2,511

عقیدہ حیات النبی اور مسلک اہل حدیث، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

n اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
{وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلَکِ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخَالِدُوْنَ٭ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوکُمْ مبِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَّاِلَیْنَا تُرْجَعُونَ٭} (الأنبیاء 21 : 34، 35)
’’ہم نے آپ سے پہلے کسی اِنسان کو بقائے دوام نہیں بخشا، تو کیا اگر آپ فوت ہوجائیں، تو یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ہر جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لئے مبتلا کرتے ہیں اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے۔‘‘
b سنی امام و مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت ِکریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہٗ لِنَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : وَمَا خَلَّدْنَا أَحَدًا مِّنْ بَنِي آدَمَ ــــیَا مُحَمَّدُــــ قَبْلَکَ فِي الدُّنْیَا، فَنُخَلِّدَکَ فِیہَا، وَلاَ بُدَّ لَکَ مِنْ أَنْ تَمُوتَ کَمَا مَاتَ مِنْ قَبْلِکَ رُسُلُنَا ۔
’’اللہ رب العزت اپنے نبی سے فرماتے ہیں :اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سے پہلے ہم نے اس دنیا میں کسی آدم کے بیٹے کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی کہ آپ کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ضرور آپ بھی فوت ہوں گے،جس طرح آپ سے پہلے آنے والے ہمارے رسول فوت ہو گئے تھے۔‘‘(تفسیر الطبري : 24/17)
n ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُونَ٭} (الزمر 39 : 30)
’’(اے نبی!)بلاشبہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یقینا یہ (کفار) بھی مر جائیں گے۔‘‘
b مفسر اہل سنت، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہٰذِہِ الْآیَۃُ مِنَ الْآیَاتِ الَّتِي اسْتَشْہَدَ بِہَا الصِّدِّیقُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عِنْدَ مَوْتِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی تَحَقَّقَ النَّاسُ مَوْتَہٗ، مَعَ قَوْلِہٖ : {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَّسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِینَ٭}(آل عمرٰن 3 : 144)، وَمَعْنٰی ہٰذِہِ الْآیَۃِ : سَتُنْقَلُونَ مِنْ ہٰذِہِ الدَّارِ لَا مَحَالَۃَ، وَسَتَجْتَمِعُونَ عِنْدَ اللّٰہِ فِي الدَّارِ الْآخِرَۃِ، وَتَخْتَصِمُونَ فِیمَا أَنْتُمْ فِیہِ فِي الدُّنْیَا مِنَ التَّوْحِیدِ وَالشِّرْکِ بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَیَفْصِلُ بَیْنَکُمْ ۔
’’یہ آیت ِمبارکہ ان قرآنی آیات میں سے ہے جنہیں سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بطور ِدلیل پیش کیا تھا۔اس آیت سے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا یقین کر لیا۔مذکورہ آیت کے ساتھ یہ آیت بھی ان کی دلیل تھی: {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَّسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِینَ٭}(آل عمرٰن 3 : 144) (محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس اگر کیا وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے، تو تم اسلام سے پھر جائو گے؟جو شخص اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جائے، وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ تعالیٰ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے)۔اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ سب لوگ دنیا سے ضرور بالضرور جانے والے ہیں اور آخرت میں اللہ رب العزت کے پاس جمع ہونے والے ہیں۔وہاں اللہ کے سامنے تم توحید و شرک میں اپنا دنیوی اختلاف ذکر کرو گے۔اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 488/6)
مذکورہ آیات ِکریمہ میں دنیوی زندگی کے بعد موت کا ذکر ہے۔
موت کے بعد اخروی زندگی شروع ہوتی ہے،جو دراصل جزا و سزا کا جہان ہے۔جو شخص اس جہان میں چلا جاتا ہے،اس کا دنیا والوں سے کوئی دنیوی تعلق قائم نہیں رہتا، کیونکہ اخروی زندگی ایک الگ زندگی ہے۔قبر کی زندگی اخروی حیات کا آغاز ہے۔
