694

اللہ کہاں ہے۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری۔۔شمارہ 16

ائمہ اہل سنت محدثین مؤمنین کا یہ اجماعی اور اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر بلند ہے اور مخلوق سے جدا ہے ۔
1    جیسا کہ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (م ٧٤٨)لکھتے ہیں :
وھو قول أھل السّنّۃ قاطبۃ أنّ کیفیّۃ الاستواء لا نعقلھا ، بل نجھلھا ، وأنّ الاستواء معلوم ، کما أخبر فی کتابہ ، وأنّہ کما یلیق بہ ، لا نتعمّق ، ولا نتحذلق ، ولا نخوض فی لوازم ذلک نفیا ولا اثباتا ، بل نسکت ونقف کما وقف السّلف ، ونعلم أنّہ لو کان لہ تأویل لبادر الی بیانہ الصّحابۃ والتّابعون ، ولما وسعھم اقرارہ وامرارہ والسّکوت عنہ ، ونعلم یقینا مع ذلک أنّ اللّٰہ جلّ جلالہ لا مثل لہ فی صفاتہ ولا فی استوائہ ولا فی نزولہ ، سبحانہ وتعالیٰ عمّا یقول الظّالمون علوّا کبیرا
”تمام اہل سنت کا یہی مذہب ہے کہ صفت ِ استواء (اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے)کی کیفیت کو ہم سمجھ نہیں سکتے ، بلکہ ہم اس سے لاعلم ہیں، صفت ِ استواء تو معلوم ہے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خبر دے دی ہے ، وہ اس کے شایانِ شان ہے ، ہم اس بارے میں گہرائی میں نہیں جاتے ، نہ اپنی طرف سے باتیں بناتے ہیں اور نہ ہی اس کے لوازم میں نفی یا اثبات کے اعتبار سے غوطہ زن ہوتے ہیں ، بلکہ ہم خاموش ہوجاتے ہیں اور اسی طرح رُک جاتے ہیں ، جس طرح سلف صالحین رُک گئے تھے ۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر اس صفت کی کوئی تاویل (صحیح) ہوتی تو صحابہ وتابعین اس کو بیان کرنے میں سبقت لے جاتے ، نیز ان کو اس صفت کے اقرار ، اس کو حقیقت پر جاری رکھنے اور اس پر خاموشی اختیار کرنے کی گنجائش نہ ہوتی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یقینی طور پر یہ بھی جانتے ہیں کہ صفات ِ استواء ، نزول وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مثل نہیں ، ظالم لوگ جو کچھ کہتے ہیں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سے بہت بلند ہے۔”(العلو للذھبی : ص ١٠٤)
نیز لکھتے ہیں :      وقول عموم أمّۃ محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : انّ اللّٰہ فی السّماء ، یطلقون ذلک وفق ما جاء ت النّصوص باطلاقہ ، ولا یخوضون فی تأویلات المتکلّمین مع جزم الکلّ بأنّہ تعالیٰ لیس کمثلہ شیء ۔۔۔
”تمام امت ِ محمدیہ q کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے ، وہ اس بات کومطلق ہی رکھتے ہیں ، جیسا کہ(قرآن وسنت کی) نصوص اس بارے میں مطلق ہی آئی ہیں ۔ وہ متکلمین کی تاویلات میں نہیں پڑتے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سب اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی چیز نہیں ۔”(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١١/٧٠۔٧١)
2    شیخ الاسلام ، المجاہد ، القدوہ ، الامام ، عبداللہ بن المبارک  رحمہ اللہ (م ١٨١ھ)کے بارے میں امام ، حافظ ، ثقہ ، علی بن الحسن بن شقیق  رحمہ اللہ ( م ٢١٥ھ)بیان کرتے ہیں :
