471

اللہ عرش پر ہے، شمارہ 39، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اہل سنت والجماعت کا اس عقیدے پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ، ہر جگہ موجود نہیں۔اہل سنت والجماعت کی مخالفت کرتے ہوئے معبد بن عبد اللہ جہنی (م:٨٠ھ)،عبد اللہ بن اباض اباضی (م:٨٦ھ)،غیلان بن مسلم دمشقی(م : ١٠٥ھ)، واصل بن عطاء بصری(م:١٣١ھ)، عمربن عبید بصری(م : ١٤٣ھ)اور حسین بن منصور حلاج (م:٣٠٩ھ) کی ذریت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے ، حالانکہ یہ باطل عقیدہ ہے جو کہ قرآن و سنت اور اجماع و فطرت سے متصادم ہے۔
عرش پر مستوی ہونا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ وہ عرش پر اس طرح بلندہے جیسا اس کی شان و عظمت کو لائق ہے۔استواء تو معلوم ہے مگر اس کی کیفیت مجہول ہے۔صفات ِ باری تعالیٰ کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا اتفاقی و اجماعی اصول یہ ہے :
إثبات ما أثبتہ اللّٰہ لنفسہ في کتابہ ، أو أثبتہ لہ رسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم من غیر تحریف ولا تعطیل ، ومن غیر تکییف ولا تمثیل ۔
”اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں جو صفات اپنی کتاب میں بیان کی ہیں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کر دی ہیں ان کا اثبات کیا جائے گا ، اس سلسلے میں تحریف و تعطیل سے کام نہیں لیا جائے گا نہ ان صفات کی کوئی کیفیت یا تمثیل بیان کی جائے گی۔”
(عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابوني، ص : ٤)
حافظ ذہبیaنے اس بارے میں کیا خوب فرمایا ہے کہ :
إنّنا علی أصل صحیح وعقد متین من أنّ اللّٰہ تقدّس إسمہ لا مثل لہ ، وأنّ إیماننا بما ثبت من نعوتہ کإیماننا بذاتہ المقدّسۃ ، إذ الصفات تابعۃ للموصوف ، فنعقل وجود الباری ونمیّز ذاتہ المقدّسۃ عن الأشباہ من غیر أن نتعقّل الماہیۃ ، فکذلک القول فی صفاتہ نؤمن بہا ونعقل وجودہا ونعلمہا في الجملۃ من غیر أن نتعقّلہا أو نشبّہہا أو نکیّفہا أو نمثّلہا بصفات خلقہ ، تعالی اللّٰہ عن ذلک علوّا کبیرا ۔ ”ہم اس صحیح دین اور مضبوط عقیدے پر قائم ہیں کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مثال نہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی جو صفات (قرآن و حدیث سے) ثابت ہیں ، ان پر ایمان لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کی ذات ِ مقدسہ پر ایمان لانا۔ کیونکہ صفات موصوف کی تابع ہوتی ہیں۔ چنانچہ جس طرح ہم بغیر کیفیت کو ذہن میں لائے باری تعالیٰ کے وجود اور ذات پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں ، بعینہٖ یہی معاملہ اس کی صفات کے بارے میں ہے۔ ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے وجود کو بغیر کسی مخلوق سے تشبیہ دیے اور بغیر کیفیت بیان کیے اور بغیر مثال دیے کے تسلیم کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تشبیہ و تمثیل سے بہت بلند ہے۔”(العلوّ للعليّ الغفّار للذہبي، ص : ١٣)
امام ابن خزیمہa(٢٢٣۔٣١١ھ)فرماتے ہیں :