بہت سے لوگ اس اخروی زندگی کے سلسلے میں افراط و تفریط کا شکار ہو کر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے ہیں۔بعض نے تو تفریط میں مبتلا ہو کر سرے سے اس زندگی کا انکار کر دیا ہے،جبکہ بعض نے افراط میں پڑ کر اس زندگی کا اس طرح اقرار کیا کہ اسے دنیوی زندگی کی مثل سمجھ لیا۔لیکن یہ عام زندگی جو سب کو ملتی ہے،ایک مخصوص نعرہ لگا کر انہوں نے اسے بلادلیل خاص کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں اعتدال کی بات وہی ہے، جو ہمیں قرآن و سنت نے بتائی ہے۔شرعی دلائل کے مطابق قبر کی زندگی نیک و بد سب کو ملتی ہے،البتہ درجات کے اعتبار سے اس زندگی کی حالت مختلف ہوتی ہے۔انبیا و شہدا کی زندگی افضل ترین اور کفار کی بدترین ہوتی ہے،لیکن بہرحال یہ زندگی اخروی ہوتی ہے، دنیوی نہیں،جیسا کہ :
n ہانی مولیٰ عثمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کَانَ عُثْمَانُ، إِذَا وَقَفَ عَلٰی قَبْرٍ، بَکٰی حَتّٰی یَبُلَّ لِحْیَتَہٗ، فَقِیلَ لَہٗ : تُذْکَرُ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْکِي، وَتَبْکِي مِنْ ہٰذَا ؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِّنْ مَّنَازِلِ الْآخِرَۃِ، فَإِنْ نَّجَا مِنْہُ؛ فَمَا بَعْدَہٗ أَیْسَرُ مِنْہُ، وَإِنْ لَّمْ یَنْجُ مِنْہُ؛ فَمَا بَعْدَہٗ أَشَدُّ مِنْہُ ۔
’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے،تو وہاں اس قدر روتے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی تر ہو جاتی۔ آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ جنت و جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن آپ نہیں روتے،مگر قبر کا ذکر سنتے ہی روپڑتے ہیں؟ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :بے شک قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔اگر کوئی شخص اس منزل کو کامیابی سے عبور کر گیا، تو اس کے بعد جو بھی منزل آئے گی،اس سے آسان تر ہی ہو گی،لیکن اگر کوئی اسی منزل میں کامیاب نہ ہو سکا،تو اس کے بعد والی منزلیں اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 63/1، سنن الترمذي : 2308، سنن ابن ماجہ : 4267، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن‘‘،جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ (330/4۔331) نے ’’صحیح الاسناد ‘‘اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘قرار دیاہے۔
اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آرہی ہے کہ موت کی صورت میں دنیوی زندگی ختم ہونے کے فوراً بعد آخرت کی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔قبر آخرت کی ایک منزل ہے اور اس کی زندگی اخروی زندگی ہے،نہ کہ دنیوی۔
n ام المومنین،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ موت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
سَقَطَتْ مِنْ یَّدِہٖ، فَجَمَعَ اللّٰہُ بَیْنَ رِیقِي وَرِیقِہٖ فِي آخِرِ یَوْمٍ مِّنَ الدُّنْیَا، وَأَوَّلِ یَوْمٍ مِّنَ الْآخِرَۃِ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے مسواک چھوٹ گئی۔یوں اللہ تعالیٰ نے میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعابِ دہن کو اس دن ایک ساتھ جمع کر دیا،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی کا آخری اور اخروی حیات کا پہلا دن تھا۔ ‘‘
(صحیح البخاري : 4451)
ام المومنین،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بھی اس سلسلے میں بالکل صریح ہے کہ موت کے فوراً بعد اخروی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔
لہٰذا قبر کی زندگی کے جو حالات قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں معلوم ہوئے ہیں، ان کا انکار کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔اس سے بھی بڑی جہالت یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی یا اس سے مشابہ مانا جائے۔اور سب سے چوٹی کی جہالت،جس سے جہالت بھی شرما جاتی ہے،یہ ہے کہ موت کے بعد کسی خاص ہستی یا ہستیوں کی زندگی کا اقرار کر لیا جائے،وہ بھی اسے دنیوی زندگی کی طرح تسلیم کر کے،جبکہ باقی لوگوں کی قبر کی زندگی کا سرے ہی سے انکار کر دیا جائے۔
