1,353

الحق المبین فی الجہر بالتامین، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

الحقّ المبین في الجھر بالتأمین

جہری نمازوں میں امام اور مقتدی کے لئے اونچی آواز سے آمین کہنا سنت ہے۔ اس کے ثبوت پر صحیح احادیث، آثار صحابہ اور ائمہ محدثین کی تصریحات شاہد ہیں:
دلیل نمبر1:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِذَا أَمَّنَ الْـإِمَامُ، فَأَمِّنُوا، فَإِنَّہ، مَنْ وَّافَقَ تَأْمِینُہ، تَأْمِینَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہ، مَا تَقَدَّمَ مَنْ ذَنْبِہٖ .
”امام آمین کہے، توآپ بھی آمین کہیں۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔”
(صحیح البخاری : ٧٨٠، صحیح مسلم : ٤١٠)
صحیح مسلم (٤١٠، ٧٦١) کی روایت ہے:
إِذَا قَالَ الْقَارِي : (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّینَ) (الفاتحۃ:٧) فَقَالَ : مَنْ خَلْفَہ، : آمِینَ، فَوَافَقَ قَوْلُہ، قَوْلَ أَہْلِ السَّمَائِ، غُفِرَ لَہ، مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ .
”جب امام (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّینَ) کہے، مقتدی بھی آمین کہیں اور اس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔”
راوی حدیث کا عمل :
راوی حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کے بارے میں ابو رافع رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، کَانَ یُؤَذِّنُ لِمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ فَاشْتَرَطَ أَنْ لَّا یَسْبِقَہ، بِالضَّالِّینَ حَتّٰی یَعْلَمَ أَنَّہ، قَدْ دَخَلَ الصَّفَّ فَکَانَ إِذَا قَالَ مَرْوَانُ : وَلَا الضَّالِّینَ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : آمِینَ، یَمُدُّ بِہَا صَوْتَہ،، وَقَالَ إِذَا وَافَقَ تَأْمِینُ أَہْلِ الْـأَرْضِ تَأْمِینَ أَہْلِ السَّمَاءِ غُفِرَ لَہُمْ .
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  مروان کے مؤذن تھے۔ انہوں نے مروان سے طے کر رکھا تھا کہ جب تک میں صف میں داخل نہ ہو جاؤں، آپ ”ولاالضالین” نہیں کہیں گے، تو جب مروان ”ولالضالین” کہتا، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  بآواز بلند آمین کہتے اور فرماتے :اہل زمین کی اہل آسمان سے آمین میں موافقت ہو گئی، تو زمین والوں کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔”
(السنن الکبری للبیہقی : ٢/٨٥، وسندہ، صحیحٌ)
سنن ابی داود (٩٣٧) کی سند کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَہٰذَا إِسْنَادٌ مُّتَّصِلٌ رِجَالُہ، ثِقَاتٌ .
”یہ سند متصل ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔”
(تغلیق التعلیق : ٢/٣١٩)
تنبیہ:
ابو عثمان سیدنا بلال رضی اللہ عنہ  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول!
لَا تَسْبِقِنِي بِآمِینَ .
”مجھ سے پہلے آمین نہ کہیے گا۔”
(مسند الإمام أحمد : ٦/١٢، ١٥، وسندہ، صحیحٌ)
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ  (١/٢١٩) نے امام بخاری اور مسلم کی شرط پر ”صحیح ”کہا ہے، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اونچی آواز سے آمین کہا کرتے تھے۔
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ  (٣٨٤۔٤٥٦ھ) لکھتے ہیں:
فَإِنْ قِیلَ : مَا مَعْنٰی قَوْلِ بِلَالٍ، وَأَبِي ہُرَیْرَۃَ : لَا تَسْبِقْنِي بِآمِینَ؟ قُلْنَا : مَعْنَاہُ بَیِّنٌ فِي غَایَۃِ الْبَیَانِ، لِـأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ أَنَّ الْإِمَامَ إذَا قَالَ : آمِینَ ، قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ آمِینَ ، فَإِنْ وَّافَقَ تَأْمِینُہ، تَأْمِینَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہ، مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ، فَأَرَادَ بِلَالٌ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّتَمَہَّلَ فِي قَوْلِ آمِینَ، فَیَجْتَمِعَ مَعَہ، فِي قَوْلِہَا، رَجَائً لِّمُوَافَقَۃِ تَأْمِینِ الْمَلَائِکَۃِ، وَہٰذَا الَّذِي أَرَادَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ مِنْ الْعَلَاءِ .
”اگر آپ کہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ  کے اس بیان (لا تسبقنی بامین) کا معنی کیا ہے؟، تو ہم عرض کریں گے کہ معنی واضح ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ امام آمین کہے، تو فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گی، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ  کے کہنے کا مقصد فقط یہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! تھوڑی مہلت دیجئے، تا کہ ہماری آمین اکٹھی ہو جائے، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ  چاہتے تھے کہ ان کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل جائے، یہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  نے علائ رحمہ اللہ  سے کہا تھا۔”
(المُحَلّٰی بالآثار : ٣/٣٣)
حدیث ِابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  اور فہم سلف :
امام شافعی رحمہ اللہ  (١٥٠۔٢٠٤ھ) سے پوچھا گیا کہ کیا امام سورۃ فاتحہ کے بعد باآواز بلند آمین کہے گا، تو آپ نے جواب میں فرمایا:
نَعَمْ، وَیَرْفَعُ بِہَا مَنْ خَلْفَہ، أَصْوَاتَہُمْ .
”جی ہاں! اور مقتدی بھی آواز بلند کریں گے۔”
پوچھا گیا دلیل کیا ہے؟، تو یہی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  پیش کی اور فرمایا :
وَفِي قَوْلِ رَسُولِ اللّٰہِ إذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا دَلَالَۃٌ عَلٰی أَنَّہ، أَمَرَ الْإِمَامَ أَنْ یَّجْہَرَ بِآمِینَ؛ لِـأَنَّ مَنْ خَلْفَہ، لَا یَعْرِفُ وَقْتَ تَأْمِینِہٖ إلَّا بِأَنْ یَّسْمَعَ تَأْمِینَہ، .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ‘جب امام آمین کہے، تو آپ بھی آمین کہیں’ وضاحت کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے امام کو بآواز بلند آمین کا حکم دیا ہے، کیوں کہ مقتدی جب تک امام کی آمین سن نہ لے، اس کی آمین کا وقت نہیں جان سکتا۔”
(الأم للشافعي : ١/١٠٩، الخلافیات للبیہقي : ٢/٦٧، ٦٨، مختصرہ)
امام الائمہ ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں:
فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَنَّ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا، مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الْإِمَامَ یَجْہَرُ بِآمِینَ، إِذْ مَعْلُومٌ عِنْدَ مَنْ یَّفْہَمُ الْعِلْمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ یَّقُولَ : آمِینَ، عِنْدَ تَأْمِینِ الْإِمَامِ إِلَّا وَالْمَأْمُومُ یَعْلَمُ أَنَّ الْإِمَامَ یَقُولُہ،، وَلَوْ کَانَ الْإِمَامُ یُسِرُّ آمِینَ، لَا یَجْہَرُ بِہٖ لَمْ یَعْلَمِ الْمَأْمُومُ أَنَّ إِمَامَہ، قَالَ : آمِینَ، أَوْ لَمْ یَقُلْہُ، وَمُحَالٌ أَنْ یُّقَالَ لِلرَّجُلِ : إِذَا قَالَ فُلَانٌ کَذَا فَقُلْ مِثْلَ مَقَالَتِہٖ، وَأَنْتَ لَا تَسْمَعُ مَقَالَتَہ،، ہَذَا عَیْنُ الْمُحَالِ، وَمَا لَا یَتَوَہَّمُہ، عَالِمٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ یَّقُولَ آمِینَ، إِذَا قَالَہ، إِمَامُہ، وَہُوَ لَا یَسْمَعُ تَأْمِینَ إِمَامِہٖ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ‘امام آمین کہے، تو آپ آمین کہیں۔’ صراحت سے ثابت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقتدی کو بآواز بلند آمین کہنے کا حکم دیا ہے، یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مقتدی کو امام کی آمین ساتھ آمین کا حکم صرف اس صورت میں دے سکتے ہیں، جب اسے معلوم ہو کہ اب امام نے آمین کہی ہے۔ اگر امام آہستہ امام کہے، تو مقتدی کو کیسے معلوم ہو گا کہ امام نے آمین کہہ دی ہے، یا نہیں کہی، آپ کسی سے کہیں کہ فلاں آدمی جب فلاں بات کہے، تو آپ بھی وہی بات کہہ دیجئے گا مگر آپ کو اس کی بات سنائی نہیں دے گی، تو محال ہے کہ سنے بغیر وہی بات کہہ دے۔ اسے کیا معلوم کہ اس نے کس وقت کیا کہا ہے، جب کہ وہ سن ہی نہیں رہا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مقتدی کو حکم دیں کہ امام کی آمین ساتھ آمین کہو اور مقتدی امام کی آمین سن بھی نہ رہا ہو؟ ایک عالم توکم از کم اس وہمے کو نہیں سمجھ پائے گا۔”
(صحیح ابن خزیمۃ تحت الحدیث : ٥٧٠)
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَلَوْلَا جَہْرُہ، بِالتَّأْمِینِ لَمَا أَمْکَنَ الْمَأْمُومُ أَنْ یُّؤَمِّنَ مَعَہ، وَیُوَافِقَہ، فِي التَّأْمِینِ .
”اگر آمین بلند آواز سے نہ ہو تو ایک مقتدی کے لئے ممکن ہی نہیں کہ امام کے ساتھ آمین کہے اور اس کی آمین امام کی آمین سے موافق ہو جائے۔”
(اعلام الموقعین : ٢/٣٩٦)
علامہ سندھی حنفی (م : ١١٣٨ھ) لکھتے ہیں:
أَخَذَ مِنْہُ الْمُصَنِّفُ الْجَہْرَ بِآمِینَ، إِذْ لَوْ أَسَرَّ الْإِمَامُ بِآمِینَ، لَمَا عَلِمَ الْقَوْمُ بِتَأْمِینِ الْإِمَامِ فَلَا یُحْسِنُ الْـأَمْرُ إِیَّاہُمْ بِّالتَّأْمِینِ عِنْدَ تَأْمِینِہٖ وَہٰذَا اسْتِنْبَاطٌ دَقِیقٌ یُّرَجِّحُہ، مَا جَاءَ مِنَ التَّصْرِیحِ بِالْجَہْرِ .
”مصنف کتاب اس حدیث سے آمین بالجہر کا استدلال کر رہے ہیں، کیوں کہ اگر آمین آہستہ آواز سے ہو تو مقتدی امام کی آمین بارے جان ہی نہ پائے، تو ایسی صورت میں مقتدی کو امام کے ساتھ آمین کہنے کا حکم مستحسن نہیں رہتا، یہ انتہائی دقیق استدلال ان احادیث کو راجح قرار دیتا ہے، جن میں آمین بالجہر کی صراحت موجود ہے۔”
(حاشیۃ السنّدي علی سنن ابن ماجہ : ١/٢٨٠)
حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  اور ائمہ محدثین:
امیر المومنین فی الحدیث، سید الفقہائ، امام بخاری رحمہ اللہ  اس پر حدیث پر جو باب قائم کیا ہے وہ کچھ یوں ہے:
بُابُ جَہْرِ الْـإِمَامِ بِالتَّأْمِینِ .
