتے ہیںاور پیش کیے جائیں گے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَسْمَعُ صَلَاۃَ أَہْلِ مَحَبَّتِي، وَأَعْرِفُہُمْ‘ ۔
’’میں اہل محبت کا درود سنتا اور انہیں پہچانتا ہوں۔‘‘(دلائل الخیرات، ص : 32)
تبصرہ :
یہ بے سند اور جھوٹی روایت ہے۔جو لوگ اس سے استدلال کرتے ہیں،انہیں چاہیے کہ اس کی کوئی سند پیش کریں۔بے سروپا روایات پر اپنے عقیدہ وعمل کی بنیاد رکھنا کسی سچے مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
b اسی طرح سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت میں ہے :
’إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَعَدَنِي إِذَا مِتُّ؛ أَنْ یُّسْمِعَنِي صَلَاۃَ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَأَنَا فِي الْمَدِینَۃِ وَأُمَّتِي فِي مَشَارِقِ الْـأَرْضِ وَمَغَارِبِہَا ۔۔۔ ‘ ۔
’’اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ جب مجھے موت آ جائے گی تو وہ جو مجھ پر درود پڑھے گا،اللہ مجھے اس کا درود سنا دے گا،حالانکہ میں مدینہ میں ہوں گا اور میری امت مشرق ومغرب میں پھیلی ہو گی۔‘‘
(’آبِ کوثر‘از محمد امین بریلوی فیصل آبادی،ص : 87)
b دوسری بے پر روایت میں ہے :
’وَیَوْمَ الْجُمُعَۃِ؛ فَإِنِّي أَسْمَعُ صَلَاتِي مِمَّنْ یُّصَلِّي عَلَيَّ بِأُذُنِي‘ ۔
’’جمعہ کے دن میں اپنے کانوں سے اس شخص کا درود سنتا ہوں،جو مجھ پر درود پڑھتا ہے۔‘‘(’آبِ کوثر‘از محمد امین بریلوی فیصل آبادی،ص : 88)
ان لوگوں کی جسارت ملاحظہ فرمائیں کہ ایک طرف تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دَم بھرتے ہیں لیکن دوسری طرف بے دریغ جھوٹی روایات گھڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔کیا محبت ِرسول کا یہی تقاضا ہے؟
روایت نمبر 5 : سلیمان بن سحیم کہتے ہیں :
رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، ہٰوُلَائِ الَّذِینَ یَأْتُونَکَ، فَیُسَلِّمُونَ عَلَیْکَ؛ أَتَفْقَہُ سَلَامَہُمْ ؟ قَالَ : ’نَعَمْ، وَأَرُدُّ عَلَیْہِمْ‘ ۔
’’میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔میں نے عرض کی:اللہ کے رسول! یہ کچھ لوگ آپ کی قبر مبارک کے پاس آ کر آپ پر سلام پیش کر رہے ہیں؛کیا آپ ان کا سلام سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جی ہاں!میں ان کا جواب بھی دیتا ہوں۔‘‘
(شعب الإیمان للبیہقي : 3868، حیاۃ الأنبیاء في قبورہم للبیہقي : 19)
تبصرہ :
یہ سخت ’’ضعیف‘‘ روایت ہے،کیونکہ :
1 عبدالرحمن بن ابو الرجال کا سلیمان بن سحیم سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔
2 سوید بن سعید حدثانی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صَدُوقٌ فِي نَفْسِہٖ؛ إِلَّا أَنَّہٗ عَمِيَ، فَصَارَ یَتَلَقَّنُ مَا لَیْسَ مِنْ حَدِیثِہٖ ۔
’’یہ بذات خود صدوق راوی تھا، مگر جب نابینا ہوا تو وہ ایسی باتوں کی تلقین قبول کرنے لگا، جو اس کی بیان کردہ نہیں تھیں۔‘‘(تقریب التہذیب : 2690)
امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کا سوید سے قبل از اختلاط روایت لینا ثابت نہیں۔
روایت نمبر 6 : سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ اللّٰہَ وَکَّلَ بِقَبْرِي مَلَکًا أَعْطَاہُ أَسْمَاعَ الْخَلَائِقِ، فَلَا یُصَلِّي عَلَيَّ أَحَدٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ؛ إِلَّا بَلَّغَنِي بِاسْمِہٖ وَاسْمِ أَبِیہِ؛ ھٰذَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَدْ صَلّٰی عَلَیْکَ‘ ۔
’’اللہ تعالیٰ میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو گی۔روز ِقیامت تک جو بھی شخص مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ درود پڑھنے والے اور اس کے والد کانام مجھ تک پہنچائے گا اور عرض کرے گا:اللہ کے رسول!فلاں کے بیٹے فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔‘‘
(مسند البزّار : 254/4، ح : 1425، التاریخ الکبیر للبخاري : 416/6، مسند الحارث :962/2، ح : 1063، الترغیب لأبي القاسم التیمي : 319/2، ح : 1671)
ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی رحمہ اللہ (العظمۃ : 263/2)اور امام طبرانی رحمہ اللہ (المعجم الکبیر نقلا عن جلاء الأفھام لابن القیّم، ص : 84، مجمع الزوائد للہیثمي: 162/10، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 249/3)کے بیان کردہ الفاظ یہ ہیں :
