3,275

تین رکعات وتر کا ثبوت اور طریقہ ادائیگی، حافظ ابو یحیی نور پوری

تین رکعت وتر کا ثبوت اورطریقہئ ادائیگی
حافظ ابویحییٰ نورپوری

تین رکعت وتر کا ثبوت :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رمضان میں قیام اللیل کے بارے میں سوال کیا توانہوں نے فرمایا:
ما کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی إحدی عشــرۃ رکعۃ ، یصلّی أربعا فلا تسأل عن حسنہنّ وطولھنّ ، ثمّ یصلّی أربعا فلا تسأل عن حسنھنّ وطولہنّ ، ثم یصلّی ثلاثا ۔
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعتوں سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعتیں ادا فرماتے ۔ان کی حسن وخوبی اورطوالت کے بارے میں نہ پوچھیے ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ادا فرماتے ۔ ان کی حسن وخوبی اورطوالت کے بارے میں نہ پوچھیے! پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت (وتر )ادا فرماتے۔”
(صحیح البخاری : ١١٤٧، صحیح مسلم : ٧٣٨)
سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
أنّہ رقد عند رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فاستیقظ ، فتسوّک وتوضّأ ، وہو یقول : ( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ) ، فقرأ ہؤلاء الآیات ، حتّی ختم السورۃ ، ثمّ قام ، فصلّی رکعتین ، فأطال فیہما القیام والرکوع والسجود ، ثمّ انصرف ، فنام حتّی نفخ ، ثمّ فعل ذلک ثلاث مرّات ، ستّ رکعات ، کلّ ذلک یستاک ویتوضّأ ، ویقرأ ہؤلاء الآیات ، ثمّ أوتر بثلاث ۔
”وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوبیدار ہوئے ، مسواک کی اوروضو فرمایا ۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہئ آلِ عمران کی آیت(١٩٠)تلاوت فرمارہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر سورت تک پڑھا ۔ پھرکھڑے ہوکر دورکعتیں ادا فرمائیں ۔ ان میں قیام ، رکوع اورسجدہ لمبا فرمایا ، پھر فارغ ہوکر سوئے اورخراٹے لینے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تین بار کیا اورچھ رکعتیں ادا فرمائیں۔ ہردفعہ مسواک کرتے ، وضو فرماتے اوران آیات کی تلاوت فرماتے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وتر پڑھے۔”(صحیح مسلم : ١٩١/٧٦٣)
تین رکعت وتر کا طریقہ ادائیگی :
تین رکعت وتر ادا کرنے کے دو طریقے ہیں :
پہلا طریقہ :
پہلا طریقہ یہ ہے کہ دورکعت وتر ادا کرکے سلام پھیرا جائے اور پھر ایک رکعت الگ ادا کی جائے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی طریقہ ثابت ہے۔ آئیے اس کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں
سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یفصل بین الوتر والشفع بتسلیمۃ ویسمعناہا ۔
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (وتر کی)جفت اورطاق رکعت کے درمیان سلام کے ساتھ فصل کرتے اور ہمیں سلام کی آواز سناتے۔”(مسند الامام احمد : ٢/٧٦، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے صحیح قراردیا ہے۔(صحیح ابن حبان : ٢٤٣٣، ٢٤٣٥)
نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : إنّ عبد اللّٰہ بن عمر کان یسلّم بین الرکعۃ والرکعتین فی الوتر ، حتّی یأمر ببعض حاجتہ ۔
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  وترکی دورکعتوں اورایک رکعت میں سلام پھیرتے ، یہاں تک کہ کسی کام کے بارے میں حکم بھی فرمادیتے تھے۔”(صحیح البخاری : ٩٩١، الموطا للامام مالک : ١/١٢٥، شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٧٨۔٢٧٩، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”قوی” قراردیا ہے۔
(فتح الباری لابن حجر : ٢/٤٨٢)
امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کان آل سعد وآل عبد اللّٰہ بن عمر یسلّمون فی رکعتی الوتر ، ویوترون برکعۃ ۔ ”سیدنا سعد بن ابی وقاس اورسیدنا عبداللہ بن عمرyکے خاندان وتر کی دورکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے ، پھر ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٢، وسندہ، صحیحٌ)
عبداللہ بن عون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کان الحسن یسلّم فی رکعتی الوتر ۔ ”امام حسن بصری رحمہ اللہ وتر کی دورکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٢، وسندہ، صحیحٌ)
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سلام کے ساتھ تین وتر ثابت نہیں
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سلام کے ساتھ تین وتر ثابت نہیں ۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں:
b    بعض لوگوں نے صحیح بخاری ومسلم کی مذکورۃ الصدر حدیث سے تین رکعت نماز ِ وتر ایک سلام سے ادا کرنے پراستدلال کیا ہے، لیکن ان کا استدلال صحیح نہیں ، کیونکہ اس حدیث کی وضاحت صحیح مسلم(١٢٢/٧٣٦)میں موجود ہے ۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یصلّی إحدی عشرۃ رکعۃ ، یسلّم بین کلّ رکعتین ، ویوتر بواحدۃ ۔ ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (رات کو)گیارہ رکعات ادا فرماتے تھے ۔ہردو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر ادا فرماتے ۔”
یہ حدیث اس بات پرنص ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات نماز ِ وتر دوسلام سے ہی ادا کرتے تھے، کیونکہ فعل مضارع پر کان داخل ہوتو کوئی مخالف قرینہ نہ ہونے کی صورت میں اسے استمرار پرہی محمول کیا جاتا ہے۔چنانچہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا نے ایک رکعت وتر الگ پڑھنے کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کادائمی واکثری عمل بتایا ہے ۔
b    سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان لا یسلّم فی رکعتی الوتر ۔ ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دورکعتوں کے بعدسلام نہیں پھیرتے تھے۔”(سنن النسائی : ١٦٩٩)
اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس میں قتادہ راوی مدلس ہےں ، جو کہ عن کے لفظ سے روایت بیان کررہے ہےں۔
b    سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا صلّی العشاء دخل المنزل ، ثمّ صلّی رکعتین ، ثمّ صلّی بعدہا رکعتین أطول منہما ، ثمّ أوتر بثلاث لا یفصل فیہنّ ، ثمّ صلّی رکعتین ، وہو جالس ، یرکع وہو جالس ، ویسجد وہو قاعد جالس ۔
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عشاء کی نماز ادا فرما کر گھر میں داخل ہوتے تو دورکعتیں پڑھتے ۔ پھر ان سے بھی لمبی دو رکعتیں پڑھتے ، پھرتین وتر ادا فرماتے ۔ ان میں سلام پھیر کرفاصلہ نہ کرتے۔ پھر دورکعتیں بیٹھ کر ادا فرماتے ۔ بیٹھے ہوئے رکوع وسجود کرتے ۔”
(مسند الامام احمد : ٦/١٥٥۔١٥٦)
اس کی سند امام حسن بصری رحمہ اللہ کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
b    سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یوتر بثلاث ، لا یسلّم إلّا فی آخرہنّ ، وہذا وتر أمیر المؤمنین عمر ابن الخطّاب رضی اللّٰہ عنہ ، وعنہ أخذہ أہ المدینۃ ۔
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے تھے اورسلام فقط آخری رکعت میں پھیرتے تھے اوریہی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھی وتر ہیں۔ انہی سے یہ اہل مدینہ نے لیے ہیں۔”
(المستدرک للحاکم : ١/٣٠٤)
اس کی سند قتادہ کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
امام حاکم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علی علوّ قدرہ یدلّس ویأخذ عن کلّ أحد ۔ ”امام قتادہ اپنی بلند قدرومنزلت کے باوجود تدلیس بھی کرتے تھے اور ہرطرح کے راویوں سے روایات لیتے تھے۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٨٥١)