سألت عبد اللّٰہ بن المبارک : کیف ینبغی لنا أن نعرف ربّنا عزّوجلّ ؟ قال : علی السّماء السّابعۃ علی عرشہ ، بائن من خلقہ ، ولا نقول کما تقول الجھمیّۃ : انّہ ھاھنا فی الأرض ۔        ”میں نے امام عبداللہ بن المبارک سے سوال کیا ، ہمیں اپنے ربّ عزوجل کو کس طرح پہچاننا چاہیے ؟ آپ  رحمہ اللہ نے فرمایا ، (اللہ تعالیٰ) ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر ہے ،اپنی مخلوق سے جد اہے ، ہم جہمیوں کے طرح یہ نہیں کہتے کہ وہ یہاں زمین میں ہے ۔”(السنۃ لعبد اللہ بن احمد : ١/١١١، ح : ٢٢، ١/١٧٤۔١٧٥، ح : ٢١٦، الرد علی المریسی للدارمی : ص ١٠٣، الرد علی الجھمیۃ للدارمی : ص ٥٠ ، الاسماء والصفات للبیہقی : ٩٠٣، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں :      ھذا صحیح ثابت ۔
”یہ قول صحیح اور ثابت ہے ۔”(العرش للذھبی : ٢/٢٤٠)
حافظ ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      وروی عبد اللّٰہ بن الامام أحمد وغیرہ بأسانید صحیحۃ عن ابن المبارک ۔     ”(اس قول کو) امام احمد کے بیٹے عبداللہ وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ امام عبداللہ بن المبارک سے نقل کیا ہے ۔”(الفتوی الحمویۃ لابن تیمیۃ : ص ٩١)
حافظ ابنِ قیم  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :      وقد صحّ عنہ صحّۃ قریبۃ من التواتر ۔
”یہ قول آپ(امام عبداللہ بن المبارک  رحمہ اللہ  )سے اس قدر صحیح ثابت ہے کہ متواتر کے قریب پہنچ گیا ہے ۔”(اجتماع الجیوش الاسلامیۃ لابن القیم : ٢١٣۔٣١٤)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ یہ قول ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:      قلت : الجھمیّۃ یقولون : انّ الباری تعالیٰ فی کلّ مکان ، والسّلف یقولون : انّ علم الباری فی کلّ مکان ، ویحتجّون بقولہ تعالیٰ : ( وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَمَا کُنْتُمْ ) (الحدید : ٥٧/٤)، یعنی بالعلم ، ویقولون : انّہ علی عرشہ استوی ، کما نطق بہ القرآن والسّنّۃ ۔
ومعلوم عند أھل العلم من الطّوائف أنّ مذہب السّلف امرار آیات الصّفات وأحادیثھا کما جاء ت من غیر تأویل ولا تحریف ولا تشبیہ ولا تکییف ، فانّ الکلام فی الصّفات فرع علی الکلام فی الذّات المقدّسۃ ، وقد علم المسلمون أنّ ذات الباری موجودۃ حقیقۃ ، لا مثل لھا ، وکذلک صفاتہ تعالیٰ موجودۃ ، لا مثل لھا ۔
”جہمی لوگ یہ کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ ہر جگہ میں ہے ، جبکہ سلف صالحین کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ کا علم ہر جگہ میں ہے ، وہ اس فرمانِ باری تعالیٰ سے دلیل لیتے ہیں : ( وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَمَا کُنْتُمْ ) (الحدید : ٥٧/٤)(وہ اللہ تمہارے ساتھ ہے ، جہاں بھی تم ہو ) کہ یہاں علم مراد ہے ، اللہ تعالیٰ تو اپنے عرش پر مستوی ہے ، جیسا کہ قرآن وسنت نے بتادیاہے ۔
اہل علم کو یہ معلوم ہے کہ سلف صالحین کا مذہب یہ ہے کہ صفات ِ باری تعالیٰ پر مشتمل آیات واحادیث کو اسی طرح حقیقت پر رکھا جائے گا ، جس طرح کہ وہ آئی ہیں ، کوئی تاویل ، تحریف ، تشبیہ اور تکییف نہیں کی جائے گی ، کیونکہ صفات ِ باری تعالیٰ کے بارے میں کلام ذات ِ باری تعالیٰ کے بارے میں کلام کی فرع ہے ۔ مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ باری تعالیٰ کی ذات حقیقتاً موجود ہے ، اس کی کوئی مثل نہیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات بھی موجود ہیں اور ان کی بھی کوئی مثل نہیں ۔”
