818

اجساد اولیاء سے منسوب تبرکات، غلام مصطفی ظہیر امن پوری، حفظہ اللہ

اجساد اولیا سے منسوب اشیا سے تبرک جائز نہیں،بلکہ بدعت ہے،سلف صالحین سے قطعاً اس کا ثبوت نہیں،اس بارے میںبعض الناس کے دلائل کا جائزہ پیش خدمت ہے:
امام شافعی رحمہ اللہ کا واقعہ :
امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد ِرشید،ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے :
’’امام شافعی رحمہ اللہ مصر تشریف لائے۔انہوں نے مجھے کہا:میرا یہ خط سلامتی سے ابوعبداللہ احمد بن حنبل تک پہنچا دو اور مجھے جواب لاکر دو۔میں وہ خط لے کر بغداد پہنچا،تو نمازِ فجر کے وقت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے میری ملاقات ہوئی۔جب وہ حجرہ سے باہر تشریف لائے،تو میں نے خط ان کے سپرد کرتے ہوئے کہا: یہ خط آپ نے بھائی امام شافعی نے مصر سے ارسال کیا ہے۔امام احمد رحمہ اللہ نے مجھے کہا:کیا تو نے اسے پڑھا ہے؟میں نے کہا: نہیں۔انہوں نے مہر توڑ کر اسے پڑھا، تو ان کی آنکھیں بھر آئیں۔میں نے عرض کیا : ابو عبداللہ!کیا ہوا؟ اس میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا:امام شافعی نے مجھے لکھا ہے کہ انہوں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:ابو عبداللہ کو خط لکھو،اسے سلام لکھ کر کہو کہ تم عنقریب آزمایا جائے گا اور تمہیں خلقِ قرآن(کے باطل عقیدہ)کی دعوت دی جائے گی،سو تم اسے قبول نہ کرنا۔اللہ تعالیٰ آپ کو روزِ قیامت باعزت عالم دین کے طور پر اٹھائے گا۔‘‘
اس کے بعد ربیع بن سلیمان کا بیان ہے :
فَقُلْتُ لَہٗ : اَلْبَشَارَۃُ یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ، فَخَلَعَ أَحَدَ قَمِیْصَیْہِ الَّذِي یَلِي جِلْدَہٗ، فَأَعْطَانِیْہِ، فَأَخَذْتُ الْجَوَابَ، وَخَرَجْتُ إِلٰی مِصْرَ، وَسَلَّمْتُ إِلَی الشَّافِعِيِّ، فَقَالَ : أَیْشَ الَّذِي أَعْطَاکَ؟ فَقُلْتُ : قَمِیْصَہٗ، فَقَالَ الشَّافِعِيُّ : لَیْسَ نَفْجَعُکَ بِہٖ، وَلٰکِنْ بِلَّہٗ، وَادْفَعْ إِلَيَّ الْمَائَ، لأَِتَبَرَّکَ بِہٖ ۔
’’میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا:ابو عبداللہ!آپ کو تو خوشخبری ملی ہے۔انہوں نے اپنے جسم سے مَس کردہ قمیص اتار کر مجھے عنایت کی۔میں ان سے جواب لے کر مصر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا۔انہوں نے دریافت کیا:امام احمد رحمہ اللہ نے آپ کو کوئی چیز عطا کی ہے؟میں نے عرض کیا:اپنی قمیص(کُرتا)۔امام شافعی نے فرمایا:ہم آپ کو اس(قمیص کے حوالے)سیتکلیف میں مبتلا نہیں کرتے،مگر اسے بھگو کر پانی ہی مجھے دے دو،تاکہ میں اس سے برکت حاصل کروں۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 311/5، مناقب أحمد بن حنبل لابن الجوزي : 609، 610)
تبصرہ :
یہ جھوٹی سند ہے،کیونکہ :
(ا) محمد بن حسین ابو عبدالرحمن سلمی راوی ’’متہم بالکذب‘‘ہے۔
(ب) گمراہ صوفی،ابوبکر محمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز بن شاذان رازی بھی ’’متہم‘‘ ہے،جیساکہ آیندہ بیان ہو گا۔
(ج) علی بن عبدالعزیز طلحی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
اس کی دوسری سند مناقب أحمد بن حنبل لابن الجوزي (610، 611)میں موجود ہے،لیکن اس میں ابراہیم بن عمربر مکی کے شاگرد ابوعلی الحسن بن علی بن محمد ابوعلی بن مذہب بغدادی کے بارے میں:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
إِنَّہٗ شَیْخٌ لَّیْسَ بِالْمُتْقِنِ ۔
’’یہ شیخ مضبوط حافظے والے نہیں تھے۔‘‘(میزان الاعتدال : 512/1)
شجاع ذہلی کہتے ہیں:
کَانَ شَیْخًا عُسْرًا فِي الرِّوَایَۃِ، وَسَمِعَ الْکَثِیْرَ، وَلَمْ یَکُنْ مِّمَّنْ یُّعْتَمَدُ عَلَیْہِ فِي الرِّوَایَۃِ، کَأَنَّّہٗ خَلَطَ فِي شَيئٍ مِّنْ سَمَاعِہٖ ۔
’’یہ قلیل الروایت شیخ تھا،البتہ اس نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے،لیکن اس کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا،گویا کہ یہ اپنے سماع میں اختلاط کا شکار تھا۔‘‘
(میزان الاعتدال للذہبي : 511/1)
ابوطاہر سلفی کہتے ہیں:
کَانَ مَعَ عُسْرِہٖ مُتَکِلَّمًا فِیْہِ، لِأَنَّہٗ حَدَّثَ بِکِتَابِ الزُّہْدِ لِأَحْمَدَ بَعْدَ مَا عُدِمَ أَصْلُہٗ مِنْ غَیْرِ أَصْلِہٖ ۔
’’یہ بہت کم روایات بیان کرنے کے باوجود مجروح راوی ہے،کیونکہ اس نے امام احمد بن حنبل کی کتاب الزہد مفقود ہونے کے بعد بھی جعلی نسخہ سے بیان کی ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال للذہبي : 511/1)
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَکَانَ یَرْوِي عَنِ ابْنِ مَالِکِ الْقُطَیْعِيِّ مُسْنَدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ بِأَسْرِہٖ، وَکَانَ سَمَاعُہٗ صَحِیْحًا؛ إِلَّا فِي أَجْزَائٍ مِّنْہُ، فَإِنَّہٗ أَلْحَقَ اسْمَہٗ فِیْہَا، وَکَذٰلِکَ فَعَلَ فِي أَجْزَائٍ مِّنْ فَوَائِدِ ابْنِ مَالِکٍ، وَکَانَ یَرْوِي عَنِ ابْنِ مَالِکٍ أَیْضًا کِتَابَ الزُّہْدِ لأَِحْمَدَ بْنِ حَنْبَلِ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ بِہٖ أَصْلٌ عَتِیْقٌ، وَإِنَّمَا کَانِتِ النُّسْخَۃُ بِخَطِّہٖ، کَتَبَہَا بِأَخِرَۃٍ، وَلَیْسَ بِمَحَلٍّ لِّلْحُجَّۃِ ۔
’’اس نے ابن مالک قطیعی سے ساری مسند احمد کو روایت کیا ہے۔اس میں کچھ اجزا کے علاوہ اس کا سماع صحیح تھا،کیونکہ اس نے سند میں اپنا نام شامل کیا ہے۔ یہی معاملہ اس نے فوائد ابن مالک کے اجزا کے ساتھ کیا ہے۔اسی طرح یہ ابن مالک قطیعی کے حوالے سے امام احمد بن حنبل کی کتاب الزہد بیان کرتا تھا،حالانکہ اس کے پاس اس کی کوئی اصل نہیں تھی۔اس کے پاس صرف اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا نسخہ تھا، جو اس نے اپنی آخری عمر میں لکھا تھا اور یہ قابلِ اعتماد نہیں۔‘‘
(تاریخ بغداد : 390/7)
لہٰذا حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا حمزہ بن حسن کو ثقہ کہنا مفید نہیں۔
اس واقعہ کی تیسری سند تاریخ ابن عساکر (311/5، 312)اور طبقات الشافعیۃ الکبرٰی للسبکي (36/2)میں آتی ہے۔لیکن یہ بھی ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
(ا) اس میں جعفر بن محمد مالکی کی توثیق نہیں مل سکی۔
(ب) اس کے راوی گمراہ صوفی ابوبکر محمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز بن شاذان رازی کے بارے میں :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَیْسَ بِثِقَۃٍ ۔
’’یہ ثقہ نہیں تھا۔‘‘(تاریخ الإسلام : 360/6، ت : بشار)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس حکم علامہ سبکی نے نے برقرار رکھا ہے۔