”امام کے باواز بلند آمین کہنے کا بیان۔”
اور
بَابُ جَہْرِ الْمَأْمُومِ بِالتَّأْمِینِ .
”مقتدی بلند آواز سے آمین کہے۔”
امام نسائی  رحمہ اللہ کا باب :
بَابُ الْـأَمْرِ بِالتَّأْمِینِ خَلْفَ الْـإِمَامِ .
”امام کی اقتداء میں آمین کاحکم۔”
اور
بَابُ الْجَہْرِ بِالتَّأْمِینِ .
”آمین بالجہر کا بیان۔”
امام ابوداود رحمہ اللہ :
بَابُ التَّأْمِینِ وَرَاءَ الْـإِمَامِ .
”امام کے پیچھے آمین کا بیان۔”
امام ابن ماجہ  رحمہ اللہ :
بَابُ الْجَہْرِ بِآمِینَ .
”بلند آواز سے آمین کہنے کا بیان۔”
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ :
بَابُ الْجَہْرِ بِآمِینَ عِنْدَ انْقِضَاءِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فِي الصَّلَاۃِ الَّتِي یَجْہَرُ الْإِمَامُ فِیہَا بِالْقِرَاءَ ۃِ .
”جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کے اختتام پر بلند آواز سے آمین کہنے کا بیان۔”
امام بیہقی رحمہ اللہ :
بَابُ جَہْرِ الْمَأْمُومِ بِالتَّأْمِینِ .
”مقتدی کا بلند آواز سے آمین کہنے کا بیان۔”
یہ حدیث دلیل ہے کہ امام اور مقتدی پکار کر آمین کہیں گے۔ آمین بالجہر کے متعلق دیگر احادیث اسی کی تائید کرتی ہیں، سوال یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ  نے ”باب جہر الامام بالتامین۔” قائم کیا ہے، لیکن حدیث اور باب میں مطابقت کیا ہے؟ اہل علم اس کا جواب دیتے ہیں:
وَالْقَوْلُ إِذَا وَقَعَ بِہِ الْخِطَابُ مُطْلَقًا حُمِلَ عَلَی الْجَہْرِ وَمَتٰی أُرِیدَ بِہِ الْإِسْرَارُ أَوْ حَدِیثُ النَّفْسِ قِیدَ بِذٰلِکَ .
”اگر کوئی قول مطلقا وارد ہو، تو اسے جہر پر محمول کیا جائے گا۔ اگر اسے آہستہ کہنا یا دل میں کہنا مراد ہوتا، تو وضاحت کر دی جاتی۔”
(فتح الباري لابن حجر : ٢/٢٦٧، إرشاد الساري للقسطلاني : ٢/١٠١)
دلیل نمبر 2:
نعیم بن عبد اللہ مجمر تابعی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
صَلَّیْتُ وَرَاءَ أَبِي ہُرَیْرَۃَ فَقَرَأَ : (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ) (الفاتحۃ : ١)، ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتّٰی إِذَا بَلَغَ (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) (الفاتحۃ : ٧) فَقَالَ : آمِینَ . فَقَالَ النَّاسُ : آمِینَ وَیَقُولُ : کُلَّمَا سَجَدَ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الْجُلُوسِ فِی الِاثْنَتَیْنِ قَالَ : اللّٰہُ أَکْبَرُ، وَإِذَا سَلَّمَ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ إِنِّي لَـأَشْبَہُکُمْ صَلَاۃً بِّرَسُولِ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”میںنے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کی اقتداء میں نماز ادا کی، آپ نے (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ) پڑھی، پھر سورۃ فاتحہ پڑھی۔ جب (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) کہا، تو انہوں نے آمین کہی۔ مقتدیوں نے بھی آمین کہی۔ سجدہ کرتے وقت اللہ اکبر کہا۔ دوسری رکعت سے اٹھتے وقت اللہ اکبر کہا۔ سلام پھیرنے کے بعد فرمایا : میری نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز سے آپ سب سے زیادہ مشابہ ہے۔”
(مسند الإمام أحمد : ٢/٤٩٧، سنن النسائي : ٩٠٥، السنن الکبرٰی للبیہقي : ٢/٨٥، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (٤٩٩) امام ابن الجارود رحمہ اللہ  (امام ابن حبان رحمہ اللہ  (١٧٩٨) نے ”صحیح ”کہا ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ہٰذَا صَحِیحٌ وَرُوَاتُہ، کُلُّہُمْ ثِقَاتٌ .
”یہ حدیث صحیح ہے۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔”
(سنن الدارقطني : ١/٣٠٥، ح : ١١٥٥)
اس حدیث کو امام حاکم (١/٢٣٣) نے امام بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ .
”یہ سند صحیح ہے۔”
(معرفۃ السنن والاثار : ٧٧٣، ٧٧٦)
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
صَحِیحٌ، لَا یتَوَجَّہ، عَلَیْہِ تَعْلِیلٌ فِي اتِّصَالِ سَنَدہٖ وَثِقَۃِ رِجَالِہٖ .
”صحیح” ہے، اس کے راویوں کی ثقاہت اور اتصال سند میںدو رائے ہو ہی نہیں سکتیں۔”
(خلاصۃ الأحکام للنووي : ١/٣٧١)
نیز اس حدیث کو حافظ عبد الحق اشبیلی رحمہ اللہ  (الاحکام الوسطی : ١/٣٧٥) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (تغلیق التعلیق : ٢/٣٢١) اور نیموی حنفی (آثار السنن : ٩٤) نے ”صحیح” کہا ہے۔
اس حدیث پر امام بیہقی نے ”باب جہر الاما م بالتامین۔” قائم کیا ہے۔ امام بخاری  رحمہ اللہ  نے اسے حدیث (٧٨٢) کے تحت ذکر کر کے اس پر ”باب جہر الماموم بالتامین۔” قائم کیا ہے۔ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :
قُلْتُ وَہُوَ مِنْ أَصَحِّ مَا وَرَدَ فِي إِثْبَاتِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ فِي أَوَّلِ الْفَاتِحَۃِ فِي الصَّلَاۃِ فَإِنَّ تَبْوِیبَ البُخَارِيِّ عَلَیْہِ فِیمَا یتَعَلَّقُ بِالتَّأْمِینِ وَذَکَرَہ، لَہ، بَعْدَ حَدِیثِ أَبِي سَلمَۃَ وَأَبِي صَالِحٍ مِّمَّا یُوضِحُ أَنَّ حُکْمَہ، عِنْدَہُ الرَّفْعُ وَلَیْسَ الِاقْتِصَارُ عَلَی التَّأْمِینِ أَوْلٰی مِنَ الِاقْتِصَارِ عَلَی الْبَسْمَلَۃِ فَحُکْمُ الْکُلِّ وَاحِدٌ وَّہُوَ الرّفْعُ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
”نماز میں سورہ فاتحہ کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے کے اثبات کی بہترین دلیل یہ حدیث ہے۔ اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ  کی تبویب آمین سے متعلق ہے۔ امام بخاری  رحمہ اللہ  نے یہ حدیث، سیدنا ابو سلمہ  رضی اللہ عنہ  اور سیدنا ابوصالح  رضی اللہ عنہ  کی احادیث کے بعد ذکر کی ہے اور واضح کیا ہے کہ آمین بلند آواز سے ہے۔ میں کہتا ہوں کہ صرف آمین بلند آواز سے کہنے کا استدلال درست نہیں، اس کے ساتھ ساتھ بسم اللہ بھی بلند آواز سے کہنے کا استدلال کیا جائے۔ دونوں بلند آواز سے کہی جائیں، آمین بھی اور بسم اللہ بھی۔”
(تغلیق التعلیق : ٢/٣٢٣، ٣٢٤)
امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (٢٢٣۔٣١١ھ) نے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔” بلند آواز سے کہنے کے بارے میں اپنی مستقل تصنیف میں یہ حدیث ذکر کی ہے اور لکھا ہے:
صَحَّ الْجَہْرُ بِہَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ مُتَّصِلٍ، لَا ارْتِیَابَ فِي صِحَّتِہٖ عِنْدَ أَہْلِ الْمَعْرِفَۃِ .
”صحیح اور متصل سندسے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے آمین بالجہر کا حکم دیا ہے۔ محدثین کے ہاں اس کی سند کے صحیح ہونے میں کوئی شک ہی نہیں۔”
(خلاصۃ الأحکام : ١/٣٧٠)
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ مقتدی پکار کر آمین کہے۔ محدثین کرام کی ایک جماعت نے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔” اونچی آواز سے پڑھنے پر دلیل بنایا ہے۔
دلیل نمبر 3:
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں:
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ : (غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) (الفاتحۃ : ٧)، فَقَالَ : آمِینَ، وَمَدَّ بِہَا صَوْتَہ، .
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا، آپ نے (غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) کے بعد بآاواز بلند آمین کہا۔”
(سنن الترمذي : ٢٤٨، سنن الدارقطني : ١/٣٣٤، ١٢٦٩، شرح السنۃ للبغوي : ٥٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی (٢٤٨) اور حافظ بغوی (٥٨٦) نے ”حسن”امام دارقطنیS (١٢٦٧) نے ”صحیح” کہا ہے۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  (اعلام الموقعین : ٢/٣٩٦) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (تغلیق التعلیق : ١/٢٣٦) نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔
فائدہ نمبر1:
اس حدیث کو امام سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ  ”مدلس” بیان کر رہے ہیں۔ ان سے امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ  بیان کر رہے ہیں۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
”سفیان ثوری سے یحییٰ بن سعید وہی روایت لیتے ہیں، جس میں انہوں نے اپنے شیوخ سے سماع کی تصریح کر رکھی ہو۔”
(الکفایۃ في علم الرّوایۃ للخطیب البغدادي، ص ٣٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 2:
سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ  کی اس روایت میں متابعت العلاء بن صالح اسدی (ثقہ باتفاق محدثین) نے کر رکھی ہے۔
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٩٩، سنن أبي داو،د : ٩٣٣، سنن الترمذي : ٢٤٩، المعجم الکبیر للطبراني : ٢٢/٤٥، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ مزی رحمہ اللہ  (٦٥٤۔٧٤٢ھ) فرماتے ہیں:
إِنَّ أَبَا دَاو،دَ سَمَّاہُ فِي رِوَایَتِہٖ، عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، وَہُوَ وَہْمٌ .
”امام ابو داود رحمہ اللہ  نے علاء بن صالح کی جگہ علی بن صالح بیان کیا ہے، جو ان کا وہم ہے۔”
(تہذیب الکمال : ٢٢/٥١٣)
تنبیہ بلیغ :
جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
”علاء بن صالح باتفاق ضعیف ہیں۔”
(درس ترمذي : ١/٥١٨)
یہ تقی صاحب کی خطا ہے۔ باتفاق ثقہ راوی کو باتفاق ضعیف کہہ دیا۔ انہیں رجوع کرنا چاہیے۔
فائدہ نمبر3:
یہاں ”مدبہا صوتہ” کا معنی آواز بلند کرنا ہے ، دلائل ملاحظہ ہوں:
1    سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اذان سکھائی تو فرمایا:
فَمُدَّ مِنْ صَوْتِکَ .