’’حیات النبی‘‘ کا عقیدہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اگر ایسے عقیدے کے پرچارک لوگوں کے دلائل ملاحظہ کیے جائیں، تو ان کی عقل و شعور پر ہنسی آتی ہے۔جن باتوں سے وہ انبیا کے لیے خصوصی زندگی ثابت کرتے ہیں،وہی باتیں عام مؤمنوں،مسلمانوں کے لیے بھی ثابت ہیں۔
اس کی ایک مثال انبیا کے قبروں میں نماز پڑھنے والی حدیث ہے۔’’حیات النبی‘‘ کا نعرہ لگانے والے اسے بڑے زور و شور سے پیش کرتے ہیں۔انہوں نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ نماز چونکہ دنیا میں پڑھی جاتی ہے،لہٰذا انبیا قبروں میں نماز پڑھتے ہیں،توانہیں قبروں میں دنیوی یا مثلِ دنیوی زندگی حاصل ہے۔
ان لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر قبر میں نماز پڑھنے سے دنیوی یا مثلِ دنیوی زندگی ثابت ہوتی ہے،تو پھر انہیں اپنا نعرہ ’’حیات النبی ‘‘سے بدل کر ’’حیات المومنین‘‘ کر لینا چاہیے،کیونکہ عام مؤمن کا بھی قبر میں نماز پڑھنا ثابت ہے،جیسا کہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قبر میں فرشتے جب مؤمن سے ہم کلام ہوں گے، تو وہ بیٹھ جائے گا۔اسے سورج غروب ہوتا دکھائی دے گا۔اسے کہا جائے گا:اس آدمی کے بارے میں بتاؤ،جو تم میں مبعوث ہوئے تھے۔تم ان کے بارے میں کیا کہتے ہو اور کیا گواہی دیتے ہو؟ اس پر ؛
’فَیَقُولُ : دَعُونِي حَتّٰی أُصَلِّيَ، فَیَقُولُونَ : إِنَّکَ سَتَفْعَلُ، أَخْبِرْنِي عَمَّا نَسْأَلُکُ عَنْہُ‘ ۔
’’مؤمن کہے گا : مجھے چھوڑو کہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں۔فرشتے کہیں گے: تم نماز بھی پڑھ لو گے،لیکن پہلے ہمیں اس سوال کا جواب دو،جوہم آپ سے کر رہے ہیں۔‘‘(صحیح ابن حبّان : 3113، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 379/1۔380، وسندہٗ حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
علامہ ہیثمی نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔(مجمع الزوائد : 51/3۔52)
معلوم ہوا کہ ’’حیات النبی‘‘کے نعرے کی آڑ میں انبیا کے لیے دنیوی یا مثلِ دنیوی زندگی ثابت کرنے والوں کو یا تو عام مؤمنوں کے لیے بھی دنیوی یا مثلِ دنیوی زندگی ثابت کرنا ہو گی یا پھر اپنے عقیدے پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔
اہل علم اور عقیدۂ ’’حیات النبی‘‘ :
اہل علم نے یہ بات بڑی وضاحت سے بیان کر دی ہے کہ برزخی (قبر کی)زندگی ایک مستقل اور الگ زندگی ہے،یہ دنیوی یا مثلِ دنیوی ہر گز نہیں۔آئیے ہم کچھ اہل علم کے اقتباسات پیش کرتے ہیں :
n حافظ ا بنِ عبد الہادی رحمہ اللہ (م : 744ھـ)فرماتے ہیں :
وَلْیُعْلَمْ أَنَّ رَدَّ الرُّوحِ (إِلَی الْبَدَنِ) وَعَوْدُہَا إِلَی الْجَسَدِ بَعْدَ الْمَوْتِ لَا یَقْتَضِي اسْتِمْرَارَہَا فِیہِ، وَلَا یَسْتَلْزِمُ حَیَاۃً أُخْرٰی قَبْلَ یَوْمِ النُّشُورِ نَظِیرَ الْحَیَاۃِ الْمَعْہُودَۃِ، بَلْ إِعَادَۃُ الرُّوحِ إِلَی الْجَسَدِ فِي الْبَرْزَخِ إِعَادَۃٌ بَرْزَخِیَّۃٌ، لاَ تَزِیلُ عَنِ الْمَیِّتِ اسْمَ الْمَوْتِ ۔
وَقَدْ ثَبَتَ فِي حَدِیثِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ الطَّوِیلِ الْمَشْہُورِ، فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ، فِي شَأْنِ الْمَیِّتِ وَحَالِہٖ، أَنَّ رُوحَہٗ تُعَادُ إِلٰی جَسَدِہٖ، مَعَ الْعِلْمِ بِأَنَّہَا غَیْرُ مُسْتَمِرَّۃٍ فِیہِ، وَأَنَّ ہٰذِہِ الْإِعَادَۃَ لَیْسَ مُسْتَلْزِمَۃً لِّإِثْبَاتِ حَیَاۃٍ مُّزِیلَۃٍ لِّاسْمِ الْمَوْتِ، بَلْ ہِيَ أَنْوَاعُ حَیَاۃٍ بَرْزَخِیَّۃٍ، اَلْمَوْتُ کَالْحَیَاۃِ الْبَرْزَخِیَّۃِ، وَإِثْبَاتُ بَعْضِ أَنْوَاعِ الْمَوْتِ لَا یُنَافِي الْحَیَاۃَ، کَمَا فِي الْحَدِیثِ الصَّحِیحِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ کَانَ إِذَا اسْتَیْقَظَ مِنَ النَّوْمِ قَالَ : ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا، وَإِلَیْہِ النُّشُورُ‘ ۔ وَتَعَلُّقُ الرُّوحِ بَالْبَدَنِ وَاتِّصَالُہَا بِہٖ بِنَوْعٍ أَنْوَاعًا ۔
أَحَدُہَا : تَعَلُّقُہَا بِہٖ فِي ہٰذَا الْعَالَمِ یَقَظَۃً وَّمَنَامًا ۔