’إِنَّ لِلّٰہِ مَلَکًا أَعْطَاہُ أَسْمَاعَ الْخَلَائِقِ کُلِّہَا، وَہُوَ قَائِمٌ عَلٰی قَبْرِي؛ إِذَا مِتُّ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَلَیْسَ أَحَدٌ مِّنْ اُمَّتِي یُصَلِّي عَلَيَّ صَلَاۃً؛ إِلَّا سَمَّاہُ بِاسْمِہٖ وَاسْمِ أَبِیہِ، قَالَ : یَا مُحَمَّدُ، صَلّٰی عَلَیْکَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ کَذَا وَکَذَا، فَیُصَلِّي الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ الرَّجُلِ بِکُلِّ وَاحِدَۃٍ عَشْرًا‘ ۔
’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ایسا ہے،جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عنایت کی گئی ہے۔وہ میری وفات کے بعد قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا۔ میرا جو بھی امتی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا، وہ فرشتہ پڑھنے والے کو اس کے والد کے نام سمیت مجھ تک پہنچاتے ہوئے عرض کرے گا :اے محمد!فلاں بن فلاں نے آپ پر اتنا اتنا درود بھیجا ہے۔اللہ رب العزت اس شخص پر ایک مرتبہ درود پڑھنے کے عوض دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘
تبصرہ :
یہ روایت بھی سخت ’’ضعیف‘‘ہے ،کیونکہ :
1 اس کا راوی عمران بن حمیری جعفی ’’مجہول الحال‘‘ہے۔سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 223/5)کے کسی نے اس کی توثیق نہیںکی۔
اس کے بارے میں:
b امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا یُتَابَعُ عَلَیْہِ ۔ ’’اس کی کوئی بھی تائید نہیں۔‘‘
(التاریخ الکبیر : 416/6)
b امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں کی۔
b علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا یُعْرَفُ ۔ ’’یہ مجہول راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 236/3)
b حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔
(القول البدیع للسخاوي، ص : 119)
b علامہ ہیثمی،حافظ ذہبی پر اعتماد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَقَالَ صَاحِبُ الْمِیزَانِ : لَا یُعْرَفُ ۔
’’صاحب ِمیزان الاعتدال(علامہ ذہبی رحمہ اللہ )کا کہنا ہے کہ یہ راوی مجہول ہے۔‘‘(مجمع الزوائد : 162/10)
b علامہ عبد الرئوف مناوی رحمہ اللہ ،علامہ ہیثمی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لَمْ اَعْرِفْہُ ۔ ’’میں اسے پہچان نہیں پایا۔‘‘(فیض القدیر : 612/2)
2 اس کا راوی نعیم بن ضمضم ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کے بارے میں:
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔
(المغني في الضعفاء : 701/2)
b علامہ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
نَعِیمُ بْنُ ضَمْضَمَ ضَعِیفٌ ۔
’’نعیم بن ضمضم ضعیف راوی ہے۔‘‘(مجمع الزوائد : 162/10)
اس کے بارے میںادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
فائدہ :
حماد بن ابو سلیمان کوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ عُرِضَ عَلَیْہِ بِاسْمِہٖ ۔
’’کوئی شخص جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو وہ درود اس کے نام کے ساتھ آپ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘(الزھد والرقائق للإمام ابن المبارک : 1029، وسندہٗ صحیحٌ)
روایت نمبر 7 : ایک روایت یوں ہے :
قَالَ (شِیرْوَیْہِ بْنُ شَھْردَارَ) الدَّیْلَمِیُّ : أَنْبَأَنَا وَالِدِي (شَھْردَارُ بْنُ شِیرْوَیْہِ) : أَنْبَأَنَا أَبُو الْفَضْلِ الْکَرَابِیسِيُّ (مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَمْدَوَیْہِ) : أَنْبَأَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ بْنُ تُرْکَانَ (الْفَرْضِیُّ) : حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ سَعِیدٍ (لَعَلَّہُ ابْنُ مُوسَی بْنِ سَعِیدٍ أَبُو عِمْرَانَ الْھَمْدَانِیُّ) : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ سُفْیَانَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَالِحٍ الْمَرْوَزِیُّ : حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ خِرَاشٍ عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِیفَۃَ، عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) : ’أَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَيَّ، فَإِنَّ اللّٰہَ وَکَّلَ بِي مَلَکًا عِنْدَ قَبْرِي، فَإِذَا صَلّٰی عَلَيَّ رَجُلٌ مِّنْ اُمَّتِي، قَالَ لِي ذٰلِکَ الْمَلَکُ : یَا مُحَمَّدُ، إِنَّ فُلانَ ابْنَ فُلانٍ صَلّٰی عَلَیْکَ السَّاعَۃَ‘ ۔