(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ٨/٤٠٢)
3    امام ابو زرعہ الرازی  رحمہ اللہ (م ٢٦٤ھ)اور امام ابوحاتم الرازی  رحمہ اللہ (م ٢٧٧ھ)سے اہل سنت کے مذہب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :
أدرکنا العلماء فی جمیع الأمصار ، حجازا، وعراقا ، ومصرا ، وشاما ، ویمنا ، وکان من مذہبھم أنّ اللّٰہ علی عرشہ بائن من خلقہ ، کما وصف نفسہ بلا کیف ، أحاط بکلّ شیء علما ۔۔۔    ”ہم نے حجاز و عراق ، مصر وشام اور یمن تمام علاقوں کے علمائے کرام کو دیکھا ہے ، (عقیدے میں)ان سب کا مذہب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر (بلند)اور اپنی مخلوق سے جدا ہے، جس طرح کہ اس نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کی زبان کے ذریعے بغیر کیفیت بیان کیے بتایا ہے ، اس نے ہر چیز کا علم کے ذریعے احاطہ کر رکھا ہے ۔”(کتاب اصل السنۃ واعتقاد الدین لابن ابی حاتم)
4    امام عثمان بن سعید الدارمی  رحمہ اللہ (م ٢٨٠ھ) لکھتے ہیں :      وقد اتّفقت الکلمۃ من المسلمین أنّ اللّٰہ فوق عرشہ ، فوق سماواتہ ۔ ”یہ مسلمانوں کا اتفاقی مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر آسمانوں کے اوپر ہے ۔”(الرد علی بشر المریسی للدارمی : ص ٤٠٨)
اس قول کو ذکر کرنے کے بعد حافظ ذہبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قلت : أوضح شیء فی ھذا الباب قولہ تعالیٰ : ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ : ٢٠/٥) ، فلیمرّ کما جاء ، کما ھو معلوم من مذہب السّلف ، وینھی الشّخص عن المراقبۃ والجدال ، وتأویلات المعتزلۃ : ( رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ ) (آل عمران : ٣/٥٣)۔     ”میں کہتا ہوں کہ اس بارے میں سب سے واضح ترین نص یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ : ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ : ٢٠/٥)(رحمن عرش پر مستوی ہے )، یہ آیت جس طرح آئی ہے ، اسی طرح اس کو رکھا جائے ، جیسا کہ سلف صالحین کا مذہب معلوم ہے ، نیز آدمی کو ، جدال اور معتزلہ کی تاویلات سے یہ فرمانِ الٰہی روکتا ہے : ( رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ ) (آل عمران : ٣/٥٣) ۔”
(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١٣/٣٢٥)
5    امام ابو الحسن الاشعری  رحمہ اللہ (م ٣٢٤ھ) کے بارے میں حافظ ابن القیم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وکذلک أبو الحسن الأشعریّ نقل الاجماع علی أنّ اللّٰہ استوی علی عرشہ۔
”اسی طرح امام ابو الحسن الاشعری نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے ۔”(مختصر الصواعق المرسلۃ لابن القیم : ٣١٨)
تفصیل کے لیے امام ابوالحسن الاشعری  رحمہ اللہ  کی کتاب الابانۃ اور مقالات الاسلامیّین کا مطالعہ کریں ۔
6    امام ابو بکر الآجری  رحمہ اللہ (م ٣٦٠ھ) فرماتے ہیں :