اَلثَّانِي : تَعَلُّقُہَا بِہٖ فِي الْبَرْزَخِ، وَالْـأَمْوَاتُ مُتَفَاوِتُونَ فِي ذٰلِکَ، فَالَّذِي لِلرُّسُلِ وَالْـأَنْبِیَائِ أَکْمَلُ مِمَّا لِلشُّہَدَائِ، وَلِہٰذَا لَا تَبْلٰی أَجْسَادُہُمْ، وَالَّذِي لِلشُّہَدَائِ أَکْمَلُ مِمَّا لِغَیْرِہِمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ الَّذِینَ لَیْسُوا بِشُہَدَائَ ۔
وَالثَّالِثُ : تَعَلُّقُہَا بِہٖ یَوْمَ الْبَعْثِ الْآخِرِ، وَرَدُّ الرُّوحِ إِلَی الْبَدَنِ فِي الْبَرْزَخِ لَا یَسْتَلْزِمُ الْحَیَاۃَ الْمَعْہُودَۃَ، وَمَنْ زَعَمَ اسْتِلْزَامَہٗ لَہَا لَزِمَہُ ارْتِکَابُ أُمُورٍ بَاطِلَۃٍ مُّخَالِفَۃٍ لِّلْحِسِّ وَالشَّرْعِ وَالْعَقْلِ ۔
’’معلوم ہونا چاہیے کہ موت کے بعد روح کا جسم میں لوٹنا استمرار ِحیات کا متقاضی نہیں ہے،نہ اس سے قبل از قیامت ایسی زندگی لازم آتی ہے،جو دنیوی زندگی کی طرح ہو۔برزخ میں روح کا جسم میں لوٹنا سراسر برزخی معاملہ ہے،جس کی وجہ سے مرنے والے سے موت کا نام زائل نہیں ہو سکتا۔
قبر میں جزا و سزا اور مرنے والے کے حالات کے بارے میں سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے جو مشہور اور طویل حدیث(سنن أبي داوٗد :4753، المستدرک للحاکم : 95/1، وسندہٗ حسنٌ)مذکور ہے،اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مردے کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ وہ روح اس جسم میں ہمیشہ نہیں رہتی، نہ ہی اس کے لوٹنے سے ایسی زندگی ثابت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے میت پر لفظ موت کا اطلاق ہی ختم ہو جائے۔بلکہ یہ حیاتِ برزخیہ کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔موت اور برزخی زندگی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں(یعنی موت کا اقرار کرنے سے برزخی زندگی کا انکار نہیں ہوتا،کیونکہ۔ازناقل)موت کی کچھ اقسام ایسی ہیں،جو زندگی کے منافی نہیں،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نیند سے بیدار ہوتے،تو یہ دعا پڑھتے:
ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لئے ہے ،جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی ہے،اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے۔
(یعنی دنیا میں موت کا اقرار کر کے بھی کسی کو زندہ کہا جا سکتا ہے،تو قبر میں کسی کی زندگی کا اقرار کر کے اسے مُردہ کیوں نہیں کہا جا سکتا،جبکہ یہ ساری چیزیں شرعی دلائل سے ثابت بھی ہیں؟از ناقل)
روح کا بدن کے ساتھ تعلق کئی قسم کا ہوتا ہے :
1 اس دنیا میں حالت ِبیداری اور نیند میں روح کا جسم سے تعلق۔
2 برزخ میں روح کا جسم سے تعلق۔یہ تعلق فوت شدگان کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔انبیاء کرام اور رسولوں کی زندگی شہدا کے مقابلے میں زیادہ کامل ہوتی ہے،اسی لیے ان کے مبارک اجساد بوسیدہ نہیں ہوتے اور شہدا کی زندگی ان مؤمنین سے کامل ہوتی ہے،جو شرف ِشہادت نہیں پاتے۔
3 قیامت کے دن روح کا جسم سے تعلق ہونے اور برزخ میں روح کے جسم میں لوٹائے جانے سے دنیوی طرز کی زندگی لازم نہیں آتی۔جو شخص اس سے دنیوی زندگی کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ بہت سے مقامات پر حس، شریعت اور عقل کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا۔‘‘
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 223)
n محدث العصر،علامہ ناصرالدین ،البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إِنَّ حَیَاتَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِہٖ مُخَالِفَۃٌ لِّحَیَاتِہٖ قَبْلَ الْوَفَاۃِ، ذٰلِکَ أَنَّ الْحَیَاۃَ الْبَرْزَخِیَّۃَ غَیْبٌ مِّنَ الْغُیُوبِ، وَلَا یَدْرِي کُنْہَہَا إِلَّا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی، وَلٰکِنْ مِّنَ الثَّابِتِ وَالْمَعْلُومِ أَنَّہَا تَخْتَلِفُ عَنِ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَوِیَّۃِ، وَلَا تَخْضَعُ لِقَوَانِینِہَا، فَالِانْسَانُ فِي الدُّنْیَا یَأکُلُ وَیَشْرَبُ، وَیَتَنَفَّسُ وَیَتَزَوَّجُ، وَیَتَحَرَّکُ وَیَتَبَرَّزُ، وَیَمْرَضُ وَیَتَکَلَّمُ، وَلَا أَحَدٌ یَّسْتَطِیعُ أَنْ یُّثْبِتَ أَنَّ أَحَدًا بَعْدَ الْمَوْتِ، حَتَّی الْـأَنْبِیَائِ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَفِي مُقَدَّمَتِہِمْ نَبِیُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، تَعْرِضُ لَہٗ ہٰذِہِ الْـأُمُورُ بَعْدَ مَوْتِہٖ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی زندگی، وفات سے قبل کی زندگی سے مختلف ہے،اس لیے کہ برزخی حیات ایک غیبی معاملہ ہے۔اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اس کی کیفیات کا علم نہیں۔البتہ اتنی بات معلوم ہے کہ وہ دنیوی زندگی سے مختلف ہے اور دنیوی قوانین کے تابع نہیں۔دنیا میں تو انسان کھاتا پیتا ، سانس لیتا اور شادی کرتا ہے،نقل و حرکت اور بول و براز کرتا ہے، بیمار ہوتا اور گفتگو کرتا ہے، لیکن کوئی انسان یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ موت کے بعد کسی کو ، یہاں تک کہ انبیائے کرام ، جن میں سرفہرست ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،یہ امور پیش آتے ہوں۔ ‘‘(التوسل؛ أنواعہ وأحکامہ، ص : 65)
نیز فرماتے ہیں :
ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ الْحَیَاۃَ الَّتِي أَثْبَتَہَا ہٰذَا الْحَدِیثُ لِلْـأَنْبِیَائِ عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ؛ إِنَّمَا ہِيَ حَیَاۃٌ بَرْزَخِیَّۃٌ، لَیْسَتْ مِنْ حَیَاۃِ الدُّنْیَا فِي شَيْئٍ، وَلِذٰلِکَ وَجَبَ الْإِیمَانُ بِہَا دُونَ ضَرْبِ الْـأَمْثَالِ لَہَا، وَمُحَاوَلَۃِ تَکْیِیفِہَا، وَتَشْبِیہِہَا بِمَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَنَا فِي حَیَاۃِ الدُّنْیَا، ہٰذَا ہُوَ الْمَوقِفُ الَّذِي یَجِبُ أَنْ یَّتَّخِذَہُ الْمُؤْمِنُ فِي ہٰذَا الصَّدَدِ؛ الْإِیمَانُ بِمَا جَائَ فِي الْحَدِیثِ دُونَ الزِّیَادَۃِ عَلَیْہِ بِالْـأَقْیِسَۃِ وَالْآرَائِ، کَمَا یَفْعَلُ أَہْلُ الْبِدَعِ الَّذِینَ وَصَلَ الْـأَمْرُ بِبَعْضِہِمْ إِلَی ادِّعَائِ أَنَّ حَیَاتَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي قَبْرِہٖ حَیَاۃً حَقِیقِیَّۃً، قَالَ : یَأْکُلُ وَیَشْرَبُ وَیُجَامِعُ نِسَائَہٗ، وَإِنَّمَا ہِيَ حَیَاۃٌ بَرْزَخِیَّۃٌ، لَا یَعْلَمُ حَقِیقَتَہَا إِلَّا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ۔
’’جان لیجئے!اس حدیث سے انبیاء کرام کی جو حیات ثابت ہوتی ہے ،وہ صرف برزخی حیات ہے،دنیوی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔لہٰذا اس زندگی پر یوں ایمان لانا ضروری ہے کہ اس کے بارے میں مثالیں نہ دی جائیں ،اس کی کیفیت بیان نہ کی جائے اور اسے ہماری دنیوی زندگی سے تشبیہ نہ دی جائے۔
یہی موقف ہر مومن کے لئے اختیار کرنا لازم ہے کہ اس بارے میں احادیث میں جتنی بات مذکور ہے،صرف اسی پر ایمان لائے، اس سلسلے میں قیاس اور رائے کو دخل نہ دے،جیسا کہ بدعتیوں نے کیا ہے۔بعض نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ قبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات حقیقی(یعنی دنیوی)ہے،وہ کہتے ہیں:قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے پیتے اور اپنی ازواج سے مجامعت کرتے ہیں(العیاذ باللہ)، حالانکہ یہ صرف برزخی حیات ہے ،جس کی حقیقت کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ وشيء من فقہہا و فوائدہا : 190/2، ح : 621)
شہیدوں کی زندگی :
اب رہا یہ سوال کہ اگر تمام لوگوں کو قبر کی زندگی حاصل ہے اور اس کا دنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں،تو پھر اسلامی تعلیمات میں شہداکی زندگی کو خصوصیت سے بیان کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا صرف شہدا کی زندگی کو اعلیٰ ثابت کرنے کے لیے کیا گیا ہے،نہ کہ اس لیے کہ شہدا کو قبر میں زندگی ملتی ہے،باقی لوگوں کو نہیں،نہ ہی اس لیے کہ شہدا کی زندگی دنیوی یا مثلِ دنیوی ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ امت ِمحمدیہ کے وہ شہدا جنہیں شرف ِصحابیت حاصل نہیں ہے، ان کی قبر کی زندگی ہر گز صحابہ کرام کی برزخی زندگی سے بہتر اورافضل نہیں۔
تنبیہ :
ہم بیان کر چکے ہیں کہ موت کے بعد برزخی زندگی ملنے کے حوالے سے نیک و بد تمام لوگ برابر ہیں،کسی کو اس سے استثنا نہیں،البتہ مختلف لوگوں کے لیے اس زندگی کے حالات مختلف ہوں گے۔نیک لوگوں کی زندگی اچھی اور بد کردار لوگوں کی بُری ہو گی۔نیک لوگوں میں سے انبیا کرام کی برزخی زندگی سب سے بہترین ہو گی۔