’’سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا کرنا۔اللہ تعالیٰ میری قبر کے پاس ایک فرشتے کو مامور کرے گا۔جب میری امت میں سے کوئی فرد مجھ پر درود بھیجے گا تو یہ فرشتہ میری جناب میںعرض کرے گا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!فلاں بن فلاں نے ابھی آپ پر درود بھیجا ہے۔‘‘
(اللّآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي : 259/1، السلسلۃ الصحیحۃ للألباني : 1530)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے ،کیونکہ :
1 اس کا راوی بکر بن خداش ’’مجہول الحال‘‘ہے۔سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 148/8)کے کسی نے اس کی توثیق نہیںکی۔
2 محمد بن عبد اللہ بن صالح مروزی کے حالات ِزندگی نہیںمل سکے۔
3 ابوالفضل کرابیسی کے حالات اور توثیق بھی نہیںملی۔
اس روایت کے بارے میں حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَفِي سَنَدِہٖ ضَعْفٌ ۔ ’’اس کی سند میںکمزوری ہے۔‘‘
(القول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع، ص : 161)
روایت نمبر 8 : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا :
’إِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِینَ، یُبَلِّغُونِّي عَنْ اُمَّتِي السَّلَامَ، قَالَ : وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : حَیَاتِي خَیْرٌ لَّکُمْ، تُحَدِّثُونَ وَنُحَدِّثُ لَکُمْ، وَوَفَاتِي خَیْرٌ لَّکُمْ، تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُکُمْ، فَمَا رَاَیْتُ مِنْ خَیْرٍ حَمِدْتُّ اللّٰہَ عَلَیْہِ، وَمَا رَاَیْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللّٰہَ لَکُمْ‘ ۔
’’زمین میںاللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کر رہے ہیں،جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ ہم آپس میںہم کلام ہوتے رہتے ہیںاور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہو گی کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے رہیں گے۔میں جو بھلائی دیکھوں گا،اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کروں گا اور جو بُرائی دیکھوں گا، اس پر تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کروں گا۔‘‘
(مسند البزّار : 308/5، ح : 1925)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بصیغہ ’’عن ‘‘روایت کر رہے ہیں۔مسلّم اصول ہے کہ ’’ثقہ مدلس‘‘جب صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ محتمل الفاظ سے حدیث بیان کرے ،تو جب تک سماع کی تصریح نہ ملے،وہ ’’ضعیف‘‘ ہی ہوتی ہے۔
2 اس میں عبد المجید بن ابو رواد بھی ’’مدلس‘‘ہے۔ اس کی طرف سے سماع کی تصریح موجود نہیں۔
3 عبد المجید بن ابو رواد جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ اور مجروح بھی ہے۔
اس پر امام حمیدی(الضعفاء الکبیر للبخاري :307)،امام ابوحاتم رازی(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم :65/6)،امام ابن حبان(کتاب المجروحین : 160/2)، امام دارقطنی(سؤالات البرقاني : 317)، امام محمدبن یحییٰ بن ابو عمر(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 96/3، وسندہٗ صحیحٌ)، امام ابن سعد(الطبقات الکبرٰی :500/5)، امام ابن عدی(الکامل في ضعفاء الرجال :346/5)اور امام ابوزرعہ(أسامي الضعفاء : 637) رحمہم اللہ وغیرہ نے سخت جروح کر رکھی ہیں۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَقَدْ ضَعَّفَہٗ کَثِیرُونَ ۔
’’یقینا اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(المغني عن حمل الأسفار في تخریج الإحیاء : 144/4)
لہٰذا حافظ بوصیری کا اس کے بارے میں (وَثَّقَہُ الْجُمْہُورُ)کہنا صحیح نہیں۔