قد ذکرنا استواء ربّنا علی العرش في الباب قبل ، فاسمعوا الآن ما أتلو علیکم من کتاب ربّنا الذی ہو مسطور بین الدفّتین ، مقروء في المحاریب والکتاتیب ، ممّا ہو مصرّح في التنزیل أنّ الربّ جلّ وعلا في السماء ، لا کما قالت الجہمیّۃ المعطّلۃ : إنّہ في أسفل الأرضین ، فہو في السماء ، علیہم لعائن اللّٰہ التابعۃ ، قال اللّٰہ تعالی : (أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَاء ِ أَنْ یَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ) ، وقال اللّٰہ تعالی : (أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَاء ِ أَنْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا)، أفلیس قد أعلمنا یا ذوی الحجا خالق السموات والأرض وما بینہما في ہاتین الآیتین أنّہ في السماء ، وقال عزّ وجلّ : (إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ،) ، أفلیس العلم محیطا یا ذوی الحجا والألباب أنّ الربّ جلّ وعلا فوق من یتکلّم بالکلمۃ الطیّبۃ ، فتصعد إلی اللّٰہ کلمتہ ، لا کما زعمت المعطّلۃ الجہمیّۃ أنّہ تہبط إلی اللّٰہ الکلمۃ الطیّبۃ کما تصعد إلیہ ، ألم تسمعوا یا طلّاب العلم قولہ تبارک وتعالی لعیسی ابن مریم : (یَا عِیسٰی إِنِّي مُتَوَفِّیکَ وَرَافِعُکَ إِلَيَّ) ، إنّما یرفع الشيء من أسفل إلی أعلا ، لا من أعلا إلی أسفل ، وقال اللّٰہ عزّ وجلّ : (بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ) ، ومحال أن یہبط الإنسان من ظہر الأرض إلی بطنہا ، أو إلی موضع أخفض منہ وأسفل ، فیقال : رفعہ اللّٰہ إلیہ لأنّ الرفعۃ في لغۃ العرب الذین بلغتہم خطوبنا لا تکون إلّا من أسفل إلی أعلی وفوق ، ألم تسمعوا قول خالقنا جلّ وعلا یصف نفسہ : (وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ) ، أو لیس العلم محیطا أنّ اللّٰہ فوق جمیع عبادہ من الجنّ والإنس والملائکۃ الذین ہم سکّان السموات جمیعا ، أو لم تسمعوا قول الخالق الباریئ : (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلَائِکَۃُ وَہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ٭یَخَافُونَ رَبَّہُمْ مِنْ فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ) ، فأعلمنا الجلیل جلّ وعلا في ہذہ الآیۃ أیضا أنّ ربّنا فوق ملائکتہ وفوق ما في السموات وما في الأرض من دآبّۃ وأعلمنا أنّ ملائکتہ یخافون ربّہم الذی فوقہم ، والمعطّلۃ تزعم أنّ معبودہم تحت الملائکۃ ، ألم تسمعوا قول خالقنا: (یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء ِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْہِ) ، ألیس معلوما في اللغۃ السائرۃ بین العرب التی خوطبنا بہا وبلسانہم نزل الکتاب أنّ تدبیر الأمر من السماء إلی الأرض إنّما یدبّرہ المدبّر ، وہو في السماء لا في الأرض ، کذلک مفہوم عندہم أنّ المعارج المصاعد ، قال اللّٰہ تعالی : (تَعْرُجُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ إِلَیْہِ) ، وإنّما یعرج الشيء من أسفل إلی أعلی وفوق ، لا من أعلی إلی دون وأسفل ، فتفہموا لغۃ العرب لا تغالطوا ، وقال جلّ وعلا : (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی) ، فالأعلی مفہوم في اللغۃ أنّہ أعلی کلّ شيء ، وفوق کلّ شيء ، واللّٰہ قد وصف نفسہ في غیر موضع من تنزیلہ ووحیہ وأعلمنا أنّہ العلي العظیم ، أفلیس العلي یا ذوی الحجا ما یکون علیّا ، لا کما تزعم المعطّلۃ الجہمیّۃ أنّہ أعلی وأسفل ووسط ومع کلّ شيء وفي کلّ موضع من أرض وسماء وفي أجواف جمیع الحیوان ، ولو تدبّروا آیۃ من کتاب اللّٰہ ووفّقہم اللّٰہ لفہمہا لعقلوا أنّہم جہال لا یفہمون ما یقولون ، وبان لہم جہل أنفسہم وخطأ مقالتہم ، وقال اللّٰہ تعالی لمّا سألہ کلیمہ موسی علیہ السلام أنّ یریہ ینظر إلیہ ، قال : (لَنْ تَرَانِی وَلَکِنِ انْظُرْ إِلَی الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ، لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا) ، أفلیس العلم محیطا یا ذوی الألباب أنّ اللّٰہ عزّ وجلّ لو کان في کلّ موضع ومع کلّ بشر وخلق کما زعمت المعطّلۃ لکان متجلّیا لکلّ شيء ، وکذلک جمیع ما في الأرض لو کان متجلّیا لجمیع أرضہ سہلہا ووعرہا وجبالہا وبراریہا ومفاوزہا ومدنہا وقراہا وعمرانہا وخرابہا وجمیع ما فیہا من نبات وبناء لجعلہا دکّا کما جعل اللّٰہ الجبل الذی تجلّٰی لہ دکّا ، قال اللّٰہ تعالی : (فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ، لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا) ۔