فانّی أحذّر اخوانی المؤمنین مذھب الحلولیّۃ ، الّذی لعب بھم الشّیطان ، فخرجوا بسوء مذہبھم عن طریق أھل العلم الی مذاھب قبیحۃ ، لا تکون الّا فی مفتون ھالک ۔ زعموا أنّ اللّٰہ عزّوجلّ حالّ فی کلّ شیء ، حتّی أخرجھم سوء مذھبھم الی أن تکلّموا فی اللّٰہ عزّوجلّ بما تنکرہ العلماء العقلاء ، لا یوافق قولھم کتاب ولا سنّۃ ولا قول الصّحابۃ رضی اللّٰہ عنھم ولا قول أئمّۃ المسلمین ۔۔۔
”میں اپنے مؤمن بھائیوں کو حلولیہ کے مذہب سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں ، جن کے ساتھ شیطان نے کھیل کھیلا اور وہ اپنے برے مذہب کی وجہ سے اہل علم کے مذہب سے نکل کر ایسے قبیح مذاہب کی طرف نکل گئے ، جن کو کوئی پاگل ومجنوں شخص ہی اپنا سکتا ہے ۔ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں حلول کیے ہوئے ہے ، یہاں تک کہ ان کے مذہب کی گندگی نے ان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کرنے پر مجبور کیا ، جن کا عقل مند علمائے کرام انکار کرتے ہیں ۔ نہ تو کتاب وسنت میں ان کے قول کی حمایت موجود ہے ،نہ ہی صحابہ کرام اور ائمہ مسلمین کا کوئی قول ان کے موافق ہے ۔”
(الشریعۃ للآجری : ١/٢٧٣)
7    الامام ، المقری ، المحقق ، المحدث ، الحافظ ، الاثری ، ابو عمر احمد بن محمد الطلمنکی  رحمہ اللہ  (م٤٢٩ھ) اپنی کتاب ”الوصول الی معرفۃ الاصول” میں لکھتے ہیں :      أجمع المسلمون من أھل السّنّۃ علی أنّہ معنی قولہ : ( وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَمَا کُنْتُمْ ) (الحدید : ٥٧/٤) ، ونحو ذلک من القرآن أنّہ علمہ ، وأنّ اللّٰہ تعالیٰ فوق السّماوات بالذّات مستو علی عرشہ کیف شاء ۔ ”اہل سنت مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ : ( وَھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَمَا کُنْتُمْ ) (الحدید : ٥٧/٤)(وہ اللہ تمہارے ساتھ ہے ، جہاں بھی تم ہو) اور اس طرح کی دوسری قرآنی آیات کا معنیٰ ہے کہ وہ اس کا علم ہے ، اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر اپنی ذات کے ساتھ مستوی ہے ، جیسے اس کی شان کے لائق ہے ۔”(العلو للذھبی : ص ١٧٨)
8 الامام ، الحافظ ، شیخ السنۃ ، ابو نصر عبیداللہ بن سعید الوائلی السجزی  رحمہ اللہ (م ٤٤٤ھ) اپنی کتاب الابانۃ میں لکھتے ہیں :      وأئمّتنا کسفیان ، ومالک ، والحمّادین ، وابن عیینۃ ، والفضیل (ابن عیاض) ، وابن المبارک ، وأحمد بن حنبل ، واسحاق متّفقون علی أنّ اللّٰہ سبحانہ فوق العرش وعلمہ بکلّ مکان ، وأنّہ ینزل الی السّماء الدّنیا ، وأنّہ یغضب ویرضی ویتکلّم بما شاء ۔     ”ہمارے ائمہ ، مثلاً سفیان (ثوری)، مالک ، دونوں حماد (حما دبن سلمہ ، حماد بن زید) ، (سفیان) ابن عیینہ ، فضیل (ابن عیاض)، (عبداللہ) ابن المبارک ، احمد بن حنبل اور اسحاق Sاس بات پر متفق ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ عرش پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ میں ہے ، وہ (رات کو ) آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے ، وہ غصے میں آتا ، راضی ہوتا اور جو چاہے کلام کرتا ہے ۔”(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١٧/٦٥٦، مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/١٩٠)
9     الامام ابو عثمان اسماعیل بن عبدالرحمن الصابونی  رحمہ اللہ (٣٧٣۔٤٤٩ھ) فرماتے ہیں :