(طبقات الشافعیۃ الکبرٰی : 65/1)
نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
صَاحِبُ تِیْکَ الْحِکَایَاتِ الْمُنْکَرَۃِ، رَوٰی عَنْہُ الشَّیْخُ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ (السُّلْمِيِّ) أَوَابِدَ وَعَجَائِبَ، وَہُوَ مُتَّہَمٌ، طَعَنَ فِیْہِ الْحَاکِمُ ۔
’’ان منکر روایات کا سہرہ اسی کے سر ہے۔شیخ ابو عبدالرحمن سلمی نے اس سے عجیب و غریب روایات نقل کی ہیں۔یہ متہم راوی ہے،امام حاکم رحمہ اللہ نے اس پر جرح کی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 606/3)
ادریسی کہتے ہیں:
لَیْسَ ہُوَ فِي الرِّوَایَۃِ بِذَاکَ ۔
’’یہ روایت میں معتمد نہیں ہے۔‘‘ (لسان المیزان لابن حجر : 230/5)
الغرض یہ واقعہ تینوں سندوں کے ساتھ ’’ضعیف‘‘اوربے بنیادہے۔
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ کے حالات ِزندگی بیان کرتے ہوئے مؤرخ اسلام، حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَلَمْ یَکُنْ صَاحِبَ رِحْلَۃٍ، فَأَمَّا مَا یُرْوٰی أَنَّ الشَّافِعِيَّ بَعَثَہٗ إِلٰی بَغْدَادَ بِکِتَابِہٖ إِلٰی أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ؛ فَغَیْرُ صَحِیْحٍ ۔
’’ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ طلب علم کے لیے زیادہ سفر کرنے والے نہیں تھے۔لہٰذا یہ جو واقعہ منقول ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے خط دے کر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف بغداد بھیجا، وہ صحیح نہیں۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 587/12، 588)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ کا خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں ذکر نہیں کیا۔اگر وہ بغداد آئے ہوتے، تو تاریخ بغداد میں ضرور ان کا تذکرہ ہوناچاہئے تھا۔تاریخ بغداد کا ان کے تذکرے سے خالی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بغداد کبھی نہیں آئے،لہٰذا یہ واقعہ صحیح نہیں۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا واقعہ :
عمرو بن قیس ملائی،ابو عبداللہ کوفی رحمہ اللہ کے بارے میں امام عجلی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
وَکَانَ سُفْیَانُ یَأْتِیہِ یُسَلِّمُ عَلَیْہِ یَتَبَرَّکُ بِہٖ ۔
’’امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ان کے پاس آکر سلام کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔‘‘(الثقات : 368)
تبصرہ :
یہ سخت ’’منقطع‘‘قول ہے،کیونکہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی وفات 161ہجری میں ہوئی، جبکہ امام عجلی رحمہ اللہ کی ولادت 182ہجری میں ہوئی،تو انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کیسے سن لیا؟درمیان میں واسطہ غائب ہے،لہٰذا سند منقطع اور مردود ہے۔
سلطان محمد غزنوی کا قصہ :
بعض الناس کہتے ہیں کہ سلطان محمد غزنوی(بن سبکتکبین ابو القاسم،م: 421ھ) کو قلعہ سومنات کی جنگ میں علی بن احمد ابو الحسن خرقانی بسطامی(425ھ) کے جبے کی برکت سے فتح و نصرت نصیب ہوئی۔(تذکرۃ الأولیا از فرید الدین عطّار، ص : 344)
یہ جھوٹی ابلیسی کہانی ہے،جو گمراہ زندیق صوفیوں کا دین ہے۔ثابت ہوا کہ بعض لوگ جو اجساد اولیا سے منسوب اشیا سے تبرک لینے کے قائل ہیں، ان کا دامن دلیل سے خالی ہے۔

توسل اور تبرک کی ممنوع اور غیر مشروع صورتیں شرک و بدعت تک پہنچنے کا راستہ ہیں۔ اولیا و صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا ممنوع اور بدعت ہے۔یہ منکر عمل شرک کا پُل ہے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر سے تبرک جائز نہیں،تو اورکسی کی قبر سے کیسے جائز ہو سکتا ہے،جبکہ تبرکات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِبابرکات کے ساتھ خاص ہیں۔خیرالقرون میں قبروں سے تبرک کی کوئی مثال نہیں ملتی،بلکہ یہ رافضیوں سے مستعار نظریہ ہے۔
شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی،علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691۔751ھ) فرماتے ہیں:
قَالَ شَیْخُنَا قَدَّسَ اللّٰہُ رُوحَہٗ : وَہٰذِہِ الْـاُمُورُ الْمُبْتَدَعَۃُ عِنْدَ الْقُبُورِ مَرَاتِبُ، أَبْعَدُہَا عَنِ الشَّرْعِ؛ أَنْ یَّسْأَلَ الْمَیِّتَ حَاجَتَہٗ، وَیَسْتَغِیثَ بِہٖ فِیہَا، کَمَا یَفْعَلُہٗ کَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ، قَالَ : وَہٰؤُلَائِ مِنْ جِنْسِ عُبَّادِ الْـأَصْنَامِ، وَلِہٰذَا قَدْ یَتَمَثَّلُ لَہُمُ الشَّیْطَانُ فِي صُورَۃِ الْمَیِّتِ أَوِ الْغَائِبِ، کَمَا یُتَمَثَّلُ لِعُبَّادِ الْـأَصْنَامِ، وَہٰذَا یَحْصُلُ لِلْکُفَّارِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَأَہْلِ الْکِتَابِ، یَدْعُو أَحَدُہُمْ مَّنْ یُّعَظِّمُہٗ، فَیَتَمَثَّلُ لَہُ الشَّیْطَانُ أَحْیَانًا، وَقَدْ یُخَاطِبُہُمْ بِبَعْضِ الْـأُمُورِ الْغَائِبَۃِ، وَکَذٰلِکَ السُّجُودُ لِلْقَبْرِ، وَالتَّمَسُّحُ بِہٖ وَتَقْبِیلُہٗ، وَالْمَرْتَبَۃُ الثَّانِیَۃُ؛ أَنْ یَّسْأَلَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ، وَہٰذَا یَفْعَلُہٗ کَثِیرٌ مِّنَ الْمُتَأَخِّرِینَ، وَہُوَ بِدْعَۃٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ،۔۔۔۔، اَلرَّابِعَۃُ؛ أَنْ یَّظُنَّ أَنَّ الدُّعَائَ عِنْدَ قَبْرِہٖ مُسْتَجَابٌ، أَوْ أَنَّہٗ أَفْضَلُ مِنَ الدُّعَائِ فِي الْمَسْجِدِ، فَیَقْصُدُ زِیَارَتَہٗ وَالصَّلَاۃَ عِنْدَہٗ لِأَجْلِ طَلَبِ حَوَائِجِہٖ، فَہٰذَا أَیْضًا مِّنَ الْمُنْکَرَاتِ الْمُبْتَدَعَۃِ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ، وَہِيَ مُحَرَّمَۃٌ، وَمَا عَلِمْتُ فِي ذٰلِکَ نِزَاعًا بَیْنَ أَئِمَّۃِ الدِّینِ، وَإِنْ کَانَ کَثِیرٌ مِّنَ الْمُتَأَخِّرِینَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ، وَیَقْولُ بَعْضُہُمْ : قَبْرُ فُلَانٍ تَرْیَاقٌ مُّجَرَّبٌ، وَالْحِکَایَۃُ الْمَنْقُولَۃُ عَنِ الشَّافِعِيِّ أَنَّہٗ کَانَ یَقْصُدُ الدُّعَائَ عِنْدَ قَبْرِ أَبِي حَنِیفَۃَ، مِنَ الْکَذِبِ الظَّاہِرِ ۔
’’ہمارے استاذ(شیخ الاسلام ابن تیمیہ)قدس اللہ روحہ نے فرمایا:قبروں کے پاس بدعت پر مبنی امور کے کئی مراتب ہیں۔سب سے بڑھ کر شریعت کے منافی مرتبہ یہ ہے کہ میت سے اپنی حاجت روائی کا سوال کیا جائے اور اس سے مدد کی درخواست کی جائے،جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں۔یہ لوگ بت پرستوں جیسے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بسااوقات شیطان ان کے سامنے کسی میت یا کسی غیر موجود شخص کی صورت بنا کر آتا ہے اور بت پرستوں کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرتا ہے۔مشرکوں،کافروں اور اہل کتاب کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔وہ اپنے ہاں قابل تعظیم ہستی کو پکارتے ہیں،توشیطان ان کے سامنے اس کی صورت میںظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار تو انہیں بعض غیبی امور کی خبر بھی دیتا ہے۔۔۔ قبروںکو سجدہ کرنا،ان کو تبرک کی نیت سے چھونا اور انہیں چومنا بھی اسی مرتبے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ قبر والوں کے طفیل اللہ تعالیٰ سے دُعا کی جائے۔بہت سے متاخرین ایسا کرتے ہیں۔اس کام کے بدعت ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔۔۔ چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ انسان کسی بزرگ کی قبر کے پاس دُعا کی قبولیت کا اعتقاد رکھے یا یہ سمجھے کہ وہاں دُعا کرنا مسجد میں دعا کرنے سے افضل ہے اور اسی خیال سے وہ قبر کی زیارت کو جائے اور وہاںاپنی حاجات کو پورا کرنے کے لیے نماز ادا کرے۔مسلمانوںکا اتفاق ہے کہ یہ کام بھی بدعی منکرات میں سے ہے،جو کہ حرام ہیں۔مجھے اس بارے میں ائمہ دین کا کوئی اختلاف معلوم نہیں۔ہاں،متاخرین میںسے بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔بعض تو کہتے ہیں کہ فلاںکی قبر تجربہ شدہ تریاق ہے۔امام شافعی کے بارے میںامام ابوحنیفہ کی قبر کے پاس دُعا کرنے کی جو روایت بیان کی جاتی ہے،وہ صاف جھوٹ ہے۔‘‘
(إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 218/1)
اس حوالے سے شبہات اور دلائل کا جواب پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 1 :
علامہ سخاوی(831۔902ھ)نے سیدنا حمزہt کے حالات میں لکھا ہے:
وَجُعِلَ عَلٰی قَبْرِہٖ قُبَّۃٌ، فُہُوَ مَزَارٌ وَّیُتَبَرَّکُ بِہٖ ۔
’’سیدنا حمزہtکی قبر پر ایک قبہ بنایا گیا،جو ان کا مزار ہے،اس سے(لوگ) تبرک حاصل کرتے ہیں۔‘‘(التحفۃ اللطیفۃ في تاریخ المدینۃ الشریفۃ : 307/1)
تبصرہ :
قبروں پر قبے بنانا رافضیوں کی بدعت اور ایجاد ہے۔ظاہر ہے جو قبے بناتے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ قبروں سے تبرک اور فیض حاصل کیا جائے۔
مذکورہ نا معلوم رافضیوں اور بدعتیوں کا عمل پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اہل سنت کے ائمہ کا عمل پیش کیا جائے۔اہل سنت والجماعت کے نزدیک قبروں پر قبے بنانا بالاتفاق حرام اور معصیت ہے۔یہ اہل بدعت کی کاررائی ہے، جیسا کہ بعض بدعتیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر پر سبز گنبد بنا دیا،حالانکہ خیر القرون میں ایسا کچھ نہیں تھا۔
دلیل نمبر 2 :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک واقعہ یوں نقل کرتے ہیں:
وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَکْرِ بنِ أَبِي عَلِيٍّ، قَالَ : کَانَ ابْنُ المُقْرِیئِ یَقُوْلُ : کُنْتُ أَنَا وَالطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو الشَّیْخِ بِالْمَدِیْنَۃِ، فَضَاقَ بِنَا الْوَقْتُ، فَوَاصَلْنَا ذٰلِکَ الْیَوْمَ، فَلَمَّا کَانَ وَقْتُ الْعشَائِ حَضَرْتُ الْقَبْرَ، وَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ الْجُوْعُ، فَقَالَ لِيَ الطَّبَرَانِيُّ : اِجْلِسْ، فَإِمَّا أَنْ یَّکُونَ الرِّزْقُ أَوِ الْمَوْتُ، فَقُمْتُ أَنَا وَأَبُو الشَّیْخِ، فَحَضَرَ الْبَابَ عَلَوِيٌّ، فَفَتَحْنَا لَہٗ، فَإِذَا مَعَہٗ غُلاَمَانِ بِقَفَّتَیْنِ، فِیْہِمَا شَيْئٌ کَثِیْرٌ، وَقَالَ : شَکَوْتُمُونِي إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ رَأَیْتُہٗ فِي النَّوْمِ، فَأَمَرَنِي بِحَمْلِ شَيْئٍ إِلَیْکُمْ ۔
’’ابوبکر بن ابو علی بیان کرتے ہیں کہ ابن مقری کہا کرتے تھے:میں،امام طبرانی اور امام ابو الشیخ مدینہ منورہ میں تھے،ہم تنگ دستی کا شکار ہو گئے۔ہم نے وصال(مسلسل روزے رکھنا شروع) کیا۔ عشا کے وقت میں قبر رسول کے پاس آکر میں نے کہا: یارسول اللہ! بھوک؟مجھے امام طبرانی نے کہا:بیٹھ جائو،اب یا تو رزق آئے گا یا پھر موت۔۔۔ میں اور ابوالشیخ نے کھڑے ہوئے اور باب ِعلوی کے پاس آکر ان کے لیے دروازہ کھولا:اچانک دیکھا کہ ان کے ساتھ دو نوجوان تھے،جن کے پاس دو ٹوکرے تھے، جن میں بہت کچھ تھا۔امام طبرانی نے کہا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تم لوگوں نے مجھ سے شکایت کی۔میںنے آپ کو خواب میں دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے لیے کچھ اٹھا لائوں۔‘‘
(تذکرۃ الحفّاظ : 122/3، سیر أعلام النبلاء : 400/16، 401، مصباح الظلام لأبي عبد اللّٰہ محمّد بن موسی بن النعمان (م : 683ھ)، ص : 61)
تبصرہ :
یہ بے سند اور جھوٹا واقعہ ہے۔کسی گمراہ نے محدثین کرام کو شرک میں مبتلا ثابت کرنے کی بے ہودہ اور ناکام کوشش کی ہے۔بے سند اقوال پیش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ویسے بھی بے سند مذہب کا کوئی اعتبار نہیں۔
دلیل نمبر 3 :
امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنے حوالے سے بیان کرتے ہیں:ـ
قَدْ زُرْتُہٗ مِرَارًا کَثِیرَۃً، وَمَا حَلَّتْ بِي شِدَّۃٌ فِي وَقْتِ مُقَامِي بِطُوْسٍ، فَزُرْتُ قَبْرَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلٰی جَدِّہٖ وَعَلِیہِ، وَدَعَوْتُ اللّٰہَ إِزَالَتَہَا عَنِّي؛ إِلَّا اسْتُجِیْبَ لِي، وَزَالَتْ عَنِّي تِلْکَ الشِّدَّۃُ، وَہٰذَا شَيْئٌ جَرَّبْتُہٗ مِرَارًا، فَوَجَدْتُّہٗ کَذٰلِکَ، أَمَاتَنَا اللّٰہُ عَلٰی مَحَبَّۃِ الْمُصْطَفٰی وَأَہْلِ بَیْتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰہ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِم أَجْمَعِینَ ۔
’’طوس نامی مقام پرمیں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی کئی مرتبہ زیارت کی۔جب بھی مجھے سخت پریشانی کا سامنا ہوا،تو میں نے علی بن موسیٰ رضا کی قبر پر آ کر اللہ تعالیٰ سے اس پریشانی کے خاتمے کی دُعا کی۔اللہ رب العزت نے میری دُعا قبول فرما کر مجھے سخت پریشانی سے نجات دلائی۔اس کا میں نے کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تمام اہل بیت سے محبت پر موت دے۔‘‘(الثقات : 457/8، ت : 1441)
تبصرہ :
یہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا ہے۔اس سلسلے میں ان کا کوئی سلف نہیں،نہ ہی یہ عمل کتاب و سنت سے مستند ہے،بلکہ خیرالقرون کے مسلمانوں کے خلاف عمل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ)فرماتے ہیں:
لَیْسَ الدُّعَائُ عِنْدَ الْقُبُورِ بِأَفْضَلَ مِنَ الدُّعَائِ فِي الْمَسَاجِدِ وَغَیْرِہَا مِنَ الْـأَمَاکِنِ، وَلَا قَالَ أَحَدٌ مِّنَ السَّلَفِ وَالْـأَئِمَّۃِ : إِنَّہٗ مُسْتَحَبٌّ أَنْ یَّقْصِدَ الْقُبُورَ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہَا؛ لَا قُبُورَ الْـأَنْبِیَائِ وَلَا غَیْرِہِمْ ۔
’’قبروں کے پاس دُعا کرنامساجد اور دیگر مقامات کی بہ نسبت افضل نہیں۔ اسلافِ اُمت اور ائمہ دین میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ دُعا کیلئے انبیائِ کرام اور دیگر قبروں کا قصد مستحب ہے۔‘‘(مجموع الفتاوی : 180/27)
لہٰذا یہ کہنا کہ اولیا اور صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے اور وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، قطعاً باطل ہے۔
سیدناانس بن مالک t بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَانَ إِذَا قُحِطُوا اسْتَسْقٰی بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ : اللّٰہُمَّ، إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِینَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ : فَیُسْقَوْنَ ۔
’’سیدنا عمر بن خطاب tکا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا، تو سیدنا عباس بن عبدالمطلبt(کی دعا )کے وسیلہ سے بارش طلب کیا کرتے تھے۔سیدنا عمرt یوں دُعا کرتے تھے:اے اللہ!بے شک ہم تجھے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا )کا وسیلہ پیش کر کے بارش طلب کیا کرتے تھے، تو تُوہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعدان )کے چچا(کی دعا)کو وسیلہ بناکر بارش طلب کرتے ہیں(یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں )،لہٰذا اب بھی تُو ہم پر بارش نازل فرما۔ سیدنا انسtبیان کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں بارش عطا کر دی جاتی تھی۔‘‘(صحیح البخاري : 1/137،ح : 1010)
اگر نبی یا ولی کی قبر پر دُعا زیادہ قبول ہوتی،تو یقینا سیدنا عمرt قبر رسول کا رُخ کرتے۔ ان کا ایسا نہ کرنا اس بات پر واضح دلیل ہے کہ انبیا و صالحین کی قبور پر قبولیت کی غرض سے دُعا کرنا جائز نہیں۔کسی بھی صحابی نے ایسا نہیں کیا،نہ تابعین نے صحابہ کرام کی قبروں کے پاس ایسا کوئی عمل کیا۔
مشہور اہل حدیث عالم،علامہ محمد بشیر سہسوانی،ہندی رحمہ اللہ (1326-1252ھ) تبرک و توسل کی ممنوع و حرام اور کفر وشرک پر مبنی صورتوں کے متعلق فرماتے ہیں:
اَلثَّامِنُ؛ أَنْ یَّسْأَلَ اللّٰہَ وَیَدْعُوَہ عِنْدَ قُبُورِ الصَّالِحِینَ مُعْتَقِدًا أَنَّ الدُّعَائَ عِنْدَ الْقَبْرِ مُسْتَجَابٌ، وَالتَّاسِعُ؛ أَنْ یَّقُولَ عِنْدَ قَبْرِ نَبِيٍّ أَوْ صَالِحٍ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! ادْعُ اللّٰہَ تَعَالٰی أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ، فَہٰذَانِ الْقِسْمَانِ مِمَّا لَا یَسْتَرِیبُ عَالِمٌ أَنَّہُمَا غَیْرُ جَائِزَیْنِ، وَأَنَّہُمَا مِنَ الْبِدَعِ الَّتِي لَمْ یَفْعَلْہَا السَّلَفُ، وَإِنْ کَانَ السَّلَامُ عَلَی الْقُبُورِ جَائِزًا، اَلْعَاشِرُ : أَنْ یَّقُولَ عِنْدَ قَبْرِ نَبِيٍّ أَوْ صَالِحٍ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! اشْفِ مَرِیضِي وَاکْشِفْ عَنِّي کُرْبَتِي وَغَیْرَ ذٰلِکَ، وَہٰذَا شِرْکٌ جَلِيٌّ، إِذْ نِدَائُ غَیْرِ اللّٰہِ طَالِبًا بِذٰلِکَ دَفْعَ شَرٍّ أَوْ جَلْبَ مَنْفَعَۃٍ فِیمَا لَا یَقْدِرُ عَلَیْہِ الْغَیْرُ دُعَائٌ، وَالدُّعَائُ عِبَادَۃٌ، وَعِبَادَۃُ غَیْرِ اللّٰہِ شِرْکٌ، وَہٰذَا أَعَمُّ مِنْ أَنْ یَّعْتَقِدَ فِیہِمْ أَنَّہُمْ مُؤَثِّرُوْنَ بِالذَّاتِ، أَوْ أَعْطَاہُمُ اللّٰہُ تَعَالَی التَّصَرُّفَاتِ فِي تِلْکَ الْـأُمُورِ، أَوْ أَنَّہُمْ أَبْوَابُ الْحَاجَۃِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَشُفَعَاؤُہٗ وَوَسَائِلُہٗ، وَفِي ہٰذَا الْحُکْمِ التَّوَسُّلُ بِسَائِرِ الْعِبَادَاتِ مِنَ الذِّبْحِ لَہُمْ، وَالنَّذْرِ لَہُمْ، وَالتَّوَکُّلِ عَلَیْہِمْ، وَالِالْتِجَائِ إِلَیْہِمْ، وَالْخَوْفِ وَالرَّجَائِ مِنْھُمْ، وَالسُّجُودِ لَہُمْ، وَالطَّوَافِ لَہُمْ، اَلْحَادِي عَشَرَ : أَنْ یَّدْعُوَ غَائِبًا أَوْ مَیِّتًا عِنْدَ غَیْرِ الْقُبُورِ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! اُدْعُ اللّٰہَ تَعَالٰی فِي حَاجَتِي فُلَانَۃَ، زَاعِمًا أَنَّہٗ یَعْلَمُ الْغَیْبَ، وَیَسْمَعُ کَلَامَہٗ فِي کُلِّ زَمَانٍ وَّمَکَانٍ، وَّیَشْفَعُ لَہٗ فِي کُلِّ حِینٍ وَّأَوَانٍ، فَھٰذَا شِرْکٌ صَرِیحٌ، فَإِنَّ عِلْمَ الْغَیْبِ مِنَ الصِّفَاتِ الْمُخْتَصَّۃِ بِاللّٰہِ تَعَالٰی، اَلثَّانِي عَشَرَ : أَنْ یَّدْعُوَ غَائِبًا أَوْ مَیِّتًا عِنْدَ غَیْرِ الْقَبْرِ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! اشْفِ مَرِیضِي وَاقْضِ عَنِّي الدَّیْنَ، وَہَبْ لِي وَلَدًا، وَّارْزُقْنِي، وَاغْفِرْلِي، وَأَمْثَالَ ذٰلِکَ، وَہٰذَا أَیْضًا شِرْکٌ مِّنْ وَّجْہَیْنِ؛ الْـأَوَّلُ أَنَّہٗ یَعْتَقِدُ عِلْمَ الْغَیْبِ لِذٰلِکَ الْمَدْعُوِّ، وَہُوَ شِرْکٌ، وَالثَّانِي أَنَّہٗ یُنَادِي وَیَدْعُو غَیْرَ اللّٰہِ تَعَالٰی، طَالِباً بِذٰلِکَ دَفْعَ شَرٍّ أَوْ جَلْبَ مَنْفَعَۃٍ، فِیمَا لَا یَقْدِرُ ذٰلِکَ الْغَیْرُ عَلَیْہِ، وَہٰذَا الدُّعَائُ عِبَادَۃٌ، وَعِبَادَۃُ غَیْرِ اللّٰہِ شِرْکٌ، وَمَنْ قَالَ مِنَ الْعُلَمَائِ بِکَوْنِ التَّوَسُّلِ شِرْکًا؛ فَإِنَّمَا أَرَادَ بِہٖ أَحَدَ الْـأَقْسَامِ الثَّلَاثَۃِ الْـأَخِیرَۃِ ۔