b    سیدنا ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یقرأ فی الوتر بـ ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی ) ، وفی الرکعۃ الثانیۃ بـ ( قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ ) ، وفی الثالثۃ بـ ( قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ) ، ولا یسلّم إلّا فی آخرہنّ ، ویقول ، یعنی بعد التسلیم : سبحان الملک القدّوس ثلاثا ۔ ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ ، دوسری میں سورۃ الکافرون اورتیسری میں سورۃ الاخلاص کی تلاوت کرتے تھے۔ صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے اورسلام کے بعد تین مرتبہ سبحان الملک القدوس پڑھتے تھے۔”
(سنن النسائی : ١٧٠٢)
اس کی سند قتادہ راوی کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
b    ثابت البنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : قال أنس : یا أبا محمّد ! خذ منّی ، فإنّی أخذت عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وأخذ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن اللّٰہ ، ولن تأخذ عن أحد أوثق منّی ، قال : ثمّ صلّی بی العشاء ، ثمّ صلّی ستّ رکعات ، یسلّم بین الرکعتین ، ثمّ أوتر بثلاث ، یسلّم فی آخرہنّ ۔ ”سیدناانس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے ابومحمد(ثابت البنانی کی کنیت) ! مجھ سے اخذ کرلو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اخذ کیا ہے اورتم ہرگز مجھ سے زیادہ ثقہ آدمی سے اخذ نہیں کرسکتے۔ ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ رضی اللہ عنہ  نے مجھے عشاء کی نماز پڑھائی ، پھر چھ رکعات نفل ادا کیے ۔ ہردورکعت پرسلام پھیرتے رہے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے تین رکعات وتر پڑھے اوران کے آخر میں سلام پھیرا۔”
(کنز العمال : ٨/٦٦، تاریخ ابن عساکر : ٩/٢٦٨)
اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس میں میمون بن عبداللہ، ابوعبداللہ راوی ہے ، جو کہ ”مجہول” ہے۔ (دیکھیں تقریب التہذیب لابن حجر : ٧٠٤٨)
لہٰذا اس سے حجت لینا درست نہیں۔
b    سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أرسلت أمّی لیلۃ لتبیت عند النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فتنظر کیــف یوتر ، فصلّی ما شاء اللّٰہ أن یصلّی ، حتّی إذا کان آخر اللیل وأراد الوتر قرأ بـ ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی ) فی الرکعۃ الأولی ، وقرأ فی الثانیۃ ( قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ ) ، ثمّ قعد ، ثمّ قام ولم یفصل بینہما بالسلام ، ثمّ قرأ بـ ( قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ) ، حتّی إذا فرغ کبّر ، ثمّ قنت ، فدعا بما شاء اللّٰہ أن یدعو ، ثمّ کبّر ورکع ۔ ”میں نے اپنی والدہ کو ایک دفعہ رات گزارنے کے لیے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بھیجا تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کیسے پڑھتے ہیں؟ (آپ کی والدہ فرماتی ہیں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز پڑھی ، جتنی اللہ تعالیٰ نے چاہی حتی کہ جب رات کا اخیر ہوگیا اورآپ نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ اوردوسری میں سورۃ الکافرون پڑھیں ۔ پھرقعدہ کیا ، پھرقعدہ کے بعدکھڑے ہوئے اوران کے درمیان سلام کے ساتھ فصل نہیں کیا۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورۃ الاخلاص پڑھی ۔ جب آپ قرائت سے فارغ ہوئے توتکبیر کہی اوردعائے قنوت پڑھی اورقنوت میں جواللہ نے چاہا دعا مانگی ، پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کیا۔”
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر : ٤/٧١، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٣٠٢)
