468

اللہ کہاں ہے؟ شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ، شمارہ 18

اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ رب العالمین اپنے عرش پر ہے ، ہرجگہ موجود نہیں ۔ اس پر قرآن وحدیث اوراجماعِ امت سے قوی اور واضح دلائل موجود ہیں ۔
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      فإنّ الّذین نقلوا إجماع السّلف أو إجماع أھل السّنّۃ أو إجماع الصّحابۃ والتّابعین علی أنّ اللّٰہ فوق العرش بائن من خلقہ لا یحصیھم إلّا اللّٰہ ، وما زال علماء السّلف یثبتون المباینۃ ویردّون قول الجھمیّۃ بنفیھا ۔۔۔    ”ان لوگوں کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے (وہ بے شمار ہیں) ، جنہوں نے سلف یا اہل سنت یا صحابہ وتابعین کا اس بات پراجماع نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے ، اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔ ہمیشہ سے علمائے سلف (خالق اورمخلوق کے درمیان) جدائی کا اثبات کرتے رہے ہیں اور اس کی نفی پرمبنی جہمیوں کے قول کا ردّ کرتے رہے ہیں۔”
(نقض تاسیس الجھمیّۃ لابن تیمیۃ : ٢/٥٣١)
جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے سیدہ عائشہ r سے کہا :
وأنزل اللّٰہ برائتکِ من فوق سبع سماوات ۔     ”اللہ تعالیٰ نے آپ کی برائت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے ۔”( مسند الامام احمد : ١/٢٧٦، ٣٤٩، الرّد علی الجھمیۃ للدارمی : ص ٥٧، المستدرک للحاکم : ٤/٨، وسندہ، حسنٌ)
اس روایت کو امام حاکم  رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں :     ونزل عذرک من السّماء ۔
”آپ کی برائت آسمانوں (کے اوپر )سے اُتری ہے ۔”(صحیح بخاری : ٤٧٥٣)
اب ہم تابعینِ عظام کے اقوال ذکر کیے دیتے ہیں ۔
1    امام مالک بن دینا رالبصری  رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)کہا کرتے تھے :
اسمعوا إلی قول الصّادق من فوق عرشہ ۔ ”تم عرش کے اوپر سے اس سچے(اللہ )کی بات کو سنو ۔”(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ٢/٣٥٨، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (کتاب العلو للذھبی : ص ٩٧)اور حافظ ابن القیم  رحمہ اللہ (اجتماع الجیوش الاسلامیۃ : ص ٢٦٨)نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے ۔
اس کا راوی سیار بن حاتم العنزی جمہور کے نزدیک ”صدوق ، حسن الحدیث” ہے ۔
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے اسے الثقات (٨/٢٩٨)میں ذکر کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے ، وہ ثقہ سے روایت لیتے ہیں ۔
امام ابنِ خزیمہ  رحمہ اللہ (٢٥٣٢)، امام ترمذی رحمہ اللہ  (٣٤٤٤)، اورامام حاکم رحمہ اللہ نے(١/١٢٢) اس کی منفرد روایت کو ”صحیح” کہا ہے ۔ یہ ضمنی توثیق ہے ۔
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ نے اُسے ثقہ کہا ہے ۔(مجمع الزوائد : ١٠/١٥٠)
2    امام الضحاک بن مزاحم الہلالی تابعی  رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالیٰ : ( مَا یَکُوْنُ مَنْ نَّجْوٰی ثَلَاثَۃٍ إِلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ ) (کوئی بھی تین آدمی سرگوشی نہیں کرتے ،مگر وہ اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے)    (المجادلۃ : ٧)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
ھو اللّٰہ عزّ وجلّ علی العرش ، وعلمہ معھم ۔     ” وہ اللہ عزوجل عرش کے اوپر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے ۔”(الشریعۃ للآجری : ٦٥٥، تفسیر ابن جریر : ٢٨/١٢۔١٣، مسائل ابی داو،د : ٢٦٣، الاسماء والصفات للبیہقی : ٢/٣٤١۔٣٤٢، ح : ٩٠٩، وسندہ، حسنٌ)
3    سلیمان بن طرخان التیمی  رحمہ اللہ (م ١٤٣ھ) :
قال ابن أبی خیثمۃ فی تاریخہ : حدّثنا ھارون بن معروف ، قال : حدّثنا ابن ضمرۃ عن صدقۃ عن سلیمان التّیمیّ ، قال : لو سألت : أین اللّٰہ ؟ لقلت : فی السّماء ۔        ”صدقہ بیان کرتے ہیں کہ امام سلیمان تیمی  رحمہ اللہ نے فرمایا ، اگر آپ سوال کریں کہ اللہ کہاں ہے ؟ تو میں جواب دوں گا کہ آسمانوں کے اوپر۔”
(اجتماع الجیوش الاسلامیۃ لابن القیم : ٦٧، وسندہ، حسنٌ)