’’آٹھویں قسم یہ ہے کہ آدمی یہ عقیدہ رکھتے ہوئے نیک لوگوں کی قبروں کے پاس اللہ تعالیٰ سے دُعا و مناجات کرے کہ وہاںدُعا قبول ہوتی ہے۔ نویں صورت یہ ہے کہ وہ کسی نبی یا ولی کی قبر کے پاس جا کر اس طرح کے الفاظ کہے:آقا!میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں،وغیرہ وغیرہ۔ اس بات میںکسی عالم کو شبہ نہیںہو سکتا کہ یہ دونوںقسمیںناجائز ہیں اور ان بدعات میںشامل ہیںجن کا سلف نے ارتکاب نہیں کیا۔ہاں!(شریعت ِاسلامیہ کی روشنی میں)قبرستان میںسلام کہنا جائز ہے۔ دسویںصورت یہ ہے کہ آدمی کسی نبی یا ولی کی قبر پر جا کر کہے:آقا! میرے مریض کو شفا دیجیے ،میری مشکلات کو حل فرمائیے وغیرہ۔ یہ واضح شرک ہے،کیونکہ غیراللہ کو کسی ایسی تکلیف کو دور کرنے کے لیے یا کسی ایسے نفع کو حاصل کرنے کے لیے پکارنا جس پر وہ قادر نہ ہو،دُعا ہے اور دُعا عبادت ہے اور غیراللہ کی عبادت شرک ہے۔ انبیا و اولیا کو ذاتی طور پر ان تصرفات کا اہل سمجھا جائے یا ان امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائی سمجھا جائے یا ان کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں سفارشی اور ذریعہ خیال کیا جائے،ہرحال میںشرک ہے۔باقی عبادات،مثلاً غیراللہ کے لیے جانور ذبح کرنا،ان کے لیے نذر و نیاز کا اہتمام،ان پر توکل،ان سے التجا اور خوف و رجا،ان کے لیے سجدہ اور طواف،وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔گیارہویںقسم یہ ہے کہ آدمی کسی غائب یا فوت شدہ کو اس کی قبر کے علاوہ کسی اور جگہ پکارتے ہوئے کہے:آقا!اللہ تعالیٰ سے میرے اس معاملے میںدعا کیجیے اور اس کا عقیدہ یہ ہو کہ جس کو وہ پکار رہا ہے، وہ غیب جانتا ہے اور ہر زمان و مکان میںاس کا کلام سن رہا ہے اور ہر وقت اس کے لیے سفارش کرتا ہے۔یہ صورت بھی شرکِ جلی ہے کیونکہ علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔بارہویںقسم یہ ہے کہ آدمی کسی غائب یا فوت شدہ شخص کو اس کی قبر کے علاوہ کسی اور جگہ پر پکارے اور کہے:آقا!میرے مریض کو شفا دیجیے ، میرا قرض دُور فرمائیے ، مجھے اولاد عطا کیجیے ، مجھے رزق عنایت فرمائیے ،مجھے معاف فرمائیے وغیرہ۔ یہ صورت بھی دو طرح سے شرک ہے۔اول اس طرح کہ وہ پکارے جانے والے شخص کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے اور یہ شرک ہے۔ثانی یہ کہ وہ غیراللہ کو ایسی تکلیف کے دور کرنے یا ایسے نفع کو حاصل کرنے کے لیے پکارتا ہے جس پر غیراللہ قدرت نہیں رکھتے۔یہ پکار عبادت ہے اور غیراللہ کی عبادت شرک ہے۔جن علماء ِ کرام نے توسل کو شرک قرار دیا ہے، ان کی مراد یہی آخری تین قسمیںتھیں۔‘‘
(صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان، ص : 212، 213)
تنبیہ :
ابوبکر، محمد بن مؤمل بن حسین بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں:ـ
خَرَجْنَا مَعَ إِمَامِ أَہْلِ الْحَدِیْثِ، أَبِي بَکْرِ بْنِ خُزَیْمَۃَ، وَعَدِیْلِہٖ أَبِي عَلِيٍّ الثَّقْفِيِّ، مَعَ جَمَاعَۃٍ مِّنْ مَّشَائِخِنَا، وَہُمْ إِذْ ذَاکَ مُتَوَافِرُوْنَ، إِلٰی زِیَارَۃِ قَبْرِ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرَّضَا بِطُوْسَ، قَالَ : فَرَأَیْتُ مِنْ تَعْظِیْمِہٖ، یَعْنِي ابْنَ خُزَیْمَۃَ، لِتِلْکَ الْبُقْعَۃِ، وَتَوَاضُعِہٖ لَہَا، وَتَضَرُّعِہٖ عِنْدَہَا، مَا تَحَیَّرْنَا ۔
’’ہم امامِ اہل حدیث، ابوبکر بن خزیمہ رحمہ اللہ کے ساتھ نکلے۔ان کے ہم زلف ابو علی ثقفی اور مشائخ کی ایک بڑی جماعت ان کے ہمراہ تھی۔ہم سارے اکٹھے ہو کر طوس میں علی بن موسیٰ رضا کی قبر کی طرف گئے۔میں نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کو زمین کے اس ٹکڑے کی تعظیم کرتے دیکھا اور اس قبر کے سامنے ان کی عاجزی اور انکساری دیکھ کر ہم حیران رَہ گئے تھے۔‘‘
(تہذیب التہذیب لابن حجر : 388/7، وسندہٗ حسنٌ)
زیارتِ قبور کے وقت آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔اگر قبروں کے احترام کو تعظیم کا نام دیاجائے تویہ جائز ہے،لیکن دورانِ زیارت قبروں سے تبرک جائز نہیں،نہ ان کے پاس دُعا و مناجات مشروع ہے۔
دلیل نمبر 5 :
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک ’’ضعیف‘‘اور باطل روایت یوں ہے :
إِنِّي لَـأَتَبَرَّکُ بِأَبِي حَنِیفَۃَ، وَأَجِیْیُٔ إِلٰی قَبْرِہٖ فِي کُلِّ یَوْمٍ، یَعْنِي زَائِرًا، فَإِذَا عَرَضَتْ لِي حَاجَۃٌ؛ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ، وَجِئْتُ إِلٰی قَبْرِہٖ، وَسَاَلْتُ اللّٰہَ تَعَالَی الْحَاجَۃَ عِنْدَہٗ، فَمَا تَبْعُدُ عَنِّي؛ حَتّٰی تُقْضٰی ۔
’’میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر دن زیارت کے لیے آتاہوں۔جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے، تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاںاللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں، جلد ہی وہ ضرورت پوری کر دی جاتی ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 135/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے،کیونکہ اس کے راوی عمر بن اسحاق بن ابراہیم کا کتب ِ رجال میں کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ نیز علی بن میمون راوی کی بھی تعیین نہیں ہو سکی۔
اس کے باوجود محمد زاہد الکوثری جہمیحنفی نے اس کی سند کو’’ صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(مقالات الکوثري : 380)
جس روایت کے راوی کا حال یہ ہو کہ اس کا کتب ِ رجال میں ذکر ہی نہ ہو،اس کی سند صحیح کیسے ہوئی؟کیا یہ سب کچھ قبر پرستی کو تقویت دینے کے لیے تو نہیںکیا جا رہا ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ)اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَھٰذَا کَذِبٌ مَّعْلُومٌ کِذْبُہٗ بِالِاضْطِرَارِ عِنْدَ مَنْ لَّہٗ أَدْنٰی مَعْرِفَۃٍ بِالنَّقْلِ، فَإِنَّ الشَّافِعِيَّ لَمَّا قَدِمَ بَغْدَادَ؛ لَمْ یَکُنْ بِبَغْدَادَ قَبْرٌ یُّنْتَابُ لِلدُّعَائِ عِنْدَہُ اَلْبَتَّۃَ، بَلْ وَلَمْ یَکُنْ ھٰذَا عَلٰی عَھْدِ االشَّافِعِيِّ مَعْرُوفًا، وَقَدْ رَأَی الشَّافِعِيُّ بِالْحِجَازِ وَالْیَمَنِ وَالشَّامِ وَالْعِرَاقِ وَمِصْرَ مِنْ قُبُورِ الْـأَنْبِیَائِ وَالصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ، مَنْ کَانَ أَصْحَابُھَا عِنْدَہٗ وَعِنْدَ الْمُسْلِمِینَ أَفْضَلَ مِنْ أَبِي حَنِیفَۃَ وَأَمْثَالِہٖ مِنَ الْعُلَمَائِ، فَمَا بَالُہٗ لَمْ یَتَوَخَّ الدُّعَائَ؛ إِلَّا عِنْدَ قَبْرِ أَبِي حَنِیفَۃَ، ثُمَّ أَصْحَابُ أَبِي حَنِیفَۃَ الَّذِینَ أَدْرَکُوہُ مِثْلُ أَبِي یُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ وَّزُفَرَ وَالْحَسَنِ بْنِ زِیَادٍ وَّطَبَقَتِھِمْ؛ لَمْ یَکُونُوا یَتَحَرَّوْنَ الدُّعَائَ، لَا عِنْدَ قَبْرِ أَبِي حَنِیفَۃَ وَلَا غَیْرِہٖ، ثُمَّ قَدْ تَقَدَّمَ عَنِ الشَّافِعِيِّ مَا ھُوَ ثَابَتٌ فِي کِتَابِہٖ، مِنْ کَرَاھَۃِ تَعْظِیمِ قُبُورِ الصَّالِحِینَ خَشْیَۃَ الْفِتْنَۃِ بِھَا، وَإِنَّمَا یَضَعُ مِثْلَ ھٰذِہِ الْحِکَایَاتِ مَنْ یَّقِلُّ عِلْمُہٗ وَدِینُہٗ، وَإِمَّا أَنْ یَّکُونَ الْمَنْقُولُ مِنْ ھٰذِہِ الْحَکَایَاتِ عَنْ مَّجْھُولٍ لَّا یُعْرَفُ ۔