روایت نمبر 9 : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ فِي یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَلَیْلَۃِ الْجُمُعَۃِ مِائَۃً مِّنَ الصَّلَاۃِ؛ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ مِائَۃَ حَاجَۃٍ، سَبْعِینَ مِنْ حَوَائِجِ الْآخِرَۃِ، وَثَلَاثِینَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْیَا، وَوَکَّلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِذٰلِکَ مَلَکاً یُّدْخِلُہٗ عَلٰی قَبْرِي کَمَا یُدْخِلُ عَلَیْکُمُ الْہَدَایَا، إِنَّ عِلْمِي بَعْدَ مَوْتِي کَعِلْمِي فِي الْحَیَاۃِ‘ ۔
’’جو آدمی مجھ پر جمعہ کے دن اور رات سو مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری کردیتا ہے،جن میں ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی شامل ہوتی ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے،جو وہ درود اس طرح میری قبر انور میں پیش کرتا ہے ،جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔وفات کے بعد میرا علم ویسے ہی ہو گا،جیسے اب دنیوی زندگی میں ہے۔ ‘‘
(الفوائد لابن مندۃ : 56، الترغیب والترہیب لأبي القاسم الأصبہاني : 320/2 ۔321، ح : 1674)
تبصرہ :
یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے، کیونکہ :
1 حکامہ بنت عثمان کے بارے میں :
b امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اس کی بیان کردہ روایت کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘(الثقات : 194/7)
اس کی توثیق ثابت نہیں، لہٰذا یہ ’’مجہولہ‘‘ ہے۔
b حافظ عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تَرْوِي عَنْہُ (عُثْمَانَ بْنِ دِینَارٍ) حَکَّامَۃُ ابْنَتُہٗ أَحَادِیثَ بَوَاطِیلَ، لَیْسَ لَہَا أَصْلٌ ۔
’’عثمان بن دینار سے اس کی بیٹی حکامہ نے باطل روایتیں بیان کی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 200/3)
نیز فرماتے ہیں :
أَحَادِیثُ حَکَّامَۃَ تُشْبِہُ حَدِیثَ الْقُصَّاصِ، لَیْسَ لَہَا أُصُولٌ ۔
’’حکامہ کی بیان کردہ احادیث قصہ گو لوگوں کی کہانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔ان کی کوئی اصل نہیں۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 200/3)
2 حکامہ کے باپ عثمان بن دینار کوامام ابن حبان رحمہ اللہ نے (الثقات : 194/7)میں ذکر کیا ہے،ان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی، لہٰذا یہ ’’مجہول الحال‘‘ راوی ہے ۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لاَ شَيْئَ ۔ ’’اس کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘(میزان الاعتدال : 33/3)
روایت نمبر 0 : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے منسوب ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ أَقْرَبَکُمْ مِنِّي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِي کُلِّ مَوْطِنٍ أَکْثَرُکُمْ عَلَيَّ صَلَاۃً فِي الدُّنْیَا، مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ فِي یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَلَیْلَۃِ الْجُمُعَۃِ؛ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ مِائَۃَ حَاجَۃٍ، سَبْعِینَ مِنْ حَوَائِجِ الْآخِرَۃِ، وَثَلَاثِینَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْیَا، ثُمَّ یُوَکِّلُ اللّٰہُ بِذٰلِکَ مَلَکًا یُّدْخِلُہٗ فِي قَبْرِہٖ کَمَا یُدْخَلُ عَلَیْکُمُ الْہَدَایَا، یُخْبِرُنِي مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ بِاسْمِہٖ وَنَسَبِہٖ إِلَی عَشِیرَتِہٖ، فَأُثْبِتُہٗ عِنْدِي فِي صَحِیفَۃٍ بَیْضَائَ‘ ۔
’’بے شک روز ِقیامت ہر ایک مقام پر تم میں سے میرے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا ،جو دنیا میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہے۔چنانچہ جو آدمی مجھ پر جمعہ کے دن اور رات درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری کردیتا ہے،جن میں ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی شامل ہوتی ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے، جو وہ درود اس طرح میری قبر انور میں پیش کرتا ہے ،جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔وہ فرشتہ مجھے اس شخص کا نام اور اس کے خاندان کا سلسلہ نسب بتاتا ہے،پس میں یہ ساری معلومات اپنے پاس ایک روشن کتاب میں محفوظ کر لیتا ہوں۔ ‘‘