وعلماء الأمّۃ وأعیان الأئمّۃ من السّلف رحمھم اللّٰہ لم یختلفوا فی أنّ اللّٰہ تعالیٰ علی عرشہ ، وعرشہ فوق سماواتہ ، یثبتون لہ من ذلک ما أثبتہ اللّٰہ تعالیٰ ویؤمنون بہ ویصدّقون الرّبّ جلّ جلالہ فی خبرہ ، ویطلقون ما أطلقہ سبحانہ وتعالیٰ من استوائہ علی العرش ، ویمرّونہ علی ظاہرہ ، ویکلون علمہ الی اللّٰہ ۔
”امت کے علماء اور سلف میں سے بڑے بڑے ائمہ اس بات پر متفق تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے ، اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے ، وہ (سلف صالحین) اللہ تعالیٰ کے لیے وہ صفات ثابت کرتے ہیں ، جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کی ہیں اور وہ اس کے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب تعالیٰ کی خبر میں اس کی تصدیق کرتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے مطلق چھوڑا ہے ، اس کو وہ مطلق چھوڑتے ہیں ، یعنی عرش پر مستوی ہونا ، وہ (سلف) اس کو اس کے ظاہر پر برقرار رکھتے ہیں اور اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں ۔”(عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث : ص ١٥۔١٦)
0     الامام ، حافظ المغرب ابو عمر ابن عبدالبر  رحمہ اللہ  (م ٤٦٣ھ) نزولِ باری تعالیٰ کے متعلق حدیث ِ ابی ہریرہ  رضی اللہ عنہ کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :     وفیہ دلیل علی أنّ اللّٰہ عزّوجلّ فی السّماء علی العرش من فوق سبع سماوات ، کما قالت الجماعۃ ، وھو من حجّتھم علی المعتزلۃ والجھمیّۃ فی قولھم : انّ اللّٰہ عزّوجلّ فی کلّ مکان ، ولیس علی العرش ۔ ”اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوںکے اوپر عرش پر مستوی ہے ، جیساکہ اہل سنت والجماعت نے کہا ہے ، یہ حدیث معتزلہ اور جہمیہ کے اس قول کے خلاف ان کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ ہے ، عرش پر نہیں ۔”(التمھید لابن عبد البر : ٧/١٢٩)
!     عالم ِ ربانی ، شیخ الاسلام ثانی ،علامہ ابن القیم الجوزیہ  رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ)لکھتے ہیں :
أجمع المسلمون من الصّحابۃ والتّابعین أنّ اللّٰہ علی عرشہ فوق سماواتہ ، بائن عن خلقہ ۔ ”صحابہ وتابعین، یعنی مسلمانوں نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر آسمانوں کے اوپر ہے ، اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔”(مختصر الصواعق المرسلۃ : ٤١٨)
@    حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) ائمہ اہل سنت کے اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کے متعلق اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :      فکیف لا یوثّق بما اتّفق علیہ أھل القرون الثّلاثۃ ، وھم خیر القرون بشھادۃ صاحب الشّریعۃ ۔ ”اس بات پر کیسے اعتماد نہ کیا جائے ، جس پر تینوں زمانوں والوں (صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین) نے اتفاق کیا ہے ، یہ زمانے سب زمانوں سے بہتر ہیں کہ اس کی گواہی خود صاحب ِ شریعت (رسول اللہe)نے دی ہے۔”(فتح الباری فی شرح صحیح البخاری لابن حجر : ١٣/٤٠٧۔٤٠٨)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.