”آواز بلند کیجئے۔”
(سنن أبي داو،د : ٥٠٣، وسندہ، صحیحٌ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  غزوہ خندق کے موقع پر سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھ رہے تھے:
ثُمَّ یَمُدُّ بِہَا صَوْتَہ، .
”پھر آواز بلند کرتے۔”
(صحیح البخاري : ٤١٠٦)
2    حافظ بغوی رحمہ اللہ  نے اس پر ”باب الجہر بالتامین فی صلاۃ الجہر” قائم کیا ہے، نیز امام ترمذی رحمہ اللہ  اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
وَبِہٖ یَقُولُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنْ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِینَ، وَمَنْ بَّعْدَہُمْ : یَرَوْنَ أَنْ یَّرْفَعَ الرَّجُلَ صَوْتَہ، بِالتَّأْمِینِ، وَلَا یُخْفِیہَا، وَبِہٖ یَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ .
”بہت سے اہل علم صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا یہی مسلک ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے، پست آواز سے نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ  امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  اور امام اسحاق بن راہویہ  رحمہ اللہ  کا یہی مسلک ہے۔”
(سنن الترمذي تحت حدیث : ٢٤٨)
ائمہ دین کے آمین کے بارے میں موقف سے حدیث کے الفاظ کامعنی واضح ہوتا ہے۔
3    العلاء بن صالح کی روایت کے الفاظ ہیں، سیدنا وائل بن حجر رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّہ، صَلَّی خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَہَرَ بِآمِینَ .
”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ آپ نے آمین بالجہر کہی۔”
4    سنن ابی داود (٩٣٢) وغیرہ میں ”ورفع بہا صوتہ” کے الفاظ ہیں، ثابت ہوا ”مد بہا صوتہ” اور ”رفع بہا صوتہ” کا ایک ہی معنی ہے۔
تنبیہ بلیغ :
مسند الامام(٤/٣١٦) سنن الترمذی (٢٤٨) مسند الطیالسی (١٠٢٤) سنن الدارقطنی (١/٣٣٤،ح : ١٢٥٦) المستدرک علی الصیحیحین (٢/٢٣٢) وغیرہم میں امام شعبہ رحمہ اللہ  نے ”واخفی بہا صوتہ” کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ یہ الفاظ امام شعبہ کی خطا ہیں، جب کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  نے”مد بہا صوتہ” کے الفاظ بیان کئے ہیں، یہی درست ہیں، انہیں بوجوہ ترجیح حاصل ہے۔
وجہ اول :
امام ترمذی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے بارے میں امام ابو زرعہ رحمہ اللہ  سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا:
حَدِیثُ سُفْیَانَ فِي ہٰذَا أَصَحُّ .
”اس مسئلہ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ  کی حدیث اصح ہے۔”
(سنن الترمذي تحت حدیث : ٢٤٨)
حافظ بیہقی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
أَمَّا خَطَؤُہ، فِي مَتْنِہٖ فَبَیِّنٌ .
”اس حدیث کے متن میں امام شعبہ رحمہ اللہ  کی خطا واضح ہے۔”
(السنن الکبری : ٢/٥٧)
اسی لئے تو حافظ ابن القیم رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَحُکْمُ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ وَحُفَّاظِہٖ فِي ہٰذَا لِسُفْیَانَ .
”اس حدیث میں ائمہ حدیث امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  کی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔”
(إعلام الموقعین : ٢/٢٨٦)
امام مسلم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
أَخْطَأَ شُعْبَۃُ فِي ہٰذِہِ الرِّوَایَۃِ حِینَ قَالَ وَأَخْفٰی صَوْتَہ، .
”امام شعبہ نے جو یہ کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے آواز پست کی، یہ امام شعبہ رحمہ اللہ  کی خطا ہے۔”
(التمییز، ص : ٤٨)
حافظ بیہقی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَلَا أَعْلَمُ خِلَافًا بَّیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِیثِ أَنَّ سُفْیَانَ وَشُعْبَۃَ إِذَا اخْتَلَفَا فَالْقَوْلُ قَوْلُ سُفْیَانَ .
”حدیث کا علم رکھنے والے متفق ہیں کہ شعبہ اور سفیان میں اختلاف ہو جائے، تو سفیان ثوری رحمہ اللہ  کی بات ہی مانی جائے گی۔”
(الخلافیات : ٤/٦٤، مختصرہ)
نیز فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَجْمَعَ الْحُفَّاظُ : مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِيُّ وَغَیْرُہ،، عَلٰی أَنَّہ، أَخْطَأَ فِي ذٰلِکَ، فَقَدْ رَوَاہُ الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، عَنْ سَلَمَۃَ، بِمَعْنٰی رِوَایَۃِ سُفْیَانَ .
”امام بخاری رحمہ اللہ  جیسے حفاظ کا اتفاق ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ  نے یہ حدیث بیان کرنے میں خطا کی ہے۔ یہی روایت علاء بن صالح اور محمد بن سلمہ بن کہیل رحمہ اللہ  نے بھی بیان کی ہے اور وہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  کے ہم نوا ہیں۔”
(معرفۃ السنن والآثار : ٢/٣٦٠)
حافظ نووی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَاتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی غَلَطِہٖ فِیہَا .
”حفاظ حدیث متفق ہیں کہ امام شعبہ رحمہ اللہ  کو اس حدیث میں غلطی لگی ہے۔”
(خلاصۃ الأحکام : ١/٣٨١)
امام شعبہ رحمہ اللہ  سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ
کَانَ سُفْیَانُ أَحْفَظَ مِنِّي .
”سفیان مجھ سے بڑے حافظ تھے۔”
(سنن أبي داو،د : ٣٣٣٩، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابوالفضل العباس الدوری کہتے ہیںکہ میں نے یحییٰ بن معین کو فرماتے ہوئے سنا :
لَیْسَ أَحَدٌ یُّخَالِفُ سُفْیَانَ الثَّوْريَّ إِلَّا کَانَ الْقَوْلُ قَوْلَ سُفْیَانَ قُلْتُ وَشُعْبَۃُ أَیْضًا إِنْ خَالَفَہ، قَالَ نَعَمْ .
”اگر سفیان ثوری سے کسی کا اختلاف ہو جائے، تو سفیان ثوری کو ترجیح حاصل ہو گی۔ میں نے کہا : شعبہ اختلاف کریں تب بھی؟ فرمایا جی ہاں، تب بھی۔”
(تاریخ یحییٰ بن مَعین بروایۃ الدوري : ٣/٣٦٤، ت : ١٧٧١)
امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
لَیْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ شُعْبَۃَ وَلَا یَعْدِلُہ، أَحَدٌ عِنْدِي، وَإِذَا خَالَفَہ، سُفْیَانُ أَخَذْتُ بِقَوْلِ سُفْیَانَ .
”مجھے شعبہ سا محبوب کوئی نہیں۔ میں کسی کو ان کا ہم پلہ نہیں مانتا، مگر جب شعبہ اور سفیان ثوری کا اختلاف ہو تو میں سفیان ثوری کا قول لیتا ہوں۔”
(تقدمۃ الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ١/٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
خود امام شعبہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
إِذَا خَالَفَنِي سُفْیَانُ فِي حَدِیثٍ فَالْحَدِیثُ حَدِیثُہ، .
”سفیان حدیث میں میری مخالفت کریں، تو انہی کی بات قبول ہو گی۔”
(تقدمۃ الجرح والتعدیل : ١/٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
وجہ ثانی :
ابو الولید طیالسی رحمہ اللہ  امام شعبہ رحمہ اللہ  سے سفیان والی روایت کے موافق الفاظ بیان کرتے ہیں، سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
أَنَّہ، صَلّٰی خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَالَ : وَلَا الضَّالِّینَ، قَال آمِینَ، رَافِعًا بِّہَا صَوْتَہ، .
”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا میں نماز ادا کی جب آپ نے ‘ و لا لضالین’ کہا، تو بلند آواز سے آمین کہا۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : ٢/٥٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام بیہقی رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔
(معرفۃ السنن والآثار : ٢/٣٩٠)
نیز فرماتے ہیں:
وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ شُعْبَۃُ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَنَبَّہَ لِذٰلِکَ فَعَادَ إِلَی الصَّوَابِ فِي مَتْنِہٖ .
”ممکن ہے امام شعبہ رحمہ اللہ  کو اپنی خطا کا علم ہو گیا ہو اور انہوں نے متن میں درستی کر لی ہو۔”
(الخلافیات : ٢/٦٥، مختصرہ)
امام شعبہ رحمہ اللہ  سے ان کے دو شاگردوں وہب بن جریر رحمہ اللہ  اور عبدالصمد بن عبدالصمد رحمہ اللہ  نے یہ حدیث بیان کی، تو اس میں ”خفض” یا ”اخفی” کے الفاظ بیان نہیں کئے، بل کہ قال : آمین ‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے آمین کہی۔’ کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔
(صحیح ابن حبّان : ١٨٠٥، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ  نے اس پر ”باب ان یجہر بامین” باندھا ہے۔ واضح رہے کہ سفیان کی روایت کے دو شواہد ہیں۔ شعبہ کی روایت کا کوئی شاہد نہیں۔ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أُتِيَ شُعْبَۃُ فِي ذٰلِکَ لِـأَنَّہ، کَانَ یُحَدِّثُ مِنْ حِفْظِہٖ وَلَا یَرْجِعُ إِلٰی کِتَابِہٖ وَیُحَدِّثُ بِمَعَانِي مَا سَمِعَ لَا بِأَلْفَاظِہِ الَّتِي سَمِعَہَا مِمَّنْ حَدَّثَہُ؛ إِذْ کَانَ ذٰلِکَ مِمَّا یَعْجِزُ عَنْہُ وَلَمْ یَکُنْ فَقِیہًا فَیُرَدُّ ذٰلِکَ إِلَی الْفِقْہِ حَتّٰی تَتَمَیَّزَ مَعَانِیہِ فِي قَلْبِہٖ کَمَالِکٍ وَّالثَّوْرِيِّ .
”شعبہ یہاں خطا کھا گئے ہیں۔ وہ حفظ سے بیان کرتے تھے، کتاب کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ روایت بالمعنی کرتے تھے، الفاظ حدیث بیان نہیں کرتے تھے، کیوں کہ وہ فقیہ نہیں تھے، اس لئے جب کسی حدیث کا معنی سمجھنے سے عاجز آ جائیں تو اہل فقہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، جیسا کہ امام مالک اور امام سفیان ثوری ہیں۔”
(شرح مشکل الآثار : ٤/٦، وفي نسخۃ : ٧/١٧١)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَقَدْ رُجِّحَتْ رِوَایَۃُ سُفْیَانَ بِمُتَابَعَۃِ اثْنَیْنِ لَہ، بِخِلَافِ شُعْبَۃَ فَلِذٰلِکَ جَزَمَ النُّقَّادُ بِأَنَّ رِوَایَتَہ، أَصَحُّ .
”امام سفیا ن ثوری رحمہ اللہ  کی دو راویوں نے متابعت بھی کررکھی ہے، جب کہ شعبہ کی کوئی متابعت نہیں کی۔ اسی لئے نقاد محدثین نے بالجزم سفیان ثوری رحمہ اللہ  کی روایت کو اصح قرار دیا ہے۔”
(التلخیص الحبیر : ١/٢٣٧)
شبہ نمبر1:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ فَرَغَ مِنَ الصَّلَاۃِ حَتّٰی رَأَیْتُ خَدَّہ، مِنْ ہٰذَا الْجَانِبِ وَمِنْ ہٰذَا الْجَانِبِ وَقَرَأَ (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ)(الفاتحۃ : ٧) فَقَالَ : آمِینَ یَمُدُّ بِہَا صَوْتَہ، مَا أَرَاہُ إِلَّا یُعَلِّمُنَا .