4    شریح بن عبید الحمصی کہا کرتے تھے :      ارتفع إلیک ثغاء التّسبیح ، وارتفع إلیک وقار التّقدیس ، سبحانک ذا الجبروت ، بیدک الملک والملکوت والمفاتیح والمقادیر ۔۔۔     ”تسبیح کی آواز تیری طرف بلند ہوتی ہے اور تقدیس کا وقار بھی تیری طرف بلند ہوتا ہے ، اے طاقت والے !ہم تیرے پاکی بیان کرتے ہیں ، تیرے ہی ہاتھ میں ملک اوربادشاہت ہے ۔۔۔”(العظمۃ لابی الشیخ : ١٠٧، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (العلو : ص ٩٣)اورحافظ ابن القیم  رحمہ اللہ (اجتماع الجیوش الاسلامیۃ : ص ٢٦٩)نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے ۔
4    ربیعہ بن عبدالرحمن تابعی  رحمہ اللہ (م ١٣٦ھ):
امام سفیان بن عیینہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ربیعہ بن عبدالرحمن کے پاس تھا ۔ آپ  رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی )(طٰہٰ : ٥)، رحمن عرش پر کیسے مستوی ہے ؟تو آپ نے فرمایا :         الإستواء غیر مجہول ، والکیف غیر المعقول ، ومن اللّٰہ الرّسالۃ ، وعلی الرّسول البلاغ ، وعلینا التّصدیق ۔
”استواء معلوم ہے ، اس کی کیفیت عقل میں آنے والی نہیں ۔ یہ پیغام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچانا لازم تھا اور ہم پر تصدیق کرنا ضروری ہے ۔”
(العلو للذھبی : ص ٩٨، وسندہ، صحیحٌ)
5    امام ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی  رحمہ اللہ (م ١٣١ھ) نے معتزلہ کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا :
إنّما مدار القوم علی أن یقولوا : لیس فی السّماء شیء ۔
”ان لوگوں کا نقطہئ نگاہ یہ ہے کہ وہ کہہ دیں کہ آسمانوں کے اوپر کوئی چیز نہیں ۔”
(العلو للذھبی : ص ٩٨، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     ھذا إسناد کالشّمس وضوحا ، والاسطوانۃ ثبوتا عن سیّد أھل البصرۃ وعالمھم ۔     ”یہ سند وضاحت میں سورج کی طرح اور پختگی میں ستون کی طرح ہے ، جو کہ اہل بصرہ کے سردار اور ان کے عالم (امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ ) سے مروی ہے۔”(العلو للذھبی : ص ٩٨)

اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ رب العالمین اپنے عرش پر ہے ، ہرجگہ موجود نہیں ۔ اس پر قرآن وحدیث اوراجماعِ امت سے قوی اور واضح دلائل موجود ہیں ۔
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      فإنّ الّذین نقلوا إجماع السّلف أو إجماع أھل السّنّۃ أو إجماع الصّحابۃ والتّابعین علی أنّ اللّٰہ فوق العرش بائن من خلقہ لا یحصیھم إلّا اللّٰہ ، وما زال علماء السّلف یثبتون المباینۃ ویردّون قول الجھمیّۃ بنفیھا ۔۔۔    ”ان لوگوں کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے (وہ بے شمار ہیں) ، جنہوں نے سلف یا اہل سنت یا صحابہ وتابعین کا اس بات پراجماع نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے ، اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔ ہمیشہ سے علمائے سلف (خالق اورمخلوق کے درمیان) جدائی کا اثبات کرتے رہے ہیں اور اس کی نفی پرمبنی جہمیوں کے قول کا ردّ کرتے رہے ہیں۔”
(نقض تاسیس الجھمیّۃ لابن تیمیۃ : ٢/٥٣١)
جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے سیدہ عائشہ r سے کہا :
وأنزل اللّٰہ برائتکِ من فوق سبع سماوات ۔     ”اللہ تعالیٰ نے آپ کی برائت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے ۔”( مسند الامام احمد : ١/٢٧٦، ٣٤٩، الرّد علی الجھمیۃ للدارمی : ص ٥٧، المستدرک للحاکم : ٤/٨، وسندہ، حسنٌ)
اس روایت کو امام حاکم  رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں :     ونزل عذرک من السّماء ۔
”آپ کی برائت آسمانوں (کے اوپر )سے اُتری ہے ۔”(صحیح بخاری : ٤٧٥٣)
اب ہم تابعینِ عظام کے اقوال ذکر کیے دیتے ہیں ۔
1    امام مالک بن دینا رالبصری  رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)کہا کرتے تھے :
اسمعوا إلی قول الصّادق من فوق عرشہ ۔ ”تم عرش کے اوپر سے اس سچے(اللہ )کی بات کو سنو ۔”(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ٢/٣٥٨، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (کتاب العلو للذھبی : ص ٩٧)اور حافظ ابن القیم  رحمہ اللہ (اجتماع الجیوش الاسلامیۃ : ص ٢٦٨)نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے ۔