’’یہ ایسی جھوٹی روایت ہے،جس کا جھوٹا ہونا ہر اس شخص کو لازمی طور پر معلوم ہو جاتا ہے،جو فن روایت سے ادنیٰ معرفت بھی رکھتا ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ جب بغداد تشریف لائے، تو وہاں قطعاً کوئی ایسی قبر موجود نہیں تھی، جس پر دعا کے لیے حاضر ہوا جاتا ہو۔یہ چیز امام شافعی رحمہ اللہ کے دور میں معروف ہی نہیں تھی۔امام شافعی رحمہ اللہ نے حجاز،یمن،شام،عراق اور مصر میں انبیائِ کرام اور صحابہ و تابعین کی قبریں دیکھی تھیں۔یہ لوگ تو امام شافعی اور تمام مسلمانوں کے ہاں امام ابوحنیفہ اور ان جیسے دوسرے علما سے افضل تھے۔کیا وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے سوائے امام ابوحنیفہ کے کسی کی قبر پر دعا نہیں کی؟پھر امام ابوحنیفہ کے وہ شاگرد جنہوں نے ان کی صحبت پائی تھی،مثلاً ابویوسف ، محمد(بن حسن)، زفر اور حسن بن زیاد،نیز ان کے طبقے کے دوسرے لوگ، امام ابوحنیفہ یا کسی اور کی قبر پر دعا نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم کرنا مکروہ ہے،کیونکہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے۔اس طرح کی جھوٹی روایات وہ لوگ گھڑتے ہیں،جو علمی اور دینی اعتبار سے تنگ دست ہوتے ہیں یا پھر ایسی روایات مجہول اور غیر معروف لوگوں سے منقول ہوتی ہیں۔‘‘
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم، ص : 165)
جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب (م :2009ئ)لکھتے ہیں:
’’یہ واقعہ ہی جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے۔‘‘(بابِ جنت، ص : 66)
دلیل نمبر 6 :
قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ بَشْکَوَالَ : أَخْبَرَنَا الْقَاضِي الشَّہِیدُ أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ رَحِمَہُ اللّٰہُ قِرَاء َۃً عَلَیْہِ، وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ : قَرَاْتُ عَلٰی أَبِي عَلِيٍّ حُسَیْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْغَسَّانِيِّ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو الْحَسَنِ طَاہِرُ بْنُ مُفَوِّزٍ الْمُعَافِرِيُّ، قَالَ : أَنَا أَبُو الْفَتْحِ وَأَبُو اللَّیْثِ نَصْرُ بْنُ الْحَسَنِ التَّنْکَتِيُّ، الْمُقِیمُ بِسَمَرْقَنْدَ، قَدِمَ عَلَیْہِمْ بِلَنْسِیَۃَ، عَامَ أَرْبَعَۃٍ وَّسِتِّینَ وَأَرْبَعِ مِائَۃٍ، قَالَ : قُحِطَ الْمَطَرُ عِنْدَنَا بِسَمَرْقَنْدَ فِي بَعْضِ الْـأَعْوَامِ، قَالَ : فَاسْتَسْقَی النَّاسُ مِرَارًا، فَلَمْ یُسْقَوْا، قَالَ : فَأَتٰی رَجُلٌ مِّنَ الصَّالِحِینَ مَعْرُوفٌ بِالصَّلَاحِ، مَشْہُورٌ بِہٖ، إِلٰی قَاضِي سَمَرْقَنْدَ، فَقَالَ لَہٗ : إِنِّي قَدْ رَأَیْتُ رُأْیًا أَعْرِضُہٗ عَلَیْکَ، قَالَ : وَمَا ہُوَ؟ قَالَ : أَرٰی أَنْ تَخْرُجَ وَیَخْرُجَ النَّاسُ مَعَکَ إِلٰی قَبْرِ الْإِمَامِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِيِّ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَقَبْرُہٗ بِخَرَتْنَکَ، وَتَسْتَسْقُوا عِنْدَہٗ، فَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّسْقِیَنَا، قَالَ : فَقَالَ الْقَاضِي : نِعْمَ مَا رَاَیْتَ، فَخَرَجَ الْقَاضِي، وَخَرَجَ النَّاسُ مَعَہٗ، وَاسْتَسْقَی الْقَاضِي بِالنَّاسِ، وَبَکَی النَّاسُ عِنْدَ الْقَبْرِ، وَتَشَفَّعُوا بِصَاحِبِہٖ، فَأَرْسَلَ اللّٰہُ السَّمَائَ بِمَائٍ عَظِیمٍ غَزِیرٍ، أَقَامَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِہٖ بِخَرَتْنَکَ سَبْعَۃَ أَیَّامٍ أَوْ نَحْوَہَا، لَا یَسْتَطِیعُ أَحَدٌ الْوَصُولَ إِلٰی سَمَرْقَنْدَ مِنْ کَثْرَۃِ الْمَطَرِ وَغَزَارَتِہٖ، وَبَیْنَ خَرَتْنَکَ وَسَمَرْقَنْدَ ثَلَاثَۃُ أَمْیَالٍ أَوْ نَحْوُہَا ۔
’’سمرقند میںایک سال قحط پڑا۔ لوگوں نے بہت دفعہ بارش طلبی کے لیے دُعائیں کیں،لیکن بارش نہ ہوئی۔ایک نیک آدمی جس کا ورع و تقویٰ مشہور تھا،قاضی سمرقند کے پاس آیا اور کہنے لگا:میرے ذہن میںایک ترکیب آئی ہے،میںوہ آپ کے سامنے پیش کروںگا۔قاضی نے کہا:وہ ترکیب کیا ہے؟اس نے کہا:میرا خیال ہے کہ آپ اور تمام لوگ امام محمدبن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کریں۔ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بارش عطا فرما دے۔امام صاحب کی قبر خرتنک نامی جگہ میںہے۔قاضی اور تمام لوگ باہر نکلے اور امام صاحب کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کی،اللہ کے ہاں گڑگڑائے اور امام صاحب کا وسیلہ پیش کیا۔اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ بارش نازل کی۔اس بارش کی وجہ سے لوگوں کو خرتنک میںتقریباً سات دن ٹھہرنا پڑا۔ زیادہ بارش کی بنا پر کوئی بھی سمرقند نہ جا سکتا تھا۔ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تقریباً تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘
(الصلۃ في تاریخ أئمّۃ الأندلس لابن بشکوال، ص : 603، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
پانچویںصدی کے اواخر کے بعض نامعلوم لوگوں کا یہ عمل دین کیسے بن گیا؟ایک شخص کے کہنے پر نامعلوم قاضی اور اس کی نامعلوم رعایا کا یہ عمل قرآن و سنت اور سلف صالحین کے تعامل کے خلاف تھا۔
رہا بارش کاہوجانا،تو وہ ایک اتفاقی امر ہے۔آج بھی کتنے ہی مشرکین قبروالوں سے اولادیں مانگتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد ملتی ہے، تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب ِ قبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟اور کیا ان کی کوئی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز کی دلیل ہے؟قرآن و حدیث میںبزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان سے تبرک حاصل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ و تابعین ضرور ایسا کرتے۔ خیرالقرون کے بعد دین میں منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی کاموں میں سے ہے۔اس دور میںکسی کے عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔
دلیل نمبر 7 :
حسن بن ابراہیم بن توبہ، ابو علی الخلال کا بیان ہے :
مَا ہَمَّنِي أَمْرٌ، فَقَصَدْتُّ قَبْرَ مُوْسَی بْنِ جَعْفَرٍ، فَتَوَسَّلْتُ بِہٖ؛ إِلاَّ سَہَّلَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِي مَا أُحِبُّ ۔