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز سے فارغ ہوئے، میں نے آپ کے دائیں اور بائیں رخسار کو دیکھا، پھر آپ نے : (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) کہا اور بآواز بلند آمین کہا۔ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں تعلیم دینا چاہتے تھے۔”
(الکنیٰ والأسماء للدولابي : ١٠٩٠)
تبصرہ :
سخت ترین ”ضعیف” ہے:
1    صاحب کتاب محمد بن احمد بن حماد ابو بشر دولابی ”ضعیف” ہے۔
2    الحسن بن عطیہ ”ضعیف” ہے۔
3    یحییٰ بن سلمہ بن کہیل بالاتفاق مجروح ہے، اسے امام ابن نمیر، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام نسائی، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ترمذی، امام عجلی، امام بخاری، حافظ ابن سعد، حافظ ابو علی طوسی، امام حاکم Sوغیرہ نے مجروح قرار دیا ہے۔
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
ضَعَفَّہُ الْجُمْہُورُ .
”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔”
(مجمع الزوائد : ٧/١٦١)
حافظ زرکشی  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ .
”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔”
(المعتبر في تخریج أحادیث المنھاج والمختصر، ص ٨٠)
شبہ نمبر2:
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ فِي الصَّلَاۃِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ قَالَ : آمِینَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ .
”میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں ہیں جب آپ فاتحہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے تین دفعہ آمین کہی۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : ٢٢/٢٢)
تبصرہ :
یہ روایت کئی وجہ سے ”ضعیف و مردود” ہے:
1    سعد بن صلت کی سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ  (الثقات :٦/٣٧٦) کے کسی نے توثیق نہیں کی، لہٰذا یہ مستور الحال ہے۔
2    اعمش ”مدلس” ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
3    ابو اسحاق سبیعی بھی ”مدلس” ہیں، سماع کی تصریح درکار ہے۔
4    عبد الجبار کا اپنے باپ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  سے سماع نہیں۔
حافظ ابن سعد رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَیَتَکَلَّمُونَ فِي رِوَایَتِہٖ عَنْ أَبِیہِ وَیَقُولُونَ لَمْ یَلْقَہُ .
”محدثین عبدالجبار کی ان کے باپ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  سے روایت میںکلام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا اپنے باپ سے لقا نہیں۔”
(طبقات ابن سعد : ٦/٣١٠)
حافظ نووی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَإِنَّ أَئِمَّۃَ الْحَدِیثِ مُتَّفِقُونَ عَلٰی أَنَّ عَبْدَ الْجَبَّارِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ شَیْئًا .
”ائمہ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ عبد الجبار نے اپنے باپ سے کچھ نہیں سنا۔”
(المجموع شرح المہذب : ٣/١٠٤)
شبہ نمبر 3:
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّہ، سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی قَالَ : رَبِّ اغْفِرْلِي، آمِینَ .
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا آپ نے کہا : ‘رب اغفرلی’ (اللہ مجھے معاف فرما۔) اور آمین کہا۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : ٢٢/٤٢، السنن الکبرٰی للبیہقي : ٢/٥٨)
تبصرہ :
سند” ضعیف” ہے:
ابو اسحاق سبیعی ”مدلس” ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
دلیل نمبر4:
سیدہ ام الحصین رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں:
أَنَّہَا سَمِعْتْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ : (مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ)، فَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ (وَلَا الضَّالِّینَ) (الفاتحۃ:٧) قَالَ : آمِینَ .
”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا، آپ نے مالک یوم الدین، پڑھا، حتی کہ جب ولا الضالین پر پہنچے، تو آمین کہا۔”
(معجم أبي یعلیٰ : ٣١٣، وسندہ، صحیحٌ إن صح سماع ثابت البناني من یحیی بن معین)
دلیل نمبر5:
نافع رحمہ اللہ  سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
کَانَ إِذَا کَانَ مَعَ الْإِمَامِ یَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَأَمَّنَ النَّاسُ أَمَنَّ ابْنُ عُمَرَ، وَرَآی تِلْکَ السُّنَّۃَ .
”آپ امام کے ساتھ ہوتے، تو سورہ فاتحہ پڑھتے۔ لوگ آمین کہتے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  بھی آمین کہتے، آپ رضی اللہ عنہ  اسے سنت کہا کرتے تھے۔”
(صحیح ابن خزیمۃ : ٥٧٢، وسندہ، حسنٌ)
فائدہ :
اسامہ بن زید لیثی جمہور محدثین کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہے۔ یہ لیثی ہی ہے، کیوں کہ صحیح ابن خزیمہ میں عبد اللہ بن وہب کی کوئی روایت عمری سے نہیں۔ فوائد یحییٰ بن معین بروایۃ ابو بکر مروزی کے حوالے سے روایت ہے۔ نافع  رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ إِذَا خَتَمَ اُمَّ الْقُرْآنَ لَا یَدَعُ آمِینَ یُؤَمِّنُ إِذَا خَتَمَہَا وَیَحُضُّہُمْ عَلٰی قَوْلِہَا وَسَمِعْتُ مِنْہُ فِي ذٰلِکَ خَبَرًا .
”عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سورۃ فاتحہ کے اختتام پر آمین کہتے تھے اور دوسروں کو بھی اس پر ابھارتے تھے۔ اس بارے میں نے ان سے حدیث سنی ہے۔”
(تغلیق التعلیق : ٢/٣١٩، فتح الباري لابن حجر : ٢/٢٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر 6:
عکرمہ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَلَہُمْ رَجَّۃٌ فِي مَسَاجِدِہِمْ بِآمِینَ، إِذَا قَالَ الْإِمَامُ : (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) (الفاتحۃ : ٧) .
”میں نے دیکھا کہ لوگ مسجد میں آمین کہتے ہیں۔ آمین کہتے وقت ان کی آواز کی گونج سنی۔ یہ اس وقت ہوتا جب امام (غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ) کہتا۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٤٢٥، وسندہ، حسنٌ)
فائدہ:
اسحاق بن منصور کوسج رحمہ اللہ  کہتے ہیں: میں نے امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ  سے پوچھا؟
یَجْہَرُ بِآمِینَ؟ قَالَ : إيْ لَعُمْرِي الإمَامُ وَغَیْرُ الْإِمَامِ، قَالَ إِسْحَاقُ : کَمَا قَالَ . قَالَ إِسْحَاقُ : وَأَمَّا الْجَہْرُ بِآمِینَ، فَإِنَّہ، سُنَّۃٌ مِّنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمْ مِنْ بَعْدِہٖ وَذٰلِکَ یُوَافِقُ تَأْمِینُہُمْ تَأْمِینَ الْمَلَائِکَۃِ، وَہُوَ عَلَی الْإِمَامِ أَلْزَمُ، وَعَلَیْہِ أَنْ یَجْہَرَ جَہْراً حَتّٰی یَسْمَعَ مَنْ یَلِیْہِ فَقَطْ، وَإِنْ زَادَ عَلٰی ذَلِکَ حَتّٰی یَسْمَعَ آخِرُ الصُّفُوفِ فَحَسَنٌ أَیْضاً، لِمَا ذُکِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہ، قَالَ : آمِینَ، حَتّٰی أَسْمَعَ صَفَّ النِّسَاءِ وَہُنَّ خَلْفَ الرِّجَالِ، فَلَا یَدَعَنَّ ذٰلِکَ إِمَامٌ وَلَا مَأْمُومٌ لِحَالِ تَرْکِ النَّاسِ، أَوْ یَدَعُہُ اسْتِحْیَائً، أَوْ خَوْفاً مِّنْ أَنْ یُنْسَبَ إِلٰی مَکْرُوہٍ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَسْتَحْيِ مِنَ الْحَقِّ .
”کیا آمین اونچی کہی جائے گی؟ فرمایا : جی ہاں، اللہ کی قسم امام و مقتدی آمین اونچی کہیں گے۔ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ  بھی کہی کہتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں : اونچی آمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرامy کی سنت ہے۔ آمین فرشتوں کی آمین سے موافقت کر جائے، یہ امام پر زیادہ لازم ہوتی ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ اتنی اونچی کہے کہ کم از کم قریب والے سن لیں، اگر صف کے آخر تک سنا دے، تو کیا بات ہے! حتی کہ مردوں کے پیچھے کھڑی عورتوں کو بھی سنا دے۔ لوگ چھوڑ بھی دین کوئی امام یا مقتدی اس سنت کو نہ چھوڑے۔ شرم محسوس کر کے یا کسی خوف سے یا کسی مجبوری کے ڈر سے بھی نہ چھوڑے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتے۔”
(مسائل الإمام أحمد بن حنبل و إسحاق بن راہویہ بروایۃ الکوسج : ١/١٣٨)
آمین سے یہودیوں کی چڑ:
دلیل نمبر1:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِنَّ الْیَہُودَ یَحْسُدُونَکُمْ عَلَی السَّلَامِ وَالتَّأْمِینِ .
”یہود آپ سے سلام اور آمین پر حسد کرتے ہیں۔”
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : ١١/٤٣، المختارہ لضیاء الدین المقدسي : ٥/١٠٧، ح : ١٧٢٩، ١٧٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر2:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَہُودُ عَلٰی شَيْئٍ، مَا حَسَدَتْکُمْ عَلَی السَّلَامِ وَالتَّأْمِینِ .
”یہودی آپ سے اتنا حسد کہیں نہیں کرتے، جتنا سلام اور اور آمین کہنے پر کرتے ہیں۔”
(سنن ابن ماجۃ : ٨٥٦، مسند إسحاق بن راہویہ : ٥٧٩، الأدب المفرد للبخاري : ٩٨٨، التاریخ الکبیر للبخاري : ١/٢٢، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (١٥٨٥) نے صحیح کہا ہے، حافظ منذری رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔
(الترغیب والترہیب : ١/١٩٦)
حافظ بوصیری رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
ہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ وَّرِجَالُہ، ثِقَاتٌ احْتَجَّ مُسْلِمٌ بِجَمِیعِ رُوَاتِہٖ .
”یہ سند صحیح ہے، اس کے رجال ثقہ ہیں۔ ان تمام راویوں سے امام مسلم  رحمہ اللہ  نے احتجاجا روایت لی ہے۔”
(مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجۃ : ٨٥٦)
حافظ عراقی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَرِجَالُہ، رِجَالُ الصَّحِیحِ .
”اس کے رواۃ صحیح والے ہیں۔”
(فیض القدیر : ٥/٤٤١)
اسماعیل بن ابی صالح صحیح مسلم کے راوی ہیں، جمہور نے ان کی توثیق کر رکھی ہے، جیسا کہ حافظ منذری رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَقَدْ رَوٰی عَنْہُ شُعْبَۃُ وَمَالِکٌ وَّوَثَّقَہُ الْجُمْہُورِ .
”ان سے امام شعبہ رحمہ اللہ  اور امام مالک رحمہ اللہ  نے روایت لی ہے، انہیں جمہور نے ثقہ قرار دیا ہے۔”
(الترغیب والترہیب : ٣/١١٠)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
وَوَثَّقَہ، نَاسٌ .