یہی وجہ ہے کہ انبیا کرام کے اجساد ِمبارکہ کو زمین نقصان نہیں پہنچاتی۔وہ اپنی اصلی حالت میں سلامت رہیں گے،جیسا کہ :
n سیدنااوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فِیہِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیہِ النَّفْخَۃُ، وَفِیہِ الصَّعْقَۃُ، فَأَکْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَّعْرُوضَۃٌ عَلَيَّ‘
’’بلاشبہ تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔اس دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو ،کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔‘‘
ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ کی وفات کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟کیا آپ کا جسد ِمبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی الْـأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْـأَنْبِیَائِ‘ ۔
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام فرمادیا ہے۔ ‘‘
(مسند الإمام أحمد : 8/4، سنن أبي داوٗد : 1047، 1531، سنن النسائي : 1375، سنن ابن ماجہ : 1085، 1636، فضل الصلاۃ علی النبيّ للقاضي إسماعیل : 22، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(1733)،امام ابن حبان(910)،حافظ ابن قطان فاسی(بیان الوہم والإیہام : 574/5) رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ (278/1)نے اسے ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(ریاض الصالحین : 1399، خلاصۃ الأحکام : 441/1، 814/2)
حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (م : 751ھ)لکھتے ہیں :
وَمَنْ تَأَمَّلَ ہٰذَا الْإِسْنَادَ؛ لَمْ یَشُکَّ فِي صِحَّتِہٖ، لِثِقَۃِ رُوَاتِہٖ، وَشُہْرَتِہِمْ، وَقُبُولِ الْـأَئِمَّۃِ أَحَادِیثَہُمْ ۔
’’جو شخص اس روایت کی سند پر غور کرے گا،وہ اس کی صحت میں شک نہیں کرے گا،کیونکہ اس کے راوی ثقہ، مشہور ہیں اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کی بیان کردہ احادیث مقبول ہیں۔‘‘(جلاء الأفہام : 81)
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّہُمْ لَمَّا فَتَحُوا تُسْتَرَ، قَالَ : فَوَجَدَ رَجُلًا أَنْفُہٗ ذِرَاعٌ فِي التَّابُوتِ، کَانُوا یَسْتَظْہِرُونَ وَیَسْتَمْطِرُونَ بِہٖ، فَکَتَبَ أَبُو مُوسٰی إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذٰلِکَ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ ہٰذَا نَبِيٌّ مِّنَ الْـأَنْبِیَائِ، وَالنَّارُ لَا تَأْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، وَالْـأَرْضُ لَا تَأْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، فَکَتَبَ أَنِ انْظُرْ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ یَعْنِي أَصْحَابَ أَبِي مُوسٰی، فَادْفِنُوہُ فِي مَکَانٍ لَّا یَعْلَمُہٗ أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، قَالَ : فَذَہَبْتُ أَنَا وَأَبُو مُوسٰی، فَدَفَنَّاہُ ۔
’’جب صحابہ کرام نے تُسْترَشہر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا، ان کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش کی دُعا کرتے تھے۔سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔انبیا کے جسموں کو نہ آگ کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا:تم اور تمہارے ساتھی مل کر کوئی ایسی جگہ دیکھو ،جس کا تمہارے علاوہ کسی کو علم نہ ہو۔ وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما گئے اور انہیں (ایک گم نام جگہ میں)دفن کر دیا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 27/13، وسندہٗ صحیحٌ)
n عظیم تابعی،ابو عالیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ لُحُومَ الْـأَنْبِیَائِ لَا تُبْلِیہَا الْـأَرْضُ، وَلَا تَأْکُلُہَا السِّبَاعُ ۔
’’بلاشبہ انبیاء کرام کے اجسام کو نہ زمین بوسیدہ کرتی ہے، نہ درندے اسے کھاتے ہیں۔‘‘(السیرۃ لابن إسحاق : 66،67، طبع دار الفکر بیروت، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 382/1، وسندہٗ حسنٌ)