’’جب بھی میںکسی معاملہ میں پریشانی سے دوچار ہوتا، تو موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جاکر اس کا وسیلہ پکڑتا،تو اللہ تعالیٰ میری پسند کو میرے لیے آسان کر دیتے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 120/1)
تبصرہ :
یہ غیر ثابت روایت ہے،کیونکہ اس کے راوی حسن بن ابراہیم کی توثیق ثابت نہیں، لہٰذا یہ قول مردود ہے۔علمی دُنیا میں ایسے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں۔
دلیل نمبر 8 :
معروف کرخی رحمہ اللہ کی قبر کے بارے میں امام ابراہیم حربی رحمہ اللہ سے منسوب ہے کہ :
قَبْرٌ مُّعْرُوْفٍ التَّرْیَاقُ الْمُجَرَّبُ ۔
’’معروف کرخی کی قبر تریاقِ مجرب ہے۔‘‘(تاریخ بغداد للخطیب : 122/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹا قول ہے، کیونکہ اس کا راوی احمد بن حسین بن یعقوب ابو الحسن عطار غیر ثقہ اور مجروح ہے۔اس کے بارے میں :
ابو القاسم ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانَ کَذَّابًا ۔
’’یہ انتہائی جھوٹا تھا۔‘‘(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
خود حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَلَمْ یَکُنْ فِي الْحَدِیْثِ ثِقَۃً ۔
’’یہ روایت ِ حدیث میں ثقہ نہیں تھا۔‘‘(تاریخ بغداد : 429/4)
محمد بن ابی الفوارس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانَ سَيِّئَ الْحَالِ فِي الْحَدِیْثِ، مَذْمُوْمًا، ذَاہِباً، لَمْ یَکُنْ بِشَيْئٍ اَلْبَتَّۃَ ۔
’’یہ روایت ِحدیث میں بری حالت کا مالک تھا،نیز مذموم اور ردی تھا،یہ بالکل بے کار شخص تھا۔‘‘(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَیِّنُ الْحَدِیْثِ ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہوتی ہے۔‘‘(تاریخ بغداد للخطیب : 429/4)
حافظ سہمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حَدَّثَ عَنْ مَّنْ لَّمْ یَرَہٗ وَمَنْ مَّاتَ قَبْلَ أَنْ یُّوْلَدَ ۔
’’یہ ان لوگوں سے روایت بیان کردیتا تھا،جنہیں اس نے دیکھا تک نہیں ہوتا تھا اور ان سے بھی،جو اس کی پیدائش سے بھی پہلے مر چکے ہوتے تھے۔‘‘
(سؤالات السہمي للدارقطني : 157)
حافظ حمزہ سہمی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
وَسَمِعْتُ الدَّارَقُطَنِيَّ وَجَمَاعَۃً مِّنَ الْمَشَایِخِ، تَکَلَّمُوْا فِي ابْنِ مِقْسَمٍ ۔
’’میں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ اورمحدثین کرام کی ایک جماعت سے سنا ہے کہ وہ ابن مقسم پر جرح کرتے تھے۔‘‘(سؤالات السہمي للدارقطني : 157)
دلیل نمبر 9 :
عبدالرحمن بن محمد بن زہری کہتے ہیں :
قَبْرُ مَعْرُوْفٍ الْکَرْخِيِّ مُجَرَّبٌ لِّقَضَائِ الْحَوَائِجِ، وَیُقَالُ : إِنَّہٗ مَنْ قَرَأَ عِنْدَہٗ مِائَۃَ مَرَّۃٍ : قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ، وَسَأَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی مَا یُرِیْدُ؛ قَضَی اللّٰہُ لَہٗ حَاجَتَہٗ ۔
’’معروف کرخی کی قبر قضائے حاجات کے لیے مشہور ہے۔کہا جاتا ہے کہ جو اس قبر کے پاس سو مرتبہ سورت اخلاص پڑھے،تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد کو پورا کر دیتا ہے۔‘‘(تاریخ بغداد للخطیب : 122/1، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 0 :
ثقہ محدث،ابو عبداللہ ابن محاملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَعْرِفُ قَبْرَ مَعْرُوْفَ الْکَرْخِيِّ مُنْذُ سَبْعِیْنَ سَنَۃً، مَا قَصَدَہٗ مَہْمُوْمٌ؛ إِلَّا فَرَّجَ اللّٰہُ ہَمَّہٗ ۔
’’میں ستر سال سے معروف کرخی کی قبر کو جانتا ہوں۔ جو بھی پریشان حال ان کی قبر کا قصد کرے،اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 123/1، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
متاخرین کا بے دلیل عمل دین کیسے بن سکتا ہے؟یہ عمل قرآن و سنت اور خیر القرون کے سلف صالحین کے خلاف ہے۔
رہا حاجت پوری ہو جانا تو یہ اتفاقی امر ہے۔آج بھی قبروں کے پجاری قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد مل جاتی ہے،لیکن وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب ِقبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مدد مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟کیا ان کی کوئی دلی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز پر دلیل ہے؟
قرآن و سنت میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان کے توسل اور تبرک کا کوئی جواز نہیں،اگر ایسا کرنا جائز ہوتا،توصحابہ کرام اور تابعین عظام ضرور ایسا کرتے۔خیر القرون کے بعد دین اسلام میں جو منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی میں سے ہے۔
دلیل نمبر ! :
عظیم تابعی، مجاہد بن جبر رحمہ اللہ سے سیدنا ابو ایوب انصاریt کے بارے میں منسوب ہے :
فَکَانُوْا إِذَا قُحِطُوْا کَشَفُوْا عَنْ قَبْرِہٖ، فَمُطِرُوْا ۔
’’رومی جب قحط سالی کا شکار ہوتے، تو وہ سیدنا ابو ایوبt کی قبر کو کھولتے۔یوں ان پر بارش بر سا دی جاتی ۔‘‘ (معجم الصحابۃ للبغوي : 222/2)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
1 محمد بن عمر الواقدی ’’ضعیف‘‘اور’’متروک‘‘ راوی ہے۔
2 اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ راوی ’’ضعیف‘‘ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 390)
دلیل نمبر @ :
امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے :
بَلَغَنِي عَنْ قَبْرِ أَبِي أَیُّوْبَ أَنَّ الرُّوْمَ یَسْتَصْحُوْنَ بِہٖ، وَیَسْتَسْقَوْنَ ۔
’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رومی سیدنا ابو ایوب انصاریt کی قبر کے وسیلے صحت اور بارش طلب کرتے ہیں۔‘‘
(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب لابن عبد البرّ : 1606/4)
تبصرہ :
امام مالک رحمہ اللہ نے صرف ایک خبر بیان کی ہے،اس کی تصدیق نہیں کی۔ان تک یہ بات پہنچانے والا شخص نا معلوم ہے،لہٰذا یہ قول ناقابلِ التفات ہے۔
دلیل نمبر # :
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَقَبْرُ أَبِي أَیُّوْبَ قُرْبَ سُوْرِہَا، مَعْلُوْمٌ إِلَی الْیَوْمِ، مُعَظَّمٌ یَّسْتَسْقُوْنَ بِہٖ، فَیُسْقَوْنَ ۔
’’سیدنا ابو ایوبtکی قبر(قسطنطنیہ)شہر کی فصیل کے قریب ہے۔آج تک وہیں موجود ہے۔ اس کی تعظیم کی جاتی ہے اور اس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جائے، تو بارش برستی ہے۔‘‘(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 426/2)
تبصرہ :