”انہیں محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔”
(الکاشف : ١/٤٧١)
یہ حدیث ان سے ان کے دو شاگرد خالد بن عبد اللہ طحان اور حماد بن سلمہ بیان کر رہے ہیں، ان کی سہیل سے صحیح مسلم میں روایات ہیں۔
دلیل نمبر3:
محمد بن اشعث رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
دَخَلْنَا عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا فَحَدَّثَتْنِي فَقَالَتْ : بَیْنَا أَنَا قَاعِدَۃٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ نَفَرٌ مِّنَ الْیَہُودِ، فَاسْتَأْذَنَ أَحَدُہُمْ فَدَخَلَ، فَقَالَ : السَّامُ عَلَیْکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَعَلَیْکَ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ، فَقَالَ : السَّامُ عَلَیْکُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَعَلَیْکَ، فَلَمْ أَمْلِکْ نَفْسِي فقُلْتُ : بَلْ عَلَیْکُمُ السَّامُ وَفَعَلَ اللّٰہُ بِکُمْ وَفَعَلَ قَالَتْ : فَأَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَکَلَّمَ عَلِمْتُ أَنَّہ، قَدْ وَجَدَ عَلَيَّ فَلَمَّا خَرَجُوا قَالَ لِي : مَا حَمَلَکِ عَلٰی مَا صَنَعْتِ؟ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ سَمِعْتُ الَّذِي قَالُوا فَلَمْ أَمْلِکْ نَفْسِي فَقَالَ : أَلَمْ تَرَیِنِّي قَدْ رَدَدْتُّ عَلَیْہِمْ لَمْ یَضُرَّنَا وَلَزَمَہُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ تَدْرِینَ عَلٰی مَا حَسَدُونَا؟ قُلْتُ : اللّٰہُ وَرَسُولُہ، أَعْلَمُ، قَال : فَإِنَّہُمْ حَسَدُونَا عَلَی الْقِبْلَۃِ الَّتِي ہُدِینَا لَہَا، وَضَلُّوا عَنْہَا وَعَلَی الْجُمُعَۃِ الَّتِي ہُدِینَا لَہَا، وَضَلُّوا عَنْہَا، وَعَلٰی قَوْلِنَا خَلْفَ الْإِمَامِ آمِینَ .
”ہم سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کے پاس گئے، آپ نے ہمیں حدیث بیان کی، فرماتی ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھی تھی کہ یہودیوں کا ایک گروہ آیا۔ ایک نے اجازت لی اور کہا السام علیکم! ‘آپ پر موت ہو’، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وعلیک ‘تجھ پر بھی’۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا  کہتی ہیں : میں غصہ پر قابونہ پاسکی اور کہنے لگی تجھ پر بھی موت ہو، اللہ تمہارے ساتھ یوں یوں کرے، اب خیال گزرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مجھ سے کوئی گفتگو کی مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مجھ سے ناراض ہیں۔ یہود کا وفد چلا گیا، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :آپ نے ایسا کیوں کیا؟ عرض کیا :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی بات سنی، تو غصے پر کنٹرول نہ کر سکی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فرمانے لگے : میں نے انہیں جواب دے تو دیا تھا، جو قیامت تک کے لئے کافی ہے۔ جانتی ہو، یہود ہم سے حسد کیوں کرتے ہیں؟ عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا : ہمیں اللہ نے قبلہ عطا کیا، یہ لوگ محروم رہ گئے، ہمیں جمعہ عطا کیا، یہ محروم رہ گئے۔ ان وجہوں سے اور جو ہم امام کی اقتداء میں آمین کہتے ہیں اس وجہ سے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : ٢/٥٦، شعب الإیمان للبیہقي : ٢٧٠٧، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو حافظ عراقی (فیض القدیر للمناوی : ٥/٤٤١) نے ”صحیح” کہا ہے۔
سلیمان بن کثیر عبدی جمہو ر کے نزدیک ”ثقہ”ہے۔ محمد بن اشعث، کندی ”حسن الحدیث” ہے۔ اسے امام ابن حبان رحمہ اللہ  (٥/٣٥٢) نے ”ثقہ ” کہا ہے۔ امام ابن الجارود رحمہ اللہ  (٦٢٥) نے اس کی حدیث کو ”صحیح” کہا ہے۔ امام حاکم  رحمہ اللہ (٢/٤٥) نے اس کی ایک حدیث کی سند کو ”صحیح” قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ حافظ بیہقی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے، یہ اس کی ضمنی توثیق ہے۔
یہودی دین اسلام کے پکے دشمن ہیں، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اداؤں کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ ہر سنت کو حسد، بغض اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان احادیث اور آثار سے ثابت ہوا کہ نماز میں امام کے پیچھے آمین پکار کر کہنے سے یہودی حسد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جب آمین اونچی کہی جائے گی تو یہودی حسد کرے گا۔ اگر آہستہ کہیں گے، تو یہودیوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ مسلمانوں نے آمین کہی ہے یا نہیں؟ جو لوگ اونچی آواز سے آمین سے روکتے ٹوکتے ہیں یا اونچی آمین کہنے والوں سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں، انہیں عبرت پکڑنی چاہیے۔ آج بھی مسجد حرام اور مسجد نبوی آمین سے گونج رہی ہے۔ تمام اہل حدیث مساجد میں یہ سنت زندہ ہے۔ ہم نے اسی سنت آمین کو یہاں مدلل بیان کیا ہے تا کہ جو لوگ آمین کہنے والوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ آمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے۔ وہ اس سنت کو زندہ کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔
امام مسلم رحمہ اللہ  (٢٠٤۔٢٦١ھ) فرماتے ہیں:
قَدْ تَّوَاتَرَتِ الرِّوَایَاتُ کُلُّہَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَہَرَ بِآمِینَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ وَّائِلٍ مَّا یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ .
”اس بارے میں روایات متواتر ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے آمین بالجہر کہی۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  کی حدیث اسی پر دلالت کناں ہے۔”
(التمییز، ص : ١٨١)
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ  (٤٨٤۔٤٥٦ھ) لکھتے ہیں:
فَہٰذِہٖ آثَارٌ مُّتَوَاتِرَۃٌ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَنَّہ، کَانَ یَقُولُ : آمِینَ، وَہُوَ إمَامٌ فِي الصَّلَاۃِ، یَسْمَعُہَا مَنْ وَّرَاءَ ہ،، وَہُوَ عَمَلُ السَّلَفِ .
”یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے متواتر احادیث ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں امام ہوتے، تو اس طرح آمین کہتے کہ مقتدی سن لیتے، یہی سلف کا عمل ہے۔”
(المحلّٰي بالآثار : ٢/٢٩٤)
بھائیو! سنت کی محبت میں جیو۔ اسی میں دنیا و آخرت کا فائدہ ہے۔ مذہبی تعصب کی آڑ میں سنتیں رد کرنا بد نصیبی ہے۔
شبہات اور ان کا ازالہ :
شبہہ نمبر1:
سیدنا ابو وائل شقیق بن سلمہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
کَانَ عُمَرُ وَعَلِيٌّ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا لَا یَجْہَرَانِ بِ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ) (الفاتحۃ : ١) وَلَا بِالتَّعَوُّذِ، وَلَا بِالتَّأْمِینِ .
”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ  بسم اللہ ، تعوذ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔”
(شرح معاني الآثار للطّحاوي : ١/٣٠٤، تہذیب الآثار لابن جریر، نخب الأفکار للعیني : ٣/٦٠٥)
سند ”ضعیف” ہے:
ابو سعد سعید بن مرزبان ،بقال ،کوفی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف” ہے، نیز ”مدلس” بھی ہے۔ اسے امام دارقطنی (سوالات البرقانی : ١٧٦) نے ”متروک”اور امام فلاس (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی) نے ”ضعیف الحدیث متروک”قرار دیا ہے، نیز امام یحییٰ بن معین (سوالات الجنید : ٣٢٣) امام عجلی (٦١٤) امام نسائی (الضعفاء والمتروکون : ٢٧٠) امام ابو زرعہ رازی (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٤/٦٣)امام ابن حبان (المجروحین : ١/٣١٧) نے ”کثیر الوہم فاحش الخطا”کہا ہے، نیز امام سفیان بن عیینہ (الجرح والتعدیل : ٤/٦٢) امام حفص بن غیاث (الجرح والتعدیل : ٤/٦٢) اور حافظ ابن عدی (الکامل فی ضعفاء الرجال: ٤/٤٣٦) نے ”ضعیف” کہا ہے، امام بیہقیS (السنن الکبری : ٨/١٠٢) نے ”لایحتج بہ” کہا ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَالْـأَکْثَرُ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ .
”اکثر محدثین اسے” ضعیف” کہتے ہیں۔”
(مجمع الزوائد : ١/٢٣٩)
علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَالْـأَکْثَرُنَ یُجَرِّحُونَ وَالْبَعْضُ یُوَثِّقُونَہ، .
”اکثر محدثین اس پر جرح کرتے ہیں، بعض اس کی توثیق کرتے ہیں۔”
(العرف الشذي : ١/٢٥٨)
کیا جسے جمہور ”ضعیف” قرار دیں، اس کی روایت حجت ہو سکتی ہے؟ تبھی تو اس قول کی سند کو نیموی حنفی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(آثار السنن : ٣٨٥)
شبہہ نمبر 2:
ابو وائل کہتے ہیں:
کَانَ عَلِيٌّ وَّعَبْدُاللّٰہِ لَا یَجْہَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، وَلَا بِالتَّعَوُّذِ، وَلَا بِآمِینَ .
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ  اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  بسم اللہ تعوذ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : ٩/٢٦٢، ح : ٩٣٠٤، المخلصیات : ٢٣٣١)
سند ”ضعیف” ہے۔ ابو سعید بقال جمہور کے نزدیک ضعیف ہے اور مدلس بھی ہے، سماع کی تصریح نہیں کی۔
شبہہ نمبر3:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
یُخْفِي الْـإِمَامُ ثَلَاثًا، التَّعَوُّذَ وَبِسْمِ اللّٰہِ وَآمِینَ .
”امام تین چیزیں آہستہ آوازسے کہے گا، تعوذ ، بسم اللہ ا ور آمین۔”
(المحلّٰی بالآثار لابن حزم : ٢/٢٨٠، مسئلہ نمبر : ٣٦٣)
سند ”ضعیف” ہے۔ ابو حمزہ، اعور قصاب کے بارے میں علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں:
فَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضُعْفِہٖ .
”اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔”
(عمد ۃ القاري شرح صحیح البخاری : ٨/٢٣٧)
امام بخاری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ضَعِیفٌ وَّذَاہِبُ الْحَدِیثِ .
”حدیث میں ضعیف ہے۔”
(العلل الکبیر للترمذي : ٣٢٢)
اسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے ضعیف الحدیث کہا ہے۔
(العلل و معرفۃ الرجال : ٤٥٢٨)
نیز متروک کہا ہے۔
(العلل و معرفۃ الرجال : ٣٢١٤)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
لَیْسَ بِشَيْءٍ لَّایُکْتَبُ حَدِیثُہ، .