اس کا راوی سیار بن حاتم العنزی جمہور کے نزدیک ”صدوق ، حسن الحدیث” ہے ۔
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے اسے الثقات (٨/٢٩٨)میں ذکر کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے ، وہ ثقہ سے روایت لیتے ہیں ۔
امام ابنِ خزیمہ  رحمہ اللہ (٢٥٣٢)، امام ترمذی رحمہ اللہ  (٣٤٤٤)، اورامام حاکم رحمہ اللہ نے(١/١٢٢) اس کی منفرد روایت کو ”صحیح” کہا ہے ۔ یہ ضمنی توثیق ہے ۔
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ نے اُسے ثقہ کہا ہے ۔(مجمع الزوائد : ١٠/١٥٠)
2    امام الضحاک بن مزاحم الہلالی تابعی  رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالیٰ : ( مَا یَکُوْنُ مَنْ نَّجْوٰی ثَلَاثَۃٍ إِلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ ) (کوئی بھی تین آدمی سرگوشی نہیں کرتے ،مگر وہ اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے)    (المجادلۃ : ٧)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
ھو اللّٰہ عزّ وجلّ علی العرش ، وعلمہ معھم ۔     ” وہ اللہ عزوجل عرش کے اوپر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے ۔”(الشریعۃ للآجری : ٦٥٥، تفسیر ابن جریر : ٢٨/١٢۔١٣، مسائل ابی داو،د : ٢٦٣، الاسماء والصفات للبیہقی : ٢/٣٤١۔٣٤٢، ح : ٩٠٩، وسندہ، حسنٌ)
3    سلیمان بن طرخان التیمی  رحمہ اللہ (م ١٤٣ھ) :
قال ابن أبی خیثمۃ فی تاریخہ : حدّثنا ھارون بن معروف ، قال : حدّثنا ابن ضمرۃ عن صدقۃ عن سلیمان التّیمیّ ، قال : لو سألت : أین اللّٰہ ؟ لقلت : فی السّماء ۔        ”صدقہ بیان کرتے ہیں کہ امام سلیمان تیمی  رحمہ اللہ نے فرمایا ، اگر آپ سوال کریں کہ اللہ کہاں ہے ؟ تو میں جواب دوں گا کہ آسمانوں کے اوپر۔”
(اجتماع الجیوش الاسلامیۃ لابن القیم : ٦٧، وسندہ، حسنٌ)
4    شریح بن عبید الحمصی کہا کرتے تھے :      ارتفع إلیک ثغاء التّسبیح ، وارتفع إلیک وقار التّقدیس ، سبحانک ذا الجبروت ، بیدک الملک والملکوت والمفاتیح والمقادیر ۔۔۔     ”تسبیح کی آواز تیری طرف بلند ہوتی ہے اور تقدیس کا وقار بھی تیری طرف بلند ہوتا ہے ، اے طاقت والے !ہم تیرے پاکی بیان کرتے ہیں ، تیرے ہی ہاتھ میں ملک اوربادشاہت ہے ۔۔۔”(العظمۃ لابی الشیخ : ١٠٧، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (العلو : ص ٩٣)اورحافظ ابن القیم  رحمہ اللہ (اجتماع الجیوش الاسلامیۃ : ص ٢٦٩)نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے ۔
4    ربیعہ بن عبدالرحمن تابعی  رحمہ اللہ (م ١٣٦ھ):
امام سفیان بن عیینہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ربیعہ بن عبدالرحمن کے پاس تھا ۔ آپ  رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی )(طٰہٰ : ٥)، رحمن عرش پر کیسے مستوی ہے ؟تو آپ نے فرمایا :         الإستواء غیر مجہول ، والکیف غیر المعقول ، ومن اللّٰہ الرّسالۃ ، وعلی الرّسول البلاغ ، وعلینا التّصدیق ۔
”استواء معلوم ہے ، اس کی کیفیت عقل میں آنے والی نہیں ۔ یہ پیغام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچانا لازم تھا اور ہم پر تصدیق کرنا ضروری ہے ۔”
(العلو للذھبی : ص ٩٨، وسندہ، صحیحٌ)
5    امام ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی  رحمہ اللہ (م ١٣١ھ) نے معتزلہ کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا :
إنّما مدار القوم علی أن یقولوا : لیس فی السّماء شیء ۔
”ان لوگوں کا نقطہئ نگاہ یہ ہے کہ وہ کہہ دیں کہ آسمانوں کے اوپر کوئی چیز نہیں ۔”
(العلو للذھبی : ص ٩٨، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     ھذا إسناد کالشّمس وضوحا ، والاسطوانۃ ثبوتا عن سیّد أھل البصرۃ وعالمھم ۔     ”یہ سند وضاحت میں سورج کی طرح اور پختگی میں ستون کی طرح ہے ، جو کہ اہل بصرہ کے سردار اور ان کے عالم (امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ ) سے مروی ہے۔”(العلو للذھبی : ص ٩٨)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.