اس پر کوئی دلیل نہیں کہ بارش کی دُعا اس قبر کی برکت سے قبول ہوتی ہے۔اتفاقاً ایسے ہو جاتا ہے،اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قبر کی وجہ سے یا صاحب قبر کے سبب دُعا قبول ہوتی ہے۔اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین کو ضرور معلوم ہوتا اور وہ ضرور اس کے قائل و فاعل ہوتے۔
تنبیہ :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَالدُّعَائُ مُسْتَجَابٌ عِنْد قُبُوْرِ الْـأَنْبِیَائِ وَالْـأَوْلِیَائِ، وَفِي سَائِرِ الْبِقَاعِ، لٰکِنْ سَبَبُ الْإِجَابَۃِ حُضُورُ الدَّاعِي، وَخُشُوعُہٗ، وَابْتِہَالُہٗ، وَبِلاَ رَیْبٍ فِي الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ، وَفِي الْمَسْجَدِ، وَفِي السَّحَرِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، یَتَحَصَّلُ ذٰلِکَ لِلدَّاعِي کَثِیْراً، وَکُلُّ مُضْطَرٍّ؛ فَدُعَاؤُہٗ مُجَابٌ ۔
’’انبیا، اولیاکی قبروں اور باقی تمام مقدس مقامات پر دُعا قبول ہوجاتی ہے،لیکن قبولیت ِدُعا کا سبب(قبور کا متبرک ہونا نہیں،بلکہ)دعا کرنے والے کا خشوع اور گریہ و زاری ہوتا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مبارک مقامات، مسجد، سحری اور دیگر اوقات میں دعا کرنے والے کو بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے اور ہر پریشان حال کی دُعا قبول ہوجاتی ہے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 77/17)
یہ بے دلیل بات ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا،تو صحابہ کرام ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر دعائیں کرتے،تابعین، تبع تابعین اور خیر القرون کے مسلمان ایسا کرتے۔اگر وہ قبر نبی پر دُعا نہیں مانگتے تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبورِ انبیا و اولیا پر دعا کے قبول ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں،لہٰذا یہ ایک عالم کی اجتہادی خطا ہے جو ناقابل قبول ہے۔
عقائد و اعمال میں سلف صالحین پر اکتفا کرناچاہیے۔باقی جن اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ فلاں کی قبر سے تبرک و توسل حاصل کیا جاتا ہے،تو یہ عام گمراہ یا جاہل عوام کی عادت کا ذکر ہے،جس پر کوئی دلیل نہیں،اگر بعض متاخرین اہل علم کا ایسا نظریہ ہو بھی، تو یہ حجت نہیں،کیونکہ یہ خیر القرون کے سلف صالحین کے مخالف ہے۔
دلیل نمبر $ :
امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیںـ:
وَقَفَ حَاتِمُ الْـأَصَمُّ عَلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : یَا رَبِّ، إِنَّا زُرْنَا قَبْرَ نَبِیِّکَ، فَلَا تَرُدَّنَا خَائِبِیْنَ، فَنُوْدِيَ : یَا ہٰذَا، مَا أَذِنَّا لَکَ فِي زِیَارَۃِ قَبْرِ حَبِیْبِنَا؛ إِلَّا وَقَدْ قَبِلْنَاکَ، فَارْجِعْ أَنْتَ وَمَنْ مَّعَکَ مِنَ الزُّوَارِ مَغْفُوْرًا لَّکُمْ ۔
’’حاتم اصم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر کھڑے ہو کر کہا:اے رب!ہم تیرے نبی کی قبر کی زیارت کے لیے آئے ہیں،ہمیں نا مراد نہ لوٹانا۔آواز آئی: اے فلاں!ہم نے تمہیں اپنے حبیب کی قبر کی زیارت کی اجازت دی ہے، تو ہم نے اسے قبول بھی کر لیا ہے،تم اور تمہارے ساتھی پلٹ جائو، تمہاری بخشش کر دی گئی ہے۔ ‘‘(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمّدیۃ لأحمد القسطلاني : 597/3)
تبصرہ :
دنیا میں اس کی سند موجود نہیں۔بے سند باتوں کا اعتبار وہی کرتے ہیں،جن کی اپنی کوئی سند نہ ہو۔
دلیل نمبر % :
امام حاکم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سَمِعْتُ أَبَا عَلِيٍّ النَّیْسَابُوْرِيَّ یَقُوْلُ : کُنْتُ فِي غَمٍّ شَدِیْدٍ، فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، کَأَنَّہٗ یَقُوْلُ لِي : صِرْ إِلٰی قَبْرِ یَحْیَی بْنِ یَحْیٰی، وَاسْتَغْفِرْ، وَسَلْ؛ تُقْضَ حَاجَتُکَ، فَأَصْبَحْتُ، فَفَعَلْتُ ذٰلِکَ، فَقُضِیَتْ حَاجَتِیْ ۔
’’میںنے سنا ابو علی نیسابوری کہہ رہے تھے:میں سخت پریشانی سے دوچار تھا۔میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔یوں محسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے فرما رہے تھے:یحییٰ بن یحییٰ کی قبر کی طرف جائو،وہاں استغفار کرو اور دُعا کرو، تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔میں نے اگلے دن یہ کام کیا،تو میری پریشانی حل ہو گئی۔‘‘
(تاریخ الإسلام للذہبي : 729/5، ت : بشار، تہذیب التہذیب لابن حجر : 299/11)
تبصرہ :
یہ خواب کا واقعہ ہے،سوائے انبیا کے کسی کا خواب قابل اعتبار نہیں ہو سکتا۔
دلیل نمبر ^ :
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کُنَّا نَتَبَرَّکُ بِأَبِي الْفَتْحِ الْقوَّاسِ، وَہُوَ صَبِيٌّ ۔
’’ہم ابو فتح قواس سے برکت حاصل کیا کرتے تھے،حالانکہ ابھی وہ بچے تھے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 325/14، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ :
اس سے مراد ان سے دعا کی برکت حاصل کرنا ہے اور زندہ نیک شخص سے دعا کروائی جا سکتی ہے،اس سے کسی کوئی اختلاف نہیں۔
دلیل نمبر ^ :
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ رَأَیْتُ جَمَاعَۃً مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَأَہْلِ الْفَضْلِ، إِذَا ہَمَّ أَحَدَہُمْ أَمْرٌ؛ قَصَدَ إِلٰی قَبْرِہٖ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ، وَدَعَا بِحَضْرَتِہٖ، وَکَانَ یَعْرِفُ الْإِجَابَۃَ، وَأَخْبَرَنَا مَشَایِخُنَا قَدِیمًا أَنَّہُمْ رَأَوْا مَنْ کَانَ قَبْلَہُمْ یَفْعَلُہٗ ۔
’’میں نے اہل علم و فضل کی ایک جماعت کو دیکھا کہ جب انہیں کسی پریشانی کا سامنا ہوتا، تو وہ ان(سیدنا طلحہ بن عبیداللہ)کی قبر پر جاکر سلام کرتے،اس جگہ دُعا مانگتے۔ وہ قبولیت ِدعا کو محسوس کرتے تھے۔ہمارے مشایخ نے یہ خبر دی کہ انہوں نے بھی اپنے سے پہلے لوگوں کو ایسے کرتے دیکھاہے۔‘‘(الآحاد والمثاني : 163/1)
تبصرہ :
یہ نا معلوم لوگوں کا عمل ہے،جسے دین نہیں بنایا جا سکتا۔جب صحابہ کرام اور تابعین عظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر ایسا نہیں کرتے تھے،تو کسی اور کی قبر پر کیسے روا ہو گیا؟
الحاصل :
اولیا و صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا ممنوع اور بدعت ہے،خیرالقرون میں قبروں سے تبرک حاصل کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یہ بعد والوں کی ایجاد ہے اور بعد والوں کی ایجاد دین نہیں بن سکتی۔
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.