”کسی کھاتے کا نہیں۔ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔”
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٨/٢٣٦)
امام نسائی نے ”لیس بثقۃ” کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروکون : ٥٨١)
امام دارقطنی (العلل : ٥/١٦٧) اور حافظ بیہقی رحمہ اللہ  (السنن الکبری : ٢/٢٥٢) نے ”ضعیف ” کہا ہے، نیز اس پر امام ترمذی، حافظ عقیلی، امام ابو حاتم رازی، امام ابن حبانS وغیرہم کی جروح ہیں۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
وَأَحَادِیثُہُ الَّتِي یَرْوِیہَا خَاصَّۃً عَنْ إِبْرَاہِیمَ مُحَالًا یُّتَابَعُ عَلَیْہَا.
”خاص ابراہیم سے اس کی راویت کی متابعت تو ناممکن ہے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال : ٨/١٥٦ )
یہ روایت بھی ابراہیم نخعی سے ہے۔ ابراہیم اس روایت میں مدلس ہیں۔
تنبیہ :
ابو معمر (البنایہ فی شرح الہدایۃ للعینی : ٢/٢٢٦) اور عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ(المحلی بالاثار لابن حزم : ٢/٢٨٠، مسئلہ :٣٦٣) میں ہے کہ
إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : یُخْفِي الْـإِمَامُ أَرْبَعًا، التَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ ، وَآمِینَ ، وَرَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ .
”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  فرماتے تھے، امام تعوذ،بسم اللہ، آمین اور ربنا ولک الحمد ، ان چاروں کو آہستہ پڑھے گا۔”
یہ بے سند قول ہے، لہٰذا قابل التفات نہیں۔ علامہ عبد الحئی، لکھنوی، حنفی (١٣٠٤ھ) نے کیا خوب لکھاہے:
قُلْتُ : لَقَدْ طُفْنَا کَمَا طُفْتُمْ سِنِینًا بِّہٰذَا الْبَیْتِ طُرًّا جَمِیعُنَا فَوَجَدْنَا بَعْدَ التَّأَمُّلِ وَالْـإِمْعَانِ أَنَّ الْقَوْلَ بِالْجَہْرِ بِآمِینَ ہُوَ الْـأَصَحُّ لِکَوْنِہٖ مُطَابِقًا لِّمَا رُوِيَ عَنْ سَیِّد بَنِي عَدْنَانَ، وَرِوَایَۃُ الْخَفْضِ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَعِیفَۃٌ لَّا تُوَازِي رِوَایَاتِ الْجَہْرِ وَلَوْ صَحَّتْ وَجَبَ أَنْ تُحْمَلَ عَلٰی عَدَمِ الْقَرْعِ الْعَنِیفِ کَمَا أَشَارَ إِلَیْہِ ابْنُ الْہَمَّامِ وَأَيُّ ضَرُورَۃٍ دَاعِیَۃٍ إِلٰی حَمْلِ رِوَایَاتِ الْجَہْرِ عَلٰی بَعْضِ الْـأَحْیَانِ أَوِالْجَہْرِ لِلتَّعْلِیمِ مَعَ عَدَمِ وُرُودِ شَيْءٍ مِّنْ ذٰلِکَ فِي رِوَایَۃٍ وَالْقَوْلُ بِأَنَّہ، کَانَ فِي ابْتِدَاءِ الْـأَمْرِ أَضْعَفُ لَـأَنَّ الْحَاکِمَ قَدْ صَحَّحَہ، مِنْ رِّوَایَۃِ وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ وَہُوَ إِنَّمَا أَسْلَمَ فِي أَوَاخِرِ الْـأَمْرِ کَمَا ذَکَرَہُ ابْنُ حَجَرٍ فِي فَتْحِ الْبَارِي وَأَمَّا أَثَرُ إِبْرَاہِیمَ النَّخْعِيِّ وَنَحْوِہٖ فَلَا تُوَازِي الرِّوَایَاتِ الْمَرْفُوعَۃَ .
”کہتا ہوں: ہم نے بھی آپ کی طرح کئی برس اسی دشت کی سیاحی کی۔ اس کے گوشے گوشے سے واقف ہو گئے۔ انتہائی دقت نظری اور غور وفکر کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آمین بالجہر کہنا ہی صحیح ہے، کیوں کہ یہ اولاد عدنان کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث سے مطابق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول آمین بالسر کی روایات ضعیف ہیں، جو صحیح روایات کی ہم پلہ نہیں۔ اگر یہ صحیح ہوں، تب بھی ان کا مطلب یہ ہو گا آواز بہت شدید نہ ہو، بل کہ قدرے آہستہ ہو۔ ابن ہمام  رحمہ اللہ  بھی یہی معنی بیان کرنا چاہتے ہیں۔ آمین بالجہر کی روایات کا یہ معنی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ آمین بالجہر بعض اوقات کہی گئی یا تعلیم کے لئے کہی گئی، کیوں کہ اس پر کوئی دلیل نہیں اور آمین بالجہر کو ابتدائے اسلام کا معاملہ قرار دینا انتہائی کم زور بات ہے، کیوں کہ اما م حاکم رحمہ اللہ  نے سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  کی روایت صحیح قرار دی ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے فتح الباری میں صراحت کی ہے کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی آخری زندگی میں ایمان لائے ہیں، باقی رہے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ  وغیرہ کے آثار، تو ان کی صحیح مرفوع احادیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔”
(السّعایۃ في کشف ما في شرح الوقایۃ : ٢/١٧٦)
نیز فرماتے ہیں:
وَالْـإِنْصَافُ أَنَّ الْجَہْرَ قَوِيٌّ مِّنْ حَیْثُ الدَّلِیلِ .
”انصاف یہ ہے کہ آمین بالجہر کے دلائل قوی ہیں۔”
(التعلیق المُمَجِّد علٰي موطّأ الإم مالک، ص : ١٠٥)
بھائیو! آپ اتنی محبوب سنت سے محروم کیو ں ہیں؟ جناب رشید احمد گنگوہی صاحب فرماتے ہیں:
”جو سنت کی محبت سے بلا شر و فساد آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کرے، اس کو برا نہیں جانتا۔” (تذکرۃ الرشید : ٢/١٧٥)
اللہ! زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے! تو جانتا ہے کہ رفع الیدین اور آمین بالجہر تیرے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت کی وجہ سے کرتے ہیں۔
جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
”آمین بالجہر بے شک سنت ہے۔”
(الإفاضات الیومیۃ : ٥/١٣٢)
نیز کہتے ہیں:
”یہاں ایک طالب علم شافعی مذہب آئے تھے، موہلوں کی قوم سے تھے۔ زبان …تھی، نماز میں آمین بالجہر کہتے تھے، مگر پست دبی آواز سے، شاید یہاں کے ادب کی وجہ سے ایسا کرتے ہوں، کہلوا دیا کہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے سنت کو چھوڑا جائے۔ بے تکلف آمین کہو۔”
(الإضافات الیومیۃ المعرو ف ملفوظات حکیم الأمت : ٥/١٣٧)
دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیاری سنتوں کی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔
علامہ ابن عابدین حنفی (١١٩٨۔١٢٥٢ھ) نقل کرتے ہیں:
إِذَا صَحَّ الْحَدِیثُ وَکَانَ عَلٰی خِلَافِ الْمَذْہَبِ عُمِلَ بِالْحَدِیثِ، وَیَکُونُ ذٰلِکَ مَذْہَبَہ،، وَلَا یَخْرُجُ مُقَلِّدُہ، عَنْ کَوْنِہٖ حَنَفِیًّا بِّالْعَمَلِ بِہٖ .
”حدیث صحیح ہو، مگر مذہب کے خلاف ہو، تو حدیث پر عمل کیا جائے گا اور یہی اس کا مذہب قرار پائے گی۔ یہ کام کرنے سے انسان حنفیت سے خارج نہیں ہو جائے گا، بل کہ مقلد ہی رہے گا۔”
(رد المحتار علی در المختار : ١/٦٨)
ابن ابیِ لیلیٰ مشہور فقیہ قاضی کوفہ، ابو عبدالرحمن محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ (١٤٨ھ) جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف اور سئی الحفظ” ہیں۔
1    حافظ نووی رحمہ اللہ  (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدِ اتَّفَقُوا عَلٰی تَضْعِیفِ مُحَمَّدِ ابْنِ أَبِي لَیْلٰی، وَأَنَّہ، لَا یُحْتَجُّ بِرِوَایَتِہٖ، وَإِنْ کَانَ إمَامًا فِي الْفِقْہِ .
”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ ان کی روایت حجت نہیں، اگرچہ فقہ میں امام تھے۔”
(المجموع شرح المہذب : ٦/٣٧١)
2     حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں:
وَہُوَ ضَعِیفٌ، اتَّفَقُوا عَلٰی ضُعْفِ حَدِیثِہٖ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ .
”ضعیف ہیں۔ محدثین کا اجماع ہے کہ ان کی حدیث ضعیف ہے، کیوں کہ یہ سئی الحفظ تھے۔”
(فتح الباري : ١٣/١٤٣)
نیز فرماتے ہیں:
وَہُوَ ضَعِیفٌ سَيِّءُ الْحِفْظِ .
”ضعیف، سئی الحفظ ہے۔”
(التلخیص الحبیر : ٣/٣٣، ح : ١٢٢٣)

3    حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  (٧٣٥۔٨٠٤) فرماتے ہیں:
فِیہِ کَلَامٌ کَثِیرٌ .
”ان پر بہت زیا دہ جروح ہیں۔”
(مجمع الزوائد : ٢/٢٠٣)
4    حافظ منذری رحمہ اللہ  (٥٨١۔٦٥٦ھ) فرماتے ہیں:
صَدُوقٌ إِمِامٌ ثِقَۃٌ رِدِيءُ الْحِفْظِ کَثِیرًا، کَذَا قَالَ الْجُمْہُورُ فِیہِ .
”سچے، ثقہ امام تھے۔ (بعد میں) حافظے میں انتہائی خرابی واقع ہو گئی تھی، جمہور محدثین یہی کہتے ہیں۔”
(الترغیب والترہیب : ٤/٤٩٨)
5    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  (٧٠٠۔٧٧٤ھ) فرماتے ہیں:
سِيِّءُ الْحِفْظِ لَا یُحْتَجُّ بِہٖ عِنْدَ أَکْثَرِہِمْ .
”سئی الحفظ ہیں۔اکثر محدثین کا کہنا ہے کہ ان کی روایت قابل حجت نہیں۔”
(تحفۃ الطالب : ٣٤٥)
6    حافظ بوصیری رحمہ اللہ  (٧٦٢۔٨٤٠ھ) فرماتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ .
”جمہور نے ضعیف کہا ہے۔”
(مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجۃ : ١/١٠٤،ح : ٣١٥)
7    محمد بن مفلح ، مقدسی رحمہ اللہ  (٧٠٨۔٧٦٣ھ) لکھتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ .
”جمہور نے ضعیف کہا۔”
(الفروع : ١٠/٢٦٦، الآداب الشرعیۃ : ١/٣٢٨)
8    ابو الحسن، محمد بن عبد الہادی، سندھی ،حنفی (م : ١١٣٨ھ) فرماتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ .
”جمہور ائمہ نے ضعیف کہا ہے۔”
(حاشیۃ السندي علی سنن ابن ماجۃ : ١/٢٨١،ح : ٨٥٤)
9    جناب انور شاہ کشمیری صاحب لکھتے ہیں:
فَہُوَ ضَعِیفٌ عِنْدَہ، کَمَا ذَہَبَ إِلَیْہِ الْجُمْہُورُ .
”جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں۔”
(فیض الباري : ٣/١٦٨)
0    محمد یوسف بنوری صاحب لکھتے ہیں:
وَبِالْجُُمْلَۃِ، الْجُمْہُورُ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ .
”حاصل ِکلا م یہ کہ جمہور انہیں ضعیف کہتے ہیں۔”
(معارف السنن : ٥/٢٩٠)
!    ابن قیسرانی رحمہ اللہ  (٤٤٥۔٥٠٧ھ) فرماتے ہیں:
وَأَجْمَعُوا عَلٰی ضُعْفِہٖ .
”ان کے ضعف پر اجماع ہے۔”
(تذکرۃ الحفاظ : ٦٧، ٥٤٥، معرفۃ التذکرۃ في أحادیث الموضوعۃ، ص : ٩٣، رقم : ٤٥)
تنبیہ :
پہلے جمہور کے نزدیک ”ضعیف” تھے، بعد میں ان کے ضعیف اور سئی الحفظ ہونے پر اجماع ہو گیا تھا۔
جارحین
(١)    حجاج  رحمہ اللہ  (م :١٦٠ھ) فرماتے ہیں:
أَفَادَنِي ابْنُ أَبِي لَیْلٰی أَحَادِیثَ فَإِذَا ہِيَ مَقْلُوبَۃٌ .
”مجھے ابن ابی لیلیٰ نے احادیث سنائیں، جن میں رد وبدل ہو چکا تھا۔”
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٧/٣٢٢، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَسْوَأَ حِفْظًا مِّنِ ابْنِ أَبِي لَیْلٰی .
”ابن ابی لیلیٰ سے بڑھ کر برے حافظے والا دیکھا ہی نہیں۔”
(الجرح والتعدیل : ٧/٣٢٢، وسندہ، صحیحٌ)
(٢)    احمد بن یونس بیان کرتے ہیں:
کَانَ زَائِدَۃُ لَا یَرْوِي عَنِ ابْنِ أَبِي لَیْلٰی وَکَانَ قَدْ تُرِکَ حَدِیثُہ، .
”زائدہ بن قدامہ (م : ١٦١ھ) ان سے روایت نہیں کرتے تھے، انہوں نے ان کی حدیث متروک کر دی تھی۔”
(الجرح والتعدیل : ٧/٣٢٢، وسندہ، صحیحٌ)
(٣)    یحییٰ بن یعلی، محاربی (م : ٢١٦ھ) بیان کرتے ہیں:
طَرَحَ زَائِدَۃُ حَدِیثَ ابْنِ أَبِي لَیْلٰی .
”زائدہ نے ابن ابی لیلیٰ کی حدیث ترک کر دی تھی۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٦/٨٣، وسندہ، حسنٌ)
(٤)    سلمہ بن کہیل رحمہ اللہ  (م : ١٢١ھ) فرماتے ہیں:
مَا ذَنْبِي إِنْ کَانَ یَکْذِبُ عَلَيَّ .
”ابن ابی لیلیٰ مجھ پر جھوٹ بولیں، تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٦/١٨٤، المجروحین لابن حبّان : ٢/٢٤٤، وسندہ، حسنٌ)
(٥)    امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ  (١٥٨۔٢٣٣ھ) فرماتے ہیں:
ضَعِیفٌ .
”ضعیف ہیں۔”
(تاریخ عثمان بن سعید الدّارمي، رقم : ٧٢)
نیز فرماتے ہیں:
مَا کَانَ یُثَبَّتُ فِي الْحَدِیثِ .
”حدیث میں ثقہ نہیں تھے۔”
(سوالات ابن الجنید : ٧٥)
مزید فرماتے ہیں:
سَيِّءُ الْحِفْظِ جِدًّا .
”انتہائی خراب حافظے والے تھے۔”
(مسند علي بن الجَعْد : ٦٧٩، وسندہ، صحیحٌ)
(٦)    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  (٢٦٤۔٢٤١ھ) فرماتے ہیں:
ضَعِیفٌ .
”ضعیف ہے۔”
(العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد بروایۃ المروذي : ٤٩٣)
نیز فرماتے ہیں:
کَانَ سَيِّءَ الْحِفْظِ مُضَطْرَبَ الْحَدِیثِ .
”برے حافظے والے ، مضطرب الحدیث۔”
(الجرح والتعدیل : ٧/٣٢٣، وسندہ، صحیحٌ)
مزید فرماتے ہیں:
لَایُحْتَجُّ بِحَدِیثِہٖ .
”ان کی حدیث حجت نہیں ہو سکتی۔”
(سنن الترمذي : ١٧١٥، وسندہ، صحیحٌ)
(٧)    امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے اپنے والد گرامی احمد بن حنبل رحمہ اللہ  سے مطر وراق کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا:
کَانَ یَحْییَ بْنُ سَعِیدٍ (الْقَطَّانُ) یُشَبِّہُ مَطَرًا بِّابْنِ أَبِي لَیْلٰی مِنْ سُوءِ الْحِفْظِ .
”یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ  مطر اور ابن ابی لیلیٰ کو حافظے کی خرابی میں مشابہہ قرار دیتے تھے ۔”
(العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد بروایتہ ابنہ عبداللّٰہ، رقم : ٨٥٢)
(٨)    امام بخاری  رحمہ اللہ  (١٩٤۔٢٥٦ھ) لکھتے ہیں:
اِبْنُ أَبِي لَیْلٰی ہُوَ صَدُوقٌ، وَلَا أَرْوِي عَنْہُ لِـأَنَّہ، لَا یَدْرِي صَحِیحَ حَدِیثِہٖ مِنْ سَقِیمِہٖ، وَکُلُّ مَنْ کَانَ مِثْلَ ہٰذَا فَلَا أَرْوِي عَنْہُ شَیْئًا .
”صدوق ہیں۔ میں ان سے روایت نہیں لیتا ، کیوں کہ انہیں صحیح اور ضعیف کی پہچان ہی نہیں اور میں اس طرح کے راویوں سے روایت نہیں لیتا ۔”
(سن الترمذي : ٣٦٤، ١٧١٥)
(٩)    امام ترمذی رحمہ اللہ  (٢٠٩۔٢٧٩ھ) فرماتے ہیں:
قَدْ تَّکَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ابْنِ أَبِي لَیْلٰی مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ .
”بعض اہل علم نے ابن ابی لیلیٰ پر حافظے کی خرابی کی وجہ سے کلام کی ہے۔”
(سنن الترمذي : ٣٦٤)
(١٠)    امام نسائی رحمہ اللہ  (٢١٥۔٣٠٣ھ) فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِالْقَوِّيِّ فِي الْحَدِیثِ سَیِّءُ الْحِفْظِ .
”حدیث میں بہت قوی نہیں تھے ، سئی الحفظ تھے۔”
(عمل الیوم واللیلۃ : ٢١٣، الضعفاء المتروکون : ٥٢٥)
نیز فرماتے ہیں:
سَیِّءُ الْحِفْظِ کَثِیرُ الْخَطَإِ .
”سئی الحفظ اور کثیر الخطا تھے۔”
(عمل الیوم واللیلۃ : ٣٤٥)
(١١)    امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ  (١٨٥۔٢٧٧ھ) فرماتے ہیں:
مَحَلُّہُ الصِّدْقُ کَانَ سَیِّءَ الْحِفْظِ شَغَلَ بِالْقَضَاءِ فَسَاءَ حِفْظُہ، لَا یُتَّہَمُ بِشَیْءٍ مِّنَ الْکَذِبِ، إِنَّمَا یُنْکَرُ عَلَیْہِ کَثْرَۃَ الْخَطَإِ یُکْتَبُ حَدِیثُہ، وَلَا یُحْتَجُّ بِہٖ، وَابْنُ أَبِي لَیْلٰی وَحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ مَا أَقْرَبَہُمَا .
”سچے تھے، لیکن جب قاضی بنا دئیے گئے، تو حافظہ خراب ہو گیا۔ ان پر جھوٹ کا الزام نہیں ہے، ہاں کثرت خطا کا الزام ہے۔ ان کی حدیث لکھی تو جائے گی مگر اس سے حجت نہیں لی جائے گی۔ ابن ابی لیلیٰ اور حجاج بن ارطاۃ میں کتنی مشابہت ہے!”
(الجرح والتعدیل : ٧/٣٢٣)
(١٢)    امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ  (٢٠٠۔٢٦٤ھ) فرماتے ہیں:
فَہُوَ صَالِحٌ لَّیْسَ ہُوَ أَقْوٰی مَا یَکُونُ .
”نیک آدمی تھے، مگر حدیث کے میدان میں قوی نہ تھے۔”
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٧/٣٢٣)
نیز ”رجل شریف” بھی کہا ہے۔
(أجوبۃ أبي زرعۃ : ١/٧٢٨)
(١٣)    امام ابن حبان  رحمہ اللہ  (م : ٣٥٤ھ) فرماتے ہیں:
کَانَ رَدِيءَ الْحِفْظِ کَثِیرَ الْوَہْمِ فَاحِشَ الْخَطَإِ یَرْوِي الشَّيْءَ عَلَی التَّوَہُّمِ وَیُحَدِّثُ عَلَی الْحُسْبَانِ فَکَثُرَ الْمَنَاکِیرُ فِي رِوَایَتِہٖ فَاسْتَحَقَّ التّرْکَ، تَرَکَہ، أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَّلٍ وَّیَحْیَی بْنُ مَعِینٍ .
”برے حافظے والے تھے۔ روایت میں بہت زیادہ وہم کھاتے تھے۔ فحش غلطیوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ تُکے سے حدیث بیان کر دیتے تھے۔ ان کی روایت میں اس قدر مناکیر ہیں کہ چھوڑ دینے کے لائق ہیں،۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  اور یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ  نے انہیں چھوڑدیا تھا۔”
(المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین : ٢/٢٤٤)
نوٹ :
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ  (٦٧٣۔٧٤٨ھ) لکھتے ہیں:
لَمْ نَرَھُمَا تَرَکَاہُ بَلْ لَّیَّنَا حَدِیثَہ، .
”ہم نہیں سمجھتے کہ انہوں نے ابن ابی لیلیٰ کو متروک قرار دیا ہو، بل کہ صرف ان کی حدیث ضعیف قرار دی ہے۔”
(سیر أعلام النّبلاء : ٦/٣١٤، میزان الاعتدال : ٣/٦١٦)
(١٤)    امام ابن عدی رحمہ اللہ  (٢٧٧۔٣٦٥ھ) فرماتے ہیں:
وَہُوَ مَعَ سُوءِ حِفْظِہٖ یُکْتَبُ حَدِیثُہ، .
”سئی الحفظ ہونے کے باوجود ان کی حدیث (شواہد و اعتبار) میں لکھی جائے گی۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال : ٦/١٨٨)
(١٥)    امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (٢٣٣۔٣١١) فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِالْحَافِظِ وَإِنْ کَانَ فَقِیہًا عَالِمًا .
”فقیہ اور عالم تو تھے، مگر حافظ نہ تھے۔”
(صحیح ابن خزیمۃ : ٢٦٩٧)
(١٦)    امام دارقطنی رحمہ اللہ  (٣٠٦۔٣٨٥ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَۃٌ فِي حِفْظِہٖ شَيْءٌ .