یہ احادیث و آثار صریح طور پر بتا رہے ہیں کہ انبیا ء کرام کے اجساد ِمقدسہ کو مٹی نہیں کھاتی، لیکن ان سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی کہ انبیاء کرام قبروں میں دنیوی زندگی یا اس کی مثل زندہ ہیں۔
تنبیہ :
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَتَی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِیًّا، فَأَکْرَمَہٗ، فَقَالَ لَہٗ : ائْتِنَا، فَأَتَاہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَلْ حَاجَتَکَ، فَقَالَ : نَاقَۃً نَّرْکَبُہَا، وَأَعْنُزًا یَّحْلُبُہَا أَہْلِي، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’عَجَزْتُمْ أَنْ تَکُونُوا مِثْلَ عَجُوزِ بَنِي إِسْرَائِیلَ؟‘ قَالَ : ’إِنَّ مُوسٰی لَمَّا سَارَ بِبَنِي إِسْرَائِیلَ مِنْ مِّصْرَ؛ ضَلُّوا الطَّرِیقَ، فَقَالَ : مَا ہٰذَا؟ فَقَالَ عُلَمَاوُہُمْ : إِنَّ یُوسُفَ لَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ؛ أَخَذَ عَلَیْنَا مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰہِ أَنْ لَّا نَخْرُجَ مِنْ مِّصْرَ حَتّٰی نَنْقُلَ عِظَامَہٗ مَعَنَا، قَالَ : فَمَنْ یَّعْلَمُ مَوْضِعَ قَبْرِہٖ، قَالَ : عَجُوزٌ مِّنْ بَنِي إِسْرَائِیلَ، فَبَعَثَ إِلَیْہَا، فَأَتَتْہُ، فَقَالَ : دُلِّینِي عَلٰی قَبْرِ یُوسُفَ، قَالَتْ : حَتّٰی تُعْطِیَنِي حُکْمِي، قَالَ : مَا حُکْمُکِ؟ قَالَتْ : أَکُونُ مَعَکَ فِي الْجَنَّۃِ، فَکَرِہَ أَنْ یُّعْطِیَہَا ذٰلِکَ، فَأَوْحَی اللّٰہُ إِلَیْہِ أَنْ أَعْطِہَا حُکْمَہَا، فَانْطَلَقَتْ بِہِمْ إِلٰی بُحَیْرَۃٍ؛ مَوْضِعِ مُسْتَنْقَعِ مَائٍ، فَقَالَتْ : أَنْضِبُوا ہٰذَا الْمَائَ، فَأَنْضَبُوا، قَالَتِ : احْتَفِرُوا وَاسْتَخْرِجُوا عِظَامَ یُوسُفَ، فَلَمَّا أَقَلُّوہَا إِلَی الْـأَرْضِ؛ إِذَا الطَّرِیقُ مِثْلُ ضَوْئِ النَّہَارِ‘ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کے پاس تشریف لائے۔اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت مہمان نوازی کی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا :اسے ہمارے پاس لے کر آئو۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے اس سے فرمایا : اپنی ضرورت کا مطالبہ کرو۔اس نے عرض کیا: ایک اونٹنی چاہئے جس پر ہم سوار ہو سکیں اور کچھ بکریوں کی ضرورت ہے جن کا دودھ میرے گھر والے دوہ لیا کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا تم لوگ اس قدر عاجز ہو گئے ہو کہ تم بنی سرائیل کی بوڑھیوں کی مانند بھی نہیں ہو سکتے؟جب موسیٰ ( علیہ السلام ) بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے روانہ ہوئے، تو وہ لوگ راستہ بھول گئے، موسیٰ( علیہ السلام )نے دریافت کیا:اس کی وجہ کیا ہے؟ان کے علما نے بتایا: یوسف( علیہ السلام )کی وفات کا وقت جب قریب آیا تھا ،تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم سے یہ پختہ عہد لیا تھاکہ جب ہم لوگ مصر سے نکلیں گے، تو اپنے ساتھ ان کی میت کو بھی لے کر جائیں گے۔موسیٰ( علیہ السلام )نے پوچھا : ان کی قبر کی جگہ کس کو معلومہے؟ایک شخص نے بتایا:ایک بوڑھی عورت جس کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ موسیٰ( علیہ السلام )نے اس عورت کو بلوایا،وہ خاتون آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔موسیٰ( علیہ السلام )نے اسے کہا:تم ہمیں یوسف( علیہ السلام ) کی قبر بتاؤ۔ اس نے کہا:جب تک آپ مجھے میرا معاوضہ نہیں دیں گے(میں یہ کام نہیں کروں گی)۔موسیٰ( علیہ السلام )نے دریافت کیا:تمہارا معاوضہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا:میں جنت میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ موسیٰ( علیہ السلام )کو یہ بات اچھی نہ لگی ۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ( علیہ السلام )کی طرف وحی فرمائی کہ وہ جو مانگ رہی ہے ، اسے دے دو۔پھر وہ عورت ان لوگوں کو لے کر ایک چشمے پر آئی۔ عورت نے کہا:اس پانی کو خشک کرواور یوسف علیہ السلام کا جسم نکالو۔جب وہ یوسف ( علیہ السلام )کے جسم کو اٹھا کر مصر کی طرف آئے،تو راستہ یوں دن کی روشنی کی طرح واضح تھا۔‘‘