”ہم اس سے پہلے باب میں اپنے رب کے عرش پر مستوی ہونے کا بیان کر چکے ہیں۔اب وہ آیات سنیں جو میں آپ کو ہمارے رب کی اس کتاب سے پڑھ کر سنا رہا ہوں جوکتابی صورت میں لکھی ہوئی ہے اور منبر و محراب پر پڑھی جاتی ہے ۔ اس میں بڑی وضاحت سے یہ بات درج ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں سے اوپر ہے۔جہمیہ معطلہ کا یہ کہنا غلط ہے کہ وہ سب زمینوں کے نیچے بھی ہے اور آسمانوں کے اوپر بھی۔جہمیوں پر اللہ تعالیٰ کی مسلسل لعنتیں برسیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : (أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاء ِ أَنْ یَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ)(الملک : ١٦)(کیا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمانوں کے اوپر ہے کہ کہیں وہ تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے؟) ، نیز فرمایا : (أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاء ِ أَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا)(الملک : ١٧)(یا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمانوں کے اوپر ہے کہ کہیں وہ تم پر پتھروں کی بارش نہ کر دے؟)اصحاب ِ شعور! کیا آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، ان سب کے خالق نے ان دو آیات میں ہمیں یہ بات نہیں بتا دی کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ خود اسی کا فرمان ہے : (إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ،)(فاطر : ١٠) (اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل پاکیزہ کلمات کو بلند کرتا ہے)۔ ارباب ِ دانش !کیا اس آیت سے یہ بات معلوم نہیں ہو جاتی کہ اللہ عزوجل پاکیزہ کلمات ادا کرنے والے شخص سے اوپر ہے ؟ اگر اللہ تعالیٰ اوپر ہے تو پھر ہی اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھیں گے۔جہمیہ معطلہ کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ، اسی طرح اس کی طرف نازل بھی ہوتے ہیں(یعنی اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، نعوذ باللہ!)۔طالب ِ علم حضرات ! کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا جو اس نے عیسیٰuسے فرمایا تھا کہ : (یَا عِیسٰی إِنِّي مُتَوَفِّیکَ وَرَافِعُکَ إِلَيَّ)(آل عمران : ٥٥)(اے عیسیٰ! میں تجھے پورا پورا لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں)۔ کیا یہ بات حقیقت نہیں کہ کسی چیز کا چڑھنا صرف نیچے سے اوپر کی طرف ہی ہو سکتاہے، اوپر سے نیچے کی طرف چڑھا نہیں جا سکتا؟اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ)(النساء : ١٥٨)(بلکہ اللہ نے عیسیٰuکو اپنی طرف اٹھا لیا)۔ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص زمین کے اوپر سے نیچے کی طرف جائے یا اونچی جگہ سے نیچی کی طرف جائے تو کہہ دیا جائے کہ اسے اللہ نے اوپر اٹھا لیا ہے کیونکہ عربی زبان جس کے ذریعے (قرآن کریم میں)ہمیں مخاطب کیا گیا ہے ، اس میں اٹھنا ہمیشہ نیچے سے اوپر کی طرف ہوتا ہے۔کیا آپ نے ہمارے خالق عزوجل کا یہ فرمان نہیں سنا کہ اس نے اپنے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: (وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ)(الأنعام : ١٨)(اور وہ اپنے بندوں کے اوپر ہے اور ان پر غالب ہے)۔ کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان میں رہنے والے اپنے تمام بندوں ، یعنی جنوں ، انسانوں ، فرشتوں سے اوپر اور بلند ہے۔کیا آپ نے باری تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ : (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلَائِکَۃُ وَہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ٭یَخَافُونَ رَبَّہُمْ مِنْ فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ)(النحل : ٥٠)(اور آسمان و زمین میں جو چوپائے اور فرشتے ہیں ، وہ سب اللہ ہی کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔وہ اپنے اوپر سے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے)۔ اللہ رب العزت نے ہمیں اس آیت ِ کریمہ میں بتایا ہے کہ وہ اپنے فرشتوں اور آسمان وزمین کے تمام جانداروں سے اوپر اور بلند ہے۔اس نے ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کے فرشتے اپنے اس رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے۔ اس کے برعکس معطلہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا معبود فرشتوں سے نیچے ہے۔کیا آپ نے ہمارے خالق کا یہ فرمان نہیں سنا کہ :(یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء ِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْہِ) (السجدۃ : ٥) (وہ آسمانوں سے زمین کی طرف معاملات کی تدبیر کرتا ہے ، پھر وہ معاملہ اس کی طرف چڑھتا ہے)۔ کیا وہ لغت ِ عرب جو معروف ہے اور جس میں قرآنِ کریم نازل ہوا ہے ، اس سے یہ بات عیاں نہیں ہو جاتی کہ معاملات کی تدبیر اللہ تعالیٰ آسمانوں سے زمین کی طرف کرتا ہے اور وہ آسمانوں کے اوپر ہے ، زمین میں نہیں؟عربوں کے ہاں عرج کا مادہ اوپر جانے اور چڑھنے کے معنیٰ میںہی ہوتا ہے۔کوئی چیز ہمیشہ نیچے سے اوپر کی طرف ہی چڑھتی ہے، اوپر سے نیچے کی طرف نہیں۔لغت ِ عرب کی معرفت حاصل کر لیں تاکہ مغالطے میں نہ پڑیں۔اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے : (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی)(الأعلٰی : ١)(آپ اپنے اعلیٰ رب کے نام کی تسبیح بیان کریں)۔ لغت ِ عرب میں کسی چیز کے اعلیٰ ہونے کا معنیٰ و مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ سب سے بلند اور اوپر ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر اپنے آپ کو العليّ اور العظیم ہونے سے متصف کیا ہے۔اربابِ ہوش! کیا العليّ وہی نہیں ہوتا جو بلندہو؟ اس سب کے باجود جہمیہ معطلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اوپر بھی ہے اور نیچے بھی، درمیان میں بھی ہے اور ہر چیز کے ساتھ بھی، بلکہ زمین و آسمان میں ہر جگہ ہے ، تمام جانداروں کے پیٹ میں بھی ہے (نعوذ باللہ!)۔ حالانکہ اگر وہ قرآنِ کریم کی ایک بھی آیت پر غور کر لیتے اور اللہ تعالیٰ اس کو سمجھنے کی توفیق بھی ان کو مرحمت فرماتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ وہ پرلے درجے کے جاہل ہیں اور اپنی زبان سے نکلنے والی باتوں کو بھی نہیں سمجھ پاتے ، ان کے سامنے اپنی جہالت اور اپنے اقوال کی غلطی عیاں ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ سے جب موسیٰ کلیم اللہuنے مطالبہ کیا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لَنْ تَرَانِی وَلَکِنِ انْظُرْ إِلَی الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ، لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا)(الأعراف : ١٤٣)(آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے، ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو آپ مجھے دیکھ سکیں گے۔ جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا)۔ اصحابِ عقل و شعور! کیا یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ اگر معطلہ کے کہنے کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہوتا اور ہر بشر اور ہر مخلوق کے ساتھ ہوتا تو اس کی تجلی ہر چیز پر اور زمین کی تمام مخلوقات پر پڑتی۔ اگر اللہ تعالیٰ ساری زمین یعنی میدانوں ، جنگلات ، پہاڑوں ، براعظموں ، ریگستانوں ، شہروں ، بستیوں ، آبادیوں ، ویرانوں ، تمام نباتات اور تمام عمارتوں پر تجلی کرتا تو سب کا سب اسی طرح ریزہ ریزہ ہو جاتا جس طرح وہ پہاڑ (کوہِ طور) ریزہ ریزہ ہوا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی ڈالی تھی۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ، لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا)(الأعراف : ١٤٣) (جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا)۔”(کتاب التوحید لابن خزیمۃ : ٢٥٤۔٢٥٨)
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمٌ) (الحدید : ٣)
”وہ اول بھی ہے اور آخر بھی ، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘اَللّٰہُمَّ أَنْتَ الْـأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَيْء ٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَيْء ٌ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَيْء ٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَيْء ٌ’
”اے اللہ تو اوّل ہے ، تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور تُو آخر ہے ، تیرے بعد کوئی چیز نہ ہو گی، تُو ظاہر (بلند)ہے ، تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تُو باطن ہے تجھ سے پوشیدہ کوئی چیز نہیں۔”(صحیح مسلم : ٢٧١٣)
امام ابو بکر آجریa(م : ٣٦٠ھ) فرماتے ہیں :
وممّا یحتجّ بہ الحلولیّۃ ممّا یلبّسون بہ علی من لا علم معہ ، یقول اللّٰہ عزّ وجلّ : (ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ)(الحدید : ٣) ، وقد فسّر أہل العلم ہذہ الآیۃ : ہو الأوّل قبل کلّ شیء من حیاۃ وموت ، والآخر بعد کلّ شیء بعد الخلق ، وہو الظاہر فوق کلّ شیء ، یعنی ما فی السماوات ، وہو الباطن دون کلّ شیء یعلم ما تحت الأرضین ، ودلّ علی ہذا آخر الآیۃ (وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمٌ)(الحدید : ٣) ۔ ”حلولی عقیدے کے حامل لوگ ایک دلیل جس سے وہ جاہل لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ، یہ آیت کریمہ ہے : (ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ)(الحدید : ٣) (وہ اوّل ہے ، آخر ہے ، ظاہر ہے اور باطن ہے)۔ حالانکہ اہل علم نے اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوّل ہونے سے مراد اس کا ہر چیز، یعنی زندگی اور موت سے پہلے ہونا ہے اور اس کے آخر ہونے سے مراد تمام مخلوقات کے ختم ہونے کے بعد باقی رہنا ہے۔اس کے ظاہر ہونے سے مراد آسمانوں کے ہر مخلوق سے اوپر اور بلندہونا ہے اور اس کے باطن ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ زمینوں کے نیچے موجود چیزوں کو بھی خوب جانتا ہے۔اس کی دلیل اسی آیت کا آخری ٹکڑا ہے ، فرمانِ الٰہی ہے : (وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمٌ)(الحدید : ٣)(اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے)۔”
(الشریعۃ للآجری : ٣٠٩، ٣١٠)
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.