”عدالت میں ثقہ تھے، حفظ میں خرابی تھی۔”
(سنن الدارقطني : ١/١٢٤)
نیز فرماتے ہیں:
رِدِيءُ الْحِفْظِ کَثِیرُ الْوَہْمِ .
”برے حافظے والے اور کثیر الوہم تھے۔”
(سنن الدارقطني : ٢/٢٦٣)
مزید فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِالْحَافِظِ .
”حافظ نہ تھے۔”
(العلل : ٦/٢١٠)
مزید فرماتے ہیں:
کَانَ سَيِّءَ الْحِفْظِ .
”برے حافظے والے تھے۔”
(العِلَل : ٣/١٧٨، ٢٧٧)
(١٧)    امام طحاوی ،حنفی رحمہ اللہ  (٢٣٨۔٣٢١ھ) فرماتے ہیں:
مُضْطَرِبُ الْحِفْظِ جِدًّا .
”حفظ میں شدید اضطراب تھا۔”
(مشکل الآثار : ٣/٢٢٦)
(١٨)    امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ  (م :٢٧٧ھ) فرماتے ہیں:
فَقِیہٌ، ثِقَۃٌ، عَدْلٌ، وَفِي حَدِیثِہٖ بَعْضُ الْمَقَالَۃِ، لَیِّنُ الْحَدِیثِ .
”فی نفسہ ثقہ، فقیہ، اور عادل ہیں۔ ان کی حدیث میں کچھ کلام ہے ، بل کہ حدیث میں کم زور ہیں۔”
(المعرفۃ والتاریخ : ٣/٩٤)
(١٩)    حافظ جوزجانی  رحمہ اللہ  (٢٥٩ھ) فرماتے ہیں:
وَاہِي الْحَدِیثِ سَيِّءُ الْحِفْظِ .
”حدیث میں ضعیف اور برے حافظے والے تھے۔”
(أحوال الرّجال : ٨٦)
(٢٠)    امام ابن شاہین رحمہ اللہ  (٢٩٧۔٣٨٥ھ) فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِذَاکَ الْقَوِيِّ .
”حدیث میں پختہ کار نہیں تھے۔”
(تاریخ أسماء الضعفاء والکذّابین، رقم : ٥٨)
(٢١)    امام ابو عبد اللہ حاکم رحمہ اللہ  (٣٢١۔٤٠٥ھ) فرماتے ہیں:
یُنْسَبُ إِلٰی سُوءِ الْحِفْظِ .
”سئی الحفظ قرار پائے۔”
(المستدرک علی الصحیحن : ١/١٣)
نیز فرماتے ہیں:
فَلَوْلَا مَا ظَہَرَ مِنْ ہٰذِہِ الْـأَوْہَامِ لَمَا نَسَبَہ، أَئِمَّۃُ الْحَدِیثِ إِلٰی سُوءِ الْحِفْظِ .
” اوہام طاری نہ ہوتے، تو ائمہ حدیث انہیں سئی الحفظ نہ کہتے۔”
(المستدرک علی الصحیحن : ٤/٢٦٦)
(٢٢)    امام بیہقی رحمہ اللہ  (٣٨٤۔٤٥٨ھ) فرماتے ہیں:
وَہُوَ أَسْوَأُ حَالًا عِنْدَ أَہْلِ الْمَعْرِفَۃِ بِالْحَدِیثِ مِنْ یَّزِیدَ بْنِ أَبِي زِیَادٍ .
”معرفت حدیث رکھنے والے ائمہ کے نزدیک یزید بن ابی زیاد سے بھی بری پوزیشن میں تھے۔”
(السنن الکبرٰی : ٢/٧٧، ٧٨)
نیز فرماتے ہیں:
غَیْرُ قَوِيِّ فِي الْحَدِیثِ .
”حدیث میں قوی نہیں ہیں۔”
(السنن الکبرٰی : ٥/٧٣)
مزید فرماتے ہیں:
وَإِنْ کَانَ فِي الْفِقْہِ کَبِیرًا فَہُوَ ضَعِیفٌ فِي الرِّوَایَۃِ؛ لِسُوءِ حِفْظِہٖ؛ وَکَثْرَۃِ أَخْطَائِہٖ فِي الْـأَسَانِیدِ وَالْمُتُونِ وَمُخَالَفَتِہِ الْحُفَّاظَ فِیہَا وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَنَا وَلَہ، .
”اگرچہ بہت بڑے فقیہ تھے، لیکن روایت میں ضعیف تھے، کیوں کہ ان کا حافظہ خراب تھا۔ اسانید ومتون میں بکثرت غلطیاں سرزد ہوئیں، روایات میں حفاظ محدثین کی مخالفت کرتے تھے۔ اللہ ہمیں اور انہیں معاف کر دے۔”
(السنن الکبرٰی : ٥/٣٣٤)
نیز فرماتے ہیں:
کَانَ سَيِّءَ الْحِفْظِ کَثِیرَ الْوَہْمِ .
”سئی الحفظ اور کثیر الوہم تھے۔”
(السنن الکبرٰی : ٧/٣٢)
(٢٣)    ابو عبد اللہ، محمد بن اسحاق بن سعید بن اسماعیل ،سعدی، ہروی  رحمہ اللہ  (توفی فی حدود سنۃ : ٢٨٥ھ) فرماتے ہیں:
یَسْتَحِقُّ أَنْ یُّتْرَکَ حَدِیثُہ، .
”اس لائق تھے کہ ان کی حدیث چھوڑ دی جائے۔”
(المجروحین لابن حبّان : ٢/٢٤٦)
(٢٤)    ابو احمد حاکم رحمہ اللہ  (٢٨٥۔٣٧٨ھ) فرماتے ہیں:
عَامَّۃُ أَحَادِیثِہٖ مَقْلُوبَۃٌ .
”ان کی اکثر احادیث مقلوب تھیں۔”
(تہذیب التہذیب لابن حجر : ٩/٣٠٣)
(٢٥)    علامہ ابن حزم رحمہ اللہ  (٣٨٤۔٤٥٦ھ) نے ”ضعیف ”کہا ہے۔
(المُحَلّٰی لابن حزم : ٦/١٤)
(٢٦)    حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ  (٥٠٨۔٥٩٧) نے ”ضعیف، مضطرب الحدیث ‘ ‘ کہا ہے۔
(التحقیق في أحادیث الخلاف : ١/٣٣٥، ح : ٤٢٩)
(٢٧)    علامہ عبد الحق اشبیلی رحمہ اللہ  (٥١٠۔٥٨١ھ) فرماتے ہیں:
وَہُوَ ضَعِیفٌ .
”ضعیف ہیں۔”
(الأحکام الوسطیٰ : ٥/٢٠٦)
(٢٨)    حافظ ابن القطان، فاسی رحمہ اللہ  (٥٦٢۔٦٢٨ھ) فرماتے ہیں:
سَيِّءُ الْحِفْظِ وَہُُوَ یُضَعَّفُہ، وَیُضَعَّفُ بِہٖ .
”سئی الحفظ ہیں۔ اسی لیے ضعیف قرار پائے۔ ان کی وجہ سے احادیث ضعیف ہوئیں۔”
(بیان الوہم والإیہام الواقعین في کتاب الأحکام : ٥٢٢)
(٢٩)    حافظ نووی رحمہ اللہ  (٦٣١۔٦٧٦) نے ”ضعیف ” کہاہے۔
(خلاصۃ الأحکام : ٢/١٥٧)
(٣٠)    حافظ ابو عبداللہ، محمد بن عبد الواحد، مقدسی رحمہ اللہ  (٦٤٣ھ) فرماتے ہیں:
وَالِاضْطِرَابُ فِیہِ مِنِ ابْنِ أَبِي لَیْلٰی لِـأَنَّہ، کَانَ سَيِّءَ الْحِفْظِ .
”یہاں ابن ابی لیلیٰ کی وجہ سے اضطراب ہے، کیوں کہ وہ سئی الحفظ تھے۔”
(المختارۃ : ٦٤١)
(٣١)    حافظ ذہبی رحمہ اللہ  (٦٧٣۔٧٤٨ھ) نے ”ضعیف ” کہا ہے۔
(تنقیح التحقیق : ٢/٤٤، دارالوطن، الریاض)
اس کے برعکس فرماتے ہیں:
وَکَانَ صَدُوقًا جَائِزَ الْحَدِیثِ .
”صدوق اور جائز الحدیث تھے۔”(العبر في خبر من غبر : ١/١٦٢)
مزید فرماتے ہیں:
حَدِیثُہ، فِي وَزْنِ الْحَسَنِ وَلَا یَرْتَقِي إِلَی الصَّحَّۃِ لِـأَ نَّہ، لَیْسَ بِالْمُتْقِنِ عِنْدَہُمْ .
”ان کی حدیث حسن درجے کی ہے، البتہ صحیح نہیں کہی جا سکتی، کیوں محدثین کے ہاں متقن نہیں تھے۔”(تذکرۃ الحفاظ : ١/١٢٩)
یہ دونوں قول ساقط ہو جائیں گے یا جمہور کے موافق تضعیف والا راجح ہو گا، جو متقن نہ ہو بھلا اس کی حدیث حسن ہوتی ہے؟
(٣٢)    حافظ عراقی  رحمہ اللہ  (٧٢٥۔٨٠٦) نے ”سئی الحفظ”کہا ہے۔
(المغني عن حمل الأسفار في الأسفار : ٣٧٧٤)
(٣٣)    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ”ضعیف” کہا ہے۔
(فتح الباري : ٤/٢١٤)
(٣٤)    حافظ زیلعی حنفی نے ”ضعیف ”کہا ہے۔(نصب الرایۃ : 318/1)
(٣٥)    علامہ ابن رجب رحمہ اللہ  (٧٣٦۔٧٩٥ھ) فرماتے ہیں:
ضَعِیفٌ لِّسُوءِ حِفْظِہٖ .    ”سوء حفظ کی بنیاد پر ضعیف ہیں۔”
(فتح الباري : ٤/٢٠٧)
نیز فرماتے ہیں:    ہُوَ صَدُوقٌ لَّا یُتَّہَمُ بِتَعَمُّدِ الْکَذِبِ .
”سچے ہیں۔ جان بوجھ کر جھوٹ بولنے پر متہم نہیں تھے۔”
(شرح علل الترمذي : ١/١٤٥)
(٣٦)    علامہ ابن ترکمانی حنفی (٦٨٣۔٧٥٠ھ) نے ‘متکلم فیہ ”کہا ہے۔
(الجوہر النقي : ٧/٣٤٧)
(٣٧)    احمد قسطلانی (م : ٩٢٣ھ) لکھتے ہیں:
ضَعِیفٌ .    ”ضعیف ہیں۔”
(المواہب الدنیۃ بالمنح المحمدیۃ : ٣/٤٣٧)
تنبیہ 1:
قارئین کرام! ہم نے متقدمین کے ساتھ ساتھ متاخرین کی جرح بھی پیش کر دی ہے۔
تنبیہ 2:
اگر کوئی راوی کسی روایت میں منفرد ہو اور کوئی ثقہ امام اس کی سند کو صحیح کہہ دے، تو یہ اس سند کے تمام راویوں کی ضمنی توثیق ہوتی ہے، اگر اس روایت کی اور بھی سندیں ہوں، امام انہیںمدنظر رکھ کر صحیح کہہ دے، تو یہ توثیق نہیں ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.