(شعب الإیمان للبیہقي : 2773، حیاۃ الأنبیاء في قبورہم للبیہقي : 13، فضائل الأوقات للبیہقي : 276، تاریخ دمشق لابن عساکر : 301/54)
تبصرہ :
یہ روایت سخت ’’ضعیف‘‘ہے، اس میں وہی علتیں موجود ہیں جن کا ذکر مذکورہ بالا روایت کے ضمن میں کیا جا چکا ہے۔
روایت نمبر ! : حاتم بن وردان کا بیان ہے :
کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ یُوَجِّہُ بِالْبَرِیدِ قَاصِدًا إِلَی الْمَدِینَۃِ، لِیُقْرِیَٔ عَنْہُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک قاصد کو ڈاک دے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ کرتے کہ وہ ان کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرے۔‘‘
(شعب الإیمان للبیھقي : 3869)
تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘اور باطل ہے، کیونکہ :
1 اس کے راوی ابراہیم بن فراس کی توثیق نہیں ملی۔
2 اس کا استاذ احمد بن صالح رازی بھی ’’مجہول‘‘ ہے۔
روایت نمبر @ : یزید بن ابوسعید مقبری بیان کرتے ہیں :
قَدِمْتُ عَلٰی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ؛ إِذْ کَانَ خَلِیفَۃً، بِالشَّامِ، فَلَمَّا وَدَّعْتُہٗ، قَالَ : إِنَّ لِي إِلَیْکَ حَاجَۃً، إِذَا اَتَیْتَ الْمَدِینَۃَ، فَتَرٰی قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فَاقْرَئْہُ مِنِّي السَّلَامَ ۔
’’میں امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس شام میں گیا۔جب میں واپس ہونے لگا،تو انہوں نے فرمایا:مجھے تم سے ایک کام ہے۔وہ یہ کہ جب مدینہ منورہ میں جاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرو، تو میری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرنا۔ ‘‘
(شعب الإیمان للبیھقي : 3870، تاریخ دمشق لابن عساکر : 203/65)
تبصرہ :
اس قول کی سند ’’ضعیف‘‘ہے۔ اس کا راوی رباح بن بشیر ’’مجہول‘‘ ہے۔
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول‘‘ قرار دیا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 490/3)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 242/8)کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
روایت نمبر # :
نُبَیْہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب احبار رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضرہوئے۔سیدہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ،تو کعب کہنے لگے :
’’جب بھی دن طلوع ہوتا ہے،ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور قبر پر اپنے پَر لگاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں۔‘‘
(الزھد للامام عبد اللّٰہ بن المبارک : 1600، مسند الدارمي : 47/1، ح : 94، فضل الصلاۃ علی النبي لإسماعیل بن إسحاق القاضي : 102، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني : 390/5)
تبصرہ :
اس روایت میں نُبَیْہ بن وہب ،کعب احبار سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ ان کا کعب احبار سے سماع و لقا ثابت نہیں۔یوں یہ سند ’’منقطع‘‘ہے۔
امام طحاوی حنفی ایک ’’منقطع‘‘ روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
فَدَخَلَ ھٰذَا الْحَدِیثُ فِي الْـاَحَادِیثِ الْمُنْقَطِعَۃِ الَّتِي لَا یَحْتَجُّ أَھْلُ الْإِسْنَادِ بِمِثْلِھَا ۔
’’یہ حدیث منقطع روایات میں سے ہے ،جنہیں محدثین کرام قابل حجت نہیں سمجھتے۔ ‘‘(شرح مشکل الآثار للطحاوي : 36/10، ح : 4140)
الحاصل :
دین قرآنِ کریم اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ تعلیمات کانام ہے۔سند امت ِ محمدیہqکا امتیازی وصف اور خاص شناخت ہے۔مسلمانوں کا پورا دین صحیح احادیث میں موجود ہے۔دین اسلام کو ’’ضعیف‘‘اور من گھڑت روایات کی کوئی ضرورت نہیں۔ایسی روایات کو اپناناکسی مسلمان کو زیبا نہیں۔اہل حق کو صرف وہی احادیث کافی ہیں،جو محدثین کرام کے اجماعی اصولوں کے مطابق صحیح ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر مبارک میں درود سننا کسی صحیح وصریح حدیث سے ثابت نہیں۔اگر کسی کے پاس ایسی کوئی بھی صحیح حدیث موجود ہے،تو وہ پیش کرے،ورنہ ایسا عقیدہ رکھنا صحیح نہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح احادیث ہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.