(مسند أبي یعلی : 7254، تفسیر ابن أبي حاتم [تفسیر ابن کثیر : 183/5، 184، الشعراء : 52]، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (723)نے ’’صحیح‘‘اور امام حاکم رحمہ اللہ (404/2،405)نے ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ (252/2)نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ بھی کہا ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
رِجَالُ أَبِي یَعْلٰی رِجَالُ الصَّحِیحِ ۔
’’مسند ابو یعلیٰ کے رواۃ ،صحیح بخاری کے راوی ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : 170/10)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے جسمِ مبارک کو مٹی نے نقصان پہنچایا تھا اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔اس حدیث میں عظامِ یوسف سے مراد سیدنا یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں نہیں،بلکہ جسمِ مبارک ہے۔ مجازاً بدن کو عظام کہہ دیا گیا ہے۔ایسا عربی زبان میں عموماً ہو جاتا ہے،جیسا کہ :
n سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَدَّنَ؛ قَالَ لَہٗ تَمِیمٌ الدَّارِيُّ : أَلَا أَتَّخِذُ لَکَ مِنْبَرًا ــــیَا رَسُولَ اللّٰہِــــ یَجْمَعُ، أَوْ یَحْمِلُ، عِظَامَکَ؟ قَالَ : ’بَلٰی‘، فَاتَّخَذَ لَہٗ مِنْبَرًا مِرْقَاتَیْنِ ۔
’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد ِاطہر بھاری ہو گیا،تو سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول !کیا میں آپ کے لئے ایک منبر نہ تیار کروا دوں،جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہڈیاں(یعنی جسم مبارک)رکھ سکیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو سیڑھیوں والا منبر تیار کروا دیا۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 1081، السنن الکبرٰی للبیہقي : 195/3، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے لئے مجازاً عظام کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اسی لیے محدث البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَعَلِمْتُ مِنْہُ أَنَّہُمْ کَانُوا یُطْلِقُونَ الْعِظَامَ وَیُرِیدُونَ الْبَدَنَ کُلَّہٗ، مِنْ بَابِ إِطْلَاقِ الْجُزْئِ وَإِرَادَۃِ الْکُلِّ، کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ}(الإسراء 17 : 78)، أَيْ صَلاَۃَ الْفَجْرِ، فَزَالَ الْإِشْکَالُ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ۔
’’مجھے اس حدیث سے یہ معلوم ہواہے کہ عرب لوگ لفظ ِعظام بول کر پورا جسم مراد لیتے ہیں۔یہ جز سے کل کو مراد لینے کے قبیل سے ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ}(الإسراء 17 : 78)یہاں فجر کے قرآن سے مراد نماز ِفجر ہے۔الحمدللہ اشکال زائل ہو گیاہے۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 313)
الحاصل :
اہل سنت والجماعت کا یہ اتفاقی عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد ہر ایک کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔یہ زندگی انبیاء کرام اور شہداء عظام کے ساتھ خاص نہیں،البتہ انبیا و شہدا کی زندگی پاکیزہ، طیب اور اعلیٰ ضرور ہے۔مومنوں کو قبر میں نعمتیںعطا ہوتی ہیں، جبکہ کافر اور فاسق عذاب ِقبر سے دوچار ہوتے ہیں۔
بعض لوگ حیات ِبرزخیہ کا انکار کرتے ہیں ،جبکہ بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات کو دنیوی،یعنی مادی اور بدنی زندگی کی مثل قرار دیتے ہیں۔یہ دونوں نظریات افراط و تفریط کی پیداوار ہیں۔یہ نظریات قرآن و حدیث سے بالکل ثابت نہیں۔سلف صالحین میں سے کوئی ان نظریات کا حامل نہیں رہا۔چنانچہ حیات و ممات کی بنیاد پر تفرقہ بازی نامناسب فعل اور اہل سنت کے مسلَّم عقیدہ کی مخالفت ہے۔یہ اخروی زندگی کا معاملہ ہے جو اسلامی عقائد سے متعلق ہے۔ایسے معاملات صرف اور صرف قرآن و حدیث اور اجماع امت پر موقوف ہیں،ان میں قیاس آرائی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
قرآن و سنت سے ماخوذ اعتدال پسندانہ نظریہ و عقیدہ یہ ہے کہ ہر شخص کو برزخی زندگی ملتی ہے۔اس میں کسی کوئی کی تخصیص نہیں،البتہ یہ زندگی سراسر اخروی ہوتی ہے۔انبیا و شہدا کی برزخی زندگی کو دنیوی یا مثلِ دنیوی قرار دینا قرآن و سنت کی مخالفت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عقائد کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.