یہ روایت من گھڑت ہے ۔ اس میں ابان بن عیاش راوی کذاب اورمتروک ہے۔
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔(تقریب التہذیب لابن حجر : ١٤٢)
نیز فرماتے ہیں : ضعیف بالاتّفاق ۔ ”یہ بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔”(فتح الباری لابن حجر : ٩/٢٢٢۔٢٣٩)
نیز اس روایت میں ابراہیم نخعی مدلس ہیں ، جوکہ عن سے روایت کررہے ہیں۔
دوسرا طریقہ :
بعض صحابہ کرام اورسلف سے تین وتروں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ثابت ہے اور جواز پرمحمول ہے، چنانچہ :
b    سیدنا مسور بن مخرمہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : دفنّا أبا بکر رضی اللّٰہ عنہ لیلا ، فقال عمر رضی اللّٰہ عنہ : إنّی لم أوتر ، فقام وصففنا وراء ہ ، فصلّی بنا ثلاث رکعات ، لم یسلّم إلّا فی آخرہنّ ۔
”ہم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رات کے وقت دفن کیا ۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے وتر ادا نہیں کیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کے پیچھے صف بنائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیں تین وتر پڑھائے ۔ صرف ان کے آخر میں سلام پھیرا۔”(شرح معانی الآثار : ١/٣٩٣، وسندہ، حسنٌ)
b    ثابت البنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : صلّی بی أنس رضی اللّٰہ عنہ الوتر ، وأنا عن یمینہ ، وأمّ ولدہ خلفنا ، ثلاث رکعات لم یسلّم إلّا فی آخرہنّ ، ظننت أنّہ یرید أن یعلّمنی ۔ ”سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے مجھے وتر پڑھائے۔ میں ان کی دائیں جانب تھا اوران کی ام الولد لونڈی ہمارے پیچھے تھیں۔ آپ نے صرف آخر میں سلام پھیرا۔ میں سمجھا کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے تعلیم دے رہے ہیں۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٩٤، وسندہ، حسنٌ)
b    ثابت البنانی رحمہ اللہ ہی بیان کرتے ہیں : انّہ أوتر بثلاث ، لم یسلّم إلّا فی آخرہنّ ۔ ”سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے تین وتر پڑھے اورصرف آخر میں سلام پھیرا۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٤، وسندہ، صحیحٌ)
b    ابواسحاق  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کان أصحاب علیّ ، وأصـحاب عبد اللّٰہ لا یسلّمون فی رکعتی الوتر ۔ ”سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ وتروں کی دورکعت کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٥، وسندہ، صحیحٌ)
b    ہشام الغاز  رحمہ اللہ ، امام مکحول رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
انّہ کان یوتر بثلاث ، لا یسلّم إلّا فی آخرہنّ ۔ ”آپ رحمہ اللہ  تین وتر پڑھتے تھے ، صرف آخر میں سلام پھیرتے ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٤، وسندہ، صحیحٌ)
b    ابوالزناد بیان کرتے ہیں : أثبت عمر بن عبد العزیز الوتر بالمدینۃ بقول الفقہاء ثلاثا ، لا یسلّم إلّا فی آخرہنّ ۔
”امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فقہائے کرام کے مشورے سے مدینہ میں تین وتر مقرر کیے ، جن کے صرف آخر میں سلام پھیراجاتا تھا۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٩٦، وسندہ، حسنٌ)
قیس بن سعد ، امام عطاء بن ابی رباح  رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
انّہ کان یوتر بثلاث ، لا یجلس فیہنّ ، ولا یتشہّد إلّا فی آخرہنّ ۔
”آپ رحمہ اللہ تین وتر پڑھتے ، درمیان میں نہ بیٹھتے ، نہ تشہد پڑھتے ، مگر آخر میں ہی بیٹھے اورتشہد پڑھتے۔”
(المستدرک للحاکم : ١/٣٠٥، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٣/٢٩، واللفظ لہ ، وسندہ، حسنٌ)
تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھنے کا طریقہ یہی ہے ، جیسا کہ :سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لا توتروا بثلاث ، أوتروا بخمس أو بسبع ، ولا تشبّہوا بصلاۃ المغرب ))    ”تم تین وتر نہ پڑھو، بلکہ پانچ یا سات وتر پڑھو ۔ (وتر کو)مغرب کی نماز کے ساتھ تشبیہ نہ دو۔”(سنن الدارقطنی : ٢/٢٤، ح : ١٦٣٤، المستدرک للحاکم : ١/٣٠٤، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٣/٣١، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (٢٤٢٩)نے ”صحیح” قراردیا ہے اور امام حاکم  رحمہ اللہ نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر”صحیح”کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
تین وتر سے ممانعت نماز ِ مغرب کی مشابہت کی وجہ سے ہے۔مغرب کی نماز سے مشابہت یہ ہے کہ تین رکعت نماز ِ وتر میں نماز ِ مغرب کی طرح دوتشہدوں کے ساتھ پڑھی جائے۔اگر دورکعتوں کے بعد تشہد کی بجائے سیدھا کھڑا ہواجائے تو مغرب سے مشابہت ختم ہوجاتی ہے۔
تنبیہ 1 : عن عبد الرحمن بن أبی الزناد ، عن أبیہ ، عن الفقہاء السبعۃ : سعید بن المسیّب ، وعروۃ بن الزبیر ، والقاسم بن محمّد ، وأبی بکر بن عبد الرحمن ، وخارجۃ بن زید ، وعبید اللّٰہ ، وسلیمان بن یسار ، فی مشیخۃ سواہم أہل الفقہ وصلاح وفضل ، وربما اختلفوا فی الشیء ، فأخذ بقول أکثرہم وأفضلہم رأیا ، فکان ممّا وعیت عنہم علی ہذہ الصفۃ أنّ الوتر ثلاث ، لا یسلّم إلّا فی آخرہنّ ۔ ”ابوالزنادنے فقہائے سبعہ : سعید بن مسیب ، عروہ بن زبیر ، قاسم بن محمد ، ابوبکربن عبدالرحمن ، خارجہ بن زید ، عبیداللہ ، سلیمان بن یسار سے ان کے علاوہ دوسرے فقیہ اہل صلاح اورصاحب ِ فضل بزرگوں کی موجودگی میں روایت کی ۔ یہ بزرگ اگر کسی مسئلہ میں اختلاف کرتے تو اس شخص کے قول پر عمل کرتے ، جو زیادہ ذی رائے اور افضل ہوتا ۔ میں نے جوباتیں ان سے اس طریقہ پریاد کی ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وترتین ہیں ، جن میں سلام فقط آخر ہی میں پھیراجائے گا۔”(شرح معانی الآثار : ١/٢٩٧)
اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس کے راوی ابوالعوام محمدبن عبداللہ بن عبدالجبار المرادی کے حالات نہیں مل سکے۔ صاحب ِ کشف الاستار لکھتے ہیں : لم أر من ترجّمہ ۔
”میرے علم میں کسی نے اس کے حالات درج نہیں کیے۔”
(کشف الاستار عن رجال معانی الآثار تلخیص مغانی الاخیار : ص ٢٣)
تنبیہ 2 : عن الحسن قال : أجمع المسلمون أنّ الوتر ثلاث ، لا یسلّم إلّا فی آخرہنّ ۔ ”امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر تین ہیں اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیراجائے گا۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٤)
یہ جھوٹ کا پلندا ہے ۔ اس کا راوی عمرو بن عبید کذاب اورمتروک ہے۔
امام ابوحاتم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کان متروک الحدیث ۔
”یہ متروک الحدیث راوی تھا۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٢٣٧)
امام یونس بن عبید  رحمہ اللہ کہتے ہیں : یکذب فی الحدیث ۔
”یہ حدیث میں جھوٹ بولتا ہے۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٢٤٦)
حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے حمید  رحمہ اللہ نے فرمایا : لا تأخذ عن ہذا شیـأا ، فإنّہ یکذب علی الحسن ۔ ”اس سے کوئی روایت نہ لینا ۔ یہ حسن بصری رحمہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔”(الجرح والتعدیل : ٦/٢٤٦)
اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ اس میں حفص بن غیاث مدلس ہیں۔
صحیح احادیث وآثار کے خلاف جھوٹا اجماع پیش کرنے والے کون ہوسکتے ہیں؟
خود امام حسن بصری رحمہ اللہ سے نماز ِ وتر میں دورکعتوں کے بعدسلام پھیرنا ثابت ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٩٢، وسندہ، صحیحٌ)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.